• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوشگوار زندگی کے اُصول

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کو سب کا باپ بنایا ہے اس لحاظ سے سب کی بنیاد تو ایک ہے لیکن کئی اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں چنانچہ شکل وصورت کے اعتبار سے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور کم ہی کوئی شخص دوسرے سے ملتا جلتا ہے، کوئی سفید گورے رنگ کا اور کوئی کالے سیاہ رنگ کا، کوئی چھوٹے قد والا اور کوئی بڑے قد والا، اسی طرح وہ سب اپنے معاشی حالات کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں کوئی مالدار اور کوئی غریب کوئی بخیل اور کوئی سخی کوئی ہر حال میں شکر آور کوئی ہرحال میں حریص لالچ اسی طرح ایمان وعمل کے اعتبار سے بھی وہ الگ الگ نظریات کے حامل ہوتے ہیں کوئی مومن اور کوئی کافر، کوئی نیک وپارسا اور کوئی فاسق وفاجر، کوئی باکردار اور بااخلاق اور کوئی بدکردار اور بداخلاق۔

لیکن یہ سب کے سب اپنے احوال میں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں اور وہ ہے خوشحال زندگی کی تمنا اور آرزو چنانچہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اس بات کے متمنی نظر آتے ہیں کہ انہیں دنیا میں ایک خوشگوار زندگی نصیب ہوجائے اور سب کے سب لوگ ایک باوقار اور پرسکون زندگی کے حصول کی خاطر دن رات جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں گویا سب کا ہدف تو ایک ہی ہے البتہ وسائل واسباب مختلف ہیں۔

١۔ ایک تاجر جو دن بھر اپنے کاروبار کو وسیع کرنے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے اپنی پوری صلاحیتیں اور توانائیاں کھپادیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ مزدور جو صبح سے لے کر شام تک پسینے میں شرابور ہوکر محنت ومزدوری کرتا ہے دونوں خوشحال اور خوشگوار زندگی کے حصول کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔

٢۔ اور ایک عبادت گذار، جو اللہ تعالٰی کے فرائض وواجبات کو پابندی سے ادا کرتا ہے اور نوافل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ فاسق وفاجر انسان جو دن رات اللہ تعالٰی کی نافرمانی کرتا ہے دونوں ہی ایسی زندگی کے متمنی ہوتے ہیں جس میں کوئی پریشانی اور کوئی دکھ نہ ہو!۔

٣۔ اسی طرح تمام لوگ سعادتمندی اور خوشحالی کو حاصل کرنے کی تمنا لئے تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں کوئی کسی طرح اور کوئی کسی طرح لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سعادت مندی ہر ایک کو مل جاتی ہے؟۔ اور کیا خوشحالی ہر ایک کو نصیب ہوجاتی ہے؟۔ اور آخر وہ کونسا راستہ ہے جس پر چل کر ہم سب خوشحال وخوشگوار زندگی تک پہنچ سکتے ہیں؟۔

قارئیں محترم!۔
ہم یہ ہی سوال ایک دوسرے انداز سے بھی کرسکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اس دور میں تقریبا ہر انسان پریشان حال اور سرگرداں نظر آتا ہے کسی کو روزگار کی پریشانی، کسی کو مالی پریشانی، کسی کو کاروباری مشکلات کا سامنا، کسی پر قرضوں کا بوجھ، کسی کو جسمانی بیماری، چین اور سکھ سے سونے نہیں دیتیں، کسی کو خاندانی لڑائی جھگڑے بے قرار کئے ہوئے ہیں کسی کو بیوی بچوں کی نافرمانی کا صدمہ، کسی کو دشمن کا خوف اور کسی کو احباء واقرباء کی جدائی کا دکھ الغرض یہ کہ تقریبا ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر شخص ان دکھوں، صدموں اور پریشانیوں سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ حقیقی وسائل واسباب کون سے ہیں جنھیں اختیار کرنے سے دنیا کی مختلف آزمائشوں سے نجات مل سکتی ہے؟۔

آپ میں سے ہر شخص یقینا یہ چاہتا ہوگا کہ اسے ان دونوں سوالوں کے جوابات معلوم ہوجائیں تاکہ وہ ایک خوشحال وباوقار زندگی حاصل کرسکے اور دنیا کی پریشانیوں سے چھٹکارا پاسکے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ہمارے لئے یہ اصول کیس طرح متعین کیئے ہیں۔

اقتباس
خوشگوار زندگی کے اصول

قارئین سے التماس ہے وہ جواب نہ دیں تاکہ میں پوری تحریر کو مکمل کرسکوں۔
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
خوشگوار زندگی کے اُصول

پہلا اُصول! ایمان وعمل۔
خوشگوار زندگی کا پہلا اُصول، ایمان وعمل ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے!۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ‌ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَ‌هُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿النحل۔ ٩٧﴾
جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ طُوبَىٰ لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ ﴿الراعد۔٢٩﴾
جو لوگ ایمان ﻻئے اور جنہوں نے نیک کام بھی کئے ان کے لئے خوشحالی ہے اور بہترین ٹھکانا ۔

ان آیات میں اللہ تعالٰی نے ہر ایسے شخص کو بہت ہی خوشگوار وکامیاب زندگی اور خوشحالی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جس میں دو شرطیں پائی جاتی ہوں ایک یہ کہ وہ مومن ہو اور دوسری یہ کہ وہ عمل صالح کرنے والا، باکردار اور بااخلاق ہو اور اگر ہم ان دونوں شرطوں کو پورا کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں خوشگوار زندگی نصیب نہ ہو کیونکہ اللہ تعالٰی اپنے وعدے میں سچا ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

فرمان الٰہی!۔
إِنَّ اللَّـهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ﴿ال عمران-٩﴾
یقیناً اللہ تعالیٰ وعده خلافی نہیں کرتا

اور یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہئے کہ تمام انسانوں کی خیروبھلائی ایمان اور عمل صالح میں ہی ہے اگر انسان سچا مومن ہو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو اور ساتھ ساتھ باعمل، باکردار اور بااخلاق ہو، اللہ کے فرائض کو پورا کرتا ہو، پانچ نمازوں کا پابند ہو، زکات ادا کرتا ہو، رمضان کے فرض روزے بلاعذر شرعی نہ چھوڑتا ہو، والدین اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہو، لین دین میں سچا اور وعدوں کو پورا کرتا ہو، بددیانتی، دھوکہ اور فراڈ سے اجتناب کرتا ہو، اور آخرت میں جنت کی نعمتیں اور اجروثواب الگ ہے اور اس کے برعکس اگر کوئی انسان فاسق وفاجر، بدکردار اور بداخلاق ہو، نہ نمازوں کی پروا کرتا ہو اور نہ زکات دیتا ہو، رمضان کے روزے مرضی کے مطابق رکھتا ہو اور طاقت ہونے کے باوجود حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کیلئے تیار نہ ہو، والدین اور قرابت داروں سے بدسلوکی کرتا ہو، اللہ کے بندوں کے حقوق بارتا ہو، لین دین میں جھوٹ بولتا ہو اور دھوکہ دہی اور بددیانتی سے کام لیتا وہ اور حرام ذرائع سے کماتا ہو تو ایسے انسان کے متعلق ہمیں یقین کرلینا چاہئے کہ اسے لاکھ کوشش کے باجود خوشگوار زندگی کبھی نصیب نہیں ہوسکتی۔

جیسا کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے!۔
مَنْ أَعْرَ‌ضَ عَنْ ذِكْرِ‌ي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُ‌هُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ قَالَ رَ‌بِّ لِمَ حَشَرْ‌تَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرً‌ا قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى (طہ ١٢٤۔١٢٦)۔
اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے وہ کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حاﻻنکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا (جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے

ان آیات میں اللہ تعالٰی نے خبردار کیا ہے کہ جو شخص میرے دین سے منہ موڑے گا اور میرے احکامات کی پروا نہیں کرے گا میں دنیا میں اسکی زندگی تنگ حال بنادوں گا اور خوشحال زندگی سے محروم کردونگا، اس کے علاوہ قیامت کے دن میں اسے اندھا کرکے اٹھاؤں گا وہ مجھ سے اس کی وجہ پوچھے گا تو میں کہوں گا جیسا تم نے کیا ویسا بدلہ آج تمہیں دیا جارہا ہے تمہارے پاس میرے احکام آئے، اہل علم نے تمہیں میری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائیں اور میرے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کو تمہارے سامنے رکھا، لیکن تم نے ان سب کو پس پشت ڈال کر من مانی کی اور جو تمہارے جی میں آیا تم نے وہی کیا اسی طرح آج مجھے بھی تمہاری کوئی پروا نہیں۔

قارئین محترم!۔
اگر ہم واقعتا یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہمیں ایک باوقار اور خوشحال زندگی نصیب ہوتو ہمیں دین الٰہی کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا اور من مانی کرنے کی بجائے اللہ تعالٰی کے احکام پر عمل کرنا ہوگا اور اللہ کا سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں اور اس میں کسی کو شریک نہ بنائیں صرف اسی کو پکاریں صرف اسی کو نفع ونقصان کا ملک سمجھیں، صرف اسی کو داتا مددگار، حاجت روا مشکل کشا اور غوث اعظم تصور کریں اگر ہم خالصتا اللہ تعالٰی کی عبادت کریں گے تو وہ یقینا ہمیں پاکیزہ اور خوشگوار زندگی نصیب کرے گا ورنہ وہ لوگ جو اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کے درد پر جبین نیاز جھکاتے ہیں اور غیر اللہ کیلئے نذر ونیاز پیش کرتے ہیں اور غیرا للہ کو داتا، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں اور انہی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں انہیں در در کی ٹھوکریں ہی نصیب ہوتی ہیں اور ذلت وخواری کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا،

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے!۔
وَمَنْ يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ‌ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ‌ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّ‌يحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ ﴿الحج٣١﴾
اور جو شخص اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے۔ سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے واﻻ گویا آسمان سے گر پڑا، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی

یعنی مشرک کا انجام سوائے تباہی وبربادی کے اور کچھ نہیں!۔

اور اللہ تعالٰی کا دوسرا بڑا حکم یہ ہے کہ ہم اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں اور آپ کی نافرمانی سے بچیں، اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالٰی ہم سے راضی ہوگا کیونکہ اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے اور جب اللہ تعالی راضی ہوگا تو یقینا وہ ہمیں خوشحال اور باوقار زندگی نصیب کرے گا اور اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منہ موڑ کردین میں ایجاد کردہ نئے امور (بدعات) پر عمل کریں گے تو دنیا میں ہم پر آزمائشیں ٹوٹ پڑیں گی اور قیامت کے روز ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمن کے ہاتھوں حوض کوثر کے پانی سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمن کی شفاعت سے محرومی سے دوچار ہونا پڑے گا ولعیاذ اللہ۔

اللہ کا فرمان ہے!
فَلْيَحْذَرِ‌ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿النور۔٦٣﴾
سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے

اس آیت سے اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے باز آجائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے ان پر کوئی آزمائش یا اللہ کا دردناک عذاب آجائے۔

قارئیں محترم!۔
کامیاب وخوشگوار زندگی کا جو پہلا اُصول ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی بنا پر ہی ہمیں ایک کامیاب زندگی نصیب ہوسکتی ہے اور ایمان باللہ کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم عقیدہ توحید پر قائم ودائم رہیں، جبکہ ایمان بالرسل کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کی روشنی میں زندگی بسر کریں اس طرح دنیا کے دکھوں اور صدموں سے ہمیں چھٹکارا ملے گا اور ہماری زندگی کامیابی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی۔
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
خوشگوار زندگی کا مضمون اچھا ہے ۔۔۔۔۔لیکن کیا اللہ کے نظام کے بغیر خوشگوار زندگی ہو سکتی ہے ،،،،میرا مطلب خلافت راشدہ جیسا نظام ہے ،،،،،شاید انفرادی طور پر تو کسی انسان کو کہہ سکتے ہیں کہ فلاں بندہ خوشگوار زندگی گزار رہا ہے لیکن اجتماعی طور پر ایسا نہیں ہے۔۔۔۔ویسے بھی جس قوم پر ٹیکس لگتا ہو وہ قوم ُغلام کہلاتی ہے ۔۔غُلامی اور خوشی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔اب اِس غلامی سے نکلنے کا حل کیا ہے ۔۔۔۔آپ بھی سوچئیے میں بھی سوچتا ہوں۔۔۔۔امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔۔۔۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
اب اِس غلامی سے نکلنے کا حل کیا ہے ۔۔۔۔آپ بھی سوچئیے میں بھی سوچتا ہوں۔۔۔۔امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔۔۔۔
ایسی جدوجہد جو قابل عمل بھی ہوپرسکون بھی ہو، اسلامی تعلیمات کےخلاف بھی نہ ہو، حکمت اور مصلحت کی آڑ میں بھی ہو اور جس کا نقصان بھی کم سے کم ہو۔
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
لیکن کیا اللہ کے نظام کے بغیر خوشگوار زندگی ہو سکتی ہے ،،،،میرا مطلب خلافت راشدہ جیسا نظام ہے ،،،،،شاید انفرادی طور پر تو کسی انسان کو کہہ سکتے ہیں کہ فلاں بندہ خوشگوار زندگی گزار رہا ہے لیکن اجتماعی طور پر ایسا نہیں ہے۔۔۔۔ویسے بھی جس قوم پر ٹیکس لگتا ہو وہ قوم ُغلام کہلاتی ہے ۔۔غُلامی اور خوشی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔اب اِس غلامی سے نکلنے کا حل کیا ہے ۔۔۔۔آپ بھی سوچئیے میں بھی سوچتا ہوں۔۔۔۔امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔۔۔۔
اسلام علیکم۔
لیکن خلافت راشدہ کا نظام اگر نافذ نہ ہوتو کیا قرآن کی ان تعلیمات پر عمل نہیں کیا جائے گا اور خلافت فاطمی اور خلافت بنواُمیہ میں جو ہوا تاریخ بھری پڑی ہے اُن کارناموں سے میں تو بس اتنا جانتی ہوں کے اسلام کی تعلیمات کو اگر انفرادی طور پر مان کر اُس پر عمل کیا جائے تو خلافت خود ہی نافذ ہوجائے گی لیکن اس کے لئے پہلے ہم خود کو اس معیار پر تو لائیں جس کے نفاذ کی ہم باتیں کررہے ہیں۔
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
وعلیکم السلام۔
بغیر جہاد اور خلافت خودبخود نافذ ہو جائے ۔۔۔ہا ہا ہا۔۔۔ اچھا مذاق ہے
نہ تو مغربی سسٹم ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی خلافت قائم ہو سکتی ہے
اس کے لیے پہلے عوام کی ذہن سازی قرآن وصحیح حدیث کی بنیاد پر بہت ضروری ہے
جتنا بھی ہو سکے اچھے کی کو شش ضروری کرنی ہے ۔۔۔۔باقی نظام بدلہ یا نہ بدلے اِس کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں ۔۔۔ہم تو بس اپنے کردار کے ذمہ دار ہیں ۔۔۔کہ ہم نے کیسا کردار پَلے کیا ہے۔۔۔ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اُس کا کردار کیا ہے ؟؟؟
 

ابو بصیر

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 30، 2012
پیغامات
1,420
ری ایکشن اسکور
4,198
پوائنٹ
239
اسلامی ریاست اور خلیفہ جہاد سے وجود میں آتے ہیں

محترم 656ھ میں تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور خلفیة المسلمین معتصم باللہ کو قتل کردیا- رجب 659 ھ تک ساڑھے سات سال مسلمانوں کا کوئی خلیفہ نہیں تھا- اگر وہ اس دوران تاتاریوں سے جہاد ترک کردیتے تو دنیا سے مسلمانوں کا نام ونشان تک مٹ جاتا مگر انہوں نے جیسے بھی ہو سکتا الگ الگ ٹکڑیوں میں بھی ان کا مقابلہ جاری رکھا- یہاں تک کہ انہیں پے در پے شکستیں دے کر اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت میں کامیاب ہوگئے اور دوبارہ مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا گیا- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تاتاریوں سے لڑنے والے رسول اللہ کی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا جو ان کی مخالفت کرے اور جو ان کی مدد چھوڑ دے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا -یہاں تک کہ قیامت قائم ہو-
[مجموعہ فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ ص 416 و ص 531 ج 2]
حقیقت یہ ہے کہ جب خلیفہ کا وجود نہ ہو اور اللہ نہ کرے اسلامی ریاستیں بھی سرے سے ختم ہوجائیں تو بجائے اس کے کہ جہاد ختم سمجھا جائے جہاد ہی وہ بابرکت چیزہے جس سے دوبارہ خلیفہ اور اسلامی ریاست کے قیام کی امید کی جا سکتی ہے-
جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اکتوبر 30، 2015
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
25
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته. .
جناب آج جمعہ کے خطبہ کی تیاری کر رہا تھا کہ اس عنوان پر سرچ کیا تو محدث فارم میں یہ موضوع مل گیا ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر لکھی ہے
اوپر جو باتیں چل رہی ہے کہ خلافت نہیں ہے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر انسان قرآن کی اس تعلیمات پر عمل کرے تو یقیناً اس کو خوشگوار ماحول اور زندگی مل سکتی ہے
ییہ جو اصول اوپر زکر کے ہیں اس کے علاوہ بھی اور بہت سے اصول ہیں میں ان شاءالله وقت نکال کر اور اصول زکر کرنے کی کوشش کروں گا
اللہ پم سب کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین
 

nabeela younas

مبتدی
شمولیت
جولائی 31، 2016
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته. .
جناب آج جمعہ کے خطبہ کی تیاری کر رہا تھا کہ اس عنوان پر سرچ کیا تو محدث فارم میں یہ موضوع مل گیا ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر لکھی ہے
اوپر جو باتیں چل رہی ہے کہ خلافت نہیں ہے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر انسان قرآن کی اس تعلیمات پر عمل کرے تو یقیناً اس کو خوشگوار ماحول اور زندگی مل سکتی ہے
ییہ جو اصول اوپر زکر کے ہیں اس کے علاوہ بھی اور بہت سے اصول ہیں میں ان شاءالله وقت نکال کر اور اصول زکر کرنے کی کوشش کروں گا
اللہ پم سب کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین

Sent from my SM-G361H using Tapatalk
 
Top