• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خاوند کا اپنی بیوی کو دفن کرنے کا حکم ؟؟؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خاوند کا اپنی بیوی کو دفن کرنے کا حکم ؟؟؟

سوال: کیا خاوند کو اپنی فوت شدہ بیوی کی تدفین کرنے کی اجازت ہے؟ اور کیا احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ محترمہ کو دفن کیا ہو؟

الحمد للہ:

جی ہاں!خاوند اپنی بیوی کو دفن کرنے کے معاملات خود کر سکتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے کہ وہ دیگر خواتین کو بھی دفن کرسکتا ہے، بلکہ یہی بہتر ہے۔

لیکن شرط یہ ہے کہ اس رات کو خاوند نے ہمبستری نہ کی ہو، بصورت دیگر اسے دفن کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، چنانچہ کسی اور شخص کو دفن کرنے کیلئے ترجیح دی جائے گی، چاہے وہ اجنبی ہی کیوں نہ ہو، لیکن اس اجنبی پر بھی یہی شرط لاگو ہوگی کہ اس نے بھی اس رات ہمبستری نہ کی ہو؛

اسکی دلیل انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ وہ کہتے ہیں:

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے جنازے میں شریک تھے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے قریب بیٹھے تھے، تو میں نے دیکھا آپکی آنکھیں اشکبار تھیں"، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی ایسا ہے جس نے آج رات جماع نہ کیا ہو؟) تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "میں ہوں!" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(تو تم اترو!) انس کہتے ہیں: تو ابو طلحہ آپکی صاحبزادی کی قبر میں اترے"

بخاری: (1285) مزید کیلئے دیکھیں: "أحكام الجنائز " از: شیخ البانی مسئلہ نمبر: (99 )


اور ایسی کوئی حدیث نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ محترمہ کو دفن کیا ہو، کیونکہ آپکی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ تمام کی تمام ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہی فوت ہوئی ہیں۔

لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ مروی ہے جس سے اس فعل کی شرعی حیثیت ثابت ہوجاتی ہے، آپ کہتی ہیں:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع سے واپس آئے، تو مجھے درد ِ سر میں مبتلا پایا، اور میں شدت درد سے کہہ رہی تھی: "ہائے میرا سر!!"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں عائشہ ! میں کہتا ہوں: میرا سر!!)[مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ناساز تھی، اور یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے انتہائی آخری ایام میں ہوا تھا، اور اس کے فوراً بعد آپکو مرض الموت لاحق ہوگیا تھا۔ مترجم] پھر آپ نے فرمایا: (اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوجاؤ تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا، میں ہی تمہیں غسل دونگا، کفن پہناؤں گا، اور جنازہ پڑھ کر دفن کرونگا)"

ابن ماجہ: (1465) اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "احکام الجنائز": (50) پر صحیح کہا ہے، اس حدیث کی اصل صحیحین میں ہے۔


اور ہمیں خاوند کے اپنی بیوی کو دفن کرنے کے بارے میں اہل علم کے مابین کسی قسم کے اختلاف رائے کا علم نہیں ہے۔

مزید کیلئے دیکھیں: "أحكام الجنائز" از: شيخ البانی رحمہ الله (147-149)

واللہ اعلم.

اسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/205258
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اصل میں سب سے پہلا اور اہم مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا خاوند اپنی فوت ہونے والی بیوی کو غسل دے سکتا ہے یا نہیں ۔
اسی طرح بیوی ۔اپنے خاوند کو غسل دے سکتی ہے یا نہیں ؟
حدیث و سنت سے ثابت حکم یہ ہے کہ دونوں اک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں ۔مندرجہ ذیل احادیث دیکھیں :
سنن ابن ماجہ
باب : ما جاء في غسل الرجل امرأته وغسل المرأة زوجها
باب: شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو غسل دے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 1464
‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ "لَوْ كُنْتُ اسْتَقْبَلْتُ مِنَ الأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا غَسَّلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ نِسَائِهِ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر مجھے اپنی اس بات کا علم پہلے ہی ہو گیا ہوتا جو بعد میں ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیویاں ہی غسل دیتیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۱۶۱۸۲، ومصباح الزجاجة : ۵۱۹)، وقد أخرجہ : سنن ابی داود/الجنائز ۳۲ (۳۱۴۱)، مسند احمد (۶/۲۶۷) (صحیح) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن منتقی ابن الجارو د، صحیح ابن حبان اور مستدرک الحاکم میں تحد یث کی صراحت ہے، دفاع عن الحدیث النبوی ۵۳-۵۴، والإرواء : ۷۰۰)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے کیونکہ بیوی محرم راز ہوتی ہے، اور اس سے ستر بھی نہیں ہوتا، پس اس کا غسل دینا شوہر کو بہ نسبت دوسروں کے اولیٰ اور بہتر ہے، اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا، اور کسی صحابی نے اس پر نکیر نہیں کی، اور یہ مسئلہ اتفاقی ہے، نیز ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کو غسل نہ دے سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اگر یہ جائز نہ ہوتا تو وہ افسوس کا اظہار نہ کرتیں، جیسا کہ امام بیہقی فرماتے ہیں: «فتلهفت على ذلك ولا يتلهف إلا على ما يجوز»۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ( الاسلام سؤال و جواب سائیٹ ) پر مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ :
ويدل لجواز غسل الرجل زوجته حديث عائشة رضي الله عنها قالت : ( رَجَعَ إلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ جِنَازَةٍ بِالْبَقِيعِ وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِي رَأْسِي وَأَقُولُ : وَارَأْسَاهُ , فَقَالَ : بَلْ أَنَا وَارَأْسَاهُ , مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ , ثُمَّ صَلَّيْتُ عَلَيْكِ وَدَفَنْتُكِ ) رواه أحمد (25380) ، وابن ماجة (1456)، وصححه الشيخ الألباني في صحيح ابن ماجة (1/247) .
مرد کا اپنی فوت ہونے والی بیوی کو غسل دینے کے جائز ہونے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث دلیل ہے جس میں وہ فرماتی ہیں کہ :
(( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع سے لوٹے تو مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا، اور میں کہہ رہی تھی: ”ہائے سر!“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ اے عائشہ! میں ہائے سر کہتا ہوں“ ۱؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا نقصان ہو گا اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوگئی تو تمہارے سارے کام میں انجام دوں گا، تمہیں غسل دلاؤں گا، تمہاری تکفین کروں گا، تمہاری نماز جنازہ پڑھاؤں گا، اور تمہیں دفن کروں گا“))
اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بھی اس کے جواز کی دلیل ہے :

وعن أسماء بنت عميس رضي الله عنها : ( أَنَّ فَاطِمَةَ رضي الله عنها أَوْصَتْ أَنْ يُغَسِّلَهَا عَلِيٌّ رضي الله عنه ) رواه الشافعي (1/312) ، والدار قطني (2/79) ، والبيهقي (3/396) وحسن إسناده الشوكاني في "نيل الأوطار" (4/35) .
"یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی تھی کہ مجھے (فوت ہونے کے بعد ) جناب علی رضی اللہ عنہ ہی غسل دیں "

اور علامہ محمد بن علی شوکانیؒ فرماتے ہیں :

قال الشوكاني : "في قوله عليه الصلاة والسلام : (فغسلتك) فيه دليل على أن المرأة يغسلها زوجها إذا ماتت..." انتهى من "نيل الأوطار" (4/35) .
وقال الصنعاني رحمه الله في حديث أسماء رضي الله عنها : "يدل على أنه كان أمراً معروفاً في حياته صلى الله عليه..." انتهى من "سبل السلام" (1/478) .
وإلى هذا ذهب جمهور أهل العلم رحمهم الله .

قال النووي رحمه الله : " وأما غسله زوجته فجائز عندنا , وعند جمهور العلماء , حكاه ابن المنذر عن علقمة وجابر بن زيد وعبد الرحمن بن الأسود ...ومالك والأوزاعي وأحمد وإسحاق ، وهو مذهب عطاء وداود وابن المنذر ‘‘ "شرح المهذب" (5/122) .
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
حدیث نبوی کے مشہور شارح اور محدث علامہ محی الدین النوویؒ اپنی عظیم تصنیف (المجموع شرح المھذب ) میں فرماتے ہیں :

قال النووي رحمه الله : " وأما غسله زوجته فجائز عندنا , وعند جمهور العلماء , حكاه ابن المنذر عن علقمة وجابر بن زيد وعبد الرحمن بن الأسود ...ومالك والأوزاعي وأحمد وإسحاق ، وهو مذهب عطاء وداود وابن المنذر ‘‘ "شرح المهذب" (5/122) .
" مرد کا اپنی فوت ہونے والی بیوی کو غسل دینا ہمارے نزدیک اور جمہور علماء کے نزدیک جائز ہے ، جمہور کے ہاں اس عمل کے جواز کو امام ابن المنذرؒ نے جناب علقمہؒ ، سیدنا جابر بن زیدؒ ،اور عبدالرحمن بن الاسودؒ ، امام مالک ؒ ، امام احمدؒ ،امام اسحاقؒ بن راہویہؒ سے نقل فرمایا ہے ، اور جناب امام عطا بن ابی رباحؒ ، امام داود الظاہریؒ ،امام ابن المنذرؒ کا بھی یہی مذہب ہے " المجموع شرح المھذب ،کتاب الجنائز )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top