• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوبصورتی سے محبت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خوبصورتی سے محبت

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ، قَالَ رَجُلٌ: اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا، وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ۔ اَلْکِبْرُ: بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ۔))1
''جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت نہیں جائے گا'' ایک آدمی کہنے لگا :بلاشبہ آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور جوتا اچھا ہو۔ فرمایا یقینا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو محبوب رکھتا ہے۔ تکبر حق کا انکار کرڈالنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔''
إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ: ... اس کا مفہوم بیان کیا گیا ہے: اللہ رب کائنات کا ہر معاملہ خوبصورت ہے اور وہ خوبصورت ناموں، کامل اور جمیل صفات سے متصف ہے۔
یہ معنی بھی کیا گیا ہے کہ جمیل بمعنی مجمل (خوبصورت کیا گیا) جیسے کریم بمعنی مکرم (عزت کیا گیا) اور سمیع بمعنی مسمع ہے (جس کی بات سنی جائے)
بعض لوگ جمیل بمعنی جلیل یعنی بزرگ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا معنی نور اور رونق ولا ہے یعنی ان دونوں چیزوں کا وہ مالک ہے۔
ایک معنی یہ بھی کیا گیا ہے کہ تمہاری طرف شفقت اور پیار کی نظر کرتے ہوئے تمہارے ساتھ عمدہ اور خوبصورت افعال کرنے والا ہے کہ تمہیں آسان عمل کا مکلف بنایا اور اس پر مدد بھی کرتا ہے نیز ثواب بھی عطاء کرتا ہے۔
اگر تمام مخلوق کو سب سے خوبصورت صورت پر فرض کرلیا جائے اور سب کی صورت بھی ایک ہی ہو تو پھر بھی ان کے ظاہری اور باطنی جمال کی نسبت رب تعالیٰ کے جمال کے مقابلہ میں کمزور چراغ کی سورج کے مقابلہ سے بھی کم ہے۔
اللہ تعالیٰ کے جمال میں یہ بات ہی کافی ہے کہ اگر وہ اپنے چہرے سے پردہ ہٹا لے تو مخلوقات پر جہاں تک اس کی نظر پہنچے گی تو وہ اشیاء جلتی جائیں گی، اس کے جمال میں یہ بات بھی کافی ہے کہ دنیا و آخرت کا جتنا بھی ظاہری اور باطنی جمال ہے صرف اور صرف اس کی کاری گری کے نشانات سے ہے چنانچہ جس سے یہ خوبصورتی صادر ہوئی ہے اس کی خوبصورتی کے متعلق کیا گمان ہوگا؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب الإیمان، باب : تحریم الکبر، رقم : ۶۹۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الجمال: اس لفظ کے تحت ہر چیز کی خوبصورتی آجاتی ہے۔ باطنی جمال، اخلاق حسنہ اور اچھی صفات اور ظاہری خوبصورتی سے مراد کپڑے، ہیئت، خوش چہرہ، اچھی کلام، عمدہ آواز اور افعال حسنہ ہیں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ اللّٰہَ یُحِبَّ أَنْ یُّرٰی أَثْرُ نِعْمَتِہِ عَلٰی عَبْدِہِ۔))1
'' بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمت کے نشانات دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ''
یعنی اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اظہار اپنے بندے سے دیکھ کر خوش ہوتا ہے کیونکہ یہ چیز اس جمال کے تحت آتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے نیز اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کے بدلہ میں شکریہ ادا ہوتا ہے اور یہ جمالِ باطنی میں شامل ہے۔
صورت لباس اور ہیئت میں جمال تین طرح کا ہوتا ہے۔
(۱)... جس کی وجہ سے تعریف ہو
(۲)... جس کے ذریعہ مذمت ہو
(۳)... اس کا تعلق نہ تو مدح سے ہو اور نہ ہی مذمت سے ہو۔
پہلی قسم سے مراد وہ جمال ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری پر تعاون کرتا ہو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ وفد کو ملنے کے لیے ظاہری بناوٹ بھی خوبصورت بنایا کرتے تھے۔ جنگ کے لیے آلات حرب کا لباس اور جنگ کے دوران ریشمی کپڑے پہننا اور اس میں اکڑ کر چلنا پھرنا بھی اسی جمال کی قسم ہے کیونکہ اللہ کے کلمہ کی بلندی اور اس کے دین کی مدد اور اس کے دشمنوں کو غصہ دلانے کی وجہ سے پسندیدہ و محمود ہے۔
دوسری قسم سے مراد وہ جمال ہے جو دنیا اور عہدے، فخر اور تکبر اور خواہشات تک پہنچنے کے لیے ہو اور بندے کی انتہاء اور مقصود یہی ہو تو ایسا جمال مذموم ہے۔
تیسری قسم سے وہ جمال مراد ہے جو مذکورہ دونوں قسم کی صفات سے خالی ہے۔
درج بالا حدیث کا مقصود دو عظیم بنیادیں بتانا ہے۔
(۱)... معرفت
(۲)... سلوک 2۔
چنانچہ اس جمال کے ذریعہ کہ جس میں رب کائنات کا کوئی مثیل و ہمسر نہیں اس کی پہچان ہوتی ہے اور اقوال، اعمال اور اخلاق میں سے جس جمال کو پسند کرتا ہے اس کے ذریعہ اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی طرف سے پسند کرتا ہے کہ بندہ اپنی زبان کو سچائی کے ساتھ، اور اپنے دل کو اخلاص، محبت، توکل اور رجوع کے ساتھ خوبصورت بنائے اور اپنے اعضاء کو فرمانبرداری اور اپنے بدن کو لباس میں چھپا کر اس کی نعمتوں کا اظہار کرے اور گندگی، نجاست، میل کچیل اور مکروہ خیالات سے پاک رکھ کر، ختنہ کروا کر اور ناخن کاٹ کر خوبصورت بنائے۔
چنانچہ انسان اللہ تعالیٰ کو جمال کی صفات کے ذریعہ پہچان لیتا ہے اور خوبصورت افعال، اقوال اور اخلاق کے ذریعہ اپنی پہچان کرواتا ہے معلوم ہوا کہ اس حدیث نے دو عظیم قاعدوں کو اپنے تحت گھیرا ہوا ہے یعنی جمال جو کہ اللہ کا وصف ہے اس کے ذریعہ اس کی پہچان کی جائے اور اس جمال کے ذریعہ جو اس کی شریعت اور دین ہے، اس کی عبادت کی جائے۔3
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح سنن الترمذي، رقم : ۲۲۶۰۔
2 اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور عبادت کرنا۔
3 شرح مسلم للنووی ص ۹۰، ۲/ الفوائد لابن قیم ص ۲۳۵، ص ۲۳۸۔ ۲۴۰
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top