• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حیدرآباد کے موسم و تہذیب - کل اور آج

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
علامہ اعجاز فرخ

اب ہماری طرح بچے جگنو پکڑ کر اپنے دامن میں چھپا کر رم جھم رم جھم کا کھیل نہیں دیکھتے وہ تو کب کے اسے دن میں پرکھ کر چھوڑ چکے ۔ وہ اب تتلیاں بھی نہیں پکڑتے ۔ اب ان کیلئے تتلیوں کا مفہوم بدل گیا ۔جب تک تتلیوں کے پیرہن الگ الگ تھے ان کے نظارہ کی عید بھی تھی ، انہیں چھونے کی خواہش بھی جب سے تتلی کو بھی یہ پتہ چل گیا ہیکہ اس کے پیرہن کا رنگ کچا ہے اس نے پیرہن کم سے کم کردیا ہے کہ جو رنگ اتر جاتا ہے اسے رکھنا کیا اور اس کا اترنا کیا ۔

حیدرآباد کو دیکھئے اور ان لمحوں کی کیفیت کو محسوس کیجئے کہ جو لمحہ خاموش ہے وہی تکلم کا لمحہ ہے ، جو لمحہ اداس ہے وہ تمدن کا لمحہ ہے ، جو لمحہ آزردہ ہے وہی تہذیب کا سنولایا ہوا چہرہ لئے بیٹھا ہے ۔ وقت کے بطن سے جو لمحے بازیافت ہوئے ہیں ، ان میں ہر لمحے کی ایک الگ تاریخ ہے ، ہر لمحہ میں کئی کئی داستانیں پنہاں ہیں ۔ یہ لمحے کتنے قیمتی ہیں ان کا اندازہ تو کوئی وقت کا پارکھ ہی لگا سکتا ہے ۔ حیدرآباد میں نہ کشمیر کا حسن نہ بنگال کی زلف کا جادو ، نہ بنارس کی صبح کا جھٹپٹا ، نہ اودھ کی شام کا سرمہ ، لیکن اس کے باوجود اسے قدرت نے وہ حسن جہاں سوز عطا کیا تھا کہ اسے دیکھ کر کسی کی انگلیاں چکوترا تراشتے تراشتے انگشت تراش ہوئی ہوں نہ ہوئی ہوں ، لیکن لمحہ بھر کیلئے چپ ضرور لگ گئی اور یہی چپ حیدرآباد کے حسن کو خراج ہے ۔
تہذیب میں یکساں رچاؤ تھا ۔ رہن سہن ، لذت کام و دہن ، پہناوا ، شادی بیاہ ، غم ، خوشی ، رسم ، رواج ، جتنے بھی لوازمات زندگی تھے سب کی قدریں مشترک تھیں ۔ غربت اور امارت کے درمیان زمین آسمان کا فرق سہی ، لیکن تہذیب نے دونوں کو باہم رکھا ۔ امراء کے گھروں کی آرائش و زیبائش تو آپ پڑھ ہی چکے غریب کے دروازے پر بھی ٹاٹ کا پردہ اس میں پیوند سہی ضرور ہوتا تھا ۔ جانے کس نے یہ کہدیا ہو کہ حیدرآباد نگینہ اندر مٹی اوپر چونا اگر بند مٹھی اور لاکھ کا بھرم اسی کو کہتے ہیں تو سچ ہی کہا تھا لیکن میں یہ کہوں کہ حیدرآباد میں یہ رواج نہیں تھا کہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند لگایا جائے ۔ اس لئے کہ اہل حیدرآباد کویہ پتہ تھا کہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند تو اندھے کو بھی دکھائی دیتا ہے لیکن ٹاٹ میں ٹاٹ کا پیوند بھی ہر بینا کو نظر آجاتا ہے ۔ جو بات عیب نہیں اسے ڈھانکنے سے کیا حاصل ۔ پیوند لباس میں ہو توعیب نہیں کردار میں ہو تو معیوب ہوجاتا ہے اور یوں بھی دامن پیچھے سے چاک ہو تو تقوی ہے آگے سے چاک ہو تو گناہ ہے ۔
موسم تو موسم ہے ۔ غذائیں ، پہناوا ، رنگ سب کا سب موسم کے اعتبار سے تھا ۔ ویسے بدن کا موسم اور ہے شہر کا موسم اور ۔ بدن پر بہار کا موسم ہو اور ہمدم و ہم نفس کا ساتھ ہو تو کڑی دھوپ میں ببول کی شاخ کا سایہ جیسے سایہ شاخ گل کے تلے پھر کوئی قصہ چھیڑ دے اور گلستاں کی خنکی کوپیچھے چھوڑ دے ۔ بدن پر موسم خزاں ہو اور پھر تنہائی ہو ،اس موسم میں تو گلشن بھی ببول بن ہوجائے کہ جہاں ایک کانٹے کی کسک سیر بیاباں کا سامان کردے ۔ ایسے میں سایۂ دیوار تو کجا خود اپنا سایہ ساتھ چھوڑدے تو موسم سے کیا شکوہ ۔ گذشتہ حیدرآباد میں فصلی سال کا رواج تھا ۔ وہ مہینے کچھ یوں تھے ۔ آذر ، دے ، بہمن ، اسفندار ، فروردی ، اردی بہشت ، خورداد ، تیر ، امرداد ، شہریور ، مہر ، آبان ، آپ اسے یوں سمجھ لیجئے کہ فروردی اور فبروری ایک تھے ۔ اردی بہشت مارچ ، خورداد اپریل ۔ اور تیر تو رخصت بہار یعنی مئی کا مہینہ ہوتا تھا ۔امرداد کو ساون کہہ لیجئے اور شہریور کو بھادوں ۔ فروردی کی آمد آمد ہوئی اور مٹی کی کوری صراحیاں ، گھڑے اور رنجن بدل دئے جاتے تھے ۔ کوری کوری صراحیاں جب پہلے پہل پانی کا چھینٹا پاتیں تو صراحی کے کنوارپن کی مہک کو حوریں بھی اپنے پیرہن میں سمیٹ لے جاتیں کہ آخر کنوارپن کی مہک انھیں بھی تو چاہئے نا ! ۔ ایک تو کوری صراحیوں کی ٹھنڈک اور اس پر طرفہ حیدرآباد کا پانی ۔ جن کے دلنعمتوں پر شکر خدا کرتے ہیں اور ہر آن دل ہی دل میں دہراتے ہیں کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤگے ، انھیں تو کوثر کا مزہ اسی دنیا میں چکھا دیا جاتا ۔ پانی کی وہ ٹھنڈک اور شیرینی کہ دو گھونٹ جھم جھم کرتے چاندی کے کٹورے سے ابھی گلے کے نیچے نہیں اترے کہ ٹھنڈک کی ایک لکیر کلیجے تک کھنچ گئی ۔ سہ پہر کے بعد ادھر سورج کا چہرہ اترا نہیں کہ مٹی کے آنگن میں پانی کا چھڑکاؤ ہوگیا ۔ دن بھر کی پیاسی زمین کو دو بوند پانی کی تری کیا لگ گئی کہ زمین کے مسامات سے دھانی بھاپ اپنے وجود کی خوشبو لے کر اٹھی اور مشام جاں کو معطر کرگئی ۔ یوں بھی حیدرآباد کی شام جب انگڑائی لے کر اٹھتی تو مسامات سے جو دھانی بھاپ اٹھتی تھی اسے آپ چادر گل کا شامیانہ بھی کہہ لیجئے ۔
۔ ملک ملک میں ہندوستان اور ہندوستان میں حیدرآباد ہائے رے وفاشعاری اور اس مٹی کا خمیر ۔ یہاں تو دشمن کی بھی بے بسی اور تنہائی نہ دیکھی جائے ہے ۔ جانے لوگ دوستوں سے بھی کیسے بے مہری کرلیتے ہیں ۔ حیدرآباد کی نفرتوں میں جتنی محبت تھی ، حیدرآباد کے سوا محبتوں میں بھی شاید اس سے زیادہ نفرت اور منافقت پائی جاتی ہو ۔
گھروں میں جھٹپٹے سے پہلے ہی مٹی کے تیل کے چراغ ، دیوار گیریاں ، یکے صاف کرکے دالان کے کنارے رکھ دئے جاتے تھے ۔ اد ہر شام کی زلف کھلی اور ادھر چراغ روشن اور مراد حاصل کی مانند مائیں چھوٹے بچوں کو کلمہ، درود ، نادعلی اور دعائیں یاد کرواتی تھیں اور دعا کیلئے اٹھے ہوئے معصوم ہاتھ صرف گھر ہی کی صحت و عافیت خیر و برکت کیلئے دعا نہ مانگتے بلکہ ہمسائے اور شہر کی سلامتی کی دعا بھی مانگا کرتے ۔ معصوم زبانیں ، بے ریا ، بے خطا دعا کیلئے اٹھے ہوئے ہاتھ آخر پروردگار کیسے جو مانگے سو نہ دیتا کہ معصومیت اس کی شان کریمی کو آواز دے اور وہ خالی ہاتھ لوٹادے ۔
میں آخر شب کے لمحات میں یہ تحریر آپ کے لئے سپرد قلم کررہا ہوں ۔ چراغ کی لومدھم سی ہورہی ہے ۔ میں کہاں تک لکھوں کیا کیا لکھوں ۔ عبدالحلیم شرر حیدرآباد میں تو رہے لیکن حیدرآباد کو کوئی شرر نہ مل سکا ورنہ ساری تہذیب محفوظ ہوجاتی ۔ میرے پاس نہ رازق الخیری کی زبان ، نہ قاضی عبدالستار جیسی منظر نگاری کا فن ، نہ ضمیر حسن دہلوی کی نوک قلم ، نہ آغا حیدر حسن کی ندرت زبان میں ادب ناآشنا ، علمی ناداری میری دامن گیر ، ہنر بے ہنری میں یکتائے روزگار۔ جس شہر کے چہرے روشن تھے آج ان کے اندر اندھیرا ہے ، شہر کو سنگاپور کے طرز پر سجانے کے شوق نے راستے تو روشن کردئے مگر من کے دئے بجھ گئے ۔ کسی زمانے میں اس دور کا ایک بچہ ماں کے پیٹ چیر کر نکالا گیا تھا تو اس کا نام ہی ''سیزر'' رکھ دیا گیا تھا کہ یہ غیر فطری پیدائش نام کے ساتھ یادگار رہ جائے ۔ آج سیزیرین ولادت معمولات سے ہے اور فطری ولادت حیرت کا باعث بلکہ فیشن کے خلاف تصور کیا جاتا ہے کہ اپنی پسندیدہ تاریخ اور وقت کے اعتبار سے بچے پیدا کرکے oxygen tent میں رکھا جائے کہ سانس لینے کی راہ ہموار ہو ۔ بچہ ٹیلی ویژن پہلے دیکھتا ہے اور بعد میں ماں کا چہرہ ۔ پہلے مائیکل جیکسن کا انگریزی گیت سنتا ہے پھر اذان ۔ پہلے انکیوبیٹر کی حرارت پاتا ہے پھر ماں کی گود کی گرمی ویسے ان فرسودہ چیزوں کی ضرورت بھی کیا ہے جبکہ دوسرے دن اسے ڈبہ کا دودھ پینا ہے ۔ اور ایک مہینے کی عمر سے کریچ میں پلنا ہے ۔ تین سال کی عمر سے ہاسٹل میں رہنا ہے ۔ اور دس سال کی عمر سے پہلے ''تارہ زمین کا بن جانا ہے'' ۔ اب ہماری طرح بچے جگنو پکڑ کر اپنے دامن میں چھپا کر رم جھم رم جھم کا کھیل نہیں دیکھتے وہ تو کب کے اسے دن میں پرکھ کر چھوڑ چکے ۔ وہ اب تتلیاں بھی نہیں پکڑتے ۔ اب ان کیلئے تتلیوں کا مفہوم بدل گیا ۔جب تک تتلیوں کے پیرہن الگ الگ تھے ان کے نظارہ کی عید بھی تھی ، انہیں چھونے کی خواہش بھی جب سے تتلی کو بھی یہ پتہ چل گیا ہیکہ اس کے پیرہن کا رنگ کچا ہے اس نے پیرہن کم سے کم کردیا ہے کہ جو رنگ اتر جاتا ہے اسے رکھنا کیا اور اس کا اترنا کیا ۔
 
Top