• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافت کی باگ ڈور قریش میں رہنا اور منکرین حدیث کا بے جا اعتراض

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اعتراض:

امام بخاری رحمت اللہ علیہ اپنی صحیح میں ذکر فرماتے ہیں:


''حدثنا احمد بن یونس حدثنا عاصم بن محمد سمعت ابی یقول: قال ابن عمر رضی اللہ عنہ: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : لا یزال ھذا الامر فی قریش ما بقی منھم اثنان'' (صحیح بخاری، کتاب الاحکام، ج۳، رقم الحدیث ۷۱۴۰)
ترجمہ: ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ خلافت ہمیشہ قریش میں ہی رہے گی جب تک قریش کے دو آدم ی بھی باقی رہیں گے۔ ''


اس صحیح حدیث پر منکرین حدیث کا اعتراض یہ ہے کہ مذکورہ حدیث نے نسل کو پروان چڑھایا کیونکہ قرآن مجید نے حاکمیت کے لیے تقویٰ کو شرط قرار دیا ہے۔
جواب:
قرآن مجید کی آیت اور صحیح حدیث سے غلط فہمیاں صرف اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب آدمی صرف اور صرف نکتہ چینی اور اعتراضات پیدا کرنے کے لیے ان کا مطالعہ کرے یا پھر بغیر پس منظر کے قرآن مجید کی آیت یا حدیث پڑھنا شروع کر دے۔ منکرین حدیث نے بھی کچھ اسی طرح کیا ہے کہ بغیر پس منظر اور حدیث کی منشا کو سمجھے بغیر ہی اعتراض گھڑ لیا۔
مذکورہ بالا حدیث میں کوئی نسلی بنیاد کو ترجیح نہیں ہے، بلکہ حکومت کی ذمہ داری قریش کو اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ لوگ فطرتاً حکومت کرنا جانتے ہیں۔ یعنی حکومت کرنا اور ملک کو چلانا اس فعل میں قریش لوگ مہارت رکھتے ہیں۔ یعنی جو جس کا اہل ہو اسے وہی کام سپرد کرنا چاہیے۔ اگر یہ چیز منکرین حدیث کو قرآن مجید کے خلاف نظر آتی ہے تو یہ ان کی کم علمی کی واضح دلیل ہے۔ جہاں تک تقویٰ اور ورع کا تعلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے ساتھ بھی تقوے کی شرط کو عائد فرمایا تھا۔
امام شافعی رحمت اللہ علیہ اپنی مسند میں ایک حدیث کا ذکر فرماتے ہیں:
''ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لقریش ''اٴنتم اولی الناس بھذا الامر ما کنتم مع الحق الا ان تعدلوا۔۔۔'' (مسند الشافعی، ج۵، ص۵۲۴، رقم الحدیث ۱۷۷۹)
ترجمہ: ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کی جماعت سے فرمایا: تم زیادہ حق دار ہو حکومت کے جب تک تم حق پر قائم ہو اور یہ کہ تم عدل کرو۔۔۔''
اس حدیث نے واضح کر دیا کہ یہاں پر کوئی نسلی بنیاد نہ ہوگی کیونکہ اگر قریش کو حاکم بنایا بھی گیا تو ان کو حق کے ساتھ یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہوگا، وگرنہ ان سے ان کا یہ عہدہ بلا تاخیر ضبط کر لیا جائے گا۔
امام ابن اثیر رحمت اللہ علیہ اپنی کتاب الشافی شرح مسند الشافعی میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:
''والوقوف عند حکم العدل، والانصاف واتباع والواجب وترک الھوی والمیل معہ'' (الشافی، ج۵، ص۵۲۴)
ترجمہ: ''یعنی عدل کے حکم کی طرف وقوف ہونا (جس میں) انصاف و اتباع واجب ہے (قرآن و حدیث کی اتباع) اور خواہشات نفس اور اس کی طرف مائل ہونے کو ترک کرنا۔''
لہٰذا تقویٰ کا معیار اور عدل قریش کے لیے بھی ضروری قرار دیا گیا ہے، اگرچہ وہ حکومت کرنے کی صلاحیت رکھتے بھی ہیں بھی ان کے لیے معیار تقویٰ ہی ہوگا اور فضیلت بھی تقویٰ کی ہی بنیاد پر ہے۔
حافظ ابن حجر رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''ولیس مراد المستدل بہ اٴن الفضل لا یکون الا للقرشی بل المراد اٴن کونہ قریشیا من اٴسباب الفضل والتقدم کما اٴن من اسباب الفضل والتقدم الورع والفقہ والقراءة والسن وغیرھا'' (فتح الباری، ج۱۴، ص۱۰۳)
حافظ ابن حجر رحمت اللہ علیہ نے بھی واضح کر دیا کہ کسی نسل یا عہدے کی وجہ سے قریش کو فضیلت نہیں بلکہ تقویٰ ، ورع اور دین کی سمجھ کے اعتبار سے ان کو فضیلت حاصل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان مبارک پر الحمدللہ تمام امت کا اجماع ہے کہ حکومت کی باگ ڈور صرف قریش میں ہی رہے گی اور یہ حدیث بھی صحت کے اعتبار سے قوی ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس مسئلہ پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع تھا۔ کیونکہ کسی ایک صحابی سے بھی اس کی مخالفت ثابت نہیں اور خلف سے سلف تک اس مسئلہ پر اجماع ہے۔
ابو بکر بن ا لطیب فرماتے ہیں:
''لم یعرج المسلمون علی ھذا القول بعد ثبوت حدیث ''الائمة من قریش'' وعمل المسلمون بہ قرنا بعد قرن وانعقد الاجماع علی اعتبار ذالک قبل ان یقع الاختلاف'' (فتح الباری، ج۱۴، ص۱۰۳)
یعنی ''ائمہ من قریش'' کی حدیث پر عمل مسلمانوں کو قرناً بعد قرناً چلا آ رہا ہے اور اسی پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ غور طلب طلب بات ہے کہ یہاں پر اختلاف ہونے سے پہلے ہی اجماع کا ثبوت موجود تھا اور اختلاف کرنے والے کوئی اہلسنت نہیں تھے بلکہ وہ خوارج اور معتزلہ تھے۔ دیکھیے فتح الباری۔
ان تمام تصریحات سے حق خوب نکھر کر سامنے آ گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کسی نسلی تعصب کو بڑھاوے کے لیے نہیں تھا بلکہ قریش کی حکومت زہد اور تقویٰ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جب تک قریش کے لوگ عدل و انصاف کو قائم رکھیں گے یہ حکومت ان کے ہاتھوں میں رہے گی اور جب یہ ان کو چھوڑ دیں گے تو یہ حکومت ان سے سلب کر لی جائے گی۔
اب سنئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان جس سے منکرین حدیث کا الزام باطل ہو کر رہ جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
''لا تقوم الساعة حتی یخرج رجل من قحطان یسوق الناس بعصاہ''
(صحیح البخاری مع فتح الباری، ج ۱۴، رقم الحدیث ۷۱۱۷، عن ا بی ھریرة)
ترجمہ: ''قیامت قائم نہ ہوگی جب تک قحطان سے ایک شخص نکلے گا وہ لوگوں کو اپنی لاٹھی سے ہانگے گا (سختی کے ساتھ حکومت کرے گا)''
مذکورہ حدیث سے یہ بات مترشح ہوئی کہ قحطان کا ایک شخص حکومت کرے گا، یعنی ایسا کب ہوگا جب قریش سے عدل و انصاف اور کتاب و سنت پر عمل ختم ہو جائے گا تو پھر اللہ تعالیٰ قحطان میں سے ایک شخص کو حکومت نصیب کر دے گا۔ یہ حدیث واضح منکرین حدیث کا رد کرتی ہے کہ قریش کو حکومت دی جائے گی، سے مراد یہی ہے جب تک وہ دین کے احکامات پر قائم رہیں گے۔ الحمدللہ رب العالمین
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اس سلسلے میں ایک یہ بھی کہاجاتاہےکہ عرب کاماحول ہی ایساتھاوہ قرائش کی اامامت کےسواکسی پرمتفق ہونےکو تیاربھی نہیں تھے۔اس وجہ سے آپ ﷺیہ خبردی۔دوسری انتہائی اہم بات یہ ہےکہ اس حدیث کوعبارت کو عام طورپر حکم پرمحمول کرلیاجاتاہے یعنی آپﷺنےحکمافرمایاکہ امام قرائش میں سےہوگا۔لیکن حقیقت یہ ہےکہ اس میں حکم نہیں بلکہ آپ ﷺنےاس وقت کےعربوں تعصبات دیکھ کر ایک خبر دی ہےکہ امامت قرائش میں ہی رہنی ہے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
سقیفہ بنی ساعدہ

اب جب خود حضرت ابو بکر بھی جانتے ہیں کہ ان کا قبیلہ قریش کا ایک ناکام اور نامراد قبیلہ ہے تو پھر وہ کس بناء پر خلافت کے حقدار ہوگئے ؟
شہزادے! جوش خطابت میں عبداللہ بن سبا مت بنو۔۔۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پیش رو خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم ہی کا راستہ پھر کیوں اخیتار کیا؟؟؟۔۔۔ آپ رضی اللہ عنہ منبر خلافت سے برابر یہی کلمات دہراتے خیر ھذاہ الامہ بعد نبیھا ابوبکر وعمراس اُمت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے حج تمتع نہیں فرمایا، اور فداک کا مال بھی نہیں حاصل کیا ایام حج میں لوگوں پر متعہ واجب نہیں کیا اور نہ ہی اذان میں (حی علی خیر العمل) کے کلمہ کو رواج دیا اور نہ اذان سے (الصلاہ خیر من النوم) کا جملہ حذف کیا؟؟؟۔۔۔

اگر حضرت شیخیں ایسے ہی ہیں جیسے آپ کی بیمار سوچ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خلافت زبردستی غصب کی ہوئی تھی تو اس چیز کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھول کر بیان کیوں نہیں کیا جبکہ امور خلافت کی باگ دوڑ اُن کے ہاتھ میں تھی بلکہ ہم کو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذاتی عمل اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے جیسا شہزادے آپ بیان کررہے ہیں ۔۔۔

لہذا جس طرح حضرات شیخیں کی تعریف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دل کھول کر ان کی مدح سرائی کی ہے تو شہزادے اپنے امام معصوم کے عقیدے پر اکتفا کرو اور اسی طرح حضرات شیخیں کی تعریف اور مدح سرائی میں وقت گذارو کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کرین گے تو پھر دوسری طرف آپ پر یہ بات لازم آتی ہے کہ آپ کہیں کے امام معصوم علی بن ابی طالب اُمت اسلامیہ کے ساتھ خیانت سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے حقیقت بیانی سے کام نہیں لے رہے تھے حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ اس سے پاک اور مبرا ہیں۔۔۔

اب سوچ لو شہزادے کیا کرنا ہے۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
شہزادے! جوش خطابت میں عبداللہ بن سبا مت بنو۔۔۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پیش رو خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم ہی کا راستہ پھر کیوں اخیتار کیا؟؟؟۔۔۔ آپ رضی اللہ عنہ منبر خلافت سے برابر یہی کلمات دہراتے خیر ھذاہ الامہ بعد نبیھا ابوبکر وعمراس اُمت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے حج تمتع نہیں فرمایا، اور فداک کا مال بھی نہیں حاصل کیا ایام حج میں لوگوں پر متعہ واجب نہیں کیا اور نہ ہی اذان میں (حی علی خیر العمل) کے کلمہ کو رواج دیا اور نہ اذان سے (الصلاہ خیر من النوم) کا جملہ حذف کیا؟؟؟۔۔۔

اگر حضرت شیخیں ایسے ہی ہیں جیسے آپ کی بیمار سوچ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خلافت زبردستی غصب کی ہوئی تھی تو اس چیز کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھول کر بیان کیوں نہیں کیا جبکہ امور خلافت کی باگ دوڑ اُن کے ہاتھ میں تھی بلکہ ہم کو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذاتی عمل اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے جیسا شہزادے آپ بیان کررہے ہیں ۔۔۔

لہذا جس طرح حضرات شیخیں کی تعریف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دل کھول کر ان کی مدح سرائی کی ہے تو شہزادے اپنے امام معصوم کے عقیدے پر اکتفا کرو اور اسی طرح حضرات شیخیں کی تعریف اور مدح سرائی میں وقت گذارو کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کرین گے تو پھر دوسری طرف آپ پر یہ بات لازم آتی ہے کہ آپ کہیں کے امام معصوم علی بن ابی طالب اُمت اسلامیہ کے ساتھ خیانت سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے حقیقت بیانی سے کام نہیں لے رہے تھے حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ اس سے پاک اور مبرا ہیں۔۔۔

اب سوچ لو شہزادے کیا کرنا ہے۔۔۔
بادشاہ سلامت ! میری عرض آپ کی قرآن کے بعد اصح کتاب سے اخذ کی گئی ہے اور آپ خود کو اہل حدیث گمان کرتے ہو لیکن قرآن کے بعد اصح کتاب سے اخذ کئے گئے بیان پر ہی اعتبار نہیں فرمارہے کہیں امام بخاری کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان کو بہت برا لگے گا کہ اہل حدیث ہی مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں اور میری باتوں پر اعتبار نہیں کرتے !
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
بادشاہ سلامت ! میری عرض آپ کی قرآن کے بعد اصح کتاب سے اخذ کی گئی ہے اور آپ خود کو اہل حدیث گمان کرتے ہو لیکن قرآن کے بعد اصح کتاب سے اخذ کئے گئے بیان پر ہی اعتبار نہیں فرمارہے کہیں امام بخاری کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان کو بہت برا لگے گا کہ اہل حدیث ہی مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں اور میری باتوں پر اعتبار نہیں کرتے !
ابتسامۃ۔۔۔
اس ہی لئے کہتا ہوں اڑتے ہوئے تم نے دیکھے ہیں۔۔۔
پھنستے ہوئے نہیں۔۔۔ لہذا اب بچوں کی طرح ضد چھوڑ دو۔۔۔
شاباش! میں ذرا تصوف کا عقیدہ جن دوستو! کا ہے۔۔۔
اُن سے فارغ ہولوں پھر ان شاء اللہ۔۔۔ اللہ زندگی دیں۔۔۔
محرم کا پورا مہینہ یہ ہی ہوگا۔۔۔ چہلم تک فکر مت کرو۔۔۔
اور ٹینشن نہ لیا کرو۔۔۔ کیونکہ حواسوں کی باختگی۔۔۔
شہزادے تمہارے جوابوں میں نمایاں دکھائی دے جاتی ہے۔۔۔
مسکراہٹ!۔
فی امان اللہ۔۔۔
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
664
ری ایکشن اسکور
741
پوائنٹ
301
آپ بھاءیوں کے کلام سے محسوس کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ فورم نہیں ،مغلیہ خاندان کے کسی بادشاہ کا دربار لگا ہوا ہے۔ابتسامہ
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
آپ بھاءیوں کے کلام سے محسوس کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ فورم نہیں ،مغلیہ خاندان کے کسی بادشاہ کا دربار لگا ہوا ہے۔ابتسامہ
تو چلیں آپ بھی تان سین بن جائیں۔۔۔
اپنی فنکاری کا کوئی نمونہ پیش کیجئے۔۔۔
تاکہ ہم بھی کہہ سکیں کے جس شہکار کا ہمیں انتظار ہے وہ۔۔۔آگیا۔۔۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ابتسامۃ۔۔۔
اس ہی لئے کہتا ہوں اڑتے ہوئے تم نے دیکھے ہیں۔۔۔
پھنستے ہوئے نہیں۔۔۔ لہذا اب بچوں کی طرح ضد چھوڑ دو۔۔۔
شاباش! میں ذرا تصوف کا عقیدہ جن دوستو! کا ہے۔۔۔
اُن سے فارغ ہولوں پھر ان شاء اللہ۔۔۔ اللہ زندگی دیں۔۔۔
محرم کا پورا مہینہ یہ ہی ہوگا۔۔۔ چہلم تک فکر مت کرو۔۔۔
اور ٹینشن نہ لیا کرو۔۔۔ کیونکہ حواسوں کی باختگی۔۔۔
شہزادے تمہارے جوابوں میں نمایاں دکھائی دے جاتی ہے۔۔۔
مسکراہٹ!۔
فی امان اللہ۔۔۔
آپ کی مسکراہٹ پر مجھے دو اشعار یاد آگئے بادشاد سلامت کی نظر کرتا ہوں
جب نہ کچھ بن پڑا عرضِ غم کا جواب
تو خفا ہو گئے مسکرانے کے بعد

پردے ہزار خندہ پیہم کے ڈالیے
غم وہ گناہ ہے کہ چھپائے نہیں بنے

بادشاہ سلامت کی حواسوں کی باختگی پر شعر نظر کرتا ہوں
ہوش و حواس، تابوتوانں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

اور بادشاہ سلامت کی حواسوں کی باختگی کے بعدکنی کاٹنے پر یہ شعر نظر کرتا ہوں
گزرتا ہے ہر شخص چہرہ چھپائے
کوئی راہ میں آئینہ رکھ گیا ہے
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
آپ کی مسکراہٹ پر مجھے دو اشعار یاد آگئے بادشاد سلامت کی نظر کرتا ہوں
جب نہ کچھ بن پڑا عرضِ غم کا جواب
تو خفا ہو گئے مسکرانے کے بعد

پردے ہزار خندہ پیہم کے ڈالیے
غم وہ گناہ ہے کہ چھپائے نہیں بنے

بادشاہ سلامت کی حواسوں کی باختگی پر شعر نظر کرتا ہوں
ہوش و حواس، تابوتوانں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

اور بادشاہ سلامت کی حواسوں کی باختگی کے بعدکنی کاٹنے پر یہ شعر نظر کرتا ہوں
گزرتا ہے ہر شخص چہرہ چھپائے
کوئی راہ میں آئینہ رکھ گیا ہے
اداس مت ہوئے۔۔۔
 
Top