• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج ؛ بدترین گستاخ صحابہ

عمر سعد

مبتدی
شمولیت
جنوری 28، 2017
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
9
خوارج کی صحابہ کرام کے متعلق طعن وتشنیع
سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم اجمعین کو کا فر قرار دینا
الحمد اللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد !
رافضی گروہ سے خارجی لوگوں نے جو امتیاز قائم کر کے فرق رکھا ، وہ اُن کا سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی خلافتوں کو قبول کرنا تھا خوارج اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ جناب ابو بکر صدیق اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کی امامت عظمی وخلافت شرعی اور بر حق تھی ، ان دونوں کی خلافت کےدرست ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور انکے نزدیک اس کے شرعی ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں اور یہ کہ ان دونوں کی امامت وخلافت اہل ایمان و اسلام کی خواہش اور رضا کے مطابق تھی۔
یہ دونوں شیخین اسی صراط مستقیم پر چلے تھے کہ جس پر چلنے کا حکم اللہ عز و جل نے دیا ہے۔ نہ انھوں نے اس حکم میں کوئی تبدیلی پیدا کی اور نہ ہی تغیر لائے حتی کہ تمام عمر یونہی گزار کر وہ اللہ عز وجل کے پاس چلے گئے اور اپنی رعایا کی نصیحت وخیر خوا ہی اور اس عمل صالح پر ان کی وفات وشہادت ہوئی کہ جو عین اللہ تبارک وتعالی کی رضا کے مطابق تھی۔
شیخین صاحبین رضی اللہ عنہما کی نسبت خوارج کے اس عقیدہ نے ان کو اس موقف کے بارے میں درستگی پر قسم اٹھانے پر بھی تیار کر رکھا ہے اور وہ اس ضمن میں پوری پوری موافقت رکھنے والے ہیں ۔ مگر ان دونوں صاحبین کریمین ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد وہ ہلاکت اور تباہی کا شکار ہوگئے ۔ شیطان نے ان خوارج کی اس بارے میں قیادت کی اور انھیں سیدنا عثمان و سیدنا علی کے بارے میں غلط عقیدہ و نظریہ ، حق و صواب کی راہ سے بہت دور لے گیا ۔
چنانچہ سب سے پہلے شیطان نے اُنھیں امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان کی امامت عظمی و خلافت المسلمین کے انکار پر اس مدت سے متعلق ابھارا کہ جس عرصہ میں آپ کے دشمنوں نے آپ پر عیب لگایا ہے اسی طرح اُنھوں نے امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت دامامت عظمی کا انکار بھی اس فیصلے کے بعد کردیا کہ جب آپ نے اپنے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان فیصلہ کرنے والوں کو تسلیم کر لیا تھا۔
ان کا یہ غلو یہاں تک پہنچا کہ شیطان نے اُنھیں سیدنا عثمان و سیدنا علی کو کا فر قرار دینے والے عقیدے تک پہنچا دیا بعینہ ان ظالموں نے جلیل القدر صحابہ کرام طلحہ بن عبيد الله ، زبير بن العوام ،معاویہ بن ابو سفيان ، عمر و بن العاص ، ابو موسی اشعري ، عبد الله بن عباس اور جمل وصفین میں شریک صحابہ کرام کو بھی کافر قرار ے دیا ۔ والعیاذ باللہ العظیم
حتی کہ شیطان نے خوارج کو طعن و تشنیع اور تکفیر میں تمام صحابہ کرام کی طرف پھیر دیا جو کہ امت کے بہترین اور افضل لوگ تھے اور یہ ظالم خوارج بلاامتیاز سب صحابہ کرام کو طعن وتشنیع کرنے لگے ۔ صحابہ کے متعلق ان کی بلا امتیاز طعن وتشنیع کا سبب یہ تھا کہ خوارج ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ سب کے سب کافر ہوگئے تھے ۔ رافضیوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ چند ایک صحابہ کو چھوڑ کر باقی سب کافر ہو گئے تھے ۔
خوارج کے گندے عقائد اہل علم کی نظر میں
امام ابو الحسن الاشعری رحمہ اللہ بیان فرما تے ہیں کہ :
تمام کے تمام خوارج سیدنا ابو بکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کی امامت عظمی وخلافت کو مانتے ہیں لیکن امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان کی خلافت کے ان ایام کا وہ کھلم کھلا انکار کرتے ہیں کہ جن ایام میں آپ رضی اللہ عنہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور خاص واقعات کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ پر عیب لگایا گیا ۔ اسی طرح وہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خلافت کو بھی اس وقت سے پہلے پہلے مانتے تھے جب آپ نے فیصلہ کے لیے رضا مندی کا اظہار کردیا تھا خوارج آپ کی امامت کا کھلم کھلا انکار ، اس فیصلے کے لئے دو صحابہ کرام کو حکم مقرر کرنے کے بعد سے کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان ، سیدنا عمرو بن العاص اور سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم کی بھی تکفیر کرتے ہیں۔
[مقالات الاسلامیین : ج1، ص204 ]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرما تے ہیں:
خلفائے راشد ین المہد یین سیدنا ابو بکر وسیدنا عمر اور سیدنا عثمان کے دور میں اہل ایمان ، مسلمانوں کے متحدر ہنے اور ایک کلمہ پر مجتمع رہنے کی وجہ سے خوارج کا شیطان مغلوب تھا اور پھر جب امیر المومنین سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے دور میں اُمت میں افتراق و اختلاف پیدا تو شیطان نے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر لیا چنا نچہ خارجی بھی اس کے ہمراہ نکلے اور انھوں نے سیدنا علی و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم اور ان کے تا بعین کو کافر قرار دے دیا۔ چنا نچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حق کے ساتھ ان سے جنگ وقتال کیا۔
[مجموع الفتاوی لابن تیمیہ : ج 19 ، ص 89]
خارجیوں کے بڑے فرقوں کی تعداد بیان کرنے کے بعد علامہ شہر ستانی بیان کرتے ہیں کہ:
خوارج کے ان تمام فرقوں کو سیدنا عثمان وسیدنا علی رضی اللہ عنہما کے خلاف گالی گلوچ کرنے والی گندی غلاظت متحد کردیتی ہے۔ یہ ظالم لوگ اس غلاظت کو دین کی ہر بات پر مقدم کردیتے ہیں ۔ (یہی حال رافضیوں کا صحابہ کرام کے بارے میں ہے۔ )
امام شہر ستانی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں “پہلا قضیہ” کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں :
ان خارجی لوگوں نے ان احداث ووقعات کی بناء پر کہ جنہیں ان ظالموں نے خود گھڑا اور پیدا کیا تھا ، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع شروع کردی تا کہ وہ آپ کے اوپر عیب لگا سکیں اسی طرح انہوں نے جنگ جمل وجنگ صفین میں شریک صحابہ کرام پر بھی طعن وتشنیع کی۔
[الملل والنحل : ج 1 ، ص 117 ]
اسی طرح امام شہر ستانی نے اس بات کا ذکر کرنے کے بعد کہ ازراقی لوگ امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں ، لکھتے ہیں :
اور اس بدعت پر “ازارقہ” چلے تھے ، پھر یہ کہ ان ظالموں نے ساداتنا عثمان بن عفان ، طلحہ بن عبید اللہ ، زبیر بن العوام ، سیدہ عائشہ بنت ابی بکر صدیق ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور ان کے ساتھ ساتھ تمام اہلِ اسلام پر بھی کفر کا فتویٰ لگا تے ہیں اور ان کے بارے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنے کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں۔
[الملل والنحل : ج 1 ، ص 121 ]
نوٹ؛۔ازارقہ خوارج کے ایک گروہ کا نام ہے ۔
اس عقیدہ سے ان کا باطل ہونا بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ یہ سراسر گمراہی والا عقیدہ ، انتہا درجہ ضلالت اور حق کو یکسر چھوڑ دینے والی بات ہے۔ ازرقیوں کے اس عقیدہ پر شیطان نے خوارج کو بھی لگا دیا۔ چنا نچہ وہ ازرقیوں کے اس بارے میں تابع ہو گئے جبکہ درج ذیل چنداُ مور کی بنا پر ان عقل سے پیدل ظالموں کا عقیدہ یکسر باطل ہے۔
صحابہ کرام کے بارے میں اللہ کا فرمان گرامی کہ وہ سب سے بہتر امت تھے

اللہ عز وجل قرآن حکیم میں ارشاد فرما تے ہیں:
كنتم خير امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وتومنون بالله ولو امن اهل الكتب لكان خير لهم ، منهم المومنون واكثرهم الفسقون (البقرۃ: 110 )
“تم سب سے بہتر امت ہو، جو لوگوں کے لئے نکالی گئی ہے ، تم نیکی کا حکم دیتے ہو ، برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ، اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا ، ان میں سے کچھ مومن ہیں جبکہ ان میں سے اکثر نافرمان ہیں ۔ “
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے حقیقی ایمان کی گواہی اللہ عزوجل کی طرف سے ، ان کا وہ ایمان کہ جو اللہ رب العالمین کی کتاب عزیز کے بہت سارے مقامات پر ثابت ہے ؛

چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد گرامی ہے :
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ (آل عمران: 68)
” بے شک سب لوگوں میں سے زیادہ ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب یقینا وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے (وہ بھی ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ) اور اللہ مومنوں کا دوست ہے ۔ ”
بلاشبہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنی محکم کتاب عزیز میں اس بات کی خبر دی ہے کہ اللہ تعالی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو گئے ہیں اور وہ اللہ کریم سے راضی ہو گئے؛

اس بات میں بھی کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کہ اللہ رب العرش الکریم نے ان سے جنتوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انہیں رکھنے اور بہت بڑی کامیابی کا ان سے وعدہ فرما رکھا ہے ۔ چنانچہ اللہ ذو الجلال والاکرام کا ارشاد گرامی ہے ؛
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبۃ: 100)
” اور مہاجرین و انصار میں سے سبقت لیجانے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی میں ان کی پیروی کی ، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ ان سے راضی ہو گئے ۔ اس نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ ”
جس جماعت کے بارے میں اللہ تعالی نے خبر دی ہو کہ اس ذاتِ اقدس نے ان لوگوں کے نزدیک کفر و فسق اور نافرمانی کو نہایت ناپسندیدہ چیزیں بنا دیا ہے اور انہیں ہدایت یافتہ بنا دیا ہے ۔۔۔ تو ان سے کفر کا صادر ہونا واقعہ کے ہی بہت دور ہے۔

چنانچہ اللہ رب العالمین کا ارشاد گرامی ہے ؛
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (الحجرات: 7)
اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے ، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمہارا کہا مان لے تو یقینا تم مشکل میں پڑ جاؤ ، لیکن اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کر دیا۔ (اس کے برعکس ) اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا ہے ۔ یہی لوگ ہدایت والے ہیں ۔

http://alfitan.com/2017/01/18/خوارج-؛-بدترین-گستاخ-صحابہ/
 
Top