• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کی بوکھلاہٹ؛ اپنے دیرینہ موقف سے یوٹرن، آخر کیوں؟

شمولیت
ستمبر 20، 2013
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
19
پوائنٹ
6

خوارج کی بوکھلاہٹ ؛ اپنے دیرینہ موقف سے یوٹرن، آخر کیوں؟
تحقیقی مقالہ از عبد اللہ عبدل


آج عرصہ دراز بعد میں ایک لمحے کے لئے سکتے کی حالت میں آگیا۔ اور اس وجہ ایک ایسا عجیب وغریب بیان تھا کہ میں شاید اس کی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن شاید جب ہر طرف سے لعن اور حزیمت کا سامنا کرنا پڑے تو بڑے بڑوں کے دماغ ٹھکانے آجاتے ہیں ، بہادروں کی بہادری ہوا ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا معاملہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ اور جماعت التکفیر والجہاد کے دیرینہ سربراہ ایمن الظواہری صاحب کے تازہ بیان یا پیغام کو پڑھ کر میرے ساتھ پیش آیا۔ القاعدہ اور اسکی ہم خیال تنظیمیں جن ٹی ٹی پی اور جند اللہ ازبک شامل ہیں ، سب نے اپنے مذموم مقاصد اور بیرونی ایجنڈوں کی دانستہ و غیر دانستہ تکمیل کے لئے دین کی جدید مسائل کے بدبودار نعرے پر ایسی ایسی تشریحات کیں اور اعمال اختیار کئےکہ جن کا اسلام اور نبوی طریقہ کار سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔
نتیجہ کیا نکلا ، وہی جو ہمیشہ ایسے کاموں میں نکلتا ہے، مسلمانوں کی جانوں ، مالوں اور عزتوں کی ضیاع۔ آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے؟ چلیں ہم آپ کو مختصرا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایمن الظواہری اور دیگر القاعدہ فکر سے منسلک جماعتوں نے مسلمان ممالک میں دہشتگردانہ کاروائیوں کا جب آغاز کیا تو اسکو باقاعدہ دلائل سے ایسے خطے ثابت کیا ،جنکو "دارلحرب" کہاجاتا ہے۔ مثلا ایسے علاقے جہاں کفار مسلمانوں پر حملہ آور ہوں یعنی افغانستان، کشمیر فلسطین وغیرہ یا پھر وہ کفار ممالک جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اسلام فقہ میں انہیں "دارالحرب" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور ایسے علاقوں کے احکامات عام غیر حربی کفار اور مسلم ممالک دونوں سے ہی یکسر مختلف ہوتے ہیں۔

اب چونکہ القاعدہ کے خارجی فکر کے حاملین نے اسلامی ممالک میں محاذ کھولنا تھا تو انکو اس کام میں اسلام سے کوئی نہ کوئی دلیل کشید کرنی ہی پڑنی تھی وگر ان کے اس خوشنما جال میں کسی کا پھنسنا کسی صورت بھی ممکن نہیں تھا اور انکا پنی دہشتگردانہ کاروائیوں کو جہاد کہلانے کا موقع مسلمانوں نے حاصل ہی نہیں کنے دینا تھا۔ لہذا انہوں نے پہلے قرآن و سنت کی باطل تشریحات اور مفہومات کو تراشا اور پھر کون مسلم کو بہانے کے لئے چڑھ دوڑے۔ پاکستان ، سعودی عرب، یمن، فلسطین،الجزائر،مصر وغیرہ میں انکی دہشتگرانہ کاروائیاں کسی سے مخفی نہیں۔ ان ممالک میں القاعدہ کے اس فکری بگاڑ سے بہت سے دین دار حلقے متاثر ہو کر اس فساد میں حصہ دار بن گئے اور اسکو اسلام کے احیاء اور نفاذ کا واحد راستہ سمجھنے لگے۔

پھر کیا تھا، اتنا نقصان جہاد مقدس فریضہ سے کفار کا نہیں ہوا جتنا اس کے نام پر مسلم ممالک میں بڑھکائے گئے فساد کا مسلمانوں کو ہوا۔ بازاروں میں ، مساجد میں ،سکولوں میں ،یونیورسٹیوں میں ، پارکوں میں سیکیورٹی اداروں کے دفاتر پر خوفناک قسم کے حملے کئے گئے ، مسلمانوں کا بلا تفریق اور بے دریغ کون بہاگیا، اموال کو تباہ کیا گیا، جمع پونجیاں بنکوں سے لوٹی گئی، وہ علاقے جو عورتوں کے احترام اور پردہ کی وجہ سے مشہور تھے ، انکو بھی اپنی عورتوں کو بے پردگی اور دربدر حالت ہجرت میں پھرنے پر مجبور ہوا پڑا اور دن بدن اس دہشتگردی میں تیزی ہی آتی جارہی ہے۔اور اس دہشتگردی نے ان تمام اسلامی ممالک بلخصوص پاکستان کو ایک کرب ناک دور میں دکھیل دیا گیا۔

آخر کیا بنیادی وجہ تھی جسکی وجہ سے خود کو جہادی کہلانے والے ، طائفہ منصورہ لیبل سینوں پر سجانے والے ، خودکو اہل حق کہلوانے والے اسلامی ممالک میں فساد پر آمادہ ہوئے؟
وہ وجہ سب کے سامنے اور صاف ہے ، خارجی فکر کے حاملین نے مختلف باطل تاویلات اور بد گمانی و بد اعمالیوں کی وجہ سے تمام دنیا کے اسلامی ممالک کو "دارالحرب" قرار دےدینا ہے۔ ان اسلامی ممالک کے حکام، اور ادارے بشمول ان ملکوں کی سیکیورٹی فورسزز اور انکے تمام حمایتیوں کو ملک میں اسلام کے نفاذ میں سستی برتنے اور کفار سے تعاون کی پاداشدین اسلام سے خارج قرار دے دینا ہے۔ اور اس کے علاوہ ان اسلامی ممالک کی عام عوام کو ان حکام اور سیکیورٹی فورسز کی مذمت نہیں کرتی تو انکومنافق سمجھنا اور اگر انکا خون بھی بہ جائے تو "کوئی حرج نہیں " کے جملے سے خود کو مطمئن کر لینا ہے۔
مختصرا، انکے ہاں موجودہ دور میں پوری دنیا میں کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ، سب دارالکفر یا دارالحرب بن چکے ہیں اس لئے جس طرح کفار و مشرکین سے قتال ہوگا اسی طرح ان مسلمان ممالک میں بھی قتال ہوگا۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ
اور اس نظریہ پر یہ خوارج پوری طرح کاربند ہیں مگر جب اس کے پریشان کن نتائج نکلے اور لوگ ان سے اور ان کے گمراہ کن اسلام کے نفاذ کے باطل طریقہ کار سے بیزار اور متنفر ہونا شروع ہوئےتو ان کو دن میں تارے نظر آنا شروع ہوچکے ہیں ۔ اور اب ان میں سے اکثر اپنے دیرینہ موقف سے بظاہر "یو ٹرن" لیتے نظر آرہے ہیں ۔ ٹی ٹی پی نے نا تو ابھی پاکستان میں شریعت نافذ کی اور نہ ہی پاکستان کے امریکہ سے ابھی تعاون کو بندوق کے زور پر ختم کروایا مگر امن مذاکرات کے لئے بےچین ہوئے پھرتے ہیں۔ لیکن جو معاملہ اب پیش آیا وہ ٹی ٹی پی کے مذاکرات کے اس شہدے پن سے زیادہ حیران کن ہے۔
القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری نے اپنے ایک بیان میں اپنے ہلکاروں کو "اسلامی ممالک " میں اقلیتوں اور عام مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے منع کیا ہے۔ یہ تھا وہ بیان کہ جس کو پڑھ کر میں سکتے میں آگیا ۔ اتنا بڑا "یو ٹرن" بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر اور موثر ہوگا کہ تھوک کے چاٹنے کا ایک بڑا واقع ہے کہ کچھ دیر کے لئے میرے ذہن منے سوچنا چھوڑ دیا۔
آپ خود زرا اس خبر کو پہلے ملاحضہ فرمالیں ، پھر ہم گفتگو کو آگے بڑھائیں گے۔
اسلامی ممالک میں اقلیتوں کو نشانہ نہ بنایا جائے: ایمن الظواہری کی ہدایت
واشنگٹن (اے پی اے + آئی این پی ) القاعدہ کے سربراہ شیخ ایمن الظواہری نے پشاور چرچ میں خودکش دھماکوں کے بعد القاعدہ او راس سے ملکر عسکری جدوجہد کرنیوالی تنظیموں کو اسلامی ملکوں میں موجود کسی بھی اقلیت کو نشانہ نہ بنانے کی ہدایت کر دی۔ ایمن الظواہری نے اپنے ایک نئے بیان میں دنیا بھر کے مجاہدین کو ہدایت جاری کی ہے کہ اسلامی ممالک میں موجود اقلیتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ یہ وضاحت بھی دی جائے کہ ہم ان کے ساتھ قتال شروع کرنے کے خواہشمند نہیں۔ ہم عالمی کفر کے سردار کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں اور اسلامی حکومت کے قیام کے بعد ہم ان کے ساتھ سلامتی اور نرمی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اپنے ایک تحریری بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ عمومی طور پر ایسے تمام لوگوں کیخلاف قتال کرنے اور انہیں زک پہنچانے سے اجتناب کیا جائے جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائیں اور نہ اس میں معاونت کریں۔

جی ہاں جناب ، اب دارلکفر اور دارلحرب قرار دیئے گئے مسلم ممالک کو "اسلامی ممالک " قرار دینے کا کارنامہ سامنے آگیا۔ اب ایمن الظواہری اپنے القاعدہ اور ٹی ٹی پی سمیت جند اللہ کے غنڈوں کو کیسے یہ بات باور کروائیں گے کہ یہ دارلکفر یا دارلحرب نہیں بلکہ اسلامی ممالک ہیں۔،،کون اسلامی ممالک ہیں؟
پاکستان ، سعودی عرب، یمن، فلسطین،الجزائر،مصر وغیرہ۔ ہاں جی ، میں سچ کہہ رہا ہوں۔ اور تو اور جب کوئی علاقہ اسلام کا علاقہ قرار دے دیا جائے تو اس میں دہشتگردی کرنا، بد امن اور نقص امن کا باعث بننا، یہ صریح گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔


قارئین ، مجھے تو ایک شاندار شعر یاد آریا ہے جو اس کی خوب ترجمانی کرے گا۔ جبکہ ہر طرف سے گھیراو ہوا تو ان خوارج کے غبارے سے ہوا نکلناشروع ہوچکی ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک طرف اگر انکا علمی گھیرا کیا گیا جو اب بھی جاری ہے اور اردو زبان میں سب سے بڑی ویب سائٹ "ٹرو منہج ڈاٹ کام" جس کا لنک نیچے موجود ہے ،قرآن و سنت کی روشنی میں احسن انداذ سے ان کا علمی محاسبہ کر رہی ہے تو دوسری جانب پاک فوج نے انکی خوب چھترول کی اور انکے خوفناک حملوں کے باوجود استقامت کا پہاڑ بن کر انکے مقابلے میں ڈٹے رے اور بلا آخر انکا گھیرا اب اتنا تنگ ہوتا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو پھر انکا انجام تاریخی ہوگا۔ تو میں اپنے اس مضمون کا اختتام اس شعرپر کرتا ہوں کہ
۔"ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا ،
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا"۔
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
مرجئوں کی بوکھلاہٹیں جنہیں مجاہدین کے موقف کی ذرا برابر بھی پہچان نہیں
یہ بات یقینی ہے کہ مجاہدین کے بارے میں جتنا مرجئہ جھوٹ بولتے ہیں اتنا جھوٹ شاید کوئی اور ہی بولتا ہو۔مشہور مرجئہ جو کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں اہل ارجاء کے نزدیک ایک ممتاز حیثیت کے حامل ہیں جن کا کام صلیبی میڈیا کی نشرکردہ خبروں کو لے اڑنا اور مجاہدین کے خلاف ان جھوٹی خبروں کے ذریعے مسلمانوں میں پروپیگنڈہ کرنا۔اور مسلمانوں کو مجاہدین کے پختہ موقف سے ہٹا کر اپنے ارجائی موقف کو ان کے اذہان میں ڈالنا جس کی مثل مرجئوں کے بزعم خود محقق کی ہے۔جس میں یہ مشہور مرجئہ لکھتے ہیں:​
اسلامی ممالک میں اقلیتوں کو نشانہ نہ بنایا جائے: ایمن الظواہری کی ہدایت
واشنگٹن (اے پی اے + آئی این پی ) القاعدہ کے سربراہ شیخ ایمن الظواہری نے پشاور چرچ میں خودکش دھماکوں کے بعد القاعدہ او راس سے ملکر عسکری جدوجہد کرنیوالی تنظیموں کواسلامی ملکوں میں موجود کسی بھی اقلیت کو نشانہ نہ بنانے کی ہدایت کر دی۔ ایمن الظواہری نے اپنے ایک نئے بیان میں دنیا بھر کے مجاہدین کو ہدایت جاری کی ہے کہ اسلامی ممالکمیں موجود اقلیتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ یہ وضاحت بھی دی جائے کہ ہم ان کے ساتھ قتال شروع کرنے کے خواہشمند نہیں۔ ہم عالمی کفر کے سردار کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں اور اسلامی حکومت کے قیام کے بعد ہم ان کے ساتھ سلامتی اور نرمی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اپنے ایک تحریری بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ عمومی طور پر ایسے تمام لوگوں کیخلاف قتال کرنے اور انہیں زک پہنچانے سے اجتناب کیا جائے جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائیں اور نہ اس میں معاونت کریں۔
غور سے پڑھیں صلیبی میڈیا لکھتا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ شیخ ایمن الظواہری نے پشاور چرچ میں خودکش دھماکوں کے بعد القاعدہ اور اس سے مل کر عسکری جدوجہد کرنیوالی تنظیموں کو اسلامی ممالک میں موجود کسی بھی اقلیت کو نشانہ نہ بنانے کی ہدایت کردی ہے۔قارئین غور کریں پشاور چرچ میں دھماکہ ۲۲ ستمبر بروز اتوار ہوا ہے۔اور شیخ ایمن الظواہری کا یہ بیان 14 ستمبر 2013 کو ''جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات'' پر مشتمل تحریری پیغام کی صورت میں شائع ہوا ہے۔اس بیان کا تعلق کسی طور سے بھی پشاور چرچ دھماکے سے نہیں بنتا کہ جیسا کہ صلیبی میڈیا کی خبر میں جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے کہ پشاور چرچ دھماکے کے بعد امیر القاعدہ شیخ ایمن الظواہری نے اقلیتوں کو نشانہ بنانے سے متعلق کوئی ہدایات جاری کی ہیں۔لیکن اہل ارجاء جو کہ صلیبی میڈیا کی نشر کردہ ہر خبر کے دیوانے ہیں وہ مجاہدین دشمنی میں اس خبر کو لے اڑے اور تحقیقی مقالے داغنے شروع کردیئے۔حیرت ہے مجاہدین کے میڈیا سے بے خبر یہ مرجئہ مجاہدین کے بارے میں کس طرح دعوے کرتے ہیں۔ہم ذیل میں مجاہدین میڈیا کے ذریعے سے امیر القاعدہ جناب ڈاکٹر ایمن الظواہری کی وہ تمام ہدایات کو نقل کردیتے ہیں جو آپ نے 14 ستمبر 2013 کو ''جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات'' پر مشتمل تحریری پیغام کی صورت میں شائع کیں:​
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کا اسلامی ملکوں میں موجود عیسائیوں اور گمراہ فرقوں میں سے قتال نہ کرنے والوں کو نشانہ نہ بنانے کی دنیا بھر کے مجاہدین کو ہدایت
عالمی جہادی تحریک ''جماعت القاعدۃ الجہاد'' کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے گزشتہ ہفتے 14 ستمبر 2013 کو دنیا بھر کے مجاہدین کے نام ایک ہدایت نامہ جاری کیا جس کا عنوان ہے: ''جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات''۔
اس بیان میں انہوں نے: ''گمراہ فرقوں مثلاً رافضیوں، اسماعیلیوں، قادیانیوں اور صوفیوں کی منحرف قسموں کے خلاف قتال سے گریز کیا جائے، الا یہ کہ وہ خود اہلِ سنت سے قتال کریں۔''
انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ: ''اگر وہ قتال پر اتر آئیں تو جوابی کارروائی صرف انہی لوگوں تک محدود رکھی جائے جو قتال کریں اور ساتھ ساتھ یہ وضاحت کی جائے کہ ہماری ان کارروائیوں کا مقصد محض اپنا دفاع ہے۔ اسی طرح ان میں سے جو لوگ ہمارے خلاف قتال نہ کریں انہیں اور ان کے اہل و عیال کو ان کے گھروں، عبادت گاہوں، ان کے تہواروں اور دینی اجتماعات میں نشانہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔ تاہم ان فرقوں کے باطل تصورات اور عقائد و عمل میں ان کی گمراہیوں اور انحرافات کا پردہ چاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔''
شیخ ایمن الظواہری نے قتال نہ کرنے والے گمراہ فرقوں کیخلاف جنگ پر ابھارنے سے منع کرنے کی ہدایت:
شیخ ایمن الظواہری نے ہدایت نامہ میں مزید کہا کہ: "جہاں تک مجاہدین کے تسلط و نفوذ والے علاقوں کا تعلق ہے تو ان میں ان فرقوں کو دعوت دینے، ان میں شعور و آگہی پیدا کرنے کی سعی کرنے اور ان کے شبہات کا ازالہ کرنے کے بعد ان سے حکمت کے ساتھ تعامل کیا جائے۔ نیز انہیں نیکی کا حکم اور برائی سے بچنے کی تلقین بھی کی جائے، بشرطیکہ ایسا کرنے سے اس سے بڑا مفسدہ پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو، مثلاً مجاہدین کا ان علاقوں سے نکال دیا جانا یا ان کے خلاف عوامی رد عمل کی تحریک پیدا ہوجانا یا ایسا فتنہ جنم لے لینا جس سے دشمن کو ان علاقوں پر قبضہ کرنے کا بہانہ مل جائے۔''
شیخ ایمن الظواہری کا اسلامی ملکوں میں موجود عیسائیوں کو نشانہ بنانے سے مکمل اجتناب کرنے کی ہدایت:
شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے اپنے بیان میں دنیا بھر کے مجاہدین کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ: ''اسلامی ممالک میں موجود نصاری، سکھ اور ہندوؤں سے تعرض نہ کیا جائے؛ اور اگران کی جانب سے کوئی زیادتی ہو تو زیادتی کے بقدر جواب دینے پر اکتفاء کیا جائے، اور ساتھ یہ وضاحت بھی دی جائے کہ ہم ان کے ساتھ قتال شروع کرنے کے خواہشمند نہیں! ہم عالمی کفر کے سردار کے خلاف مشغولِ جنگ ہیں اوراسلامی حکومت کے ــــ ان شاء اللہ جلد ــــ قیام کے بعد ہم ان کے ساتھ سلامتی اور نرمی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔''
انہوں نے مزید کہا کہ: ''عمومی طور پر ایسے تمام لوگوں کے خلاف قتال کرنے اور انہیں زک پہنچانے سے اجتناب کیا جائے جو ہمارے خلاف ہتھیار نہ اٹھائیں اور نہ اس میں معاونت کریں، اور تمام تر توجہ بالاصل صلیبی اتحاد پر اور اسی کے ذیل میں اس کے مقامی آلہء کاروں پر مرکوز رکھی جائے۔''
اسی طرح شیخ ایمن الظواہری نے اس امر کو یقینی بنانے کا حکم دیا ہے کہ: ''غیر محارب عورتوں اور بچوں کو مارنے یا ان سے جنگ کرنے سے گریز کیا جائے، بلکہ اگر وہ ہمارے خلاف قتال کرنے والوں کے اہل وعیال ہوں تب بھی ان کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے۔''

دوسرا بیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

القاعدہ کا کسی مسلمان کو بازاروں اور مساجد میں نشانہ بنانے سے اعلان برأت اور اسلامی جماعتوں سے متعلق پالیسی کی تفصیل جاری
عالمی جہادی تحریک ''جماعت القاعدۃ الجہاد'' کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے ایک مرتبہ پھر بازاروں اور مساجد میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ: ''القاعدہ ان جیسی کارروائیوں سے اعلان برأت کرتی ہے۔''
یہ بات جماعت القاعدۃ الجہاد کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے 14 ستمبر 2013 کو دنیا بھر کے مجاہدین کے نام جاری کردہ اپنے ہدایت نامہ جو ـــ القاعدہ کی جامع پالیسی اور اصول وضوابط پر مشتمل ہیں ـــ میں کہی جس کا عنوان ہے: ''جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات''۔
شیخ ایمن الظواہری نے اس ہدایت نامہ میں دنیا بھر کے مجاہدین کو ہدایت کی ہے کہ: ''ہمارے خلاف قتال کرنے والوں کے اہل وعیال کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے حتی الامکان اجتناب کیا جائے۔'' اسی طرح انہوں نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ: ''مسلمانوں کو دھماکوں، قتل و اغواء کی کارروائیوں یا اموال و املاک کو نقصان پہنچانے کے ذریعے ایذاء پہنچانے سے کلی اجتناب کیا جائے۔''
انہوں نے مزید یہ ہدایت بھی جاری کی ہے کہ: ''دشمنوں کو مساجد، اجتماعات اور بازاروں جیسی جگہوں پر ہدف بنانے سے گریز کیا جائے جہاں یہ دشمن مسلمانوں کے ساتھ یا ایسے لوگوں کے ساتھ خلط ملط ہوں جو ہمارے خلاف قتال میں شریک نہ ہوں۔''
شیخ ایمن الظواہری کا مجاہدین کو علمائے حق کا احترام کرنے اور عملی قتال میں شریک نہ ہونے والے علمائے سوء کو بے نقاب کرنے تک محدود رہنے کی ہدایت:
شیخ ایمن الظواہری نے ہدایت نامہ میں یہ حکم بھی دیا ہے کہ: ''علمائے کرام کے احترام اور دفاع کو یقینی بنایا جائے کیونکہ علماء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور امت کے قائدین ہیں......اور خصوصاً ایسے حق گو علماء کرام جو حق کی خاطر قربانیاں بھی دے رہے ہوں ان کا احترام اور دفاع تو اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ نیز علمائے سوء کا مقابلہ محض ان کی جانب سے پھیلائے گئے شبہات کا ازالہ کرنے اور مضبوط دلائل کے ساتھ ان کے آلہء کار ہونے کو واضح کرنے کے ذریعے کیا جائے اور ان کا قتل یا ان کے خلاف قتال نہ کیا جائے، سوائے اس صورت میں جب وہ مسلم عوام یا مجاہدین کے خلاف کسی قتالی عمل کے مرتکب ہوں۔''
شیخ ایمن الظواہری نے دیگر اسلامی جماعتوں کے حوالے سے القاعدہ کے موقف اور پالیسی کی وضاحت:
شیخ ایمن الظواہری نے دنیا بھر میں موجود القاعدہ مجاہدین کے نام جاری ہدایت نامہ میں دیگر اسلامی جماعتوں سے متعلق القاعدہ کے موقف کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ''ان کے ساتھ جن امور میں ہمارے مابین اتفاق ہو ان میں ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں اور جن میں اختلاف ہو ان میں ایک دوسرے کو نصیحت کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ: ''ہمارا اولین معرکہ اسلام کے دشمنوں اور اسلام سے مخاصمت رکھنے والے عناصر کے خلاف ہے، لہٰذا ایسا نہ ہو کہ ہمارا دینی جماعتوں کے ساتھ اختلاف، عسکری، دعوتی، فکری اور سیاسی سطح پر دشمنانِ اسلام سے رخ پھیرنے کا سبب بن جائے۔''
شیخ ایمن الظواہری نے اسلامی جماعتوں سے متعلق مزید تفصیلی حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ: ''دینی جماعتوں کی طرف سے صادر ہونے والے ہر صحیح قول و فعل پر ہم ان کی تائید کریں اور ان کا شکریہ ادا کریں اور ان سے صادر ہونے والی ہر خطا پر انہیں نصیحت کریں، پوشیدہ خطاء پر پوشیدہ طریقے سے نصیحت اور اعلانیہ خطاء پر اعلانیہ طریقے سے نصیحت۔ نیز اس بات کا اہتمام ہو کہ اخلاق سے گرا ہوا انداز اختیار کرنے اور شخصی حملے کرنے سے اجتناب کیا جائے اور باوقار علمی انداز میں دلائل بیان کیے جائیں کیونکہ قوت دلیل میں ہوتی ہے کردار کشی یاہجو میں نہیں!''
انہوں نے اس پالیسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: ''اگر کبھی اسلام کے ساتھ خود کو منسوب کرنے والی کوئی جماعت کافر دشمن کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف قتال میں شریک ہو تو اس کا جواب کم سے کم مقدار میں دیا جائے جو اس کو زیادتی سے باز لانے کے لیے کافی ہو، تاکہ مسلمانوں کے مابین فتنہ کا دروازہ بند رہے اور ایسے لوگوں کو نقصان پہنچانے سے بھی بچا جاسکے جو دشمن کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔''

تیسرا بیان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
القاعدہ نے دنیا بھر کے ''دعوت وجہاد'' کی پالیسی اور ان کے اہداف ومقاصد اور اصول وضوابط کا تعین کرنے والا ہدایت نامہ جاری کردیا
عالمی جہاد تحریک ''جماعت القاعدۃ الجہاد'' کے امیر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ نے 14 ستمبر 2013 کو ''جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات'' پر مشتمل تحریری پیغام میں دنیا بھر میں جاری جہاد کے اہداف ومقاصد اور اصول وضوابط کا تعین کرتے ہوئے بتایا کہ مجاہدین کا عسکری کام سے اولین ہدف ''عالمی کفر کا سردار امریکہ اور اس کا حلیف اسرائیل ہیں، جبکہ دوسرا ہدف اس کے مقامی حلیف يعنی ہمارے ملکوں کے حکمران ہیں۔''
انہوں نے بتایا کہ: ''امریکہ کو نشانہ بنانے کا مقصد اسے تھکا دینا اور مستقل ضربیں لگا کر رفتہ رفتہ کمزور کرنا ہے، تاکہ سوویت اتحاد کی طرح وہ بھی اپنے عسکری، افرادی اور اقتصادی نقصانات کے بوجھ تلے دب کر خود بخود گر جائے، نتیجتاً ہماری سرزمینوں پر امریکی گرفت ڈھیلی پڑجائے اور اس کے حلیف اور حاشیہ نشین بھی ایک ایک کر کے گرنے لگیں۔''
انہوں نے ان دونوں اہداف پر توجہ مرکوز کرنے والی اس پالیسی کی اہمیت اور اس کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ: ''عرب انقلابات میں جو کچھ ہوا وہ امریکی نفوذ میں کمی کی واضح دلیل ہے۔ افغانستان اور عراق میں مجاہدین کے ہاتھوں امریکہ کی پٹائی اور گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد سے امریکہ کے داخلی امن و امان کو لاحق مستقل خطرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ نے مسلم عوام کو اپنے سینوں میں موجود غم و غصے کے جذبات کے اظہار کا کچھ رستہ دینے کا فیصلہ کیا، مگر عوامی غیض وغضب کا یہ آتش فشاں اس کے ایجنٹوں ہی پر پھٹ پڑا۔ ان شاء اللہ آنے والے مراحل میں امریکی اثرو رسوخ میں مزید کمی دیکھی جائے گی، اسے اپنی ہی فکر دامن گیر ہوجائے گی اور نتیجتاً اس کے حلیفوں کا تسلط بھی کمزور پڑنے لگے گا۔''
شیخ ایمن الظواہری نے اسلامی ممالک میں موجود امریکہ کے مقامی ایجنٹ حکومتوں اور ان کی افواج کو ہدف بنانے سے متعلق پالیسی کا تعین کرتے ہوئے کہا کہ: ''جہاں تک امریکہ کے مقامی ایجنٹوں کو ہدف بنانے کا معاملہ ہے تو ہر علاقے کا معاملہ دوسرے سے فرق ہے۔ اس مسئلے میں اصولی حکمتِ عملی یہی ہے کہ ان کے خلاف معرکہ نہ کھولا جائے، سوائے ان ممالک میں جہاں ان سے ٹکراؤ کے بغیر چارہ نہ ہو۔''
پھر انہوں نے ہر ملک میں موجود امریکہ کے مقامی ایجنٹوں سے جاری جہاد کی وجوہات اور اہداف ومقاصد کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ:
''افغانستان میں ان مقامی ایجنٹوں سے معرکہ امریکیوں کے خلاف جنگ کے تابع ہے۔''
''پاکستان میں ان سے معرکہ افغانستان کو امریکی قبضے سے آزادی دلانے کی جنگ کا تتمہ ہے، پھر اس سے پاکستان میں مجاہدین کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا مقصود ہے، پھر اس محفوظ پناہ گاہ کو مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی سعی مطلوب ہے۔''
''عراق میں ان کے خلاف جاری معرکے کا ہدف امریکہ کے صفوی (رافضی شیعہ) جانشینوں کے قبضے سے اہلِ سنت کے علاقوں کو آزاد کروانا ہے۔''
''الجزائر، جہاں امریکی اثرورسوخ کافی کم بلکہ تقریباً غیر موجود ہے، وہاں مقامی حکمرانوں کے خلاف معرکے کا مقصد حکومت کو کمزور کرنا اور مغربِ اسلامی کے علاقوں، افریقہ کے غربی ساحل پر واقع ممالک اور صحراء کے جنوبی علاقوں میں جہادی نفوذ کو بڑھانا ہے۔ نیز اب ان علاقوں میں بھی امریکہ اور اس کے حلیف ممالک سے تصادم کی فضاء پیدا ہونے لگی ہے۔''
''جزیرۂ عرب میں ان کے خلاف معرکہ ان کے براہ راست امریکی ایجنٹ ہونے کی حیثیت سے ہے۔''
''صومالیہ میں ان کے خلاف معرکے کا سبب ان کا وہاں قابض صلیبیوں کا ہر اول دستہ ہونا ہے۔''
''شام میں ان کے خلاف معرکے کا سبب یہ ہے کہ وہاں کے حکمران، جہادی تو دور کی بات، کسی قسم کے اسلامی تشخص کے حامل وجود کو بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہیں اور اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے حوالے سے ان کی بھیانک خونی تاریخ کسی سے مخفی نہیں۔''
''بیت المقدس کے گرد وپیش میں بنیادی اور اصلی معرکہ یہود کے خلاف ہے، جبکہ ''اوسلو معاہدے کی پیداوار'' مقامی حکمرانوں کے مقابلے پر حتی الامکان صبر کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔''
شیخ ایمن الظواہری نے جہاد کے ساتھ دعوت کے کام پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ: ''دعوتی کام کا اساسی ہدف یہ ہے کہ امت کو صلیبی حملے کے خطرے سے آگاہ کیا جائے، توحید کے اس پہلو کو اجاگر کیا جائے کہ حاکمیت صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اسلام کی بنیاد پر اخوت وبھائی چارہ قائم کرنے کا درس دیا جائے اور اسلامی سرزمینوں کو ملا کر ایک دارالاسلام بنانے کی اہمیت واضح کی جائے۔ اللہ نے چاہا تو یہ اقدامات خلافت علی منہاج النبوۃ کے قیام کا مقدمہ ثابت ہوں گے ۔''
انہوں نے دعوتی کام کو سرانجام دیتے ہوئے دو محاذوں پر توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیا اور وہ دونوں محاذ یہ ہیں:
''پہلا محاذ، گروہِ مجاہدین میں فکری آگہی کے فروغ اور ان کی دینی تربیت میں مزید بہتری لانے پر توجہ دینا، کیونکہ یہی امت کا وہ ہر اول دستہ ہیں جو آج بھی اپنے کاندھوں پر صلیبیوں اور ان کے حواریوں سے مقابلے کا بوجھ اٹھائے نظر آتے ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی اٹھائے رکھیں گے، یہاں تک کہ خلافت اسلامیہ کا قیام عمل میں آجائے۔
''دوسرا محاذ، مسلمان عوام میں فکری آگہی کے فروغ، انہیں تحریض دلانے اور اس امر پر انہیں متحرک کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کریں اور اسلام اور اسلام کی خاطر مصروفِ عمل لوگوں کے ساتھ آملیں۔''
اس کے بعد ہدایت نامہ میں شیخ ایمن الظواہری نے تمام مجاہدین کو دنیا بھر میں ''دعوت وجہاد'' کے کام کرنے سے متعلق سیاست شرعیہ کی روشنی میں مصالح کے حصول اور مفاسد کے سد باب کی خاطر درج ذیل ہدایات کیں:
1- اپنی کوششوں کو مسلم معاشرے میں فہم و شعور کو فروغ دینے پر مرکوز کیا جائے تاکہ عوام الناس جمود توڑ کر حرکت میں آئیں، نیز گروہِ مجاہدین میں بھی فہم وشعور کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ پختہ فکرو عقیدے کی حامل ایک ایسی متحد ومنظم جہادی قوت تشکیل پاسکے جو اسلامی عقیدے پر ایمان رکھتی ہو، شرعی احکامات پر کاربند ہو اور مومنین کے لیے نرمی اور کافروں کے لیے سختی کا پیکر ہو۔ نیز اس بات کی بھی بھرپور کوشش کی جائے کہ جہادی تحریک کی صفوں میں سے علمی اور دعوتی صلاحیتوں کے حامل ایسے افراد نکلیں جو منہج کی حفاظت کے ضامن ہوں اور عام مسلمانوں میں بھی دعوت عام کرنے کا فرض نبھائیں۔
2- عسکری کام میں عالمی کفر کے امام (امریکہ) کو کمزور کرنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے یہاں تک کہ وہ عسکری، اقتصادی اور افرادی سطح پر نقصانات سہتے سہتے اتنا نچڑ جائے کہ اللہ کے حکم سے جلد ہی سمٹتا سکڑتا واپسی کی راہ لینے پر مجبور ہوجائے۔
تمام مجاہد بھائیوں کے لیے اس بات کو سمجھنا از حد ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مغربی صلیبی صہیونی اتحاد پر چوٹ لگانا ان کی اوّلین ذمہ داری ہے، اس لیے انہیں اس مقصد کی خاطر حتی المقدور کوشش صرف کرنی چاہیے۔
اسی کے ساتھ یہ ہدف بھی ترجیح میں رہنا چاہیے کہ تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلمان اسیروں کی رہائی کے لیے بھرپور کوشش کی جائے جس میں ان کی جیلوں پر دھاوا بولنے اور مسلمان ممالک کے خلاف یورش میں شریک ممالک کے لوگوں کو اغواء کرکے ان کے بدلے قیدیوں کو چھڑوانے جیسے وسائل شامل ہیں۔
نیز یہ واضح رہے کہ عالمی کفر کے امام پر توجہ مرکوز کرنے کی حکمتِ عملی اس بات کے منافی نہیں کہ مسلم عوام خود پر ظلم کرنے والوں کے خلاف زبان، ہاتھ اور ہتھیار سے جہاد کریں! چنانچہ ہمارے شیشانی بھائیوں کا حق ہے کہ وہ غاصب روسیوں اور ان کے چیلوں کے خلاف جہاد کریں۔ ہمارے کشمیری بھائیوں کا حق ہے کہ وہ مجرم ہندوؤں کے خلاف جہاد کریں۔ مشرقی ترکستان میں بسنے والے ہمارے بھائیوں کا حق ہے کہ وہ سرکش چینیوں کے خلاف جہاد کریں اور اسی طرح فلپائن، برما اور تمام عالم میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جارہا ہو، وہاں بسنے والے مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ان ظلم کرنے والوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کریں۔
3- مسلم خطوں پر مسلط حکومتوں کے خلاف مسلح جنگ سے گریز کیا جائے، سوائے اس صورت میں جب معاملہ اضطرار کے درجے تک پہنچ جائے، مثلاً جب مقامی فوج امریکی فوج ہی کا براہِ راست حصہ بن جائے جیسا کہ افغانستان کی صورت حال ہے، یا جب مقامی فوج امریکیوں کی نیابت میں مجاہدین کے خلاف جنگ کرے جیسا کہ صومالیہ اور جزیرۂ عرب میں ہے، یا جب وہ اپنے یہاں مجاہدین کا وجود تک برداشت کرنے سے انکاری ہو جیسا کہ مغربِ اسلامی، شام اور عراق کا معاملہ ہے۔
تاہم جب بھی ان کے خلاف جنگ سے بچنا ممکن ہو بچا جائے، اور اگر جنگ ناگزیر ہوجائے تو پھر امت کے سامنے اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کیا جائے کہ ان کے خلاف جنگ دراصل صلیبی حملے کے خلاف امت کے دفاع ہی کا ایک حصہ ہے۔
نیز جب کبھی بھی مقامی حکمرانوں کے خلاف جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا کوئی موقع میسر ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور اسے ہر ممکن حد تک دعوت، بیان، تحریض، افرادی قوت کی بھرتی، اموال کے جمع کرنے اور معاونین و انصار بنانے میں صرف کیا جائے، کیونکہ ہمارا معرکہ بہت طویل ہے اور جہاد کو پرامن پناہ گاہوں کی اور افراد، اموال اور صلاحیتوں کی مستقل فراہمی کی ضرورت ہے۔
یہ حکمتِ عملی اس بات کے منفی نہیں کہ ہم صلیبی حملہ آوروں کی آلہء کار ان حکومتوں کو یہ باور کراتے رہیں کہ ہم ان کے لیے کوئی تر نوالہ نہیں! اور ان کے ہر عمل کا ردِ عمل بھی ضرور ہوگا چاہے کچھ عرصہ بعد ہی کیوں نہ ہو۔ اس اصول کی تطبیق ہر محاذ پر اس کی مخصوص صورتِ حال کی مناسبت سے کی جائے۔

ہم نے مجاہدین کے موقف کو قارئین تک پہنچادیا ہے اب قارئین خود ہی صحیح اور غلط کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔
نوٹ جہاد پاکستان ایکسپوزڈ سے ہم دارالکفر اور دارالاسلام کے متعلق سوال کیا تھا جس کا جواب اب تک انہوں نے نہیں فراہم کیا بلکہ نام نہاد تحقیقی مقالے کاپی پیسٹ کرکے جواب دینے سے فرار حاصل کررہے ہیں۔



خوارج کی بوکھلاہٹ ؛ اپنے دیرینہ موقف سے یوٹرن، آخر کیوں؟
تحقیقی مقالہ از عبد اللہ عبدل


آج عرصہ دراز بعد میں ایک لمحے کے لئے سکتے کی حالت میں آگیا۔ اور اس وجہ ایک ایسا عجیب وغریب بیان تھا کہ میں شاید اس کی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن شاید جب ہر طرف سے لعن اور حزیمت کا سامنا کرنا پڑے تو بڑے بڑوں کے دماغ ٹھکانے آجاتے ہیں ، بہادروں کی بہادری ہوا ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا معاملہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ اور جماعت التکفیر والجہاد کے دیرینہ سربراہ ایمن الظواہری صاحب کے تازہ بیان یا پیغام کو پڑھ کر میرے ساتھ پیش آیا۔ القاعدہ اور اسکی ہم خیال تنظیمیں جن ٹی ٹی پی اور جند اللہ ازبک شامل ہیں ، سب نے اپنے مذموم مقاصد اور بیرونی ایجنڈوں کی دانستہ و غیر دانستہ تکمیل کے لئے دین کی جدید مسائل کے بدبودار نعرے پر ایسی ایسی تشریحات کیں اور اعمال اختیار کئےکہ جن کا اسلام اور نبوی طریقہ کار سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔
نتیجہ کیا نکلا ، وہی جو ہمیشہ ایسے کاموں میں نکلتا ہے، مسلمانوں کی جانوں ، مالوں اور عزتوں کی ضیاع۔ آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے؟ چلیں ہم آپ کو مختصرا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایمن الظواہری اور دیگر القاعدہ فکر سے منسلک جماعتوں نے مسلمان ممالک میں دہشتگردانہ کاروائیوں کا جب آغاز کیا تو اسکو باقاعدہ دلائل سے ایسے خطے ثابت کیا ،جنکو "دارلحرب" کہاجاتا ہے۔ مثلا ایسے علاقے جہاں کفار مسلمانوں پر حملہ آور ہوں یعنی افغانستان، کشمیر فلسطین وغیرہ یا پھر وہ کفار ممالک جو مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اسلام فقہ میں انہیں "دارالحرب" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور ایسے علاقوں کے احکامات عام غیر حربی کفار اور مسلم ممالک دونوں سے ہی یکسر مختلف ہوتے ہیں۔

اب چونکہ القاعدہ کے خارجی فکر کے حاملین نے اسلامی ممالک میں محاذ کھولنا تھا تو انکو اس کام میں اسلام سے کوئی نہ کوئی دلیل کشید کرنی ہی پڑنی تھی وگر ان کے اس خوشنما جال میں کسی کا پھنسنا کسی صورت بھی ممکن نہیں تھا اور انکا پنی دہشتگردانہ کاروائیوں کو جہاد کہلانے کا موقع مسلمانوں نے حاصل ہی نہیں کنے دینا تھا۔ لہذا انہوں نے پہلے قرآن و سنت کی باطل تشریحات اور مفہومات کو تراشا اور پھر کون مسلم کو بہانے کے لئے چڑھ دوڑے۔ پاکستان ، سعودی عرب، یمن، فلسطین،الجزائر،مصر وغیرہ میں انکی دہشتگرانہ کاروائیاں کسی سے مخفی نہیں۔ ان ممالک میں القاعدہ کے اس فکری بگاڑ سے بہت سے دین دار حلقے متاثر ہو کر اس فساد میں حصہ دار بن گئے اور اسکو اسلام کے احیاء اور نفاذ کا واحد راستہ سمجھنے لگے۔

پھر کیا تھا، اتنا نقصان جہاد مقدس فریضہ سے کفار کا نہیں ہوا جتنا اس کے نام پر مسلم ممالک میں بڑھکائے گئے فساد کا مسلمانوں کو ہوا۔ بازاروں میں ، مساجد میں ،سکولوں میں ،یونیورسٹیوں میں ، پارکوں میں سیکیورٹی اداروں کے دفاتر پر خوفناک قسم کے حملے کئے گئے ، مسلمانوں کا بلا تفریق اور بے دریغ کون بہاگیا، اموال کو تباہ کیا گیا، جمع پونجیاں بنکوں سے لوٹی گئی، وہ علاقے جو عورتوں کے احترام اور پردہ کی وجہ سے مشہور تھے ، انکو بھی اپنی عورتوں کو بے پردگی اور دربدر حالت ہجرت میں پھرنے پر مجبور ہوا پڑا اور دن بدن اس دہشتگردی میں تیزی ہی آتی جارہی ہے۔اور اس دہشتگردی نے ان تمام اسلامی ممالک بلخصوص پاکستان کو ایک کرب ناک دور میں دکھیل دیا گیا۔

آخر کیا بنیادی وجہ تھی جسکی وجہ سے خود کو جہادی کہلانے والے ، طائفہ منصورہ لیبل سینوں پر سجانے والے ، خودکو اہل حق کہلوانے والے اسلامی ممالک میں فساد پر آمادہ ہوئے؟
وہ وجہ سب کے سامنے اور صاف ہے ، خارجی فکر کے حاملین نے مختلف باطل تاویلات اور بد گمانی و بد اعمالیوں کی وجہ سے تمام دنیا کے اسلامی ممالک کو "دارالحرب" قرار دےدینا ہے۔ ان اسلامی ممالک کے حکام، اور ادارے بشمول ان ملکوں کی سیکیورٹی فورسزز اور انکے تمام حمایتیوں کو ملک میں اسلام کے نفاذ میں سستی برتنے اور کفار سے تعاون کی پاداشدین اسلام سے خارج قرار دے دینا ہے۔ اور اس کے علاوہ ان اسلامی ممالک کی عام عوام کو ان حکام اور سیکیورٹی فورسز کی مذمت نہیں کرتی تو انکومنافق سمجھنا اور اگر انکا خون بھی بہ جائے تو "کوئی حرج نہیں " کے جملے سے خود کو مطمئن کر لینا ہے۔
مختصرا، انکے ہاں موجودہ دور میں پوری دنیا میں کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ، سب دارالکفر یا دارالحرب بن چکے ہیں اس لئے جس طرح کفار و مشرکین سے قتال ہوگا اسی طرح ان مسلمان ممالک میں بھی قتال ہوگا۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ
اور اس نظریہ پر یہ خوارج پوری طرح کاربند ہیں مگر جب اس کے پریشان کن نتائج نکلے اور لوگ ان سے اور ان کے گمراہ کن اسلام کے نفاذ کے باطل طریقہ کار سے بیزار اور متنفر ہونا شروع ہوئےتو ان کو دن میں تارے نظر آنا شروع ہوچکے ہیں ۔ اور اب ان میں سے اکثر اپنے دیرینہ موقف سے بظاہر "یو ٹرن" لیتے نظر آرہے ہیں ۔ ٹی ٹی پی نے نا تو ابھی پاکستان میں شریعت نافذ کی اور نہ ہی پاکستان کے امریکہ سے ابھی تعاون کو بندوق کے زور پر ختم کروایا مگر امن مذاکرات کے لئے بےچین ہوئے پھرتے ہیں۔ لیکن جو معاملہ اب پیش آیا وہ ٹی ٹی پی کے مذاکرات کے اس شہدے پن سے زیادہ حیران کن ہے۔
القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری نے اپنے ایک بیان میں اپنے ہلکاروں کو "اسلامی ممالک " میں اقلیتوں اور عام مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے منع کیا ہے۔ یہ تھا وہ بیان کہ جس کو پڑھ کر میں سکتے میں آگیا ۔ اتنا بڑا "یو ٹرن" بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر اور موثر ہوگا کہ تھوک کے چاٹنے کا ایک بڑا واقع ہے کہ کچھ دیر کے لئے میرے ذہن منے سوچنا چھوڑ دیا۔
آپ خود زرا اس خبر کو پہلے ملاحضہ فرمالیں ، پھر ہم گفتگو کو آگے بڑھائیں گے۔



جی ہاں جناب ، اب دارلکفر اور دارلحرب قرار دیئے گئے مسلم ممالک کو "اسلامی ممالک " قرار دینے کا کارنامہ سامنے آگیا۔ اب ایمن الظواہری اپنے القاعدہ اور ٹی ٹی پی سمیت جند اللہ کے غنڈوں کو کیسے یہ بات باور کروائیں گے کہ یہ دارلکفر یا دارلحرب نہیں بلکہ اسلامی ممالک ہیں۔،،کون اسلامی ممالک ہیں؟
پاکستان ، سعودی عرب، یمن، فلسطین،الجزائر،مصر وغیرہ۔ ہاں جی ، میں سچ کہہ رہا ہوں۔ اور تو اور جب کوئی علاقہ اسلام کا علاقہ قرار دے دیا جائے تو اس میں دہشتگردی کرنا، بد امن اور نقص امن کا باعث بننا، یہ صریح گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔


قارئین ، مجھے تو ایک شاندار شعر یاد آریا ہے جو اس کی خوب ترجمانی کرے گا۔ جبکہ ہر طرف سے گھیراو ہوا تو ان خوارج کے غبارے سے ہوا نکلناشروع ہوچکی ہے۔ پاکستان میں جہاں ایک طرف اگر انکا علمی گھیرا کیا گیا جو اب بھی جاری ہے اور اردو زبان میں سب سے بڑی ویب سائٹ "ٹرو منہج ڈاٹ کام" جس کا لنک نیچے موجود ہے ،قرآن و سنت کی روشنی میں احسن انداذ سے ان کا علمی محاسبہ کر رہی ہے تو دوسری جانب پاک فوج نے انکی خوب چھترول کی اور انکے خوفناک حملوں کے باوجود استقامت کا پہاڑ بن کر انکے مقابلے میں ڈٹے رے اور بلا آخر انکا گھیرا اب اتنا تنگ ہوتا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو پھر انکا انجام تاریخی ہوگا۔ تو میں اپنے اس مضمون کا اختتام اس شعرپر کرتا ہوں کہ
۔"ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا ،
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا"۔
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
جہاد پاکستان ایکسپوزڈ کی شائع کردہ عبداللہ عبدل حفظہ اللہ کی تحقیقاتی رپورٹ پر اعتراض کرنے والے سے چند سوالات:
1-آپ کے ایمن الظواہری کے بیانات جو آپ نے پیش کئے،جن کی کوئی تصدیق شدہ لنک نہیں دیا کہ یہ بیان واقعہ ہی چرچ پر حملے سے پہلے دیاگیاہے۔جبکہ خبر چرچ پر حملے کے بعد آئی تھی۔جس سے آپ صرف دجالی میڈیا کی رٹ لگا کر فرار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،جبکہ آپ ہی کے آلہ کار کو میں نے اکثر و بیشر اسی دجالی میڈیا سے ہی اپنے داخ دھوتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے۔ؔ تمہیں یاد ہو کہ نا یاد ہو
2-کل تک قادیانیوں پر حملے کی ذمہ داریاں قبول کرنے والے،رافضیوں کی عبادت گاہوں میں دھماکے کرنے والے،شعیہ کافر کہہ کر قتل عام کی محفلیں سجانے والے،پشاور میں شعیہ کے بچوں اور عورتوں کے چیتھڑے اڑانے والے،آج اتنا بڑا یو ٹرن کیوں لے رہے ہیں؟آج خود اعلان کر رہے ہیں کہ قادیانیوں کو قتل نہیں کرنا،رافضیوں کو قتل نہیں کرنا۔۔۔۔آپ کے ایمن الظواہری نے تو آپ ہی کے نشیمن پر بجلیاں گرادیں ہیں۔
3-جناب ایمن الظواہری نے ارشاد فرمایا ہے:مسلم ممالک کے حکمرانوں کے خلاف قتال سے گریز کیا جائے۔
ایمن الظواہری نے توپاکستان کے سارے سرپھروں کا سر پھیر کر رکھ دیا۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے،اور اس کے حکمرانوں کے خلاف جنگ سےگریز کرنے سے تمہارے آقا (میڈ ان القائدہ)خود تاکید فرما رہے ہیں،جبکہ میڈان انڈیا امریکہ آقا پاکستان کو مرتدین کی ریاست کہتے ہیں،پاکستان کو دارلحرب اور دارلکفر کہتے ہیں۔
بتاؤ تم کس کا ساتھ دو گے؟
4-آج تمہارا آقا خود تسلیم کر رہا ہے کہ دنیا میں اسلامی ممالک بھی موجود ہیں۔اب معترض کے ذمہ ہے کہ وہ ان اسلامی ممالک کی نشاندہی کرے،۔۔۔
یمن الظواہری نے پاکستان کو بھی اسلامی ممالک کہا ہے،لیکن جہلاء کا ایک گروہ اس کو دارلحرب کہتا ہے۔
زرا یہ توبتاؤ پاکستان کے 45 ہزار مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر آج کون سی وحی نے یہ احساس پیدا کروا دیا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے،اس میں جنگ وجدال اور خون خرابہ شریعت میں ممنوع ہے۔؟
بتاؤ یہ یو ٹرن کیوں آیا؟
5-ایمن الظواہری کہتا ہے کہ اسلامی ممالک میں قادیانیوں کو بھی نہ قتل کیا جائے(جب کہ تم تو اسلامی ممالک کی موجودگی کا ہی انکار کرتے تھے،ورنہ تمہارے سارے آقا جو آج کل برطانیہ شریف میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور ملکہ برطانیہ کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں وہ اسلامی ممالک میں ہجرت کرجاتے)
قادیانی مرتد ہیں،اور پاکستان دارلکفر،دارلحرب ہے تو پھر۔۔۔۔۔۔
قادیانیوں کو قتل کیوں نہ کیا جائے؟دلیل؟
6-یہاںتک تو میں نے صرف وہی آئینہ دیکھایا ہے جہاں تک تم نے اپنا کپڑا اٹھایا تھا،
اب میں آپ کو وہ آئینہ دیکھانے جارہا ہوں جس پر تم نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن میں تمہاری یہود نصاری والی خصلت کو ہر جگہ واضح کر کے ہی تمہارا ناطقہ بند کروں گا،ڈونٹ وووری۔۔
کیونکہ ہم بھی نگاہ و کان رکھتے ہیں۔
اب میں تمہیں کو تمہارے ہی سرغنا ایمن الظواہری کے وہ بیانات دیکھاتا ہوں جو انہوں نےتو اس کے ساتھ ہی تحریر کئے تھےجو تم نے ادھر نقل کی ہے،لیکن وہ بیان بھی ادھر پیسٹ کرنا ایسے ہی تھا جیسے تم خود اپنی گردن میں پٹہ ڈال رہے ہوجس وجہ سے تم نے تو وہ پیش نہیں کئے،لیکن میں وہ پٹہ ڈال دیتا ہوں۔
ایمن الظواہری نے ٹی ٹی پی کی جڑیں کس طرح کاٹیں ہیں زرا مندرجہ ذیل بیانات اور ان پر تبصرے کو تعصب کے بغیر پڑھیں سب واضح ہو جائے گا(ان شاء اللہ)
1)مسلمانوں کے املاک اور جان و مال کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے۔
جبکہ پاکستان میں 45ہزار مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچایا گیا، ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔بتاؤ ایمن الظواہری کے وضع کردہ قوانین کے مطابق یہ سب جہاد تھا یا فساد؟
2)غیر مسلم عورتوں اور بچوں کے خلاف قتل سے گریز کیا جائے۔
پشاور میں جن عورتوں اور بچوں کو صرف اس لیے مارا جاتا تھا کہ وہ شعیہ تھے،ان کا خون کس کے سرپر ہے؟
3)دشمن کو مساجد،اجتماعات اور بازاروں میں ہدف نہ بنایا جائے،اور ایسی جگہوں پر ہدف نہ بنایا جائے جہاں یہ دشمن مسلمانوں یا ایسے لوگوں کے ساتھ غلط ملط ہو جو ہمارے ساتھ قتال میں شریک نہ ہوں۔
ٌّْْؔ ہم نہ کہتے تھے کہ مان جائیں گے۔۔
آل تکفیر ایمن الظواہری کے اس بیان سے تو تمہارا سارا جہاد باطل ہوگیا۔جن علاقوں میں آرمی آپریشن کر رہی ہے اس کے علاوہ جو بھی تم نے بارود پھاڑا وہ سب ریجکٹ ہوگیا۔کیونکہ یہ سب کاروائیاں یا تو مساجد،اجتماعات یا بازاروں میں کی گئیں ہیں یا پھر ایسی جگہوں پر کی گئیں ہیں جہاں پر وہ افراد بھی موجود تھے جو ٹی ٹی پی کے خلاف قتال میں شریک نہیں تھے،حتیٰ کہ وہ تمام کاروائیاں جو ایسے افراد(حکومتی یا سکیورٹی اداروں )پر کی گئیں تھیں جو ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن میں شریک نہیں تھے،ان کے خلاف کاروائیاں ایمن الظواہری کے مطابق باطل حرام،اور فساد ہیں۔
زرا بتا تو سہی خوارجیت کیا ہے؟
4)ہمیں تمام تر توجہ امریکہ پر مرکوز کرنی چاہئے۔
بتاؤ امریکہ سے توجہ ہٹا کر پاکستان پر کیوں کی ہوئی ہے؟القائدہ تو اس سے منع کر رہی ہے،بتاؤ یہ سب کچھ کس کے کہنے پر ہوا ہے ؟
5)مظلوموں اور کمزوروں کی پشت پناہی کی جائے چاہے وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم۔
اب جماعۃ الدعوہ پر طرح طرح کے الزام لگانے والو زرا اپنوں کی تو خبر لو۔جب حافظ صاحب نے شاہ رخ خان (جو کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے کفار کے مظالم کا شکار تھا)کو پاکستان آنے کی دعوت دی تو پتا ہے تمہارے منہ سے کتنی جھاگ نکلی تھی،یاد ہے بھلا؟
یاد ہے جب حافظ محمد سعید حفظہ اللہ نے امریکہ کے مظلوم لوگوں کی مدد کی پیشکش کی تھی تو کس کس کو کہاں کہاں سے تکلیف ہوئی تھی؟یاد ہے؟
امید ہے قارئین کرام بھی خوارج کے بے بنیاد عقیدے سے اچھی طرح واقف ہوگئے ہوں گے،اور ان کے کالے کرتوتوں کو جہاد کی بجائے فساد قرار دینے میں کوئی شائبہ محسوس نہیں کریں گے۔
باقی اہل خوارج کے لیے بس اک شعر ہی عرض خدمت ہے؛​
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی۔۔۔۔۔مگر اب نہیں آتی۔۔۔
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
جبکہ پاکستان میں 45ہزار مسلمانوں کو جانی نقصان پہنچایا گیا
آپ تو صرف ان کی یہ تیارکردہ رپورٹ ہی پیش کرتے ہیں ۔ آپ کو یہ تک معلوم نہیں کہ خفیہ ایجنسی کے علاوہ آپ کے اپنے ملک کے سپاہی بھی مجاہدین کو بدنام کرنے اور عوام الناس کو ان سے متنفر کرنے کے لیے سکولوں مساجد اور بازاروں میں دھماکے کرواتے ہیں ۔ کبھی آو خیبر ایجنسی، کہ یہاں کہ عوام سے آپ کی ملاقات کروائی جائے اور آپ کو حقیقت کا اندازہ ہوجائے ۔
ہمیں تمام تر توجہ امریکہ پر مرکوز کرنی چاہئے۔
جب ایک قافلے میں آپ کا دشمن قافلے کے بیچ میں ہوں اور بقایہ قافلے والے ان کی حفاظت پر معمورہوں تو دشمن کو مارنے کے لیے پہلے کس سے نمٹا جائے گا؟
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کا
اسلامی ملکوں
میں موجود عیسائیوں اور گمراہ فرقوں میں سے قتال نہ کرنے والوں کو نشانہ نہ بنانے کی دنیا بھر کے مجاہدین کو ہدایت
ایمن الظواہری کی پیغام بھی پڑھنے کے لاءق ہے اور ابوزینب صاحب نے جو نوٹ لکھا ہے وہ بھی
نوٹ جہاد پاکستان ایکسپوزڈ سے ہم دارالکفر اور دارالاسلام کے متعلق سوال کیا تھا جس کا جواب اب تک انہوں نے نہیں فراہم کیا بلکہ نام نہاد تحقیقی مقالے کاپی پیسٹ کرکے جواب دینے سے فرار حاصل کررہے ہیں۔
ابوزینب صاحب اپنے اس نوٹ میں تھوڑی کی اصلاح کر لیں ۔ جہاد پاکستان ایکسپوزڈ کے ساتھ ساتھ ایمن الظواہری صاحب کو بھی شامل تفتیش کریں جو اسلامی ملکوں کا ذکر کر ہے ہیں ۔ کیونکہ آپ تو اسلامی ممالکوں کے وجود سے ہی انکاری رہے ہیں۔ کہیں آپ کی مرجیہ کی توپ کی ذد میں القاعدہ نہ آجاءے
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
چھوڑئیے۔۔۔۔نعمان مسعود بھائی۔۔۔اس قسم کا لب ولہجہ انکی گدی میں سمایا ہوا ہے۔۔۔یہ ان کی روٹین کی کاروائی ہے
مسلمانوں کے قتل کرنے والوں کے خلاف پھول تو نچھاور نہیں کر سکتے ہیں ۔
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76
جو دھاگہ یوسف ثانی بھائ نے شروع کیا تھا اس سے تو بھایئوں نے اتفاق کیا تھا
زبان بگڑی سو بگڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والا ۔ بھایئوں دلائل پر زور لگاو نا کہ گفتار پر ، مجھے اس فورم پر زیادہ عرصہ نہیں ہوا پر اب تک یہ ہی سمجھا ہوں کہ بہت سی غلط فہمیاں پائ جاتی ہیں اور اس طرح کی گفتگو سے ان میں اضافہ ہوتا ہے ، میرا خیال ہے کہ کوئ بھائ اس طرح کے قتل عام کا قائل نہیں ہے اور آپس کے اشکالات کو بات چیت کے ذریعہ سے رفع کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے
 
شمولیت
جولائی 25، 2013
پیغامات
445
ری ایکشن اسکور
339
پوائنٹ
65
یہاں پر آپ غلط ہیں بھائ ،شارخ کہ مسلمان نہین کہا گیا بلکہ اس کی تردید کی گئ ہے
محمد نعمان مسعود صاحب میں کس طرح غلط ہوا، شاید آپ نے القول السدید کی عبارت شاہ رخ کے بارے میں پڑھی ہی نہیں ہے،ملاحظہ ہو:
مظلوموں اور کمزوروں کی پشت پناہی کی جائے چاہے وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم۔
اب جماعۃ الدعوہ پر بھونکنے والو زرا اپنوں کی تو خبر لو۔جب حافظ صاحب نے شاہ رخ خان (جو کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے کفار کے مظالم کا شکار تھا)کو پاکستان آنے کی دعوت دی تو پتا ہے تمہارے منہ سے کتنی جھاگ نکلی تھی،یاد ہے بھلا؟
یہ دعویٰ القول السدید کا ہے کہ شاہ خ مسلمان ہونے کے ناطے کفار کے مظالم کا شکار تھا۔کس نے شاہ رخ کے مسلمان ہونے کی تردید فرمائی ہے۔ اس کو برائے مہربانی پیش کیا جائے۔کہاں ہے وہ تردید؟
ویسے بہت ہی خوب فورم کی انتظامیہ کے کیا کہنے جس پوسٹ میں ایرر تھا اس کو باقی رہنے دیا اور جو پوسٹ ایرر فری تھا اس کو ڈیلیٹ کردیا۔کیوں کہ اُس ڈیلیٹ کردہ پوسٹ کو پسند اور زبردست ریٹ کیا گیا تھا۔اور جس پوسٹ پر ناپسند کی ریٹ تھی اس کو رہنے دیا۔
 
شمولیت
نومبر 24، 2011
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
38
مرجئہ تلملا گئے شیخ اس بیان کو دنیا بھر ایک ہی وقت میں کوریج ملی اتنی جامع پالیسی کوئی اور نام نہاد جہادی تو پیش کر کے دکھائے ورنہ چــــــــــــــــــــــــپ رہے
 
Top