• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکم وتشریع کے معاملے میں کافر بنانے والی بنیادیں کون سی ہیں اس بارے میں قرآن سے اور علماء کی آراء

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
حکم وتشریع کے معاملے میں کافر بنانے والی بنیادیں کون سی ہیں اس بارے میں قرآن سے اور علماء کی آراء سے دلائل ؟


دین کی بنیاد واساس اللہ ورسول ﷺکے حکم پر رضامندی ہے جس کا مظاہرہ اسلام کے تمام احکام پر عمل کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ جو شخص اللہ ورسول کے پاس فیصلہ نہیں لیجاتا یا ان کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا یعنی کسی اور کا حکم یا فیصلہ مانتا ہے تو اللہ کی مخصوص ترین صفات ربوبیت والوہیت اور اس کے اسماء وصفات میں اللہ کی مخالفت بلکہ مقابلہ کرتا ہے ۔ اللہ کو رب ماننے ،محمد ﷺکو رسول ماننے اور اسلام کو دین ماننے کا تقاضا ہے کہ اس کے نزدیک اول وآخر مرجع صرف اللہ کا دین ہو اگر کوئی شخص اس بات کا التزام نہیں کرتا تو وہ مسلمان نہیں ہے۔اس لیے کہ اسلام کا معنی ہے اللہ کے احکام کو تسلیم کرنا اس کے حکم اور فیصلے پر راضی ہونا جو شخص اللہ کے حکم اور دین کو تسلیم نہیں کرتا وہ مشرک منکر ہے ۔ ہر وہ جماعت ،گروہ اور تنظیم ، جس کا مرجع اول وآخر صرف کتاب اللہ وسنت رسول اللہ نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ اللہ کا منکر رسول اوردین کا منکرکافر ہے ۔باوجودیکہ یہ سب کچھ کتاب اللہ میں مذکور ہےاس دور میں ایسے گمراہ اور درباری مولوی وعلماء دیکھے ہیں جو اس بات پر ہم سے جھگڑتے ہیں بلکہ حکم بغیر ماانزل اللہ کے بارے طواغیت کے لیے عذر تلاش کرتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ بعض شرعی دلائل کی گردنیں مروڑ کر ان میں غلط تاویلات کرکے انہیں غلط مقامات پر استعمال کرکے ان طواغیت کے عمل کے لیے جواز فراہم کریں ۔ان میں سے علماء کہلانے والے اور طواغیت کی دوستی سے عہدے حاصل کرنے والوں کی بڑی تعداد ہے جو وزارت اوقاف ،ادارہ فتوی والارشاد میں عہدوں پر براجمان ہیں اور طواغیت کے احکام کو شرعی رنگ دیتے ہیں ان میں سے بعض لوگوں کو وہی غلط فہمی ہوئی ہے اس شبہے میں گرفتار ہوئے ہیں جو جہمیہ کو شبہ ہے کہ صرف وہ آدمی کافر ہے جو کفریہ فعل وقول کے ساتھ ساتھ دل سے بھی کفر کرے ۔یہ لوگ کفر صرف دل کے کفر کو کہتے ہیں ۔کبھی ان لوگوں کو مرجئہ کاشبہ بھی ہوجاتا ہے جو ایمان کو صرف شہادتین کے اقرار کوکہتے ہیں اس کے نواقض کی نفی کا اعتبار نہیں کرتے ۔ یہ دونوں فرقے جو مرجئہ کی رائے رکھتے ہیں وہ بھی اورجو جہمیہ کی رائے رکھتے ہیں دونوں باطل عقیدے پر ہیں دونوں کی رائے غلط ہے ۔اگر معاملہ یہاں تک رہتا پھر بھی کوئی بات نہ تھی اب تو یہ اتنے دور نکل گئے ہیں کہ یہ ان لوگوں کو خوارج قرار دیتے ہیں جو بغیر ماانزل اللہ حکم کرنے والے طواغیت کو کافر کہتے ہیں ۔حالانکہ خوارج تو مسلمانوں کو صرف معصیات پر ہی کافر کہتے ہیں(جبکہ طاغوت کوکافر کہنے والے ایسے نہیں ہیں وہ صرف بغیر ماانزل اللہ فیصلہ کرنے والوں کوکافر کہتے ہیں )یہ ان لوگوں کی جہالت اور ظلم ہے ۔ہم ان شاء اللہ ثابت کردیں گے کہ انہوں نے بغیر ماانزل اللہ فیصلہ کرنے والوں کی تکفیر پرجو اعتراضات کیے ہیں وہ غلط ہیں اور اس تکفیر پر اجماع ثابت کریں گے ۔ہم ادلہ شرعیہ اور اہل علم کی آراء کی روشنی میں یہ ثابت کریں گے کہ جوکچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ صحیح ہے ۔ہم اپنی بات کی تائید میں قرآنی دلائل بھی پیش کریں گے اس کے ساتھ ساتھ مخالفین کے ان شبہات کا بھی ازالہ کریں گے جن کی بنیاد پر وہ ان صریح دلائل سے استدلال کرنے میں غلط فہمی اور شبہات کا شکارہیں ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
مسئلہ حکم وتشریع میں تکفیرکی بنیادوں کا اجمالی ذکر

مسئلہ حکم وتشریع میں تکفیرکی بنیادوں کا اجمالی ذکر


مسئلہ حکم وتشریع کے معاملے میں تکفیر کی بنیادیں متعدد ہیں مثلاً:اللہ ورسول ﷺکے علاوہ کسی اور کی مطلق اطاعت کفر کی بنیاد ہے اس لیے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر اپنی اور اپنے رسول ﷺکی اطاعت فرض کررکھی ہے اور اسے بڑی عبادت قرار دیا ہے ۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔(نساء:۵۹)
ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اوراولی الامر کی ۔

دوسری جگہ فرماتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ۔(انفال:۲۴)
ایمان والو،اللہ ورسول (ﷺ)کی بات قبول کرو جب تمہیں بلائے زندگی دینے کے لیے یا زندگی دینے والے (دین )کی طرف۔

اللہ نے شیطان کی اطاعت کو شیطان کی عبادت قراردیا ہے :
اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ ٰیبَنِیْٓ ٰادَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ، وَّ اَنِ اعْبُدُوْنِی ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ۔(یٰسین:۶۰)
اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ شیطان کی عبادت مت کرو وہ تمہارا کھلادشمن ہے اور میری عبادت کرو یہ سیدھا راستہ ہے ۔

لہٰذاجو شخص ،گروہ ،یا جماعت مطلق اطاعت کا حق اللہ کے دین کی طرف رجوع کی قید کے بغیر کسی اور کو دیتا ہے تو وہ اس غیر کو رب ومعبود بناتا ہے اور اس کے لیے وہ بہت بڑی اطاعت بجالاتا ہے جو صرف اللہ کے لیے ہے ۔فرمان باری تعالیٰ ہے :
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوْآ اِٰلہًا وَّاحِدًا لآ اِٰلہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۔(توبہ:۳۱)
انہوں نے اپنے علماء ،درویشوں کو اور عیسیٰ ابن مریم کو اللہ کے علاوہ معبود بنالیاہے حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ صرف ایک معبود کی عبادت کریں اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ پاک ہے ان کے شرک سے۔

اسی طرح اللہ ورسول ﷺکے حکم پر راضی نہ ہونے اسے پسند نہ کرنا بھی کفر کا سبب وبنیاد ہے ۔یہ رضامندی درحقیقت دل میں ہوتی ہے اور اس کا اظہار انسان کے اعضاء سے ہوتا ہے ۔جو شخص دل سے اللہ ورسول ﷺکے احکام کو پسند نہیں کرتا یا زبان سے ناپسندیدگی کا اظہار کرلیتا ہے یا اللہ کے حکم کی طرف بلایا جائے اور وہ منہ موڑ لے یا اللہ کے ثابت شدہ حکم بے وقوفی پر مبنی قرار دے تو یہ کافر ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔(نساء:۶۵)
یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے متنازعہ امور میں آپ (ﷺ)کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں اور پھر آپ (ﷺ)کے فیصلے سے اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں اور اسے مکمل طور پر تسلیم کرلیں۔

اللہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں رہنے والے منافقین کا مسلک وطریقہ یہ ہے کہ جب انہیں اللہ ورسولﷺکی طرف بلایا جاتا ہے تووہ منہ موڑ لیتے ہیں اور اللہ کے حکم سے روکتے ہیں :
وَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ مُّعْرِضُوْنَ، وَ اِنْ یَّکُنْ لَّہُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْآ اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ، اَفِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْآ اَمْ یَخَافُوْنَ اَنْ یَّّحِیْفَ اﷲُ عَلَیْہِمْ وَ رَسُوْلُہٗ بَلْ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔(نور:۴۸)
جب انہیں اللہ و رسول (ﷺ)کے فیصلے کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان میں سے ایک گروہ منہ پھیر لیتا ہے اگر ان کے لیے حق ہو (جو انہیں ملتا ہو)تو یہ مطیع ہو کر اس کی طرف آتے ہیں کیا ان کے دلوں میں مرض ہے یا انہیں یہ ڈر ہے کہ اللہ ورسول (ﷺ)ان پر ظلم کریں گے (ایسا نہیں ہے)بلکہ یہ خود ظالم ہیں ۔

اللہ ورسول ﷺکے کسی ایک حکم کو ردّ کرنا یا اس کی طرف فیصلہ لیجانا تکفیر کا سبب ہے چاہے کسی بھی حکم میں ہو۔اسی طرح رسول ﷺکی زبانی اللہ نے جو شریعت ہمیں دی ہے اس کا کوئی حکم کسی بھی حالت میں ترک کردینا کفر کا سبب ہے اگرچہ کسی اور حکم پر عمل نہ بھی کیا ہوصرف حکم شرعی کو ترک کرنا ہی کفر وارتداد ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ۔(مائدہ:۴۴)
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ لوگ کافر ہیں ۔

قرآن میں اللہ کے نازل کردہ یا اپنے رسول ﷺکے ذریعہ سے بتائے ہوئے احکام میں سے قلیل ہوں یا کثیر کسی کو ترک کرنا کفر ہے ملت سے خارج کرنے کا سبب ہے اس کو جاہلیت کا حکم کہاگیا ہے :
اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اﷲِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۔(مائدہ:۵۰)
کیا یہ لوگ جاہلیت کا حکم تلاش کرتے ہیں ؟یقین کرنے والی قوم کے لیے اللہ سے بہتر حکم کس کا ہوسکتا ہے ؟

اس معاملے میں یہ فرق بھی نہیں ہے کہ یہ حکم (بغیر ماانزل اللہ)کرنے والا قاضی ہو، حکمران ہو،یا جسے فیصلہ کرنے کے لیے (ثالث یا مفتی)مقرر کیا گیا ہو۔اسی حکم میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ کے حکم کے بدلے میں کسی اور کا حکم اور فیصلہ اپنایا جائے ۔یہ کفر ہے ملت سے خارج کرنے والاہے اس پر دلیل نص میں بھی موجودہے اوراجماع سے بھی ہے۔اسی طرح اللہ کے علاوہ کسی اور کااحکام وقوانین بنانا ملت سے خارج کردینے والا کفر ہے کوئی بھی ،گروہ،جماعت،یا مجلس یا انتظامیہ یا کوئی فرد اگر خودکویا کسی اور کو تشریع کا حق دیتا ہے تو یہ اللہ اور اس کے دین کے ساتھ کفر ہے جیسا کہ فرمان رب العالمین ہے:
اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اﷲُ۔(شوریٰ:۲۱)
کیا ان کے ایسے شریک بھی ہیں جو ان کے لیے شریعت بناتے ہیں دین میں سے (حالانکہ)اس کی اجازت اللہ نے نہیں دی۔

فرمان ہے:
وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلاَدِہِمْ شُرَکَآؤُہُمْ لِیُرْدُوْہُمْ وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْہِمْ دِیْنَہُمْ۔(انعام:۱۳۷)
اور اسی طرح ان کے شرکاء نے ان کے سامنے ان کی اولاد کا قتل مزین کردیا ہے تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈالدیں اور ان پر ان کادین خلط ملط کردیں۔

یہ مختصر وہ اسباب اور بنیادیں تھیں جو مسئلہ حکم وتشریع سے متعلق تھیں اس کی تفصیل مع دلائل ونصوص اور اقوالِ علماء کے آنے والی ہے ان شاء اللہ ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
پہلی بنیاد یا سبب ،اللہ ورسولﷺکے علاوہ کسی اور کی مطلق اطاعت

پہلی بنیاد یا سبب ،اللہ ورسولﷺکے علاوہ کسی اور کی مطلق اطاعت


اللہ نے اپنی اور اپنے رسول ﷺکی اطاعت فرض کردی ہے اور اس کو دین کی بنیاد قرار دیا ہے ۔فرماتا ہے:
قُلْ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اﷲَ لاَیُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ۔(آل عمران:۳۲)
(اے محمدﷺ)کہہ دیجئے اللہ کی اطاعت کرو رسول ﷺکی اطاعت کرو اگر یہ پھر جائیں تو اللہ کافروں کوپسند نہیں کرتا۔

یہ تو واضح ہے کہ اللہ ورسول ﷺکی اطاعت مطلق ہے ان کے علاوہ بقیہ ہر اطاعت اللہ ورسول ﷺکی اطاعت کے ساتھ مقیدہے ۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلاً۔(نساء:۵۹)
ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺکی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اگر تم کسی مسئلہ میں اختلاف کربیٹھوتو اسے اللہ ورسول (e)کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ ویوم آخرت پر ایمان رکھتے ہویہ بہتر ہے اوراس کا انجام بھی بہت اچھا ہے۔

اللہ نے اپنی اور رسول کی اطاعت کومطلق قراردیاہے جبکہ اولی الامر کی اطاعت کو اللہ ورسول کی اطاعت کے ساتھ مقید کیا ہے قرآن کی آیات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس نے اللہ ورسول ﷺکے علاوہ کسی اور کو مطلق اطاعت کاحق دیا تو ا س نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو تحریم وتحلیل اور تشریع میں شریک بنالیا اس بات کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں ۔
1: اللہ کافرمان ہے:
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلَّا اﷲَ وَ لاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔(آل عمران:۴۶)
اے محمد(ﷺ)کہدو کہ اے اہل کتاب آؤ اس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابربرابر ہے کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں گے ۔نہ ہی اللہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب بنائیں گے ۔اگر یہ پھرجائیں تو ان سے کہدوکہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں ۔

یہ آیت تمام اہل کتاب کو اس بات کی دعوت دے رہی ہے کہ وہ مومنوں کے ساتھ ایک کلمہ پر متفق ہوجائیں اور وہ کلمہ ہے توحید اور اللہ کاوہ دینِ حق جس کے علاوہ کوئی اور دین اللہ قبول نہیں کرتا اس دین کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ اللہ کو اطاعت اورفرمانبرداری میں ایک مان لیا جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔آیت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس نے تحلیل ، تحریم اور تشریع میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کرلی تو اس نے اس کو رب ومعبود بنالیا اسے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرالیا ۔مسئلہ حکم وتشریع میں سے یہ ایک بنیاد وسبب ہے ۔

اس آیت کی تفسیرمیں امام قرطبی رحمہ للہ فرماتے ہیں :
کہ حسن ابن زیداور سدی رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل نجران کو خطاب ہے ۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے علماء کو اطاعت میں رب بنالیا تھا۔
قتادہ وابن جریج رحمہما اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ :
یہ مدینہ کے یہود کو خطاب ہے۔اس لیے کہ انہوں نے اپنے علماء کو اطاعت میں رب بنالیا تھا۔ وَّ لاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِکامطلب ہے کہ ہم تحلیل وتحریم میں کسی کی اطاعت نہیں کریں گے۔سوائے اللہ کے ۔یہ آیت بھی گویا وہی بات کررہی ہے جو کہ آیت اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُم میں کہی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے علماء کو تحریم وتحلیل میں رب کے برابرقراردیدیاہے۔فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَکے بارے میں قرطبی aفرماتے ہیں :اس کامعنی ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ کے احکامات کے پابند وفرمانبردار ہیں اور اللہ نے ہم پر جو احسان کیے ہیں ہم ان کا اعتراف کرتے ہیں ۔ہم اللہ کے علاوہ کسی کو رب نہیں بناتے نہ عیسیٰ uکو نہ عزیرuنہ کسی فرشتے نہ کسی انسان کو جو ہماری طرح مخلوق ہے نہ ہم علماء ورہبان کے ایسے حرام کردہ کو حرام نہیں مانتے جسے اللہ نے حرام قرارنہ دیا ہو۔اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ان کو رب بنانا ہے(تفسیر قرطبی:۴/۱۱۴)۔
امام قرطبی رحمہ اللہ کے کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ تحلیل وتحریم میں اللہ کے علاوہ کسی اور اطاعت کو اس غیر اللہ کی عبادت سمجھتے ہیں اور جس نے بھی اس معاملے میں اللہ کے علاوہ کسی کی اطاعت کرلی تو اس نے گویا اس کو رب تعالیٰ کے مقام پر فائز کردیا اور اس کو وہ حق دے دیا جو اللہ کے علاوہ کسی اور کو دینا جائز نہیں تھا یہ بھی حکم وتشریع میں کفر کے اسباب وبنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے ۔

یہی وہ مسئلہ ہے جو ابن کثیر نے اہل التفسیر سے نقل کیا ہے فرماتے ہیں :قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ۔میں جس کلمہ کا ذکر ہے اس سے مراد جملہ مفیدہ ہے جس کی صفت بیان کی گئی ہے سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ۔یعنی ہم اور تم اس مسئلہ میں برابرہیں پھر اس کی تفسیر اس طرح کی ہے اَلاَّ نَعْبُدَ اِلَّا اﷲَ وَ لاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا۔کہ کسی بھی چیز کو شریک نہیں کریں گے نہ بت کو نہ صلیب کو نہ طاغوت کو نہ آگ کو نہ کسی اور چیز کو بلکہ اللہ کو عبادت میں ایک اور اکیلا مانیںگے تمام انبیاء کی یہی دعوت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِٰلہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۔(انبیاء:۲۵)
ہم نے آپ سے قبل جو بھی رسول بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے صرف میری عبادت کرو۔

دوسری جگہ فرمان ہے:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔(النحل:۳۶)
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔

فرمان ہے:
وَّ لاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ۔
ہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کو اللہ کے علاوہ رب نہیں بنائے گا۔

ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اس کا معنی یہ ہے کہ ہم اللہ کی نافرمانی میں ایک دوسرے کی اطاعت نہیں کریں گے ۔
عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اس کامعنی ہے کہ ایک دوسرے کوسجدہ نہیں کریں گے ۔فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ۔اگر یہ اس کو تسلیم کرنے سے پھرجائیں اس دعوت کو قبول نہ کریں تو تم اسلام پر برقرار رہنے پر گواہ رہوجو اسلام اللہ نے تمہارے لیے مشروع قرار دیا ہے(تفسیر ابن کثیر:۵۵۵)۔
جو شخص اللہ کے علاوہ اپنے لیے حق تشریع کو جائز سمجھتا ہے اس کے بارے میں سید قطب شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کسی بشر میں الوہیت کی خصوصیات ماننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندوں کو اپنا غلام بنائے اور ان کی زندگی میں ان کے لیے قوانین بنائے (خیر وشرکے)پیمانے اورمعیارات وضع کرے جس نے ان خصوصیات میں سے کسی ایک کابھی دعویٰ کیا تو اس نے اپنے لیے الوہیت کی خصوصیات کا دعویٰ کرلیا اور خود کولوگوں کا معبود بنالیا۔لوگ جو ایک دوسرے کو (اللہ کو چھوڑکر)رب بناتے ہیں تو یہ چیز اعلیٰ جمہوریتوں میں ہوتا ہے جبکہ ڈکٹیٹر شپ میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ربوبیت کی پہلی خصوصیت ہے لوگوں کو غلام بنانے کا حق ۔نظام ۔منہج۔شرائع اور قوانین مقرر کرنے کا حق۔یہ حق دنیا کے تمام نظاموں میں ہے چاہے لوگ ان کے بارے میں کچھ بھی کہیں کسی بھی صورت میں کوئی نظام ہواس کے (قانون سازی کے)اختیارات لوگوں کے ایک گروہ کے پاس ہی ہوتے ہیں چاہے طریقہ کوئی بھی ہو۔بقیہ لوگ اسی گروہ کے تابع ہوتے ہیں ان قوانین کے پابند ہوتے ہیں یہی ہے زمینی خدائی یہی ہے اللہ کو چھوڑ کر لوگوں کو لوگوں کارب بنانا(فی ظلال القرآن سید قطب شہیدرحمہ اللہ :۱/۴۰۶)۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
پہلی بنیاد یا سبب ،اللہ ورسولﷺکے علاوہ کسی اور کی مطلق اطاعت

اہل علم کے اقوال اور تفسیروں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اطاعت مطلقہ صرف اللہ کے لیے خاص ہے اور اس کے رسول ﷺکے لیے اس لیے کہ وہ اللہ کی شریعت پہنچانے والے ہیں ۔یہ اطاعت دراصل اللہ کی ربوبیت کا اقرار ہے ۔جس نے تحریم وتحلیل میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کرلی اس نے اس غیر اللہ کو رب ومعبود بنالیایہ غیرچاہے ایک فرد و ،گروہ ہو،جماعت ہو،یا کمیٹی ہویا اسمبلی یا حکمران ہو۔اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے طواغیت جو لوگوں کے لیے شرکیہ قوانین بنارہے ہیں اور احکام شرعیہ کی طرح ان قوانین کو واجب الاتباع قرار دے رہے ہیں یہ کام کفر شرک ہے ان کی اطاعت جائز نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان قوانین کا انکار کردے اس لیے کہ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر خود رب بنے ہوئے ہیں ۔یہی وہ بنیاد ہے جس کے بغیر توحید صحیح نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لاَ انْفِصَامَ لَہَا وَ اﷲُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔(البقرہ:۲۵۶)
جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پرایمان لائے تو اس نے مضبوط کڑاتھام لیا جو ٹوٹتا نہیں ہے اور اللہ سننے والا جاننے والاہے۔

مضبوط کڑا سے مراد لاالٰہ الااللہ محمد الرسول اللہ ہے۔جو شخص طاغوتی قوانین طواغیت مشرعین کا انکار نہیں کرتا تو وہ قرآن کی اس آیت کی رو سے مؤمن نہیں ہے ۔اسی لیے نبی ﷺنے بتایاہے کہ انسان اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا اس کامال اور اس کی جان محرم نہیں جب تک ایک اللہ پر ایمان نہ لے آئے اور اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی جاتی ہے ان طواغیت کا انکار نہ کردے ۔

من قال لاالٰہ الااﷲ وکفر بما یعبد من دون اﷲ حرم مالہ ودمہ وحسابہ علی اﷲ۔ (مسلم)
جس نے لاالٰہ الااللہ کہدیا اور اللہ کے علاوہ معبودوں کا انکار کردیا تو اس کی جان ومال محفوظ ہے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔

اس حدیث کی تشریح میں محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یہ حدیث لاالٰہ الااللہ کا معنی اچھی طرح واضح کرتی ہے اس لیے کہ اس نے صرف لاالٰہ الااللہ کے تلفظ کو جان ومال کے تحفظ کا ضامن نہیں بنایا بلکہ تلفظ اور معنی دونوں کو بھی نہیں بنایا نہ اقرار کو نہ ہی اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ شریک نہیں بنائے گا بلکہ اس بات کو ضامن بنایا کہ اللہ کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے انکار کرے اگر اس میں شک یا تردد کیا تو جان ومال محفوظ نہیں ہے اس حدیث نے کتنی اہم وضاحت کردی اور کتنا بڑا مسئلہ بتادیا ہے اور کتنی بڑی حجت اور دلیل ہے یہ حدیث (فتح المجید شرح کتاب التوحید:۸۴)۔

2 دوسری دلیل ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوْآ اِٰلہًا وَّاحِدًا لآ اِٰلہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۔(توبہ:۳۱)
انہوں اپنے علماء ودرویشوں کو اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے علاوہ رب بنالیا ہے حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ یہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں وہ اکیلامعبود ہے ان کے شرک سے پاک ہے۔

یہ آیت بہت ہی وضاحت کے ساتھ بتارہی ہے کہ ہم سے پہلے جو اہل کتاب تھے ان کا کفر یہ تھا کہ انہوں نے تحلیل وتحریم میں اپنے علماء ودرویشوں کی اطاعت کی تھی اور اللہ کا حکم چھوڑ دیا تھا ۔یہ حکم اب بھی ہر اس شخص پر لاگو ہوگا جو اللہ کے علاوہ کسی اور اطاعت مطلقہ کا حق دیتاہے یہی وہ عمل ہے جو طواغیت اپنے شرکیہ پارلیمنٹ میں کرتے ہیں کہ وہ انسان کو تشریع کا حق دیتے ہیں اور لوگوں کو ان قوانین کی پیروی کا پابند بناتے ہیں اس قانون کی نافرمانی کو حرام قرار دیتے ہیں بلکہ مخالفت کرنے والوں کا پیچھا کرتے انہیں سزائیں دیتے ہیں ۔اگر ہم سے قبل کے اہل کتاب اس بات پر کافر قرار پاتے ہیں کہ انہوں نے تحلیل وتحریم میں اپنے علماء کی اطاعت کی تھی تو اب مفسدین ،ملحدین اورلادین لوگ جو قرآن وسنت سے واقفیت نہیں رکھتے نہ عالم ہیں نہ عابد انہیں تشریع کا حق دینے اور ان کے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی سے آدمی کافر کیوں قرار نہیں پائے گا؟ضرور کافر ہوگا ملت سے خارج ہوگا۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام احمد،ترمذی اور ابن جریر رحمہم اللہ عدی بن حاتم کے توسط سے روایت کرتے ہیں کہ جب انہیں جناب محمدرسول اللہ ﷺکی دعوت پہنچی تو یہ شام کی طرف فرار ہوگئے یہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے ۔پھر اس کی بہن اور اس کی قوم کا ایک گروہ گرفتار ہوگیا پھر نبی ﷺنے احسان کرکے اس کی بہن کو رہا کردیا وہ اپنے بھائی کے پاس چلی آئی اور اسے اسلام کی ترغیب دی نبی ﷺکے پاس جانے پر آمادہ کیا تو یہ عدی جو اپنے قبیلے طیٔ کے رئیس تھے اوران کا باپ حاتم طائی مشہور سخی گزراتھا۔یہ نبی ﷺکے پاس آئے لوگوں نے ان کے آنے کے بارے میں باتیں کیں ۔ یہ رسول ﷺکے پاس آئے ان کے گلے میں چاندی سے بنی صلیب تھی ۔نبی ﷺاس وقت یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے : اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ…عدی نے کہا کہ وہ لوگ اپنے علماء کی عبادت تونہیں کرتے تھے ؟آپﷺ نے فرمایا کہ وہ علماء جب کچھ حلال یا حرام کردیتے تھے تو یہ اہل کتاب ان کی پیروی کرتے تھے اور یہی عبادت تھی ان کی (ترمذی:حسن)۔
ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس آیت کی تفسیر میں حذیفہ بن الیمان اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے بھی یہی کہاہے کہ اہل کتاب نے تحلیل وتحریم میں علماء کی اطاعت کی تھی۔
سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
انہوں نے آدمیوں کو نصیحت کاذریعہ بنالیا تھا اور کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا تھا اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ انہیں صرف میری عبادت کا حکم دیا گیا تھا یعنی اللہ جس کو حرام قرار دے وہ شییٔ حرام ہے اور جسے حلال قرار دے وہ حلال ہے اور قانون اللہ بنائے وہ قابل اتباع ہے ۔اور جو حکم دے وہی نافذ العمل ہوگا۔لاالٰہ الاھو…وہ اللہ مددگاروں شریکوں، اولاد،واضداد سے پاک ہے اس کے علاوہ کوئی رب کوئی الٰہ نہیں ہے(ابن کثیر:۲/۵۴۴-۵۴۵)۔
بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اگر کوئی کہے کہ انہوں نے تو احبار ورھبان کے لیے رکوع وسجدہ نہیں کیا تھا؟توہم کہیں گے کہ انہوں نے اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت کی تھی ان کے حرام کردہ کو حرام حلال کردہ کو حلال مانا تھا یہی رب بنانا ہے (تفسیر بغوی:۳/۲۸۵)۔
اس آیت کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عدی رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
اسی طرح ابوالبختری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ انہوں نے احبار ورھبان کے سامنے نماز نہیں پڑھی اگر وہ انہیں حکم کرتے کہ اللہ کو چھوڑ کر ہماری عبادت کرو تو وہ کبھی ان کی بات نہیں مانتے لیکن انہوں نے کچھ چیزیں حرام اور کچھ حلال قرار دیں اور لوگوں نے انہیں تسلیم کرلیا یہ ان کو رب بناناتھا ۔
ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں:
میں نے ابوالعالیہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ بنی اسرائیل میں یہ ربوبیت کیسی تھی ؟اس نے کہا کہ انہیں اللہ کی کتاب میں امرونہی دیئے گئے مگر انہوں نے کہا کہ ہم اپنے احبار ورھبان کو نہ چھوڑیں گے وہ جو حکم دیں گے ہم اسے مانیں گے اور جس سے منع کریں گے اس سے رک جائیں گے انہوں نے آدمیوں کو نصیحت کا ذریعہ بنالیا اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا ۔نبی ﷺنے یہ وضاحت کردی ہے کہ اہل کتاب کا احبار ورھبان کو رب بنانا یہ تھا کہ ان کے حرام کردہ کو حرام اور ان کے حلال کردہ کو حلال سمجھتے تھے ان کے لیے سجدہ یا ان کے لیے وہ نماز نہیں پڑھتے تھے نہ ہی ان کے لیے روزہ رکھتے تھے نہ ہی ان کو پکارتے تھے یہ لوگوں کی عبادت ہے اور وہ مال کی پرستش ہے جس کی وضاحت نبیﷺنے کردی ہے اور اللہ نے بھی اسے شرک قرار دیا ہے اسی لیے فرمایا :سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۔(مجموع الفتاوی:۷/۶۷)۔
یہ تمام اقوال جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ ،حذیفہ ،ابن عباس رضی اللہ عنہماوغیرہ کے گزرچکے ہیں ان کی وجہ سے اس بات میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ بنی اسرائیل کا شرک یہ نہیں تھا کہ انہوں نے غیراللہ کو سجدہ کیا تھا بلکہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو چھوڑ کر علماء کے اقوال کو اپنالیا تھا انسانوں کی باتوں کی اتباع کرلی تھی اللہ کی شریعت کی مخالفت میں ۔غیر اللہ کو رب بنانا صرف یہ نہیں کہ اس کے آگے سجدہ کیا جائے ان کے لیے روزہ رکھا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ ان کی تشریع وحکم قبول کیا جائے ۔غور سے دیکھیں تو پہلے والے لوگوں کا شرک موجودہ دور کے شرک سے کم اورمعمولی درجے کا تھا اس لیے کہ پہلے والوں نے توعلماء اور عبادت گزار لوگوںکی اتباع کی تھی جبکہ موجودہ دور کے لوگ توزیادہ گمراہ اس لیے ہیں کہ یہ ان فاسقوں ،جاہلوں اور کفار کے بنائے ہوئے قوانین کی اتباع کرتے ہیں جو نہ اللہ کوجانتے ہیں نہ دین کے احکام سے واقف ہیں ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ لوگ کس طرح جاہلیت کی گندگی میں ملوث ہوتے جارہے ہیں جبکہ دعویٰ کرتے ہیں تہذیب تمدن وترقی کا ۔

ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جس نے رسول ﷺکے علاوہ کسی اور کے حکم ونہی کو واجب الاطاعت قرار دیدیا اس نے اس غیر اللہ کو اللہ کا شریک بنالیا اس نے وہی کام کیا جو نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے ساتھ کیا تھا یہی وہ شرک ہے جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے :
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَندَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اﷲِ وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ۔(البقرہ:۱۶۵)
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے علاوہ دوست بناتے ہیں ان کے ساتھ ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے کرنی چاہیے اور ایمان والے اللہ سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔(مجموع الفتاویٰ:۱۰/۶۶۷)
شیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ اپنی کتاب فتح المجید میں سورہ توبہ کی مذکورہ آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
اس سے ثابت ہوا کہ جس نے اللہ ورسول ﷺکے علاوہ کسی اور کی اطاعت کی اور کتاب وسنت کو تحلیل وتحریم میں اپنانے سے منہ موڑلیا اور اس غیر اللہ کی اطاعت اللہ کی معصیت میں کرلی اور اس معاملہ میں اس اتباع کی جس کی اجازت اللہ نے نہیں دی ہے تو اس نے غیر اللہ کو رب اورمعبود بنالیا اسے اللہ کا شریک ٹھہرالیا یہ اس توحید کے منافی ہے جس پر کلمہ لاالٰہ الااللہ دلالت کرتا ہے۔
الٰہ کا معنی ہے معبود اللہ نے اہل کتاب کی اطاعت کو عبادت کہا ہے احبارورھبان کو رب کہاہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَ لاَ یَاْمُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ وَ النَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا۔(آل عمران:۸۰)
(اللہ)تمہیں اس بات کا حکم نہیں کرتا کہ تم فرشتوں اورنبیوں کو رب بنالو۔

اَیَاْمُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔(آل عمران:۸۰)
کیا تمہیں کفر کا حکم دے گا جب کہ تم مسلمان ہو؟

یہ ہے شرک ہر معبود رب ہے ۔جو شخص اللہ ورسول ﷺکی شریعت کے علاوہ کسی اور کی اطاعت یا تابعداری کرتا ہے تو وہ اسے اللہ کا شریک بناتا ہے۔جیسا کہ سورہ انعام میں ارشاد ہے :
وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ۔(انعام:۱۲۱)
اگرتم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہو۔
یہ آیت ہمارے بیان کروہ مسئلہ سے مطابقت رکھتی ہے اس آیت کا معنی ایک اور آیت کے معنی سے بھی مشابہت رکھتا ہے وہ آیت ہے:
اَمْ لَہُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اﷲُ ۔
کیا ان کے ایسے شریک ہیں جو ان کے لیے ایسی شریعت بناتے ہیں جس کی اجازت اللہ نے نہیں دی؟ (فتح المجید:۱۰۰-۱۱۱)
شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ ۔کے بارے میں جب عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ اہل کتاب کے علماء نے ان کے لیے وہ چیزیں حرام کردیں جو اللہ نے حلال کی تھیں اور ان لوگوں نے علماء کی بات مان لی یہ ہے رب بنانے کا معنی ۔یہ آیات وضاحت کے ساتھ یہ بتارہی ہیں کہ جس نے شیطان کی شریعت کی ایسی پیروی کی جس سے رسول ﷺکی شریعت پر اثر پڑا تو ایسا شخص کافر ہے شیطان کی عبادت کرنے والاہے اسے رب بنانے والا ہے اگرچہ شیطان کی اس اتباع کو یہ کوئی بھی نام دے اس لیے کہ الفاظ کے بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی (اضواء البیان فی تاویل بالقرآن للشنقیطی:۱/۴۷۶)۔
سید قطب شہیدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قرآن کی واضح آیات ،رسولﷺکے فرامین اورمتقدمین ومتاخرین مفسرین کی تفسیروں سے عقیدہ اور دین سے متعلق ایسے حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں جن کا خلاصہ ہم یہاں پیش کررہے ہیں ۔(وہ حقائق یہ ہیں کہ )قرآن وسنت کے نصوص سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عبادت اتباع ہی ہے ورنہ یہود ونصاریٰ نے احبار ورھبان کو جو رب بنالیا تھا وہ یہ نہیں تھا کہ انہوں نے ان کی عبادت کی تھی یا ان کی الوہیت کا اقرار کیا تھا اس کے باوجود اللہ نے ان کو مشرک قرار دیا ۔اور دوسری آیت میں کافر کہا صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے احبار ورھبان کے بنائے ہوئے قوانین وشرائع کی اطاعت کی تھی اگرچہ اعتقاد بھی نہ ہو اور شعائر بھی نہ بجالائے جائیں صرف قوانین میں اطاعت ہی کسی کو زمرۂ مومنین سے نکال کر مشرکین کے گروہ میں شامل کرنے کے لیے کافی ہے۔قرآن کی آیت نے احبار ورھبان کے قوانین کو ماننے والے یہود اور عیسیٰ uکو الٰہ بنانے والے نصاری کوشرک میں برابر قراردیا ہے حالانکہ عیسائیوں نے تو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں الٰہ ہونے کا عقیدہ بھی رکھا اور شعائر بھی بجالائے مگر یہ دونوں عمل ہی انسان کو مومنین کے گروہ سے نکال کر کفار کے گروہ میں شامل کرنے کا سبب ہیں ۔ثابت یہ ہوا کہ شرک یہی ہے کہ حق تشریع بندوں کو دیدیا جائے اگرچہ اس کے ساتھ الوہیت کا عقیدہ نہ بھی ہو(الظلال لسید قطب شھیدرحمہ اللہ :۳/۱۶۴۲)۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
تشریع عام کے مسئلےمیں؎ کچھ علماء کی اجتہادی خطا کو بنیاد بنا کر آج کے جدید خوارج جو اپنا نظریہ تراشتے ہیں اور فہم سلف صالحین کو نظر انداز کر دیتے ہیں انکے لئے ایک فکر آمیز دستاویز







مسئلہ تحکیم میں تشریع عام پر پیش کا کردہ دلائل کا علمی جائزہ:

پہلا گروہ

پہلے گروہ کا دعوی ہے کہ
تشریع عام کفر اکبر ہے
۔
اس قول کی طرف شیخ محمد ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ اور شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ گئےہیں۔اور انہی علماء کی اس اجتہادی خطا کو بنیاد بنا کر آج کے تکفیری و خارجی لوگ فم سلف سے انکار کر دیتے ہیں اور اس خطا پر اپنے منہج کی کمزور عمارت کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔آئیے ہم اب ان علماء کے اس موقف کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ انکی یہ رائے کیسے مبنی بر خطا ہے
دلیل نمبر ۱
قرآن و سنت میں ایسے حکمران کے کافر (کفر اکبر) ہونے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے اور ان علماء نے بھی صرف تعلیل بیان کی ہے دلیل نہیں ۔ اسے لئے جب شیخ صالح الفوزان نے کتاب التوحید میں شیخ محمد بن ابراہیم کا قول نقل کیا اس کے ساتھ دلیل بیان نہیں کی ۔ نہ شیخ محمد ابراہیم ؒنے اور نہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے دلیل بیان کی ۔
(اور جن عام آیات سےآپ نے استدلال کیا ہے ان کا جواب اس کے بعد ملاحظہ فرمائیں)
شیخ محمد ابراہیم اورشیخ صالح الفوزان کی تعلیل یہ ہے کہ ایسا حکمران جو پوری شریعت کے قوانین کو چھوڑ کر اپنے یا کسی اور کے قوانین کو نافذ کرتا ہے اور اپنے ما تحت سب پرلاگو کر دیتا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اس نے ان قوانین کو اللہ تعالی کے فیصلے سے افضل اور بہتر سمجھا ہے یا اس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ قوانین اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے اچھے ہیں ۔
جواب
ان جلیل القدر واجب الاحترام فاضل علماء کی یہ تعلیل درست نہیں ہے مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔تکفیر کے اہم ضوابط میں سے ایک ضابطہ یہ ہے کہ کافر صرف وہ ہے جس کے کفر پر کوئی دلیل موجود ہو قرآن سے یا سنت سے یا اجماع سے ۔ اور اس مسئلے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
۲۔ لازم سے کسی کے کافر ہونے کا استدلال کرنا بھی درست نہیں کیونکہ لازم کا بھی بعض اوقات ثبوت نہیں ہوتا ،یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حکمران ایسا کرنے کے باوجود بھی ان قوانین کو شریعت کے قوانین سے افضل نہ سمجھتا ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
‘‘یہ لازم نہیں ہے کہ اگر کوئی کہنے والا کچھ ایسا کہے جس سے اللہ تعالی کے اسماء و صفات کی تعطیل مقصود ہو، کہ اس کے عقیدہ میں تعطیل ہے، بلکہ ایسا شخص اسماء وصفات کو ثابت کرنے کاعقیدہ رکھتا ہے لیکن اسے اس لازم کا علم ہی نہیں۔’’
(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر16 صفحہ نمبر461)
۳۔ اس لازم کے مسئلہ میں شک ہے کہ اس کا ایسا عقیدہ ہے کہ نہیں ؟ اور جب شک ہوتا ہے تو شک کی بنیاد پر دلیل قائم نہیں ہوسکتی اور شریعت کی حدیں بھی ساقط ہو جاتی ہیں اوریہ تو تکفیر کا مسئلہ ہے جو حدود و تعزیرات سے زیادہ سنگین ہے۔اور اس مشہور قاعدہ کے بھی خلاف ہے ۔ کہ جب احتمال وارد ہوتا ہے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے۔
۴۔یہ لازم مشہور شرعی قاعدہ کے خلاف ہے
’’جس کا اسلام یقین سے ثابت ہو جائے اسےمحض شک کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جا سکتا‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر12صفحہ نمبر466)
۵۔ عقیدہ کا تعلق دل سے ہوتا ہے یعنی کسی شخص کا یہ عقیدہ ہے کہ اس نے فلاں چیز کو فلاں سے بہتر سمجھا ہے تو اسکا دل سے تعلق ہے اور دل کے احوال تو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے جب تک کہ وہ شخص اپنی زبان سے اقرار نہیں کرتا کہ اس نے غیر اللہ کے فیصلہ کو اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے افضل سمجھا ہے اس پر کفر اکبر کا فتوی لگانا درست نہیں۔ اور اس مسئلہ کی دلیل حضرت اسامہ بن زید(رضی اللہ عنہ) کا مشہور قصہ صحیح بخاری اور مسلم میں ضروری ہے ۔جب انہوں نے ایک کافر کو کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) پر شدید غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا :
کیا تو نے اس کا سینہ کھول کے دیکھا تھا کہ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا تھا؟۔۔۔۔۔۔
(بخاری،ح6872، 4269،مسلم،273)
۶۔اس لازم کے طریقے سے ایسے حکمران پر کفر اکبر کا فتوی لگانے سے دوسری لازم بات نکلتی ہے جس کے کفراکبر نہ ہونے کا اهل السنة والجماعة کااجماع ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ،جو گھر کا سربراہ ہے اپنے گھر میں شراب خانہ کھول لیتا ہے اور اپنے ماتحت گھر والوں کو یہ کاروبار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور یہ شخص کسی کی نصیحت سننے کے لئے تیار بھی نہیں ہے تو ایسا شخص کافر (کفر اکبر) نہیں ہے بلکہ کافر (کفراصغر) اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔
علامہ ابن عبدالبر(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اہل السنة والجماعة ، (اہل فقہ اوراہل اثر دونوں کا) اتفاق ہے کسی شخص کو اس کا گناہ اسلام سے خارج نہیں کرتا ہے چاہے یہ گناہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو۔‘‘
(التمہید جلد نمبر16صفحہ نمبر315)
(نوٹ: ظاہر ہے کفر اورشرک اکبر کے علاوہ گناہ مقصود ہیں)
۷۔ یہ لازم بات درست نہیں ہے اسی لیے علامہ محمد بن صالح العثیمین (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا۔
ملاحظہ فرمائیں:
ان کا پہلا قول ،وہ فرماتے ہیں :
’’کیونکہ جس نے ایسا قانون نافذ کیا ،جو اسلامی شریعت کے خلاف ہے تو اس شخص نے صرف اس لئے ایسا کیا کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ قانون جو اس نے نافذ کیا ،اسلام سے بہتر ہے اور لوگوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے‘‘
(فتاوی ابن العثیمین جلد نمبر 2صفحہ نمبر143)
ان کا دوسرا قول کہ جس میں انہوں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کیا ،وہ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی حکمران قانون نافذ کرے اور اسے دستور بنا دے جس پر لوگ چلتے رہیں اور اس کایہ عقیدہ ہے کہ وہ اس میں ظالم ہے اور حق تو قرآن وسنت میں ہے تو ہم ایسے شخص کو کافر نہیں کہہ سکتے کافر تو صرف وہ ہے جو غیر اللہ کے فیصلے کو بہتر سمجھے یا اللہ تعالی کے فیصلے کے برابر سمجھے۔‘‘
یہ فتوی( التحذیر فی مسئلہ التکفیر) کیسٹ میں موجود ہے اور اس فتوی کی تاریخ 22/03/1420ھ ہے جیسا کہ اس کیسٹ کےشروع میں بیان کیا گیاہے اورکتابی شکل میں بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔
دلیل نمبر ۲:
بعض علماء نے اس آیت کو بطور دلیل پیش کیا۔ارشاد باری تعالی ہے
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)
(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)
جواب:
یہ بات درست ہے کہ اس آیت کریمہ کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس نے اللہ تعالی کے فیصلے کو چھوڑا ،وہ کافر ہے لیکن یہ ظاہر مندرجہ ذیل وجوہات کی وجہ سے درست نہیں۔
پہلی وجہ:
اہل السنة والجماعة کے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت سے ظاہر مراد نہیں ہے اور اس آیت کے ظاہر سے خوارج اور معتزلہ، کفر اکبر کا استدلال کرتے ہیں۔
مندرجہ ذیل علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ علامہ قرطبی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
‘‘اس آیت کے ظاہر سے وہ لوگ کفر اکبر کی حجت بیان کرتے ہیں جو گناہوں کی وجہ سے کفر اکبر کا فتوی لگاتے ہیں اور وہ خوارج ہیں۔ اور اس آیت میں انکی کوئی حجت نہیں۔’’
(المفہم جلد نمبر5صفحہ نمبر117)
۲۔ حافظ ابن عبدالبر(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
‘‘ اوراس باب میں اہل بدعة کی ایک جماعت گمراہ ہوئی ۔اس باب میں خوارج اور معتزلہ میں سے پس انہوں نے ان آثار سے حجت بیان کی کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کافر ہیں اور اللہ تعالی کی کتاب میں سے ایسی آیات کو حجت بنایا جن سے ظاہر مراد نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)‘‘
(التمہیدجلد نمبر16صفحہ نمبر312)
۳۔ امام آجری(رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
’’اورحروری (خوارج) جن متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں ان میں سے یہ آیت بھی ہے‘‘
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ(
)سورۃ مائدہ آیت نمبر44)
اور اس آیت کے ساتھ یہ آیت بھی بیان کرتے ہیں
(ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ(
)سورۃ انعام آیت نمبر1)
’’پس جب وہ کسی حکمران کو دیکھتے ہیں کہ وہ بغیر حق کے فیصلہ کرتا ہے ،کہتے ہیں یہ کافر ہے اور جس نے کفر کیا اس نے اپنے رب کے ساتھ شریک بنا لیا ، پس یہ حکمران مشرک ہیں ،پھریہ لوگ نکلتے ہیں اور وہ کرتے ہیں جو آپ دیکھتے ہیں کیونکہ (وہ )اس آیت کی تاویل کرتے ہیں ۔‘‘
(الشریعہ صفحہ نمبر44)
دوسری وجہ:
[یہ] کہ اس آیت سے ظاہر مراد نہیں ہے۔ جس نے بھی گناہ کیا یا نافرمانی کی، تو اس نے بھی اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کو چھوڑدیا۔
امام ابن حزم (رحمۃ اللہ علیہ ) (سورۃ مائدہ کی تینوں آیات 44،45،47) کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ‘‘تو معتزلہ پر لازم ہے کہ وہ ہر گناہ گار ظالم اور فاسق شخص کے کفر کی تصریح کریں کیونکہ جس نے نافرمانی کی اور معصیت کی، تو اس نے اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔’’
تیسری وجہ:
اس آیت کریمہ سے ظاہر مراد نہیں ہے کہ اگر کوئی حکمران یا کوئی اور شخص، صرف ایک یا دو شریعت کے مسائل کے خلاف فیصلہ کرے یا اپنے ماتحت عوام پر صرف دو یا تین مسائل میں شریعت کے قوانین کے خلاف فیصلہ کرے تو بھی کافر(کفراکبر) ہوگا کیونکہ اس آیت کے ظاہر سے یہی مراد ہے کہ جس نے بھی اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کو چھوڑ دیا، اس کی مقدار معین نہیں کی ،کہ ایک فیصلہ ہے یا دو ہیں یا سارے کے سارے شریعت کے فیصلے مراد ہیں اور ایسے حکمران کے کفر کی نفی تو آپ بھی کرتے ہیں جیسے کہ شیخ محمد ابراہیم اور شیخ صالح الفوزان نے بیان کیا۔
چوتھی وجہ:
[یہ] کہ اس آیت کریمہ سے ظاہر مراد نہیں ہے یہ آیت ایسے حکمران کے کفر کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیونکہ اس آیت کریمہ میں کفر اکبر کی دلالت پر علماء کا اختلاف ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس(رضی اللہ تعالی عنہ)، حضرت عطاء اور حضرت طاؤس سے ثابت ہےکہ انہوں نے اس آیت کریمہ سے کفر دون کفر یعنی کفر اصغر ہی مراد لیا ہے اوریہ اختلاف ہر دور میں موجود تھا اور آج بھی موجود ہے۔اور قاعدہ کے مطابق
(اذا وجد الاحتمال بطل الاستدلال)
’’اس آیت سے استدلال باطل ہے‘‘
دلیل نمبر ۳
بعض علماء نے اس آیت کریمہ کوبطور دلیل پیش کیا ارشاد باری تعالی ہے
(أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ(
)سورۃ مائدہ آیت نمبر50)
جواب:
اس آیت کریمہ میں اس حکمران کے کافر ہونے کی واضح دلیل ہے جو اللہ تعالی کے فیصلوں سے دوسرے قوانین کو احسن اور افضل سمجھتا ہے اور اس مسئلے کو تفضیل کہتے ہیں ۔اور ایسے حکمران کے کافر ہونے میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن یہ آیت کریمہ ایسے حکمران کے کفر کی دلیل نہیں بن سکتی جو اللہ تعالی کی شریعت کو چھوڑ کر دوسرے قوانین نافذ کرے جب تک وہ ان قوانین کے بہتر اور افضل ہونے کی تصریح نہ کر دے۔
دلیل نمبر ۴:
بعض علماء نے اس آیت کریمہ کو بطور دلیل پیش کیا۔ارشادباری تعالیٰ ہے
(فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(
)سورۃ نساء آیت نمبر65)
جواب:
اس آیت کریمہ سے کفر اکبر مراد نہیں ہے بلکہ ایمان کامل کی نفی مقصود ہے یعنی ایمان ناقص ہے وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
پہلی وجہ:
یہ آیت انصاری بدری صحابی کے بارے میں نازل ہوئی جن کا حضرت زبیر بن عوام (رضی اللہ تعالی عنہ) سے جھگڑا ہوا اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) کے حق میں فیصلہ سنا دیا ،تو اس انصاری صحابی نے کہا : یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آپ نے اس لئے حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) کے حق میں فیصلہ کیا کیونکہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔
(بخاری حدیث نمبر 2059اورحدیث نمبر2362 اورمسلم حدیث نمبر6065)
تو کیا نعوذ باللہ یہ بدری صحابی کافر ہیں؟؟
دوسری وجہ:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اور یہ وہ آیت ہے جسے خوارج ایسےحکمرانوں کی تکفیرکے لئے بطور حجت پیش کرتے ہیں جو اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلوں کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘
(منہاج السنہ جلد نمبر5صفحہ نمبر131)
اوراس آیت کریمہ پر شیخ بن باز(رحمۃ اللہ علیہ)کی تعلیق ملاحظہ فرمائیں۔
(فتاوی ابن بازجلد نمبر6،صفحہ نمبر249)
دلیل نمبر ۵:
بعض علماء نے اس آیت کریمہ کو بطور دلیل پیش کیا۔ارشادباری تعالی ہے
(أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (
(سورۃ نساء آیت نمبر60)
جواب:
یہ آیت کریمہ کفر اکبر کی دلیل نہیں بن سکتی ،وجہ ملاحظہ فرمائیں:
اس آیت کریمہ سے منافقین مراد ہیں اوران کے نفاق کی دووجوہات ہوسکتی ہیں:
۱۔ ان کاشروع ہی سے ایمان نہیں بلکہ محض دعوی ہے ۔
۲۔ وہ اس لئے منافق ہیں کہ وہ طاغوت کے فیصلوں پر راضی ہوئے۔ اور جب کسی چیز میں احتمال ہوتا ہے تواستدلال درست نہیں ہوتا ،اس آیت کریمہ میں انہوں نے طاغوت کے فیصلے کو بہتر سمجھا ہے اوراس پر راضی ہوئے ،اسی لئے وہ کافرہیں۔
علامہ ابن جریرطبری (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’(يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا)(وہ چاہتے ہیں کہ فیصلہ کروائیں) یعنی اپنے جھگڑوں میں(إِلَى الطَّاغُوتِ) یعنی جن کی وہ تعظیم کرتے ہیں اور ان کے اقوال کو صادر کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں پر راضی ہوتے ہیں اللہ تعالی کے فیصلوں کوچھوڑکر۔(وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ)یعنی اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا کہ وہ ہر اس چیز کو جھٹلا دیں جو طاغوت لے کر آتا ہے اور جس کی طرف وہ فیصلے کرتے ہیں۔پس انہوں نے اللہ تعالی کے حکم کو چھوڑ دیا اورشیطان کی پیروی کی ‘‘۔
(تفسیرطبری جلد نمبر5صفحہ نمبر96)
دلیل نمبر ۶:
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4415 جس میں یہودیوں کا تورات کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ کرنے اور زانی کو رجم کی سزا کو چھوڑ کر اس کا منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کی سزا دینااور اس قانون کو اپنے ماتحت سب یہودیوں کے لئے لازم کردینے کاقصہ بیان کیا ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔
جواب:
یہ حدیث صحیح ہے اور یہودی بھی کافر (کفر اکبر) ہیں اس میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ لیکن جس مسئلے میں ہمارا اختلاف ہے یہ حدیث اس مسئلے کی دلیل نہیں بن سکتی اور ایسا حکمران جو اپنی طرف سے قانون بناتا ہے اور اپنے ماتحت لوگوں پر لازم کر دیتا ہے ،یہودیوں کی طرح کافر نہیں ہے ۔
مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ یہودیوں نے اللہ تعالی کے فیصلے کا انکار کیا جو زانی محصن کے لئے تھا۔ جیسا کہ صحیح بخاری ، حدیث نمبر 4556 ،جب نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ان سے سوال کیا کہ کیا رجم تورات میں موجود نہیں ہے؟ا نہوں نے جواب دیا تورات میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ تو اس طریقے سے انہوں نے انکار کیا اور انکار کرنے والا تو کافر ہی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
۲۔ یہودیوں نے اللہ تعالی کے فیصلے کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے فیصلے کو تبدیل بھی کیا ،جیسا کہ صحیح بخاری 3635میں واضح ہے جب نبی اکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ان سے سوال کیا تم لوگ تورات میں رجم کے بارے میں کے بارے میں کیا جانتے ہو؟انہوں نے کہا ہم ان کو بدنام کرتے ہیں اور کوڑے مارتے ہیں۔ اسے تبدیل کہتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کیا اور اس نئے فیصلے کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کر دیا۔ اور ایسا کرنا کفر اکبر ہے اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔
لیکن کیا اس حکمران نے ایسا کیا جو اپنی طرف سے قوانین بناتا اور لوگوں پر لازم کرتا ہے؟
جواب واضح ہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اس نے نہ تو اللہ تعالی کے فیصلے کا انکار کیا اور نہ ہی اسے شریعت کی طرف منسوب کیا اور اس صورت کو استبدال کہتے ہیں اس کی تفصیل پہلے گزرچکی ہے اور یہ کفر اصغر ثابت ہوا۔ اور تبدیل اور استبدال میں فرق واضح ہے کہ تبدیل کرنے والا نیا قانون ،شریعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور استبدال کرنے والا ایسا نہیں کرتا۔ یہ عمل ظلم فسق اور معصیت ضرور ہے لیکن کفر اکبر نہیں۔
حافظ ابن عبد البر(رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
’’اوراس حدیث میں بھی دلیل ہے کہ یہود اپنی تورات پرجھوٹ باندھتے تھے اور اپنے جھوٹ کو اپنے رب کی طرف منسوب کرتے اور اپنی کتاب کی طرف بھی منسوب کرتے تھے۔‘‘
(التہمیدجلد نمبر 14صفحہ نمبر9)
اس سے ثابت ہوا کہ دونوں مسائل ایک جیسے نہیں ہیں اور دونوں پر ایک ہی حکم ،کفر اکبر کا نافذ کرنا بھی درست نہیں۔
دلیل نمبر ۷:
بعض علماء حافظ ابن کثیر (رحمۃ اللہ علیہ) کا قول بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ ) نے جب تاتاریوں کے قوانین کی کتاب الیاسق پر تبصرہ کیا تو ان کے کافر ہونے کا اجماع نقل کیا
(البدایہ والنھایہ جلدنمبر13صفحہ نمبر128)
تو آج کے حکمرانوں نے تو وہی راستہ اختیار کیا ہے یہ بھی تاتاریوں کی طرح قوانین نافذ کرتے ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں تو اگر تاتاریوں کے کفر اکبر پر اجماع ہے تو آج کے حکمران کس طرح مسلمان ہو سکتے ہیں۔؟
جواب :
حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) نے تاتاریوں کے کفر پر جو اجماع بیان کیا وہ درست ہے اور تاتاری کافر تھے۔ کیونکہ وہ اپنے ایجاد کردہ قوانین کو حلال سمجھتے اور شریعت کے قوانین سے افضل سمجھتے تھے اور حلال سمجھنا استحلال ہے اوربہتر سمجھنا تفضیل ہے یہ دونوں صورتیں کفر اکبر کی ہیں جیسا کہ پہلے بیان کر چکے ہیں۔ وہ حلال سمجھتے تھے۔
اسکی دلیل شیخ ابن الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) جو تاتاریوں اور حافظ ابن کثیر کے ہم سفر تھے فرماتے ہیں
’’تاتاری دین اسلام کو یہود و نصاری کے دین کی طرح سمجھتے تھے کہ یہ سب دین اللہ تعالی کی طرف راستے ہیں جیسے امت میں چار مذاہب ہیں یہ ادیان بھی ایسے ہی ہیں پھر ان میں سے کوئی یہودیوں کے دین کو ترجیح دیتا ہے اور کوئی نصاری کے دین کو ترجیح دیتا ہے اورکوئی دین اسلام کو۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر28صفحہ نمبر523)
اور تاتاری اپنے قوانین ’’الیاسق‘‘ کو شریعت کے قوانین سے بہتر اور افضل سمجھتے تھے اس کی دلیل حافظ ابن کثیر(رحمۃ اللہ علیہ) نے خودبیان کی، فرماتے ہیں:
’’الیاسق ایک کتاب ہے جس میں احکام کا مجموعہ ہے جو اس نے مختلف شرائع سے لیا ہے ۔یہودیت ،نصرانیت، اوراسلام سے ،اور اس میں اکثر احکام چنگیز خان نے صرف اپنی ہوائے نفس کی بنیا دپر رکھے ہیں جو اس کے بعد میں آنے والوں کے لیے قابل اتباع شریعت بن گئی جسے وہ اللہ تعالی کی کتاب اور نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سنت کے فیصلوں سے آگے کرتے تھے ۔ جس نے ان میں سے ایسا کیا وہ کافر ہے اس کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے جب تک وہ اللہ تعالی کے حکم اوررسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے حکم کی طرف واپس نہ آئے ‘‘ ۔
(تفسیرابن کثیرجلد نمبر 2 صفحہ نمبر 88 سورۃ مائدہ آیت نمبر 50 کی تفسیر)
انہوں نے’ یقدمونها‘ کا لفظ استعمال کیا یعنی اسے آگے کرتے ہیں اور آگے کرنا تفضیل ہوتا ہے اور ایسا کرنے والا تو کافر ہی ہوتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کے حکمران بھی تاتاریوں کی طرح اپنے قوانین کو شریعت کے قوانین پر فضلیت دیتے ہیں یا انہیں جائز سمجھتے ہیں ؟ یقینی طور پر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ ایسا کرتے ہیں کیونکہ یہ باطنی امر ہے اس کا تعلق ہے اور دل سے جب تک وہ صراحت سےیہ جواز یا فضلیت بیان نہ کریں جیسا کہ تاتاریوں نے کیا تھا اس لئے ان پر کفر اکبر کا فتوی لگانا درست نہیں۔

دلیل نمبر ۸:
بعض علماء شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) کا قول بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ )فرماتے ہیں:
’’ایسے حکمران کی مثال ایسی ہےجیسے کوئی شخص اللہ تعالی یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) یا قرآن کی تعظیم تو دل سے کرتا ہے لیکن اللہ تعالی کو یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے (نعوذباللہ) تو ایسے شخص کیلئے ضروری نہیں کہ وہ زبان سے تصریح کرے بلکہ اس کایہ عمل ہی کافی ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
جواب:
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اللہ تعالی کو یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے وہ کافر ہی ہے اس پر اجماع ہے لیکن کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) ہر حکمران پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں جس نے تشریع عام کونافذ کیا؟
نہیں۔!
مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اور انسان جب بھی حرام چیز کو ،جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو ،حلال کر دے یا حلال چیز جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو، اسے حرام کر دے یا اس شریعت کو تبدیل کر دے جس پر اجماع ہو، تو وہ کافر اور مرتد ہے اور اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر267)
آگے فرماتے ہیں:
’’اور شرع مبدل (یعنی تبدیل شدہ شریعت) وہ ہے جس میں اللہ تعالی پر اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر جھوٹ باندھا جائے یا لوگو ں پر جھوٹی شہادتوں کے ذریعہ سے جھوٹ باندھا جائے اور یہ کھلا ظلم ہےپس جس نے یہ کہا کہ یہ اللہ تعالی کی شریعت میں سے ہے تو وہ بلا نزاع کے کافر ہے ۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر268)
تو اس سے ثابت ہوا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) اس حکمران کے کافر ہونے کے قائل ہیں جو تشریع عام کو اللہ تعالی کے دین کی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے تبدیل کہتے ہیں جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے یہ کفر اکبر ہے اور اس پر اجماع ہے۔
۲۔ جن چیزوں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) نے استدلال کیا ہے یعنی اللہ تعالی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کو یا دین اسلام کو گالی دینا ،کہ یہ کفر اکبر ہے ایسے شخص کے کافر ہونے پر اجماع ہے تو اس صورت میں ایسے حکمران کے کافر ہونے پر کیسے مشابہ ہوسکتی ہے جس کے کفر پراجماع ہی نہیں ہے بلکہ قوی اختلاف ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں بھی آپ ذرا غور کریں جب اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو بیان کیا تو تین مختلف احکام کے ساتھ بیان کیا۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ]
یہ کفر ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ]
یہ کفر نہیں بلکہ فسق ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ]
یہ بھی کفر نہیں بلکہ ظلم ہے۔
اوراگر ان آیات کریمہ سے ظاہر بھی لیا جائے تو پہلا کفر اکبر ہوگیا اور باقی دو کفر اصغر ہیں۔
توجب یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں تو ان کاحکم بھی مختلف ہے۔ تو اس سے ثابت ہوا شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ ) کا اشارہ اس حکمران کی طرف ہے جس کے کفر پرعلماء کا اجماع ہے اور ان چھ صورتوں میں تشریع عام شامل نہیں ہے۔ پہلے گروہ کے یہ آٹھ دلائل سب سے زیادہ قوی تھے جن کی تفیصل اور جواب بیان کیا گیا ہے ان کے علاوہ اور بھی دلائل ہیں جوان سے زیادہ کمزور ہیں ۔

دوسراگروہ
تشریع عام کفر اصغر ہے کفر اکبر نہیں ،اس قول کی طرف شیخ بن باز، شیخ بن عثمین اور علامہ البانی (رحمۃاللہ علیہم اجمعین) گئے ہیں۔ ان کی دلیل اس صورت میں حکمران کے کافر ،کفر اکبر ہونے کی دلیل ہے ہی نہیں بلکہ ایسا حکمران ظالم ،فاسق اور گناہ گار ضرور ہے اور کفر اصغر کا مرتکب ہے اور بغیر دلیل کے کسی مسلمان پر کفر اکبر کا فتوی لگانا جائز نہیں اور بنیادی طور پر ہر مسلمان غلط عقیدہ اور کفر سے پاک ہے جب تک کہ اس سے کوئی ایسا قول یا عمل نہ ہو جائے جس سے یقینی طور پر وہ دائرہ اسلام سے خارج نہ ہو جائے۔ اور ان علماء کے باقی دلائل بیان کر چکے ہیں جو دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اور ہماری امت کو ہر فتنے کے شر سے محفوظ فرمائے اور شرک ،بدعات اورخرافات سے ہماری امت کو پاک کر دے اور ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو شریعت کے احکام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو حق کی سمجھ عطا فرمائے اور اس پر چلنے کی آسانی پیداکردے۔(آمین)
اللهم أرنا الحق حقا و أرزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابه وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلی اللہ علی سیدنا محمد وآله واصحابه اجمعین!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات ذہن نشین کر لیں کہ علماء کا احترام ہر حال میں کرنا واجب ہے مگر یہ احترام جب تقلید کی شکل اختیار کرے تو اجتناب لازم ہے۔
الشیخ محمد رح اور الشیخ صالح الفوزان قابل احترام اور معزز علماء ہیں مگر بشر ہیں۔ اور الحمد اللہ مرتبہ اجتہاد پر بھی فائز ہیں ۔۔
تو ان کی اس اجتہادی (خطا) ، جو کہ منہج سلف صالحین سے مطابقت نہیں رکھتی، کو بطور منہج لینا اور اس کی ترویج کرنا درست نہیں بلکہ ایک ظلم ہے
(ذاتی تبصرہ)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میں سمیر صاحب کی تحریر سے مکمل اتفاق کرتا ہوں -ہمارے حکمران صریح کفر کے مرتکب ہوے ہیں ان کی اتباع ہم پر لازم نہیں بلکہ گناہ اور فسق ہے- یہ اس نظام کو سپورٹ کرتے ہیں جہاں الله رب ال عالمین کے بجاے پارلیمینٹ کی بالا دستی قائم ہے- ان کو سپورٹ کرنے والا بھی کفر کی حد پر پہنچ جاتا ہے - جب کہ الله کا واضح فرمان ہے -

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ سوره آل عمرا ن آیت ٨٥
اور جو کوئی اسلام کے سوا اور کوئی دین چاہے تو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
میں سمیر صاحب کی تحریر سے مکمل اتفاق کرتا ہوں -ہمارے حکمران صریح کفر کے مرتکب ہوے ہیں ان کی اتباع ہم پر لازم نہیں بلکہ گناہ اور فسق ہے- یہ اس نظام کو سپورٹ کرتے ہیں جہاں الله رب ال عالمین کے بجاے پارلیمینٹ کی بالا دستی قائم ہے- ان کو سپورٹ کرنے والا بھی کفر کی حد پر پہنچ جاتا ہے - جب کہ الله کا واضح فرمان ہے -
سمیر صاحب۔۔دفاعی حکمت عملی زبردست ہے۔ھھ
ہم تو حکمرانوں کے کفر کا رونا رو رہے تھے سمیر صاحب کی اگلی انٹری نے عوام کو بھی کافر قرار دیا۔:(
تو جناب والا۔۔آپ پاکستان میں رہتے ہیں؟کیا آپ سفر کے دوران سڑک کے بائیں طرف چلتے ہیں یا دائیں؟
لال بتی پر رک جاتے ہیں یا نہیں؟اتوار کو ادارے سے چھٹی کرتے ہیں یا نہیں؟
اپنے چوری،لڑائی کے مقدمات پولیس کے پاس لے جاتے ہیں یا نہیں؟
اگر تو آپ ایسا نہیں کرتے تو ہمیں اپنا علاقہ اور جگہ بتادیں تاکہ ہم بھی یہ عجوبہ دیکھ سکیں۔
لیکن اگر ایسا کرتے ہیں تو پھر یقیناً آپ کے الفاظ کی روشنی میں آپ بھی کفر کی حد تک جا پہنچے ہیں۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
میں سمیر صاحب کی تحریر سے مکمل اتفاق کرتا ہوں -ہمارے حکمران صریح کفر کے مرتکب ہوے ہیں ان کی اتباع ہم پر لازم نہیں بلکہ گناہ اور فسق ہے- یہ اس نظام کو سپورٹ کرتے ہیں جہاں الله رب ال عالمین کے بجاے پارلیمینٹ کی بالا دستی قائم ہے- ان کو سپورٹ کرنے والا بھی کفر کی حد پر پہنچ جاتا ہے ۔
بس یہی کسر باقی رہ گئی تھی۔
 
Top