• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"خاوند اور بیوی کے لیے رہنما اصول" از البدیر حفظہ اللہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

"خاوند اور بیوی کے لیے رہنما اصول"


از البدیر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 13-جمادی اولی- 1438 کا مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ بعنوان "خاوند اور بیوی کے لیے رہنما اصول" ارشاد فرمایا:

جس میں انہوں نے نکاح کی اہمیت اجاگر کی اور اسے جہاں تک ممکن ہو قائم رکھنے کی ترغیب دلائی، انہوں نے کہا کہ: اگر خاوند کو رفیقۂ حیات کی کوئی بات بری لگے تو اس کی اچھائیاں دیکھ کر راضی ہو جائے، پھر خاوندوں کو کہا کہ: حقِ طلاق کا غلط استعمال کرنا سراسر حرام ہے، طلاق دینے کے بعد کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنے کئے پر پشیمان ہوتے ہیں، اس کے بعد انہوں نے خواتین سے کہا کہ: اپنے خاوندوں کا بھر پور خیال کریں وہ آپ کیلیے جنت یا جہنم ہے، بلا وجہ طلاق مت مانگیں، آخر میں انہوں نے کہا کہ بد چلن خاتون کو چھوڑ دینا ہی مناسب ہے۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اس کی گراں قدر رحمتیں بہت وسیع ہیں ، اس کی انفرادی اور اجتماعی متنوع نعمتیں ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اس کا فرمان ہے:

(جو شخص میری جانب ایک بالشت بڑھتا ہے میں اس کی جانب ایک باع [دونوں ہاتھوں کے دائیں بائیں پھیلاؤ کے برابر، یعنی چار ہاتھ]بڑھتا ہوں)

اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ،آپ کے فضائل بادلوں سے بلند، آپ کے دلائل شمام پہاڑ سے بھی وزنی ، اور آپ کے شمائل چودھویں رات کے چاند سے بھی زیادہ روشن ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد نیز آپ کے جلوے سے جلا لینے والے اور آپ کی سنتوں کے شیدائی صحابہ کرام پر دائمی رحمتیں اور سلامتی نازل فرما، جب تک آسمان چاند سے چمکتا رہے اور دھرتی پر مینہ برستا رہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد: مسلمانو!

تقوی الہی اختیار کرو؛ کیونکہ تقوی سب سے اعلی نیکی ہے اور اسی سے شان بلند ہوتی ہے،

{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقہ ڈرو، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]

مسلمانو!

عقدِ نکاح خاوند اور بیوی کے حقوق کا بندھن ہے، جو کہ ہر ایک کو دوسرے کے ساتھ اچھے سلیقے سے رہنے کا پابند کرتا ہے، کہ دوسرے کے حقوق ادا کرنے میں تاخیر مت کرے، حق دیتے ہوئے کڑہن محسوس نہ کرے، اپنے جیون ساتھی کیلیے اخلاق اچھا بنائے، اس پر نرمی کرے نیز اس کی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر کرے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ}

عورتوں کے بھی مناسب طور پر مردوں پر حقوق ہیں جیسا کہ مردوں کے عورتوں پر ہیں۔[البقرة: 228]

حسن معاشرت اور اچھا تعلق آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کے سکون اور زندگی کو خوشگوار بنانے کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ}

اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ [النساء: 19]

یعنی مطلب یہ ہے کہ: ان کے ساتھ مسکراہٹ اور خوش و خرم چہرے کے ساتھ زندگی گزارو، نیز ان کے واجب حقوق ادا کرے جیسے :حق مہر، نان و نفقہ، باری تقسیم کرنا ، اور ایسی بات نہ کرے جس سے بیوی کو تکلیف ہو، بیوی سے منہ موڑ کر کسی اور کی جانب میلان نہ رکھے، تیوری نہ چڑھائے، اس کے سامنے آنے پر بلا وجہ ماتھے پر شکن نہ لائے۔

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو مزید ادب سکھلاتے ہوئے فرمایا:

{فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا}

اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو مگر اللہ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو [النساء: 19]

اس آیت کریمہ میں بیویوں کو اپنی عقد میں رکھنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب ہے چاہے خاوند کو بیوی کی کسی بات سے نفرت بھی ہو؛ کیونکہ دل میں کسی چیز کی نفرت اس چیز میں خیر کی یکسر نفی نہیں کرتی؛ اس لیے ایسا ممکن ہے کہ جو چیز دل کو نہ لبھائے اسی میں دینی اور اخروی اعتبار سے بہتری ہو؛ اسی لیے کتنی ہی مکروہ چیزیں اچھے نتائج کی حامل بن جاتی ہیں اور کتنی ہی دل کو لبھانے والی چیزیں نقصان کا باعث بنتی ہیں۔

بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاوند کو بیوی کی کوئی ایک صفت اچھی نہیں لگتی لیکن اسے اپنے عقد میں باقی رکھنے پر بہت ہی خیر ہوتی ہے جس کا خاوند کو ادراک نہیں ہوتا، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اس بیوی سے نیک اولاد عطا فرمائے اور اللہ تعالی اس نیک اولاد میں بہت خیر فرما دے"

مسلمانو!

انسان کو کبھی کوئی ایسا محبوب نہیں ملے گا جس میں کوئی ناگوار چیز نہ ہو، اس لیے انسان کو اپنے محبوب کی ناگوار چیز پر صبر کرنا چاہیے، اور ایسا نادر ہی ہوتا ہے کہ اکٹھے رہنے والے دو افراد ایک دوسرے کی ساری عادات کو اچھا سمجھتے ہوں، بلکہ اکٹھے رہنے والے دو افراد میں سے ہر ایک دوسرے کی باتوں سے چشم پوشی کر کے ہی اکٹھے رہتا ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (کوئی مومن کسی مومنہ سے ناراضگی نہ رکھے؛ اگر اس کی کوئی بات ناگوار ہو تو اس کی اچھی عادات سے راضی ہو جائے) مسلم

مطلب یہ ہے کہ:

کوئی شخص بھی اپنی بیوی سے حد درجے تک ناراض نہ ہو کہ وہ اسے ، چھوڑنے ، طلاق دینے اور نکاح کا بندھن توڑنے تک پہنچا دے، اگر اس کی کوئی بات گھٹیا لگے تو اس کی اچھی عادتوں کو تلاش کر کے راضی ہو جائے۔

خاوندو!

  • اپنی بیویوں کے ساتھ بندھن قائم رکھو، بہت جلد لڑائی جھگڑے تک نہ پہنچا کرو!
  • طلاق دے کر جدائی ڈالنے میں جلد بازی سے کام مت لو!
  • بناوٹی نفرتیں اور بغض پالنے کیلیے مبالغہ آرائی سے کام مت لو!
  • کتنے ہی ایسے مرد ہیں جنہیں غصہ اور طیش آیا اور پاگل پن کا اسیر بن کر جلد بازی میں طلاق دے دی، پھر بعد میں پشیمان ہو کر رجوع کے راستے ڈھونڈنے لگا، لیکن رجوع کا وقت نکل چکا تھا، اب اس کیلیے واپسی ممکن نہیں رہی!
ایمان والی بیوی!
  • ایسی نہ بنو جو سب کچھ ہڑپ کر کے بھی خوب مذمت کرے، چیخے چلائے، غصے میں رہے ، اپنے خاوند کی کسی بات کو نہ مانے اور اس کی ڈالی ہوئی قسم پوری نہ کرے، اپنے خاوند کا بھر پور خیال کرو، اس کی محبت میں گھری رہو، ضرورت پڑنے پر اس کی مدد کرو، جب بھی بلائے اور آواز لگائے تو فوری جواب دو، اس کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھو، ہمیشہ اس کی اچھائی بیان کرو، اس کے ساتھ بد سلوکی مت کرو، جب وہ شدید غصے میں ہو تو جھگڑا مت کرو اور جب وہ بہت ہی غضب میں ہو تو اس کے سامنے زبان درازی مت کرو۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے عقیل بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے کہا: "تمہیں کون سی خواتین زیادہ پسند ہیں؟" تو انہوں نے کہا: "جو ہماری چاہت کو اپنی چاہت سمجھے" تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: " کون سی خواتین اچھی نہیں ہوتیں؟" تو انہوں نے کہا: "جو ہماری خوشی کو اپنی خوشی نہ سمجھے" اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "یہ تو جلد بازی میں کہہ گئے ہو!" تو عقیل بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "لیکن ہے یہ مبنی بر انصاف"

ابو اذینہ صدفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (تمہاری بہترین خواتین وہ ہیں جو محبت کرنے والی ہوں، بچے جننے والی ہوں، تمہاری اطاعت کے ساتھ غم گساری بھی کرے اور اللہ تعالی سے ڈرے۔ تمہاری بد ترین خواتین وہ ہیں جو بے پردہ پھریں، اپنے آپ پر نازاں رہیں، یہ منافق ہیں، ان میں سے جنت میں صرف اتنی ہی جائیں گی جتنے اعصم [یعنی: سفید]کوّے ہیں!) بیہقی، "اعصم کوّا" اسے کہتے ہیں جس کے پر اور پاؤں دونوں سفید ہوں، آپ ﷺ کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان کی انتہائی معمولی تعداد جنت میں جائے گی؛ کیونکہ کوّوں کی یہ قسم بہت ہی نادر ہے۔

حصین بن محصن اپنی پھوپھی سے بیان کرتے ہیں کہ: وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے آنے کا مقصد پورا کرنے کے بعد ان سے فرمایا: (کیا آپ شادی شدہ ہو؟) تو انہوں نے کہا: "جی ہاں" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم اپنے خاوند کے لیے کیسی ہو؟) تو انہوں نے کہا: "میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتی، الّا کہ میری استطاعت سے باہر ہو" تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (خیال کرنا کہ تمہارا خاوند کے ہاں کیا مقام ہے؛ کیونکہ وہ تمہارے لیے جنت بھی ہے اور جہنم بھی) نسائی

اگر زندگی خوشحال گزر رہی ہو، اخلاقیات سے بھر پور ہو، کسی قسم کی نفرت اور بغض نہ ہو تو بیوی پر طلاق طلب کرنا یا خلع لینا علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق حرام ہے۔

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (کوئی بھی خاتون اپنے خاوند سے بلا وجہ طلاق مانگے تو اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے) اسے ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (خلع لینے والیاں اور [عقدِ نکاح سے] باہر نکلنے والیاں منافق ہیں) اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا وجہ خلع طلب کرنا حرام ہے اور ویسے بھی اس سے خاوند اور بیوی دونوں کا نقصان ہوتا ہے، اور نکاح سے حاصل ہونے والے فوائد بلا وجہ ضائع ہوتے ہیں، اس لیے بلا وجہ خلع طلب کرنا حرام ہوا"

آپس میں ناراض خاوند اور بیوی کے درمیان صلح کروانا مستحب ہے :

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "بریرہ -رضی اللہ عنہا - کا خاوند غلام تھا، جسے مغیث -رضی اللہ عنہ- کہتے تھے، مجھے اب بھی ایسے لگتا ہے کہ وہ ان کے پیچھے اشک بہاتے پھر رہے ہیں اور ان کی ڈاڑھی پر آنسو بہ رہے ہیں" تو نبی ﷺ نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (عباس! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر تعجب نہیں ہوتا!؟) پھر آپ ﷺ نے بریرہ سے فرمایا: (مناسب ہے کہ تم مغیث سے رجوع کر لو!) تو بریرہ نے کہا: "اللہ کے رسول! آپ مجھے حکم دے رہے ہیں؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (میں صرف سفارش کر رہا ہوں) تو اس پر بریرہ نے کہا: "تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں" بخاری

ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ جب عورت خاوند کو پسند نہ کرے تو ولی خاوند کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا، اور اگر عورت اپنے خاوند کو پسند کرے تو ولی ان میں جدائی نہیں ڈلوا سکتا"

اللہ تعالی کتاب و سنت کے ذریعے ہمیں فوائد عنایت فرمائے، کتاب و سنت کی آیتوں، نشانیوں ، وعظ اور حکمتوں سے مستفید فرمائے، میں اللہ تعالی سے بخشش چاہتا ہوں ، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک میرا پروردگار نہایت رحم اور محبت کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کیلیے ہے وہ ہدایت کے طلب گاروں کو ہدایت اور پناہ چاہنے والوں کو پناہ دیتا ہے، وہ اپنی رضا کے متلاشیان کیلیے کافی ہے، انتہا درجے کی تعریفیں اللہ تعالی کیلیے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام سمیت آپ کے راستے پر چلنے والے تمام لوگوں پر رحمتیں نازل فرمائے۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو، اور اسے اپنا نگہبان جانو، اسی کی اطاعت کرو، اور نافرمانی مت کرو،

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ}

اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔ [التوبہ : 119]

مسلمانو!

اللہ تعالی نے طلاق اور خاوند بیوی کا بندھن کھولنے کا اختیار مرد کو دیا، نیز مرد کیلیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال بھی حرام قرار دیا کہ خاوند طلاق دینے کا اختیار بیوی کے استحصال کیلیے استعمال کرے، بیوی کو دھمکیاں دے اور حق طلاق کو بیوی کیلیے لٹکتی ہوئی تلوار بنائے رکھے، اور بیوی کو ہر وقت مقہور بنائے، ڈرائے ،دھکمائے اور ذلیل کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ}

بھلے طریقے سے انہیں رکھو یا اچھے طریقے سے چھوڑ دو۔[البقرة: 229]

سدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

"تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ کا مطلب یہ ہے کہ: بیوی کو پورا حق دے، اسے تکلیف نہ دے، اسے برا بھلا نہ کہے"

جو خاوند اپنی بیوی پر ظلم کرے اسے گزند پہنچائے، مارے، تنگ کرے، اس کے نان و نفقہ اور باری کے حقوق نہ دے، یا اسی طرح کے دیگر ہتھکنڈے اپنائے تا کہ بیوی تنگ آ کر خلع مانگ لے اور حق مہر واپس کر دے، تو ایسی صورت میں ہونے والا خلع باطل ہے اور خاوند کو واپس ملنے والا حق مہر واپس عورت کو دیا جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

{ لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ}

تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔ اور نہ ہی انہیں اس لیے روکے رکھو کہ جو مال (حق مہر وغیرہ) تم انہیں دے چکے ہو اس کا کچھ حصہ واپس لے لو۔ [النساء: 19]

اور اگر بیوی بے حیائی کر بیٹھے؛ پھر خاوند کے تنگ کرنے پر بیوی خلع لے لے تو خلع صحیح ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ}

اور نہ ہی انہیں اس لیے روکے رکھو کہ جو مال (حق مہر وغیرہ) تم انہیں دے چکے ہو اس کا کچھ حصہ واپس لے لو۔ اِلا ّ یہ کہ وہ صریح بد چلنی کا ارتکاب کریں۔ [النساء: 19]

غیر پاکدامن عورت کو اپنے عقد میں رکھنا ہی نہیں چاہیے؛ کیونکہ یہ خاوند کی دینداری ، اخلاق، شہرت اور عزت میں کمی کا باعث ہوگا، اور نہ ہی ایسی عورت چار دیواری کی حفاظت کر سکتی ہے، ممکن ہے کہ کسی اور کا نطفہ خاوند کے نام لگا دے۔

اور جو عورت اللہ تعالی کے واجب حقوق مثلاً نماز وغیرہ کا خیال نہیں رکھتی اور نہ ہی نصیحت قبول کرتی ہے تو اسے طلاق دینا ہی اچھا ہے ۔

مسلمانو!

کچھ مرد ایسے ہوتے ہیں جن کی زبان پر طلاق کا لفظ بہت زیادہ آتا ہے، عام گفتگو میں بھی طلاق کا لفظ بولنا اس کی عادت ہوتی ہے چاہے کوئی چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا، معمولی ہو یا غیر معمولی، تھوڑی سی بات ہو یا زیادہ اس کی زبان پر طلاق کا لفظ ہی ہوتا ہے، اسی طرح یہ بھی بہت مذموم عادت ہے کہ ہر وقت طلاق دینے کی قسم ڈالتا رہے اور کہے:

  • میں طلاق دے دوں گا اگر تم فلاں سے بات نہ کرو!
  • میں طلاق دے دوں گا اگر میں فلاں کا کھانا نہ کھاؤں!
  • میں طلاق دے دوں گا اگر تم فلاں کے ساتھ سفر نہ کرو!
  • میں طلاق دے دوں گا اگر میری بیوی فلاں کے گھر میں داخل نہ ہو!
  • یا اپنے مہمان کو کہے: میں طلاق دے دوں گا اگر تم میرے پاس آج دوپہر یا کل رات کا کھانا نہ کھاؤ!
اس کا مقصد طلاق دینا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اپنی بیوی کو چھوڑنا چاہتا ہے، لیکن وہ ان الفاظ کو بطور قسم استعمال کرتا ہے، اور کسی کام پر ترغیب، کسی کام سے روکنا یا کسی پر کوئی کام لازم کرنا مقصود ہوتا ہے، ایسے الفاظ کا استعمال حرام ہے، یہ مجرمانہ فعل ہے، اس سے عائلی زندگی کی بے قدری چھلکتی ہے، وہ بیوی اور بچوں کے حقوق کی اہمیت سے نابلد ہے، وہ طلاق کے الفاظ اور احکامات سے کھلواڑ کر رہا ہے، اس لیے خاوند کی ذمہ داری ہے کہ اپنی زبان پر طلاق کا لفظ بھی نہ لائے اور طلاق کی دھمکی یا طلاق کے اشارے کنائے سے بھی دور رہے ۔

ابن العربی رحمہ اللہ احکام القرآن میں کہتے ہیں:

"اللہ تعالی کی آیات کو کھیل تماشا بنانے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : ان سے ایک شخص کےبارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو کہتا ہے: "تمہیں سو دفعہ طلاق" تو انہوں نے کہا کہ: "تمہیں اس میں سے تین ہی کافی ہیں، باقی ستانوے کے ذریعے تم نے اللہ تعالی کی آیات کو کھیل تماشا بنا دیا""

مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اللہ تعالی کی آیات کو کھیل تماشا مت بناؤ، اللہ تعالی کی حدوں سے تجاوز مت کرو، اللہ تعالی کی حدوں سے تجاوز کرنے والا اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے، اور اللہ تعالی حدود سے تجاوز کرنے والے ہی ظالم ہیں۔

احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی ﷺ پر بار بار درود و سلام بھیجو، (جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)

یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام نازل فرما، یا اللہ! تمام اہل بیت ، صحابہ کرام اور ان کے کیساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا کریم یا وہاب!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما، دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، یااللہ! اس ملک کو اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو مستحکم اور خوشحال بنا دے۔

یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ اور تیری رضا کا باعث بننے والے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور نیکی و تقوی کے کاموں کیلیے ان کی رہنمائی فرما، یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری شریعت اور سنت نبوی -ﷺ-کے نفاذ کی توفیق عطا فرما۔

یا اللہ! ہمیں وافر رزق عطا فرما، کسی کو ہم پر پھبتی نہ کسنے دے، ہم پر کسی ظالم کو غالب نہ فرما۔

یا اللہ! تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، مصیبت زدہ لوگوں کو عافیت عطا فرما، فوت شدگان پر رحم فرما ، قیدیوں کو رہائی نصیب فرما، اور ہم پر زیادتی کرنے والوں خلاف ہمیں کامیابیاں عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں اپنی ملاقات کیلیے پاک صاف فرما دے، یا اللہ! ہمیں اپنی ملاقات کیلیے پاک صاف فرما دے، یا اللہ! ہمیں تیرے فیصلوں پر رضا مندی عطا فرما، تیری عنایتوں پر ہمیں قناعت عطا فرما، اپنی طرف سے حلال عطا کر کے حرام سے آزاد فرما دے، اپنا فضل دے کر تیرے سوا تمام لوگوں سے بے نیاز کر دے۔

اے بہت زیادہ معاف کرنے والے! اے بہت زیادہ معاف کرنے والے! اے وسیع بخشش والے! اے وسیع بخشش والے! اے قریب رحمت والے! اے قریب رحمت والے! ہمیں معاف فرما دے، ہمیں معاف فرما دے، ہمیں معاف فرما دے۔

تقوی سے ہمیں خوشحال کر دے، اور ہمیں ایسا متقی بنا دے گویا کہ ہم تجھے دیکھ رہے ہیں۔

یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔

یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس لوگوں میں شامل مت فرما۔

یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں رب العالمین کیلیے ہیں۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کیلیے کلک کریں

عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ سمیت انگلش ترجمہ کیلیے کلک کریں
 
Last edited:
Top