• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کے بارے میں حکم؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تحکیم بغیر ما انزل اللہ سے یہاں میری مراد صرف وضعی قوانین کا کسی ملک پر نفاذ ہے جیسا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین نافذ ہیں باقی تحکیم بغیر ما انزل اللہ میرا موضوع نہیں ہے
صحیح ، یہ آپ کا حق ہے کہ آپ تحکیم ما انزل اللہ کے تحت وضعی قوانین پر دلائل قائم کریں! لیکن یہ آپ کا حق نہیں کہ آپ ان دلائل کی زد میں آنے والے دیگر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو موضوع سے خارج قرار دیں!! وہ کہتے ہیں نا کہ:
بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی!!
اب ان وضعی قوانین کو نافذ کرنے والوں پر شرعی حکم کے بارے سلفی علماء کے دو گروہ ہیں پہلا گروہ اسکو ہر حال میں کفر سمجھتا ہے چاہے وہ اسکے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے یا نہ رکھے مثلا امین اللہ پشاوری، حامد کمال الدین (حافظ سعید حفظہ اللہ کے چھوٹے بھائی) ، سعودی مفتی اعظم محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ، شیخ فوزان رحمہ اللہ وغیرہ۔
عبدہ بھائی! ایک تو آپ شیخ امین اللہ پشاوری کو ہر بار بیچ میں لے آتے ہیں!! خیر!!
رہی بات حامد کمال الدین کی، تو وہ حافظ سعید حفظ اللہ کے چھوٹے بھائی ہوں یا بڑے بھائی! ان کی ویب سائٹ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا رجحان سلفی علماء کی جانب ہے، لیکن ان میں مولانا مودودی کے اثرات بھی کافی نظر آتے ہیں!! خیر !!
اب آیا ہے نام جس پر اصل مدعا قائم کیا گیا ہے!! وہ ہے شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ کا!!
شیخ فوزان کیاکہتے ہیں! ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا بیان کرتے ہیں!!
اسکے ساتھ ساتھ سلفی علماء کا دوسرا گروہ ان وضعی قوانین کے نفاذ کو اس وقت کفر اکبر سمجھتا ہے جب اسکے نفاذ کو جائز سمجھتے ہوئے کیا جائے ورنہ وہ اسکے نفاذ کو کفر دون کفر سمجھتا ہے
جی ! اور یہی سلف الصالحین کا مؤقف ہے!
میرے خیال میں ان باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں ہو گا
بلکل اختلاف ہے!! شیخ محمد بن ابراھیم اور شیخ فوزان کا یہ مؤقف نہیں کہ جو آپ نے بیان کیا ہے!!
اب میں اس سلسلے میں اپنے سوالات رکھتا ہوں
سوال نمبر 1:
میرا سوال ہے کہ
پہلا گروہ جو وضعی قوانین کے نفاذ کو ہر حال میں کفر اکبر سمجھتے ہیں انکے اس عمل کے بارے دوسرے سلفی علماء مندرجہ ذیل میں سے کون سا حکم لگاتے ہیں
× یہ پہلا علماء کا گروہ اجتہادی غلطی پر ہے یا
× یہ علماء گمراہ اور خارجی ہیں
×کسی سلفی عالم نے اسکے کفر اکبر ہونے کا فتوی دیا ہی نہیں ہے
آخری صورت (کہ کسی عالم نے ایسا فتوی دیا ہی نہیں) پر میرے لئے بحث کرنا عبث رہے گی کیونکہ میرے نزدیک کوے کو سفید کہنے والے کو سمجھانا ممکن نہیں ہے
سلفی علماء وضعی قوانین کے نفاذ کو ہر حال میں کفر اکبر سمجھنے والوں کو گمراہ قرار دیتے ہیں! اور اسے خوارج طرز و اسلوب سمجھتے ہیں۔
جس کسی نے بھی اسے ہر حال میں کفر اکبر قرار دیا ہے ، اس معاملے میں اس نے سلفی منہج یعنی سلف الصالحین کے منہج سے انحراف کیا ہے!!
عبدہ بھائی! معلوم ہوتا ہے کہ آپ دلائل سے زیادہ علماء پر حکم لگانے ، لگوانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں!!
اوپر جن دو سلفی علماء کے گروہوں کا ذکر ہے وہ وضعی قوانین کے مرتکب کے بارے حکم میں اختلاف تب کرتے ہیں جب وہ قوانین نافذ کرنے والا اس نفاذ کرنے کو جائز نہ سمجھتا ہو لیکن اگر ان قوانین کو نافذ کرنے والا انکو جائز بھی سمجھتا ہو تو پھر تمام سلفی علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایسا کرنے والا کفر اکبر کا مرتکب ہو گا
کفر اصغر یعنی معصیت کو حلال سمجھنا بلکل کفر اکبر ہے!
پاکستان کے حکمرانوں کے بیانا ت کو اٹھا کر اگر دیکھا جائے تو یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ وہ ان قوانین کو نافذ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں
بھائی جان! وہ اسے قرآن و سنت کے مخالف سمجھ کر جائز نہیں سمجھتے!! یہ بات تو پاکستان کے آئین کے ہی خلاف ہے!!!
اب اس طرح جائز سمجھ کر وضعی قوانین نافذ کرنے کی وجہ سے کوئی انکو کفر اکبر کا مرتکب جانے تو اس پر تو دوسرے گروہ والے کو بھی متفق ہونا چاہئے
کیوں بھائی! آخر کیوں اس بات پر متفق ہونا چاہئے! وہ معصیت کو معصیت جان کر تو جائز قرار نہیں دے رہا!! اگر یہ قاعدہ رہا تو پھرمجھے نہیں معلوم کہ اس قاعدہ کی رو سے سلف الصالحین میں سے کون بچے گا!! کون سا مجتہد اس قاعدہ کی زد میں نہیں آئے گا!!
تو پھر دوسرے گروہ والے مندرجہ ذیل میں سے کس دلیل کے تحت اسکو کفر دون کفر سمجھ رہے ہوتے ہیں
×دوسرے گروہ کے ہاں ایسا کوئی پیغام نہیں ملتا جس سے یہ پتا چلتا ہو کہ یہ ان وضعی قوانین کے نافذ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں یا
× ان دوسرے گروہ والوں کے ہاں جائز سمجھ کر وضعی قوانین نافذ کرنے والا بھی کفر اکبر کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ کفر دون کفر کا مرتکب
دوسرے گروہ کے دلائل کو آپ تومقید نہ کرو! کہ ان دو میں سے کون سی دلیل ہے؟؟ وہ ان سے پوچھ لیں کہ کون سی دلیل ہے!! ان علماء کے پاس دلیل ماثور ہے!
خیر ! ویسے آپ کی بیان کردہ دونوں صورتیں بھی ہیں ، اور اس کے علاوہ بھی ہیں!
ویسے ایک بات اور کہ وضعی قوانین کا ''ہر حال'' میں کفر اکبر تو کیا، کفر اصغر ہونا بھی صحیح نہیں!!

سوال نمبر 3:
سعودی مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ نے وضعی قوانین کے نافذ کرنے والے کو کفر اکبر کا مرتکب کہتے ہوئے یہ کہا کہ یہاں پر ہمیں انکے اعتقاد کو دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کچھ نواقض ایسے ہوتے ہیں جن میں اعتقاد کو دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ انسان ایسا کرتا ہی تب ہے جب وہ اسکے درست ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو
شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ کا مؤقف بیان کرنے میں آپ سے خطاء ہو رہی ہے!!
اسی طرح ایک دفعہ شیخ امین اللہ پشاوری کے سامنے میں اور محترم طاہر اسلام عسکری بھائی اور محترم فہد اللہ مراد بھائی بیٹھے تھے تو اسی بات پر سوال ہو رہا تھا کہ آج کے عرب علماء اس وضعی قوانین کے نفاذ کے عمل میں اعتقاد کی شرط لازمی لگاتے ہیں تو شیخ نے کہا تھا کہ مجھے ان پر حیرت ہوتی ہے کہ یہی عرب علماء نماز کے معاملہ میں تو اعتقاد کی شرط کے بغیر کفر کا حکم لگاتے ہیں مگر یہاں وضعی قوانین کے مفاذ کے معاملہ میں اعتقاد کی شرط لگاتے ہیں
جبکہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ شیخ امین اللہ پشاوری کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ان عرب علماء کے پاس تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے کفر دون کفر اور نماز کے معاملہ میں دونوں جگہ دلیل ماثور ہے!!
ان دونوں شیوخ کی بات درست ہونے یا غلط ہونے سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کی وجہ سے اٹھنے والے ایک سوال کا جواب چاہئے کہکیا اعتقاد کیا ہر معاملہ میں دیکھا جائے گا یا بعض دفعہ صرف کفر بواح کا عمل دیکھ کر ہی کفر کا حکم لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ جادو ، گستاخی رسول یا پھر عرب علماء کا بے نمازی کے کفر کا حکم وغیرہ-
نہیں! عمل عمل پر موقوف ہے!!
یہ اہل الرائے کا انداز ہے کہ کسی ایک جگہ سے اصول بنا لیا، اور پھر کسی دلیل ماثور کو اپنے اس اصول کی بنا پر رد کر دیا!! دلیل ماثور ہر صورت مقدم ہوگی!! خواہ اس سے اصول میں استثناء پیدا ہو! یہ اس اصول کا دائرہ کار محدود رہ جائے!
مزید یوں بیان کردوں کہ: ہر عمل ایمان کے وجود کی نفی نہیں کرتا، بلکہ ایمان مع معصیت ، بلکہ گناہ کبیرہ کے ساتھ بھی ایمان کا وجود ثابت ہے!! اور بعض اعمال سے ایمان صلب ہو جاتا ہے!!
شراب نوشی، زنا کاری، جوا، یہ تمام اعمال ما انزل الله کے صریح مخالف ہیں!!
پھر یہ کہنا بھی صحیح ہوا کہ :
''مجھے حیرت ہے کہ شیخ امین اللہ پشاوری وضعی قوانین کے معاملہ میں تو اعتقاد کی شرط کے بغیر کفر کا حکم لگاتے ہیں، مگر شراب نوشی، زنا کاری، جوا کے مرتکب کے معاملے میں اعتقاد کی شرط لگاتے ہیں!! '' فتدبر!!
اور اگر ان معاملات میں بھی شیخ امین اللہ پشاوری اعتقاد کی شرط نہیں لگاتے ، پھر تو معاملہ بہت خراب ہے!!

محترم ابن داود بھائی آپ کی اوپر تمام باتوں کا جواب میں تب ممکن ہے جب آپ میرے اوپر والی پوسٹ کے سوال نمبر ایک کا جواب دیں گے
پس آپ سے انتہائی مودبانہ گزارش ہے کہ پمیرے سوال نمبر ایک کا جواب دے دیں جزاکم اللہ خیرا
آپ کے تینوں سوالات کے جوابات تحریر کر دئیے گئے ہیں۔
جہاں تک ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ کہنے کی بات ہے تو وہ درست ہے کچھ نے ایسا کہا اور دوسروں سلفی حضرات نے اسکا رد بھی کیا ہوا ہے اور رد کرنے والے زیادہ ہیں البتہ ابن ملجم یا طاہر القادری وغیرہ کے بارے شاید اختلاف نہ ہو پس میرا اور آپ کا اختلاف اسی میں ہے کہ میرے نزدیک جنہوں نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ کہا اور جنہوں نے انکو رحمہ اللہ کہا میرے ہاں وہ دونوں سلفی علماء قابل قدر ہیں البتہ ان میں ایک اجتہادی غلطی پر ہے
ابن ملجم او ر طاہر القادری کے معاملے میں آپ متفق ہیں کہ اسے اجتہادی غلطی کی چادر کے نیچے نہیں چھپایا جاسکتا!!
جہاں تک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ کہے جانے کی بات ہے، تو میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہنے کے باوجود بھی انہیں گمراہ ہی سمجھتا ہوں! کسی مسلمان کو گمراہ سمجھتے ہوئے اس کے لئے رحمت کی دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں!! کیونکہ امام ابو حنیفہ کو رحمہ اللہ لکھنا ، ان کے گمراہ ہونے کی نفی نہیں!!یہاں کوئی اختلاف ہی نہیں کہ اسے اجتہادی اختلاف قرار دیا جائے!!
بالفرض محال آپ کی بات مان بھی لی جائے!! تو یہ تو بتلائیے کہ آپ کے نزدیک کون اجتہادی غلطی پر ہے؟ امام ابو حنیفہ کو گمراہ کہنے والے یا امام ابو حنیفہ کو رحمہ اللہ کہنے والے؟

اجتہادی غلطی اگر استدلال، استنباط، و عدم علم دلیل کی بنا پر ہو تو اسے اجتہادی غلطی قرار دیا جانا بلکل صحیح ہے! لیکن اگر غلطی کی بنیاد ہی ایک مردود اصول ہو، جیسے کہ خبر واحد کو قبول نہ کرنے کا ، تو اسے اجتہادی غلطی نہیں، بلکہ گمراہی قرار دیا جائے گا!! فتدبر!!
اسی طرح میری نزدیک محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ یا شیخ امین اللہ یا حامد کمال الدین وغیرہ یہ سب بھی قابل قدر ہیں جس طرح ابن باز رحمہ اللہ یا شیخ البانی رحمہ اللہ قابل قدر ہیں البتہ آپ کا ان دونوں گروہوں کے علماء کے بارے موقف سامنے آنے پر میں اپنے موقف کا دفاع کروں گا
بلکل یہ آپ کا حق ہے، لیکن آپ سے ایک التماس ہے کہ ان علماء سے کسی مؤقف کا انتساب ان کی عبارات کے ساتھ کیجئے گا!!
آپ شیخ محمد بن ابراھیم کو غلط فہمی کی بنا پر حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے گروہ میں شمار کر رہے ہیں!
محترم بھائی میرے نزدیک واقعی علت کا اختلاف ہے اگر آپ کو نہیں لگتا تو میں اسکو آج کے حکمران اور تاتاری حکمران کے موازنہ کی صورت میں سمجھانا چاہوں گا
ہمارے ہاں ایمان تین چیزوں کا مجموعہ ہے یعنی دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار اور عمل بالجوارح۔ پس ہم تاتاریوں اور موجودہ حکمرانوں کی دلی حالت تو کسی صورت نہیں جان سکتے البتہ عمل اور قول دیکھ کر کفر کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور یہ فیصلہ عام آدمی بھی نہیں کر سکتا صرف جید عالم ہی کر سکتا ہے اب آپ نے جو نشانیاں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول سے دکھائی ہیں چاہے وہ عمل کی صورت میں ہیں یا قول کی صورت میں وہ آج کے حکمرانوں میں بھی دیکھ لیں
جہاں تک آپ کی بات کہ کون سے آج کے حکمران نے ان عقائد کا اقرار کیا ہے تو پھر یہ سوال تاتاریوں کے کافر ہونے پر بھی اٹھتا ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کون سے تاتاری حکمران کا ذاتی قول نقل کیا ہے جس میں انہوں نے ان عقائد کا اقرار کیا ہو ورنہ خالی گواہی تو شیخ امین اللہ کی اور ہماری جماعۃ لدعوہ کے طلحہ سعید حفظہ اللہ کی اور سیکڑوں دوسرے علماء کی موجود ہے جو میں یہاں آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں کہ یہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں
عبدہ بھائی! آپ کو شیخ الاسلام اب تیمیہ رحمہ اللہ کی جو عبارت پیش کی گئی تھی وہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تاتاریوں کی کفر اعتقادی بنا پر کی تھی!!
وہ عبارت پبر پیش
تاتاریوں کی تکفیر کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ان کی تکفیر کی وجوہات صراحتاً بیان کی ہیں:
قَالَ أَكْبَرُ مُقَدِّمِيهِمْ الَّذِينَ قَدِمُوا إلَى الشَّامِ وَهُوَ يُخَاطِبُ رُسُلَ الْمُسْلِمِينَ وَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِمْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ. فَقَالَ هَذَانِ آيَتَانِ عَظِيمَتَانِ جَاءَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُحَمَّدٍ وجنكسخان. فَهَذَا غَايَةُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ أَكْبَرُ مُقَدِّمِيهِمْ إلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَأَكْرَمِ الْخَلْقِ عَلَيْهِ وَسَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ وَخَاتَمِ الْمُرْسَلِينَ وَبَيْنَ مَلِكٍ كَافِرٍ مُشْرِكٍ مِنْ أَعْظَمِ الْمُشْرِكِينَ كُفْرًا وَفَسَادًا وَعُدْوَانًا مِنْ جِنْسِ بُخْتِ نَصَّرَ وَأَمْثَالِهِ. وَذَلِكَ أَنَّ اعْتِقَادَ هَؤُلَاءِ التَّتَارِ كَانَ فِي جنكسخان عَظِيمًا فَإِنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ ابْنُ اللَّهِ مِنْ جِنْسِ مَا يَعْتَقِدُهُ النَّصَارَى فِي الْمَسِيحِ وَيَقُولُونَ إنَّ الشَّمْسَ حَبَّلَتْ أُمَّهُ وَأَنَّهَا كَانَتْ فِي خَيْمَةٍ فَنَزَلَتْ الشَّمْسُ مِنْ كُوَّةِ الْخَيْمَةِ فَدَخَلَتْ فِيهَا حَتَّى حَبِلَتْ. وَمَعْلُومٌ عِنْد كُلِّ ذِي دِينٍ أَنَّ هَذَا كَذِبٌ. وَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ وَلَدُ زِنًا وَأَنَّ أَمَّهُ زَنَتْ فَكَتَمَتْ زِنَاهَا وَادَّعَتْ هَذَا حَتَّى تَدْفَعَ عَنْهَا مَعَرَّةَ الزِّنَا وَهُمْ مَعَ هَذَا يَجْعَلُونَهُ أَعْظَمَ رَسُولٍ عِنْدَ اللَّهِ فِي تَعْظِيمِ مَا سَنَّهُ لَهُمْ وَشَرَعَهُ بِظَنِّهِ وَهَوَاهُ حَتَّى يَقُولُوا لِمَا عِنْدَهُمْ مِنْ الْمَالِ. هَذَا رِزْقُ جنكسخان وَيَشْكُرُونَهُ عَلَى أَكْلِهِمْ وَشُرْبِهِمْ وَهُمْ يَسْتَحِلُّونَ قَتْلَ مَنْ عَادَى مَا سَنَّهُ لَهُمْ هَذَا الْكَافِرُ الْمَلْعُونُ الْمُعَادِي لِلَّهِ وَلِأَنْبِيَائِهِ وَرَسُولِهِ وَعِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ. فَهَذَا وَأَمْثَالُهُ مِنْ مُقَدِّمِيهِمْ كَانَ غَايَتُهُ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَنْ يَجْعَلَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْزِلَةِ هَذَا الْمَلْعُونِ.
مجلد 28 صفحه 521 ۔ 522
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية

قَالَ أَكْبَرُ مُقَدَّمِيهِمْ الَّذِينَ قَدِمُوا إلَى الشَّامِ، وَهُوَ يُخَاطِبُ رُسُلَ الْمُسْلِمِينَ، وَيَتَقَرَّبُ إلَيْهِمْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ فَقَالَ: هَذَانِ آيَتَانِ عَظِيمَتَانِ جَاءَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ: مُحَمَّدٌ، وَجِنْكِيزْ خَانْ، فَهَذَا غَايَةُ مَا يَتَقَرَّبُ بِهِ أَكْبَرُ مُقَدَّمِيهِمْ إلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يُسَوِّيَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَكْرَمِ الْخَلْقِ عَلَيْهِ، وَسَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ، وَخَاتَمِ الْمُرْسَلِينَ، وَبَيْنَ مَلِكٍ كَافِرٍ مُشْرِكٍ مِنْ أَعْظَمِ الْمُشْرِكِينَ، كُفْرًا وَفَسَادًا وَعُدْوَانًا مِنْ جِنْسِ بُخْتِ نَصَّرَ وَأَمْثَالِهِ.
وَذَلِكَ أَنَّ اعْتِقَادَ هَؤُلَاءِ التَّتَارِ كَانَ فِي جِنْكِيزْ خَانْ عَظِيمًا فَإِنَّهُمْ يَعْتَقِدُونَ أَنَّهُ ابْنُ اللَّهِ مِنْ جِنْسِ مَا يَعْتَقِدُهُ النَّصَارَى فِي الْمَسِيحِ، وَيَقُولُونَ: إنَّ الشَّمْسَ حَبَّلَتْ أُمَّهُ، وَأَنَّهَا كَانَتْ فِي خَيْمَةٍ فَنَزَلَتْ الشَّمْسُ مِنْ كُوَّةِ الْخَيْمَةِ فَدَخَلَتْ فِيهَا حَتَّى حَبِلَتْ، وَمَعْلُومٌ عِنْدَ كُلِّ ذِي دِينٍ أَنَّ هَذَا كَذِبٌ.
وَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُ وَلَدُ زِنًا، وَأَنَّ أُمَّهُ زَنَتْ فَكَتَمَتْ زِنَاهَا، وَأَخْفَتْ هَذَا حَتَّى تَدْفَعَ عَنْهَا مَعَرَّةَ الزِّنَا، وَهُمْ مَعَ هَذَا يَجْعَلُونَهُ أَعْظَمَ رَسُولٍ عِنْدَ اللَّهِ فِي تَعْظِيمِ مَا سَنَّهُ لَهُمْ، وَشَرَعَهُ بِظَنِّهِ، وَهُوَ حَتَّى يَقُولُوا لِمَا عِنْدَهُمْ مِنْ الْمَالِ هَذَا رِزْقُ جِنْكِيزْ خَانْ، وَيَشْكُرُونَهُ عَلَى أَكْلِهِمْ وَشُرْبِهِمْ، وَهُمْ يَسْتَحِلُّونَ قَتْلَ مَنْ عَادَى مَا سَنَّهُ لَهُمْ هَذَا الْكَافِرُ الْمَلْعُونُ الْمُعَادِي لِلَّهِ وَلِأَنْبِيَائِهِ وَرَسُولِهِ وَعِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ.
فَهَذَا وَأَمْثَالُهُ مِنْ مُقَدَّمِيهِمْ كَانَ غَايَتُهُ بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَنْ يَجْعَلَ مُحَمَّدًا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِمَنْزِلَةِ هَذَا الْمَلْعُونِ،
مجلد 03 صفحه 521 ۔ 542
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية

ان اسلام کے مدعی تاتاریوں میں سے جو لوگ شام آئے ، ان میں سب سے بڑے تارتاری نے مسلمانوں کے پیامبروں سے خطاب کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو مسلمان اور ان کے قریب ثابت کرتے ہوئے کہا: یہ دو عظیم نشانیاں ہیں جو اللہ کی طرف سے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک محمد عربی ہیں اور دوسرا چنگیز خان ہے۔ پس یہ ان کا وہ انتہائی عقیدہ ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کا قرب تلاش کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول جو مخلوق میں سے سب سے بزرگ ' اولاد آدم کے سردار اور نبیوں کی مہر ہیں' انہیں اور ایک کافر اور مشرکین میں سب سے بڑھ کر مشرک' فسادی' ظالم اور بخت نصر کی نسل کو برابر قرار دیا؟ ۔ ان تاتاریوں کا چنگیز خان کے بارے عقیدہ بہت ہی گمراہ کن تھا۔ ان نام نہاد مسلمان تاتاریوں کا تو یہ عقیدہ تھا کہ چنگیز خان اللہ کا بیٹاہے اور یہ عقیدہ ایسا ہی ہے جیسا کہ عیسائیوں کا حضرت مسیح کے بارے عقیدہ تھا۔ یہ تاتاری کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی ماں سورج سے حاملہ ہوئی تھی ۔ وہ ایک خیمہ میں تھی جب سورج خیمہ کے روشندان سے داخل ہوا اور اس کی ماں میں گھس گیا۔ پس اس طرح اس کی ماں حاملہ ہو گئی ۔ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے...اس کے ساتھ ان تاتاریوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وہ چنگیز خان کو اللہ کا عظیم ترین رسول قرار دیتے ہیں کیونکہ چنگیز خان نے اپنے گمان سے ان کے لیے جو قوانین جاری کیے ہیں یا مقرر کیے ہیں یہ ان قوانین کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو ان کے پاس مال ہے ' اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ چنگیز خان کا دیا ہوا رزق ہے اور اپنے کھانے اور پینے کے بعد(اللہ کی بجائے) چنگیز خان کا شکر اداکرتے ہیں اور یہ لوگ اس مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتے ہیں جو ان کے ان قوانین کی مخالفت کرتا ہے جو اس کافر ملعون' اللہ ' انبیاء و رسل ' محمد عربی اور اللہ کے بندوں کے دشمن نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ پس یہ ان تاتاریوں اور ان کے بڑوں کے عقائدہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد محمد عربی کو چنگیز خان ملعون کے برابر قرار دیتے ہیں۔
اختصار کے ساتھ یوں کہ:
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔
اور آپ کا بیان مندرجہ ذیل ہے:
2-تاتاری حکمرانوں کے کافر ہونے پر ہمارا اتفاق ہے البتہ اسکی علت پر اختلاف ہو سکتا ہے
اب ان وضعی قوانین کو نافذ کرنے والوں پر شرعی حکم کے بارے سلفی علماء کے دو گروہ ہیں پہلا گروہ اسکو ہر حال میں کفر سمجھتا ہے چاہے وہ اسکے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے یا نہ رکھے
اسی طرح ایک دفعہ شیخ امین اللہ پشاوری کے سامنے میں اور محترم طاہر اسلام عسکری بھائی اور محترم فہد اللہ مراد بھائی بیٹھے تھے تو اسی بات پر سوال ہو رہا تھا کہ آج کے عرب علماء اس وضعی قوانین کے نفاذ کے عمل میں اعتقاد کی شرط لازمی لگاتے ہیں تو شیخ نے کہا تھا کہ مجھے ان پر حیرت ہوتی ہے کہ یہی عرب علماء نماز کے معاملہ میں تو اعتقاد کی شرط کے بغیر کفر کا حکم لگاتے ہیں مگر یہاں وضعی قوانین کے مفاذ کے معاملہ میں اعتقاد کی شرط لگاتے ہیں
یعنی آپ تحكیم بغير ما انزل الله میں تکفیر میں اعتقادی شرط کے قائل نہیں!!
لہٰذا آپ کا شیخ الاسلام کے تاتاریوں کی تکفیر کے فتوے کو دلیل بنانا درست نہیں! خیر یہ دلیل آپ نے نہیں لیکن محمد علی جواد نے پیش کی تھی!
آپ نے یہاں اس کی علت میں مجھ سے اختلاف کیا تھا۔ جو کسی صورت نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ علت تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ خود بیان کر چکے ہیں!
اب جو آپ نے بات کی ہے، وہ علت کا بیان نہیں !!
آپ کا اعتراض یہ ہے کہ تاتاریوں کا قول تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی پیش نہیں کیا! تو پھر شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کو حکمرانوں کا قول پیش کرنے کی حاجت کیوں؟
صاف صاف کہہ دیں کہ ایسے اقوال موجود نہیں!! اور اگر ہیں تو پیش کریں!! وہ کہتے ہیں کہ:
پیش کر غافل گر دلیل دفتر میں ہے!!
ویسے آپ بہت دور کی کوڑی لائیں ہیں!! ہم آپ سے ایک سوال کرتے ہیں! میں شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کی گواہی پر سوال اٹھا دیتا ہوں، آپ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی گواہی پر اعتراض کر دیں!!
میں یہ مدعا اٹھاتا ہوں کہ شیخ امین اللہ پشاوری اور طلحہ سعید نے اپنی کم فہمی کی بنا پر حکمرانوں کے مبینہ اقوال سے جو عقائد کشید کئے ہیں، یہ ان کی غلطی ہے، آپ یہ اعتراض شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر کر دیں!!
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی طرف سے جواب میں دے دوں گا،شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کی طرف سے جواب آپ دے دیں!!
یہاں بھی آپ ایک بہت اہم نکتہ نظر انداز کر رہے ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تاتاریوں کا قول اگر نقل نہیں کیا، تو اس کا معنی یہ نہیں کہ اس کا کوئی وجود ہی نہيں ہوگا!! کیونکہ عدم ذکر عدم وجود نہیں ہوتا!!
وہ بھی اگر نقل نہیں کیا تو!! جبکہ جو عبارت میں نے پیش کی ہے اس میں تاتاریوں کے اقوال بھی موجود ہیں۔
میرے بھائی! شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کا حکمرانوں کے اقوال سے کفر اکبر و کفر بواح کشید کرنا ضرور اجتہادی غلطی ہو سکتا ہے، مگر مسئلہ صرف یہ نہیں! مسئلہ یہ ہے کہ بقول آپ کےوہ اس گروہ میں شامل ہیں:
اب ان وضعی قوانین کو نافذ کرنے والوں پر شرعی حکم کے بارے سلفی علماء کے دو گروہ ہیں پہلا گروہ اسکو ہر حال میں کفر سمجھتا ہے چاہے وہ اسکے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے یا نہ رکھے
لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھیں !!
محترم بھائی پکی ٹھٹی دلیل کا ہی تو تقاضا کیا ہے کہ اوپر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کون سی پکی ٹھٹھی دلیل دی ہے جو شیخ امین اللہ یا محترم طلحہ سعید حفظہ اللہ نے نہیں دی
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی عبارت میں اگر پکی ٹھکی دلیل نہیں ، تو پھر پکی ٹھکی دلیل کسے کہتے ہیں!!!
کیا اس بات کی حاجت ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی عبارت میں دلیل و استدلال کی نشاندہی کی جائے؟؟ اگر یہ عبارت اس کی محتاج ہے تو حکم کریں ہم آپ کا فرمان بجا لائیں گے!!
شیخ امین اللہ پشاوری اور شیخ طلحہ سعید کے دلائل جب آپ بیان کریں گے تو آپ کو بتلایا جاسکے گا ان دلیل میں کیا نقص ہے!! ابھی تک تو یہ ہوائی بات ہے!!
جزاکم اللہ خیرا محترم بھائی یہی میں کہنا چاہتا ہوں کہ جو عالم کسی اجتہادی غلطی کی بنیاد پر کسی کی تکفیر کرتا ہے تو اسکو خارجی اور تکفیری نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس طرح ہم موحدین کا اپنا نقصان ہوتا ہے اتفاق ختم ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تعین کون اور کیسے کرے گا کہ فلاں تکفیر اجتہادی غلطی کی بنیاد پر ہے اور فلاں خارجی ہونے کی وجہ سے ہے پس میرے نزدیک تو جو علماء تکفیر کے فتوی کے بعد بھی اہل سنت میں مقبول رہے ہوں اور انہوں نے دلائل کی بنیاد پر ہی تکفیر کی ہو تو وہ خآرجی نہیں ہوں گے واللہ اعلم
یہ فرق مد نظر رکھنا پڑتا ہے !! ورنہ پھر اہل الرائے اور اہل الحدیث کا فرق بھی ختم ہو جائے گا!! کیونکہ خطا تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے!!
یہ بات اوپر واضح کی گئی ہے کہ: ایک بار پھر پیش کر دیتا ہوں:
غلطی اگر استدلال، استنباط، و عدم علم دلیل کی بنا پر ہو تو اسے اجتہادی غلطی قرار دیا جانا بلکل صحیح ہے! لیکن اگر غلطی کی بنیاد ہی ایک مردود اصول ہو، جیسے کہ خبر واحد کو قبول نہ کرنے کا ، تو اسے اجتہادی غلطی نہیں، بلکہ گمراہی قرار دیا جائے گا!! فتدبر!!
التماس: طلحہ سعید بھائی سے میرا سلام عرض کیجئے گا!! وہ مجھے اسی نام سے جانتے ہیں!!
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے مجھے لگتا ہے ایک ایک نقطہ لے کر چلے بغیر بات کرنا ممکن نہ ہو گا
پس پہلے ایک بات کو لے کر چلتے ہیں اس پر اتفاق ہونے کے بعد اگلی بات کی طرف آئیں گے میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جس بات پر ہم سب کا اتفاق ہے اسکو تلاش کر کے اس پر ہی اکٹھے ہو جائیں یعنی جو کلمۃ سواء بیننا و بینکم ہے اس پر ہی توجہ مرکوز رکھیں اور اچھے کاموں میں سب موحدین آپس میں تعاون کرتے رہیں

پہلی بات:کچھ موحد اور سلفی صحیح العقیدہ علماء ایسے ہیں جو بعض مسلمان حکمرانوں کو بعض نواقض اسلام کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں یا سمجھتے تھے پس میرے نزدیک ایسے سلفی علماء زیادہ سے زیادہ اجتہادی غلطی پر تو ہو سکتے ہیں مگر ہم انکو کافر یا خارجی یا تکفیری نہیں کہ سکتے اور اس پر جمہور اہل حدیث کا اتفاق ہے

اس پر آپ اپنی رائے دے دیں تاکہ اسکا فیصلہ ہو جائے اور اگلی بات ہو سکے اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
 

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
یہ گھنی ڈاڑھی کا کیا قصہ ہے جی؟
ہمیں تھریڈ کےنفس موضوع ۔۔خوارج کے بارے حکم ۔۔پر کچھ نہیں کہنا ،اہل علم حضرات اس پر اپنی تحقیق پیش کر رہے ہیں ۔۔البتہ ایک ضمنی بات
’’ گھنی داڑھی ‘‘ کو حدیث میں ۔۔خوارج کی علامت و نشانی کے طور پر بیان نہیں کیا گیا ؛
یہ محض اہل بدعت نے ’‘ سلفیوں کی دشمنی ‘‘ میں اسے خوارج کی ’‘ پکی نشانی ‘‘ بنا کر جاہلوں کے سامنے پیش کیا ،
اور پھر کچھ سادہ لوح حضرات خود احادیث نبویہ کا براہ راست مطالعہ ،اور تحقیق نہیں کرتے ،اور ’’ راہ چلتی بات ‘‘ کو حوالہ اور دلیل سمجھ کر آگے نقل کرتے ہیں ،
بہرحال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’‘ كث اللحية ’‘ گھنی داڑھی کے خوارج سے تعلق کی حقیقت یوں ہے کہ :

عن ابي سعيد رضي الله عنه قال:‏‏‏‏ بعث علي رضي الله عنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم بذهيبة فقسمها بين الاربعة الاقرع بن حابس الحنظلي ثم المجاشعي وعيينة بن بدر الفزاري ،وزيد الطائي ثم احد بني نبهان وعلقمة بن علاثة العامري ثم احد بني كلاب فغضبت قريش والانصار قالوا:‏‏‏‏ يعطي صناديد اهل نجد ويدعنا قال:‏‏‏‏ إنما اتالفهم فاقبل رجل غائر العينين مشرف الوجنتين ناتئ الجبين كث اللحية محلوق فقال:‏‏‏‏ اتق الله يا محمد !
فقال:‏‏‏‏ من يطع الله إذا عصيت ايامنني الله على اهل الارض فلا تامنوني فساله رجل قتله احسبه خالد بن الوليد فمنعه فلما ولى قال:‏‏‏‏ إن من ضئضئ هذا او في عقب هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية يقتلون اهل الإسلام ويدعون اهل الاوثان لئن انا ادركتهم لاقتلنهم قتل عاد"

.صحیح البخاری (حدیث نمبر: 3344 )
جناب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظر انداز کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ خالد بن ولید تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے
روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ)
اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان
سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔


اور صحیح مسلم میں یہی حدیث درج ذیل الفاظ سے مروی ہے ۔
سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، يَقُولُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اليَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ، لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا، قَالَ: فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ، بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ، وَأَقْرَعَ بْنِ حابِسٍ، وَزَيْدِ الخَيْلِ، وَالرَّابِعُ: إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلاَءِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَلاَ تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً»
قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، قَالَ: «وَيْلَكَ، أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ» قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ: يَا رَسُولَ
اللَّهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: «لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي» فَقَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ» قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: «إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ» ، وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ»

صحیح مسلم ، حدیث نمبر: 514
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے کچھ سونا ایک چمڑے میں رکھ کر بھیجا جو ببول کی چھال سے رنگا ہوا تھا اور ابھی (وہ سونا) مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔
اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عیینہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہما۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں کے اوپر ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔

پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، ابھری ہوئی پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تیری خرابی ہو، کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو“ (معلوم ہوا کہ وہ اکثر حاضر باش خدمت مبارک بھی نہ تھاور نہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی)
سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں کسی کا دل چیر کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا، اور کہا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو اچھی طرح پڑھیں گے حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے کہ تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے (راوی کہتا ہے) میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ اگر میں اس قوم کو پا لوں تو میں انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔انتہی؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل توجہ ::
اس حدیث شریف میں :رسول اکرم ﷺ کی جناب میں گستاخی کرنے والے شخص کا حلیہ راوی صحابی نے یہ بتایا گیا ہے کہ :
اس نے گھنی داڑھی رکھی ہوئی تھی ،ازار اونچی کر کے پہنی ہوئی تھی ،،
اس حدیث میں یہ بات تو نہیں کہ ’‘ گستاخی کرنے والے کے رستے خروج پر آئندہ جو لوگ ہونگے ،ان کی علامت یہ چیزیں ہونگی؛
اس کی ایک مثال یہ کہ ’’ مدینہ کے ایک رہائشی نے اس گستاخی کا ارتکاب کیا ،،تو کیا اب مدینہ کا رہائشی ہونا بندے کو خارجی بنا دے گا ؟
اس کی نسل ۔۔یا۔۔قوم سے خوارج بننے والوں کی علامات تو خود نبی کریم ﷺ نے آگے بیان فرمائیں :جن میں یہ بھی ہے کہ وہ قرآن کو خوب سنوار کر کثرت سے پڑھیں گے ،
اگر اس علامت کو بھی مطلقاً کلیہ قرار دیا جائے ۔ توپھر ’‘ قرآن کو خوب صورت ’‘ پڑھنے والا ہر شخص خارجی ٹھہرا ؟
اور ظاہرہے ہوش و حواس میں کوئی مسلم ایسا نہیں کہہ سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس معاملہ کا دوسرا پہلو زیادہ خطرناک ،اور سنگینی لیئے ہوئے ہے ؛
وہ اس طرح کہ ’‘ گھنی داڑھی والے ’‘ اور ’‘ اونچی ازار رکھنے والے ’‘ تو سب سے پہلے جناب نبی کریم ﷺ تھے ،اور یہ بات سیرت و حدیث کے عام قاری سے بھی مخفی نہیں ؛ ۔ چہ جائیکہ ۔۔عالم۔۔ سے اوجھل ہو ۔۔۔
فعن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال :
( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ )رواه مسلم (رقم/2344)

وعَنْ الْبَرَاءِ رضي الله عنه قَالَ :( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... كَثَّ اللِّحْيَةِ )رواه النسائي (رقم/5232) وصححه الألباني في " صحيح النسائي ".براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ گھنی داڑھی والے تھے،،

وورد أيضا هذا الوصف : ( كث اللحية ) من حديث علي بن أبي طالب رضي الله عنه في " مسند الإمام أحمد " (2/102) طبعة مؤسسة الرسالة ، وحسنه المحققون ‘‘ اور مسند احمد میں بروایت آپ ﷺ کی داڑھی گھنی ہونے کا بیان و ثبوت ہے ‘‘
دیکھا آپ نے کہ اس ’’ گھنی داڑھی کو خوارج کی علامت بتانے سے۔۔۔ زد کہاں پڑتی ہے
.
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے مجھے لگتا ہے ایک ایک نقطہ لے کر چلے بغیر بات کرنا ممکن نہ ہو گا
پس پہلے ایک بات کو لے کر چلتے ہیں اس پر اتفاق ہونے کے بعد اگلی بات کی طرف آئیں گے میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جس بات پر ہم سب کا اتفاق ہے اسکو تلاش کر کے اس پر ہی اکٹھے ہو جائیں یعنی جو کلمۃ سواء بیننا و بینکم ہے اس پر ہی توجہ مرکوز رکھیں اور اچھے کاموں میں سب موحدین آپس میں تعاون کرتے رہیں

پہلی بات:کچھ موحد اور سلفی صحیح العقیدہ علماء ایسے ہیں جو بعض مسلمان حکمرانوں کو بعض نواقض اسلام کی وجہ سے کافر سمجھتے ہیں یا سمجھتے تھے پس میرے نزدیک ایسے سلفی علماء زیادہ سے زیادہ اجتہادی غلطی پر تو ہو سکتے ہیں مگر ہم انکو کافر یا خارجی یا تکفیری نہیں کہ سکتے اور اس پر جمہور اہل حدیث کا اتفاق ہے

اس پر آپ اپنی رائے دے دیں تاکہ اسکا فیصلہ ہو جائے اور اگلی بات ہو سکے اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
عبدہ بھائی! آپ بھی مجھے پکا رہے ہو!
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گےکیا
میرے پچھے مراسلہ میں اور ''کیا'' ہے؟
عبدہ بھائی! ویسے اس تھریڈ میں، اب تک میں نے کسی نقطہ کا اغاز نہیں کیا، جس نکتہ پر بھی کچھ عرض کیاہے آپ نے دوسروں کے ہی آغاز کردہ تھے!
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عبدہ بھائی!
میرے پچھے مراسلہ میں اور ''کیا'' ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی اصل میں پچھلے مراسلے میں بات مجھے سمجھ نہیں آ سکی تھی اس لئے دوبارہ وضاحت پوچھی ہے
میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے نزدیک بھی ہمارے کچھ سلفی علماء کچھ مسلمان حکمرانوں کی بعض نواقض کی وجہ سے تکفیر کرتے ہیں یا کرتے تھے اور بعد میں رجوع کر لیا تو میرا سوال یہ تھا کہ جو کرتے ہیں یا جو کرتے تھے اس وقت انکو خارجی یا گمراہ کہا جا سکتا تھا یا اجتہادی غلطی پر آپ سمجھتے تھے مگر اسکا جواب نہیں ملا بلکہ آپ نے اسکا جواب یوں دیا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ فرق مد نظر رکھنا پڑتا ہے !! ورنہ پھر اہل الرائے اور اہل الحدیث کا فرق بھی ختم ہو جائے گا!! کیونکہ خطا تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے!!
یہ بات اوپر واضح کی گئی ہے کہ: ایک بار پھر پیش کر دیتا ہوں:
غلطی اگر استدلال، استنباط، و عدم علم دلیل کی بنا پر ہو تو اسے اجتہادی غلطی قرار دیا جانا بلکل صحیح ہے! لیکن اگر غلطی کی بنیاد ہی ایک مردود اصول ہو، جیسے کہ خبر واحد کو قبول نہ کرنے کا ، تو اسے اجتہادی غلطی نہیں، بلکہ گمراہی قرار دیا جائے گا!! فتدبر!!
پس اس اوپر جواب میں آپ نے دو احتمال تو بتا دیئے ہیں مگر اس کا پتا کیسے چلے گا کہ فلاں نے اجتہادی غلطی کی ہے اور فلاں نے حکمرانوں کو کافر کہنے میں اصول کی غلطی کی ہے اس سے جواب نہیں ملا کیونکہ جب خالی دو احتمال بتائے جائیں تو پھر ایک کو متعین کر کے حکم نہیں لگایا جا سکتا
پس اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ ان حکمرانوں کو کافر کہنے والوں کو ہمیں متعین کر کے خارجی یا گمراہ اور تکفیری نہیں کہنا چاہئے تو پھر تو آپ کا جواب مل گیا مگر مجھے لگتا ہے کہ آپ ایسا جواب نہیں دینا چاہتے اس لئے دوبارہ وضاحت پوچھی ہے
عبدہ بھائی! ویسے اس تھریڈ میں، اب تک میں نے کسی نقطہ کا اغاز نہیں کیا، جس نکتہ پر بھی کچھ عرض کیاہے آپ نے دوسروں کے ہی آغاز کردہ تھے!
محترم بھائی اوپر میری تمام پوسٹ پڑھ لیں میں کسی کی تکفیر کروانے پر اصرار نہیں کر رہا بلکہ صرف اپنا عقیدہ لکھا ہے اور اپنے ہم نظریہ سلفی جید علماء کا بلکھا ہے اور صرف اور صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ تکفیر کی حد تک کسی سلفی عالم کو خارجی یا گمراہ کہنا کسی صورت درست نہیں اگر اسکے پاس تاویلات موجود ہوں البتہ اسکو اجتہادی غلطی پر کہا جا سکتا ہے
پس اوپر اسکا جواب اس لئے چاہئے کہ میرا اس پورے تھریڈ میں اصل موضوع ہی یہی رہا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ جب حقیقت میں تمام اہل حدیث علماء یہ مانتے ہیں کہ خالی حکمرانوں کی تکفیر کرنے سے کوئی عالم یا عوام خارجی نہیں ہوتی تو پھر اس کا اقرار کیوں نہیں کیا جاتا
میرا یہ مکمل یقین ہے کہ آپ کو شاید ہی کوئی نمایاں پاکستانی اہل حدیث عالم ملے جو آپ کو لکھ کر یہ فتوی دینے پر تیار ہو کہ جو بھی عالم پاکستانی غیر پاکستانی مسلم حکمرانوں کی تکفیر کرتا ہے وہ عالم خارجی یا تکفیری ہے اگر آپ کے پاس کوئی ایک بھی ایسا عالم ہے تو مجھے اس کا فتوی لازم دکھائیں یا کم از کم نام ہی بتا دیں تاکہ میں ان سے رابطہ کر کے اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ کر سکوں کہ کوئی اہل حدیث عالم ایسا بھی پاکستان میں موجود ہے جو صرف حکمرانوں کی تکفیر کرنے پر کسی عالم کے تکفیری یا خارجی ہونے کا فتوی دے سکتا ہے
لیکن محترم بھائی یاد رکھیں یہاں بات فتوی کی ہو رہی ہے عام تقریر وغیرہ کی نہیں کیونکہ فتوی دیتے ہوئے علماء احتیاط کرتے ہیں ورنہ وہ عمومی طور پر تو لاشعوری طور پر بہت کچھ کہ جاتے ہیں

پس دوبارہ سوال پیش خدمت ہے کہ کیا جو بھی سلفی عالم کسی مسلمان حکمران کو کافر کہتا ہے یا پہلے کہتا تھا اور اب کچھ کے نزدیک رجوع کر لیا ہے تو رجوع سے پہلے اسکو گمراہ یا تکفیری یا خارجی کہنا جائز ہے اور اس پر کسی اہل حدیث عالم کا کوئی لکھا ہوا فتوی موجود ہے
میرا اس بات کی تائید کے علاوہ کوئی اور تائید کروانا مقصود نہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
لیکن محترم بھائی یاد رکھیں یہاں بات فتوی کی ہو رہی ہے عام تقریر وغیرہ کی نہیں کیونکہ فتوی دیتے ہوئے علماء احتیاط کرتے ہیں ورنہ وہ عمومی طور پر تو لاشعوری طور پر بہت کچھ کہ جاتے ہیں
متفق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ہمیں تھریڈ کےنفس موضوع ۔۔خوارج کے بارے حکم ۔۔پر کچھ نہیں کہنا ،اہل علم حضرات اس پر اپنی تحقیق پیش کر رہے ہیں ۔۔البتہ ایک ضمنی بات
’’ گھنی داڑھی ‘‘ کو حدیث میں ۔۔خوارج کی علامت و نشانی کے طور پر بیان نہیں کیا گیا ؛
یہ محض اہل بدعت نے ’‘ سلفیوں کی دشمنی ‘‘ میں اسے خوارج کی ’‘ پکی نشانی ‘‘ بنا کر جاہلوں کے سامنے پیش کیا ،
اور پھر کچھ سادہ لوح حضرات خود احادیث نبویہ کا براہ راست مطالعہ ،اور تحقیق نہیں کرتے ،اور ’’ راہ چلتی بات ‘‘ کو حوالہ اور دلیل سمجھ کر آگے نقل کرتے ہیں ،
بہرحال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’‘ كث اللحية ’‘ گھنی داڑھی کے خوارج سے تعلق کی حقیقت یوں ہے کہ :

عن ابي سعيد رضي الله عنه قال:‏‏‏‏ بعث علي رضي الله عنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم بذهيبة فقسمها بين الاربعة الاقرع بن حابس الحنظلي ثم المجاشعي وعيينة بن بدر الفزاري ،وزيد الطائي ثم احد بني نبهان وعلقمة بن علاثة العامري ثم احد بني كلاب فغضبت قريش والانصار قالوا:‏‏‏‏ يعطي صناديد اهل نجد ويدعنا قال:‏‏‏‏ إنما اتالفهم فاقبل رجل غائر العينين مشرف الوجنتين ناتئ الجبين كث اللحية محلوق فقال:‏‏‏‏ اتق الله يا محمد !
فقال:‏‏‏‏ من يطع الله إذا عصيت ايامنني الله على اهل الارض فلا تامنوني فساله رجل قتله احسبه خالد بن الوليد فمنعه فلما ولى قال:‏‏‏‏ إن من ضئضئ هذا او في عقب هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية يقتلون اهل الإسلام ويدعون اهل الاوثان لئن انا ادركتهم لاقتلنهم قتل عاد"

.صحیح البخاری (حدیث نمبر: 3344 )
جناب ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے (یمن سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظر انداز کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیونکہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بنا کر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ خالد بن ولید تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے
روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ)
اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان
سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔


اور صحیح مسلم میں یہی حدیث درج ذیل الفاظ سے مروی ہے ۔
سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، يَقُولُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اليَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي أَدِيمٍ مَقْرُوظٍ، لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا، قَالَ: فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ، بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ، وَأَقْرَعَ بْنِ حابِسٍ، وَزَيْدِ الخَيْلِ، وَالرَّابِعُ: إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: كُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلاَءِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَلاَ تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً»
قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، قَالَ: «وَيْلَكَ، أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللَّهَ» قَالَ: ثُمَّ وَلَّى الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ: يَا رَسُولَ
اللَّهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ: «لاَ، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ يُصَلِّي» فَقَالَ خَالِدٌ: وَكَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ» قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: «إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبًا، لاَ يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ» ، وَأَظُنُّهُ قَالَ: «لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُودَ»

صحیح مسلم ، حدیث نمبر: 514
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے کچھ سونا ایک چمڑے میں رکھ کر بھیجا جو ببول کی چھال سے رنگا ہوا تھا اور ابھی (وہ سونا) مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔
اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عیینہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہما۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں کے اوپر ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔

پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، ابھری ہوئی پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تیری خرابی ہو، کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو“ (معلوم ہوا کہ وہ اکثر حاضر باش خدمت مبارک بھی نہ تھاور نہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی)
سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں کسی کا دل چیر کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا، اور کہا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو اچھی طرح پڑھیں گے حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے کہ تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے (راوی کہتا ہے) میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ اگر میں اس قوم کو پا لوں تو میں انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔انتہی؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل توجہ ::
اس حدیث شریف میں :رسول اکرم ﷺ کی جناب میں گستاخی کرنے والے شخص کا حلیہ راوی صحابی نے یہ بتایا گیا ہے کہ :
اس نے گھنی داڑھی رکھی ہوئی تھی ،ازار اونچی کر کے پہنی ہوئی تھی ،،
اس حدیث میں یہ بات تو نہیں کہ ’‘ گستاخی کرنے والے کے رستے خروج پر آئندہ جو لوگ ہونگے ،ان کی علامت یہ چیزیں ہونگی؛
اس کی ایک مثال یہ کہ ’’ مدینہ کے ایک رہائشی نے اس گستاخی کا ارتکاب کیا ،،تو کیا اب مدینہ کا رہائشی ہونا بندے کو خارجی بنا دے گا ؟
اس کی نسل ۔۔یا۔۔قوم سے خوارج بننے والوں کی علامات تو خود نبی کریم ﷺ نے آگے بیان فرمائیں :جن میں یہ بھی ہے کہ وہ قرآن کو خوب سنوار کر کثرت سے پڑھیں گے ،
اگر اس علامت کو بھی مطلقاً کلیہ قرار دیا جائے ۔ توپھر ’‘ قرآن کو خوب صورت ’‘ پڑھنے والا ہر شخص خارجی ٹھہرا ؟
اور ظاہرہے ہوش و حواس میں کوئی مسلم ایسا نہیں کہہ سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس معاملہ کا دوسرا پہلو زیادہ خطرناک ،اور سنگینی لیئے ہوئے ہے ؛
وہ اس طرح کہ ’‘ گھنی داڑھی والے ’‘ اور ’‘ اونچی ازار رکھنے والے ’‘ تو سب سے پہلے جناب نبی کریم ﷺ تھے ،اور یہ بات سیرت و حدیث کے عام قاری سے بھی مخفی نہیں ؛ ۔ چہ جائیکہ ۔۔عالم۔۔ سے اوجھل ہو ۔۔۔
فعن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال :
( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ )رواه مسلم (رقم/2344)

وعَنْ الْبَرَاءِ رضي الله عنه قَالَ :( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ... كَثَّ اللِّحْيَةِ )رواه النسائي (رقم/5232) وصححه الألباني في " صحيح النسائي ".براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔ گھنی داڑھی والے تھے،،

وورد أيضا هذا الوصف : ( كث اللحية ) من حديث علي بن أبي طالب رضي الله عنه في " مسند الإمام أحمد " (2/102) طبعة مؤسسة الرسالة ، وحسنه المحققون ‘‘ اور مسند احمد میں بروایت آپ ﷺ کی داڑھی گھنی ہونے کا بیان و ثبوت ہے ‘‘
دیکھا آپ نے کہ اس ’’ گھنی داڑھی کو خوارج کی علامت بتانے سے۔۔۔ زد کہاں پڑتی ہے
.
یہی بات میں نے اس تھریڈ میں فورم کے ممبر "ابن داؤد" صاحب کو سمجھانے کے لئے کی تھی کہ ؛

جب تک کسی گروہ میں خوارج کی خوصوصیات "بدرجہ اتمام" موجود نہ ہوں ان پر خوارج ہونے کا الزام لگانا سراسر زیادتی ہے -دور حاضر میں ایسا کوئی گروہ وجود نہیں رکھتا جس میں خوارج کی یہ تمام صفات بیک وقت موجود ہوں جو احادیث نبوی میں سراہتاً بیان ہوئی ہیں - (واللہ اعلم )-

الله سب کو اپنی ہدایت سے نوازے (آمین)-
 
Top