• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کے بارے میں حکم؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
عبده بھائی ! شرمندہ نہ کریں ، اللہ آپ کوبرکت دے ، ان مسائل میں بحث و مباحثہ ہم آپ جیسے اہل علم اور اصحاب فکر و نظر سے سیکھتے ہیں ، پشاوری صاحب کے رجوع کو نظر انداز کریں ، اس پر اتنا زیادہ غور و فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اگر آپ کے پاس ان کا نمبر نہیں ہے تو میں آپ کو کہیں سے ان کا نمبر تلاش کردیتا ہوں ۔
محترم بھائی واللہ میں آپ کو جیسا سمجھتا ہوں وہی حقیقت میں بیان کیا تھا باقی شیخ حفظہ اللہ ایک تو یہاں نہیں ہیں سعودیہ میں ہیں اور وہاں بھی کسی سے رابطہ ممکن نہیں پس آپ کے حکم پر شیخ کےرجوع والی بحث کو ادھر بند کر دیتے ہیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو امین
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی میری اصلاح پر حریص ہونے پر اللہ آپ کو خلوص اور اجر عظیم عطا فرمائے امین
واياك
یہاں آپ میں اور مجھ میں چند باتوں پر اتفاق ہے اور چند میں اختلاف ہے
1-پہلی بات کہ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو بعض سلفی علماء کفر اعتقادی کہتے ہیں اور بعض غیر اعتقادی پس ایک عالم دوسرے کو اجتہادی غلطی پر تو کہ سکتا ہے مگر گمراہ یا تکفیری اور مرجیئہ نہیں کہ سکتا اس پر ہمارا اتفاق ہے
نہیں بھائی! یہاں ہمارا اتفاق نہیں ہے۔ تحكيم بغير ما انزل الله میں کفر اعتقادی ہی ہے، اور جو اسے کفر عملی قرار دیتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں، گمراہ ہیں، اور اور اسی تکفیر بلا حق کو اختیار کرنے والے کو تکفیری اور کہنا یا خوارج کے راستے پر قرار دینا بالکل صحیح ہے!
اور جہاں تک تحكيم بغير ما انزل الله کو کو اعتقادی کفر سے منسلک کرنے والوں کو مرجئہ قرار دینے کی بات ہے، تو یہ تو مخالفین نے ارجاء کی نئی تعریف نکالی ہے! وگرنہ مرجئی قرار دیئے جانے کے حقدار تو وہ لوگ ہیں جو اپنے مسجد و مدارس میں ایمان مجمل کی تعلیم دیتے ہیں، !! ایمان مجمل تو آپ کو معلوم ہوگا، لیکن قارئین کی آسانی کے لئے پیش کر دیتا ہوں:
اِيمانِ مجمل:
اٰمَنْتُ بِاﷲِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَآئِهِ وَصِفَاتِهِ وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِهِ اِقْرَارٌ م بِاللِّسَانِ وَتَصْدِيْقٌ م بِالْقَلْبِ.
’’میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے اسماء اور اپنی صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے، زبان سے اقرار کرتے ہوئے اور دل سے تصدیق کرتے ہوئے۔
یہ ہے اصل میں ارجاء!!
تحكيم بغير ما انزل الله کو اعتقادی کفر سے منسلک کرنے والوں کو اگر مرجئہ قرار دیا جائے تو مجھے نہیں معلوم کہ امت کے سلف سے بھی کوئی اس فتوے کی زد سے محفوظ رہے گا!!
لہٰذا میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ یہ مرجئہ مرجئہ کی رٹ لگانے والوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کیا جائے کہ آپ بھی سختی نہ کرو اور ہم بھی سختی نہ کریں!!
کیونکہ یہ معالہ راجح مرجوح کا نہیں!! یہ ان احکامات کا معاملہ نہیں کہ ایک عالم رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کو سنت قرار دیتا ہے ، اور ایک عالم رکوع کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑنے کو!!
یہ معاملہ ایمان و کفر کا ہے!! ، جس سے من قال لا اله الله محمد رسول الله کی جان و مال کے حلال و مباح ہی نہیں، بلکہ واجب القتل قرار دیئے جانے کا ہے!
اب ہر معاملہ کو اسی طرح اجتہادی غلطی کی چادر میں چھپا دیا جائے ، تو بتلائے کہ پھر جهم بن صفوان ، اور واصل بن عطاء کا کیا قصور ہے؟ انہوں نے بھی "اجتہاد" کیا! اور تو اور پھر ان خوارج بشمول ابن ملجم کا کیا قصور تھا، اس کا بھی تو "اجتہاد" ہی تھا!! ایک مثال اور لے لیں کہ پھر تو طاہر القادری صاحب کو بھی گمراہ نہیں کہنا چاہئے!! آخر وہ بھی تو شیخ الاسلام ہے! اس کی جہالت کو بھی" اجتہادی" غلطی قرار دے دیا کریں!!
لہٰذا ، انہیں اس معاملے میں گمراہ قرار دیا جانا بالکل صحیح ہے! اور جو خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے راستے کو اختیار کرے تو یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ یہ خوارج کے نقش قدم پر ہیں!!
2-تاتاری حکمرانوں کے کافر ہونے پر ہمارا اتفاق ہے البتہ اسکی علت پر اختلاف ہو سکتا ہے
جی ! میں نے تو تاتاریوں کی تکفیر کی علت کا ثبوت پیش کردیا ہے!! اب اس پر آپ کو اختلاف ہے تو کیوں ہے؟؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جو تاتاریوں کی تکفیر کرتے ہیں وہ خود یہ علتیں بیان کرتے ہیں!! پھر علت پر اختلاف چہ معنی دارد!!
3-بعض مسلمان حکمرانوں میں تاتاری حکمرانوں والے کفریہ عقائد سب یا کچھ کے موجود ہونے پر سلفی علماء میں اختلاف ہے کچھ کے ہاں وہ موجود ہیں اور کچھ کے ہاں نہیں ہیں پس اگر کوئی تاتاری حکمرانوں کے اوپر مذکورہ کفریہ عقائد کو آج کے بعض مسلم حکمرانوں میں موجود سمجھتا ہے تو وہ اسکا اجتہاد ہے اور کوئی نہیں سمجھتا تو وہ اسکا اجتہاد ہے البتہ کوئی سلفی عالم دوسرے گروہ کو اس سلسلے میں گمراہ یا خارجی و مرجیئہ کہنے میں درست نہیں ہو گا
کون سے مسلمان حکمران نے اس طرح کے عقائد کا اقرار کیا ہے؟ آپ بھی جانتے ہیں کہ کسی کا عقیدہ بغیر اس کے اقرار کے ہم تو نہیں جان سکتے!! اب اس معاملے میں کون سا اجتہاد؟ کہ کوئی اجتہاد کرکے کسی کے عقیدہ کو جانچتا رہے!! کہ شاید اس کے دل میں یہ عقیدہ ہے!! یا شاید وہ اس عقیدہ کا حامل ہے!! عقیدے کے حوالے سے جب تک کسی شخص کا کوئی اقرار نہ ہوگا، یعنی کلام نہ ہوگا ، کسی کو کوئی تخیلاتی گھوڑے چلانے کی کوئی اجازت نہیں!!! عقائد کے حوالے سے اقرار یعنی کلام پر حکم کے معاملہ میں اختلاف ہو سکتا ہے، اسے ضرور اجتہادی غلطی کہا جا سکتا ہے!!
اب جن دو مسائل کا آپ نے ذکر کیا ہے اس میں پہلے پر آپ اور میں اپنے دلائل یہاں دے کر بحث کر سکتے ہیں البتہ یہاں حالات کے تقاضے کے مطابق شاید ایسا کرنا درست نہ ہواور دوسرا جو تکفیر معین کا آپ نے کہا ہے تو وہ اشکال پھر خود تاتاریوں کی تکفیر میں پھر کیوں نہیں کیا جاتا یعنی تاتاریوں کی تو ہم اوپر مذکورہ کفریہ عقائد کی وجہ سے تکفیر معین کے قانون کو نظر انداز کر جاتے ہیں مگر یہاں اس کی بات چھیڑنا چاہتے ہیں اگر کوئی کہے کہ انکی تکفیر معین تو علماء نے کی ہے تو یہی صورتحال تو آج بھی موجود ہے پھر فرق کیا ہے
تاتاریوں کی تکفیر کا معاملہ آپ قادیانیوں کی تکفیر کے مشابہ سمجھیں!! کہ جس طرح قادیانیوں کو علماء نے پکی ٹھکی دلیل کی بنیاد پر کافر قرار دیا ہے، اسی طرح کا معاملہ تاتاریوں کے ساتھ بھی تھا۔ جو آپ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت میں دیکھا ہوگا!
اسی طرح پکی ٹھکی دلیل کے ساتھ کل بھی تکفیر کی جا سکتی تھی ، آج بھی کی جا سکتی ہے اور کل بھی کی جا سکے گی!! لیکن دلیل ایسی پکی ٹھکی ہونی چاہئے!!نہ کہ خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تکفیر کر دی جائے!! صرف اس بنیاد پر کہ چونکہ علماء نے تکفیر کی ہے تو کوئی بات نہیں جو مانتا ہے مانے جو نہیں وہ نہ مانے!! پھر یہ معاملہ آپ بریلویوں کے بارے میں بھی اختیار کریں!! کہ وہ اہل الحدیث علماء کو کافر قرار دیتے ہیں، بشمول محمد بن عبد الوهاب رحمۃ اللہ کے!! نہ صرف اہل الحدیث، بلکہ دیوبندی حضرات بھی ان کے تکفیری تیر سے نہیں بچتے!! اور پھر کبھی وہ ان "مرتدین" کے خلاف تلوار اٹھا لیں ، تو انہیں بھی گمراہ نہ کہنا!! کیونکہ وہ بھی تو علماء ہیں!!!
لہٰذا جس معاملے میں کسی عالم کی گمراہی سامنے آئے گی وہ بیان کی جائے گی!! اور اسے اس معاملہ میں کم سے کم گمراہ ضرور قرار دیا جائے گا!!
آپ نے علم الاسماء الرجال سے تو واقف ہونگے ، آپ کو ایک نہیں کئی ایسی مثالیں ملیں گے، کہ راویوں کو گمراہ، مرجئہ ، قدریہ ، خارجی، وغیرہ قرار دیا گیا ہے!! اور ان میں علماء بھی تھے!!
ایک مثال عرض کردوں ! ویسے میرے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ مثال مجھے بہت ہی شدید و سخت یاد آتی ہے! لیکن خیر عرض پھر بھی کئے دیتا ہوں:
آپ اس ایمان مجمل کو ماننے والوں کے امام اعظم کو ہی دیکھ لیں!! انہیں گمراہ بھی کہا گیا ہے، گمراہ کن بھی کہا گیا ہے، مرجئہ بھی کہا گیا ہے! اور یہاں تک کہ خوارج کا راستہ اختیار کرنے کی جرح بھی ہے!!
وضاحت:محترم بھائی کچھ تکفیر تو جائز ہوتی ہے اور کچھ نا جائز ہوتی ہے اور جو یہ جائز تکفیر بھی ہے یہ بھی سب علماء کے ہاں نہیں بلکہ کچھ کے ہاں جائز ہوتی ہے البتہ آج کل جو پاکستان میں پاکستانی طالبان (جن کے عقائد میں ہی خرابیاں ہیں) وہ دجہاد کو غلط طریقے سے کر کے اسکو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں تو ان کو کچھ نہ کچھ سپورٹ اس جائز اور نا جائز تکفیر دونوں سے ملتی ہے اس میں کوئی انکار نہیں کر سکتا یعنی جائز تکفیر بھی انکے غلط کام کو پھیلانے کا سبب بنتی ہے پس سد ذرائع کو دیکھتے ہوئے ہم جائز تکفیر (بعض کے ہاں جائز) پر بھی توقف کر سکتے ہیں البتہ میرے خیال میں یہ بات توقف کی حد تک ہو تو بہتر ہے کیونکہ میرے خیال میں دوسری طرف اگر جائز تکفیر کو مطلقا حرام کہ کر اس کا ارتکاب کرنے والوں کو تکفیری اور خارجی جیسے الفاظ سے نوازیں گے تو وہ جب اپنے پاس دلائل بھی رکھتے ہوں گے اور علماء کی تائید بھی تو وہ لازمی شدید ردعمل دکھائیں گے اور اس کا نتیجہ وہ بھی ہو سکتا ہے جو نماز میں پاوں سے پاوں ملانے والے حنفی اور اہل حدیث کا بعض دفعہ ہوتا ہے یعنی دونوں ہی حجم سے کم یا زیادہ کھول کر شریعت کے خلاف کر رہے ہوتے ہیں پس میرے خیال میں جب ہم انکو جائز اجتہاد کی اجازت دیں گے تو وہ ہماری بات کو سنیں گے ورنہ شیر آ گیا شیر آ گیا کی طرح کہیں وہ ہمارے دلائل پر توجہ دینا ہی نہ چھوڑ دیں اور پھر وہ گمراہی کی گہراہیوں میں گرتے ہی نہ چلے جائیں اور یہی کچھ آج ہو رہا ہے یہ میری رائے ہے اور فوق کل ذی علم علیم والی بات تو آپ جانتے ہیں
عبدہ بھائی! تکفیری کسی ایسے شخص کو نہیں کہا جاتا ، جو تکفیر بالحق کرتا ہے! تکفیری اسے کہا جا تا ہے جو تکفیر بلاحق کرتا ہے!! اور وہ بھی یہ نہیں کہ اجتہادی غلطی کی بناء پر، بلکہ جو خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تکفیر کرتا ہے!

نوٹ: یہ تو ہوئی اب تک کی تمہیدی بحث۔ اب اگر ہم اصل مدعا کی طرف آجائیں تو بہتر ہو گا!
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
میرے خیال سے ابن داود بھائی کی پوسٹ اٹھا کر نئے تھریڈ میں منتقل کر دی جائے اور اس بحث کی تکمیل وہاں کریں بے شک عبدہ بھائی کے بھی اس موضوع پر کمنٹ اٹھا لیئے جائیں اور بحث خوارج کے موضوع پر ہی رہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میرے خیال سے ابن داود بھائی کی پوسٹ اٹھا کر نئے تھریڈ میں منتقل کر دی جائے اور اس بحث کی تکمیل وہاں کریں بے شک عبدہ بھائی کے بھی اس موضوع پر کمنٹ اٹھا لیئے جائیں اور بحث خوارج کے موضوع پر ہی رہے
محترم بھائی میرے خیال میں خوارج کے حکم سے پہلے جو میں نے کہا تھا کہ خوارج کی پہچان کرنا لازم ہے اس کی مناسبت یہ یہ بحث موضؤع سے غیر متعلقہ نہیں ہے کیونکہ جس تکفیر کی وجہ سے محترم ابن داود بھائی کسی کو خارجی کہنا چاہ رہے ہیں میں انکو خارجی نہیں سمجھتا تو پھر حکم ہم کس پر لگائیں گے پہلے محکوم علیہ کا تعین ہو جائے تو بہتر رہے گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم ابن داود بھائی ویسے تو میں نے بات ختم کر دی تھی البتہ اب مزید آپ ہم بھائیوں کو سمجھانا چاہتے ہیں تو ہم آپ کے اس سلسلے میں مشکور ہیں کہ ہمارے اشکالات دور کر دیں اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نہیں بھائی! یہاں ہمارا اتفاق نہیں ہے۔ تحكيم بغير ما انزل الله میں کفر اعتقادی ہی ہے، اور جو اسے کفر عملی قرار دیتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں، گمراہ ہیں، اور اور اسی تکفیر بلا حق کو اختیار کرنے والے کو تکفیری اور کہنا یا خوارج کے راستے پر قرار دینا بالکل صحیح ہے!
اور جہاں تک تحكيم بغير ما انزل الله کو کو اعتقادی کفر سے منسلک کرنے والوں کو مرجئہ قرار دینے کی بات ہے، تو یہ تو مخالفین نے ارجاء کی نئی تعریف نکالی ہے!
تحكيم بغير ما انزل الله کو اعتقادی کفر سے منسلک کرنے والوں کو اگر مرجئہ قرار دیا جائے تو مجھے نہیں معلوم کہ امت کے سلف سے بھی کوئی اس فتوے کی زد سے محفوظ رہے گا!!
یہاں جو آپ سے لاشعوری غلطی ہو رہی ہے اسکی پہلے درستگی کر دیں تاکہ میں اس پہلے نقطے پر صحیح سمت میں بات کر سکوں وہ یہ کہ آپ نے عملی کفر کی جگہ اعتقادی کفر کے الفاظ لکھ دیئے اور اعتقادی کفر کی جگہ عملی کفر کے الفاظ لکھ دیئے ہیں پس حقیقت میں آپ اعتقادی کفر کے قائل نہیں بلکہ میں اور شیخ امین اللہ اعتقادی کفر کے قائل ہیں جس سے مسلمان اسلام سے خارج ہو جاتا ہےجبکہ آپ عملی کفر کے قائل ہیں کہ جس سے مسلمان اسلام سے خارج نہیں ہوتا پس انکی اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا
باقی نکات پر میں باری باری لکھتا ہوں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم ابن داود بھائی ویسے تو میں نے بات ختم کر دی تھی البتہ اب مزید آپ ہم بھائیوں کو سمجھانا چاہتے ہیں تو ہم آپ کے اس سلسلے میں مشکور ہیں کہ ہمارے اشکالات دور کر دیں اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے

یہاں جو آپ سے لاشعوری غلطی ہو رہی ہے اسکی پہلے درستگی کر دیں تاکہ میں اس پہلے نقطے پر صحیح سمت میں بات کر سکوں وہ یہ کہ آپ نے عملی کفر کی جگہ اعتقادی کفر کے الفاظ لکھ دیئے اور اعتقادی کفر کی جگہ عملی کفر کے الفاظ لکھ دیئے ہیں پس حقیقت میں آپ اعتقادی کفر کے قائل نہیں بلکہ میں اور شیخ امین اللہ اعتقادی کفر کے قائل ہیں جس سے مسلمان اسلام سے خارج ہو جاتا ہےجبکہ آپ عملی کفر کے قائل ہیں کہ جس سے مسلمان اسلام سے خارج نہیں ہوتا پس انکی اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا
باقی نکات پر میں باری باری لکھتا ہوں
میں وضاحت کردوں کہ :
نہیں بھائی! یہاں ہمارا اتفاق نہیں ہے۔ تحكيم بغير ما انزل الله میں کفر اعتقادی ہی ہے، اور جو اسے کفر عملی قرار دیتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں، گمراہ ہیں، اور اور اسی تکفیر بلا حق کو اختیار کرنے والے کو تکفیری اور کہنا یا خوارج کے راستے پر قرار دینا بالکل صحیح ہے!
یعنی کہ تحكیم بغیر ما انزل الله میں اعتقادی ہونے کی صورت میں كفر اکبر کا حکم لگایا جا سکتا ہے، نہ کہ تحكيم بغير ما انزل الله کے صرف عملی ہونے کی صورت میں! ہم شاید اسے الگ الگ انداز میں دیکھ رہے تھے۔
اگر آپ تحكيم بغير ما انزل الله میں اعتقادی ہونے کی صورت میں ہی کفر اکبر کا حکم لگانے کے قائل ہیں تو میرا آپ کا مؤقف ایک ہی ہے!!
عبدہ بھائی! شیخ امین اللہ پشاوری کو آپ نے پھر بیچ میں ڈال دیا!! ابتسامہ:)

ویسے میں تو سمجھ رہا تھا کہ شیخ امین اللہ پشاوری کے متعلق بات ختم ہو گئی! لیکن اصل مدعا تو ابھی شروع ہونا ہے، کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے اہل سنت کے منہج کے تحت تکفیر کرتے ہیں، یا انہوں نے اس مسئلہ میں خوارج کی روش کو اختیار کیا ہوا ہے!!
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
ابن داود بھائی یہاں غلطی ہو رہی ہے اصطلاحات کی جہاں تک میرا گمان ہے
آپ اعتقادی کفر سے مراد لے رہے ہیں کہ حاکم یہ عقیدہ رکھے کہ حکم بغیر ما انزل اللہ بھی جائز ہے اور بما انزل اللہ بھی جائز ہے یا وہ تو افضل ہے لیکن یہ بھی جائز ہے جبکہ عبدہ بھائی اعتقادی کفر سے مراد کفر اکبر لے رہے ہیں
یاد رہے کفر عملی اصطلاح میں کفر اصغر کو کہا جاتا ہے
جہاں تک مجھے اندازہ ہوا ہے بات کچھ ایسی ہے
لا مشاحۃ فی الاصطلاح درست ہے لیکن اصطلاح کا مدمقابل کو پتا بھی تو ہونا چاھیئے
چلیں اگر پہلے یہ بحث چلنی ہے تو چلائیں میرے خیال سے اس پر بڑی بحث ہو چکی اس کو رہنے دیں پہلے خارجی کی تعریف کر لیں اس تعریف میں جو جو آئے گا اس پر حکم لگ جائے گا
مثلا خارجی کی کوئی تعریف بیان کریں اور دیکھ لیں کیا اس تعریف میں خارجیوں کے علاوہ کوئی متفقہ غیر خارجی جماعت تو داخل نہیں ہوتی سلف میں سے یا کوئی خارجی متفقہ جماعت اس تعریف سے باہر تو نہیں رہ جاتی اختلافی خارجی پھر آ جائیں گے بیچ میں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ اعتقادی کفر سے مراد لے رہے ہیں کہ حاکم یہ عقیدہ رکھے کہ حکم بغیر ما انزل اللہ بھی جائز ہے اور بما انزل اللہ بھی جائز ہے یا وہ تو افضل ہے لیکن یہ بھی جائز ہے جبکہ عبدہ بھائی اعتقادی کفر سے مراد کفر اکبر لے رہے ہیں
بلکل یہی معاملہ ہو رہا ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
'
تحكيم بغير ما انزل الله میں کفر اعتقادی ہی ہے، اور جو اسے کفر عملی قرار دیتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں، گمراہ ہیں، اور اور اسی تکفیر بلا حق کو اختیار کرنے والے کو تکفیری اور کہنا یا خوارج کے راستے پر قرار دینا بالکل صحیح ہے!
تحكيم بغير ما انزل الله کو اعتقادی کفر سے منسلک کرنے والوں کو اگر مرجئہ قرار دیا جائے تو مجھے نہیں معلوم کہ امت کے سلف سے بھی کوئی اس فتوے کی زد سے محفوظ رہے گا!!
محترم ابن داود بھائی اصل میں مجھے مندرجہ ذیل دو باتیں واضح نہیں ہوئیں تھیں جس پر آپ کو درستگی کا کہا تھا خیر یہ تو اصطلاحات کا معاملہ ہے اصل بات تو آپ بھی جانتے ہیں کہ ٖآپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور میں کیا کہنا چاہتا ہوں پس اصل بحث پر میں اپنی رائے دیتا ہوں

آپ کے اشکالات جو اوپر پوسٹ نمبر 82 میں آپ نے کیے ہیں انکا نمبر وار جواب دینے سے پہلے میں کچھ سوالات رکھنا چاہوں گا جو بہت سے اشکالات کو دور کرنے کا سبب بنیں گے ان شاءاللہ

اشکالات دور کرنے کے لئے میرے سوالات:

تحکیم بغیر ما انزل اللہ سے یہاں میری مراد صرف وضعی قوانین کا کسی ملک پر نفاذ ہے جیسا کہ پاکستان میں پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین نافذ ہیں باقی تحکیم بغیر ما انزل اللہ میرا موضوع نہیں ہے اب ان وضعی قوانین کو نافذ کرنے والوں پر شرعی حکم کے بارے سلفی علماء کے دو گروہ ہیں پہلا گروہ اسکو ہر حال میں کفر سمجھتا ہے چاہے وہ اسکے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے یا نہ رکھے مثلا امین اللہ پشاوری، حامد کمال الدین (حافظ سعید حفظہ اللہ کے چھوٹے بھائی) ، سعودی مفتی اعظم محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ، شیخ فوزان رحمہ اللہ وغیرہ۔ اسکے ساتھ ساتھ سلفی علماء کا دوسرا گروہ ان وضعی قوانین کے نفاذ کو اس وقت کفر اکبر سمجھتا ہے جب اسکے نفاذ کو جائز سمجھتے ہوئے کیا جائے ورنہ وہ اسکے نفاذ کو کفر دون کفر سمجھتا ہے میرے خیال میں ان باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں ہو گا
اب میں اس سلسلے میں اپنے سوالات رکھتا ہوں

سوال نمبر 1:
میرا سوال ہے کہ
پہلا گروہ جو وضعی قوانین کے نفاذ کو ہر حال میں کفر اکبر سمجھتے ہیں انکے اس عمل کے بارے دوسرے سلفی علماء مندرجہ ذیل میں سے کون سا حکم لگاتے ہیں
× یہ پہلا علماء کا گروہ اجتہادی غلطی پر ہے یا
× یہ علماء گمراہ اور خارجی ہیں
×کسی سلفی عالم نے اسکے کفر اکبر ہونے کا فتوی دیا ہی نہیں ہے

آخری صورت (کہ کسی عالم نے ایسا فتوی دیا ہی نہیں) پر میرے لئے بحث کرنا عبث رہے گی کیونکہ میرے نزدیک کوے کو سفید کہنے والے کو سمجھانا ممکن نہیں ہے

سوال نمبر 2:
اوپر جن دو سلفی علماء کے گروہوں کا ذکر ہے وہ وضعی قوانین کے مرتکب کے بارے حکم میں اختلاف تب کرتے ہیں جب وہ قوانین نافذ کرنے والا اس نفاذ کرنے کو جائز نہ سمجھتا ہو لیکن اگر ان قوانین کو نافذ کرنے والا انکو جائز بھی سمجھتا ہو تو پھر تمام سلفی علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایسا کرنے والا کفر اکبر کا مرتکب ہو گا
پس اس سلسلے میں میرا سوال ہے کہ
پاکستان کے حکمرانوں کے بیانا ت کو اٹھا کر اگر دیکھا جائے تو یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ وہ ان قوانین کو نافذ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اب اس طرح جائز سمجھ کر وضعی قوانین نافذ کرنے کی وجہ سے کوئی انکو کفر اکبر کا مرتکب جانے تو اس پر تو دوسرے گروہ والے کو بھی متفق ہونا چاہئے تو پھر دوسرے گروہ والے مندرجہ ذیل میں سے کس دلیل کے تحت اسکو کفر دون کفر سمجھ رہے ہوتے ہیں
×دوسرے گروہ کے ہاں ایسا کوئی پیغام نہیں ملتا جس سے یہ پتا چلتا ہو کہ یہ ان وضعی قوانین کے نافذ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں یا
× ان دوسرے گروہ والوں کے ہاں جائز سمجھ کر وضعی قوانین نافذ کرنے والا بھی کفر اکبر کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ کفر دون کفر کا مرتکب


سوال نمبر 3:
سعودی مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ نے وضعی قوانین کے نافذ کرنے والے کو کفر اکبر کا مرتکب کہتے ہوئے یہ کہا کہ یہاں پر ہمیں انکے اعتقاد کو دیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کچھ نواقض ایسے ہوتے ہیں جن میں اعتقاد کو دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ انسان ایسا کرتا ہی تب ہے جب وہ اسکے درست ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو اسی طرح ایک دفعہ شیخ امین اللہ پشاوری کے سامنے میں اور محترم طاہر اسلام عسکری بھائی اور محترم فہد اللہ مراد بھائی بیٹھے تھے تو اسی بات پر سوال ہو رہا تھا کہ آج کے عرب علماء اس وضعی قوانین کے نفاذ کے عمل میں اعتقاد کی شرط لازمی لگاتے ہیں تو شیخ نے کہا تھا کہ مجھے ان پر حیرت ہوتی ہے کہ یہی عرب علماء نماز کے معاملہ میں تو اعتقاد کی شرط کے بغیر کفر کا حکم لگاتے ہیں مگر یہاں وضعی قوانین کے مفاذ کے معاملہ میں اعتقاد کی شرط لگاتے ہیں
ان دونوں شیوخ کی بات درست ہونے یا غلط ہونے سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کی وجہ سے اٹھنے والے ایک سوال کا جواب چاہئے کہ
کیا اعتقاد کیا ہر معاملہ میں دیکھا جائے گا یا بعض دفعہ صرف کفر بواح کا عمل دیکھ کر ہی کفر کا حکم لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ جادو ، گستاخی رسول یا پھر عرب علماء کا بے نمازی کے کفر کا حکم وغیرہ-
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
لہٰذا میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ یہ مرجئہ مرجئہ کی رٹ لگانے والوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کیا جائے کہ آپ بھی سختی نہ کرو اور ہم بھی سختی نہ کریں!!
کیونکہ یہ معالہ راجح مرجوح کا نہیں!! یہ ان احکامات کا معاملہ نہیں کہ ایک عالم رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کو سنت قرار دیتا ہے ، اور ایک عالم رکوع کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑنے کو!!
یہ معاملہ ایمان و کفر کا ہے!! ، جس سے من قال لا اله الله محمد رسول الله کی جان و مال کے حلال و مباح ہی نہیں، بلکہ واجب القتل قرار دیئے جانے کا ہے!
اب ہر معاملہ کو اسی طرح اجتہادی غلطی کی چادر میں چھپا دیا جائے ، تو بتلائے کہ پھر جهم بن صفوان ، اور واصل بن عطاء کا کیا قصور ہے؟ انہوں نے بھی "اجتہاد" کیا! اور تو اور پھر ان خوارج بشمول ابن ملجم کا کیا قصور تھا، اس کا بھی تو "اجتہاد" ہی تھا!! ایک مثال اور لے لیں کہ پھر تو طاہر القادری صاحب کو بھی گمراہ نہیں کہنا چاہئے!! آخر وہ بھی تو شیخ الاسلام ہے! اس کی جہالت کو بھی" اجتہادی" غلطی قرار دے دیا کریں!!
آپ نے علم الاسماء الرجال سے تو واقف ہونگے ، آپ کو ایک نہیں کئی ایسی مثالیں ملیں گے، کہ راویوں کو گمراہ، مرجئہ ، قدریہ ، خارجی، وغیرہ قرار دیا گیا ہے!! اور ان میں علماء بھی تھے!!
ایک مثال عرض کردوں ! ویسے میرے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ مثال مجھے بہت ہی شدید و سخت یاد آتی ہے! لیکن خیر عرض پھر بھی کئے دیتا ہوں:
آپ اس ایمان مجمل کو ماننے والوں کے امام اعظم کو ہی دیکھ لیں!! انہیں گمراہ بھی کہا گیا ہے، گمراہ کن بھی کہا گیا ہے، مرجئہ بھی کہا گیا ہے! اور یہاں تک کہ خوارج کا راستہ اختیار کرنے کی جرح بھی ہے!!
محترم ابن داود بھائی آپ کی اوپر تمام باتوں کا جواب میں تب ممکن ہے جب آپ میرے اوپر والی پوسٹ کے سوال نمبر ایک کا جواب دیں گے جہاں تک ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ کہنے کی بات ہے تو وہ درست ہے کچھ نے ایسا کہا اور دوسروں سلفی حضرات نے اسکا رد بھی کیا ہوا ہے اور رد کرنے والے زیادہ ہیں البتہ ابن ملجم یا طاہر القادری وغیرہ کے بارے شاید اختلاف نہ ہو پس میرا اور آپ کا اختلاف اسی میں ہے کہ میرے نزدیک جنہوں نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گمراہ کہا اور جنہوں نے انکو رحمہ اللہ کہا میرے ہاں وہ دونوں سلفی علماء قابل قدر ہیں البتہ ان میں ایک اجتہادی غلطی پر ہے اسی طرح میری نزدیک محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ یا شیخ امین اللہ یا حامد کمال الدین وغیرہ یہ سب بھی قابل قدر ہیں جس طرح ابن باز رحمہ اللہ یا شیخ البانی رحمہ اللہ قابل قدر ہیں البتہ آپ کا ان دونوں گروہوں کے علماء کے بارے موقف سامنے آنے پر میں اپنے موقف کا دفاع کروں گا پس آپ سے انتہائی مودبانہ گزارش ہے کہ پمیرے سوال نمبر ایک کا جواب دے دیں جزاکم اللہ خیرا

جی ! میں نے تو تاتاریوں کی تکفیر کی علت کا ثبوت پیش کردیا ہے!! اب اس پر آپ کو اختلاف ہے تو کیوں ہے؟؟ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جو تاتاریوں کی تکفیر کرتے ہیں وہ خود یہ علتیں بیان کرتے ہیں!! پھر علت پر اختلاف چہ معنی دارد!!
کون سے مسلمان حکمران نے اس طرح کے عقائد کا اقرار کیا ہے؟ آپ بھی جانتے ہیں کہ کسی کا عقیدہ بغیر اس کے اقرار کے ہم تو نہیں جان سکتے!! اب اس معاملے میں کون سا اجتہاد؟ کہ کوئی اجتہاد کرکے کسی کے عقیدہ کو جانچتا رہے!! کہ شاید اس کے دل میں یہ عقیدہ ہے!! یا شاید وہ اس عقیدہ کا حامل ہے!! عقیدے کے حوالے سے جب تک کسی شخص کا کوئی اقرار نہ ہوگا، یعنی کلام نہ ہوگا ، کسی کو کوئی تخیلاتی گھوڑے چلانے کی کوئی اجازت نہیں!!! عقائد کے حوالے سے اقرار یعنی کلام پر حکم کے معاملہ میں اختلاف ہو سکتا ہے، اسے ضرور اجتہادی غلطی کہا جا سکتا ہے!!
محترم بھائی میرے نزدیک واقعی علت کا اختلاف ہے اگر آپ کو نہیں لگتا تو میں اسکو آج کے حکمران اور تاتاری حکمران کے موازنہ کی صورت میں سمجھانا چاہوں گا
ہمارے ہاں ایمان تین چیزوں کا مجموعہ ہے یعنی دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار اور عمل بالجوارح۔ پس ہم تاتاریوں اور موجودہ حکمرانوں کی دلی حالت تو کسی صورت نہیں جان سکتے البتہ عمل اور قول دیکھ کر کفر کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور یہ فیصلہ عام آدمی بھی نہیں کر سکتا صرف جید عالم ہی کر سکتا ہے اب آپ نے جو نشانیاں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول سے دکھائی ہیں چاہے وہ عمل کی صورت میں ہیں یا قول کی صورت میں وہ آج کے حکمرانوں میں بھی دیکھ لیں
جہاں تک آپ کی بات کہ کون سے آج کے حکمران نے ان عقائد کا اقرار کیا ہے تو پھر یہ سوال تاتاریوں کے کافر ہونے پر بھی اٹھتا ہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کون سے تاتاری حکمران کا ذاتی قول نقل کیا ہے جس میں انہوں نے ان عقائد کا اقرار کیا ہو ورنہ خالی گواہی تو شیخ امین اللہ کی اور ہماری جماعۃ لدعوہ کے طلحہ سعید حفظہ اللہ کی اور سیکڑوں دوسرے علماء کی موجود ہے جو میں یہاں آپ کے سامنے پیش کر سکتا ہوں کہ یہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں

تاتاریوں کی تکفیر کا معاملہ آپ قادیانیوں کی تکفیر کے مشابہ سمجھیں!! کہ جس طرح قادیانیوں کو علماء نے پکی ٹھکی دلیل کی بنیاد پر کافر قرار دیا ہے، اسی طرح کا معاملہ تاتاریوں کے ساتھ بھی تھا۔ جو آپ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت میں دیکھا ہوگا!
اسی طرح پکی ٹھکی دلیل کے ساتھ کل بھی تکفیر کی جا سکتی تھی ، آج بھی کی جا سکتی ہے اور کل بھی کی جا سکے گی!! لیکن دلیل ایسی پکی ٹھکی ہونی چاہئے!!نہ کہ خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تکفیر کر دی جائے!! صرف اس بنیاد پر کہ چونکہ علماء نے تکفیر کی ہے تو کوئی بات نہیں جو مانتا ہے مانے جو نہیں وہ نہ مانے!! پھر یہ معاملہ آپ بریلویوں کے بارے میں بھی اختیار کریں!! کہ وہ اہل الحدیث علماء کو کافر قرار دیتے ہیں، بشمول محمد بن عبد الوهاب رحمۃ اللہ کے!! نہ صرف اہل الحدیث، بلکہ دیوبندی حضرات بھی ان کے تکفیری تیر سے نہیں بچتے!! اور پھر کبھی وہ ان "مرتدین" کے خلاف تلوار اٹھا لیں ، تو انہیں بھی گمراہ نہ کہنا!! کیونکہ وہ بھی تو علماء ہیں!!!
لہٰذا جس معاملے میں کسی عالم کی گمراہی سامنے آئے گی وہ بیان کی جائے گی!! اور اسے اس معاملہ میں کم سے کم گمراہ ضرور قرار دیا جائے گا!!
محترم بھائی پکی ٹھٹی دلیل کا ہی تو تقاضا کیا ہے کہ اوپر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کون سی پکی ٹھٹھی دلیل دی ہے جو شیخ امین اللہ یا محترم طلحہ سعید حفظہ اللہ نے نہیں دی

عبدہ بھائی! تکفیری کسی ایسے شخص کو نہیں کہا جاتا ، جو تکفیر بالحق کرتا ہے! تکفیری اسے کہا جا تا ہے جو تکفیر بلاحق کرتا ہے!! اور وہ بھی یہ نہیں کہ اجتہادی غلطی کی بناء پر، بلکہ جو خوارج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تکفیر کرتا ہے!
جزاکم اللہ خیرا محترم بھائی یہی میں کہنا چاہتا ہوں کہ جو عالم کسی اجتہادی غلطی کی بنیاد پر کسی کی تکفیر کرتا ہے تو اسکو خارجی اور تکفیری نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس طرح ہم موحدین کا اپنا نقصان ہوتا ہے اتفاق ختم ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تعین کون اور کیسے کرے گا کہ فلاں تکفیر اجتہادی غلطی کی بنیاد پر ہے اور فلاں خارجی ہونے کی وجہ سے ہے پس میرے نزدیک تو جو علماء تکفیر کے فتوی کے بعد بھی اہل سنت میں مقبول رہے ہوں اور انہوں نے دلائل کی بنیاد پر ہی تکفیر کی ہو تو وہ خآرجی نہیں ہوں گے واللہ اعلم
 
Top