• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خرید وفروخت میں کمیشن لینے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
کمیشن جسے اردو اور عربی میں دلالی کہتے ہیں۔ عربی میں سمسرہ بھی کہتے ہیں ، اسی لفظ سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے۔ خرید و فروخت یا بازار کے حوالے سے دلالی کافی مشہور ہے ۔ دلال بائع اور مشتری کے درمیان سودا کرواتاہے۔ عموما دلالی کی اس وقت ضرورت پڑتی ہے جب آدمی کو کسی چیز کے متعلق گہری معلومات نہ ہو۔ مگر دلالی میں بے راہ روی اور من مانی کی وجہ سے بلاضرورت افراد کو بھی پھنسا لیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب سماج میں دلالی کو معیوب پیشہ تصور کیا جاتا ہے اور دلال سے گھن جاتا ہے ۔
امین بن کر دلالی کرنا کوئی معیوب نہیں ہے اور بائع اور مشتری میں سودا کرنے پہ طے شدہ اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں "بَاب أَجْرِ السَّمْسَرَةِ" کے تحت ذکر کیا ہے کہ ابن سیرین، عطاء اور حسن رحمہم اللہ اجمعین دلالی کی اجرت لینےمیں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۔ اس باب کے تحت ابن سیرین رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے ۔
إِذَا قَالَ بِعْهُ بِكَذَا فَمَا كَانَ مِنْ رِبْحٍ فَهُوَ لَكَ ، أَوْ بَيْنِي وَبَيْنَكَ فَلَا بَأْسَ بِهِ .
ترجمہ: جب كوئى يہ كہے كہ: اسے اتنے ميں فروخت كريں، اور جو نفع ہو وہ آپ كا، يا نفع ميرے اور تيرے مابين، تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی بطور استشہاد ذکر کیا ہے ۔
لا بَأْسَ أَنْ يَقُولَ : بِعْ هَذَا الثَّوْبَ فَمَا زَادَ عَلَى كَذَا وَكَذَا فَهُوَ لَكَ .
ترجمہ: ايسا كہنے ميں كوئى حرج نہيں: يہ كپڑا فروخت كرو، تو اتنى اتنى رقم سے زيادہ رقم آپ كى .
حدیث سے "الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ شُرُوطِهِمْ" (مسلمان اپنى شروط پر قائم رہتے ہيں) کا نص لائےہیں ۔
خلاصہ یہ کہ بائع اور مشتری کے درمیان سودا طے کرانے کی متفقہ اجرت بطور دلالی لی جاسکتی ہے ۔
اس کی نظیر تجارت کی قسم اجارہ میں بھی ملتی ہے ۔ اجارہ کہتے ہیں معاوضہ کے بدلے کسی کی خدمات حاصل کرنا ۔ دلالی میں بھی بائع و مشتری کے بیچ سودا پہ دلال اپنی خدمات کے بدلے طے شدہ اجرت لیتا ہے ۔
دلال کے لئے ضروری ہے کہ وہ سودا طے کرانے میں امین ہو، خریدار سے سامان کی وہی صفت بیان کرے جو اس سامان میں ہے اور اپنی اجرت سودا طے کرانے سے پہلے طے کرلے ۔ بائع کو کچھ قیمت اور مشتری کو کچھ قیمت بتاکر زیادہ مال ہڑپنا حرام ہے ۔ آج کل دلالی کی اجرت من مانی ہوگئی ہے بائع ومشتری کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا ہے ۔ یہ طریقہ سراسر دھوکہ اور ناجائز ہے ۔ اسی طرح دلالی کے چکر میں سیدھے سادے عوام کو دھوکہ دینا ، جسے سودے کی ضرورت نہیں بھی ہوتی ہے اسے سیکڑوں لالچ دے کر دھوکے سے سودا کروادینا اسلامی تجارت کے منافی ہے اوراسے کسب معاش کےحرام ذرائع میں شمار کیا جائے گا۔ اس لئے دلالی میں امانتداری لازم ہے ۔
 
Top