• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواتین کی علم حدیث میں خدمات ایک تحقیقی جائزہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خواتین کی علم حدیث میں خدمات
ایک تحقیقی جائزہ


نورین اختر
ایم ایس ﴿شیخ زید بن اسلامک سینٹر﴾
جامعة کراچی


الاشراف
السید
غضنفر احمد
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خواتین کی علم حدیث میں خدمات
امت مسلمہ کے لیے ان کے روز و شب کے مسائل کا حل کتاب و سنت کی فہم اور انکی فقاہت میں پوشیدہ ہے اور اسلامی معاشرہ افراد سے تعبیر ہوتا ہے اور معاشرے میں موجود افراد کا تعلق دونوں اصناف سے ہے یعنی مرد اور عورت۔
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور اس کی تہذیب وثقافت اور اس کے قوانین وضوابط اور تعلیم وتربیت آفاقی ہیں جن کی بنیاد کتاب و سنت کی فہم اور فقاہت پر ہے اور دین اسلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ اس نے جہالت کی شدت سے نفی کی اور جہالت وناخواندگی کے لیے اس نے انسانیت کو بغیر کسی تفریق مرد وزن لفظ "اقرأ" سے مخاطب کیا اور اسی طرح قرآن مجید کے دیگر مقامات مثلا "فاعلم انہ لا الہ الا اللہ" (1) یعنی ایمان لانے سے پہلے علم ومعرفت کی اہمیت کو واضح کیا اور اگر تفریق کا وجودقائم رکھا تو صرف "قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون" (2) مصداق باقی رہا کہ پڑھا لکھا اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے ۔ اسی طرح فضیلت عالم پر فرمان باری تعالی سے بھی مرد وزن کے مابین کوئی تخصیص و تفریق ظاہر نہیں ہوتی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
"یرفع اللہ الذین آمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات" (3)
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خوبصورت اور جامع کلام کے ذریعے اسی فکر کی آبیاری کی کہ حصول علم کا فریضہ صرف مردوں پر نہیں عائد ہوتا بلکہ عورتیں بھی اس میں برابرکی شریک ہیں :
" نضر الله عبدا سمع مقالتي فوعاها وأداها إلى من لم يسمعها " (4)
اللہ تعالی اس شخص کو شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی پھر اسے یاد رکھا تاکہ اسے آگے پہنچائے۔
کتاب و سنت کی ان حسین ترغیبات کی عملی تطبیق ہمیں امت مسلمہ کے خواتین و حضرات میں بخوبی نظر آتی ہے کہ خواتین زندگی کے کسی بھی شعبہ میں مردوں سے کم نہیں خواہ علم کا میدان ہو یا حیات انسانی میں تعلیم و تربیت کے شعبہ جات ہوں۔
اس مختصر مقالہ کو جن موضوعات کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں :
v مقدمہ
v خواتین اور علم حدیث کے طبقات
v صحابیات و تابعیات وتبع تابعیات
v روایت حدیث کے مختلف ادوار
v محدثات کی درس گاہیں
v خواتین کی علم حدیث میں تدریسی خدمات
v خواتین کی علم حدیث کی دیگر اصناف میں خدمات:​
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
قرآن مجید کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا تفریق مرد وزن اس کے حصول کا حکم اور جا بجا اس کی اہمیت وفضیلت کو بیان کیا ہے، چنانچہ ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ " طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ " (5) یعنی تمام مسلمانوں پرعلم دین حاصل کرنا فرض ہے۔ اس میں مرد وعورت دونوں کے لئے حکم ہے اور اس پرعلماء امت کا اجماع ہے۔
درحقیقت عورت انسانی معاشرہ کا ایک اہم عنصر ہے جس کے بغیر معاشرہ میں ارتقا کا تصور ممکن نہیں۔ اس طرح عورت انسانی ترقی کا زینہ اور حٰیات انسانی کی روح ٹھہرتی ہے ، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ عورت عالم انسانی کی بقا اور اس کے تحفظ کی ضامن ہے، قرآن مجید میں ہے :

"یا ایہا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا" (6)۔
عورت افزائش نسل اور اولاد کی تعلیم وتربیت کی ذمہ دار ہے، اس کی گود بچوں کی جائے پرورش ہے، وہیں اس کی آغوش تعلیم و تربیت کے حوالے سے اولین درسگاہ ہے عورت حیات انسانی کی زینت اور آرائش ہے اس امر کی گواہی قرآن مجید بھی دیتا ہے ارشاد باری تعالی ہے:

"ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ" (7)۔
عورت ناقص العقل تو ہے لیکن تعلیم وتعلم سے محروم نہیں اور اسی طرح عورت ناقص الدین تو ہے مگر عبادت سے مرفوع القلم نہیں، عورت پردہ کی پابند ضرور ہے لیکن غزوات جہاد میں شرکت کی مستحق بھی ہے۔
یہاں اس امر کی وضاحت کر دی جائے کہ اسلامی معاشرہ میں عورت کا مقام اکرام و تعظیم کا ہے اور جتنی عزت اسے اسلام نے اسے دی ہے دیگر مذاہب نے اس کا عشر عشیر بھی اسے نہیں دی۔اس کی سب سے بڑی دلیل عورت کا علم و عمل میں شرکت کرنا ہے ،اور تعلیم و تربیت میں مردوں سے زیادہ اہمیت کا ملنا ہے ۔ اس حوالے سے ثبوت عہد رسالت کی مشہور تعلیم گاہ ویونیورسٹی جو دنیا میں اہل صفہ کے نام سے متعارف ہے، اس میں صحابیات اور بنات اسلام کا ذکر ملتا ہے اس کے ثبوت کے لئے ایک حدیث ہی کافی ہے گو اس میں کثیر احادیث موجود ہیں اور کتب احادیث میں مرویات صحابیات کا بہت بڑا حصہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب اپنی صحیح کے اندر قائم کیا ہے:
"ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم" اور اس باب کے تحت جو حدیث لائے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں عورتوں کے اندر علم حدیث کے حاصل کرنے کا شوق وجذبہ اس قدر موجزن تھا کہ تمام عورتوں نے اجتماعی طور پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہماری تعلیم کے لئے کوئی انتظام فرمادیجئے۔ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے ایک دن کا وعدہ کیا جس میں ان کو وعظ ونصیحت کرتےاور دینی باتوں کا حکم فرماتے تھے (8)۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے حصول اور جمع کرنے میں کس قدر رغبت تھی اس امر کی وضاحت کتب رجال کے مطالعہ سےبھی معلوم ہوتی ہے کہ صحابیات، تابعیات اور مختلف ادوار کی روایات ومحدثات کی ایک طویل فہرست ملتی ہے ، جنہوں نے حفاظت حدیث کے تعلق سے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب وملت میں نہیں مل سکتی، فن حدیث ہی کیا شرعی علم وفن کوئی بھی ہو اس میں عورتوں کی کارکردگی نمایاں نظر آتی ہے، فن تفسیر ہو یا حدیث، فقہ ہو یا اصول، ادب ہو یا بلاغت سارے کے سارے فنون کی عورتون نے جان توڑ خدمت کی۔ اگر صحابیات وتابعیات تحمل اور روایت حدیث میں پیچھے رہتیں تو آج اسلامی دنیا مسائل نسواں کی علم ومعرفت سے محروم رہتی، نکاح وطلاق کے مسائل ہوں یا جماع ومباشرت کے ازدواجی زندگی کا کوئی الجھا ہوا پہلو ہو یا خانگی مشکلات، اگر اس قسم کے الجھے اور پیچ مسائل کا حل ہمیں ملتا ہے تو صحابیات وتابعیات کی مرویات ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خواتین اور علم حدیث کے طبقات:
ابتدائے اسلام سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں پردہ نشیں مسلم خواتین نے حدود شریعت میں رہتے ہوئے گوشہ عمل وفن سے لے کر میدان جہاد تک ہر شعبہ زندگی میں حصہ لیا اور اسلامی معاشرہ کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا، خواتین اسلام نے علم حدیث کی جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی سب سے پہلی نمائندگی صحابیات وتابعیات کرتی ہیں، اس لئے سب سے پہلے انہی کے کارناموں کا اجمالی نقشہ پیش کیا جارہا ہے۔
محدثین نے روایت حدیث کے اعتبار سے صحابہ کے ساتھ صحابیات کو بھی پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے :
طبقہ اولی : جن صحابیات کی مرویات کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا شمار اسی طبقہ میں سے ہوتا ہے
طبقہ ثانیہ: وہ صحابیات جن کی مرویات کی تعداد ۵۰۰ یا اس سے زائد ہوں
طبقہ ثالثہ: وہ صحابیات جن کی مرویات کی تعداد ایک سو سے زائد اور پانچ سو سے کم ہوں ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا تعلق اسی طبقہ سے ہے۔
طبقہ رابعہ: وہ صحابیات جن کی مرویات کی تعداد چالیس سے ایک سو تک ہو اس طبقہ میں صحابیات کی کثیر تعداد شامل ہے ۔
طبقہ خامسہ: وہ صحابیات جن کی مرویات کی تعداد چالیس سے کم ہو
مشہور صحابیات کی مرویات کا ذکر صحابیات کے زمرے میں کیا جائے گا جو کہ درج ذیل ہے:
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
صحابیات و تابعیات وتبع تابعیات:
صحابہ کرام کی طرح صحابیات بھی اپنے ذہن ودماغ کے لحاظ سے ایک درجہ اور مرتبہ کی نہیں تھیں اور نہ سب کو یکساں طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت نصیب ہوئی تھی، اس لئے ان کی خدمات بھی اسی کے اعتبار سے کم وبیش ہوں گی، کیونکہ حدیث کی خدمات کے لئے سب سے زیادہ ضرورت حفظ اور فہم وفراست ہی کی تھی۔ صحابیات میں ازواج مطہرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر لحاظ سے زیادہ خصوصیت حاصل تھی، اس لئے اس سلسلہ میں ان کی خدمات سب سے زیادہ ہیں، یوں تو صحابیات کی مجموعی تعداد حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے احصاء کے مطابق (1545) ہے، لیکن جنہوں نے روایت حدیث کے ذریعہ حفاظت حدیث کا بیڑا اٹھایا ان کی تعداد سات سو سے زائد بتائی گئی ہے اور ان سے بڑے بڑے صحابہ کرام اور جلیل القدر ائمہ نے علم حاصل کیا ہے (9)،
علامہ ابن حزم اپنی کتاب "اسماء الصحابۃ الرواۃ وما لکل واحد من العدد" کے اندر کم وبیش (125) صحابیات کا تذکرہ کیا ہے جن سے روایات مروی ہیں اور ان کے اعداد وشمار کے مطابق صحابیات سے مروی احادیث کی کل تعداد (2560) ہے جن میں سب سے زیادہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، حضرت عائشہ مکثرین رواۃ صحابہ میں سے ہیں، ان کی مرویات کی تعداد (2210) ہے (10)، جن میں (286) حدیثیں بخاری ومسلم میں موجود ہیں، مرویات کی کثرت کے لحاظ سے صحابہ کرام میں ان کا چھٹا نمبر ہے (11)،
زہری جو کبار تابعین میں سے تھے وہ فرماتے ہیں:

"کانت عائشۃ اعلم الناس یسالہا الاکابر من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" (12)
یعنی حضرت عائشہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں، بڑے بڑے صحابہ کرام ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔
دوسری جگہ اس طرح لکھتے ہیں :
"اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائےتو حضرت عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا" (13)۔
حضرت عائشہ فتوی اور درس دیا کرتی تھیں، یہی نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کی لغزشوں کی بھی نشاندہی فرمائی، علامہ جلال الدین سیوطی اور زرکشی رحمہما اللہ نے اس موضوع پر "الاصابۃ فیما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ" کے نام پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے، حضرت عائشہ سے روایت کرنے والے صحابہ وتابعین کی تعداد سو سے متجاوز ہے (14) ۔
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا علم حدیث میں ممتاز نظر آتی ہیں، علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کے متعلق محمد بن لبید فرماتے ہیں:

"کان ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحفظن من حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم کثیرا مثلا عائشۃ وام سلمۃ" (15)،
یعنی عام طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کی حدیثوں کو بہت زیادہ محفوظ رکھتی تھیں، مگر حضرت عائشہ اور ام سلمہ اس سلسلہ میں سب سے ممتاز تھیں۔ حضرا ام سلمہ سے (378) حدیثیں مروی ہیں (16)۔ ان کے فتوے بکثرت پائے جاتے ہیں، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے "اعلام الموقعین" میں لکھا ہے:
"اگر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فتوے جمع کئے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے (17)، ان کا شمار محدثین کے تیسرے طبقہ میں ہے۔ ان کے تلامذہ حدیث میں بے شمار تابعین اور بعض صحابہ بھی شامل ہیں۔
ان دونوں کی طرح دوسری ازواج مطہرات نے بھی حدیث کی روایت اور اشاعت میں حصہ لیا اور ان سے بھی بڑے جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے احادیث حاصل کیں، جیسے حضرت میمونہ ہیں۔ ان سے (76)، ام حبیبہ سے (65)، حفصہ سے (60)، زینب بنت جحش سے (11) جویریہ سے (7) سودہ سے (5)، خدیجہ سے (1)، مزید براں آپ کی دونوں لونڈیوں میمونہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہن سے دو دو حدیثیں مروی ہیں۔
امہات المومنین کے علاوہ صحابیات میں مشکل ہی سے کوئی صحابیہ ایسی ہوں گی جن سے کوئی نہ کوئی روایت موجود نہ ہو، چنانچہ آپ کی پیاری بیٹی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے (18)، آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ سے (11) حدیثیں مروی ہیں (18)۔ عام صحابیات میں سے حضرت ام خطل سے (30) حدیثیں مروی ہیں، حضرت ام سلیم اور ام رومان سے چند حدیثیں مروی ہیں، ام سلیم سے بڑے بڑے صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے، ایک بار کسی مسئلہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت زید بن ثابت میں اختلاف ہوا تو دونوں نے ان ہی کو حکم مانا (19)۔ حضرت ام عطیہ سے متعدد صحابہ وتابعین نے روایت کیا اور صحابہ وتابعین ان سے مردہ کو نہلانے کا طریقہ سیکھتے تھے (20) ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
- مسانید صحابیات:
صحابیات کی کثرت روایت اور ان کی خدمت حدیث کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ امام احمد بن حنبل نے (140) سے زائد صحابیات کا تذکرہ لکھا ہے، اسی طرح "اسد الغابۃ" اور "الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ" میں (500) سے زائد صحابیات کے تراجم موجود ہیں، "تہذیب التہذیب" میں (233) خواتین اسلام کا تذکرہ ہے جن میں بیشتر صحابیات ہیں (21)۔
صحابیات کی صحبت اور ایمان کی حالت میں جن خواتین نے پرورش پائی یا ان سے استفادہ کیا ان کو تابعیات کہا جاتا ہے، صحابیات کی طرح تابعیات نے بھی فن حدیث کی حفاظت واشاعت اور اس کی روایت اور درس وتدریس میں کافی حصہ لیا اور بعض نے تو اس فن میں اتنی مہارت حاصل کی کہ بہت سے کبار تابعین نے ان سے اکتساب فیض کیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب "تقریب التہذیب" کی ورق گردانی کرنے سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ صحابیات کی طرح تابعیات کی ایک بڑی تعداد نے روایت وتحمل حدیث میں انتھک کوشش کی، چنانچہ ان کے اعداد وشمار کے مطابق (121) تابعیات اور (26) تبع تابعیات ہیں۔ البتہ "تقریب التہذیب" کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان تابعیات میں کچھ پائے ثقاہت کو پہنچی ہیں، زیادہ تعداد میں مجہولات پائی جاتی ہیں۔ چند مشہور تابعیات کی خدمت کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

· حضرت حفصہ بنت سیرین:
انہوں نے متعدد صحابہ وتابعین سے روایت کی ہے، جس میں انس بن مالک اور ام عطیہ وغیرہ ہیں اور ان سے روایت کرنے والوں میں ابن عون، خالد الحذاء، قتادہ وغیرہ شامل ہیں (22)۔ جرح وتعدیل کے امام یحیی بن معین نے ان کو "ثقۃ حجۃ" فرمایا (23)۔ ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں:
"ما ادرکت احدا افضلتہ علی حفصۃ" (24)
میں نے حفصہ سے زیادہ فضل والا کسی کو نہیں پایا۔
امام ذہبی سے انہیں حفاظ حدیث کے دوسرے طبقہ میں شامل کیا ہے (25)۔

· عمرہ بنت عبد الرحمن:
یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خاص تربیت یافتہ اور ان کی احادیث کی امین تھیں، ابن المدینی فرماتے ہیں:
" حضرت عائشہ کی حدیثوں میں سب سے زیادہ زیادہ قابل اعتماد احادیث عمرہ بنت عبد الرحمن، قاسم اور عروہ کی ہیں"۔ محمد بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن عبد العزیز نے عمرہ بنت عبد الرحمن کے بارے میں فرمایا:

"ما بقی احد اعلم بحدیث عائشۃ" (26)
اس وقت حضرت عائشہ کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی جاننے والا موجود نہیں ہے۔
ابن سعد نے ان کو "عالمہ" لکھا ہے (27)۔ اور امام ذہبی نے ان کو تابعین کے تیسرے طبقہ میں شمار کیا ہے (28)۔ اور ابن المدینی نے "احد ثقات العلماء" (29) کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ حضرت عائشہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے بھی انہوں نے روایتیں کی ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں تیرہ سے زیادہ کبار تابعین ہیں۔ 103ھ یا 116 ھ میں وفات پائی (30) ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
روایت حدیث کے مختلف ادوار:
خیر القرون کے تذکرے کے بعد متاخرین کے مختلف ادوار کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے، ان ادوار میں بھی محدثین اور رواۃ کے ہمراہ راویات ومحدثات کی ایک لمبی فہرست دستیاب ہوتی ہے جنہوں نے حفاظت حدیث کی ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائی۔ خدمت حدیث کی نوعیت علیحدہ علیحدہ اور مختلف ہے۔ کوئی اپنے زمانہ کی شیخۃ الحدیث تھی، کسی کا مسکن علم حدیث کا مرکز تھا، کسی نے حدیث کی تلاش وجستجو میں محرم کے ساتھ اپنے گھر کو خیرباد کہا، تو کسی نے محدثین کے ایک جم غفیر کو روایت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔ کسی نے حدیث کی مخصوص کتاب صحیح بخاری کا درس دیا، کتب سنہ اور دیگر کتب حدیث میں سینکڑوں حدیثیں ایسی ہیں جو کسی محدثہ یا راویہ کے توسط سے مروی ہیں۔ امام بخاری، امام شافعی، امام ابن حبان، امام ابن حجر، امام سیوطی، امام سخاوی، عراقی، سمعانی اور امام ابن خلکان رحمہم اللہ جیسے اساطین علم وفن اے اساتذہ کی فہرست میں متعدد خواتین اسلام کے نام ملتے ہیں (31)،
جن سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے خواتین نے اپنے ذاتی ذوق وشوق کی بنیاد پر نہ صرف علم حدیث کو حاصل کیا بلکہ اس کی نشرواشاعت کا فریضہ بھی انجام دیاہے۔ جس طرح محدثین اور علم حدیث سے شغف رکھنے والوں اور خدمت حدیث میں دل چسپی رکھنے والوں کی تعداد وافر مقدار میں پائی جاتی ہے، اسی خواتین اسلام کی بھی ایک طویل فہرست کتب اسماء ورجال کی ورق گردانی کے بعد دستیاب ہوتی ہے، چنانچہ چوتھی صدی ہجری سے لے کر دسویں صدی ہجری کی محدثات اور راویات اور خدمت حدیث میں اپنے نام کو روشن کرنے والیوں کا ایک تذکرہ پیش کیا جارہا ہے:
چوتھی صدی ہجری میں پانچ خواتین، پانچویں صدی ہجری میں پندرہ، چھٹی صدی ہجری میں پچھتر، ساتویں صدی ہجری میں پینسٹھ، آٹھویں صدی ہجری میں ایک سو بانوے، نویں صدی ہجری میں ایک سو اکسٹھ اور دسویں صدی ہجری میں تین خواتین اسلام نے مختلف حوالوں سے خدمت حدیث کا کا انجام دیا (32) ۔ ان کے علاوہ بہت ساری محدثات اور راویات ہیں، لیکن ان کی تاریخ وفات نیز ان کے اساتذہ اور تلامذہ کا سراغ نہ لگنے کی وجہ سے صدی متعین نہ ہوسکی، جس کی وجہ سے ان کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حدیث کے حصول کےلئے سفر: جس طرح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش وجستجو میں محدثین نے عالم اسلام کی خاک چھانی ہے اور جملہ نوائب ومصائب کو برداشت کیا، ابتدائی دور میں احادیث وآثار کی روایت اور ان کی تدوین کے لئے بہت لمبے لمبے اسفار کئے تھے، لیکن بعد میں سند عالی کی طلب بھی ان اسفار کا سبب بن گئی، اسی خواتین اسلام نے بھی اپنی صنفی حیثیت وصلاحیت کے مطابق شرعی پردہ میں رہ کر تحصیل حدیث کے لئے دور دراز ملکوں اور شہروں کا سفر کیا اور محدثین کی فہرست میں اپنا نام درج کروایا (33) ۔
ام علی تقیہ بنت ابو الفرج بغدادیہ نے بغداد سے مصر جاکر قیام کیا اور اسکندریہ میں امام ابو طاہر احمد بن محمد السلفی سے اکتساب علم کیا (34)۔ اسی طرح زینب بنت برہان الدین اردبیلیہ کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی، ہوش سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے چچا کے ساتھ بلاد عجم کا سفر کیا اور بیس سال کے بعد مکہ مکرمہ واپس آئیں (35) ۔
ام محمد زینب بنت احمد بن عمر کا وطن بیت المقدس تھا، امام ذہبی نے ان کو "المعمرۃ الرحالۃ" کے القاب سے یاد کیا ہے، کیونکہ دور دراز کا سفر کرکےتحصیل علم اور حدیث کی روایت میں مشہور تھیں، اسی وجہ سے بعد میں دور دراز ملکوں کے طلبہ حدیث ان سے روایت کرتے تھے (36)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
محدثات کی درس گاہیں:
ان خواتین اسلام پاک طینت محدثات اور راویات سے شرف تلمذ حاصل کرنے کے لئے مختلف علاقوں اور دور دراز ملکوں سے طلبہ حدیث جوق در جوق حاضر ہوتے تھےاور ان سے روایت کرنے کو اپنے لئے باعث صد افتخار تصور کرتے تھے، ان کی درس گاہوں میں طلبہ ہی نہیں بلکہ ائمہ وحفاظ حدیث بھی آکر اکتساب فیض کرتے تھے۔
ام محمد زینب بنت مکی حرانیہ نے چورانوے سال کی عمر تک حدیث کا درس دیا اور ان کی درس گاہ میں طلبہ کا کافی ہجوم رہا کرتا تھا، امام ذہبی نے لکھا ہے:
"وازدحم علیہا الطلبۃ" (37) ۔
ام عبد اللہ زینب بنت کمال الدین مقدسیہ مسندۃ الشام کی پوری زندگی احادیث کی روایت اور کتب حدیث کی تعلیم میں گزری، ان کی درس گاہ میں طلبہ کی کثرت ہوا کرتی تھی، امام ذہبی نے لکھا ہے:
"تکاثر علیہا وتفردت وروت کتبا کثیرا" (38) ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خواتین کی علم حدیث میں تدریسی خدمات:
عام طور سے محدثات کی مجلس درس ان کی رہائش گاہوں میں منعقد ہوتی تھی اور طلبہ حدیث وہیں جاکر استفادہ کرتے تھے، جیسا کا امام ذہبی اور ابن الجوزی نے ان سے روایت کے سلسلہ میں ان کی قیام گاہوں کی نشاندہی کی ہے، مگر بعض محدثات نے مختلف شہروں میں بھی درس دیا ہےاور دینی علم کو عام کیا ہے (39)۔
خلدیہ بنت جعفر بن محمد بغداد کی باشندہ تھیں، ایک مرتبہ وہ بلاد عجم کے سفر میں نکلیں تو مقام دینور میں ان سے خطیب ابو الفتح منصور بن ربیعہ زہری نے حدیث کی روایت کی (40) ۔
مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمر تنوخیہ نے متعدد بار مصر اور دمشق میں صحیح بخاری اور مسند امام شافعی کا درس دیا (41) ۔
 
Top