- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,473
- پوائنٹ
- 964
پاکستانی دستور کی اسلامی دفعات کا مؤثر نفاذ تمام مسائل کا حل ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی
دینی مسائل پر سابقہ قوانین کی طرح قومی اسمبلی ہی قانونا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے
قادیانیوں کے لئے اسلامی اصطلاحات سے ممانعت ان کی تذلیل نہیں بلکہ جدا گانہ مذہبی تشخص کا لازمی تقاضا ہے
مختلف مسالک پر مشتمل امتناع قادیانیت بورڈ کے قیام کا مطالبہ۔ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
مسلمان کو قادیانی کے دعویٰ اسلام پر خوشی کی بجائے دکھ کیوں ہوتا ہے؟
پریس ریلیز: 26؍ فروری 2018ء
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں دھرنا کیس ؍ ترمیم ختم نبوت میں چار علماے کرام کی معاونت کا آج پہلا روز تھا، جس میں پنجاب یونیورسٹی، ادارہ علوم اسلامیہ کے پروفیسر ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (ایڈیٹر ماہنامہ محدث لاہور) نے فاضل عدالت کے چھ سوالات کے جواب میں اپنا مدلل موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا ملک ہے۔ قائد اعظم نے اسلام کی بنا پر مستقل وطن کا مطالبہ کیا جس کو دستور میں تمہید، پالیسی اصول، حلف ناموں، اسلام کے مطابق قانون سازی اور وفاقی شرعی عدالت وغیرہ کے ذریعے فیصلہ کن مقام دے دیا گیا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی ہی ہمیشہ سے دینی معاملات کی قانون سازی کرتی آئی ہے، چنانچہ قادیانیوں کی مذہبی حیثیت کا فیصلہ بھی ماضی میں اسی قومی اسمبلی نے کیا، اور آئندہ بھی یہی اسمبلی ایسے فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔ جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کے علماے کرام اور دینی جماعتیں پاکستان دستور کے اسلامی قوانین کے نفاذ پر ہی اپنی کوششیں مرکوز کرلیں، تو یہ مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
ڈاکٹر مدنی نے کہا کہ ڈاکٹر ہونے کا دعویٰ کرنے والا اگر فی الواقع ڈاکٹر نہیں ہے، تو یہ بنیادی حقوق میں مداخلت کے بجائے دھوکہ دہی اور غلط بیانی کا معاملہ ہے، جس کا فیصلہ بھی قومی اسمبلی نے ہی کرنا ہے۔ حال میں نادرا کے بیان کردہ ڈیڑھ لاکھ قادیانیوں کی تعداد سے بھی پتہ چلتا ہے کہ قادیانیوں کی بڑی تعداد سماجی مفادات کے لئے اپنی شناخت مسلمان ہی درج کراتی ہے جس کی فوری روک تھام ضروری ہے۔
مزید برآں شہریوں کے مقدس تصورات پر حملہ اور ان پر دشنام طرازی کی روک تھام بھی ریاست کا ہی فریضہ ہے۔ اپنے شہریوں کے سماجی حقوق کا تحفظ دنیا بھر میں ریاستیں ہی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی مختلف اسمبلیوں میں غیرمسلموں کے لئے نشستیں متعین کردی گئی ہیں، نیز شراب کی خرید بھی غیر مسلم ہی کر سکتے ہیں۔ اس بنا پر اپنے قوانین پر درست عمل درآمد اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے یہ فرض ریاست کا ہی بنتا ہے۔
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے قرآن وسنت کے دلائل سے واضح کیا ہے کہ حاکم کا فریضہ اللہ کے دین کے نفاذ سے لے کر شہریوں کی فلاح وبہبود کی ہر صورت کو شامل ہے۔ اور نبی کریم نے یمن میں اپںے حاکم کو بھیجتے ہوئے اسے عقائد کی اصلاح سے آغاز کرنے کا حکم دیا تھا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء مثبت سیاست کیا کرتے تھے، اور سیدنا موسی نے اپنی قوم کو غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد کی۔ دورِ نبوی میں مسجد ضرار کے انہدام اور خلافت راشدہ میں 4 مدعیان نبوت اور مانعین زکوۃ کے خلاف حکومتی کاروائی بھی مسلم حاکم کے فرض کی ہی نشاندہی کرتی ہے۔ جو مسلم حاکم اپںے ان شرعی فرائض سے کوتاہی کرے گا تو فرمان نبوی کے مطابق: وہ روز قیامت اللہ کو جوابدہ ہوگا اور یہ عہدے اس کے لئے حسرت وندامت بن جائیں گے۔
جسٹس مسٹر شوکت عزیز نے سوال کیا کہ اگر کوئی غیر مسلم سماجی مفادات کے لئے مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے تو اس کی کیا سزا ہے؟ جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر ایسا ثابت ہوجائے تو وہ قانون میں دھوکہ دہی کی سزا کا مستحق ہے، تاہم یہ عام سماجی دھوکہ دہی سے سنگین تر بات ہے جس کے لئے مستقل قانون سازی ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک اپنے ملک کے پرچم، کرنسی، پاسپورٹ، قومی لباس، پھول اور قومی کھیل کا تعین کرتے ہیں، اسی طرح نظریاتی ملت اسلام کو بھی غیر مسلموں سے امتیاز رکھنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں مسلمان اور غیر مسلم کے مابین ہر طرح کی خصوصی مشابہت کی روک تھام ہونی چاہیے۔ اسلام غیر مسلموں کو انسانیت کا احترام دیتا ہے، سیرت طیبہ سے یہودی کے جنازہ کے لئے کھڑا ہونا، یہودی بچے کی عیادت کو جانا اور ان کے لسانی مظالم پر تحمل کا مظاہرہ کرنے کی عظیم روادارانہ روایات ملتی ہیں، لیکن ملی تشخص کو خلط ملط کرنے کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ یہ ملی تشخص قادنیوں کے سلسلے میں حساس ترین ہوجاتا ہے کیونکہ قادیانی اسلام کا نام لے کر، نہ صرف مسلمانوں کے جملہ امتیازات پر ہاتھ صاف کرکے اپنے جھوٹے مذہب کو مقبول کرانا چاہتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ وہ مسلمانوں کو کافر بھی قرار دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے دھوکہ دہی، دشنام طرازی، اسلامی مقدسات پر حملہ کرنے کی بنا پر قادیانیوں کو مسلم سماجی تشخص کی علامتوں کو استعمال کرنے پر پوری پابندی ہونی چاہیے۔
پاکستانی ریاست قادیانیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور تو نہیں کرتی، لیکن ان کے اسلام کی حقیقت کو کھولنا اور مسلمانوں کو ان کے فریب سے بچانے کے لئے ان کے تشخص کو ضرور واضح کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی قادیانی اسلام کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر خوش ہونے کے بجائے ہر مسلمان رنج کا شکار ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کے اسلام کے فریب کو بخوبی جانتا ہے۔
عدالت کے مزید سوالات کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اسلام پاکستان کا لاء آف دی لینڈ ہے جو یہاں کے ہر شہری پر قانونًا لاگو ہے اور پاکستانی دستور ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی اسلامی تعلیم وتربیت کے انتظام وانصرام کرے۔
اپنے تفصیلی بیان کے آخر میں ڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ 1984ء کے امتناع قادیانیت قوانین میں پانچ اسلامی اصطلاحات سے قادیانیوں کو روکا گیا ہے جن میں مزید کئی اسلامی اصطلاحات کا اضافہ بھی ضروری ہے، اور قادیانیوں کو اپنے جھوٹے مذہب کی تبلیغ سے بھی قانونا روک دیا گیا ہے لیکن اس پر نگرانی اور روک تھام کے لئے مختلف مسالک پر مشتمل ’’امتناع قادیانیت بورڈ‘‘ کا قیام بھی ضروری ہے کیونکہ قادیانیوں کی دسیوں تنظیمیں ناموں کی معمولی تبدیلی سے سادہ لوح مسلمانوں کو ترغیبات اور دھوکے سے اپنے دین سے منحرف کر رہے ہیں۔
دھرنا کیس کی سماعت دو گھنٹے جاری رہی جس میں مولانا خاور رشید بٹ، اور ڈاکٹر حافظ انس نضر نے بھی معاونت کی، جبکہ عالمی مجلس ختم نبوت کے قائد مولانا اللہ وسایا، ممتاز علماے کرام، وکلاء اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ کل صاحبزادہ ساجد الرحمن (سابق ممبر اسلامی نظریاتی کونسل) اپنے دلائل پیش کریں گے۔
دینی مسائل پر سابقہ قوانین کی طرح قومی اسمبلی ہی قانونا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے
قادیانیوں کے لئے اسلامی اصطلاحات سے ممانعت ان کی تذلیل نہیں بلکہ جدا گانہ مذہبی تشخص کا لازمی تقاضا ہے
مختلف مسالک پر مشتمل امتناع قادیانیت بورڈ کے قیام کا مطالبہ۔ ڈاکٹر حافظ حسن مدنی
مسلمان کو قادیانی کے دعویٰ اسلام پر خوشی کی بجائے دکھ کیوں ہوتا ہے؟
پریس ریلیز: 26؍ فروری 2018ء
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں دھرنا کیس ؍ ترمیم ختم نبوت میں چار علماے کرام کی معاونت کا آج پہلا روز تھا، جس میں پنجاب یونیورسٹی، ادارہ علوم اسلامیہ کے پروفیسر ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (ایڈیٹر ماہنامہ محدث لاہور) نے فاضل عدالت کے چھ سوالات کے جواب میں اپنا مدلل موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا ملک ہے۔ قائد اعظم نے اسلام کی بنا پر مستقل وطن کا مطالبہ کیا جس کو دستور میں تمہید، پالیسی اصول، حلف ناموں، اسلام کے مطابق قانون سازی اور وفاقی شرعی عدالت وغیرہ کے ذریعے فیصلہ کن مقام دے دیا گیا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی ہی ہمیشہ سے دینی معاملات کی قانون سازی کرتی آئی ہے، چنانچہ قادیانیوں کی مذہبی حیثیت کا فیصلہ بھی ماضی میں اسی قومی اسمبلی نے کیا، اور آئندہ بھی یہی اسمبلی ایسے فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔ جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کے علماے کرام اور دینی جماعتیں پاکستان دستور کے اسلامی قوانین کے نفاذ پر ہی اپنی کوششیں مرکوز کرلیں، تو یہ مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
ڈاکٹر مدنی نے کہا کہ ڈاکٹر ہونے کا دعویٰ کرنے والا اگر فی الواقع ڈاکٹر نہیں ہے، تو یہ بنیادی حقوق میں مداخلت کے بجائے دھوکہ دہی اور غلط بیانی کا معاملہ ہے، جس کا فیصلہ بھی قومی اسمبلی نے ہی کرنا ہے۔ حال میں نادرا کے بیان کردہ ڈیڑھ لاکھ قادیانیوں کی تعداد سے بھی پتہ چلتا ہے کہ قادیانیوں کی بڑی تعداد سماجی مفادات کے لئے اپنی شناخت مسلمان ہی درج کراتی ہے جس کی فوری روک تھام ضروری ہے۔
مزید برآں شہریوں کے مقدس تصورات پر حملہ اور ان پر دشنام طرازی کی روک تھام بھی ریاست کا ہی فریضہ ہے۔ اپنے شہریوں کے سماجی حقوق کا تحفظ دنیا بھر میں ریاستیں ہی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی مختلف اسمبلیوں میں غیرمسلموں کے لئے نشستیں متعین کردی گئی ہیں، نیز شراب کی خرید بھی غیر مسلم ہی کر سکتے ہیں۔ اس بنا پر اپنے قوانین پر درست عمل درآمد اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے یہ فرض ریاست کا ہی بنتا ہے۔
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے قرآن وسنت کے دلائل سے واضح کیا ہے کہ حاکم کا فریضہ اللہ کے دین کے نفاذ سے لے کر شہریوں کی فلاح وبہبود کی ہر صورت کو شامل ہے۔ اور نبی کریم نے یمن میں اپںے حاکم کو بھیجتے ہوئے اسے عقائد کی اصلاح سے آغاز کرنے کا حکم دیا تھا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء مثبت سیاست کیا کرتے تھے، اور سیدنا موسی نے اپنی قوم کو غلامی سے نجات دلانے کی جدوجہد کی۔ دورِ نبوی میں مسجد ضرار کے انہدام اور خلافت راشدہ میں 4 مدعیان نبوت اور مانعین زکوۃ کے خلاف حکومتی کاروائی بھی مسلم حاکم کے فرض کی ہی نشاندہی کرتی ہے۔ جو مسلم حاکم اپںے ان شرعی فرائض سے کوتاہی کرے گا تو فرمان نبوی کے مطابق: وہ روز قیامت اللہ کو جوابدہ ہوگا اور یہ عہدے اس کے لئے حسرت وندامت بن جائیں گے۔
جسٹس مسٹر شوکت عزیز نے سوال کیا کہ اگر کوئی غیر مسلم سماجی مفادات کے لئے مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے تو اس کی کیا سزا ہے؟ جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر ایسا ثابت ہوجائے تو وہ قانون میں دھوکہ دہی کی سزا کا مستحق ہے، تاہم یہ عام سماجی دھوکہ دہی سے سنگین تر بات ہے جس کے لئے مستقل قانون سازی ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک اپنے ملک کے پرچم، کرنسی، پاسپورٹ، قومی لباس، پھول اور قومی کھیل کا تعین کرتے ہیں، اسی طرح نظریاتی ملت اسلام کو بھی غیر مسلموں سے امتیاز رکھنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ اسلامی ریاست میں مسلمان اور غیر مسلم کے مابین ہر طرح کی خصوصی مشابہت کی روک تھام ہونی چاہیے۔ اسلام غیر مسلموں کو انسانیت کا احترام دیتا ہے، سیرت طیبہ سے یہودی کے جنازہ کے لئے کھڑا ہونا، یہودی بچے کی عیادت کو جانا اور ان کے لسانی مظالم پر تحمل کا مظاہرہ کرنے کی عظیم روادارانہ روایات ملتی ہیں، لیکن ملی تشخص کو خلط ملط کرنے کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ یہ ملی تشخص قادنیوں کے سلسلے میں حساس ترین ہوجاتا ہے کیونکہ قادیانی اسلام کا نام لے کر، نہ صرف مسلمانوں کے جملہ امتیازات پر ہاتھ صاف کرکے اپنے جھوٹے مذہب کو مقبول کرانا چاہتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ وہ مسلمانوں کو کافر بھی قرار دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے دھوکہ دہی، دشنام طرازی، اسلامی مقدسات پر حملہ کرنے کی بنا پر قادیانیوں کو مسلم سماجی تشخص کی علامتوں کو استعمال کرنے پر پوری پابندی ہونی چاہیے۔
پاکستانی ریاست قادیانیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور تو نہیں کرتی، لیکن ان کے اسلام کی حقیقت کو کھولنا اور مسلمانوں کو ان کے فریب سے بچانے کے لئے ان کے تشخص کو ضرور واضح کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی قادیانی اسلام کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر خوش ہونے کے بجائے ہر مسلمان رنج کا شکار ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کے اسلام کے فریب کو بخوبی جانتا ہے۔
عدالت کے مزید سوالات کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اسلام پاکستان کا لاء آف دی لینڈ ہے جو یہاں کے ہر شہری پر قانونًا لاگو ہے اور پاکستانی دستور ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی اسلامی تعلیم وتربیت کے انتظام وانصرام کرے۔
اپنے تفصیلی بیان کے آخر میں ڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ 1984ء کے امتناع قادیانیت قوانین میں پانچ اسلامی اصطلاحات سے قادیانیوں کو روکا گیا ہے جن میں مزید کئی اسلامی اصطلاحات کا اضافہ بھی ضروری ہے، اور قادیانیوں کو اپنے جھوٹے مذہب کی تبلیغ سے بھی قانونا روک دیا گیا ہے لیکن اس پر نگرانی اور روک تھام کے لئے مختلف مسالک پر مشتمل ’’امتناع قادیانیت بورڈ‘‘ کا قیام بھی ضروری ہے کیونکہ قادیانیوں کی دسیوں تنظیمیں ناموں کی معمولی تبدیلی سے سادہ لوح مسلمانوں کو ترغیبات اور دھوکے سے اپنے دین سے منحرف کر رہے ہیں۔
دھرنا کیس کی سماعت دو گھنٹے جاری رہی جس میں مولانا خاور رشید بٹ، اور ڈاکٹر حافظ انس نضر نے بھی معاونت کی، جبکہ عالمی مجلس ختم نبوت کے قائد مولانا اللہ وسایا، ممتاز علماے کرام، وکلاء اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ کل صاحبزادہ ساجد الرحمن (سابق ممبر اسلامی نظریاتی کونسل) اپنے دلائل پیش کریں گے۔