• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کا حدود اللہ کا نفاذ یا پھر...... !!!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خوارج کا حدود اللہ کا نفاذ یا پھر...... !!!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدلله الحكم العدل الفرد الصمد الذي اذا حكم فهو احكم الحاكمين واذا أرحم فهو أرحم الراحمين واذا أخز فهو قوي العزيز المتين- والصلوة والسلام على النبي الكريم الصادق الوعد الامين.الداعي الى توحيد رب العالمين.المبعوث رحمة للعالمين.وعلى آله وصحبه اجمعين. اما بعد:

بے شک شریعت الہی کا نفاذ اہم ترین فرا ئض میں سے ایک ہے اور اس سے مسلمانوں معاشرے میں بگاڑ کا سدباب ہوتا ہے۔

لیکن اگر اس کا نفاذ غیر متعلقہ لوگ ،یعنی جن کو اس کام کا ذمہ دار دین اسلام نے نہیں بنایا اگر وہ اس کام میں طبع آزامائی کریں گے تو یہ مقدس کام فتنہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

یہاں یہ ضروری بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ قرآن و حدیث اور فہم سلف صالحین کی تعلیمات کے مطابق حدود اللہ کا نفاذ مسلم حکمرانوں اور سلاطین کا کام ہے۔ یعنی ایسے افراد کا کام ہے جو زمین پر حکومت دیئے گئے ہیں۔ان کے علاوہ ملک میں موجود کسی گروہ یا تنظیم کا یہ ہر گز کام نہیں ہے اور نہ ہی وہ اسکے مکلف ہیں۔

اور اگر بالفرض حکمران وقت حدود اللہ کے نفاذ میں کاہلی کا شکار ہوں تو بھی کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ یہ فریضہ اپنے ہاتھ میں لیکر اپنے طور پر اس کام میں لگ جائے۔ بلکہ اس مسئلے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران وقت کو نصیحت کرتے رہیں اور حدود اللہ نفاذ کی اہمیت و فوائد سے آگاہ کرتے رہیں ، جیسا کہ الشیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ الہہ اور امام الدعوہ محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ نے مسئلہ نفاذ حدود اللہ میں منہج حقہ پیش کیا ہے۔ (اس بارے محمد بن عبد الوھاب ، ایک مظلوم اور بدنام مصلح نامی کتاب کا مطالعہ نہایت مفید ہے)

لیکن المیہ یہ ہے کہ، آپ حضرات اکثر انٹرنیٹ پر یا سی ڈی وغیرہ میں ایسے شارٹ ویڈیو کلپس دیکھتے ہوں گے کہ جس میں کوئی تنظیم یا گروہ کسی مسلمان کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر یا ویسے ہی، ہاتھوں کو جکڑ کر بٹھایا ہوتا ہے اور اس کے پیچھے چند نقاب پوش افراد جذباتی ہو کر نعرہ تکبیر بلند کر رہے ہوتے ہیں اور حدود اللہ کے نٖفاذ کا شور مچا رہے ہوتے ہیں کہ'' ہم فلاں شخص پر فلاں مسلمان پر جاسوسی کی حد، قتل کی حد یا گستاخی رسول کی حد نافذ کر نے لگے ہیں ، یہ بندہ جوآپ کے سامنے بیٹھا ہے ، یہ جاسوس ہے، قاتل ہے یا گستاخ رسول ہے۔۔۔''

یہاں ایک بات مز ید ذہن نشین فرما لیں کہ جس مسلمان شخص پر حد کا نفاذ ہوجائے تو وہ اپنے گناہ کی سزا دنیا میں پانے کی وجہ سے آخرت میں پاک ہوجاتا ہے، اس کا وہ جرم دھل جاتا ہے۔

مگر آجکل ہائی ڈیفی نیشن ویڈیوز میں اس جکڑے گئے مسلمان آدمی کو گھیرے ہوئے لوگ اس پر الزام لگاتے ہوئے اور اس کی سزا سناتے ہوئے ،نعرے بلند کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یا تو اسے بری طرح دردناک انداز میں ذبح کر دیا جاتا ہے یا پھر پوری کلاشن کی مگزین خالی کر دی جاتی ہے حالانکہ یہ کام ایک گولی سے بھی ممکن ہوتا ہے۔ یہ نقاب پوش حد نافذ کرنے کے دعویدار اسے غلیظ ناموں سے پکارتے ہیں اور حد کے نفاذ کے بعد اسکی لاش کو گولیوں کی بوچھاڑ سےمسخ کر دیتے ہیں ، اور نہایت بھیانک لہجے میں اس لاش کو کوستے اور ٹھڈے تک مارنا شروع کر دیتے ہیں

ایسا مسلمان مرد یا عورت جس پر حد نافذ کر دی گئی ہو، وہ پاک ہوتا ہے اور اگر کوئی اس مرد یا عورت کی تحقیر یا تذلیل کرتا ہے تو اسے اس واقعہ سے عبرت لینی چاہیے کہ جب زمانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شادی شدہ عورت کو زنا کی پاداش میں رجم کیا گیا تو اسکے خون کے چھینٹے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پر پڑے تو انہوں نے اس عورت کو کوسنا شروع کر دیا کہ تیرے پلید خون نے مجھے آلودہ کر دیا ہے۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کی سخت سرزنش فرمائی۔

مگر یہاں ایسی ویڈیوز میں حدود اللہ کے نفاذ کے کام سے لیکر ملزم کے انجام تک ، سب کچھ خود شریعت اسلامیہ کے اصولوں برخلاف چل رہاہوتا ہے۔ اور قسم کے حدود اللہ کے نفاذ کے نام پر قتل وغارت کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں!!!

آپ سوچ رہیں ہوں گے کہ وہ کیسے ؟

تو اس پر میں چند سوالات آپکی خدمت میں رکھوں گا:

1- اسلام نے حدود اللہ کا نفاذ ان افراد کے ذمہ لگایا ہے جو زمین سلطہ دیئے گئے ہیں، کیا ان کے پاس سلطہ ہے؟

2- اس مسلمان کو جسے حد کے نام پر قتل کیا جارہا ہے ، اس پر مکمل الزام کیا تھا؟

3- اس کا کیس کس عدالت میں چلا اور کب چلا؟

4- اسکے اس فعل پر کس کس نے گواہی دی اور کتنی گواہیاں درج ہوئیں؟

5- اس شخص نے اپنی صفائی میں کیا کہا، یا اسے صفائی کا موقع دیا گیا ؟

6- عدالت نے اس شخص کے مجرم ہونے کا فیصلہ کیا کیا، اور کیا سزا سنائی؟

7- کن لوگوں نے اس پر عمل درآمد کروایا یا حد کو نافذ کیا اور اس مجرم قرار دیئے ہوئے شخص کو قتل کیا؟

اب اگر آپ انٹرنیٹ پر موجود تمام پرائیویٹ گروہوں اور تنظیموں کے ویڈیو کلپس نکال کر ، سب کا جائزہ لے لیں ، تو آپ بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ حدود اللہ نفاذ کے آخری مرحلے کے سوا باقی تمام مراحل آپ کو ویڈیو میں نظر نہیں آئیں گے۔

حق تو یہ تھا کہ جہاں حد کے نفاذ کی فلم بندی کی گئی وہی پر باقی مراحل بھی فلمائے جاتے ، تاکہ عام مسلمان بھی جان لیتا کہ یہ جس کو قتل کیا جا رہا ہے یہ واقعی ہی اس کا حقدار ہے۔

آخر ایسا کیوں نہیں کیا گیا، مکمل کیس کی ویڈیو کیوں نہیں بنائی گئی، یا یہ چند منٹ کی عدالت کہ جس میں نہ گواہ پیش ہوئے نہ ملزم کو صفائی کا موقع ملا ہو ، بس نفاذ ہی دکھایا گیا ہو، یہ کس دین کا طریقہ ہے کم از کم اسلام کا یہ طریقہ نہیں اسلام ایسی کرتوتوں سے بری ہے۔

مگر ایسا نہیں ہوتا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا تھا یا پھر دال ہی ساری کالی ہے ۔

آپ تمام کلپس اٹھا کر دیکھ لیں چند منٹوں میں ایک آدمی جلدی سے کھڑے کھڑے ،اس جکڑے ہوئے مسلمان پر الزام اور فیصلہ سنا کر فورا اسے وحشیانہ طریقہ سے قتل کر دیتے ہیں۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔

اس سے کئی باتوں کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ یا تو وہ شخص بے قصور تھا مگر کسی عداوت میں اسے شریعت کے نام پر اپنے نفس کی تسکین کی گئی،

اس شخص کے خلاف کوئی گواہ نہیں تھا اور محض ظن اور گمان بد کی بنیاد پر اسے قتل کر دیا گیا ، جو کہ اسلام کے بالکل مخالف اور ظلم ہے۔
یا پھر اس بیچارے کا جرم اتنا تھا ہی نہیں کہ اس پر اسے قتل کیا جاسکے اور اگر اپنی ہی عدالت میں یہ تنظیم کیس چلاتی تو وہ بری ہوجاتا یا کم سزا پا تا ، اسی لئے با ہر ہی با ہر اسے اپنی مرضی کی سزا سے دوچار کر دیا گیا۔

ایسے ویڈیو کلپس سے اسلام اور جہاد ہی کی بدنامی ہی ہوگی، سیکیولر اور لادین حلقوں کو زبان درازیوں جواز ہی فراہم ہوگا، اور غیر مسلم اسلام کو چاہے قبول ہی کیوں نہ کرنا چاہتے ہوں مگر ایسی نامکمل اور بے ہنگم ویڈیوز دیکھ کر اسلام سے متنفر ہی ہوں گے۔ مسلمانوں میں خوف و وحشت ہی پھیلے گی۔ اللہ کی پناہ۔

اے اہل ایمان ، آپ سے درخواست ہے کہ اللہ کے لئے شریعت اسلامی کے نفاذ کے نام پر فتنہ پھیلانے والوں اور مسلمانوں کا ناحق قتل کرنے والوں کو پہچانیئے اور ان کے کسی ایسے عمل میں تا ئید یا تعریف کے ساتھ شریک یا حمایتی بننے سے اجتناب کیجئے ، یہ نہ ہو کہ کل جب یہ لوگ اس اللہ کے سامنے پکڑے جائیں تو انکے حمایتیوں میں آپ کا نام بھی پکارا جائے ، کیونکہ کراما کاتبین تو بہرحال سب لکھ رہے ہیں ، چاہے آپ پاکستان میں بیٹھے یا کئی اور انکی حمایت و تائید کر رہے ہیں۔

میرے ذمہ تو محض پہنچانا تھا۔۔۔
اے اللہ گواہ رہنا میں نے پہنچا دیا
اے اللہ گواہ رہنا میں نے پہنچا دی
اے اللہ گواہ رہنا میں نے پہنچا دیا
وما علینا الاالبلاغ المبین

https://www.facebook.com/islamicideology.official/posts/773201222708440
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم بھائی آپ نے ایک اہم موضوع پر کسی کی بات کو یہاں پیسٹ کیا ہے ہمارے اکثر بھائیوں سے لاشعوری طور پر یہ غلطی ہو جاتی ہے کہ اچھی باتوں کے ساتھ کچھ متشابہ باتیں بھی مکس ہو جاتی ہیں اور اسکی وجہ وہی ہوتی ہے جس کا الزام اس پوسٹ میں دوسروں پر لگایا گیا ہے کہ کسی چیز کا مکمل علم نہ ہونے پر اس بارے میں فتوی کی صورت میں رائے دی جاتی ہے یعنی جس بات پر اعتراض ہوتا ہے اسی پر عمل بھی ہو رہا ہوتا ہے دوسری غلطی یہ بھی کی جاتی ہے کہ دوسرے کی غلطی کو مطلق سیاق میں پیش کیا جاتا ہے جس سے شکو و شبہات جنم لیتے ہیں پس جس آدمی نے غلطی کی ہوتی ہے وہ کسی خاص سیاق میں ہی غلطی ہوتی ہے ان حالات سے ہٹ کر وہ کام غلطی نہیں ہوتا تو جب ہم اس غلطی کو مطلقا بیان کریں گے تو معاملہ خراب ہو جائے گا
مثلا سلطہ کے بغیر نفاذ شریعت کا کام واقعی غلط ہے مگر یہ مطلقا نہیں کیوں کہ کبھی بغیر سلطی کے بھی نفاذ شریعت ہوتا ہے مثلا مدینہ میں شروع کے دور میں پورے مدینہ پر سلطہ نہیں تھا مگر معاہدے کی وجہ سے اپنے مسلمانوں کے فیصلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کرتے تھے ہماری جماعت کے مرکز میں بھی شریعت کا نفاذ کچھ عرصہ پہلے تک ہوتا تھا اور باقاعدہ شرعی عدالتیں تھیں اگرچہ اس طرح کا سلطہ عام تو نہیں تھا مگر اپنے ساتھیوں پر تو کنٹرول تھا
دوسرا سلطہ کا مطلب بھی قرآن و حدیث کے مطابق لینا ہے اپنی مرضی سے نہیں

مضمون کی اکثر باتیں حقیقت اور بہت اچھی ہیں البتہ مجھے اس پوسٹ میں جہاں متشابہات نظر آئے ان پر اپنے خیالات پیش کرتا ہوں تاکہ میری بھی اور دوسروں کی بھی اصلاح ہو سکے

یہاں یہ ضروری بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ قرآن و حدیث اور فہم سلف صالحین کی تعلیمات کے مطابق حدود اللہ کا نفاذ مسلم حکمرانوں اور سلاطین کا کام ہے۔ یعنی ایسے افراد کا کام ہے جو زمین پر حکومت دیئے گئے ہیں۔ان کے علاوہ ملک میں موجود کسی گروہ یا تنظیم کا یہ ہر گز کام نہیں ہے اور نہ ہی وہ اسکے مکلف ہیں۔
اوپر والی وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات واقعی ہے البتہ یہاں دو باتوں میں فرق کا بھی خیال بھی رکھنا چاہئے
1-شریعت کا نافذ کرنا
2-نفاذ شریعت کے لئے ہر جائز کوشش کرنا
پہلا کام تو مخصوص حالات میں مخصوص بندوں کا ہے لیکن دوسرا کام سب مسلمانوں کا ہے
مثلا کرپشن کو ختم کرنے کے لئے عمران خان یا تحریک انصاف قانون کو ہاتھ میں تو نہیں لے سکتی مگر اسکے لئے جتنی استطاعت ہو کوشش کرے گی

1- اسلام نے حدود اللہ کا نفاذ ان افراد کے ذمہ لگایا ہے جو زمین سلطہ دیئے گئے ہیں، کیا ان کے پاس سلطہ ہے؟
2- اس مسلمان کو جسے حد کے نام پر قتل کیا جارہا ہے ، اس پر مکمل الزام کیا تھا؟
3- اس کا کیس کس عدالت میں چلا اور کب چلا؟
4- اسکے اس فعل پر کس کس نے گواہی دی اور کتنی گواہیاں درج ہوئیں؟
5- اس شخص نے اپنی صفائی میں کیا کہا، یا اسے صفائی کا موقع دیا گیا ؟
6- عدالت نے اس شخص کے مجرم ہونے کا فیصلہ کیا کیا، اور کیا سزا سنائی؟
7- کن لوگوں نے اس پر عمل درآمد کروایا یا حد کو نافذ کیا اور اس مجرم قرار دیئے ہوئے شخص کو قتل کیا؟
آخر ایسا کیوں نہیں کیا گیا، مکمل کیس کی ویڈیو کیوں نہیں بنائی گئی، یا یہ چند منٹ کی عدالت کہ جس میں نہ گواہ پیش ہوئے نہ ملزم کو صفائی کا موقع ملا ہو ، بس نفاذ ہی دکھایا گیا ہو، یہ کس دین کا طریقہ ہے کم از کم اسلام کا یہ طریقہ نہیں اسلام ایسی کرتوتوں سے بری ہے۔
مگر ایسا نہیں ہوتا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا تھا یا پھر دال ہی ساری کالی ہے ۔
اس سے کئی باتوں کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ یا تو وہ شخص بے قصور تھا مگر کسی عداوت میں اسے شریعت کے نام پر اپنے نفس کی تسکین کی گئی، اس شخص کے خلاف کوئی گواہ نہیں تھا اور محض ظن اور گمان بد کی بنیاد پر اسے قتل کر دیا گیا ، جو کہ اسلام کے بالکل مخالف اور ظلم ہے۔ یا پھر اس بیچارے کا جرم اتنا تھا ہی نہیں کہ اس پر اسے قتل کیا جاسکے اور اگر اپنی ہی عدالت میں یہ تنظیم کیس چلاتی تو وہ بری ہوجاتا یا کم سزا پا تا ، اسی لئے با ہر ہی با ہر اسے اپنی مرضی کی سزا سے دوچار کر دیا گیا۔
اوپر نمبر ایک میں بات ٹھیک کی گئی ہے جس کی اوپر وضاحت کی گئی ہے البتہ میرے خیال میں نمبر 2 سے نمبر 7 تک باتیں ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ ہمیں بہت سی حدیثیں ایسی ملتی ہیں جس میں صرف شریعت نافذ ہونے کا ذکر ہوتا ہے مگر پوری عدالتی کاروائی کا ذکر نہیں ہوتا پس مطلقا اس سے یہ فرض کرنا کہ عدالتی کاروائی جھوٹی ہو گی ٹھیک نہیں
 
Top