• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافت تیس سال رہے گی ایک ضعیف روایت ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

کیا یہ تحقیق صحیح ہے


جامع ترمذی --- ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی --- تحقیق الروایہ: الخلافہ ثلاثون سنہ / خلافت تیس سال رہے گی ایک ضعیف روایت ہے

آجکل اس پر آشوب دور میں صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کے حوالے سے شکوک و شبھات پھیلائے جا رہے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ دنیا پرست اور مال و زر کے رسیا تھے - رافضیوں کو کیا کوسیں ، سب سے افسوس ناک خود نام نہاد اہلسنت کا عمل ہے جنہوں نے علی و معاویہ رضی الله تعالی عنہم کے اختلاف پر آج تک اپنے آپ کو دو کیمپوں میں تقسیم کیا ہوا ہے - ایک طرف حُبِ علی کے نام پر بقیہ صحابہ پر مخفی تبراء بھیجنے کا انداز ہے - دوسری طرف بغض علی میں ناصبیت بھی زوروں پر ہے - ایسے میں ایک عام آدمی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جاتی اور آہستہ آہستہ وہ بھی ان دو شیعوں میں شامل ہو جاتا ہے یعنی شیعان علی یا پھر شیعان معاویہ -

اس کی وجہ ہماری تاریخ کے وہ تاریک باب ہیں جو سبائی قلم سے لکھے گئے ہیں تفصیل میں جائے بغیر ، سبائی سازشوں کے نتیجے میں امت کے اندر ایسے ہمدرد پیدا ہوئے ، جنہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکال کر حدیث نبوی کی عظمت تک کو پامال کر ڈالا ہے - جھوٹی اور من گھڑت روایات کی داستان طلسم ہے جس میں انہوں نے اپنے مکروہ عقائد کا ذکر کیا ہے اور اب صفحہ قرطاس پر ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں

ایسی ہی ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ سعید بن جمھان (المتوفی: 136هـ) کہتا ہے کہ سفینہ رضی الله تعالی عنہ نے کہا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

حدثنا هدبة بن خالد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة أبي عبد الرحمن مولى رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) قال : سمعت رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) يقول : الخلافة ثلاثون سنة ثم يكون بعد ذلك ملكا . قال سفينة : فخذ ، سنتين أبو بكر ، وعشرا عمر ، واثنتي عشرة عثمان ، وستا علي


نبوت کی خلافت تیس برس تک رہے گی ، پھر بادشاہت ہو گی ، پھر سفینہ نے کہا اب تم گن لو ، ابو بکر کی خلافت دو برس اور عمر کی دس برس اور عثمان کی بارہ برس اور علی کی چھ برس -


ایک دوسری روایت میں الفاظ ہیں "الْخلَافَة فِي أمتِي ثَلَاثُونَ سنة"

ترمذی کی روایت میں ہے کہ سعید بن جمھان کہتا ہے کہ:

قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ، وَخِلَافَةَ عُمَرَ، وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ، ثُمَّ قَالَ لِي: أَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ قَالَ: فَوَجَدْنَاهَا ثَلَاثِينَ سَنَةً، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الخِلَافَةَ فِيهِمْ؟ قَالَ: كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ المُلُوكِ،


مجھ سے سفینہ رضی الله تعالی عنہ نے کہا ابی بکر اور عمر اور عثمان کی خلافت لو پھر کہا علی کی خلافت لو کہا پس ہم نے انکو تیس سال پایا سعید نے کہا میں نے سفینہ سے کہا بے شک بنی امیہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس خلافت ہے سفینہ نے کہا جھوٹ بولتے ہیں بنو الزرقاءِ والے بلکہ وہ تو بادشاہ ہیں بہت شری بادشاہ -


(ترمذی: ابواب الفتن: باب خلافت کے بیان میں)

روایت میں جو حساب کیا گیا ہے وہ بھی مشکوک ہے تاریخ کی کتابوں کو اگر لیا جائے تو یہ حساب اس طرح بنتا ہے -

١: ابو بکر رضی الله تعالی عنہ مدت خلافت ربیع الاول ١١ ہجری سے ١٣ ہجری جمادی الاولی -

٢ سال ٢ماہ

٢: عمر رضی الله تعالی عنہ مدت خلافت جمادی الاولی ١٣ ہجری سے ٢٣ ہجری ذی الحجہ

١٠ سال ٧ ماہ

٣: عثمان رضی الله تعالی عنہ مدت خلافت ذی الحجہ ٢٣ ہجری سے ٣٥ ہجری ذی الحجہ

١٢ سال
٤: علی رضی الله تعالی عنہ مدت خلافت ذی الحجہ ٣٥ ہجری سے ٤٠ ہجری رمضان

٤ سال ٩ ماہ

جمع سال 2 ، 10 ، 12 ، 4=28 سال ہوئے اور 18 ماہ یعنی ایک سال 6 ماہ کل حساب 29 سال اور 6 ماہ ہوئے جو مکمل 30 سال نہیں ہوتے -

اگر اس میں حسن رضی الله تعالی عنہ کی خلافت جو سات ماہ گیارہ دن کی ہے کو شامل کیا جائے تو تیس سال ایک ماہ اور گیارہ دن ہوتے ہیں لیکن پھر یہ مکمل تیس سال نہیں ہونگے - راوی نے بھی ایسا حساب لگوایا ہے کہ حسن رضی الله تعالی عنہ کو اس میں سے نکال دیا ہے اور بظاہر ان کی خلافت کا ہی انکاری معلوم ہوتا ہے -

ابی داؤد میں ہے سعید بن جمھان نے سفینہ سے پوچھا:

قَالَ سَعِيدٌ : قُلْتُ لِسَفِينَةَ : إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ ، قَالَ : كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ ، يَعْنِي بَنِي مَرْوَانَ

سعید بن جمھان نے سفینہ رضی الله تعالی عنہ سے کہا: یہ دعوی کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام خلیفہ نہیں تھے سفینہ بولے جھوٹ بولتے ہیں بَنُو الزَّرْقَاءِ کی مقعد یعنی بنی مروان - (سنن أبي داود: كِتَاب السُّنَّةِ: بَاب فِي الْخُلَفَاءِ)

"أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ" انتہائی بیہودہ الفاظ ہیں

تحفة الاحوذی از عبد الرحمن مبارکپوری (المتوفی: 1353هـ) کے مطابق:

الزَّرْقَاءُ امْرَأَةٌ مِنْ أُمَّهَاتِ بَنِي أُمَيَّةَ - "الزرقاء بنو امیہ کی ماؤں میں سےایک کا نام ہے - (جلد ٦ ، صفحہ ٣٩٦ ، دار الکتب العلمیہ - بیروت)

مسند ابی داؤد الطیالسی میں سعید بن جمھان کے الفاظ ہیں:

قُلْتُ : فَمُعَاوِيَةُ ؟ قَالَ : كَانَ أَوَّلَ الْمُلُوكِ

میں نے کہا اور معاويہ؟ سفینہ رضی الله تعالی عنہ نے کہا وہ پہلا بادشاہ ہے - (مسند أبي داود الطيالسي: وَسَفِينَةَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رقم ١٢٠٣)

سفينہ مولَى ام سلمہ ہیں اور بیہقی کتاب الاعتقاد والهداية إلى سبيل الرشادعلى مذهب السلف وأصحاب الحديث میں انکو ابی عبد الرحمن مولى رسول الله صلى الله عليہ وسلم کہتے ہیں -

احمد العلل میں کہتے ہیں کہ:

حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ كُوفِيٌّ ، قَالَ ، قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ : أَيْنَ لَقِيتَ سَفِينَةَ ؟ قَالَ : لَقِيتُهُ بِبَطْنِ نَخْلَةَ فِي زَمَنِ الْحَجَّاجِ فَأَقَمْتُ عِنْدَهُ ثَمَانِي لَيَالٍ أَسْأَلُهُ عَنْ أَحَادِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قُلْتُ : مَا اسْمُكَ ؟ قَالَ : " سَمَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَفِينَةَ "


عبد اللہ کہتے ہیں کہ: میرے باپ احمد کہتے ہیں حشرج نے کہا کہ میں نے سعید سے پوچھا کہ سفینہ سے کہاں ملے کہا نخلہ میں حجاج کے دور میں ان کے ساتھ آٹھ راتیں گزاریں -


(الجامع في العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل: سماني رسول الله صلى الله عليه وسلم سفينة)

یعنی سعید کی جانب سے یہ ساری دل کی بھڑاس حجاج بن یوسف المتوفی 95 ھ پر نکالی جا رہی تھی خود سعید بن جمہان نے بنو امیہ کا پورا دور دیکھا ہے لیکن اموی دور میں عدل کا یہ عالم تھا کہ کسی اموی خلیفہ نے ان کو ایسی روایات بیان کرنے پر ہلاک نہیں کیا -

روایت کا راوی ضعیف ہے:

سعید بن جمھان کے لئے محدثین کا فیصلہ ہے کہ:

ابن معين: روى عن سفينة أحاديث لا يرويها غيره، وأرجو أنه لا بأس به

ابن معین: یہ سفینہ سے روایات کرتے ہیں جن کو کوئی اور روایت نہیں کرتا اور مجھے امید ہے کہ ان میں برائی نہیں -

(تعلیق تہذیب الکمال فی اسماء الرجال: جلد ٦ ، صفحہ ٢٤٣ ، مؤسستہ الرسالہ - بیروت)

وقال البخاري في حديثه عجائب


امام بخاری کہتے ہیں کہ: اس کی روایات میں عجائب ہیں - (تہذیب التہذیب: جلد ٤ ، صفحہ ١٤ ، مطبعہ دائرة المعارف النظاميہ - الهند)

وقال أبو حاتم يكتب حديثه ولا يحتج به


اس کی روایت لکھ لو لیکن دلیل نہ لو - (ایضاً)

وقال الساجي لا يتابع على حديثه


ان کی حدیث کی متابعت نہیں کی جاتی - (ایضاً)

امام العقیلی الضعفاء الكبير میں لکھتے ہیں کہ:

حَدَّثَنِي آدَمُ بْنُ مُوسَى , قَالَ : سَمِعْتُ الْبُخَارِيَّ ، يَقُولُ : حَشْرَجُ بْنُ نَبَاتَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ ، عَنْ سَفِينَةَ : أَنّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلامُ قَالَ لأَبِي بَكْرٍ ، وَعُمَرَ ، وَعُثْمَانَ : هَؤُلاءِ الْخُلَفَاءُ مِنْ بَعْدِي " . قَالَ : لَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ , لأَنَّ عُمَرَ , وَعَلِيًّا , قَالا : لَمْ يَسْتَخْلِفِ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلامُ


آدم بن موسى کہتے ہیں میں نے امام بخاری کو کہتے سنا حشرج بن نباتہ عن سعيد بن جمهان ، عن سفينہ سے کہ بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ابی بکر اور عمر اور عثمان (رضوان الله علیھم) کے لئے کہ یہ میرے بعد خلفاء ہونگے - امام بخاری نے کہا (اسکے برعکس) علی اور عمر (رضوان الله علیھم) نے کہا نبی علیہ السلام نے کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا -


( الضعفاء الكبير للعقيلي: بَابُ الْحَاءِ: حَشْرَجُ بْنُ نَبَاتَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ.......)

اگرچہ یہ روایت الگ ہے لیکن امام بخاری کا سعید بن جمھان کے بارے میں موقف پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک اسکی سفینہ رضی الله تعالی عنہ سے روایت صحیح نہیں -

ابن القيسرانی (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدی) میں کہتے ہیں کہ:

حَدِيث: الْخلَافَة ثَلَاثُونَ سنة. رَوَاهُ سعيد بن جمْهَان: عَن سفينة. قَالَ: وثنا الْحسن بن عَليّ، ثَنَا هشيم، عَن الْعَوام بن حَوْشَب، عَن سعيد بن جمْهَان، عَن سفينة أَن رَسُول الله - صلى الله عَلَيْهِ وَسلم - قَالَ. وَقد حدث أَيْضا عَن سعيد: حَمَّاد بن سَلمَة، وحشرج بن نباتة، وَيحيى بن طَلْحَة بن أبي شهدة. وَأوردهُ فِي تَرْجَمَة حشرج: عَن سعيد، عَن سفينة. وَقد رَوَاهُ مَعَه حَمَّاد بن سَلمَة، وَعبد الْوَارِث بن سعيد، والعوام بن حَوْشَب، وَيحيى بن طَلْحَة بن أبي شهدة، وَغَيرهم -
وَرَوَاهُ يحيى بن مُحَمَّد بن ييحى ابْن أخي حَرْمَلَة بن يحيى: عَن عَمه، عَن عبد الله بن وهب، عَن ابْن لَهِيعَة، عَن يزِيد بن أبي حبيب، عَن سعيد بن عَمْرو، عَن سفينة. وَهَذَا رَوَاهُ حَمَّاد بن سَلمَة، وَيحيى بن طَلْحَة بن أبي شهدة، وحشرج بن نباتة: عَن سعيد بن جمْهَان عَن سفينة. وَأما بِهَذَا الْإِسْنَاد فَلم نَكْتُبهُ إِلَّا عَن يحيى، وَكَانَ ضَعِيفا


خلافت تیس سال ہے اسکو روایت کیا ہے سعيد بن جمهان نے سفينہ سے کہا وثنا الحسن بن علی ، ثنا هشيم ، عن العوام بن حوشب ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينہ ان رسول الله – صلى الله عليہ وسلم – قال - اور اس کو سعید سے بھی روایت کیا ہے حماد بن سلمہ اور حشرج بن نباتہ اور يحيى بن طلحہ بن ابی شهدہ اور کو لائے ہیں حشرج کے ترجمے میں عن سعيد ، عن سفينہ اور بے شک اسکو روایت کیا ہے حماد بن سلمہ ، وعبد الوارث بن سعيد ، والعوام بن حوشب ، ويحيى بن طلحہ بن ابی شهدہ اور دوسروں نے -
اور اسکو روایت کیا ہے يحيى بن محمد بن ييحى ابن اخی حرملہ بن يحيى: عن عمہ ، عن عبد الله بن وهب ، عن ابن لَهِيعہ ، عن يزيد بن ابی حبيب ، عن سعيد بن عمرو ، عن سفينہ اور ایسا روایت کیا ہے حماد بن سلمہ اور يحيى بن طلحہ بن ابی شهدہ اور حشرج بن نباتہ نے عن سعيد بن جمهان عن سفينہ سے
وَأما بِهَذَا الْإِسْنَاد فَلم نَكْتُبهُ إِلَّا عَن يحيى، وَكَانَ ضَعِيفا
اور ان اسناد کے ساتھ ہم نہیں لکھیں گے سوائے یحیی سے اور وہ ضعیف ہے
-

(جلد ٣ ، صفحہ ١٣١٥ ، ١٣١٦ ، رقم ٢٨٤٢ ، دار السلف - الریاض)

روایت کا مسلکی دفاع:



اس روایت کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ ابن ابی حاتم کی جرح "لا يحتج به" غیر مفسر ہے - کیا ابن ابی حاتم نے نہیں بتایا کہ ان الفاظ "لا يحتج به" کا کیا مفہوم ہے وہ کتاب "الجرح و تعدیل" میں لکھتے ہیں کہ:

قلت لأبي : ما معنى لا يحتج بحديثهم ؟ قال : كانوا قوما لا يحفظون فيحدثون بما لا يحفظون فيغلطون , ترى في أحاديثهم اضطرابا ما شئت
(عبد الرحمن بن ابی حاتم) کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ لا يحتج به کا کیا مطلب ہے انہوں نے کہا ایک قوم ہے رجال کی جو یاد نہیں رکھتے تھے اور حدیثیں بیان کرتے ہیں جو انکو یاد نہیں ہوتیں پس ان میں غلطیاں کرتے ہیں پس تم دیکھو گے کہ انکی حدیثوں میں اضطراب کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے -

(الجرح والتعديل: باب الألف: باب من يسمى إبراهيم: باب الميم)

ابن ابی حاتم نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ لا يحتج به کا کیا مطلب ہے - باقی یہ اعتراض کہ یہ الفاظ صرف وہ بولتے ہیں بھی درست نہیں - الساجی بھی سعید بن جمہان کو انہی الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور یہ جرح بالکل مفسر ہے -

جرح غیر مفسر ، متاخرین کا شوشہ ہے جس کا مقصد صرف اپنے محبوب راویوں کو بچانا ہے -

کہا جاتا ہے کہ ابی حاتم متشدد ہیں - المنذری (المتوفی: 656هـ) کتاب "جواب الحافظ أبى محمد عبد العظيم المنذري المصري عن أسئلة فى الجرح والتعديل" میں لکھتے ہیں - الذهبی - "سير اعلام النبلاء" فی ترجمہ (ابی حاتم) میں لکھتے ہیں کہ:

إذا وثق أبو حاتم رجلا ، فتمسك بقوله ، فإنه لا يوثق الا رجلا صحيح الحديث ، وإذا لين رجلا ، أو قال فيه : لا يحتج به. فتوقف حتى ترى ما قال غيره فيه ، فإن وثقه احد ، فلا تبن على تجريح أبي حاتم ، فإنه متعنت في الرجال ، قد قال في طائفة من رجال الصحاح : ليس بحجة ، ليس بقوي ، أو نحو ذلك


جب امام ابو حاتم کسی شخص کو ثقہ قرار دیں تو اس بات کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو کیونکہ وہ صرف اس شخص کو ثقہ کہتے ہیں جو کہ صحیح الحدیث ہوتا ہے - اور اگر وہ کسی کی تضعیف کریں یا اس کے بارے میں :لا یحتج به" کہیں تو توقف کرو تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ اوروں نے کیا کہا ہے؟ اور اگر کسی نے ثقہ کہا ہے تو پھر ابو حاتم کی جرح نہ مانو کیونکہ وہ اسماء الرجال میں متشدد ہیں - انہوں نے صحیحن کے ایک گروہ کے بارے میں "لیس بحجة" ، "لیس بقوی" وغیرہ کہا ہے -

(سير أعلام النبلاء: الطبقة الخامسة عشرة: أبو حاتم الرازي ، وابنه محمد بن إدريس بن المنذر بن.....)

ہم الذہبی کی اس رائے سے متفق نہیں - اسناد ، دین ہیں اگر کوئی اس معاملے میں متشدد ہے تو یہ اچھی بات ہے - جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابی حاتم نے صحیحن کے راویوں پر بھی جرح کی ہے تو وہ بھی مضر رساں نہیں ان راویوں کی ساری روایات صحیح ہونے کے قائل کون ہیں؟ ماسوا آجکل کے فرقہ۔

چند سال قبل تک انکا بھی یہ مؤقف نہیں تھا - مبارکپوری اہلحدیث ہیں ، ترمذی کی شرح تحفتہ الاحوذی میں لکھتے ہیں:

وأما قول الهيثمي رجاله ثقات فلا يدل على صحته لاحتمال أن يكون فيهم مدلس ورواه بالعنعنة أو يكون فيهم مختلط ورواه عنه صاحبه بعد اختلاطه أو يكون فيهم من لم يدرك من رواه عنه أو يكون فيه علة أو شذوذ، قال الحافظ الزيلعي في نصب الراية في الكلام على بعض روايات الجهر بالبسملة لا يلزم من ثقة الرجال صحة الحديث حتى ينتفي منه الشذوذ والعلة، وقال الحافظ ابن حجر في التلخيص في الكلام على بعض روايات حديث بيع العينة لا يلزم من كون رجال الحديث ثقات أن يكون صحيحاً انتهى


اور (بسم الله جھر سے پڑھنے والی روایت پر) الهيثمی کا یہ کہنا کہ رجال ثقہ ہیں دلیل نہیں بنتا کہ یہ روایت صحیح ہے کیونکہ اسمیں شذوذ یا علت ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے اس میں مدلس ہو جو عن سے روایت کرے - الزيلعی کہتے ہیں.......کسی حدیث میں ثقہ راوی ہونے سے وہ صحیح نہیں ہو جاتی
-


(تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي: باب ما جاء في الجماعة في مسجدٍ قد صُلّيَ فيه مَرّة ، رقم ٢١٩)

ابن حجر النکت میں کہتے ہیں:

قلت: "ولا يلزم من كون رجال الإسناد من رجال الصحيح أن يكون الحديث الوارد به صحيحا، لاحتمال أن يكون فيه شذوذ أو علة
میں کہتا ہوں اگر کسی حدیث کی اسناد میں صحیح کے رجال ہیں تو اس سے حدیث صحیح نہیں ہو گی اس احتمال کی وجہ سے کہ اس میں شذوذ یا علت ہو -

(النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر: جلد ١ ، صفحہ ٢٧٤ ، المدينة المنورة ، المملكة العربية السعودية)

معلوم ہوا کہ صحیحن کے راویوں کی وہ روایات جو صحیحن سے باہر ہیں ضعیف ہو سکتی ہیں -

کیا روایت صحیح ہے؟

ابو الحسن خيثمہ بن سليمان بن حيدرہ بن سليمان القرشی الشامی الاطرابلسی (المتوفى: 343هـ) کتاب "من حديث خيثمة بن سليمان" میں امام احمد کا موقف لکھتے ہیں:

أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا خَيْثَمَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَلِيٍّ النَّوْفَلِيُّ , قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ عَنْ تَفْضِيلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لِي: أَبُو بَكْرٍ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ عُمَرُ , ثُمَّ عُثْمَانُ , ثُمَّ عَلِيُّ فِي الْخِلَافَةِ وَيَذْهَبُ إِلَى حَدِيثِ سَفِينَةَ: «يَكُونُ خِلَافَةٌ وَرَحْمَةٌ ثَلَاثِينَ سَنَةً» , قُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ , فَتَعْرِفُ مَنْ قَالَ: عَلِيٌّ فِي الْإِمَامَةِ وَالْخِلَافَةِ؟ قَالَ: لَا , قَالَ: أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ , وَلَا يُعْجِبُنِي مَنْ وَقَفَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْخِلَافَةِ , قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَنَتَرَحَّمُ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْمَعِينَ


صالح بن علی النوفلی کہتے ہیں میں نے امام احمد سے اصحاب رسول کی فضیلت کے بارے میں پوچھا انہوں نے کہا ابو بکر انسانوں میں سب سے بہتر تھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد پھر عمر پھر عثمان پھر علی خلافت میں اور انہوں نے سفینہ کی حدیث پر مذہب لیا کہ خلافت و رحمت تیس سال ہوگی - میں نے پوچھا کہ اے ابو عبد اللہ پس کیا آپ جانتے ہیں (کسی کو) جو کہتا ہو علی کی امامت و خلافت کے حوالے سے کہا نہیں - امام احمد نے کہا اور مجھے حیرت نہ ہو گی اگر کوئی علی بن ابی طالب کے لئے موقف رکھے ان کی خلافت (برحق ہونے) پر -


(من حديث خيثمة بن سليمان: بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَقْرُبَاتِ: صفحہ ١٠٧ ، دار الكتاب العربي - لبنان)

السنة للخلال (المتوفی: 636هـ) کے مطابق امام احمد اس روایت کو صحیح کہتے تھے -

القرطبی (المتوفى: 463هـ) کتاب "جامع بيان العلم وفضله" میں لکھتے ہیں کہ:

قَالَ أَبُو عُمَرَ: " قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: حَدِيثُ سَفِينَةَ فِي الْخِلَافَةِ صَحِيحٌ وَإِلَيْهِ أَذْهَبُ فِي الْخُلَفَاءِ

ابو عمر کہتے ہیں احمد بن حنبل کہتے ہیں سفینہ کی خلافت والی حدیث صحیح ہے اور اسی پر خلفاء (کے بارے) میں مذہب ہے -

(جلد ٢ ، صفحہ ١١٦٩ ، رقم ٢٣١٣ ، دار ابن الجوزي ، المملكة العربية السعودية)

مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية ابن أبي الفضل صالح (المتوفی: 266هـ) میں ہے کہ امام احمد کے بیٹے پوچھتے ہیں:

قلت وَتذهب إِلَى حَدِيث سفينة قَالَ نعم نستعمل الْخَبَرَيْنِ جَمِيعًا حَدِيث سفينة الْخلَافَة ثَلَاثُونَ سنة فَملك أَبُو بكر سنتَيْن وشيئا وَعمر عشرا وَعُثْمَان اثْنَتَيْ عشر وَعلي سِتا رضوَان الله عَلَيْهِم -


میں کہتا ہوں اور (کیا) آپ حدیث سفینہ پر مذہب لیتے ہیں امام احمد نے کہا ہاں -
(جلد ١ ، صفحہ ٤٢٦ ، رقم ٤١١ ، الدار العلمية - الهند)

ابن بَطَّة العكبري (المتوفى ٣٨٧ ھ ) کتاب "الإبانة الكبرى" میں لکھتے ہیں:

قال الشيخ: فكانت هذه خلافة النبوة، وهؤلاء الخلفاء الذين نزلت فيهم الآية وعليّ آخرهم، وبه تمت خلافة النبوة على ما بين النبي صلى الله عليه وسلم

پس یہ خلافت النبوه ہے اور یہ خلفاء ہیں جن کے لئے آیات نازل ہوئیں اور علی ان میں آخری ہیں اور ان پر خلافت النبوه مکمل ہوئی
-

(الإبانة الكبرى لابن بطة: جلد ٨ ، صفحہ ٢٠٥ ، دار الراية للنشر والتوزيع ، الرياض)

الغرض تیسری اور چوتھی صدی ہجری تک اس روایت کو علماء اپنے مذہب کا حصہ بنا چکے تھے - اگرچہ بعض محدثین نے اس راوی سعید بن جمھان کو ضعیف قرار دیا لیکن ان کی چلنے نہ دی گئی -

تیسری صدی کے امام احمد کے شاگرد امام نسائی جو کتب ستہ کے ایک مصنف تھے ان پر بغض معاویہ کا بہت اثر تھا انہوں نے کتاب "خصائص علی" لکھی تھی - ان سے سوال ہوا کہ معاویہ کی فضیلت میں کوئی روایت بتائیے انہوں نے کہا ان کی فضیلت میں کوئی حدیث نہیں بلکہ صرف ایک حدیث ہے کہ الله اس کا پیٹ نہ بھرے بس یہ ایک روایت ہے! یہ کہنا تھا کہ اس پر ایک فساد برپا ہوا اوران کو شدید زخمی کر دیا گیا اسی واقعہ میں ان کی جان قبض ہوئی -


امام نسائی کی موت بغض صحابہ پر ہوئی اور الله کا قرآن ان صحابہ کے سچ کی گواہی دیتا ہے -

وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ


اور بھلائی (جنت) کا وعده تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے - (سورة الحديد:١٠)

نام نہاد اہلسنت کے علماء افراط و تفریط کا شکار ہو چکے تھے امام نسائی نے جب علی کے نام پر بقیہ اصحاب رسول پر چھپے لفظوں تنقید شروع کر دی تھی جبکہ امام بخاری اس سے الگ معاویہ رضی الله تعالی عنہ کی جانب سے یزید کی تقرری کے بارے میں صحیح رائے بیان کر رہے تھے اور امام ابو زرعہ کہتے تھے کہ اگر تم کسی کو دیکھو کہ صحابہ کو برا کہہ رہا ہے تو سمجھ لو وہ زندیق ہے -

رافضیت میں ڈوبی سعید کی سفینہ رضی الله تعالی عنہ سے روایت اس قابل نہیں کہ اس کو حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کہا جائے - سفینہ رضی الله تعالی عنہ جو خود ایک فارسی النسل تھے انکا بنو الزرقاء سے بغض بھی سمجھ سے بالا تر ہے - معاويہ رضی الله تعالی عنہ کس طرح ایک بادشاہ تھے اور خلافت النبوه سے کس طرح خارج تھے روایت میں واضح نہیں کیا گیا -
یہ روایت کئی وجوہ سے منکر ہے -

اول: امت کے پانچویں خلیفہ حسن رضی الله تعالی عنہ تھے لیکن روایت میں علی رضی الله تعالی عنہ کے بعد سب کو بادشاہ بتایا گیا ہے - سعید کا سفینہ رضی الله عنہ کے حوالے سے معاویہ رضی الله عنہ کو پہلا بادشاہ کہنا خلاف تاریخ ہے - جو حساب کتاب اس روایت میں ہے اس کے مطابق پہلے بادشاہ حسن رضی الله تعالی عنہ ہوتے ہیں علی رضی الله تعالی عنہ نے وفات سے پہلے حسن رضی الله تعالی عنہ کو خلیفہ کیا تھا -

الذہبی لکھتے ہیں کہ:

بويع الحسن ، فوليها سبعة أشهر وأحد عشر يوما ، ثم سلم الأمر إلى معاوية


حسن پر بیعت ہوئی پس انہوں نے سات مہینے ١١ دن حکومت کی ، پھر خلافت معاويہ (رضی الله عنہ) کو دے دی -

(سير أعلام النبلاء: ومن صغار الصحابة: الحسن بن علي بن أبي طالب)

دوم: صحیح حدیث میں آتا ہے کہ حسن رضی الله عنہ امت کے دو گروہوں میں صلح کرائیں گے لیکن اس روایت کے مطابق حسن رضی الله عنہ نے معاویہ رضی الله عنہ کے حق میں دستبردار ہو کر غلط کیا - اگر حسن خلیفہ نہیں تھے تو وہ کس چیز سے دست بردار ہوئے - سارا الزام حسن پر اتا ہے کہ وہ باشاہوں کو امت پر مسلط کر کے چلے گئے - اصل میں یہ روایت نہ صرف معاویہ رضی الله عنہ بلکہ حسن رضی الله عنہ پربھی تبرا ہے -

الذہبی لکھتے ہیں کہ:

قال النبي - صلى الله عليه وسلم - في الحسن : إن ابني هذا سيد وسيصلح الله به بين فئتين عظيمتين من المسلمين ثم إن معاوية أجاب إلى الصلح ، وسر بذلك ، ودخل هو والحسن الكوفة راكبين ، وتسلم معاوية الخلافة في آخر ربيع الآخر ، وسمي عام الجماعة لاجتماعهم على إمام ، وهو عام أحد وأربعين


نبی صلی الله علیہ وسلم نے حسن رضی الله تعالی عنہ کے لئے فرمایا بے شک یہ میرا بیٹا سردار ہے اور الله اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا پس جب معاویہ نے صلح کو مانا اور اس پر تیار ہوئے تو وہ اور حسن چلتے ہوئے کوفہ میں داخل ہوئے اور معاویہ خلیفہ ہوئے ربیع الثانی میں اور وہ سال ، عام الجماعہ کے نام سے پڑ گیا ان دونوں کے اجماع کی وجہ سے اور یہ سال ٤١ ھ کا ہے -


(سير أعلام النبلاء: الصحابة رضوان الله عليهم: معاوية بن أبي سفيان)

جو سال صحابہ کے درمیان عام الجماعہ کے نام سے مشہور ہو اس سال کو تو اس حدیث کی روشنی میں عام الملوک (بادشاہوں کا سال) کہا جانا چاہیے تھا -

سوم: معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں جو جہاد ہوئے ان میں حسین رضی الله تعالی عنہ بھی شریک تھے کیا وہ ایسے نظام کو مظبوط کر رہے تھے جو تھا ہی غلط - کیا اس جہاد کے نتیجے میں جو علاقے فتح ہوئے ان پر غیر اسلامی نظام مسلط کرنے کے لئے انہوں نے غلط کام نہیں کیا -

چہارم: کہا جاتا ہے کہ الله کفر کی حکومت چلنے دیتا ہے لیکن ظلم کی نہیں - اب ہم بھی حساب لگاتے ہیں دیکھتے ہیں بنی امیہ کی حکومت کب تک چلی -

معاویہ بن ابی سفیان رضی الله تعالی عنہ ٤١ سے ٦٠ ہجری
معاویہ بن ابی سفیان ٤١ سے ٦٠ ہجری
یزید بن معاویہ ٦٠ سے ٦٤ ہجری
معاویہ بن یزید ٦٤ ہجری
مروان بن الحکم ٦٥ ہجری
عبدالملک بن مروان ٦٥ سے ٨٦ ہجری
ولید بن عبد الملک ٨٦ سے ٩٦ ہجری
سلیمان بن عبد الملک ٩٦ سے ٩٩ ہجری
عمر بن عبد العزیز ٩٩ سے ١٠١ ہجری
یزید بن عبد الملک بن مروان ١٠١ سے ١٠٥ ہجری
ہشام بن عبدالملک ١٠٥ سے ١٢٥ ہجری
ولید بن یزید ١٢٥ سے ١٢٦ ہجری
یزید بن ولید ١٢٦ ہجری
ابراہیم بن ولید ١٢٦ ہجری
مروان بن محمد ١٢٦ سے ١٣٢ ہجری

بنو امیہ کی حکومت ٩١ سال رہی یعنی تقریباً ایک صدی - یہ حکومت کیوں رہی اس کا جواب بھی حدیث میں ملتا ہے -

یہ امر خلافت قریش رہے گا جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اوندھا کر دے گا جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے
-

(بخاری)

جابر بن سمرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو کوئی زوال نہیں ہو گا بارہ خلفاء تک -

(مسلم)
جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے ساتھ نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس گیا آپ صلی الله علیہ وسلم کو کہتے سنا بے شک یہ امر( دین) نہیں کم ہو گا حتی کہ ان میں سے بارہ خلفاء نہ گزر جائیں جو سب قریش کے ہونگے -

(مسلم)

سلیمان بن عبدالملک تک بارہ خلفاء ہوتے ہیں اور اسلام دنیا میں غالب رہا اور اس کی سرحدیں ہند اور یورپ تک پہنچ گئیں -
شیعوں نے بارہ خلفاء والی روایت سے اپنے بارہ امام نکال لئے - افسوس روایت میں اسلام کی جس سر بلندی کا ان بارہ خلفاء کے دور کا ذکر ہے اس پر ان کے امام نہیں اترتے - بنو امیہ اور بنو عباس کے خوف میں تقیہ اختیار کر کے زندہ رہنے والے اسلام کی کیا سر بلندی کر پائے آج تک کسی شیعہ نے نہیں بتایا لہذا اس روایت کا وہ مصداق نہیں ہو سکتے

دوسری طرف گمراہ آئمہ نے شیعت سے متاثر ہو کر لوگوں کے ذہنوں کو بنو امیہ کے خلاف تعصب سے بھر دیا اور عوام الناس کو یہ خیال ہوا کہ بارہ خلفاء ابھی آئیں گے -

ابن الجوزی کشف المشکل میں لکھتے ہیں کہ:

وقال ابن الجوزي : في " كشف المشكل " قد أطلت البحث عن معنى هذا الحديث وتطلبت مظانه وسألت عنه فلم أقع على المقصود به


میں نے مدتوں اس (بارہ خلفاء والی) حدیث کے معنی کی تفتیش کی - اور جہاں جہاں گمان تھا وہ کتابیں دیکھیں - اپنے زمانہ کے آئمہ سے سوال کئے - مگر مراد متعین نہ ہوئی -


(بحوالہ فتح الباري شرح صحيح البخاري: ابن ہجر عسقلانی: كتاب الأحكام: باب الاستخلاف)

ہوتی بھی کیسے بارہ خلفاء آچکے لیکن اپ کو وہ پسند نہیں آئے!

کہا جاتا ہے کہ اس روایت میں شیعت کہاں ہے؟ اس میں تو پہلے چار خلفاء کو خلفاء النبوه مانا گیا ہے! بنیادی طور سے یہ بنو امیہ مخالف روایت ہے - خاندانی دشمنی پر مبنی کوئی بھی بات حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہو سکتی - نبی صلی الله علیہ وسلم نے تو فتح مکہ والے دن ساری عصبیتوں کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے - اس روایت کا مقصد صحابہ کو قابض اور خلافت النبوه سے علیحدہ کرنا ہے یہ ان سارے صحابہ پر اتہام ہے جنہوں نے بنو امیہ کے خلفاء کے ہاتھ پر بیعت کی - جن من جلیل القدر اصحاب رسول عبد اللہ ابن عباس ، عبد اللہ بن عمر ، انس بن مالک ، ابو الدرداء ، جابر بن عبد اللہ ، ابو واقد لیثی ، ابو سعید الخدری رضی الله تعالی عنہم آتے ہیں -


اسی روایت کی بنیاد پر آگے چل کر خلافت راشدہ کی اصطلاح گھڑلی گئی یعنی پہلے چار خلفاء ہدایت یافتہ اور ان کے بعد بننے والے حسن رضی الله تعالی عنہ ، معاویہ رضی الله تعالی عنہ وغیرہ غیر ہدایت یافتہ نعوذ باللہ من تلک الخرافات

کہا جاتا ہے اس کے لئے ا فتح الباری اور مجموع فتاوی دیکھو - افسوس! ان صحابہ رضی الله تعالی عنہ کو کیا کہا جائے گا جنہوں نے بنو امیہ کا ساتھ دیا عمرو بن العاص رضی الله تعالی عنہ ، نعمان بن بشیر رضی الله تعالی عنہ وغیرہ - کیا اس روایت میں ان پر مخفی تبرا نہیں ، کہاں ہیں صحابہ کلھم عدول کا نعرہ لگانے والے؟

زبیر علی زئی کتاب "تحقیق اصلاحی اور علمی مقالات" میں لکھتے ہیں کہ:

میں پوچھتا ہوں کہ اس حدیث سے دنیائے رفض و کذب کے ہاتھ میں کونسا ہتھیار آ گیا ہے؟ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امیر المؤمنین ابو بکر رضی الله عنہ اور امیر المؤمنین عمر رضی الله عنہ اور امیر المؤمنین عثمان رضی الله عنہ تینوں خلفائے راشدین علی منھاج النبوة میں سے تھے - بتائیے وہ کونسا رافضی ہے جو ان خلفائے ثلاثہ کو خلفاء علی منھاج النبوة سمجھتا ہو؟! بلکہ اس حدیث سے تو عقیدہ رفض کا خاتمہ ہو جاتا ہے! والحمدالله -


(صفحہ ٣٢١)

قارئین آپ نے دیکھا کس طرح مخفی تبرہ بھیجا گیا کیا یہ ممکن ہے کہ معاویہ اور حسن رضی الله تعالی عنہما نے جو خلافت قائم کی وہ اس اصولوں پر نہیں تھی جو نبی صلی الله علیہ وسلم نے سکھائے تھے؟ ہم تو یہ سوچنا ہی غلط سمجھتے ہیں - رافضی تو حسن رضی الله تعالی عنہ کو پسند نہیں کرتے اس پر شاہد انکی کتب ہیں کیونکہ انہوں نی معاویہ سے معاہدہ کر کے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا تھا -
کہا جاتا ہے کہ اگر اس تیس سال والی روایت کو ضعیف مانا جائے تو یزید بھی خلیفہ بن جاتا ہے لہذا یہ صحیح رائے نہیں لیکن خود یزید کو اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کی تائید حاصل تھی -

صحیح بخاری کی حدیث ہے:

باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ


حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ


نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يزيد بن معاويہ کی بیعت توڑی تو عبد اللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑھا جائے گا - اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتباع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے -

بخاری یزید بن معاویہ کو حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تھے بخاری "بَابُ مَنَاقِبِ الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا" میں روایت کرتے ہیں کہ:

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي نُعْمٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، وَسَأَلَهُ عَنِ المُحْرِمِ؟ قَالَ: شُعْبَةُ أَحْسِبُهُ يَقْتُلُ الذُّبَابَ، فَقَالَ: أَهْلُ العِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ابن ابی نعم کہتے ہیں میں نے عبد الله بن عمر کو سنا جب ان سے محرم (حالت احرام) کے بارے میں سوال ہوا کہ اگر محرم (احرام ) کی حالت میں مکھی قتل ہو جائے تو کیا کریں پس انہوں نے کہا "اهْلُ العِرَاقِ" مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور انہوں (اہل عراق) نے رسول الله صلى الله عليہ وسلم کے نواسے کا قتل کیا -


لیکن امت کے جمہور نے الله کے بندے یزید بن معاویہ کے حق میں عبد اللہ بن عمر رضی الله تعالی عنہ کی رائے نہیں مانی ، اور اب "سنی" ہونے کے دعوے داروں کو بارہ خلفاء نہ اتا ہے نہ پتا!

ایک دوسری روایت جو حذيفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے پیش کی جاتی ہے امام احمد مسند میں بیان کرتے ہیں

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ بَشِيرٌ رَجُلًا يَكُفُّ حَدِيثَهُ، فَجَاءَ أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ، فَقَالَ: يَا بَشِيرُ بْنَ سَعْدٍ أَتَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْأُمَرَاءِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا أَحْفَظُ خُطْبَتَهُ، فَجَلَسَ أَبُو ثَعْلَبَةَ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ» ثُمَّ سَكَتَ، قَالَ حَبِيبٌ: ” فَلَمَّا قَامَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَكَانَ يَزِيدُ بْنُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ فِي صَحَابَتِهِ، فَكَتَبْتُ إِلَيْهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ أُذَكِّرُهُ إِيَّاهُ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَرْجُو أَنْ يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، يَعْنِي عُمَرَ، بَعْدَ الْمُلْكِ الْعَاضِّ وَالْجَبْرِيَّةِ، فَأُدْخِلَ كِتَابِي عَلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَسُرَّ بِهِ وَأَعْجَبَهُ


تم میں نبوت کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا -


 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ایک دوسری روایت جو حذيفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے پیش کی جاتی ہے امام احمد مسند میں بیان کرتے ہیں

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ
إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ
بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: كُنَّا قُعُودًا فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ بَشِيرٌ رَجُلًا يَكُفُّ حَدِيثَهُ، فَجَاءَ
أَبُو ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيُّ، فَقَالَ: يَا بَشِيرُ بْنَ سَعْدٍ أَتَحْفَظُ
حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْأُمَرَاءِ؟
فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا أَحْفَظُ خُطْبَتَهُ، فَجَلَسَ أَبُو ثَعْلَبَةَ،
فَقَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا
إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ
النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا
شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا
شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا،
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ،
ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى
مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ» ثُمَّ سَكَتَ، قَالَ حَبِيبٌ: ” فَلَمَّا قَامَ عُمَرُ بْنُ
عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَكَانَ يَزِيدُ بْنُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ فِي
صَحَابَتِهِ، فَكَتَبْتُ إِلَيْهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ أُذَكِّرُهُ إِيَّاهُ،
فَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَرْجُو أَنْ يَكُونَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، يَعْنِي
عُمَرَ، بَعْدَ الْمُلْكِ الْعَاضِّ وَالْجَبْرِيَّةِ، فَأُدْخِلَ كِتَابِي عَلَى
عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَسُرَّ بِهِ وَأَعْجَبَهُ


تم میں نبوت کا وجود اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا - پھر اللہ تعالیٰ
نبوت کو اٹھالے گا اور اس کے بعد خلافت ہو گی جو نبوت کے طریقہ پر ہوگی - پھر خلافت
کو اٹھالے گا اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی کاٹنے والی پھر جب تک اللہ چاہے گا اسے
قائم رکھے گا پھر اس کو بھی اللہ تعالیٰ اٹھا لے گا - پھر تکبر اور غلبہ کی حکومت
ہو گی اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ قائم رہے گی پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے
گا اور اس کے بعد (دوبارہ) نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہو گی اتنا فرما کر آپ
خاموش ہو گئے۔حبیب بن سالم کہتے ہیں جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ ہوئے اور یزید بن
النعمان بن بشير انکے اصحاب میں سے تھے پس انہوں نے عمر بن عبد العزیز کو یہ حدیث
لکھ بھیجی پس انہوں (یزید بن النعمان بن بشیر) نے مجھ سے کہا مجھے امید ہے کہ امیر
المومنین عمر خلیفہ ہوئے ہیں کاٹنے والے بادشاہ کے بعد ، پس میں خط لے کر عمر بن
عبد العزیز کے پاس گیا اور یہ وضاحت کی اور ان (عمر بن عبد العزیز) کو حیرانگی ہوئی



(مسند أحمد: أول مسند الكوفيين: حديث النعمان بن بشير عن النبي صلى الله عليه
وسلم)

یہ روایت صحیح نہیں کم از کم امام بخاری کے نزدیک -

حبيب بن سالم کے لئے امام بخاری "فیه نظر" کہتے ہیں اور ان سے صحیح میں کوئی روایت
نہیں لی - امام مسلم نے صرف ایک روایت لی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے دن
نماز میں سوره الغاشیہ پڑھتے تھے
- امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز کا حیران ہونا
بھی معنی خیز ہے -

کتاب "من قال فيه البخاري فيه نظراز أبو ذر عبد القادر بن مصطفى بن عبد الرزاق
المحمدي" کے مطابق:

حبيب بن سالم الأنصاري مولى النعمان بن بشير: قال البخاري: "فيه نظر". وقال ابن
عدي: ليس في متون أحاديثه حديث منكر بل اضطرب في أسانيد ما يروى عنه، ووثقه أبو
حاتم وأبو داود، وأورده ابن حبّان في الثقات، وقال عنه ابن حجر: لا بأس به. قلت: له
عند مسلم حديثٌ واحدٌ متابعةً، وروى له أحمد والدارمي والأربعة ما مجموعه أربعة
أحاديث دون المكرر.


بخاری اس راوی (حبيب بن سالم الانصاری مولى النعمان بن بشير) کو فیہ نظر کہتے ہیں
ابن عدی کہتے ہیں حدیثوں میں توازن نہیں اس کی حدیث منکر ہے بلکہ اسناد میں اضطراب
بھی کرتا ہے - ابو حاتم اور ابو داؤد ثقہ کہتے ہیں اور ابن حبان ثقات میں لائے ہیں
اور اس کو ابن حجر کہتے ہیں کوئی برائی نہیں - میں (ابو ذر عبد القادر) کہتا ہوں
مسلم نے متابعت میں صرف ایک حدیث نقل کی ہے اور اس سے احمد ، دارمی اور چاروں سنن
والوں نےبلا تکرار حدیث لی ہے -


(صفحہ ١٠ ، رقم ١٥ ، منشور في مجلة الجامعة
الإسلامية - بغداد 2009)

السیوطی کتاب "تدريب الراوي" میں وضاحت کرتے ہیں:

تنبيهات الأول : البخاري يطلق : فيه نظر وسكتوا عنه فيمن تركوا حديثه


پہلی تنبیہ بخاری اگرکسی راوی پر فیه نظر کا اطلاق کریں اور سكتوا عنه کہیں تو مراد
حدیث ترک کرنا ہے -


(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي: أنواع الحديث: النوع
الثالث والعشرون صفة من تقبل روايته ومن ترد وما يتعلق به من الجرح والتعديل وفيه
مسائل: الثالثة عشرة ألفاظ الجرح والتعديل)


کتاب "التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل" از الشيخ المعلمي (المتوفى: 1386هـ) کے مطابق:

«فيه نظر» معدودة من أشد الجرح في اصطلاح البخاري


فیه نظر بخاری کی شدید جرح کی چند اصطلاح میں سے ہے -


(جلد ٢ ، صفحہ ٤٩٥ ، المكتب
الإسلامي)

اللكنوي (المتوفى: 1304هـ) کتاب "الرفع والتكميل في الجرح والتعديل" میں اس پر کہتے
ہیں:

فِيهِ نظر يدل على انه مُتَّهم عِنْده وَلَا كَذَلِك عِنْد غَيره


فیه نظر دلالت کرتا ہے کہ راوی بخاری کے نزدیک متہم ہے اور دوسروں کے نزدیک ایسا
نہیں -


(صفحہ ٣٨٨ ، كتب المطبوعات الإسلامية - حلب)

افسوس بخاری کی شدید جرح کو نظر انداز کر کے اس پر عقیدہ بنایا گیا ہے - اگرچہ مسلم
اور باقی سنن اربعہ والوں نے اس کی حدیث نقل کی ہے لیکن کوئی بھی عقیدے سے متعلق
نہیں ہے -

اس روایت کی وجہ سے ایک نئی اصطلاح ایجاد ہوئی یعنی "خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ
نُبُوَّةٍ"


اس خلافت "خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ" کے قیام کے لئے عجیب و غریب وضع
قطع و نظریات کے لوگ نام نہاد اہلسنت میں اٹھتے رہے ہیں اور رہیں گے - سنی علماء ان
کا دفاع بھی کرتے ہیں اور دعا بھی کرتے رہے ہیں - ان تحریکوں میں زمانہ قریب اور
حال کی تحریکیں شامل ہیں -

لا علم جھلا لوگ انہی ضعیف روایات کو حزر جان بنا کر ایسے لوگوں کے ساتھ جہنم کا
حصہ بنتے رہیں گے - کیونکہ یہ تمام گروہ عقیدے میں تہی داماں طاغوت پرست اور
مشرکانہ عقائد رکھتے ہیں
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
میرا خیال سے 30 سال تقریبا پورے ہوتے ہیں کیونکہ کچھ ماہ 29 دن کے بھی ہوتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا دہائی کا ذکر کیا جاتا ہے اکائی کو چھوڑ دیا جاتا ہے مثلا بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 60 برس بھی بتائی گئی ھے تو اس کی اور بھی کافی طرح سے تطبیق کی جا سکتی ھے بوجہ اس کے کہ ایک صحیح حدیث کو ضعیف کر دیا جائے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top