• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ختنہ واجب یا سنت

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
ختنہ کرانا واجب ھے یا سنت؟
وجوب کے جو دلائل مجھے ملے ھیں ان میں سے اکثرضعیف ھیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ختنہ کرانا واجب ھے یا سنت؟
وجوب کے جو دلائل مجھے ملے ھیں ان میں سے اکثرضعیف ھیں
ختنہ اہل اسلام کیلئے واجب ہے ،کیونکہ یہ ملت ابراہیم کا شعار ہے ،
اور ملت ابراہیم کی پیروی کا خصوصی حکم دیا گیا ہے،
قرآن کریم میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

ثُمَّ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٢٣
پھر ہم نے آپ کی طرف یہ وحی کی کہ آپ ملت ابراہیم کی پیروی کریں جو باطل سے مجتنب تھے اور وہ مشرکین میں سے نہ تھے ۔

لفظ ’’ ملت ‘‘ کی تحقیق کرتے ہوئے صاحب تاج العروس لکھتے ہیں :۔ ’’ الملہ فی اللغۃ السنۃ والطریقۃ وفی الاساس ومن المجاز الملۃ الطریق المسلوکۃ ومنہ ملۃ ابراہیم (علیہ السلام) خیر الملل۔
یعنی لغت میں ’’ ملۃ ‘‘ سنت اور طریقہ کو کہا جاتا ہے، جیسے ملت ابراہیم (علیہ السلام )
اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’ عن ابي هريرة رضي الله عنه قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"اختتن إبراهيم عليه السلام وهو ابن ثمانين سنة بالقدوم".
(صحیح البخاری،حدیث نمبر: 3356 )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابراہیم علیہ السلام نے اسی (80) سال کی عمر میں بسولے سے ختنہ کیا۔“
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مردوں اور عورتوں کا ختنے کروانا
شروع از عطاء اللہ سلفی بتاریخ : 03 June 2012 02:35 PM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مردوں اور عورتوں کے ختنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ختنے کے حکم کے بارے میں اختلاف ہے۔ صحیح ترین قول یہ ہے کہ ختنہ مردوں کے حق میں واجب اور عورتوں کے حق میں سنت ہے اور دونوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کے حق میں ختنہ میں ایک ایسی مصلحت ہے جس کا نماز کی شرطوں میں سے ایک شرط، یعنی طہارت سے تعلق ہے کیونکہ قلفہ باقی رہنے کی صورت میں حشفہ کے سوراخ سے نکلنے والا پیشاب قلفہ میں باقی رہ جاتا ہے اور وہ جلن یا سوزش کا سبب بن جاتا ہے یا بے ختنہ انسان جب بھی حرکت کرتا ہے تو اس سے پیشاب خارج ہو کر نجاست کا سبب بنتا رہتا ہے۔ عورت کے ختنہ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ یہ ہے کہ ختنہ عورت کی شہوت کم کر دیتا ہے۔ لہذا عورت کے لئے یہ طلب کمال ہے اور ایسی چیز نہیں جس کے نہ کرنے سے نقصان ہو۔ علماء نے وجوب ختنہ کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ اس سے ہلاکت یا بیماری کا اندیشہ نہ ہو اگر اس طرح کا کوئی اندیشہ ہو تو پھر ختنہ واجب نہیں ہے کیونکہ واجبات عجز، یا خوف ہلاکت یا نقصان کی صورت میں واجب نہیں رہتے۔ مردوں کے حق میں وجوب ختنہ کے دلائل حسب ذیل ہیں:
٭ متعدد احادیث میں یہ آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام لانے والوں کو ختنہ کا حکم دیا،مسند الامام احمد: ۳/ ۴۱۵۔
اور اصول یہ ہے کہ امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔
٭ ختنہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین امتیازی بات ہے حتیٰ کہ مسلمان معرکوں میں اپنے شہداء کو ختنوں ہی سے پہچانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ختنہ ہی ایک امتیازی علامت ہے اور جب یہ امتیازی علامت ہے تو کافر اور مسلمان میں امتیاز کے وجوب کے پیش نظرختنہ واجب ہے۔ اسی لیے کفار کے ساتھ مشابہت کو حرام قرار دے دیا گیا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»سنن ابی داود، اللباس، باب فی لبس الشهرة، ح:۴۰۳۱۔

’’جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
٭ ختنہ بدن کے کچھ حصے کو کاٹنے کا نام ہے اور بدن کے کسی حصے کو کاٹنا حرام ہے اور حرام کو کسی واجب شے ہی کے لیے مباح قرار دیا جاسکتا ہے، لہٰذا ختنہ واجب ہے۔
٭ (اگر کوئی بچہ یتیم ہے تو ظاہر ہے اس کے) ختنے کا اہتمام اس کا وارث کرتا ہے اس کے وارث کا یہ تصرف اس یتیم پر اور اس کے مال پر زیادتی ہے کیونکہ وہ ختنہ کرنے والے کو اجرت دے گا اور اگر ختنہ واجب نہ ہوتا تو اس کے مال اور بدن پر یہ زیادتی جائز نہ ہوتی۔ ان نقلی اور نظری دلائل سے معلوم ہوا کہ مردوں کے حق میں ختنہ واجب ہے۔
عورتوں کے ختنہ کے بارے میں اقوال مختلف ہیں، جن میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ ختنہ صرف مردوں کے لیے واجب ہے۔ عورتوں کے لیے نہیں اور اس کے بارے میں ایک ضعیف حدیث ہے:
«اَلْخِتَانُ سُنَّة فی حقٌ الرِّجَالِ،و مَکْرُمَة فی حقٌ لِلنِّسَاءِ»مسند احمد: ۵/۷۵۔

’’ختنہ مردوں کے حق میں سنت اور عورتوں کے حق میں اعزاز واکرام ہے۔‘‘
اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس باب میں فیصلہ کن ہوتی۔
وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام

نماز کے مسائل

 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیر واحسن الجزاء.
اللہ آپ کے علم وعمل اور وقت میں برکت عطا فرماۓ.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
وجوب کے جو دلائل مجھے ملے ھیں ان میں سے اکثرضعیف ھیں
ختنہ اگر شرعاً واجب نہ ہوتا تو اسی سال کے بوڑھے آدمی اس کا حکم نہ دیا جاتا ،
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’ عن ابي هريرة رضي الله عنه قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"اختتن إبراهيم عليه السلام وهو ابن ثمانين سنة بالقدوم".
(صحیح البخاری،حدیث نمبر: 3356 )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابراہیم علیہ السلام نے اسی (80) سال کی عمر میں بسولے سے ختنہ کیا۔“
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
فیس بک پر ایک بھائی نے سوال کیا ہے کہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ. ...
بھائی جان ایک فتوی پوچھنا ہے. وہ یہ کہ ایک حافظ صاحب ہیں ان کی بچپن میں ختنہ نہیں ہوا تھا . کیونکہ انکو یہ پریشانی لاحق تھی کہ انکے اکثر بھائیوں کی جب ختنہ ہوتا تھا تو خون بند ہوتا نہیں تھا بہت دوا کراتے تھے. .. اس کو دیکھتے ہوئے انکے ابا نے انکا ختنہ نہیں کرایا. ..
تو کیا .؟ حافظ صاحب امامت کرا سکتےہیں. ..؟
جزاک اللہ خیرا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب :
اسلام میں بچوں کا ختنہ کروانے کا تاکیدی حکم ہے ،حضوراکرمﷺ نے اس کا حکم دیا اور اسے فطرت میں سے قرار دیا اوراسےاسلام کا شعار بھی قرار دیا جاسکتا ہے ، اس لئے اس کی بہت اہمیت ہے ؛
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"
الْفِطْرَةُ خَمْسٌ أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ الْخِتَانُ، وَالاِسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الإِبِطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ"
"پانچ کام "فطرت ہیں ختنہ کرنا، زیر ناف بال اتارنا، ناخن تراشنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا اور مونچھیں کا ٹنا۔"[صحیح البخاری اللباس باب قص الشارب حدیث 5889۔وصحیح مسلم الطہارۃ باب خصال الفطرۃ حدیث 257 واللفظ لہ]
اہل علم کے اس کے متعلق جو مختلف اقوال منقول ہیں ان میں درست ترین قول ختنہ کے واجب ہونے کا ہے ،
امام ابن قیمؒ نے " تحفۃ المودود " میں اس کے واجب ہونے کی پندرہ وجوہ بیان کی ہیں ،
ان میں پندرھویں وجہ یہ بتائی ہے کہ :
الْوَجْه الْخَامِس عشر : أَنه شعار عباد الصَّلِيب وَعباد النَّار الَّذين تميزوا بِهِ عَن الحنفاء والختان شعار الحنفاء فِي الأَصْل وَلِهَذَا أول من اختتن إِمَام الحنفاء وَصَارَ للختان شعار الحنيفية وَهُوَ مِمَّا توارثه بَنو إِسْمَاعِيل وَبَنُو إِسْرَائِيل عَن إِبْرَاهِيم الْخَلِيل صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَلَا يجوز مُوَافقَة عباد الصَّلِيب القلف فِي شعار كفرهم وتثليثهم
ختنہ اہل توحید اور اہل صلیب کے درمیان امتیازی علامت و شعار ہے ، اسی لیئے سب سے پہلے امام الحنفاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ختنہ کیا ،
اور ان کے بعد یہ ملت حنیفیہ (ملت ابراہیم ) کیلئے شعار ٹھہرا ،سیدنا اسماعیل سے لے کر خاتم الانبیاء پیارے محمد تک تمام انبیاء و موحدین میں یہ عمل متوارث ہے ،اس وجہ سے صلیب کے پجاریوں کی موافقت کسی صورت جائز نہیں۔(تحفۃ المودود لابن قیمؒ )

اور مشہور محقق و محدث علامہ ناصر الدین البانی ؒ فرماتے ہیں :
قال الشيخ محمّد ناصر الدّين الألباني رحمه اللّه في تمام المنّة - ص 69 :
"وأما حكم الختان فالراجح عندنا وجوبه وهو مذهب الجمهوركمالك والشافعي وأحمد واختاره ابن القيم وساق في التدليل على ذلك خمسة عشر وجها وهي وإن كانت مفرداتها لا تنهض على ذلك فلا شك أن مجموعها ينهض به ولا يتسع المجال لسوقها جميعا ههنا فأكتفي منها بوجهين :

الأول : قوله تعالى : ( ثم أوحينا إليك أن اتبع ملة إبراهيم حنيفا ) والختان من ملته كما في حديث أبي هريرة المذكور في الكتاب وهذا الوجه أحسن الحجج كما قال البيهقى ونقله الحافظ ( 10 / 281 ) .

الثاني : أن الختان من أظهر الشعائر التي يفرق بها بين المسلم والنصراني حتى إن المسلمين لا يكادون يعدون الأقلف منهم . ومن شاء الاطلاع على بقية الوجوه المشار إليها فليراجع كتاب " التحفة " ( ص 53 - 60 ) .

اس کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ :
" راجح قول کے مطابق ختنہ شرعاً واجب ہے ، امام مالکؒ ،امام شافعیؒ ، امام احمدؒ کا یہی مذھب ہے ،
امام ابن قیمؒ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور وجوب کی پندرہ وجوہ بیان فرمائی ہیں ،جو مل کر وجوب کا فائدہ دیتی ہیں ،
ان میں اہم ترین یہ وجہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم دیا ہے ،
اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ختنہ ملت ابراہیم کاحصہ ہے ، اسلئے اسے واجب ہی ماننا پڑے گا ،
اور پھر یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ :
ختنہ ایک مسلم اور نصرانی کے درمیان فرق کرتا ہے ،اور امت میں یہ ایسا شعار ہے کہ غیر مختون کوئی امت میں شمار نہیں کرتا ، انتہیٰ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اس کی اسی اہمیت کےپیش نظر کئی ائمہ نے غیر مختون کی امامت کو ناجائز کہا ہے ،
ابن قیم ؒ لکھتے ہیں :
اختلف الفقهاء فقال الشعبي وربيعة والأوزاعي ويحيى بن سعيد الأنصاري ومالك والشافعي وأحمد هو واجب وشدد فيه مالك حتى قال من لم يختتن لم تجز إمامته ولم تقبل شهادته (تحفۃ المودود )
یعنی امام مالکؒ کا قول ہے کہ غیر مختون کی امامت جائز نہیں ،
اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «الْأَقْلَفُ لَا تَجُوزُ شَهَادَتُهُ» غیر مختون کی شہادت جائز نہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے ان حافظ صاحب کو چاہیئے کہ فوراً کسی ماہر معالج ، یا ہاسپٹل سے رجوع کرکے اپنا ختنہ کروائیں
ورنہ امامت تو بعد کی بات ان کے متعلق دیگر کئی مسائل سامنے آئیں گے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم
 
Top