• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خشک دودھ کی چائے

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اجزاء:​
پانی:4کپ​
چینی:4کھانے کے چمچ​
خشک دودھ:1 کپ​
چائی کی پتی:2چائے کے چمچ​
ونیلا ایسینس:6،7قطرے​
ترکیب:​
چار کپ بانی گرم کریں۔ساتھ ہی چائے کی پتی شامل کر لیں۔ابال آئے تو آنچ ہلکی کر دیں۔اب دوسرے چولہے پر آدھا کپ پانی میں خشک دودھ اور چینی ڈال کرہلکی آنچ پر پکنے کے لیے رکھ دیں۔جب چینی گھل جائے اور دودھ تھوڑا گاڑھا ہو جائے تو چائے کی پتی والا پانی چھان کر اس میں شامل کر لیں اور چولہا بند کر کے ایسینس شامل کر لیں۔پسند کریں تو کپ میں ڈال کر بارک کٹے اخروٹ ملا لیں۔​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کہتے ہیں کہ دنیا کی سب سے آسان ترین ”ڈش“ چائے ہے اور سب سے مشکل ترین ڈش بھی چائے ہی ہے۔ دنیا بھر میں چائے کی اتنی زیادہ ورائٹی ہے کہ شاید ہی کوئی اور ڈش اتنی زیادہ طریقے سے تیار ہوتی ہو۔

محرم میں روایتی طور پر دلیم (جسے لوگ غلط طور پر ”حلیم“ کہتے ہیں۔ دال، دلیہ سے دلیم بنتا ہے، حلیم نہیں۔ ویسے بھی ”الحلیم“ اللہ کا نام ہے، اس مقدس نام سے کسی ڈش کو پکارنا مناسب نہیں) کی دیگیں تیار کی جاتی ہیں۔ اور گلی گلی میں لڑکے بالے رات رات بھر دلیم کی دیگ کو گھونٹا لگاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دلیم کی دیگ کو جتنا زیادہ گھونٹا لگایا جائے گا، دلیم کا ذائقہ اتنا ہی زیادہ مزیدار ہوتا جائے گا۔

لیکن کبھی آپ نے یہ سنا ہے کہ ”چائے کی دیگ“ کو جتنا زیادہ گھونٹا لگایا جائے گا، چائے بھی اتنی ہی ذائقہ دار ہوگی۔ جی ہاں یہ چائے کی اس منفرد دیگ کو بھی رات بھر گھونٹا لگایا جاتا ہے تب کہیں جاکر ”کالی سیاہ کالی“ اور ”ناقابل دید“ چائے تیار ہوتی ہے، جسے ”دیکھ“ کر کوئی پینے کو تیار نہ ہو۔ لیکن اگر ایک گھونٹ پی لے تو چار پانچ کپ سے کم پر راضی نہ ہو۔

اس چائے کی کہانی آج سے کوئی تین دہائی قبل میرے ایک دوست نے بتلائی تھی۔ اس کہانی کو بتلانے کے کوئی چار پانچ سال قبل وہ کراچی کے ایک کالج یونین میں صدر منتخب ہوئے تھے۔ یونین کی سالانہ تقریبات کے آخری دن خاص الخاص پروگرام ہوا کرتا تھا، جس میں کوئی خاص مہمان خصوصی بھی آیا کرتے تھے۔ اس موقع پر کوئی کھانے پینے کا بھی خصوصی اہتمام ہوا کرتا تھا۔ چونکہ یونین فنڈ خاصا ہوا کرتا تھا، لہٰذا یونین والے کھانے پینے پر بھی دل کھول کر خرچ کیا کرتے تھے۔ ہمارے دوست صدر یونین نے تجویز پیش کی کہ اس موقع پر کوئی خاص ڈش بنائی جائے، جو کبھی کسی کالج فنکشن میں نہ بنی ہو۔ اور اتفاق اس بات پر ہوا کہ اس شہر میں موجود ایک چائے اسپیشلسٹ سے چائے بنوائی جائے، جو دیگوں میں رات بھر چائے کو گھونٹا لگا کر چائے تیار کرتا ہے۔

چنانچہ ایک روز قبل اس باورچی اور اس کی ٹیم کو طلب کیا گیا۔ ٹیم کے مشورے پر چار مغز، بادام، ڈرائی فروٹ، الائنچی، کنڈینسڈ ملک، چینی، اایسنس، خصوصی چائے پتی وغیرہ کا خاصا بڑا اسٹاک منگوایا گیا اور چیف باورچی کی ہدایات پر اس کی ٹیم نے رات بھر ایک خاص ترتیب سے ان اشیا کو دیگ میں گھونٹا لگاتے رہے۔ چائے اگلے روز دوپہر تک تیار ہوئی، جب مہمان خصوصی کی تقریر ختم ہوئی تو اسٹیج پر انہیں اور دیگر مہمانوں کو چائے پیش کی گئی۔ دودھ کے استعمال کے باوجود چائے دکھنے میں اتنی ”کالی کلوٹی“ تھی کہ مہمان خصوصی نے اسے دیکھتے ہی کہہ دیا: بھئی میں تو چائے پیتا ہی نہیں۔ یونین والوں نے بار بار اصرار کیا کہ سر اگر آپ چائے نہیں پیتے تب بھی صرف ایک گھونٹ پی لیجئے۔ ہم نے اسے بڑی محنت سے بنوایا ہے۔ بالآخر مہمان خصوصی نے نہایت بے رغبتی سے چائے کی پیالی کو ہونٹوں سے لگایا اور ایک گھونٹ لے ہی لیا۔ بس پھر کیا تھا، موصوف کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے کئی پیالی چائے پی ڈالی۔ ادھر پروگرام میں شریک طلباء بھی سارا دن چائے کے جام پرجام لنڈھا تے رہے ۔

افسوس کہ مجھے اس چائے کا مکمل نسخہ یاد نہیں، جتنا یاد تھا، اتنا نقل کردیا۔ مجھے خود اس منفرد چائے کو تو پینے کا اتفاق نہیں ہوا البتہ اسی سے ملتی جلتی چائے سن ستر کی دہائی میں ہمارے ایک عزیز کے گھر سال میں کم از کم ایک مرتبہ بنا کرتی تھی۔ وہ بھی چائے کو اپنے گھر رات بھر میں تیار کرتے تھے۔ اور صبح اپنی گاڑی میں اس چائے کے تھرموس بھر بھر کر اپنے عزیز و اقرباء میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ ایک تھرموس ہمارے گھر بھی آتا تھا۔ چائے پی کر سواد آجاتا تھا اور ہم سارا دن اس سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔

امید ہے کہ یہ ”داستان چائے“ پڑھ کر آپ کو بھی کچھ نہ کچھ سواد تو آیا ہی ہوگا (ابتسامہ)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
چائے کی داستان کے ساتھ ساتھ آپ ایک اور مزید انکشاف کرگئے ہیں ۔ (مسکراہٹ ) دیکھیں ذرا :
اس چائے کی کہانی آج سے کوئی تین دہائی قبل میرے ایک دوست نے بتلائی تھی۔ اس کہانی کو بتلانے کے کوئی چار پانچ سال قبل وہ کراچی کے ایک کالج یونین میں صدر منتخب ہوئے تھے۔
تین دھائی قبل : 30 سال پھر مزید پانچ سال اور ظاہر ہے کالج میں عام طور پر طالب علم 20 کے لگ بھگ تو ہوتے ہی ہیں ۔
30
5
20
ویسے ایک جگہ آپ کی تصویر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے 50 ، 60 سال کے لگتے نہیں ہیں ۔ مطلب چھپے رستم نکلے ۔ ( ابتسامات )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
صرف ’’ تحقیقی ‘‘ سے کام نہیں چلے گا بلکہ آپ کی حس ظرافت کا اظہار چاہتے ہیں ۔ محترم یوسف ثانی صاحب !
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
صرف ’’ تحقیقی ‘‘ سے کام نہیں چلے گا بلکہ آپ کی حس ظرافت کا اظہار چاہتے ہیں ۔ محترم یوسف ثانی صاحب !
حفیظ جالندھری سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ع
نصف صدی (سے زائد) کا قصہ ’ہوں‘، دوچار برس کی بات نہیں (ابتسامہ)​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
چائے کی داستان کے ساتھ ساتھ آپ ایک اور مزید انکشاف کرگئے ہیں ۔ (مسکراہٹ ) دیکھیں ذرا :

تین دھائی قبل : 30 سال پھر مزید پانچ سال اور ظاہر ہے کالج میں عام طور پر طالب علم 20 کے لگ بھگ تو ہوتے ہی ہیں ۔
30
5
20
ویسے ایک جگہ آپ کی تصویر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے 50 ، 60 سال کے لگتے نہیں ہیں ۔ مطلب چھپے رستم نکلے ۔ ( ابتسامات )
آپ نے “جسے” دیکھا ہے، اُسے 'یوسف کا بِکاجانا' کے پُشتِ ورق کی زینت (’امان‘ کے لاحقہ کے بغیر) بنانےکے لئے ایک ماہر عکس نگار نےکوئی ڈیڑھ عشرہ قبل اس طرح ’تخلیق‘ کیا تھا کہ اگر کہیں آمنا سامنا ہوجائے تو اِس لکھاری کو اُس کا کوئی قاری پہچان نہ سکے تاکہ یہ احقر بھی ممتاز شاعر اقبال عظیم کی طرح “فخریہ” کہہ سکے کہ:
آشنا ہوتے ہوئے بھی آشنا کوئی نہیں​
جانتے ہیں سب مجھے، پہچانتا کوئی نہیں​
اس “احتیاطی تدبیر” کی وجہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ سلسلہ یوسفیہ کہ ’بانی‘ مشتاق یوسفی بہت عرصہ پہلے یہ ’وصیت‘ کرکے اپنی اس وصیت پر عملدرآمد ہوتا دیکھنے کے لئے تا حال موجود ہیں کہ ۔ ۔ ۔ قاری اور لکھاری کے درمیان کم از کم کتاب بھر کا فاصلہ ضرور ہونا چاہئے، ورنہ ۔ ۔ ۔ (ابتسامہ)
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
کہتے ہیں کہ دنیا کی سب سے آسان ترین ”ڈش“ چائے ہے اور سب سے مشکل ترین ڈش بھی چائے ہی ہے۔ دنیا بھر میں چائے کی اتنی زیادہ ورائٹی ہے کہ شاید ہی کوئی اور ڈش اتنی زیادہ طریقے سے تیار ہوتی ہو۔

محرم میں روایتی طور پر دلیم (جسے لوگ غلط طور پر ”حلیم“ کہتے ہیں۔ دال، دلیہ سے دلیم بنتا ہے، حلیم نہیں۔ ویسے بھی ”الحلیم“ اللہ کا نام ہے، اس مقدس نام سے کسی ڈش کو پکارنا مناسب نہیں) کی دیگیں تیار کی جاتی ہیں۔ اور گلی گلی میں لڑکے بالے رات رات بھر دلیم کی دیگ کو گھونٹا لگاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دلیم کی دیگ کو جتنا زیادہ گھونٹا لگایا جائے گا، دلیم کا ذائقہ اتنا ہی زیادہ مزیدار ہوتا جائے گا۔

لیکن کبھی آپ نے یہ سنا ہے کہ ”چائے کی دیگ“ کو جتنا زیادہ گھونٹا لگایا جائے گا، چائے بھی اتنی ہی ذائقہ دار ہوگی۔ جی ہاں یہ چائے کی اس منفرد دیگ کو بھی رات بھر گھونٹا لگایا جاتا ہے تب کہیں جاکر ”کالی سیاہ کالی“ اور ”ناقابل دید“ چائے تیار ہوتی ہے، جسے ”دیکھ“ کر کوئی پینے کو تیار نہ ہو۔ لیکن اگر ایک گھونٹ پی لے تو چار پانچ کپ سے کم پر راضی نہ ہو۔

اس چائے کی کہانی آج سے کوئی تین دہائی قبل میرے ایک دوست نے بتلائی تھی۔ اس کہانی کو بتلانے کے کوئی چار پانچ سال قبل وہ کراچی کے ایک کالج یونین میں صدر منتخب ہوئے تھے۔ یونین کی سالانہ تقریبات کے آخری دن خاص الخاص پروگرام ہوا کرتا تھا، جس میں کوئی خاص مہمان خصوصی بھی آیا کرتے تھے۔ اس موقع پر کوئی کھانے پینے کا بھی خصوصی اہتمام ہوا کرتا تھا۔ چونکہ یونین فنڈ خاصا ہوا کرتا تھا، لہٰذا یونین والے کھانے پینے پر بھی دل کھول کر خرچ کیا کرتے تھے۔ ہمارے دوست صدر یونین نے تجویز پیش کی کہ اس موقع پر کوئی خاص ڈش بنائی جائے، جو کبھی کسی کالج فنکشن میں نہ بنی ہو۔ اور اتفاق اس بات پر ہوا کہ اس شہر میں موجود ایک چائے اسپیشلسٹ سے چائے بنوائی جائے، جو دیگوں میں رات بھر چائے کو گھونٹا لگا کر چائے تیار کرتا ہے۔

چنانچہ ایک روز قبل اس باورچی اور اس کی ٹیم کو طلب کیا گیا۔ ٹیم کے مشورے پر چار مغز، بادام، ڈرائی فروٹ، الائنچی، کنڈینسڈ ملک، چینی، اایسنس، خصوصی چائے پتی وغیرہ کا خاصا بڑا اسٹاک منگوایا گیا اور چیف باورچی کی ہدایات پر اس کی ٹیم نے رات بھر ایک خاص ترتیب سے ان اشیا کو دیگ میں گھونٹا لگاتے رہے۔ چائے اگلے روز دوپہر تک تیار ہوئی، جب مہمان خصوصی کی تقریر ختم ہوئی تو اسٹیج پر انہیں اور دیگر مہمانوں کو چائے پیش کی گئی۔ دودھ کے استعمال کے باوجود چائے دکھنے میں اتنی ”کالی کلوٹی“ تھی کہ مہمان خصوصی نے اسے دیکھتے ہی کہہ دیا: بھئی میں تو چائے پیتا ہی نہیں۔ یونین والوں نے بار بار اصرار کیا کہ سر اگر آپ چائے نہیں پیتے تب بھی صرف ایک گھونٹ پی لیجئے۔ ہم نے اسے بڑی محنت سے بنوایا ہے۔ بالآخر مہمان خصوصی نے نہایت بے رغبتی سے چائے کی پیالی کو ہونٹوں سے لگایا اور ایک گھونٹ لے ہی لیا۔ بس پھر کیا تھا، موصوف کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے کئی پیالی چائے پی ڈالی۔ ادھر پروگرام میں شریک طلباء بھی سارا دن چائے کے جام پرجام لنڈھا تے رہے ۔

افسوس کہ مجھے اس چائے کا مکمل نسخہ یاد نہیں، جتنا یاد تھا، اتنا نقل کردیا۔ مجھے خود اس منفرد چائے کو تو پینے کا اتفاق نہیں ہوا البتہ اسی سے ملتی جلتی چائے سن ستر کی دہائی میں ہمارے ایک عزیز کے گھر سال میں کم از کم ایک مرتبہ بنا کرتی تھی۔ وہ بھی چائے کو اپنے گھر رات بھر میں تیار کرتے تھے۔ اور صبح اپنی گاڑی میں اس چائے کے تھرموس بھر بھر کر اپنے عزیز و اقرباء میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ ایک تھرموس ہمارے گھر بھی آتا تھا۔ چائے پی کر سواد آجاتا تھا اور ہم سارا دن اس سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔

امید ہے کہ یہ ”داستان چائے“ پڑھ کر آپ کو بھی کچھ نہ کچھ سواد تو آیا ہی ہوگا (ابتسامہ)
بہت خوب۔۔۔
یوسف بھائی اتنی زبردست چائے کی داستان بیان کی ہے آپ نے،اگر آپ کے عزیز چائے کا نسخہ فراہم کر سکیں تو کیا ہی اچھا ہو!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بہت خوب۔۔۔
یوسف بھائی اتنی زبردست چائے کی داستان بیان کی ہے آپ نے،اگر آپ کے عزیز چائے کا نسخہ فراہم کر سکیں تو کیا ہی اچھا ہو!
داستان چائے کی پسندیدگی کا شکریہ۔ اوپر بیان کردہ دوست اور عزیز دونوں ہی برسوں بلکہ عشروں سے رابطہ میں نہیں ہیں لہٰذا ایسا “ترتیب وار باوزن نسخہ” بتلانا تو مشکل ہے، جسے پڑھ کر کوئی یہ چائے تیار کرسکے۔ البتہ “کوکنگ میں مہارت” رکھنے والوں کے لئے کچھ “ٹپس” پیش خدمت ہے، جن سے وہ یہ نسخہ بخوبی “کشید” کرسکتے ہیں۔ یہ چائے “کشمیری چائے” سے بہت آگے کی چیز ہے۔ کشمیری چائے میں تو ڈرائی فروٹس موٹا موٹا کوٹ کر (باریک پیس کر نہیں) پیالی میں تیار شدہ چائے میں ڈالی جاتی ہے۔ اس کا رنگ بھی عام چائے جیسا ہی ہوتا ہے۔ متذکرہ بالا چائے کا “اجمالی نسخہ” کچھ یوں ہوگا:
  1. چہار مغز
  2. بادام
  3. پستہ
  4. اخروٹ
  5. کاجو وغیرہ
کو ہم وزن (یا حسب ذائقہ) ہاون دستہ (یاگرائنڈر) میں اچھی طرح سے باریک باریک پیس لیں۔ بہتر ہوگا کہ انہیں علیحدہ علیحدہ پیس لیں تاکہ ان کے سفوف یا پیسٹ کو چمچوں کے پیمانے سے مساوی مقدار میں ملایا جاسکے۔ پھر اس آمیزے میں کنڈنسڈ ملک (مناسب مقدار میں) ملا کر جوسر گرائنڈر میں اچھی طرح مکس کریں۔ دوسری طرف دیگچی میں اچھی کوالٹی کی چائے پتی پانی میں اچھی طرح اُبلنے دیں جب پانی میں سارا رنگ نکل آئے تو پتی چھان کر کالی چائے آہستہ آہستہ جوسر گرائنڈر کے آمیزہ میں مکس کرتے جائیں، حتیٰ کہ پیسٹ “گاڑھے مشروب” میں تبدیل ہوجائے۔
اب اس مشروب کو دوبارہ چولہے پر چڑھا کر ہلکی آنچ پر رکھ دیجئے اور اسے مسلسل چمچ سے ہلاتے (گھوٹا لگانے کا متبادل) رہئے۔ خیال رہے کہ دیگچی کے پیندے میں ڈرائی فروٹس کا پیسٹ جمنے یا جلنے نہ پائے۔ جب چائے کارن فلور سوپ سے کچھ کم گاڑھا رہ جائے تو اس میں تازہ پسی ہوئی چھوٹی الائنچی ڈال کر ایک جوش دے کر اتار لیجئے۔ چائے کا رنگ تو سیاہ ہی ہوگا لیکن پینے میں خوش ذائقہ اور خوشبودار ہوگا۔ ان شاء اللہ ۔ ابتدائی طور پر گھر میں چار پانچ پیالی چائے بنانے کا تجربہ کیجئے۔ تجربہ کامیاب ہوجائے تو اسے بڑے پیمانے پر گھریلو تقریبات میں پیش کرکے خاندان اپنے “سگھڑ پن” کی دھاک بٹھا دیجئے۔ ان شاء اللہ “نفع” ہوگا (ابتسامہ)
پس تحریر: اس چائے کا تجربہ کرنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے پاس نئی نئی ڈشز بنانے کا عملی تجربہ موجود ہے۔ جنہیں ایسا کوئی پیشگی تجربہ نہ ہو، وہ یہ تجربہ کرکے قیمتی اشیاء اور اپنا قیمتی وقت ضائع کرکے گھر والوں کی ڈانٹ سننے سے پرہیز کریں (ابتسامہ)
 
Top