• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواجہ معین الدین چشتی کون تھے؟؟؟؟

شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
السلام علیکم
خواجہ معن الدین چشتی جنکی قبر اجمیر(ہندوستان) میں ہے کو تھے.
یہ سوال کئ دنوں سے میرے ذہن میں تھا.کوئی انہے شیعہ کہتا ہے تو کوئی انہے اہل سنت مین شمار کرتا ہے.
برائے مہربانی اسکا تحقیقی اور بادلیل جواب دے. یا ان کے حالات پر کوئی کتاب ہو تو اسکا لنک دیجیے.
جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم
خواجہ معن الدین چشتی جنکی قبر اجمیر(ہندوستان) میں ہے کو تھے.
یہ سوال کئ دنوں سے میرے ذہن میں تھا.کوئی انہے شیعہ کہتا ہے تو کوئی انہے اہل سنت مین شمار کرتا ہے.
برائے مہربانی اسکا تحقیقی اور بادلیل جواب دے. یا ان کے حالات پر کوئی کتاب ہو تو اسکا لنک دیجیے.
جزاکم اللہ خیرا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
معین الدین حسن چشتی سِجزی اجمیری برصغیر ہند میں تصوف کے سلسلۂ چشتیہ کے بانی ہیں۔ سلسلۂ چشتیہ حضرت ابواسحاق شامی کی طرف منسوب ہے کہا جاتاہے کہ ہرات کے قریب چشت نامی ایک گاؤں ہے اور چشتی اسی کی طرف منسوب ہے،
537ھ 1142ء کو موضع سنجر علاقہ سبحستان (جسے سبستان بھی کہا جاتا ہے) میں پیدا ہوئے ،

عام طورپر اُنہیں سَنجری کہاجاتاہے ،لیکن اُن کے وطنِ مالوف سجستان کی طرف نسبت کے حوالے سے صحیح لفظ سَجِزہے۔ خواجہ معین الدین حسن سِجزی کا سلسلۂ بیعت وخلافت خواجہ عثمانی ہَروَنی سے ہے،ہَروَن ایک قصبے کا نام ہے۔خواجہ اجمیری نے سید علی ہجویری کے مزار پر مراقبہ (اعتکاف ) کیا اور یہ شعر انہی کی طرف منسوب ہے ؎
گنج بخش فیضِ عالَم مَظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل ، کاملاں را رہنما

علی ہجویری سارے جہان کو خزانے بخشنے والے اور نور خدا کا مظہر ہیں
عوام کیلئے کامل رہنما تو ہیں ہی ، کاملوں کیلئے بھی رہبر ہیں

لاہور سے اجمیر پہنچے اور وہاں ایک خانقاہ قائم کرکے بیٹھ گئے
دور افتادہ پہاڑی شہر سادھوئوں، مہنتوں کا مسکن تھا جو پہاڑیوں، گپھائوں اور مندروں میں صدیوں سے مقیم چلے آ رہے تھے۔​
خواجہ معین الدین حسن اجمیری کے مکمل حالات ثقہ اور مستند ذرائع سے دستیاب نہیں ہیں۔​

اتنا مشہور ہے کہ وہ ایک پکے صوفی ،تھے​
مولانا عبد الحي الحسني الطالبي (المتوفى: 1341هـ)
کی مشہور کتاب ( نزھۃ الخواطر ) سے پیش نظر ہے، لکھتے ہیں :
الشيخ الإمام الزاهد الكبير الحسن بن الحسن السجزي شيخ الاسلام معين الدين الأجميري
الولي المشهور، كان مولده سنة سبع وثلاثين وخمسمائة ببلدة سجستان، وتوفي أبوه وهو في
الخامسة عشرة من سنه وأعقب له بستاناً ورحى فاسترزق بهما مدة، ثم أخذته الجذبة
الربانية فترك ما له من العروض والعقار وسافر إلى سمرقند فحفظ القرآن وقرأ العلم حيثما
أمكن له، ثم سافر إلى بلاد أخرى ودخل هارون قرية من أعمال نيسابور وأدرك بها الشيخ
عثمان الهاروني فلازمه وأخذ عنه الطريقة وصحبه عشرين سنة، ثم قدم الهند وأقام بمدينة
لاهور واعتكف على قبر الهجويري والزنجاني، ثم قدم دهلي ثم سار إلى أجمير وسكن بها
وكانت تحت سلطة الهنود في ذلك الزمان فأسلم على يده خلق كثير، ويذكر له كشوف
وكرامات ووقائع غريبة والاحاطة ببعض البعض من مناقب هذا الإمام تقصر عنها ألسن
الأقلام، فمن رام الوقوف على ما يكون له من أعظم العبر فلينظر سيرته، في سير الأولياء
وأخبار الأخيار وغيرهما من الكتب المعتبرة.
توفي يوم الاثنين سادس رجب سنة سبع وعشرين وقيل اثنتين وثلاثين وقيل ثلاث وثلاثين
وستمائة وله خمس وتسعون، وقبره مشهور ظاهر بمدينة أجمير يزار ويتبرك به.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ان کے حالات پر کوئی کتاب ہو تو اسکا لنک دیجیے.
شیخ عبدالحق دہلوی کی کتاب ( اخبارالاخیار ) جو مستند تو بالکل نہیں ، تاہم خواجہ معین الدین کے ہم مذہب کی ہے اور قبر پرستوں کے ہاں کافی مشہور و معتبر ہے
درج ذیل لنک سے ڈاؤن لوڈ کرلیں
کتاب اخبارالاخیار
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
شیخ عبدالحق دہلوی کی کتاب ( اخبارالاخیار ) جو مستند تو بالکل نہیں ، تاہم خواجہ معین الدین کے ہم مذہب کی ہے اور قبر پرستوں کے ہاں کافی مشہور و معتبر ہے
غیرمستند ہونے کی کوئی مستند دلیل؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
یہ سوال کئ دنوں سے میرے ذہن میں تھا.کوئی انہے شیعہ کہتا ہے تو کوئی انہے اہل سنت مین شمار کرتا ہے.
ایک مسلمان کے لئے یہ ایک ”نان ایشو“ ہے کہ فلاں اور فلاں اور فلاں مشہور بزرگ کون تھے، کیا تھے، ان کی تعلیمات کیا تھیں، ان کی سوانح عمری کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ اس لئے کہ ”مشہور و معروف بزرگان دین“ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتے ہیں کہ وہ ”دین اسلام کے اندر ایک اچھے مسلمان“ ہوں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ”اُن کے اندر اسلام“ ہو۔ اسلام ان سے ”پہلے“ بھی موجود تھا اور آج ان کے ”بغیر“ بھی موجود ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو اسلام ی ”تلاش“ میں بزرگان دین اور ان کی مبینہ تعلیمات کو جاننے، پرکھنے، میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلام کے اصل مآخذ قرآن و سنت اور اصل رول ماڈل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرتوں کو پڑھنے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے نہ کہ اپنے اپنے علاقائی و مسلکی ”بزرگان دین“ کی طرف۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
تبصرہ کرنا عقل مندوں اورعقل مندی کاکام ہے، لہذا تبصرہ بھی ایساہوناچاہئے جس سے جھلکے اورچھلکے کہ اس میں عقل سے کام لیاگیاہے،ورنہ محض الفاظ کی نمائش اورفورم کے صفحات سیاہ کرنے سے کیافائدہ؟
ایک مسلمان کے لئے یہ ایک ”نان ایشو“ ہے کہ فلاں اور فلاں اور فلاں مشہور بزرگ کون تھے، کیا تھے، ان کی تعلیمات کیا تھیں، ان کی سوانح عمری کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
یہ اگرنان ایشو ہے توپھر تمام کتابیں جو سیرت وسوانح پر لکھی گئی ہیں، ان کا کیاکرناچاہئے،کیابزرگوں کی تعلیمات ،ان کےارشادات کواتنے ہی ہلکے اورسستے میں لیاجاسکتاہے،ہوسکتاہےکہ آپ کے نزدیک یہ بزرگان دین کسی شمار وقطار میں نہ ہوں لیکن ایک ذرا یہ بھی محاسبہ کیجے کہ ان کی خدمات دین کے مقابلہ میں آپ کی اپنی خدمات کیاہیں؟جنہوں نے تبلیغ دین کیلئے وطن چھوڑا اجنبی ملک میں ڈیرہ جمایا اور ہزاروں مسلمانوں کو بہ مشرف بہ اسلام ہی نہیں کیابلکہ تبلیغ اسلام کی ایک منظم مشن اورمشنری چھوڑ کر گئے ۔ان کے مقابلے میں آپ کی خدمات کیاہیں؟محض ایک دوکتاب لکھ دینا’’پیغام قرآن‘‘ اور’’پیغام حدیث‘‘۔
جتنے حضرات ماقبل میں اب اور مابعد میں بزرگوں کی سیرت وسوانح پر کام کررہے ہیں کیاوہ بیکار میں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں، اگر بزرگوں کی سیرت سوانح سے آپ کو کوئی رہنمائی نہیں ملتی تو براہ کرم دوسروں کو تو فیضیاب ہونے دیجئے،یہ کون سی منطق اوراصول ہے کہ جوہمارے لئے بہتر نہیں وہ کسی کیلئےبھی بہتر نہیں ،ایساتو نہیں ہے کہ آپ اپنی ذات کوہی کل جہان سمجھ بیٹھے ہیں؟
اس لئے کہ ”مشہور و معروف بزرگان دین“ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتے ہیں کہ وہ ”دین اسلام کے اندر ایک اچھے مسلمان“ ہوں یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ”اُن کے اندر اسلام“ ہو۔
یہ دعویٰ کسی نے بھی نہیں کیاکہ ان کے اندر اسلام ہے ،ہاں لیکن ایک مسلمان اورایک اسلام کے سچےپیروکار کی جوصحیح تصویر ہونی چاہئے وہ ہمیں ان کی زندگی میں نظرآتی ہے۔
اسلام ان سے ”پہلے“ بھی موجود تھا اور آج ان کے ”بغیر“ بھی موجود ہے۔
اس میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی ہی کیاخصوصیت ہے، محدثین،مفسرین، مجاہدین ،فقہاء سب کے ساتھ یہی معاملہ ہے کہ اسلام ان سے پہلےبھی تھا اوران کے بعد بھی ہے،لہذا جو اصول ان پر لاگو ہوتاہے وہی ان پربھی نافذ کردیجئے اوران کی بھی سیرت وسوانح سے اسی طرح لاتعلقی برتیے۔
لہٰذا مسلمانوں کو اسلام ی ”تلاش“ میں بزرگان دین اور ان کی مبینہ تعلیمات کو جاننے، پرکھنے، میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلام کے اصل مآخذ قرآن و سنت اور اصل رول ماڈل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرتوں کو پڑھنے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے نہ کہ اپنے اپنے علاقائی و مسلکی ”بزرگان دین“ کی طرف۔
بزرگوں کو پڑھنے سے اوران کی تعلیمات معلوم کرنے اورقرآن وحدیث کو سمجھنے میں کوئی تضاد ہے کیا؟اگریہی منطق کاتقاضا اوراستدلال کا طریقہ ہے تو سوائے کتب حدیث کے تمام سیرت وسوانح کی کتاب دریابرد کردینی چاہئے؛لیکن مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی باہوش اورذراسی عقل رکھنے والا بھی شخص اس کی تائید نہیں کرے گا۔
اگراس کلیہ سے مراد جزئیہ یعنی صرف صوفیاء حضرات کی سیرت وسوانح کو دریابرد کرنے کا مشورہ دیاجارہاہے توانہیں کھل کر اپنی بات کہنی چاہئے تاکہ ہم بھی کھل کر کچھ عرض ومعروض کرسکیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
غیرمستند ہونے کی کوئی مستند دلیل؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سیرت و سوانح میں کسی کتاب کے مستند ہونے کا مطلب ہےکہ:
مصنف کتاب خود صحیح العقیدہ اور صاحب بصیرت شخصیت ہے ، اور جن ذرائع سے کسی کے حالات پیش کئے ہیں وہ بھی ثقہ و معتبر ہیں ،
اسماء رجال الحدیث کے مصنفین و مرتبین کو اور ان کی کتب دیکھ لیجئے ،شاید سمجھ آجائے
امام احمد بن حنبلؒ سے لے کر امام الذھبی اور علامہ ابن حجرؒ تک جن عظیم اور صاحب نظر حضرات نے سیر و تراجم پر داد تحقیق دی
اسی تحقیق پر علم حدیث و سیرت پر قائم ہے ، اس پر آج بھی امت بلاشبہ ناز کرتی ہے ،
محض رطب و یابس ( اور ہر سنی سنائی بات جمع و مرتب کرکے اعتبار و استناد کی مہر نہیں لگائی جاسکتی
امام اعظم و اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ :
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع» صحیح مسلم
کہ بندہ کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی کو آگے بیان کرے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اس بنیاد پر ( اخبارالاخیار ) کے چند مقامات دیکھتے ہیں :
شیخ عبدالحق نے اخبار الاخیار جناب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے احوال سے شروع کی ہے،
اور ایسے ایسے عجیب حالات و واقعات لکھے ہیں جن کو دیکھ کے لگتا ہے معاذاللہ شیخ رحمہ اللہ کوئی جوگی اور سادھو تھے ،
شیخ ؒعبدالقادرؒ کی پہلی حالت یہ لکھی ہے کہ وہ فرماتے ہیں : میں پچیس سال عراق کے صحراؤں ، بیابانوں میں اس حال میں گشت کرتا رہا کہ نہ میں کسی کو پہچانتا تھا ، نہ کوئی مجھے پہچانتا تھا ،
صرف رجال الغیب اور جن میرے پاس آتے اور راہ حق کی تعلیم پاتے ۔
اور فرماتے ہیں :
میں نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کے وضوء سے پڑھی ،
اور پندرہ سال تک یہ حال رہا کہ نماز عشاء کے بعد قرآن مجید اس طرح شروع کرتا کہ ایک پاؤں پر کھڑا ہوجاتا اور ایک ہاتھ سے دیوار کی میخ پکڑلیتا اور اسی حال میں ساری رات قرآن مجید پڑھتا حتی کہ صبح ہوجاتی اور قرآن ختم کرلیتا ۔

آگے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی مجالس وعظ کے احوال لکھتے ہوئے شیخ عبدالحق فرماتے ہیں :
یہ بات تو بہت مشہور ہے کہ :

ان کی مجلس وعظ میں تمام انبیاء و اولیاء جو زندہ تھے اپنے جسموں کے ساتھ اور جو فوت ہو چکے تھے وہ اپنی روحوں کے ساتھ موجود ہوتے
اسی طرح آپ کی تربیت و تائید کیلئے حضور اکرم ﷺ بھی خود تجلی فرماتے ،

علی ھذا اکثر اوقات حضرت خضر علیہ السلام بھی آپ کی مجلس میں شب باشی کی نصیحت فرماتے ، اور فرماتے جو اپنی کامیابی چاھتا ہے اسے مجلس قادری میں ہمیشہ رہنا چاہیئے ۔
اور ایک روز تو کمال ہی ہوگیا ، شیخ رحمہ اللہ وعظ فرمارہے تھے کہ اچانک ہوا میں اڑنے لگے ، تھوڑا اڑنے کے بعد فرمایا : اے اسرائیلی !
ذرا ٹھہرو اور ایک محمدی کا وعظ سنو ،
جب واپس اپنی جگہ آئے تو لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا معاملہ تھا ؟
فرمایا : ابوالعباس خضر ہماری مجلس کے اوپر سے تیزی کے ساتھ جارہے تھے تو میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ ہماری مجلس سے اس تیزی کے ساتھ
نہ جائے بلکہ ہمارا کچھ وعظ سن کر جایئے ۔
(اخبارالاخیار صفحہ۴۳ )
گویا شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ کو سیدنا موسی علیہ السلام پر بھی برتری دے دی ، کیونکہ جناب موسی کو جناب خضر سے ملاقات کیلئے کھانا پینا اور خادم
ساتھ لے کر بحری سفر کی لمبی تکلیف برداشت کرکے اور راستہ کا پتا اللہ تعالی سے پوچھ کے جانا پڑا ،
اور خضر کے یہاں پہنچ کر ان سے التماس کرنا پڑی ،
اور یہاں خضر علیہ السلام نہ صرف خود تشریف لاتے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی بلا بلا کر شیخ کا مرید بنا رہے ۔سبحان اللہ

سب بآواز بلند نعرہ لگاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلاں زندہ باد ،، فلاں مردہ باد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخبار الاخیار کے ذیل کے اقتباس کو دیکھئے ، جس میں جناب عبدالقادر گیلانی ؒ
کو انبیاء کا ہم پلہ اور ہم مثل قرار دیا گیا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخبار2.jpg


یہاں تک پہنچ کر ہمت جواب دے گئی ، فی الحال مزید نہیں لکھا جارہا ، اگر وقت ملا تو پیش کردوں گا۔
پہلے بھی ایک کتاب پر کام جاری ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top