• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خواجہ معین الدین چشتی کون تھے؟؟؟؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کسی کتاب میں کمزورروایات یامستحیل العادہ روایتیں اگرنقل ہوں توبھی اس سے کوئی کتاب غیرمعتبر نہیں ہوتی۔
سیرت و سوانح میں کسی کتاب کے مستند ہونے کا مطلب ہےکہ:
مصنف کتاب خود صحیح العقیدہ اور صاحب بصیرت شخصیت ہے ، اور جن ذرائع سے کسی کے حالات پیش کئے ہیں وہ بھی ثقہ و معتبر ہیں
بات چل رہی ہے سیرت و سوانح، روایات، حکایات وحالات کی۔
جواب لایا جا رہا ہے:

این تقبیل را در بعض کتب فقہ مستحب نوشة است، نہ واجب ونہ سنت،
اس انگوٹھے چومنے والے مسئلہ کو فقہ کی بعض کتابوں میں مستحب کہا گیا ہے،
مگر اکثر معتبر کتبِ فقہ میں ایسا کوئی مسئلہ مذکور نہیں ہے
حالانکہ کتب فقہ میں مذکورہ چیزیں کم اور مسائل زیادہ ذکر ہوتے ہیں بلکہ بیشتر کتب فقہ میں مسائل ہی ذکر ہیں۔
اسی لیے اس جملہ میں بھی روایات کا ذکر نہیں جس میں کتب کے غیر معتبر ہونے کی وجہ ذکر کی جا رہی ہے۔

اینوجہ کہ درین کتب رطب ویابس بلا تنقیح مجتمع است،
ان کتابوں میں ہر رطب ویابس کو اس بات کی تصریح کیے بغیر” کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں“، جمع کر دیا گیا ہے
کہیں کی مٹی کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
این تقبیل را در بعض کتب فقہ مستحب نوشة است، نہ واجب ونہ سنت، مثل کنز العباد وخزانة الروایات، وجامع الرموز وفتاویٰ صوفیہ وغیرہ، مگر در اکثر کتب معتبرہ متداولہ نشان آن نیست،
در آن کتب کہ درانہا این مسئلہ مذکور است غیر معتبر اند، چنانکہ جامع الرموزوفتاویٰ صوفیہ وکنز العباد وغیرہ، اینوجہ کہ درین کتب رطب ویابس بلا تنقیح مجتمع است
،
تفصیل آن در رسالہ من ”النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ موجود است، درین باب فقہاء نقل میکنند آنہا بتحقیق محدثین صحیح نیستند… إلخ“․(مجموعة الفتاویٰ، کتاب الکراہیة:4/325، رشیدیة)

”اس انگوٹھے چومنے والے مسئلہ کو فقہ کی بعض کتابوں میں مستحب کہا گیا ہے، واجب یا سنت نہیں، مثلاً: کنز العباد ، خزانة الروایات، جامع الرموز اور فتاویٰ صوفیہ وغیرہ (میں یہ مسئلہ مذکور ہے)، مگر اکثر معتبر کتبِ فقہ میں ایسا کوئی مسئلہ مذکور نہیں ہے
اور جن کتب میں یہ مسئلہ موجود ہے ، وہ کتب معتبر نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کتابوں میں ہر رطب ویابس کو اس بات کی تصریح کیے بغیر” کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں“، جمع کر دیا گیا ہے،
اس بات کی پوری تفصیل میرے رسالے ” النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ میں موجود ہے، اس انگوٹھا چومنے والے مسئلہ میں (ان کتابوں کے مصنفین)فقہاء نے جو کچھ کہا ہے، محدثینِ کرام نے اسے صحیح قرار نہیں دیا“۔

سکین درکار ہو تو مطلع کیجئے گا!
بحث کو مختصر کرنے کیلئےگزارش ہے کہ بھان متی کے اس طویل کنبہ سے صرف نظرکرکے جو سوال اٹھائے گئے ہیں، محض ان کا جواب عنایت کریں تونوازش ہوگی۔

  • کیاکتاب کے اعتبار کیلئے مصنف کا صحیح العقیدہ ہوناضروری ہے؟
  • کیااخبارالاخیار غیرمعتبر کتاب ہے ،اگرہاں تواس کی دلیل اورکن اہل علم نے اس کو غیرمعتبر کہاہے؟
اورجہاں تک مشک آنست کی بات ہے توکبھی کبھی کسی مرض سے قوت شامہ متاثر بھی ہوجاتی ہے لہذا محض اپنی قوت شامہ پر مکمل اعتماد کے بجائے کچھ دیگرافراد کی بھی تائید حاصل کرنی چاہئےاورمستند ہے میرافرمایاہوا کے مالیخولیاسے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اگر آپ کو عربی آتی ہے تو لکھ دیں ، نہیں آتی تو بتا دیں ، اس میں جھنجلاہٹ اور پریشانی کس بات کی ؟
اگرمیں بھی اسی لب ولہجہ میں یہ عرض کروں کہ اگرآپ کو ترجمہ نہیں معلوم ،عربی نہیں آتی تواعتراف کرلیں،اگرعربی آتی ہے توپھر خواہ مخواہ کے سوال سے کیافائدہ ،اگرمیں بھی اسی طرح آپ کی ہرعربی اقتباس کا ترجمہ کرانے بیٹھ گیاتو پھر کیاہوگا؟اگرکسی لفظ پر کوئی اعتراض ہے تواس کونشان زد کریں لیکن ترجمہ کی مانگ کرنا نہ صرف وقت کا ضیاع بلکہ ایک اوچھاہتھکنڈہ ہی ہے۔

اگر حواس قائم و درست ہیں تو اپنی ان دو لائنوں پر بحیثیت فضیلۃ الشیخ غور فرمائیں ،
میں نے تو بہت غورکرلیا،پہلا جملہ سوالیہ ہے لیکن شاید سوالیہ علامت نہ ہونے کی وجہ سے اسے آپ کچھ اورسمجھ بیٹھے،خیر اب اس پر زیادہ عرض کرنا کاربیکاراں ہے،دونوں لائنوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
علم کی وادی علم واستدلال سے طے ہوتی ہے،پورے عربی اقتباسات کا ترجمہ ،بات روایت کی ہورہی ہے لیکن مصنف اورکتاب پر تان توڑی جائے ،اصل سوال سے اعراض،بالکل ابتداء میں کتاب کو غیرمعتبر کہنے کا جودعویٰ تھااس کیلئے کوئی دلیل نہ ہونے پر بھی اعتراف تقصیر سے فرار،یہ سب اوچھے ہتھکنڈے ہی توہیں اوراس بات کی غماز ہیں کہ مذکورہ جملہ اداکرتے وقت اس کا مالہ وماعلیہ پیش نظرنہیں تھابس جوش تردید میں کہہ بیٹھے اورجب کہہ دیا تو وفاداری بشرط استواری کے تحت اس پر اصرار بھی ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اردو ترجمہ بلاشبہ بہت اچھی چیز ہے ۔۔۔۔عوام تاریخ سے واقف ہو سکتے ہیں۔۔۔۔لیکن کسی کو خیال نہیں کہ اس سے عوام کے عقائد میں کتنا نقصان ہوا ۔۔۔۔ان چھپی ہوئی تواریخ میں نہ کوئی تحقیق ہے اور نہ تعلیق و وضاحت۔۔۔
کوئی پتہ نہیں کیا صحیح ہے ۔۔کیا ضعیف۔۔۔۔
اس وجہ سے تاریخ کی کتب زیادہ اس کی مستحق تھیں کہ ان کو تحقیق و تعلیق سے شائع کیا جائے ۔۔۔۔۔لیکن نہیں ہوا۔۔۔
کسی بھی مسلک کی جانب سے میری معلومات کے مطابق کوئی تاریخ کی کتاب اردو میں ایسی مترجم موجود نہیں ۔۔۔۔
سب سے کم اگر نقصان ہو سکتا ہے تو تاریخ ابن کثیر ہے جس میں امام ابن کثیرؒ کچھ وضاحت کر دیتے ہیں ۔۔۔۔لیکن طبقات ، اور طبری وغیرہ تو بہت ہی غلط تراجم ہیں ۔۔۔۔جس سے فتنہ ہی پھیل سکتا ہے ۔۔۔۔اور بہت پھیلا بھی۔۔۔
اور عجیب بات ہے ۔۔۔۔۔امام ذہبیؒ کی تاریخ و سیر جو اس معاملے میں سب سے بہتر تھی ۔۔۔کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔۔۔۔۔۔
ان تواریخ کی وجہ سے ہی مشاجرات صحابہؓ ہماری عوام کی زبان پر آگئے ۔۔۔۔
تاریخ کی کتب کو علم الاسناد کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتے۔ ایک تو اس کی اسناد محفوظ نہیں ہیں۔ سند محفوظ کرنے کا کام حدیث پر ہوا ہے تاریخ پر نہیں، تاریخ کے روات مشکل سے ملتے ہیں۔ اس طرح ہم کئی تاریخی روایات کو یکسر رد کر دیں گے حالانکہ وہ صحیح ہوں گی۔
دوسرا تاریخ میں غلط روایات صحیح سند سے بکثرت ملتی ہیں کیوں کہ تاریخ کے راویوں نے وہ احتیاط نہیں کی جو حدیث بیان کرتے وقت انہوں نے کی ہے۔ مثال کے طور پر ابن عباس رض سے متعہ کی روایت کو لے لیں۔
تیسرا اکثر ایک شخص حدیث میں کمزور لیکن تاریخ کا ماہر ہوتا ہے۔ اور کتب جرح و تعدیل میں حکم حدیث کے تناظر میں ہوتا ہے (سوائے کذاب جیسی جروح کے)۔
لہذا تاریخ کو ہم اسناد سے زیادہ درایۃ دیکھ سکتے ہیں اور یہ ایک مشکل کام ہے۔ ہر بات کے کئی پہلو دیکھنا اور ہر پہلو کی صحت و ضعف معلوم کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہوتا۔
این تقبیل را در بعض کتب فقہ مستحب نوشة است، نہ واجب ونہ سنت، مثل کنز العباد وخزانة الروایات، وجامع الرموز وفتاویٰ صوفیہ وغیرہ، مگر در اکثر کتب معتبرہ متداولہ نشان آن نیست،
در آن کتب کہ درانہا این مسئلہ مذکور است غیر معتبر اند، چنانکہ جامع الرموزوفتاویٰ صوفیہ وکنز العباد وغیرہ، اینوجہ کہ درین کتب رطب ویابس بلا تنقیح مجتمع است،
تفصیل آن در رسالہ من ”النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ موجود است، درین باب فقہاء نقل میکنند آنہا بتحقیق محدثین صحیح نیستند… إلخ“․(مجموعة الفتاویٰ، کتاب الکراہیة:4/325، رشیدیة)


”اس انگوٹھے چومنے والے مسئلہ کو فقہ کی بعض کتابوں میں مستحب کہا گیا ہے، واجب یا سنت نہیں، مثلاً: کنز العباد ، خزانة الروایات، جامع الرموز اور فتاویٰ صوفیہ وغیرہ (میں یہ مسئلہ مذکور ہے)، مگر اکثر معتبر کتبِ فقہ میں ایسا کوئی مسئلہ مذکور نہیں ہے
اور جن کتب میں یہ مسئلہ موجود ہے ، وہ کتب معتبر نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کتابوں میں ہر رطب ویابس کو اس بات کی تصریح کیے بغیر” کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں“، جمع کر دیا گیا ہے،
اس بات کی پوری تفصیل میرے رسالے ” النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ میں موجود ہے، اس انگوٹھا چومنے والے مسئلہ میں (ان کتابوں کے مصنفین)فقہاء نے جو کچھ کہا ہے، محدثینِ کرام نے اسے صحیح قرار نہیں دیا“۔


اس پر فرماتے ہیں کہ:​
حالانکہ کتب فقہ میں مذکورہ چیزیں کم اور مسائل زیادہ ذکر ہوتے ہیں بلکہ بیشتر کتب فقہ میں مسائل ہی ذکر ہیں۔
اسی لیے اس جملہ میں بھی روایات کا ذکر نہیں جس میں کتب کے غیر معتبر ہونے کی وجہ ذکر کی جا رہی ہے۔
ہم نے وہ وجہ ہی بیان کی ہے، کہ جو یہاں کتب کے معتبر نہ ہونے کے لئے جو وجہ بیان کی گئی اسے مد نظر رکھیں کہ جس کتاب میں رطب یابس کو اس بات کی تصریح کئے بغیر کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں، اور پھر اس میں سند بھی نہ ہو کہ اس کی بنا پر اس بات کے صحیح و غلط ہونے کا اعتبار کیا جاسکے!

مگر ہمارے ایک صاحب کا مدعا یہ ہے کہ تاریخ میں سند کی کوئی حیثیت نہیں، یہ صاحب اپنی اٹکل کی بنا پر بتلائیں گے کہ آیا کیا صحیح ہے کیا غلط!
خیر تاریخ میں سند کی اہمیت پر تو میں دوسرے زمرے میں مفصل بات کروں گا!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جو وجہ بیان کی گئی اسے مد نظر رکھیں کہ جس کتاب میں رطب یابس کو اس بات کی تصریح کئے بغیر کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں، اور پھر اس میں سند بھی نہ ہو کہ اس کی بنا پر اس بات کے صحیح و غلط ہونے کا اعتبار کیا جاسکے!
یہ "سند بھی نہ ہو" والی بات مجھے آپ کی فارسی یا اردو عبارت میں نظر نہیں آ رہی!
این تقبیل را در بعض کتب فقہ مستحب نوشة است، نہ واجب ونہ سنت، مثل کنز العباد وخزانة الروایات، وجامع الرموز وفتاویٰ صوفیہ وغیرہ، مگر در اکثر کتب معتبرہ متداولہ نشان آن نیست،
در آن کتب کہ درانہا این مسئلہ مذکور است غیر معتبر اند، چنانکہ جامع الرموزوفتاویٰ صوفیہ وکنز العباد وغیرہ، اینوجہ کہ درین کتب رطب ویابس بلا تنقیح مجتمع است،
تفصیل آن در رسالہ من ”النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ موجود است، درین باب فقہاء نقل میکنند آنہا بتحقیق محدثین صحیح نیستند… إلخ“․(مجموعة الفتاویٰ، کتاب الکراہیة:4/325، رشیدیة)

”اس انگوٹھے چومنے والے مسئلہ کو فقہ کی بعض کتابوں میں مستحب کہا گیا ہے، واجب یا سنت نہیں، مثلاً: کنز العباد ، خزانة الروایات، جامع الرموز اور فتاویٰ صوفیہ وغیرہ (میں یہ مسئلہ مذکور ہے)، مگر اکثر معتبر کتبِ فقہ میں ایسا کوئی مسئلہ مذکور نہیں ہے
اور جن کتب میں یہ مسئلہ موجود ہے ، وہ کتب معتبر نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کتابوں میں ہر رطب ویابس کو اس بات کی تصریح کیے بغیر” کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں“، جمع کر دیا گیا ہے،
اس بات کی پوری تفصیل میرے رسالے ” النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر“ میں موجود ہے، اس انگوٹھا چومنے والے مسئلہ میں (ان کتابوں کے مصنفین)فقہاء نے جو کچھ کہا ہے، محدثینِ کرام نے اسے صحیح قرار نہیں دیا“۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ "سند بھی نہ ہو" والی بات مجھے آپ کی فارسی یا اردو عبارت میں نظر نہیں آ رہی!
یہ میں نے کب کہا ہے کہ یہ اس عبارت میں ہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مولانا مودودی نے ایک جگہ لکھا ہے:
''بعض حضرات تاریخی روایات کو چانچنے کے لئے اسماء الرجال کی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں فلاں راویوں کو ائمہ رجال نے مجروح قرارد یا ہے۔۔۔ یہ باتین کرتے وقت یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ محدثین نے راویات کی چانچ پڑتال کے یہ طریقے دراصل احکامی احادیث کے لئے اختیار کئے ہیں۔۔ الخ
پھر آگے لکھتے ہیں۔
''اس لئے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ ابن سعد، اب عبدالبر، ابن کثیر، ابن جریر، ابن حجر اور ان جیسے دوسرے ثقہ علماء نے اپنی کتابوں میں جو حالات مجروح راویوں سے نقل کئے ہیں انہیں رد کردیا جائے۔ الخ (ص 317 تا 319)
(بحوالہ مفتی تقی عثمانی کی کتاب ''معاویہ ﷛ اور تاریخی حقائق ''، صفحہ 40 – 41)

اس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی صاحب رقم طراز ہیں:
یہاں سب سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تاریخ روایات میں سند کی چانچ پڑتال کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جو روایتیں ان مؤرضین نے اپنی کتابوں میں درج کردی ہیں، انہیں بس آنکھ بند کرکے قبول ہی لرلینا چاہیے، تو آخر ان حضرات نے تقریباً ہر روایت کے شروع میں سند نقل کرنے کی زحمت ہی کیوں اٹھائی؟ کیا اس طرز عمل کا واضح مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ روایات کی صحت وسقم کی ذمہ داری اپنے قارئین اور محققین پر ڈال رہے ہیں کہ مواد ہم نے جمو کردیا، اب یہ تمہارا فرض ہے کہ اسے تحقیق وتنقید کی کسوٹی پر پرکھو اور اہم نتائج اخذ کرنے کے لئے صرف ان روایات پر بھروسہ کرو جو تحقیق و تنقید کے معیار پر پوری اترتی ہوں۔ ورنہ اگر تاریخی روایات کے معاملہ میں ''اسماء الرجال کی کتابیں کھول کر بیٹھ جانے'' کی ممانعت کردی جائے(حاشیہ01)۔ تو خدارا مولانا مودودی صاحب یہ بتلائیں کہ ابن جریر﷫ نے جو یہ نقل کیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام (معاذ اللہ) اوریا کی بیوی پر فریفتہ ہو گئے تھے اس لئے اسے متعدد خطرناک جنگی مہمات پر روانہ کرکے اسے مروا دیا پھر اس کی بیوی سے شادی کر لی۔ اسے رد کردینے کی آخر کیا وجہ ہے؟ نیز ابن جریر ﷫ نے جو اپنی تاریخ میں بے شمار متعارض احادیث نقل کی ہیں، ان میں ترجیح آخر کس بناء پر دی جا سکے گی۔ تطویل سے پچنے کے لئے ہم اس بحث کو یہاں چھوڑتے ہیں کہ حدیث اور تاریخ کے درمیان معاید صحت کے اعتبار سے کیا فرق ہے؟ ہم چونکہ یہاں اس روایت کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جس سے حضرت مغیرہ بن شعبہ ﷛ کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ ﷛ کے حکم سے بر سر منبر حضرت علی ﷛ کی مذمت کیا کرتے تھے۔ اس لئے مختصراً یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ روایت کیوں نا قابل قبول ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ تاریخ اور حدیث کے فرق کو ملحوظ رکھنے کے باوجود مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر مولانا کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ رویات قطعی طور پر ناقابل اعتماد ے:
01-اس کے راوی سارے کے سارے شیعہ ہیں، اور کسی روایت سے جو صرف شیعوں سے منقول ہو حضرت معاویہ﷛ پر طعن کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
02- اس کے تمام راوی ضعیف یا مجہول ہیں اور ایسی روایت تاریخ کے عام واقعات کے معاملے میں تو کسی درجہ شاید قابل قبول ہو سکتی ہو۔ لیکن اس کے ذریعے کوئی ایسی بات ثابت نہیں ہو سکتی جس سے کسی صحابی کی ذات مجروح ہوتی ہو(حاشیہ02)۔
03- ۔۔۔۔۔


(حاشیہ01): پھر یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ ابو مخنف، کلبی اور ہشام جیسے لوگوں کے حالات دیکھنے کے لئے تو مولانا اسماء الرجال کی کتابیں کھولنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اور دوسرے مؤرخین کو قابل اعتماد ثابت کرنے کے لئے ص 309 سے 320 تک وہ بلا تکلف اسماء الرجال ہی کے علماء اور کتابوں کے حوالے دیتے چلے گئے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر رہے ہیں کہ کیا جرح وتعدیل صرف ان مؤرخین ہی کے بارے میں کی جاسکتی ہے جن کی کتابیں اس وقت ہمارے پاس موجود ہیں اور ان سے اوپر ک مؤرخین کے حالات کی چھان بین نہیں کرنی چاہئے؟ یا اسماء الرجال کی کتابوں میں سے مؤرخین کی صرف تعدیل کی جاسکتی ہے اور ''جرح'' نقل کرنا ممنوع ہے؟ یا صرف ان مؤرخین کے حالات اسماء الرجال کی کتابوں میں دیکھنے چاہئیں جو ثقہ ہیں اور مجروح مؤرخین کے حالات کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع نہ کرنا چاہئے؟ ان میں سے کون سی بات ہے جسے صحیح کہا جائے؟
(حاشیہ 02): مولانا نے ایک جگہ لکھا ہے: ''بعض حضرات اس معاملے میں یہ نرالا قاعدہ کلیہ پیش کرتے ہیں کہ ہم صحابی کرام ﷢ کے بارے میں صرف وہی روایات قبول کریں گے جو ان کی شان کے مطابق ہو اور ہر اس بات کو رد کردیں گے جس سے ان پر حرف آتا ہو خواہ وہ کسی صحیح حدیث ہی ميں وارد ہوئی ہو،'' (ص305) میں معلوم نہیں کہ مولانا کے معترضین میں سے کسی نے یہ ''قاعدہ کلیہ'' بیان کیا بھی ہے یا نہیں، بہر حال ہم اس قاعدہ کو تھوڑی ترمیم کے ساتھ درست مانتے ہیں۔ ہماری نظر میں قاعدہ یہ ہے کہ ''ہر اس ضعیف روایت کو رد کریا جائے گا جس سے کسی صحابی کی ذات مجروح ہوتی ہو، خواہ وہ روایت تاریخ کی ہو۔ یا حدیث کی '' ہمارا خیال ہے کہ مولانا کو اس ''قاعدہ کلیہ'' پر کوئی اشکال نہ ہونا چاہئے، اس لئے بقول شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی ﷫ صحابہ ﷢ کی عدالت قرآن و سنت متواترہ اور اجماع سے ثابت ہے اور اس کے خلاف کوئی بات ضعیف روایات کے بل پر ثابت نہیں کی جا سکتی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 40 – 43 معاویہ اور تاریخی حقائق ۔ مفتی تقی عثمانی ۔ مکتبہ معارف القرآن، کراچی

عقلمد را کافی است!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ میں نے کب کہا ہے کہ یہ اس عبارت میں ہے!
آپ نے یہ تحریر فرمایا ہے:
جو وجہ بیان کی گئی اسے مد نظر رکھیں کہ
آگے آپ نے وہ وجہ ذکر کر دی ہے:
جس کتاب میں رطب یابس کو اس بات کی تصریح کئے بغیر کہ کون سی بات صحیح ہے اور کون سی نہیں، اور پھر اس میں سند بھی نہ ہو کہ اس کی بنا پر اس بات کے صحیح و غلط ہونے کا اعتبار کیا جاسکے!
ظاہراً تو یہ لگتا ہے کہ اس جملہ:
جو وجہ بیان کی گئی اسے مد نظر رکھیں کہ
سے کتاب میں بیان کی گئی "وجہ" مراد ہے۔ اگر آپ کی اپنی بیان کر دہ وجہ اس سے مراد ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ تو کوئی بھی وجہ بیان فرما سکتے ہیں۔
میں کتاب کے تعلق سے بات کر رہا تھا:

حالانکہ کتب فقہ میں مذکورہ چیزیں کم اور مسائل زیادہ ذکر ہوتے ہیں بلکہ بیشتر کتب فقہ میں مسائل ہی ذکر ہیں۔
اسی لیے اس جملہ میں بھی روایات کا ذکر نہیں جس میں کتب کے غیر معتبر ہونے کی وجہ ذکر کی جا رہی ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مولانا مودودی نے ایک جگہ لکھا ہے:
''بعض حضرات تاریخی روایات کو چانچنے کے لئے اسماء الرجال کی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں فلاں راویوں کو ائمہ رجال نے مجروح قرارد یا ہے۔۔۔ یہ باتین کرتے وقت یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ محدثین نے راویات کی چانچ پڑتال کے یہ طریقے دراصل احکامی احادیث کے لئے اختیار کئے ہیں۔۔ الخ
پھر آگے لکھتے ہیں۔
''اس لئے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ ابن سعد، اب عبدالبر، ابن کثیر، ابن جریر، ابن حجر اور ان جیسے دوسرے ثقہ علماء نے اپنی کتابوں میں جو حالات مجروح راویوں سے نقل کئے ہیں انہیں رد کردیا جائے۔ الخ (ص 317 تا 319)
(بحوالہ مفتی تقی عثمانی کی کتاب ''معاویہ ﷛ اور تاریخی حقائق ''، صفحہ 40 – 41)

اس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی صاحب رقم طراز ہیں:
یہاں سب سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تاریخ روایات میں سند کی چانچ پڑتال کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جو روایتیں ان مؤرضین نے اپنی کتابوں میں درج کردی ہیں، انہیں بس آنکھ بند کرکے قبول ہی لرلینا چاہیے، تو آخر ان حضرات نے تقریباً ہر روایت کے شروع میں سند نقل کرنے کی زحمت ہی کیوں اٹھائی؟ کیا اس طرز عمل کا واضح مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ روایات کی صحت وسقم کی ذمہ داری اپنے قارئین اور محققین پر ڈال رہے ہیں کہ مواد ہم نے جمو کردیا، اب یہ تمہارا فرض ہے کہ اسے تحقیق وتنقید کی کسوٹی پر پرکھو اور اہم نتائج اخذ کرنے کے لئے صرف ان روایات پر بھروسہ کرو جو تحقیق و تنقید کے معیار پر پوری اترتی ہوں۔ ورنہ اگر تاریخی روایات کے معاملہ میں ''اسماء الرجال کی کتابیں کھول کر بیٹھ جانے'' کی ممانعت کردی جائے(حاشیہ01)۔ تو خدارا مولانا مودودی صاحب یہ بتلائیں کہ ابن جریر﷫ نے جو یہ نقل کیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام (معاذ اللہ) اوریا کی بیوی پر فریفتہ ہو گئے تھے اس لئے اسے متعدد خطرناک جنگی مہمات پر روانہ کرکے اسے مروا دیا پھر اس کی بیوی سے شادی کر لی۔ اسے رد کردینے کی آخر کیا وجہ ہے؟ نیز ابن جریر ﷫ نے جو اپنی تاریخ میں بے شمار متعارض احادیث نقل کی ہیں، ان میں ترجیح آخر کس بناء پر دی جا سکے گی۔ تطویل سے پچنے کے لئے ہم اس بحث کو یہاں چھوڑتے ہیں کہ حدیث اور تاریخ کے درمیان معاید صحت کے اعتبار سے کیا فرق ہے؟ ہم چونکہ یہاں اس روایت کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں جس سے حضرت مغیرہ بن شعبہ ﷛ کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ ﷛ کے حکم سے بر سر منبر حضرت علی ﷛ کی مذمت کیا کرتے تھے۔ اس لئے مختصراً یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ روایت کیوں نا قابل قبول ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ تاریخ اور حدیث کے فرق کو ملحوظ رکھنے کے باوجود مندرجہ ذیل وجوہ کی بناء پر مولانا کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ رویات قطعی طور پر ناقابل اعتماد ے:
01-اس کے راوی سارے کے سارے شیعہ ہیں، اور کسی روایت سے جو صرف شیعوں سے منقول ہو حضرت معاویہ﷛ پر طعن کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
02- اس کے تمام راوی ضعیف یا مجہول ہیں اور ایسی روایت تاریخ کے عام واقعات کے معاملے میں تو کسی درجہ شاید قابل قبول ہو سکتی ہو۔ لیکن اس کے ذریعے کوئی ایسی بات ثابت نہیں ہو سکتی جس سے کسی صحابی کی ذات مجروح ہوتی ہو(حاشیہ02)۔
03- ۔۔۔۔۔


(حاشیہ01): پھر یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ ابو مخنف، کلبی اور ہشام جیسے لوگوں کے حالات دیکھنے کے لئے تو مولانا اسماء الرجال کی کتابیں کھولنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اور دوسرے مؤرخین کو قابل اعتماد ثابت کرنے کے لئے ص 309 سے 320 تک وہ بلا تکلف اسماء الرجال ہی کے علماء اور کتابوں کے حوالے دیتے چلے گئے ہیں۔ ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر رہے ہیں کہ کیا جرح وتعدیل صرف ان مؤرخین ہی کے بارے میں کی جاسکتی ہے جن کی کتابیں اس وقت ہمارے پاس موجود ہیں اور ان سے اوپر ک مؤرخین کے حالات کی چھان بین نہیں کرنی چاہئے؟ یا اسماء الرجال کی کتابوں میں سے مؤرخین کی صرف تعدیل کی جاسکتی ہے اور ''جرح'' نقل کرنا ممنوع ہے؟ یا صرف ان مؤرخین کے حالات اسماء الرجال کی کتابوں میں دیکھنے چاہئیں جو ثقہ ہیں اور مجروح مؤرخین کے حالات کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع نہ کرنا چاہئے؟ ان میں سے کون سی بات ہے جسے صحیح کہا جائے؟
(حاشیہ 02): مولانا نے ایک جگہ لکھا ہے: ''بعض حضرات اس معاملے میں یہ نرالا قاعدہ کلیہ پیش کرتے ہیں کہ ہم صحابی کرام ﷢ کے بارے میں صرف وہی روایات قبول کریں گے جو ان کی شان کے مطابق ہو اور ہر اس بات کو رد کردیں گے جس سے ان پر حرف آتا ہو خواہ وہ کسی صحیح حدیث ہی ميں وارد ہوئی ہو،'' (ص305) میں معلوم نہیں کہ مولانا کے معترضین میں سے کسی نے یہ ''قاعدہ کلیہ'' بیان کیا بھی ہے یا نہیں، بہر حال ہم اس قاعدہ کو تھوڑی ترمیم کے ساتھ درست مانتے ہیں۔ ہماری نظر میں قاعدہ یہ ہے کہ ''ہر اس ضعیف روایت کو رد کریا جائے گا جس سے کسی صحابی کی ذات مجروح ہوتی ہو، خواہ وہ روایت تاریخ کی ہو۔ یا حدیث کی '' ہمارا خیال ہے کہ مولانا کو اس ''قاعدہ کلیہ'' پر کوئی اشکال نہ ہونا چاہئے، اس لئے بقول شیخ عبد الحق صاحب محدث دہلوی ﷫ صحابہ ﷢ کی عدالت قرآن و سنت متواترہ اور اجماع سے ثابت ہے اور اس کے خلاف کوئی بات ضعیف روایات کے بل پر ثابت نہیں کی جا سکتی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 40 – 43 معاویہ اور تاریخی حقائق ۔ مفتی تقی عثمانی ۔ مکتبہ معارف القرآن، کراچی

عقلمد را کافی است!
میں سمجھ نہیں سکا کہ جو بات چل رہی ہے اور رحمانی بھائی جو بات کر رہے ہیں اس سے اس لکھی گئی تحریر کا کیا تعلق ہے۔
شاید اسحاق سلفی بھائی سمجھ گئے ہوں جو انہوں نے زبردست کی ریٹنگ کی ہے۔ و فوق کل ذی علم علیم۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ نے یہ تحریر فرمایا ہے:

آگے آپ نے وہ وجہ ذکر کر دی ہے:


ظاہراً تو یہ لگتا ہے کہ اس جملہ:

سے کتاب میں بیان کی گئی "وجہ" مراد ہے۔ اگر آپ کی اپنی بیان کر دہ وجہ اس سے مراد ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ تو کوئی بھی وجہ بیان فرما سکتے ہیں۔
میں کتاب کے تعلق سے بات کر رہا تھا:
اسی لئے کہتا ہوں کلام کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں!
وجہ میں نے اسی عبارت کی پیش کی ہے، اور اس وجہ کا بلاسند روایات و حکایات میں ہونا بیان کیا ہے!
 
Last edited:
Top