• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلیفہ کے چناؤ کا طریقہ کار

شمولیت
جولائی 29، 2014
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
31
بسم الله الرحمن الرحيم

خلیفہ کے چناؤ کا طریقہ کار





خلافت کا قیام فرض کفایہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی سنت اور سلف و صالحین کے طریقے سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ خلیفہ کی عدم موجودگی تین دن سے زیادہ قبول نہیں کرتے۔ لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی اور غفلت کہیے کہ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد سو سال کا عرصہ گزر گیا مگر مسلمان دوبارہ خلافت کو قائم نہ کرسکے اور نہ ہی کسی کو خلیفہ منتخب کرسکے۔ مگر پھر آخر کار یکم رمضان المبارک 1435ھ کو وہ لمحہ آئی ہی گیا کہ جب اللہ کی توفیق و رحمت سے الدولۃ الاسلامیہ العراق والشام کے مجاہدین کی شوریٰ نے مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے شیخ ابوبکر البغدادی القرشی حفظہ اللہ کو "خلیفۃ المسلمین" مقرر کردیا۔ مسلمانوں کے لئے یہ بڑی مسرت اور خوشی کا مقام تھا جس پر عام آدمی نے اللہ کا شکر اداکیا۔

مگر کچھ لوگ جوکہ بظاہر دیندار اور علم شرعی جاننے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں وہ اس پر بے جا اعتراضات اور الزامات لگاکر اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے پاس فقط اس اعتراض کہ کوئی اور حیلہ نہیں جس کی بنیاد پر وہ اس خلافت کو مسترد کردیں کہ "خلیفہ کا تقرر بغیر اہل حل وعقد کے مشورے سے ہوا ہے"۔ اول تو اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں کہ اہل حل و عقد کے مشورے کے بغیر یہ کام ہوا ہے۔ الدولۃ الاسلامیہ العراق والشام جوکہ رقبے اور تمکن کے اعتبار سے اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی امارت ہے اس کی شوریٰ نے خلیفہ کا تقرر کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جہاں تک وہ اہل حل و عقد جن سے مشورہ نہیں لیا جاسکا یا وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے تو اس سلسلے میں شرع کا یہ اصول بھی سمجھ لینا چاہیے کہ خلیفہ کے تقرر کرنے کے لئے سب سے پسندیدہ طریقہ تو یہی ہے کہ اہل حل وعقد ہی خلیفہ کا انتخاب کریں لیکن یہ شرط کہیں بھی نہیں پائی جاتی کہ کل روئے ارض کے ایک ایک اہل حل وعقد سے مشورہ لینا ضروری ہے اور اگر کوئی ایک بھی اہل حل وعقد رہ گیا تھا خلیفہ کا تقرر کالعدم قرار پائے گا۔

اس ضمن میں یہ بھی یاد رہے کہ شیخ ابو بکر البغدادی القرشی حفظہ اللہ کے خلیفہ کے تقرر کرنے سے دو مہینے پہلے الدولۃ العراق والشام کے ترجمان نے پوری دنیا کے اہل حل وعقد اور مجاہدین کے قیادتوں کو پکار لگائی تھی کہ مسلمانوں کی مسائل اور آپس کے اختلاف کے ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ باہمی مشورے سے کسی بھی اہل شخص کو خلیفہ مقرر کردیا جائے۔ چناچہ دو مہینے کی انتظار کے بعد الدولۃ الاسلامیہ العراق والشام جوکہ خلافت کے قیام کے لئے اس وقت سب سے بڑی مسؤل تھی اپنی امارت کے سب سے زیادہ متمکن ہونے کی وجہ سے، اپنی شوریٰ کے مشورے سے خلیفہ کا تقرر کردیا۔

بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ شیخ ابوبکر البغدادی القرشی حفظہ اللہ کا تقرر بغیر اہل حل و عقد کے مشورے کے بغیر ہوا ہے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی ؟ اگر خلیفہ کی عدم موجودگی میں کسی کو بغیر اہل حل و عقد کے مشورے کے بغیر خلیفہ مقرر کردیا جائے تو کیا اس کی خلافت کالعدم قرار پاتی ہے؟ اور کیا اس صورت میں اس کو کسی بھی صورت خلیفہ نہیں مانا جاسکتا ؟ خلیفہ کے تقرر کرنے میں اگر اہل حل وعقد سستی کریں اور غفلت کا مظاہرہ کریں تو پھر یہ کام کس کے ذمہ ہوجاتا ہے ؟ خلیفہ بننے کا اہل کون شخص ہوتا ہے ؟ ان سوالوں کے جوابات ہم شریعت کی روشنی میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ انشاء اللہ

خلافت کے لئے اہل ہونے کے لئے فقہاء کے مقرر کردہ شرائط:

(1) مسلمان ہو۔

(2) بالغ ہو۔

(3) عا قل ہو۔

(4) آزاد ہو غلام نہ ہو۔

(5) مرد ہو۔

(6) علم شرعی کے ضروری مسائل سے آگاہ ہو۔

(7) عادل ہو (یعنی اس کے ذات میں فسق وفجور نہ ہو)۔

(8) بہادر اور جریح ہو۔

(9) جسمانی طور پر معذور یا کسی موذی بیماری میں مبتلا نہ ہو۔

(10) قریشی النسل ہو۔

(بحوالہ اسلامی خلافت اور اس کی ضرورت از استاذ الحدیث مولانا فضل محمد جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی)

خلیفہ مقرر کرنا کس کی ذمہ داری ہے:

قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ فرما تے ہیں:

"وہی فرض علی الکفایۃ مخاطب بھا طائفتان من الناس احدھما اھل الاجتہاد حتی یختاروا والثانیۃ من یوجد فیہ شرائط الامامۃ حتی ینتصب احدھم لامامۃ"۔ (احکام سلطانیہ ص 3)

"قیام خلافت فرض کفایہ ہے۔ دو قسم کے لوگوں پر اس کے قیام کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اول وہ لوگ جو درجہ اجتہاد پر فائز ہو۔ ان مجتہدین پر لازم ہے کہ وہ کسی کو امام مقرر کریں تاکہ وہ منصب امامت کو سنبھال لے (اگر وہ یہ کام نہ کریں تو) دوسرے وہ لوگ ہیں جن میں امام و خلیفہ بننے کی شرائط پائی جا ئیں، یہاں تک کہ انہیں میں سے ایک شخص امامت و خلافت کے لئے تیار ہوکر کھڑا ہوجائے"۔

علامہ ماوردی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"خلیفہ مقرر کرنا فرضہ کفایہ ہے لیکن اگر اس کام کے لئے کوئی کھڑا نہیں ہوتا تو پھر دو قسم کے لوگوں کو اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ اول اہل اجہتاد اور اہل انتخاب کو چاہیے کہ وہ کسی کو خلیفہ مقرر کریں (اگر وہ لوگ ایسا نہ کریں تو) وہ لوگ جوکہ خلیفہ بننے کی اہلیت رکھتے ہیں ان میں سے کسی ایک کو اٹھ کر خلیفہ کے اس عہدے کو سنبھال لینا چاہیے"۔

(بحوالہ اسلامی خلافت اور اس کی ضرورت از استاذ الحدیث مولانا فضل محمد جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی)

خلافت کا قیام اتنا ضروری اور اہم ہے اور اس کی اتنی فوری ضرورت ہے کہ فقہاء نے یہ بات صاف بیان کردی کہ اگر اہل حل و عقد سستی کریں تو جن لوگوں میں خلیفہ بننے کی اہلیت ہو ان میں سے کسی ایک کو بھی خلیفہ مقرر کردیا جائے۔ یہ کام واجب بھی ہے اور جائز بھی اور اس صورت میں خلیفہ مقرر کیا جانے والا خلیفہ مسلمانوں کا خلیفہ کہلائے گا اور اس کی اطاعت ہر خاص وعام سب پر لازم ہو گی۔

بالفرض اگر کوئی شخص بزور طاقت مسلمانوں کو امام بن جاتا ہے اور لوگوں کو شریعت کے مطا بق چلاتا ہے تو ایسا شخص کی اطاعت بھی لازم ہے

فقہاء کرام نے خلیفہ کے تقرر کے چار طریقہ کار نقل کئے ہیں جس کی بنیاد پر کوئی بھی شخص خلیفہ قرار پاسکتا ہے:

(1) اہل حل وعقداور اصحاب الرائے کی جانب سے خلیفہ کا تقرر ہونا۔

(2) خلیفہ کسی کو اپنا ولی عہد نامزد کردے۔

(3) خلیفہ ایک شوریٰ کا تقرر کرے جوکہ اس کے بعد خلیفہ کا تقرر کرے۔

(4) تسلط وغلبہ، یعنی خلیفہ کو نہ اہل حل عقد نے مقرر کیا، نہ خلیفہ نے کسی کو ولی عہد مقرر کیا اور نہ ہی کوئی شوریٰ بنائی کہ وہ خلیفہ کا تقرر کرے بلکہ کوئی شخص مسند خلافت پر زبردستی غالب آجائے اور لوگوں کو نرمی محبت یا پھر زبردستی اپنے ساتھ ملا کر خلیفہ بن جائے۔

بس جو شخص بھی بزور تلوار خلافت کے مسند پر براجمان ہوجائے تو اس بارے میں سلف کا موقف واضح ہے کہ اگر ایسا شخص جامع الشروط ہو بھی تو جو مقصد تھا وہ حاصل ہوگیا اس لئے اس کی خلافت بہرحال تسلیم کی جائے گی۔

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"فإن تغلب من له أهلية الامامة وأخذها بالقهر والغلبة فقد قيل إن ذلك يكون طريقا رابعا" (تفسیر القرطبی، ج 1، ص 269)

"اگر امامت کا اہل شخص غالب ہوجائے اور امامت جبر و غلبہ سے لے لے تو یہ چوتھا طریقہ ہے (خلیفہ کے تقرر کا)"۔

امام قرطبی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
وقال ابن خويز منداد: ولو وثب على الامر من يصلح له من غير مشورة ولا اختيار وبايع له الناس تمت له البيعة، والله أعلم۔ (تفسیر القرطبی، ج 1، ص 269)

"حضرت خویز بن منداد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: امر خلافت کی صلاحیت رکھنے والا اگر کوئی شخص مشورہ اور اہل حل وعقد کے تقرر کے بغیر امر خلافت پر قابض ہوجائے اور لوگ اس کی بیعت کرلیں تو اس کی بیعت کامل ہوجائے گی (یعنی وہ خلیفہ تسلیم کی جائے گا) واللہ اعلم"

اور اگر جو شخص بزور طاقت خلیفہ بنے اور جو جامع الشرائط بھی نہ ہو تو ایسے شخص کی خلافت کو بھی فقہاء کرام نے بااتفاق تسلیم کیا ہے بشرطیکہ وہ شریعت مطہرۃ کو معطل نہ کرے اور شریعت کے مطابق حکومت کرے۔ علامہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وَقَدْ أَجْمَعَ الْفُقَہَاء عَلَی وُجُوب طَاعَۃ السُّلْطَان الْمُتَغَلِّب وَالْجِہَاد مَعَہُ وَأَنَّ طَاعَتہ خَیْر مِنْ الْخُرُوج عَلَیْہِ لِمَا فِی ذَلِکَ مِنْ حَقْن الدِّمَاء وَتَسْکِین الدَّہْمَاء" (فتح الباری، ج۲۰ ص ۵۸ رقم: ۶۵۳۰)

"فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو سلطان زبردستی حاکم بن بیٹھا ہو تو (صحیح احادیث کے مطابق شرعی امور میں) اس کی اطاعت واجب ہے، اور اس کے ساتھ مل کر جہاد بھی مشروع ہے، اور یہ کہ اس کی اطاعت مسلح بغاوت سے بہتر ہے کیونکہ اسی طریقے میں خونریزی سے بچاؤ اور مصیبتوں کا ازالہ ہے"۔

امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وأجمعوا علی السمع والطاعۃ لأمۃ المسلمین وعلی ان کل من ولی شیئا من امورھم عن رضی أو غلبۃ وامتدت طاعۃ من بر أو فاجر لایلزم الخروج علیہ بالسیف جار او عدل"

"علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے امام کی سمع وطاعت فرض ہے۔ اور جو شخص بھی مسلمانوں کی رضا مندی یا بزور طاقت ان کا حکمران بن گیا ہو اور اس کی اطاعت نیک و بد تک پھیل گئی ہوتو ایسے حکمران کے خلاف تلوار سے خروج جائز نہیں ہے، چاہے وہ ظلم کرے یا عدل"۔

علامہ قلقشندی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"فاذا مات الخلیفۃ فتصدی للامامۃ من جمع شرائطھا من غیر عھد الیہ من الخلیفۃ المتقدم ولا بیعۃ من اھل الحل والعقد انعقدت امامۃ لینتظم شمل الامۃ وتتفق کلمتھم وان لم یکن جامعاً لشرائط الخلافۃ بان کام فاسقاً اوجھلاً فوجھان لاصحابنا الشافعیۃ اصحھماانعقاد امامتہ ایضاً" (مآ ثرا لانافۃ، ج 1 ص 58)

"جب خلیفہ کی وفات ہوجائے اور منصب امامت ایسا آدمی سنبھال لے جو جامع شرائط خلافت ہے اور اسے نہ پہلے خلیفہ نے ولی عہد بنایا ہے اور نہ ہی اہل حل وعقد نے اس کی بیعت کی ہے تو اس کی امامت منعقد ہوجائے گی تاکہ امت کا اتحاد منظم اور اجتماعیت برقرار رہے۔ اگر اس میں شرائط خلافت نہیں پائی جاتیں، اس طرح کے فاسق یا جاہل تو ہمارے شوافع کے نزدیک دو صورتوں ہیں، جن میں سے اصح یہ ہے کہ اس کی امامت بھی منعقد ہوجائے گی"۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛

"چوتھا طریقہ انعقاد خلافت کا استیلاء (یعنی غلبہ) ہے کہ جب خلیفہ فوت ہوجائے اور کوئی شخص اہل حل وعقد کے (مشورے کے) بغیر اور (خلیفہ سابق کے) خلیفہ بنائے بغیر خلافت پر قبضہ کرلے اور سب لوگوں کو تالیف قلوب یا جنگ و جبر سے اپنے ساتھ ملالے تو پھر بھی ایسا شخص خلیفہ ہوجائے گا اور اس کا جو فرمان (حکم) شریعت کے موافق ہوگا اس کی اتباع سب لوگوں پر لازم ہوگی " (ازالۃ الخفاء، ج 1 ص 24)

مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ اپنی مشہور معروف کتاب "مسئلہ خلافت" میں اس مسئلہ پر سلف کے کلام کی روشنی میں فرماتے ہیں:

"لیکن دوسری صورت میں (یعنی کوئی شخص اہل حل وعقد کے مشورے کے بغیر ہی خلافت پر قابض ہوجائے تو) اس کی نسبت چونکہ خود احادیث صحیحہ اور اجماع صحابہ وعترۃ میں بالکل صاف صاف موجود تھا، اس لئے تمام امت بلا اختلاف اس پر متفق ہوگئی کہ جب ایک مسلمان منصب خلافت پر قابض ہوجائے اور اس کی حکومت جب جائے تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اسی کو خلیفہ اسلام تسلیم کرے، اسی کے سامنے گردن اطاعت جھکائے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک اہل و مستحق خلیفہ کے آگے جھکنا چاہیے۔ اطاعت واعانت کی وہ تمام باتیں جو منصب خلافت کے شرعی حقوق میں سے ہیں وہ ایسے خلیفہ کو حاصل ہوجاتی ہیں۔ اس سے روگردانی کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں۔ اس کے مقابلے میں خروج اور دعوے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا، اگرچہ کیسا ہی افضل اور جامع الشروط کیوں نہ ہو۔ جو کوئی ایسا کرے، مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کے مقابلے اور قتل میں خلیفہ کا ساتھ دیں۔ وہ شرعاً باغی ہے اس کو قتل کردینا چاہیے۔ شریعت نے دوسری صورت میں یہ حکم کیوں دیا ؟ اس کی علت ومصلحت اس قدر واضح ہے کہ شرح و تفصیل کی حاجت نہیں"۔ (مسئلہ خلافت، ص 59)

اسی وجہ سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ عبدوس بن مالک العطار کی روایت میں کہتے ہیں کہ:

"ومن غلب بالسیف حتی یصار خلیفہ وسمی امیر المومنین فلایحل لاحد یومن باللہ والیوم الاخر ان یبیت ولا یراہ اماما برا کان او فاجراً"۔ (الاحکام السلطانیۃ لابی یعلی، ص 7)

"جو تلوار کے زور پر غالب ہو یہاں تک کہ وہ خلیفہ بن جائے اور وہ امیر المومنین کہلائے تو اللہ پر ایمان رکھنے والے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ رات اس حال میں گزارے کہ وہ اسے امام نہ سمجھے، خواہ وہ نیک ہو یا فاجر"۔

سو سال کے طویل عرصے کے بعد الحمدللہ آج شیخ ابوبکر البغدادی القرشی حفظہ اللہ سے خلافت کی بیعت لی جاچکی ہے جس میں فقہاء کی بیان کردہ ساری شرائط بھی موجود ہیں اور ان کو اہل جہاد میں سے اہل حل و عقد کی ایک کثیر تعداد نے خلیفہ مقرر کیا ہے۔ لہذا ان کی اطاعت اب واجب ہے اور کسی کے پاس کوئی عذر نہیں کہ وہ ان کی اطاعت سے منہ پھیرے، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ مجرم، باغی اور گناہ گار ٹھہرے گا۔ مسلمان اس بات کو بخوبی سمجھ لیں۔ کیونکہ جو ازروئے شریعت خلیفہ قرار پاجائے تو اس کی اطاعت نہ صرف واجب ہے بلکہ جو اس امر میں امت میں اختلاف اور پھوٹ ڈالنا چاہے اور مسلمانوں کی وجود میں آنے والی مرکزیت کو توڑنے کا خواہاں ہو تو اس کے بارے میں احادیث مبارکہ میں شدید وعیدیں آئی ہیں۔

ایک اشکال اور اس کا جواب:

بہت سے لوگ یہ اشکال اٹھاتے ہیں کہ ملاعمر کی موجودگی میں کسی دوسرے امیر کی بیعت کیسے جائز ہوسکتی ہے؟ بات یہ ہے کہ عالی قدر ملا عمر حفظہ اللہ کی بیعت کبھی بھی بطور خلیفہ کے نہیں ہوئی اور نہ انہوں نے کبھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خلیفہ ہیں! بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ افغانستان کی حد تک مسئول رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دوسرے علاقوں مثلاً عراق، یمن، صومالیہ اور چیچنیا میں مسلمانوں کو کچھ غلبہ ہوا تو انہوں نے اپنا ایک نیا امیر مقرر کیا اور اس کی بیعت کی۔ اگر ملاعمر حفظہ اللہ کی حیثیت بطور خلیفہ کے ہوتی تو پھر ان لوگوں سے بیعت لینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ یہ تمام بیعتیں کالعدم قرار پاتیں مگر چونکہ ملاعمر حفظہ اللہ کی حیثیت ایک مقامی امیر کی تھی لہذا دوسرے علاقوں میں قبضے کے بعد وہاں دوسرے امراء کی بیعت لی گئی۔ مگر ان میں سے کسی بھی امیر کا تقرر بھی بطور خلیفۃ المسلمین کے نہیں کیا گیا تھا۔

مگر اب الدولۃ العراق والشام جوکہ رقبے اور تمکن کے لحاظ سے سب سے بڑی امارت تھی تو اس کی شوریٰ نے خلافت کے قیام کے فریضے کو ادا کرتے ہوئے شیخ ابراھیم بن عواد المعروف شیخ ابوبکر البغدادی القرشی حفظہ اللہ کو "خلیفہ المسلمین" مقرر کردیا ہے۔ لہذا اب خلیفہ کے تقرر ہونے کے بعد ہر خاص وعام پر خلیفہ المسلمین کی اطاعت و اتباع لازم ہے، چاہے وہ کسی بھی دینی جماعت کا سربراہ ہو یا کسی تنظیم کا شیخ الکبیر، کسی بھی جہادی جماعت کا کمانڈر ہو یا کسی بھی علاقے کا جہادی امیر۔ بس خلیفۃ المسلمین کی اطاعت اب سب امراء اور شیوخ پر فائق ہوچکی ہے۔

اسی بات کو امام قلقشندی رحمہ اللہ یوں فرماتے ہیں:

"والامام ھواعظم ولاۃالامور لعموم ولایۃ فھو احق بالطاعۃ واجد بالانقیاد لاوامر ہ ونواھیہ مالم یخالف امر الشرع" (مآ ثرا لانافۃ، ج 1 ص 62)

"امام و خلیفہ اولی الامر میں سب سے بڑا ہے کیونکہ اس کی ولایت و اقتدار عام ہے، پس وہ (دیگر لوگوں کے مقابلے میں) اطاعت کا زیادہ حقدار ہے اور اس بات کا زیادہ لائق ہے کہ اسی کے احکام ونواہی کی اتباع کی جائے جب تک کہ وہ شریعت کے حکم کے خلاف ورزی نہیں کرتا"۔

بس خلیفہ کے تقرر ہونے کے بعد کسی بھی مسلمان پر خلیفۃ المسلمین کی اطاعت سے بالشت بھر بھی باہر نکلنا حرام ہے اور ایسا کرنے والے کے لئے احادیث مبارکہ میں شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ عَنْ جَدِّهِ مَمْطُورٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُرَاهُ أَبَا مَالِكٍ الْأَشْعَرِيَّ قَالَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا آمُرُكُمْ بِخَمْسٍ آمُرُكُمْ بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَالْجَمَاعَةِ وَالْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمَنْ خَرَجَ مِنْ الْجَمَاعَةِ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ رَأْسِهِ وَمَنْ دَعَا دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ جُثَاءُ جَهَنَّمَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى قَالَ نَعَمْ وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى۔ قال حاکم هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاہ قال ابن کثیر ہذا حدیث حسن ولہ الشواہد۔ (مسند احمد، ج 46، ص 385، حدیث نمبر: 21835۔ مستدرک حاکم، ج 4، ص 65، حدیث نمبر: 1482)


حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں بات سننے اور اطاعت کرنے 'جماعت سے وابستہ رہنے' ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کا' پھر جو شخص جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی نکلتا ہے تو وہ اپنے سر میں سے اسلام کی رسی نکال دیتا ہے اور جو شخص زمانہ جاہلیت کی پکار لگائے وہ جہنم کا خس وخاشاک ہے۔ ایک آدمی نے پوچھا یارسول اللہ ! اگرچہ وہ نماز پڑھتا اور روزہ رکھتا ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! اگرچہ وہ روزہ رکھتا اور نماز پڑھتا ہو۔

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ خَرَجَ مِنْ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً" (متفق علیہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی خلیفہ کی اطاعت سے نکل گیا اور جماعت کا ساتھ چھوڑ دیا اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوگئی تو اس موت جاہلیت کی موت ہوئی۔

"مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً" (صحیح مسلم، ج 9، ص 393، حدیث نمبر: 3441)

جس نے خلیفہ کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو قیامت کے دن وہ اللہ کے سامنے حاضر ہوگا اور اس کے لئے کوئی بچائو کا راستہ نہ ہوگا اور جو مسلمان دنیا سے اس حال میں گیا کہ خلیفہ کی بیعت کے قلادے سے اس کی گردن خالی ہوئی تو یقین کرو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوئی۔

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :من فارق الجماعة شبرا دخل النار" (مستدرک حاکم، ج 1، ص 392، حدیث نمبر: 372)

جو شخص بھی خلیفہ کی اطاعت سے انکاری ہوا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

بس مسلمانوں کو چاہے کہ ہر ایسے شخص سے خبردار رہیں جوکہ مسلمانوں کے ازروئے شریعت خلیفہ مقرر ہونے والے کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرے، نئے نئے فلسفے گڑھ کر لوگوں کو اس معاملے میں گمراہ کرنے کی کوشش کرے اور مسلمانوں کی جو وحدت وجود میں آئی ہے اس کو بغیر کسی شرعی نقص کے اپنی نفسانی خواہشات کی بناء پر پھر سے توڑنے کی کوشش کرے تو ایسے شخص کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اسی لئے جب کوئی شخص شریعت کے اصولوں کے مطابق خلیفہ قرار پاجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیعت کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر کچھ لوگ اس معاملے میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کریں تو ان کے قتل کا حکم دیا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ اس معاملے میں فقہاء کرام درج ذیل احادیث نقل کرتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَكُونُ خُلَفَاءُ تَكْثُرُ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ" (صحیح مسلم، ج 9 ص 378 حدیث نمبر: 3429)

حضرت ابو حازم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ: میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا تو میں نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو اس کا خلیفہ ونائب نبی ہوتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے صحابہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو پہلے خلیفہ ہوجائے اس کی بیعت کو پورا کرنا اور جو ان کا حق ہے انہیں ادا کرنا۔ بے شک اللہ ان (خلفاء) سے ا ن کی رعایا کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔

"عَنْ عَرْفَجَةَ بْنِ شُرَيْحٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا سَتَكُونُ بَعْدِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ وَهَنَاتٌ وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَمَنْ رَأَيْتُمُوهُ يُرِيدُ تَفْرِيقَ أَمْرِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ جَمِيعٌ فَاقْتُلُوهُ كَائِنًا مَنْ كَانَ مِنْ النَّاسِ" (سنن نسائی، ج 12، ص 375، حدیث نمبر: 3955۔ صحیح مسلم، ج 9، ص 395، حدیث نمبر: 3442)

عرفجة بن شریح سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے بعد (فتنہ و) فساد ہوں گے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور فرمایا جس کو تم لوگ دیکھو کہ وہ امت محمدیہ میں اس وقت تفریق پیدا کرنا چاہ رہا ہے جبکہ وہ ایک امر (یعنی ایک امام وخلیفہ) پر متفق تھی تو اس کی گردن اڑادو، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
"عَنْ عَرْفَجَةَ قَالَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَتَكُونُ فِي أُمَّتِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ وَهَنَاتٌ فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ الْمُسْلِمِينَ وَهُمْ جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ" (سنن ابی داود، ج 12 ص 378، حدیث نمبر: 4134)

حضرت عرفجہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب میری امت میں فساد ہوگا، فساد ہوگا، پس جو شخص مسلمانوں کے متفق مجمع میں پھوٹ ڈالنے کا ارادہ کرے تو اسے تلوار سے مار ڈالو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔

"عَنْ عَرْفَجَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ فَاقْتُلُوهُ" (صحیح مسلم، ج 9، ص 396 حدیث نمبر: 3443، مسند احمد، ج 16، ص 160، حدیث نمبر: 7619)

حضرت عرفجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے تم اپنے معاملات میں کسی ایک آدمی پر متفق ہونے لگو اور پھر تمہارے پاس کوئی آدمی آئے اور تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمہاری جماعت میں تفریق ڈالنا چاہے، تو اسے قتل کر دو۔
(ان تمام تفاصیل کو آسانی سے جاننے کے لئے دیکھئے ابوالکلام آزاد کی کتاب "مسئلہ خلافت"۔ "اسلامی نظام خلافت اور ہماری ذمہ داریاں" از مولانا محمد زاہد اقبال۔ "اسلامی خلافت اور اس کی ضرورت "از استاذ الحدیث مولانا فضل محمد جامعہ بنوری ٹائون کراچی۔)
اہل حق علماء پر لازم ہے کہ وہ اس معاملے کو کھل کر امت کے درمیان بیان کریں اور کتمان حق سے بچیں ورنہ عند اللہ وہ بہت بڑے مجرم اور گناہ گار قرار پائیں گے۔

اللہ ہمیں امیر المومنین شیخ ابو بکر البغدای القرشی کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، جاہلیت کی موت سے بچائے اور اس معاملے میں جو لوگ فتنہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں ان کے شر سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین۔۔۔۔
۔
 
Top