• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم حیات طیبہ کا آخری باب رفیق اعلیٰ کی جانب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
حیات طیبہ کا آخری باب رفیق اعلیٰ کی جانب

الوداعی آثار :
جب دعوت دین مکمل ہوگئی اور عرب کی نکیل اسلام کے ہاتھ میں آگئی تو رسول اللہﷺ کے جذبات واحساسات ، احوال وظروف اور گفتارو کردار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہوئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اب آپﷺ اس حیات مستعار کو اور اس جہان فانی کے باشندگان کو الوداع کہنے والے ہیں۔ مثلا ً:
آپﷺ نے رمضان ۱۰ ھ میں بیس دن اعتکاف فرمایا جبکہ ہمیشہ دس ہی دن اعتکاف فرمایاکرتے تھے، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اس سال دو مرتبہ قرآن کا دَور کرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دَور کرایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا : مجھے معلوم نہیں غالبا میں اس سال کے بعد اپنے اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں گا۔ جمرئہ عقبہ کے پاس فرمایا : مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو۔ کیونکہ میں اس سال کے بعد غالبا ًحج نہ کرسکوں گا۔ آپﷺ پر ایام تشریق کے وسط میں سورۂ نصر نازل ہوئی۔ اور اس سے آپﷺ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اور یہ موت کی اطلاع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اوائل صفر ۱۱ ھ میں آپﷺ دامنِ اُحد میں تشریف لے گئے۔ اور شہداء کے لیے اس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں۔ پھر واپس آکر منبر پر فروکش ہوئے۔ اور فرمایا : میں تمہارا میر کارواں ہوں۔ اور تم پر گواہ ہوں۔ واللہ! میں اس وقت اپنا حوض ( حوضِ کوثر ) دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اور واللہ! مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے۔ بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ دنیا کے بارے میں تنافس کروگے۔ 1
ایک روز نصف رات کو آپﷺ بقیع تشریف لے گئے۔ اور اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی۔ فرمایا : اے قبر والو ! تم پر سلام ! لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں۔ اور بعد والا پہلے سے زیادہ برا ہے۔ اس کے بعد یہ کہہ کر اہل قبور کو بشارت دی کہ ہم بھی تم سے آملنے والے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 متفق علیہ۔ صحیح بخاری ۲/۵۸۵، فتح الباری ۳/۲۴۸ حدیث نمبر ۱۳۴۴،۳۵۹۶، ۴۰۴۲، ۴۰۸۵،۶۴۲۶،۶۵۹۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مرض کا آغاز:
۲۹ صفر ۱۱ ھ روز دوشنبہ کو رسول اللہﷺ ایک جنازے میں بقیع تشریف لے گئے۔ واپسی پر راستے ہی میں درد ِ سر شروع ہوگیا۔ اور حرارت اتنی تیز ہوگئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ آپﷺ نے اسی حالت مرض میں گیارہ دن نماز پڑھائی۔ مرض کی کل مدت ۱۳ یا ۱۴ دن تھی۔
آخری ہفتہ :
رسول اللہﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جارہی تھی۔ اس دوران آپﷺ ازواج مطہرات سے پوچھتے رہتے تھے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ میں کل کہاں رہوں گا ؟ اس سوال سے آپﷺ کا جو مقصود تھا ازواج مطہرات اسے سمجھ گئیں۔ چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی کہ آپﷺ جہاں چاہیں رہیں۔ اس کے بعد آپﷺ حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ منتقلی کے وقت حضرت فضل بن عباس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے درمیان ٹیک لگا کر چل رہے تھے۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اور پائوں زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ اس کیفیت کے ساتھ آپ حضرت عائشہ کے مکان میں تشریف لائے۔ اور پھر حیات ِمبارکہ کا آخری ہفتہ وہیں گذارا۔
حضرت عائشہ ؓ معوذات اور رسول اللہﷺ سے حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ کر آپﷺ پر دم کرتی رہتی تھیں۔ اور برکت کی امید میں آپﷺ کا ہاتھ آپﷺ کے جسم مبارک پر پھیرتی رہتی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
وفات سے پانچ دن پہلے:
وفات سے پانچ دن پہلے روز چہار شنبہ (بدھ) کو جسم کی حرارت میں مزید شدت آگئی۔ جس کی وجہ سے تکلیف بھی بڑھ گئی۔ اور غَشی طاری ہوگئی۔ آ پﷺ نے فرمایا : مجھ پر مختلف کنوؤں کے سات مشکیز ے بہاؤ تاکہ میں لوگوں کے پاس جاکر وصیت کرسکوں۔ اس کی تکمیل کرتے ہوئے آپﷺ کوایک لگن میں بٹھا دیا گیا۔ اور آپﷺ کے اوپر اتنا پانی ڈالا گیا کہ آپ ''بس۔'' ''بس '' کہنے لگے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس وقت آپﷺ نے کچھ تخفیف محسوس کی۔ اور مسجد میں تشریف لے گئے - سر پر پٹی معیالی بندھی ہوئی تھی - منبر پر فروکش ہوئے اور بیٹھ کر خطبہ دیا۔ یہ آخری بیٹھک تھی جو آپﷺ بیٹھے تھے۔ آپﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کی۔ پھر فر مایا: لوگو! میرے پاس آجاؤ۔ لوگ آپﷺ کے قریب آگئے۔ پھر آپﷺ نے جو فرمایا اس میں یہ فرمایا: ''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنایا۔'' ایک روایت میں ہے کہ ''یہود ونصاریٰ پر اللہ کی مار کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنایا ۔''1 آپﷺ نے یہ بھی فرمایا : ''تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔''2
پھر آپﷺ نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا: ''میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مار اہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے ، وہ بدلہ لے لے۔ اور کسی کی آبرو پر بٹہ لگایا ہوتو یہ میری آبرو حاضر ہے، وہ بدلہ لے لے۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۶۲ مؤطا امام مالک ص ۳۶۰ 2 موطا امام مالک ص ۶۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس کے بعد آپﷺ منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ ظہر کی نمازپڑھائی، اور پھر منبر پر تشریف لے گئے۔ اور عداوت وغیرہ سے متعلق اپنی پچھلی باتیں دہرائیں۔ ایک شخص نے کہا : آپ کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں۔ آپﷺ نے فضل بن عباس سے فرمایا : انہیں ادا کردو۔ اس کے بعد انصار کے بارے میں وصیت فرمائی۔ فرمایا :
'' میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے نیکوکار سے قبول کرنا۔ اور ان کے بد کار سے درگذر کرنا۔'' ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : '' لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ کھانے میں نمک کی طرح ہوجائیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو آدمی کسی نفع اور نقصان پہنچانے والے کام کا والی ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں سے قبول کرے اور ان کے بدکاروں سے درگذر کرے۔''1
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: '' ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یاتو دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اسے دے د ے ، یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا۔''ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ یہ بات سن کر ابو بکرؓ رونے لگے۔ اور فرمایا : ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ پر قربان۔ اس پر ہمیں تعجب ہوا۔ لوگوں نے کہا : اس بڈھے کو دیکھو ! رسول اللہﷺ تو ایک بندے کے بارے میں یہ بتارہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو چاہے اللہ اسے دے دے یا وہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے۔ اور یہ بڈھا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ پر قربان۔ ( لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ) جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہﷺ تھے۔ اور ابو بکرؓ ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔ 2
پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحب احسان ابو بکرؓ ہیں۔ اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابو بکرؓ کو خلیل بناتا لیکن (ان کے ساتھ) اسلام کی اخوت و محبت ( کا تعلق ) ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازما ًبند کردیا جائے، سوائے ابوبکرؓ کے دروازے کے۔3
چار دن پہلے:
وفات سے چار دن پہلے جمعرات کو جب کہ آپﷺ سخت تکلیف سے دوچار تھے فرمایا : لاؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم لوگ کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ اس وقت گھر میں کئی آدمی تھے۔ جن میں حضرت عمرؓ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۳۶ 2 متفق علیہ : مشکوٰۃ ۲/۵۴۶، ۵۵۴
3 صحیح بخاری ۱/۵۱۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بھی تھے۔ انہوں نے کہا : آپﷺ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے۔ بس اللہ کی یہ کتاب تمہارے لیے کافی ہے۔ اس پر گھر کے اندر موجود لوگوں میں اختلاف پڑگیا اور وہ جھگڑ پڑے۔ کوئی کہہ رہا تھا :لاؤ رسول اللہﷺ لکھ دیں۔ اور کوئی وہی کہہ رہاتھا جو حضرت عمرؓ نے کہا تھا۔ اس طرح لوگوں نے جب زیادہ شوروشغب اور اختلاف کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔1
پھر اسی رو ز آپﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ایک اس بات کی وصیت کی یہود ونصاریٰ اور مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا۔ دوسرے اس بات کی وصیت کی کہ وفود کی اسی طرح نوازش کرنا جس طرح آپﷺ کیا کرتے تھے۔ البتہ تیسری بات کو راوی بھول گیا۔ غالباً یہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی وصیت تھی یا لشکر ِ اسامہ کو نافذ کرنے کی وصیت تھی۔ یا آپﷺ کا یہ ارشاد تھا کہ ''نماز اور تمہارے زیر ِ دست '' یعنی غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھنا۔
رسول اللہﷺ مرض کی شدت کے باوجود اس دن تک ، یعنی وفات سے چار دن پہلے (جمعرات ) تک تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس روز بھی مغرب کی نماز آپﷺ ہی نے پڑھائی۔ اور اس میں سورۂ والمرسلات ِ عُرْفا پڑھی۔2
لیکن عشاء کے وقت مرض کا ثقل اتنا بڑھ گیا کہ مسجدمیں جانے کی طاقت نہ رہی۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ نبیﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا : نہیں ، یا رسول اللہﷺ ! اور وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: میرے لیے لگن میں پانی رکھو۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ آپﷺ نے غسل فرمایا۔ اور اس کے بعد اٹھنا چاہا لیکن آپﷺ پر غشی طاری ہوگئی۔ پھر افاقہ ہوا تو آپﷺ نے دریافت کیا : کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ ہم نے کہا : نہیں، یا رسول اللہﷺ !اور وہ آپﷺ کا انتظار کررہے ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ اور پھر سہ بارہ وہی بات پیش آئی جو پہلی بار پیش آچکی تھی کہ آپﷺ نے غسل فرمایا ، پھر اٹھنا چاہا تو آپﷺ پر غشی طاری ہوگئی۔ بالآخرآپ نے حضرت ابو بکرؓ کو کہلوا بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ چنانچہ ابو بکرؓ نے ان ایام میں نماز پڑھائی۔ 3نبیﷺ کی حیات مبارکہ میں ان کی پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے۔ جمعرات کی عشاء ، دوشنبہ کی فجر اور بیچ کے تین دنوں کی پندرہ نمازیں۔4
حضرت عائشہؓ نے نبیﷺ سے تین یا چار بار مراجعہ فرمایا کہ امامت کا کا م حضرت ابو بکرؓ کے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 متفق علیہ : صحیح بخاری ۱/۲۲، ۴۲۹ ، ۴۴۹،۲/۶۳۸
2 صحیح بخاری عن ام الفضل ، باب مرض النبیﷺ ۲/۶۳۷
3 متفق علیہ ، مشکوٰۃ ۱/۱۰۲
4 بخاری مع فتح الباری ۲/۱۹۳ ، حدیث نمبر ۶۸۱ ، مسلم : کتاب الصلاۃ ۱/۳۱۵ حدیث نمبر ۱۰۰ ، مسند احمد ۶/۲۲۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بجائے کسی اور کو سونپ دیں۔ ان کا منشاء یہ تھا کہ لوگ ابو بکرؓ کے بارے میں بد شگون نہ ہوں۔1 لیکن نبیﷺ نے ہر بار انکار فرمادیا۔ اور فرمایا : تم سب یوسف والیاں ہو۔2 ابو بکرؓ کو حکم دو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔3
تین دن پہلے:
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو وفات سے تین دن پہلے سنا آپﷺ فرما رہے تھے:''یاد رکھو تم میں سے کسی کو موت نہیں آنی چاہیے مگر اس حالت میں کہ وہ اللہ کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔''4
ایک دن یا دو دن پہلے:
سنیچر یا اتوار کو نبیﷺ نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، چنانچہ دوآدمیوں کے درمیان چل کر ظہر کی نماز کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت ابو بکرؓ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھا رہے تھے۔ وہ آپﷺ کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ آپﷺ نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ اور لانے والوں سے فرمایا کہ مجھے ان کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ آپﷺ کو ابوبکرؓ کے دائیں بٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد ابو بکرؓ رسول اللہﷺ کی نماز کی اقتدا کرر ہے تھے۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تکبیر سنا رہے تھے۔ 5
ایک دن پہلے:
وفات سے ایک دن پہلے بروز اتوار نبیﷺ نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد فرمادیا۔ پاس میں چھ یا سات دینار تھے انہیں صدقہ کردیا۔ 6اپنے ہتھیار مسلمانوںکو ہبہ فرمادیے۔ رات میں چراغ جلانے کے لیے حضرت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اس کے لیے دیکھئے: بخاری مع فتح الباری ۷/۷۵۷ حدیث نمبر ۴۴۴۵ مسلم کتاب الصلاۃ ۱/۳۱ حدیث نمبر ۹۳، ۹۴
2 حضرت یوسف علیہ السلام کے سلسلے میں جو عورتیں عزیز مصر کی بیوی کو ملامت کررہی تھیں وہ بظاہر تو اس کے فعل کے گھٹیا پن کا اظہار کررہی تھیں۔ لیکن یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر جب انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں تو معلوم ہوا کہ یہ خود بھی درپردہ ان پر فریفتہ ہیں۔ یعنی وہ زبان سے کچھ کہہ رہی تھیں۔ لیکن دل میں کچھ اور ہی بات تھی۔ یہی معاملہ یہاں بھی تھا۔ بظاہر تو رسول اللہﷺ سے کہا جارہا تھا کہ ابو بکر رقیق القلب ہیں۔ آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے۔ تو گریہ ٔ وزاری کے سبب قراء ت نہ کرسکیں گے یا سنا نہ سکیں گے۔ لیکن دل میں یہ بات تھی کہ اگر خدانخواستہ حضور اسی مرض میں رحلت فرماگئے تو ابوبکرؓ کے بارے میں نحوست اور بدشگونی کا خیال لوگوں کے دل میں جاگزیں ہوجائے گا۔ چونکہ حضرت عائشہ ؓ کی اس گذارش میں دیگر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم بھی شریک تھیں۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا: تم سب یوسف والیاں ہو، یعنی تمہارے بھی دل میں کچھ ہے اور زبان سے کچھ کہہ رہی ہو۔
3 صحیح بخاری ۱/۹۹
4 طبقات ابن سعد ۲/۲۵۵ ، مسند ابی داود طیالسی ص ۲۴۶ حدیث نمبر ۱۷۷۹ ، مسند ابی یعلی۴/۱۹۳ حدیث نمبر ۲۲۹۰
5 صحیح بخاری ۱/۹۸، ۹۹ مع فتح الباری ۲/۱۹۵ ، ۲۳۸، ۲۳۹، حدیث نمبر ۶۸۳، ۷۱۲،۷۱۳
6 طبقات ابن سعد ۲/۲۳۷ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام آپﷺ نے دوشنبہ کی رات یا دوشنبہ کے دن، یعنی حیات طیبہ کے آخری دن فرمایا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
عائشہ ؓ نے چراغ پڑوسی کے پاس بھیجا کہ اس میں اپنی کپی سے ذرا سا گھی ٹپکا دیں۔ 1آ پﷺ کی زِ رہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع (کوئی ۷۵ کلو ) جَو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔2
حیات ِ مبارکہ کا آخری دن :
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ دو شنبہ کے روز مسلمان نماز فجر میں مصروف تھے۔ اور ابو بکرؓ امامت فرمارہے تھے کہ اچانک رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کا پردہ ہٹایا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جو صفیں باندھے نماز میں مصروف تھے نظر ڈالی، پھر تبسم فرمایا۔ ادھر ابو بکرؓ اپنی ایڑ کے بل پیچھے ہٹے کہ صف میں جاملیں۔ انہوں نے سمجھا کہ رسول اللہﷺ نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ (کے اس اچانک ظہور سے ) مسلمان اس قدر خوش ہوئے کہ چاہتے تھے کہ نماز کے اندر ہی فتنے میں پڑجائیں۔ (یعنی آپﷺ کی مزاج پرسی کے لیے نماز توڑ دیں ) لیکن رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز پوری کر لو، پھر حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ گرالیا۔3
اس کے بعد رسول اللہﷺ پر کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔
دن چڑھے چاشت کے وقت آپﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کو بلا یا اور ان سے کچھ سر گوشی کی، وہ رونے لگیں تو آپﷺ نے انہیں پھر بلا یا اور کچھ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ (پہلی بار ) نبیﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپﷺ اسی مرض میں وفات پاجائیں گے۔ اس لیے میں روئی۔ پھر آپﷺ نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کے اہل و عیال میں سب سے پہلے میں آپﷺ کے پیچھے جاؤں گی۔ اس پر میں ہنسی۔4
نبیﷺ نے حضرت فاطمہؓکو یہ بشارت بھی دی کہ آپ ساری خواتین ِ عالم کی سَیدہ (سردار ) ہیں۔5
اس وقت رسول اللہﷺ جس شدید کرب سے دوچار تھے اسے دیکھ کر حضرت فاطمہؓ بے ساختہ پکار اٹھیں۔ واکرب أباہ۔ ''ہائے ابّا جان کی تکلیف ۔''آپﷺ نے فرمایا : تمہارے ابّا پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں۔6
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 طبقات ابن سعد ۲/۲۳۹
2 دیکھئے: صحیح بخاری حدیث نمبر ۲۰۶۸ ، ۲۰۹۶ ، ۲۲۰۰، ۲۲۵۱، ۲۲۵۲،۲۳۸۶، ۲۵۰۹،۲۵۱۳، ۲۹۱۶ ، ۴۱۶۷، مغازی کے آواخر میں ہے کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی اور آپ کی زرہ رہن رکھی ہوئی تھی۔ مسند احمد میں ہے کہ آپﷺ کو اتنا نہ مل سکا کہ اس زرہ کو چھڑا سکیں۔
3 ایضا ً باب مرض النبیﷺ ۲/۲۴۰ مع فتح الباری ۲/۱۹۳ حدیث نمبر ۶۸۰، ۶۸۱،۷۵۴، ۱۲۰۵،۴۴۴۸
4 بخاری ۲/۶۳۸
5 بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گفتگو اور بشارت دینے کا یہ واقعہ حیات مبارکہ کے آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں پیش آیا تھا۔ دیکھئے: رحمۃللعالین ۱/۲۸۲
6 صحیح بخاری ۲/۶۴۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
آپﷺ نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلا کر چُوما اور ان کے بارے میں خیر کی وصیت فرمائی۔ ازاوجِ مطہرات رضی اللہ عنہم کو بلایا اور انہیں وعظ ونصیحت کی۔
ادھر لمحہ بہ لمحہ تکلیف بڑھتی جارہی تھی اور اس زہر کا اثر بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا تھا جسے آپﷺ کو خیبر میں کھلایا گیا تھا۔ چنانچہ آپﷺ حضرت عائشہ ؓ سے فرماتے تھے : اے عائشہ ! خیبر میں جو کھانا میں نے کھالیا تھا اس کی تکلیف برابر محسوس کررہا ہوں۔ اس وقت مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس زہر کے اثرسے میری رگِ جاں کٹی جارہی ہے۔1
ادھر چہرے پر آپﷺ نے ایک چادر ڈال رکھی تھی۔ جب سانس پھولنے لگتا تو اسے چہرے سے ہٹا دیتے۔ اسی حالت میں آپﷺ نے فرمایا : (اور یہ آپﷺ کا آخری کلام اور لوگوں کے لیے آپﷺ کی آخری وصیت تھی ) کہ یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا یا ... ان کے اس کام سے آپﷺ ڈرارہے تھے ... سرزمین عرب پر دو دین باقی نہ چھوڑ ے جائیں۔2
آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی وصیت فرمائی۔ فرمایا :
((الصلاۃ الصلاۃ وما ملکت أیمانکم))
''نماز ، نماز ، اور تمہارے زیر ِ دست '' (یعنی لونڈی ، غلام )
آپﷺ نے یہ الفاظ کئی بار دہرائے۔3
نزع رواں :
پھر نزع کی حالت شروع ہوگئی۔ اور حضرت عائشہ ؓ نے آپﷺ کو اپنے اُوپر سہارا دے کر ٹیک لیا۔ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی ایک نعمت مجھ پر یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے میرے گھر میں ، میری باری کے دن میرے لَبّے اور سینے کے درمیان وفات پائی۔ اور آپﷺ کی موت کے وقت اللہ نے میرا لعاب اور آپﷺ کا لعاب اکٹھا کردیا۔ ہوا یہ کہ عبد الرحمن بن ابی بکرؓ آپﷺ کے پاس تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ اور میں رسول اللہﷺ کو ٹیکے ہوئے تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھ گئی کہ آپﷺ مسواک چاہتے ہیں۔ میں نے کہا : آپﷺ کے لیے لے لوں ؟ آپﷺ نے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں ! میں نے مسواک لے کر آپﷺ کو دی تو آپ کو کڑی محسوس ہوئی۔ میں نے کہا: اسے آپﷺ کے لیے نرم کردوں ؟ آپﷺ نے سر کے اشارے سے کہا ہاں ! میں نے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۶۳۷
2 صحیح بخاری مع فتح الباری ۱/۶۳۴ حدیث نمبر ۴۳۵، ۱۳۳۰، ۱۳۹۰، ۳۴۵۳، ۳۴۵۴،۴۴۴۱، ۴۴۴۳، ۴۴۴۴ ، ۵۸۱۵، ۵۸۱۶ ، طبقات ابن سعد ۲/۲۵۴
3 صحیح بخاری ۲/۶۳۷
 
Top