• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خاوند کے حقوق کے متعلق ایک حدیث کی تحقیق

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
محترم بھائی @Abdul Mussavir
نے سوال کیا ہے :
السلام علیکم اس روایت کی تحقیق بتائیں؛
کیا اس حدیث کی صحت ثابت ہے ؟
أتى رجل بابنته إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال إن ابنتي هذه أبت أن تتزوج فقال لها رسول الله صلى الله عليه و سلم أطيعي أباك فقالت والذي بعثك بالحق لا أتزوج حتى تخبرني ما حق الزوج على زوجته قال حق الزوج على زوجته لو كانت به قرحة فلحستها أو انتثر منخراه صديدا أو دما ثم ابتلعته ما أدت حقه قالت والذي بعثك بالحق لا أتزوج أبدا فقال النبي صلى الله عليه و سلم لا تنكحوهن إلا بإذنهن
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس حدیث کے متعلق چار سال پہلے تفصیل سے تحقیق پیش کرچکا ہوں ،
یہ تھریڈ ملاحظہ فرمائیں : (خاوند کا بیوی پر حق )

امام ابوبکر ابن ابی شیبہؒ (المتوفی 235ھ) نے اپنی عظیم کتاب " المصنف " میں روایت کیا ہے کہ :
حدثنا جعفر بن عون، قال: أخبرنا ربيعة بن عثمان، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن نهار العبدي وكان من أصحاب أبي سعيد الخدري، عن أبي سعيد، أن رجلا أتى بابنة له إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن ابنتي هذه أبت أن تتزوج، قال: فقال لها: «أطيعي أباك» قال: فقالت: لا، حتى تخبرني ما حق الزوج على زوجته؟ فرددت عليه مقالتها قال: فقال: «حق الزوج على زوجته أن لو كان به قرحة فلحستها، أو ابتدر منخراه صديدا أو دما، ثم لحسته ما أدت حقه» قال: فقالت: والذي بعثك بالحق لا أتزوج أبدا قال: فقال: «لا تنكحوهن إلا بإذنهن»
ترجمہ :
سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی اپنی بیٹی کو لے کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ میری یہ بیٹی شادی کرنے سے انکار کررہی ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی سے فرمایا کہ اپنے باپ کی بات مان لو۔ اس لڑکی نے کہا کہ میں اس وقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک آپ مجھے یہ نہ بتادیں کہ بیوی پر خاوند کا کیا حق ہے ؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوی پر خاوند کا حق یہ ہے کہ اگر خاوند کوجسم میں زخم یا پھوڑا ہو اور اس کی بیوی اس پھوڑے کو چاٹے یا اس سے پیپ اور خون نکلے اس کی بیوی اس کو چاٹے تو پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا۔ اس پر اس لڑکی نے کہا کہ پھر تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں کبھی شادی نہیں کروں گی۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے باپ سے ) فرمایا کہ عورتوں کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر نہ کرو۔"


رواه ابن أبي شيبة في " المصنف " (3/556)، والنسائي في "السنن الكبرى" (3/283)، والبزار – كما في " كشف الأستار " (رقم/1465) - وابن حبان في " صحيحه " (9/473)، والحاكم في " المستدرك " (2/205)، وعنه البيهقي في " السنن الكبرى " (7/291)
یہ حدیث صحیح ہے ۔علامہ ناصر الدین الالبانی ؒؒ نے اسے ۔حسن صحیح ۔کہا ہے۔۔حسن صحيح - ((التعليق الرغيب))
اور علامہ شعیب ارناوط نے صحیح ابن حبان کی تعلیق و تخریج میں اسے ’‘ حسن ’‘قرار دیا ہے ،لکھتے ہیں :


" إسناده حسن. نهار العبدي: روى له ابن ماجه، وهو صدوق، وباقي السند ثقات رجاله رجال الصحيح غير ربيعة بن عثمان فقد أخرج له مسلم، وهو مختلف فيه، وثقه ابن معين، وابن نمير، والحاكم وغيرهم، وقال النسائي: ليس به بأس، وذكره المؤلف في "الثقات"، هو إلى الصدوق ما هو، وليس بذلك القويّ، وقال ابو حاتم: منكر الحديث يكتب حديثه.
وأخرجه النسائي في الكبرى كما في التحفة 3/475 عن أحمد بن عثمان بن حكيم، بهذا الإسناد.
وأخرجه من طرق عن جعفر بن عون، به: ابن أبي شيبة 4/303، والدارقطني 3/237، والحاكم 2/188، والبزار 1465، والبيهقي 7/291، ولفظ ابن أبي شيبة والدارقطني: "لا تنكحوهن إلا بإذنهن".


خلاصہ یہ کہ اس حدیث کی اسناد حسن ہے ، اس کے ایک راوی "ربیعہ بن عثمان "کے علاوہ تمام راوی ثقہ ہیں ، اور اگر چہ امام مسلمؒ نےربیعہ کی روایت لی ہے تاہم وہ "مختلف فیہ " ہے یعنی اس کی توثیق میں اختلاف ہے ،
امام ابن معین ؒ امام حاکمؒ اور ابن نمیرؒ وغیرہم نے اسے ثقہ کہا ہے ،اور امام نسائیؒ نے اسے "لا باس بہ " کہا ہے ،اور ابن حبانؒ نے اسے ثقات میں درج کیا ہے ،وہ اس درجہ قوی تو نہیں ،اور امام ابو حاتمؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ :اس کی حدیث لکھی جائے گی لیکن یہ منکر الحدیث ہے ، "

اور امام عبدلعظیم المنذریؒ (المتوفی 656ھ) اپنی کتاب "الترغیب والترہیب" میں اس حدیث کو نقل فرماکر لکھتے ہیں :
رَوَاهُ الْبَزَّار بِإِسْنَاد جيد رُوَاته ثِقَات مَشْهُورُونَ وَابْن حبَان فِي صَحِيحه
"اس حدیث کو امام بزارؒ نے عمدہ اسناد سے روایت کیا ہے ،اس کے تمام راوی ثقہ ہیں ،اور اس حدیث کو امام ابن حبانؒ نے بھی روایت کیا ۔
(الترغيب والترهيب ،کتاب النکاح 2975 )​
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭٭٭
اور خاوند کے حقوق کے ضمن میں اسی معنی کی ایک روایت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے صحیح الجامع الصغیر میں اس طرح منقول ہے :
عن انس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " لا يصلح لبشر أن يسجد لبشر، ولو صلح أن يسجد بشر لبشر ، لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها من عظم حقه عليها، والذي نفسي بيده ، لو أن من قدمه إلى مفرق رأسه قرحة تنبجس بالقيح والصديد ، ثم أقبلت تلحسه ، ما أدت حقه ".
الحديث عزاه الشيخ الألباني في صحيح الجامع (2/1277) ح (7725) إلى أحمد ، والنساني ) . وصححه . وانظر صحيح الترغيب (3/75) .
ترجمہ :
(جناب انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انسان کے لیے کسی بھی انسان کو سجدہ کرنا صحیح نہیں ، اوراگرانسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنا صحیح ہوتا تو میں عورت کوحکم دیتا کہ وہ اپنےخاوند کوسجدہ کرتی اس لیے کہ اس کا عورت پر بہت ‏عظیم حق ہے ، اوراس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اس کے پاؤں سے لیکر اس کے سرتک زخم پیپ سےبھرے ہوں اورپیپ رس رہی تووہ بیوی اس کے پاس آئے اوراسے چاٹ لے پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا ) "
علامہ ناصرالدین الالبانیؒ نے اس حدیث کے لئے مسند احمدؒ اورنسائیؒ کا حوالہ دیا ہے،
صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7725 )
لیکن مسند احمد کی تحقیق میں علامہ شعیب ارناؤط نے اس کے آخری جملہ کو غیر محفوظ کہا ہے ،
الارناؤط لکھتے ہیں :
صحيح لغيره دون قوله: "والذي نفسي بيده لو كان من قدمه ... الخ"، وهذا الحرف تفرد به حسين المرُّوذي عن خلف بن خليفة، وخلف كان قد اختلط قبل موته.
وأخرجه الضياء في "المختارة" (1895) من طريق عبد الله بن أحمد بن حنبل، عن أبيه، بهذا الإسناد.
وأخرجه البزار (2454) ، وأبو نعيم في "الدلائل" (287) من طريق محمد ابن معاوية بن مالج البغدادي، عن خلف بن خليفة، به -دون قوله "لو كان من قدمه ... " ومحمد بن معاوية قال النسائي ومسلمة بن القاسم: لا بأس به، وقال أبو بكر البزار: ثقة.
ويشهد لرواية محمد بن معاوية ويشدها حديث عبد الله بن عباس عند الطبراني في "الكبير" (12003) ، وإسناده قوي.
وحديث عبد الله بن أبي أوفى عند أبي نعيم (286) ، والبيهقي 6/29، كلاهما في "دلائل النبوة" وإسناده ضعيف.
وحديث أبي هريرة مختصراً عند البزار (2451) ، وابن حبان (4162) ، وإسناده حسن. وهو عند الترمذي (1159) ، والبيهقي 7/291 من حديثه دون قصة الجمل.
وحديث عائشة، سيأتي 6/76. إسناده ضعيف وأخرج من حديث خلف بن خليفة قول النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لا يصلح لبشرٍ أن يسجد لبشر ... الخ" دون قصة القرْحة: النسائيُّ في "الكبرى" (9147) عن محمد بن معاوية بن مالج، عن خلف، به.
ويشهد له حديث عبد الله بن أبي أوفى، وسيأتي في مسنده 4/381، وإسناده حسن، وصححه ابن حبان برقم (4171) .
وحديث معاذ بن جبل، وسيأتي 5/227، ورجاله ثقات لكن فيه انقطاع.
وانظر "مجمع الزوائد" للهيثمي 4/307-311.
ويشهد لقصة القرْحة حديث أبي سعيد عند ابن حبان (4164) وغيره، وفي إسناده مقال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بقول علامہ البانیؒ اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو اس سے مقصود خاوند کی اطاعت و خدمت میں مبالغہ اورتاکید ہے یہ مراد نہیں کہ عورت اپنے خاوند کے زخموں کو چوستی رہے یا پیپ پینے لگے ،کیونکہ پیپ اور زخموں سے نکلنے والا مواد نجس اور گندا ہوتا ہے جسے پینا جائز نہیں ،حدیث کا معنی صرف یہ ہے کہ خاوند کا بیوی پر بہت بڑا حق ہے ۔

والحديث يدل على المبالغة والتأكيد في حق الزوج ، وليس معنى الحديث أنه يجوز لها أن تلعق ذلك لأنه نجس وقذر ، كما لا يجوز لها أن تسجد له ، لأن السجود لله وحده .
ولكن هذا كله ـ كما سبق ـ دليل على عظم حق الزوج على زوجته
وإذا صح الحديث ، وجب على المسلم أن يقول عند ذلك : سمعنا وأطعنا . والله تعالى أعلم

http://majles.alukah.net/t41976/
 
Last edited:
Top