• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خاک پر سجدہ

شمولیت
اگست 19، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
خاک پر سجدہ

یہاں پر ایک سوال ہے جو اہل سنت ہمیشہ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ شیعہ اپنے ساتھ ہمیشہ پاک مٹی کیوں رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کیوںکرتے ہیں ؟ اس کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ نہیں کرتے ؟ جبکہ ہم نے اس کے متعلق پہلے بھی کہا ہے کہ سادے لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ اس کے لئے سجدہ کرتے ہیں ، اس پر سجدہ نہیں کرتے اور پتھر اور خاک کی عبادت نہیں کرتے !اس کی وجہ یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے خاک پر سجدہ اور خاک کے لئے سجدہ میں کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔
بہرحال اس سوال کا جواب واضح ہے کہ شیعوں کے نزدیک بہتر یہ ہے کہ وہ پاک مٹی جس کے متعلق پاک ہونے کا یقین ہے ا
س کو اپنے ساتھ رکھیں، چاہے وہ کسی زمین کی ہو یادنیا کے کسی بھی حصہ کی کیوں نہ ہو، اس مسئلہ میں سب برابر ہیں ، جس طرح نمازی اپنے لباس اور بدن کی پاکیزگی کا خیال رکھتا ہے اسی طرح وہ سجدہ کرنے کیلئے اپنے ساتھ پاک مٹی رکھتا ہے تاکہ پاکیزگی کا اطمنان رہے کیونکہ ہر جگہ کی زمین کو پاک تصور نہیں کیا جاسکتااور اس پر نماز اور سجدہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ زمین پر چلنے پھرنے والے مختلف طرح کے لوگ ہیں مسلمان غیر مسلمان بعض پاکیزگی کی رعایت کرتے ہیں اور بعض رعایت نہیں کرتے اسی وجہ سے ہر جگہ میںشک ہے جس کی وجہ سے مشکل ہوجاتی ہے ، لہذا مجبوراً پاک مٹی جس کی طہارت وپاکیزگی کا یقین ہوتا ہے اس کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور نماز کے وقت اس پر سجدہ کرتے ہیں ، وہ نہیں چاہتے کہ بھولے سے بھی نجس یاگندی چیز پر سجدہ کریں ، کیونکہ نجس اور گندی چیزوں پر سجدہ کرنے سے خدا کاتقرب حاصل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان پر سجدہ جائز ہے ونیز عقل سلیم بھی اس کو قبول نہیں کرتی ہے ۔
جبکہ خاص طور سے تاکید کی گئی ہے کہ نماز گزار کا بدن اور اس کا لباس پاک ہو اور وہ ایسی جگہ پر نماز پڑھے جہاں پر کوئی گندگی یا کوڑاکرکٹ وغیرہ نہ ہو وہ قربانی کی جگہ نہ ہو یا پایخانہ اور حمام کی جگہ نہ ہواس جگہ پر اونٹ وغیرہ نہ بیٹھتے ہوں ان جیسی تمام جگہوں پر نماز پڑھنے کے لیے منع کیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اپنی مساجد کو پاک وصاف اور خشبودار رکھو(۱) ۔
یہ قاعدہ و قانون گذشتہ متقی اورصالح افراد کے یہاں پایا جاتا تھا اگرچہ تاریخ نے اس کو نقل کرنے میں غفلت سے کام لیا ہے ۔
روایت میں ہے کہ ایک صحابی فقیہ مسروق بن اٴجدع تھے ، (جن کی وفات ۶۲ ھجری میں واقع ہوئی ) وہ جب سفر کرتے تھے تو اپنے ساتھ مدینہ سے کچھ مٹی ساتھ لے جاتے تھے اور اس پر سجدہ کرتے تھے ۔ اس روایت کو ابی شیبہ نے اپنی کتاب ”المصنف “ کے اُ س باب میںذکر کیا ہے کہ جب کوئی کشتی کا سفرکرے تو مدینہ سے اپنے ساتھ مٹی لے جائے اور اس پر سجدہ کرے ۔نیز اس روایت کو دو سند وںکے ساتھ نقل کیا ہے کہ جب بھی مسروق بن اجدع کشتی میں سفر کرتے تھے تو اپنے ساتھ مٹی یااس کے جیسی چیزیں سجدہ کرنے کے لیے اپنے ساتھ رکھ لیتے تھے (۲) ۔
یہاں تک واضح ہوگیاکہ شیعہ آسانی کی وجہ سے ہمیشہ سفر اور حضر میں مٹی اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں کیونکہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر سفر وحضر میں ان کو پاک زمین یا پاک چٹائی وغیرہ نہ ملے اور ان کے لیے مشکل ہوجائے تو اس پاک و پاکیزہ مٹی پر سجدہ کریں اور اس پر تیمم کریں ۔(۳) ۔


۱۔ سیرتنا وسنتنا : ص ۱۵۸، ۔ ۱۵۹۔
۲۔ المصنف : ج۲، ص ۱۷۲، دار الفکر ، چاپ ۱۴۰۹ھ۔
۳۔ سیمای عقاید شیعہ ، ص ۴۳۳۔
 
شمولیت
اگست 19، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
سجدہ میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )کی سنتّ


پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور آپ کے اصحاب ایک مدت تک زمین پر سجدہ کرتے رہے ، اس کے علاوہ سخت زمین ، ریگزارغبار، خاک ، اور گیلی مٹی پر بھی ایک مدت تک رسول اسلام کے زمانے میں سجدہ ہواہے ، اس زمانہ میں کسی نے بھی کپڑے اورعمامہ کے کسی حصہ ، یا چٹائی یابوریہ اور دری یا ”خُمرہ“ (۱) پرسجدہ نہیں کیااور پیشانی کواذیت سے محفوظ رکھنے کے لئے کنکریوں کو ہاتھ سے ٹھنڈا کرتے تھے اس کے بعد پیشانی کو ان کے اوپر رکھتے تھے ،ایک شخص نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے گرمی کی شدت کی شکایت کی لیکن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اسکا کوئی جواب نہیں دیا چونکہ آپ اپنی طرف سے خدا کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے تھے یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے دوسرا حکم آیا کہ چٹائی وغیرہ پر بھی سجدہ کرسکتے ہیں یعنی کسی حد تک مسلمانوں کوآسانی عطا کی ۔
لہذا اس زمانے میں مسلمان دو مراحل سے گذرے ہیں :
۱۔ ایک مرحلہ یہ تھا کہ مسلمان صرف زمین اور اس کے جیسی مختلف چیزوں پر سجدہ کریں ، جیسے :خاک، ریت اور چٹائی وغیرہ اور ن کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ کی اجازت نہیں تھی ۔
۲۔ دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ ان کو اجازت دے دی گئی تھی کہ زمین کی گھاس جیسے بوریہ،چٹائی اور خمرہ وغیرہ پر سجدہ کریں تاکہ ان کے لیے سجدہ کرنے میں آسانی ہوجائے اور مشقت دور ہوجائے، اور اس سے زیادہ جس کے متعلق بعض لوگ ادعا کرتے ہیں اس کی مسلمانوں کو کوئی چھوٹ نہیں دی گئی ہے (۲) ۔


۱۔ خُمرہ : چٹائی یا کھاس کے چھوٹے سے ٹکڑے کو کہتے ہٰیں جس پر سجدہ کیا جاتا تھا ۔
۲۔ سیمای عقاید شیعہ ۔ ص ۴۲۵۔
 
شمولیت
اگست 19، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
کن چیزوں پر سجدہ صحیح ہے


مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے واجب ہیں اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سجدہ کس کے لیے کیا جاتا ہے کیونکہ تمام ہی مسلمان خداوندعالم کے لیے سجدہ کرتے ہیں ، اوراسی طرح زمین و آسمان اور ان میں رہنے والے خداہی کا سجدہ کرتے ہیں (۱) ۔
اختلاف اس بات میں ہے کہ کس چیز پر سجدہ کیا جائے اورکس چیز پر پیشانی کو رکھا جائے ۔ شیعہ امامیہ معتقد ہیں کہ زمین پر یا اس سے اُگنے والی ان چیزوں پر جو کھائی اور پہنی نہیں جاتی سجدہ کرنا صحیح ہے جیسے چٹائی یا اس کے جیسی دوسری چیزیں۔ لیکن دوسرے مذاہب اس مسئلہ میں شیعوں کے مخالف ہیں لہذا یہا ں پر تمام مذاہب کے نظریات کو بیان کریں گے :
شیخ طوسی (۲) دوسرے فقہاء کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : سجدہ صرف زمین پر واجب ہے یا ان چیزوں پر واجب ہے جو زمین سے اگتی ہیں اور کھائی یا پہنی نہیں جاتیں، لیکن علماء اہل سنتّ روئی ، بالوں اور اُون پر سجدہ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں ،اس کے بعد کہتے ہیں ہیں جو چیزیںانسان پہنے ہوئے ہوتا ہے جیسے عمامہ ، ردا ، آستین وغیرہ پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے ، اور یہی قول شافعی کا ہے ،اسی طرح اس مسئلہ کو علی( (علیہ السلام)) ، ابن عمر ، عبادة بن صامت ، مالک ، واحمد بن حنبل وغیرہ نے بھی نقل کیاہے ۔
ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا ہے : اگر نماز ی اس چیز پر سجدہ کرے جو خود پہنے ہوے ہو جیسے لباس وغیرہ تو یہ بھی کافی ہے یا اس چیز پر سجدہ کرے جو اس سے جدانہیں ہوسکتیںجیسے اپنے ہاتھ کو پھیلائے اور اس پر سجدہ کرے تو کافی ہے لیکن یہ فعل مکروہ ہے۔
یہی قول حسن بصری سے بھی نقل ہوا ہے (۳) ۔
علامہ حلّی (۴) سجدہ کے متعلق فقہاء کے نظریات کوبیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : سجدہ زمین اور زمین سے نہ اُگنے والی چیزوں جیسے کھال اور اُون وغیرہ پر جائز نہیں ہے لیکن علماء اہل سنتّ اس کو جائز سمجھتے ہیں (۵) ۔
اس مسئلہ میں شیعہ حضرات ، اپنے اماموں کی پیروی کرتے ہیں جوکہ حدیث ثقلین میں قرآن کریم کے ہم پلہ ہیں لہذا یہاں پر جو روایات ان سے صادر وہوئی ہیں ان پر اکتفا کرتے ہیں :
شیخ صدوق اپنی سند کے ساتھ ہشام بن حکم سے نقل کرتے ہیں : انھوں نے امام صادق (علیہ السلام) سے معلوم کیا کہ سجدہ کن چیزوں پر جائز ہے اور کن پر جائز نہٰیں ہے ؟ تو امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: سجدہ صرف زمین اور زمین سے اگنے والی چیزوں کے علاوہ دوسری چیزوں پر جائز نہیںہے، پھر ہشام نے معلوم کیا: آقا میں آپ پر قربان ہوجاوٴں اس کی علت تو بیان فرمایئے ؟ امام (علیہ السلام) نے فرمایا کیونکہ سجدہ خضوع اور خشوع کے ساتھ خدا کے لیے کیا جاتا ہے لہذا ضروری ہے کہ وہ چیزیں جو کھانے پینے میں استعمال ہوتی ہیں ان پر سجدہ نہ کیا جائے چونکہ انسان اس دنیا میںان جیسی چیزوں کا محتاج ہے، سجدہ کرنے والا اپنے سجدے میں خدا کی عبادت کرتا ہے ا س لیے بہتر نہیں ہے کہ سجدے میں اپنی پیشانی کو ایسی چیز پر رکھے جو دنیا کے لوگوں کی معبود ہے(۶) ۔
امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : ہر وہ چیز جو انسان کی غذایا اس کے کھانے اور پہننے میں استعمال ہوتی ہو اس پر سجدہ کرنا اور نماز پڑھنا جائز نہیں ہے مگریہ کہ وہ چیزیں زمین سے اُ گنے والی ہوں اور پھل وغیرہ نہ ہوں اسی طرح ان کو ابھی تک بنا نہ گیا ہو ا، اگربنا ہوا ہو تو پھر اس نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن ضرورت کی حالت میں نماز پڑھی جاسکتی ہے (۷) ۔
لہذا شیعوں پر اشکال واعتراض کرنا درست نہیں ہے کہ وہ زمین یا اس سے اُگنے ولی چیزوں پر سجد ہ کرتے ہیں جو کھائی اور پہنی نہیں جاتی اور اس مسئلہ میں وہ اپنے اماموں کی اقتدا کرتے ہیں ، اس کے علاوہ اہل سنتّ اس مورد میں جو روایات نقل کرتے ہیں ان سے شیعوں کے نظریہ کی تائید ہوتی ہے (۸) ۔


۱۔ سوٴرہ رعد: آےت نمبر ۱۵، وسوٴرہ فصلت آیت نمبر ۳۷۔
۲۔ پانچویں صدی کے شیعوں کے بزرگ علماء جن کی بیشمار کتابیں ہیں (۳۸۵۔ ۴۶۰ق) ۔ شیخ مفید کے شاگرد وغیرہ (۳۳۶۔۴۱۳ق)اور سیدّ مرتضیٰ (۳۵۵۔ ۴۳۶ق) ۔
۳۔ الخلاف : ج۱، ص ۳۵۸، مسا لہ نمبر ۱۱۲ ، و۱۱۳ ، کتاب الصلاة ۔
۴۔ حسن بن یوسف بن مطہّر حلّی (۶۴۸۔ ۷۲۶ق) ساتویں اور آٹھویں صدی میں شیعوں کے بہت بڑے عالم و رہبر ۔
۵۔ تذکرة : ج۲ ، ص ۴۳۴، مسا لہ نمبر ۱۰۰ ۔
۶۔ وسائل الشیعہ : ج ۳، باب ۱، ان ابواب میں سے جن پر سجدہ کیا جاتا ہے ، حدیث ۱، اس باب میں دیگر احادیث ہیں جو بیان کرتی ہیں سجدہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کوحقیر محسوس کرے اور یہ فقط زمین پر سجدہ کرنے سے ہی ظاہر ہوتا ہے ۔
۷۔ گذشتہ حوالہ، حدیث ۱۱۔
۸۔ سیمای عقاید شیعہ ص ۴۲۱ ۔
 

فقہ جعفری

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2011
پیغامات
35
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
0
شیعہ مذہب کا بھی رنگ نرالا ہے، نماز کی پابندی کا خاص اہتمام نہیں، امام باڑے آباد اور مسجدیں اُجاڑ! جس نے کبھی پڑھی تو دو دو جمع کرلیں۔شرک چونکہ اس مذہب کے عقیدے، عمل اور گھٹی میں ہے، اس لیے نماز جیسے افضل الاعمال کو بھی اس گندگی سے ملوث کردیا ہے۔خاکِ کربلا کی ایک تعظیماً بنا رکھی ہے اس پر سجدہ ہی نہیں کرتے بحالت سجدہ آنکھیں و رخسار اس پر ملتے، پھر اسے اٹھا کر بار بار چومتے اور تسبیح کے ساتھ جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ خدا کی عبادت کے تو خاص افعال ہیں، خدا کی تعظیم اور اپنی پستی و عاجزی نمازی کے بدن سے ظاہر ہونی چاہیے۔

مگر حضرت حسین ؓ کی نسبت وتعظیم سے اس فرضی مٹی کی بنی ہوئی ٹکیہ کی اس قدر تعظیم اور بوس و چاٹ اور عبدیت کی پیشانی صرف اس پر ٹیک کر تسکین و لذت پانا کچھ اور ہی باور کراتا ہے اور وہ ’’دال میں کالا کالا‘‘ بلکہ ساری دال ہی کالی ہے اور یہ شرک ہی ہے۔مشرکین اپنے معظم بزرگوں، سرکاروں، دیوتاؤں کی شکل پر یادگاری بت بناکر ان کی بھی تعظیم و عبادت کرتے ہیں اور اسے خدا کے تقرب کا ذریعہ جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ:

’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے (بطور وسیلہ) کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں گے..... یقینا اللہ جھوٹے اور بڑے منکر کوہدایت نہیں دیتا‘‘۔ (سورۂ زمر)

ما فوق الاسباب توسل شرک کی جڑ ہے۔ شیعہ دعویٰ اسلام کی وجہ سے بت بنانے کی جرأت تو نہ کر سکے گو خاص خاص گھروں میں اور خصوصاً ایران میں عام گھروں میں اہل بیت ؓ کے نام کی تصاویر اور بت بنے ہوئے ملتے ہیں۔ لیکن حضرت علی ؓ وحسینؓ کی نسبت و تعظیم سے کربلا و نجف کی یادگار ٹکیاں بنا لی ہیں۔ تعزیے، علم، تابوت، ضریح، شبیہ ذوالجناح جیسی عقیدت سے خود بنائی ہوئی بخیال خویش معظم چیزوں نے بتوں کی جگہ لے لی ہے۔ آج شیعی معاشرہ بلا مبالغہ سو فی صد وہ تمام تعظیمی امور ان چیزوں کے ساتھ بجا لاتا ہے جو مشرکین بتوں کے ساتھ بجا لاتے تھے اور خدا و رسولﷺ نے اسی کو شرکِ اکبر کہا۔ بظاہر سجدہ کی جرأت نہ تھی لیکن شیطان نے اپنی تسویل اور کارستانی سے شیعوں کا یہ مسئلہ حل کردیا کہ خاک کربلا و نجف کے نام سے ٹکیہ کو ’’سجدہ گاہ‘‘ بنالو۔ تقرب علی و حسین (رضی اللہ عنہم ) کے اس تعظیمی فعل و عبادت کو میں خدا تک پہنچا دو ں گا۔ رحمن بھی راضی ہو جائے گا میں بھی خوش ہو جاؤں گا۔

رند کے رند رہے ............ جنت بھی ہاتھ سے نہ گئی

ایک شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار ............ جب ذراگردن جھکائی دیکھ لی

شیعہ کہتے ہیں کہ رفع یدین اس لیے جاری ہوا کہ قوم کے بغل میں بت تھے، وہ گرا دیے گئے اور یہ بالکل بے اصل بات ہے۔لیکن شیعوں کا یہ امامیہ بت (ٹکیہ) یا سجدہ گاہ ہے یا جیب میں بوسہ گاہ ہے، کسی لمحہ اپنے پجاری سے جدا نہیں ہو پاتا۔ شیعوں سے جب اس پر بات ہو تو بظاہر بڑے معصومانہ اندازمیں کہتے ہیں’’ہم بشر خاکی ہیں، خاک پر سجدہ زیادہ افضل ہے‘‘۔ اگر یہی بات ہے تو ہم نے کبھی تمہیں منع نہیں کیا کہ سادہ پاک زمین پر سجدہ نہ کرو، پھر خاکِ کربلا کی کیا خصوصیت؟ گھاس والی جگہ اور فرش بھی تو مٹی کی جنس ہیں، ان پر نماز و سجدہ کرلو۔ مختلف گھاسوں کی چٹائیاں اور سوتی جائے نمازیں اور دریاں بھی مٹی کی پیداوار سے بنائی گئی ہیں، ان پر نماز پڑھ لو۔ لیکن شیعوں کا عام مٹی اور اس کی ان پیداواری اشیاء پر سجدہ کرنے سے اعراض کرنا اور صرف حضرت علی ؓ وحسن ؓ کی جبین نیاز کی طرف منسوب خیال مٹی کو ہی سجدہ گاہ بنالینا اور مذکورہ بالا تمام تعظیمی امور بجالانا دراصل اس مٹی کی معظم ٹکیہ کی پرستش ہے۔

شیعہ امامیہ میں ایسی ٹکیہ سجدہ گاہ بنالینے کی کوئی تعلیم اور مذہب کا مسئلہ نہیں ہے۔ شیعہ کی مستند کتاب الاستبصار (اصولِ اربعہ) سے چند ابواب ملاحظہ فرمائیں:

اونچی جگہ پر سجدے کا بیان...... روئی اور کپڑے پر سجدے کابیان......کتابت شدہ کاغذ پر سجدے کا بیان...... برف پر اور کسی ایسی چیز پر سجدے سے روکا گیا ہے جس پر باقی بدن نہ ہو (تو مٹی والی ٹکیہ پر سجدہ منع ہوا) لیکن ٹکیہ پر سجدہ کا کہیں حکم نہیں ہے۔ چونکہ موجودہ شیعہ جعفری نہیں بلکہ مختاری، تفویضی اور غالی ہیں اور یہ لوگ اعلانیہ ائمہ کو خدا، خالق، مالک، رازق، مشکل کشا اور فریاد رس مانتے تھے، ٹکیہ کی پرستش بھی انہوں نے ہی ایجاد کی۔ اس لیے سب شیعہ اپنے ائمہ کو جھٹلا کر اندھی تقلید میں شرک پر شرک کرتے جارہے ہیں۔

اور آخر میں ایک اہم بات کہ شیعہ کا یہ اعتراض کہ بخاری شریف میں بھی ’’خمرہ‘‘ کا لفظ آیا ہے مگر بخاری میں بھی ’’خمرہ‘‘ سے مراد چٹائی ہی ہے، شیعوں کی ٹکیہ نہیں۔ امام لغت ابو عبیدہ قاسم بن سلام کہتے ہیں کہ یہ کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی چٹائی ہے۔ جوہری کہتے ہیں یہ وہ مصلّٰی ہے جو کھجور کے پتوں اور دھاگوں سے بنا ہوتا ہے۔ صاحبِ مشارق کہتے ہیں یہ چھوٹی سی چٹائی کی طرح ایک جائے نماز و سجدہ ہے اور نہایہ میں بھی یہی لکھا ہے۔

نیز، شیعہ کی مستند کتاب الاستبصار میں بھی ’’خمرہ‘‘ کا معنی چٹائی کیا گیا ہے۔ (الاستبصار ج۱ ص۳۳۵)
 

فہد اقبال

مبتدی
شمولیت
اگست 20، 2011
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
130
پوائنٹ
0
پوسٹد بائ محمد بن ابو بکر
اس مسئلہ میں شیعہ حضرات ، اپنے اماموں کی پیروی کرتے ہیں جوکہ حدیث ثقلین میں قرآن کریم کے ہم پلہ ہیں
اگر اسکا مطلب وہی ہے جو مجھے سمجھ آ رہا ہے تو ثم نعوذو بااللہ
واقعی اندھی تقلید سب چیزوں کا احترام بھلا دیتی ہے
 
شمولیت
اگست 19، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
0
میرے دیے ہوئے حوالے صرف آپ پرواضح کرنےکےلیےتھےکہ خاک پرسجدہ کرنےکےدلائل آپ کےہاں بھی موجود ہیں - آپ سےکوئ فتو'ے نھیں مانگا میں نے کیونکہ ھمارے لئے قول رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اورآل رسول (ع) حجت ہے- آپ کے یا آپ کے مفتیوں کے فتووے میرے لیےخس و خاشاک کی حیثیت بھی نھیں رکھتے-
 

فقہ جعفری

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2011
پیغامات
35
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
0
ہمارا کام حق کو واضح انداز میں بتانا تھا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن آپ کی بیان کی گئی ساری تھیوری ملیا میٹ ہو گئی ہے۔
کیا آپ کے معصوم اماموں نے بھی ٹکیہ پر سجدہ کیا؟
 
Top