• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوشگوار زندگی کے اصول (حصہ دوم)

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
بقیہ خوشگوار زندگی کے اصول
چوتھااُصول : تو بہ واستغفار

انسان پر جو مصیبت آتی ہے چاہے جسمانی بیماری کی صورت میں ہو ، یا ذہنی اور ر وحانی اذیت کی شکل میں۔چاہے کاروباری پریشانی ہو یا خاندانی لڑائی جھگڑوں کا دکھ اور صدمہ ہو،ہر قسم کی مصیبت اس کے اپنے گناہوں کی وجہ سے آتی ہے۔اس لئے اسے اس سے نجات پانے کیلئے فوراً سچی توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے،کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور اس کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ازالہ کرکے اسے خوشحال بنا دیتا ہے۔
فرمان الٰہی ہے :
﴿وَمَا أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ﴾ [الشوری : ۳۰]
’’ اور تمھیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمھارے اپنے کرتوتوں کے سبب سے آتی ہے اوروہ تمھارے بہت سارے گناہوں سے در گذر بھی کرجاتا ہے۔ ‘‘
اور اسی طرح ارشاد باری ہے :
﴿ فَأَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلََمُوْا رِجْزًا مِنَ السَّمَائِ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ﴾
’’ پھر ہم نے ان لوگوں پر آسمان سے ان کے گناہوں کے سبب عذاب نازل کیا جنہوں نے ظلم کیا۔‘‘ [البقرۃ : ۵۹]
اور توبہ واستغفار کے فوائد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ فَقُلْتُاسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا٭ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا ٭وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْہَارًا﴾ [نوح : ۱۰تا ۱۲]
’’اور ( نوح علیہ السلام نے) کہا : تم سب اپنے رب سے معافی مانگ لو بلا شبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گااور مال اور بیٹوں سے تمھاری مدد کرے گااور تمھارے لئے باغات پیدا کرے گااور نہریں جاری کردے گا۔‘‘
ان آیات میں استغفار کے جو فوائد ذکر کئے گئے ہیں (موسلا دھار بارشیں ، مال واولادسے مدد،باغات اورنہریں) یہ سب چیزیں در اصل انسانوں کی خوشحالی وسعادتمندی کی علامت ہوتی ہیں اور یہ استغفار ہی سے نصیب ہوتی ہیں۔
اسی طرح ارشاد فرمایا :
﴿ وَمَا کَانَ اﷲُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ [الانفال : ۳۳]
’’ اور اللہ تعالیٰ انہیں اس حال میں عذاب نہیں دیتا کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔‘‘
نیز فرمایا :
﴿ وَأَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا إِلیٰ أَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّیْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ﴾ [ ہود :۳]
’’ اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو ، پھر اس کی جناب میں توبہ کرو ، وہ تمہیں ایک محدود وقت ( موت ) تک عمدہ عیش وآرام کا فائدہ نصیب کرے گا۔اور ہر کارِ خیر کرنے والے کو اس کا اجر وثواب دے گااور اگر تم منہ پھیر لو گے تو مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں بڑے دن ( روزِ قیامت ) کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
پانچواں اُصول : دعا

کامیاب اور خوشحال زندگی کے حصول کا پانچواں اصول ’دعا‘ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خوشحالی کااور مشکلات ،غموں اور صدموں سے نجات پانے کا سوال کرنا۔ کیونکہ خوشحالی کے تمام خزانوں کی چابیاں اللہ رب العزت ہی کے پاس ہیں اور مصائب وآلام سے نجات دینے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ اور بندۂ مومن جب اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو شرم آتی ہے کہ وہ انہیں خالی لٹا دے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(إِنَّ اﷲَ حَیِیٌّ کَرِیْمٌ،یَسْتَحْیِیْ إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَیْہِ یَدَیْہِ أَنْ یَرُدَّہُمَا صِفْرًا خَائِبَتَیْنِ)
’’بے شک اللہ تعالیٰ حیا کرنے والا اور نہایت مہربان ہے اور کوئی آدمی جب اس کی طرف ہاتھ بلند کرتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ وہ انہیں خالی واپس لوٹا دے۔‘‘ [ ترمذی : ۳۵۵۶ ، ابو داؤد : ۱۴۸۸ ، ابن ماجہ : ۳۸۶۵۔ وصححہ الالبانی ]
اور دعا کرنے سے تین فوائد میں سے ایک فائدہ ضرور ملتا ہے۔یا تو اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کا سوال پورا کردیتا ہے ، یا اس کی دعا کو اس کیلئے ذخیرۂ آخرت بنا دیتا ہے اور یا آنے والی کسی مصیبت کو ٹال دیتا ہے۔اور یہ بات بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(مَا عَلَی الْأَرْضِ مُسْلِمٌ یَدْعُوْ اﷲَ تَعَالیٰ بِدَعْوَۃٍ إِلاَّ آتَاہُ اﷲُ إِیَّاہَا،أَوْ صَرَفَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَہَا،مَا لَمْ یَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِیْعَۃِ رَحِمٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : إِذًا نُکْثِرُ؟ قَالَ: اَﷲُ أَکْثَرُ)
’’خطۂ زمین پر پایا جانے والا کوئی مسلمان جب اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی طلب کی ہوئی چیز دے دیتا ہے یا اس جیسی کوئی مصیبت اس سے ٹال دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔ یہ سن کر لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا : تب تو ہم زیادہ دعا کریں گے ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور زیادہ عطا کرے گا۔‘‘ [ترمذی : ۳۵۷۳ ، وصححہ الا لبانی]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُوْلَیْسَ بِإِثْمٍ وَلاَ بِقَطِیْعَۃِ رَحِمٍ إِلاَّ أَعْطَاہُ إِحْدیٰ ثَلاَثٍ : إِمَّا أَنْ یُعَجِّلَ لَہُ دَعْوَتَہُ ، وَإِمَّا أَنْ یَدَّخِرَہَا لَہُ فِیْ الْآخِرَۃِ،وَإِمَّا أَنْ یَدْفَعَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَہَا قَالَ : إِذًا نُکْثِرُ ؟ قَالَ : اَﷲُ أَکْثَرُ) [صحیح الادب المفردللالبانی : ص ۲۶۴ ،رقم الحدیث : ۵۴۷]
’’کوئی مسلمان جب کوئی ایسی دعا کرتا ہے کہ جس میں گناہ یا قطع رحمی نہیں ہوتی ، تو اللہ تعالیٰ اسے تین میں سے ایک چیز ضرور عطا کرتا ہے : یا اس کی دعا جلدی قبول کر لیتا ہے یا اسے ذخیرۂ آخرت بنا دیتا ہے ، یا اس جیسی کوئی مصیبت اس سے دور کر دیتا ہے۔ ایک صحابیؓ نے کہا :تب تو ہم زیادہ دعا کریں گے ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اور زیادہ عطا کرے گا۔‘‘
اس لئے دعا ضرور کرنی چاہیے اور کوئی واسطہ ڈھونڈے بغیر براہِ راست اللہ سے کرنی چاہیے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ [البقرۃ: ۱۸۶]
’’اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ
دیجئے کہ میں(ان کے) قریب ہی ہوں ، کوئی دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔‘‘
اس لئے جو قریب ہے اور پکار کو سن سکتا ہے اور سن کر قبول بھی کرتا ہے اور پھر مدد کرنے پر بھی قادر ہے،صرف اسی کو پکارنا چاہیے اوراسے چھوڑ کر کسی اور کو نہیں پکارنا چاہیے۔ اور دعا خصوصاً قبولیت کے اوقات میں کرنی چاہیے ، مثلاًسجدے کی حالت میں،اذان اور اقامت کے درمیان ،یومِ جمعہ کو عصر کے بعد مغرب تک اور خاص طور پر رات کے آخری حصے میں ، جبکہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاکر کہتا ہے :
(مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ؟مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ؟مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ۔وفی روایۃ لمسلم۔ فَلاَ یَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ) [بخاری : ۱۱۴۵ ، ۶۳۲۱ ، ۷۴۹۴ ، مسلم : ۷۵۸]
’’کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردو ں ؟ ۔اور مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجرروشن ہو جائے۔‘‘
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(إِنَّ فِیْ اللَّیْلِ لَسَاعَۃً لاَ یُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ یَسْأَلُ اﷲَ خَیْرًا مِّنْ أَمْرِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ إِلاَّ أَعْطَاہُ إِیَّاہُ وَذٰلِکَ کُلَّ لَیْلَۃٍ)
’’بے شک ہر رات کو ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں کوئی بندہ ٔ مسلماں اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی کوئی بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ بھلائی عطا کردیتا ہے۔‘‘ [مسلم : ۷۵۷ ]
اور دعا میں دنیا وآخرت دونوں کی خیر وبھلائی کا سوال کرنا چاہیے ، خصوصاً یہ دعا:
(اَللّٰہُمَّ أَصْلِحْ لِیْ دِیْنِیْ الَّذِیْ ہُوَ عِصْمَۃُ أَمْرِیْ،وَأَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْہَا مَعَاشِیْ ، وَأَصْلِحْ لِیْ آخِرَتِیْ الَّتِیْ فِیْہَا مَعَادِیْ ،وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَادَۃً لِّیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍ ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِّیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ) [ مسلم : ۲۷۲۰]
’’اے اللہ ! تو میرا دین میرے لئے سنوار دے جوکہ میرے معاملے کیلئے تحفظ ہے ، اور میرے لئے میری دنیا کو بھی ٹھیک کردے جس میں میری گذران ہے۔اور میرے لئے میری آخرت کو بھی بہتر بنا دے جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور میری زندگی کو میرے لئے ہر خیر میں اضافے کا باعث بنااور میری موت کو میرے لئے ہر شر سے راحت بنا۔‘‘
قارئین محترم ! اب وہ دعائیں بھی یاد فرما لیجئے جو خا ص طور پر پریشانی کے عالم میں بار بار پڑھنی چاہییں اور جن کا پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
پریشانی اور صدمے کے وقت کی دعائیں
1-حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی :
اَﷲُ رَبِّیْ لَا أُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا
’’اللہ ہی میرا رب ہے ، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا۔‘‘
[ابو داؤد: ۱۵۲۵، وصححہ الالبانی فی صحیح سنن ابی داؤد ج ۱ ص ۲۸۴ ]
2- حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے :
لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ،لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ،لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ َورَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ
[بخاری : الدعوات ،باب الدعاء عند الکرب ، الفتح ج ۱۱، ص ۱۲۳ ، مسلم : ۲۷۳۰]
’’اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، وہ عظمت والا ا وربرد بار ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، وہ عرشِ عظیم کا رب ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، وہ آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور عرشِ عظیم کا رب ہے۔‘‘
3- حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی :
لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ، سُبْحَانَ اﷲِ وَتَبَارَکَ اﷲُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ، وَالْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ
’’اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، وہ برد بار اور کریم ہے ، اللہ پاک ہے ، اور با برکت ہے وہ اللہ جو کہ عرشِ عظیم کا رب ہے ، اور تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
[ مسنداحمدج ۱ ص ۹۱ وصححہ الشیخ احمد شاکر ج ۲ ص ۸۷ ]
4- حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پریشان حال کو یہ دعا پڑھنی چاہیے :
اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلََا تَکِلْنِیْ إلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ، وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ
[ ابو داؤد : ۵۰۹۰ ، وحسنہ الالبانی فی صحیح الکلم الطیب : ۱۲۱]
’’اے اللہ ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں، لہذا تو مجھے پل بھر کیلئے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر اور میرا ہر ہر کام میرے لئے ٹھیک کردے۔‘‘
5- حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے :
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ [ترمذی : ۳۵۲۴]
’’اے زندہ ! اے قیوم ! میں تیری رحمت کے ساتھ مدد کا طلبگار ہوں۔‘‘
6- دعائے یونس علیہ السلام:
﴿لَا إلٰہَ إلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ﴾
’’تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، تو پاک ہے ، بے شک میں ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِہَا مُسْلِمٌ فِیْ شَیْئٍ قَطُّ إِلاَّ اسْتَجَابَ اﷲُ لَہُ بِہَا
’’جو مسلمان اس دعا کے ساتھ کسی بھی چیز کے بارے میں دعا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے یقینا قبول کرتا ہے۔‘‘ [صححہ الحاکم فی المستدرک ج ۱، ص ۵۰۵ ووافقہ الذہبی ]
7-اَللّٰہُمَّ إنِّیْ عَبْدُ کَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ ، مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ،عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ،أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ،أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ،أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِیْ کِتَابِکَ،أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ ، وَنُوْرَ صَدْرِیْ،وَجَلَائَ حُزْنِیْ،وَذَہَابَ ہَمِّیْ
’’اے اللہ ! بے شک میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے بندے اور تیری بندی کا بیٹا ہوں ، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ، میرے بارے میں تیرا حکم جاری ہے ، میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل والا ہے ، میں تجھ سے تیرے ہر نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جس کے ساتھ تو نے اپنا نام رکھا ، یا تو نے اسے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھلایا ، یا تو نے اسے اپنی کسی کتاب میں اتارا ، یا تو نے اسے اپنے پاس علمِ غیب میں ترجیح دی ، کہ تو قرآن مجید کومیرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نوراور میرے غم کی جلاء اور میری پریشانی کو ختم کرنے والا بنا دے۔‘‘
اس دعا کی فضیلت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جس شخص کو حزن وملال پہنچے ، پھر وہ یہ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے حزن وملال کو ختم کردیتا ہے اور اس کی پریشانی کو دور کردیتا ہے۔‘‘
[ احمد : ۳۷۱۲ وصححہ الشیخ احمد شاکر ج ۵ ص ۲۶۶ ، والالبانی فی الصحیحۃ : ۱۹۹ ]
چھٹا اُصول : ذکر الہی

جو لوگ دنیاوی تکالیف ومصائب کی وجہ سے ہر وقت غمگین رہتے ہوںاور غموں اور صدموں نے ان کی خوشیاں چھین لی ہوں ، ان کی طبیعت کی بحالی اور اطمینانِ قلب کیلئے چھٹااُصول ’ ذکر الٰہی ‘ ہے۔ فرمان الٰہی ہے :
﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اﷲِ أَلاَ بِذِکْرِاﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ﴾ [الرعد : ۲۸]
’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں ، یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں۔‘‘
اور سب سے افضل ذکر(لاإلہ إلااﷲ)ہے۔اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کہ جس کے ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں،پھر (سبحان اﷲ، الحمدﷲ،اﷲأکبر )کہ جنھیں جنت کے پودے قراردیا گیا ہے اور پھر (لاحول ولا قوۃ إلا باﷲ)کہ جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
اور قرآن مجید کی مذکورہ آیت کی روشنی میں ہمیں بحیثیت مومن اس بات پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ ذکر الٰہی سے ہی دلوں کو تازگی ملتی ہے ، حقیقی سکون نصیب ہوتا ہے اورپریشانیوںاور غموں کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے ! لیکن افسوس ہے کہ آج کل بہت سارے مسلمان اپنے غموں کا بوجھ ہلکا کرنے اور دل بہلانے کیلئے گانے سنتے
اور فلمیں دیکھتے ہیں ، حالانکہ اس سے غم ہلکا ہونے کی بجائے اور زیادہ ہو تا ہے۔کیونکہ گانے سننا اور فلمیں دیکھنا حرام ہے اور حرام کام سے سوائے غم اور پریشانی کے اور کچھ نہیں ملتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ،وَالْحَرِیْرَ، وَالْخَمْرَ ،وَالْمَعَازِفَ )
’’ میری امت میں ایسے لوگ ضرور آئیں گے جو زنا کاری ، ریشم کا لباس ، شراب نوشی اور موسیقی کو حلال سمجھ لیں گے۔‘‘[ بخاری : الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر ویسمیہ بغیر اسمہ : ۵۵۹۰ ]
ان چار چیزوں کو حلال سمجھنے سے مقصود یہ ہے کہ یہ حقیقت میں توحلال نہیں ہیں لیکن لوگ انہیں حلال تصور کر لیں گے، گویا یہ حرام ہیں اور موسیقی کس قدر بری چیز ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زنا کاری اور شراب نوشی جیسے بڑے ہی بھیانک گناہوں کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
اورنگاہ کی حفاظت کے بارے میں فرمان الٰہی ہے :
﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکیٰ لَہُمْ إِنَّ اﷲَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ ﴾[النور : ۳۰ ]
’’ مسلمان مردوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہی ان کیلئے پاکیزگی ہے اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے با خبر ہے۔‘‘
اور ذکر الٰہی کے فوائد بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوںاور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوںاور اگر وہ کسی مجمع میں مجھے یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں۔اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں۔اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک کلا (دونوں ہاتھ پھیلائے ہوے ) اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگروہ چلتا ہوا میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘[ بخاری : التوحید ،باب قول اللہ ویحذرکم اﷲنفسہ : ۷۴۰۵]
ساتواں اُصول: شکر

کامیاب وخوشحال زندگی کے حصول اور پریشانیوں سے نجات کا ساتواں اصول یہ ہے کہ ہم میں سے ہر انسان اللہ تعالیٰ کی بے شمار و ان گنت نعمتوں پر شکر گزار ہوکیونکہ جب ہم اس کی نعمتوں پر شکریہ بجا لائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اور زیادہ نعمتوں سے نوازے گا۔ فرمان الٰہی ہے : ﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ﴾ [ابراہیم : ۷]
’’ اور یاد رکھو ! تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تمھیں اور زیادہ نوازوں گااور اگر ناشکری کروگے تو پھر میری سزا بھی بہت سخت ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گزار بندوں کو اور زیادہ نعمتوں سے نوازنے کا وعدہ فرمایا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر موجودہ نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا جائے اور انہیں اس کی اطاعت میں کھپایا جائے تو نہ صرف وہ نعمتیں بحال رہتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ مزید نعمتیں عطا کرتا ہے اور اپنے شکرگزار بندوں کی زندگی کو خوشحال بنا دیتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ناشکری کرنے والوں کو سخت تنبیہ بھی کی ہے کہ وہ ان کی ناشکری کی بناپر ان سے موجودہ نعمتوں کو چھین کر انہیں مصائب وآفات میں گرفتاربھی کر سکتا ہے۔ والعیاذ باللہ
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿ مَا یَفْعَلُ اﷲُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَکاَنَ اﷲُ شَاکِرًا عَلِیْمًا﴾ [النساء : ۱۴۷]
’’اگر تم لوگ ( اللہ کا ) شکر ادا کرواور ( خلوص نیت سے ) ایمان لے آؤ ، تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمھیں عذاب دے ۔جبکہ اللہ تو بڑا قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندہ اگر سچا مومن اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہو تو اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ اسے آزمائش میں مبتلا نہیں کرتا ، بلکہ وہ تو قدر دان ہے اور اپنے بندوں کے جذباتِ تشکرکو دیکھ کر انہیں اور زیادہ عطا کرتا ہے ۔
یادر ہے کہ’ شکر‘ دل اور زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی بجا لانا ضروری ہے اور سچا شاکر وہ ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ احسانات کرتا ہے تو وہ اس کی اور زیادہ اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہے۔اور وہ جتنا اسے اپنے فضل سے نوازتا ہے اتنا ہی اس کے جذباتِ محبت واطاعت اور جوش میں آتے ہیں اور وہ ہر طرح سے ان کے شکر کا اظہار کرنے لگتا ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپؐ کے پاؤں پر ورم آجاتا اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا پوچھتیں کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی تو اللہ تعالیٰ نے اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دی ہیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : ’’ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ [ بخاری : ۴۸۳۷،مسلم : ۲۸۲۰]
آٹھواں اُصول: صبر

دنیا میں سعادتمندی اور خوشحالی کے حصول کا آٹھواں اصول ’صبر‘ ہے۔یعنی کسی بندہ ٔ مومن کو جب کوئی پریشانی یا تکلیف پہنچے تو وہ اسے برداشت کرے ، اس پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے اور اسے اللہ تعالیٰ کی تقدیر سمجھ کر اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کرے۔اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کا طالب ہو ، یوں اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گااور اس کے گناہوں کو مٹا کر اسے اطمینانِ قلب نصیب کرے گا۔
اور ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ دنیا میں ہر مومن کے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی آزمائش لکھ رکھی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ٭الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا ِﷲِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ٭ أُوْلٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ﴾
’’اور ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے ، کچھ خوف و ہراس اور بھوک سے اور مال وجان اور پھلوں میں کمی سے اور آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ) صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں : ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ [ البقرۃ : ۱۵۵ تا ۱۵۷ ]
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آزمائشوں میں صبر کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ ان پر اس کی نوازشیں ہوتی ہیں اور وہ رحمتِ الٰہی کے مستحق ہوتے ہیں۔گویا صبر وہ چیز ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے کی زندگی کو خوشحال بنا دیتا ہے
اور اسے اپنے فضل وکرم سے نوازتا ہے۔
اور آزمائش کوئی بھی ہو ، چھوٹی ہو یا بڑی ، جسمانی ہو یا ذہنی ، ہر قسم کی آزمائش مومن کیلئے باعث ِخیر ہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ،وَلاَ ہَمٍّ وَلاَ حَزَنٍ،وَلاَ أَذیً وَلاَ غَمٍّ،حَتّٰی الشَّوْکَۃُ الَّتِیْ یُشَاکُہَا،إِلاَّ کَفَّرَ اﷲُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ ) [بخاری: ۵۶۴۲ ، مسلم : ۲۵۷۳]
’’مسلمان کو جب تھکاوٹ یا بیماری لاحق ہوتی ہے ، یا وہ حزن وملال اور تکلیف سے دوچار ہوتا ہے ، حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیْبُہُ أَذًی إِلاَّ حَاتَّ اﷲُ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا تَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ) [ بخاری: ۵۶۴۷ ، مسلم : ۲۵۷۱]
’’جب کسی مسلمان کو کوئی اذیت ( تکلیف ) پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح گرا دیتا ہے جس طرح درخت کے پتے گرتے ہیں۔‘‘
قارئین محترم ! ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی تکلیف اور ادنی ترین آزمائش پر ، حتیٰ کہ ایک کانٹا چبھنے پر بھی اللہ تعالیٰ بندہ ٔ مومن کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے،بشرطیکہ وہ صبر وتحمل کا دامن نہ چھوڑے اور ہر آزمائش میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو جائے۔
اور یہ بات آپ کو معلوم ہونی چاہیے کہ کسی بندہ ٔ مومن میں جب یہ دونوں صفات (صبر و شکر ) جمع ہو جائیں تو اسے گویا خیر کثیر نصیب ہو گئی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ،إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ،وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ : إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ) [مسلم : ۲۹۹۹]
’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے اور اس کا ہر معاملہ یقینا اس کیلئے خیر کا باعث ہوتا ہے اور یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے تو وہ اس کیلئے خیر کا باعث بن جاتی ہے اور اگر اسے کوئی غمی پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور یوں وہ بھی اس کیلئے باعث ِخیر بن جاتی ہے۔‘‘
نواں اُصول : توکل

وہ لوگ جن پر دشمن کی شرارتوں ، سازشوں اور ان کے ہتھکنڈوں کا خوف طاری رہتا ہو اور اس کی وجہ سے وہ سخت بے چین رہتے ہوں ، خصوصاً ان کی خوشحالی اور عموماً باقی تمام لوگوں کی خوشحالی کیلئے نواں اُصول یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر توکل (بھروسہ) کریں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر شر سے بچانے والا ہے اور اس کے حکم کے بغیر کوئی طاقتور کسی کو کوئی نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں
اور فرمان الٰہی ہے :
﴿ قُلْ لَّنْ یُصِیْبَنَا إِلَّا مَا کَتَبَ اﷲُ لَنَا ہُوَ مَوْلَانَا وَعَلیَ اﷲِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ [التوبہ : ۵۱]
’’ آپ کہہ دیجئے ! ہم پر کوئی مصیبت نہیں آ سکتی سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کر رکھی ہے ، وہی ہمارا سرپرست ہے ، اور مومنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے۔‘‘
اور فرمایا :
﴿ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اﷲَ بَالِغُ أَمْرِہٖ﴾
’’ اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کر لے تو وہ اسے کافی ہے ، اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے۔‘‘ [الطلاق : ۳]
اسی طرح وہ لوگ جو بے روزگار ہوں ، یا مالی وکاروباری مشکلات سے دوچار ہوں انہیں بھی اللہ ہی پر توکل کرکے رزق حلال کے حصول کیلئے جدو جہد کرنی چاہیے۔اس طرح اللہ تعالیٰ ان کیلئے رزقِ وافر کے دروازے کھول دے گا اور مالیاتی پریشانیوں سے نکال کر انہیں خوشحال بنا دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(لَوْ أنَّکُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اﷲِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ ، تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا)
’’ اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جس طرح بھروسہ کرنے کا حق ہے تو وہ تمھیں ضرور رزق دے گا ، جیسا کہ وہ پرندوں کو رزق دیتا ہے۔جو صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کے وقت پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘
[احمد والترمذی وابن ماجہ، بحوالہ صحیح الجامعللالبانی : ۵۲۵۴]
دسواں اُصول : قناعت

کامیاب وخوشگوار زندگی کا دسواں اُصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو جتنا رزق عطا کیا ہو وہ اس پر قناعت کرے اور ہرحال میں اس کا شکر ادا کرتا رہے۔اور بڑے بڑے مالداروں کو اپنے مدِ نظر رکھنے کی بجائے اپنے سے کم مال والے لوگوں کو اپنے مد نظر رکھے اس طرح اللہ تعالیٰ اسے حقیقی چین وسکون نصیب کرے گا۔اور اگر وہ کسی جسمانی بیماری کی وجہ سے پریشان رہتا ہو تو بھی اسے ان لوگوں کی طرف دیکھنا چاہیے جو اس سے زیادہ مریض ہوں اور وہ یا ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہوں یا اپنے گھروں میں صاحب ِفراش ہوں ، جب وہ اپنے سے کم مال والے لوگوں کی حالت اور اسی طرح اپنے سے بڑے مریضوں کی حالت کو دیکھے گا تو یقینا وہ اپنی حالت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے گا۔اس طرح اللہ تعالیٰ اسے سکونِ قلب جیسی عظیم دولت سے نوازے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(اُنْظُرُوْا إِلیٰ مَنْ ہُوَ أَسْفَلَ مِنْکُمْ ، وَلاَ تَنْظُرُوْا إِلیٰ مَنْ ہُوَ فَوْقَکُمْ ، فَإِنَّہُ أَجْدَرُ أَنْ لاَّ تَزْدَرُوْا نِعْمَۃَ اﷲِ )
’’ تم اس شحص کی طرف دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے کم تر ہواور اس شخص کی طرف مت دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے بڑا ہو ، کیونکہ اس طرح تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے۔‘‘ [مسلم : الزہد والرقائق : ۲۹۶۳ ]
تو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی نسبت کم تر انسان کی طرف دیکھنے سے انسان اللہ کی ان نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھے گا جو اس نے اسے عطا کررکھی ہیں اور ان میں تین نعمتیں ایسی ہیں کہ جو کسی کے پاس موجود ہوں تو اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے پوری دنیا جمع کردی ہے اور وہ ہیں : صحت ، امن اور ایک دن کی غذا ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ مُعَافیٰ فِیْ جَسَدِہٖ ، آمِنًا فِیْ سِرْبِہٖ ، عِنْدَہُ قُوْتُ یَوْمِہٖ ، فَکَأَنَّمَا حِیْزَتْ لَہُ الدُّنْیَا)
’’ جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ وہ تندرست ہو ، اپنے آپ میں پر امن ہواور اس کے پاس ایک دن کی غذا موجود ہو توگویا اس کیلئے پوری دنیا کو جمع کردیا گیا۔‘‘ [ ترمذی : ۲۳۴۶ ، ابن ماجہ : ۴۱۴۱ ، وحسنہ الالبانی فی صحیح سنن الترمذی وسنن ابن ماجہ]
گیارہواں اُصول : فارغ اوقات میں علوم نافعہ کا مطالعہ

ناخوشگوار اور دکھ بھری زندگی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب زندگی کے فارغ اوقات کو بے مقصد بلکہ نقصان دہ چیزوں میں ضائع کرنا ہے۔ مثلا ڈائجسٹوں میں عشق ومحبت کی جھوٹی داستانوں یا جاسوسی کی من گھڑت کہانیوں کا پڑھنا ، تاش اور شطرنج وغیرہ کھیلنا ، دن بھر میچ دیکھتے رہنا ۔ تو اس طرح کی فضولیات میں وقت ضائع کرنے سے یقینی طور پر دل مردہ ہوتا ہے اور ناخوشگواری میں اور اضافہ ہوتا ہے ، اس لئے اس کی بجائے مفید کتابوں ، مثلا تفسیر قرآن ، کتبِ حدیث ، کتبِ سیرت نبویہؐ وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے اور جھوٹی کہانیوں کی بجائے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم وتابعین عظام ؒ کی سوانح حیات کے سچے واقعات کو پڑھا جائے اور قرآن مجید کی تلاوت اورفائدہ مند تقاریر ولیکچرز کی کیسٹوں کو سنا جائے تو اس سے یقینا اللہ تعالیٰ بندۂ مومن کی زندگی کو بابرکت بنادیتا ہے اور اسے پریشانیوں سے نجات دیتا ہے۔
اور فارغ وقت اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے ، جس کی قدرو منزلت سے بہت سارے لوگ غافل رہتے ہیں ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْہِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ : اَلصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ
’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سارے لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں : تندرستی اور فارغ وقت۔‘‘
( بخاری : الرقاق ،باب الصحۃ والفراغ : ۶۴۱۲ ]
یعنی جو لوگ فارغ اوقات کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں نہیں کھپاتے وہ یقینا گھاٹے میں رہتے ہیں۔اس لئے فارغ اوقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان کو زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانی چاہییں ورنہ یہ بات یاد رہے کہ قیامت کے دن فارغ اوقات کے بارے میں بھی باز پرس ہو گی کہ انہیں اللہ کی اطاعت میں لگایا تھا یا اس کی نافرمانی میں ضائع کردیا تھا ؟ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لاَ تَزَالُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ : عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ ؟ وَعَنْ عِلْمِہٖ مَا فَعَلَ فِیْہِ ؟ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ ؟ وَعَنْ جِسْمِہٖ فِیْمَ أَبْلاَہ ُ [ترمذی : بحوالہ صحیح الجامع للالبانی : ۷۳۰۰]
’’ کسی بندے کے قدم اس وقت تک نہیں ہل سکیں گے جب تک اس سے چار سوالات نہیں کر لئے جائیں گے : اس نے اپنی عمر کو کس چیز میں ختم کیا ؟ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟ اور اس نے اپنا مال کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا ؟ اور اس نے اپنے جسم کو کس چیز میں بوسیدہ کیا ؟‘‘
بارہواں اُصول : مسلمانوں کی پریشانیاں دور کرنا

دنیا میں دکھوں اور پریشانیوں سے نجات پانے کیلئے بارہواںاُصول یہ ہے کہ آپ اپنے مسلمان بھائیوں کی پریشانیاں دور کرنے میں ان کی مدد کریں۔اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیاں دور کرے گا اور آپ کو خوشحالی وسعادتمندی نصیب کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
مَنْ أَرَادَ أَنْ تُسْتَجَابَ دَعْوَتُہُ وَأَنْ تُکْشَفَ عَنْہُ کُرْبَتُہُ ، فَلْیُفَرِّجْ عَنْ مُعْسِرٍ
’’ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور اس کی پریشانی دور کی جائے ، تو و ہ تنگ دست کی پریشانی کو دور کرے۔‘‘[ احمد : ج ۲ ص ۲۳ ، وذکرہ الٰہیثمی فی مجمع الزوائد ج ۴ ص ۱۳۳ وقال :رواہ أحمد وأبو یعلی ورجال أحمد ثقات ]
یعنی ایک تنگ حال کی تنگی وپریشانی دور کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبولیت سے نوازتا ہے اور اس کی پریشانیاں دور کردیتا ہے۔
قارئین محترم !
ہم نے اس رسالے کے شروع میں دو سوال ذکر کئے تھے۔ایک یہ کہ خوشگوار زندگی کا حصول کیسے ممکن ہے اور کامیاب زندگی کے اصول کونسے ہیں ؟ اور دوسرا یہ کہ دنیا میں پریشانیوں ، دکھوں اور مصائب وآلام سے نجات پانے کے اصول کیا ہیں ؟ تو ہمیں امید ہے کہ ان دونوں سوالوں کے جوابات کافی حد تک ذکر کئے جا چکے ہیں اگرچہ مذکورہ اصولوں میں سے بعض میں مزید تفصیل کی جا سکتی تھی لیکن اختصار کے پیش نظر فی الحال اسی پر اکتفا کرتے ہیں ۔اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو خوشگوار زندگی نصیب کرے،ایمان وعمل کی سلامتی دے اور ہمیں تمام پریشانیوں، دکھوں اور صدموں سے محفوظ رکھے۔
آمین ثم آمین
 
Top