• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش حقیقت و خطرات

tanveer ahmad awan

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2016
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
7
بسم اللہ الرحمن الرحیم
داعش حقیقت و خطرات؟
تنویراحمداعوان
گزشتہ چند سالوں سے چند عالمی منظر نا مہ میں اور بالخصوص مشرق وسطی میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، عربی بہار،مصر میں فوجی حکومت کا قیام،یمن ،عراق اور شام میں دہشت و وحشت،ایران اور سعودیہ کہ باہم کشمکش اور بالخصوص داعش کا زمینی حقائق کے برعکس غیر معمولی حیثیت سے خلافت کا پرکشش لبادہ اوڑھ کر ابھرنا ،پرتشدد واقعات سے شہرت حاصل کرکے پوری دنیا پر تسلط حاصل کے دعویٰ کرنا،جہاں ساٹھ کے قریب مسلم ممالک اور غیر مسلم ملکوں میں بھاری مسلم اقلیتوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا ہے،
اس حوالے سے آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ مسلمان جہاں بھی ہوں اس ملک کے لیے یکسو ہوکر اپنی صلاحیتوں کو بروکار لا سکیں۔
معروف مذہبی سکالر مولانا سید سلمان الحسینی ندوی داعش کے حوالے سے تحقیق رکھتے ہیں پندرہ روزہ رسالہ "بانگ درا" میں لکھتے ہیں کہ "داعش "الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام کا مخفف ہے،یہ نام2013 ؁ اس وقت متعارف ہوا جب القاعدہ کی عراقی شاخ الدولۃ الاسلامیہ فی العراق (جس نے 2006 ؁ سے یہ نام اختیار کر رکھا تھا)کے امیرابوبکر(ابراہیم بن عواد ) بغدادی نے ابو محمد الجولانی کو شام میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ،جس نے "جبھۃ النصر ۃ "کے نام سے جہادی تنظیم قائم کرکے کاروائیاں شروع کیں،لیکن شام میں انکی وابستگی عراقی تنظیم سے کٹ کر اصل مرکزی تنظیم القاعدہ کے ساتھ قائم ہو گئی،تو عراقی تنظیم نے اس کو بغاوت سے تعبیر کیا ،اور اپنادائرہ کار شام تک وسیع کردیااور 2013 ؁میں داعش یعنی" عراق وشام کی اسلامی حکومت "کا اعلان کردیا۔جب کہ ابو محمد الجولانی "جبھۃ النصرۃ " کے تحت القاعدہ کے امیر ایمن الظواھری کے ماتحت کاروائیوں میں مصروف عمل ہیں،داعش نے جبھۃ النصرۃ اور دیگر تنظیموں کیخلاف اپنی کاروائیاں جارہی رکھی ہوئی ہیں جن کا تعلق سعودی عرب،ترکی ،عرب امارات یا قطر وغیرہ سے ہے،کیونکہ ان کے نزدیک یہ ساری تنظیمیں ظالم حکمرانوں کی آلہ کار ہیں(بانگ درا۔جنوری2016)
داعش نے یکم رمضان المبارک 1435 ؁ھ بمطابق 29جون 2014 ؁ کو خلافت اسلامیہ کا اعلان کرتے ہوئے اپنا نام دولت اسلامیہ تک محددو کرلیا،جب کے شام کے ضلع حلب سے عراقی ضلع دیالی تک یعنی عراق وشام کا ایک تہائی علاقہ اپنے زیر کنٹرول کرکے اپنا پاسپورٹ اور کرنسی کا باقاعدہ اجراء بھی کیا،عراق کے سب سے بڑے موصل ڈیم اورا ئل ریفارئنریز،حمص کے نیچرل گیس سنٹر کے علاوہ بغداد کے قصبہ جات پر قبضہ کرنے سے داعش کی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔یہ ایک حیران کن امر ہے کہ داعش کو ملنے والی کامیابیاں زمینی وجود سے کہیں بڑھ کر ہیں،شام میں سنی مزاحمت کامیاب ہونے کے دنوں میں داعش کو شام کا راستہ دیا گیاتھاکہ وہ ان جہادیوں پر ہی حملے کرکے ،جہاد کی قوت کو کمزور کرے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ داعش ،مختلف رجحانات والے عناصر کے مجموعے پر مشتمل ہے،جن میں عالمی جارجیت و قبضے کے خلاف عسکری جدوجہد کا مرکزی نظریہ کارفرما ہے،ایک طرف قوتیں جاسوسی کے ذریعے ان مختلف خیال قوتوں کے انتشار کا انتظار کررہی ہیں اور دوسری طرف اپنے مہرے ڈھونڈ رہی ہیں تاکہ ان کو تقسیم کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے جا سکیں۔۔
مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی اپنے کالم "تکفیر کا فتنہ اور موجودہ عالمی مخمصہ " داعش کی حقیقت کو یوں لکھتے ہیں،داعش اس وقت دنیا کا سب سے اہم موضوع ہے اور اس کے بارے میں ہر سطح پر بحث و تمحیص اور گرمیء افکار کا سلسلہ جاری ہے،یہ تنظیم عراق کے سابق وزیر اعظم نوری المالکی اور شام کے صدر بشارالاسد کی ان فرقہ وارانہ پالیسیوں اور ریاستی جبر کے خلاف ایک عرصہ سے مسلح جدوجہد میں مصروف جنگجوؤں پر مشتمل ہے، جن کا بین الاقوامی حلقوں میں مسلسل اعتراف کیا گیا ہے، حتیٰ کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ نوری المالکی نے اپنے دور میں فرقہ وارانہ تسلط قائم کرنے کے لئے عراق کی ایک بڑی آبادی کو نشانہ بنایا تھا۔
داعش کا دعویٰ ہے کہ وہ خلافت اسلا میہ کے احیاء کے لیے برسر پیکار ہیں ،جو اس کے بقول عراق و شام میں قائم ہوچکی ہے،اور وہ اس کا دائرہ دنیا بھر میں پھیلانا چاہتی ہے،اسے عراق وشام کے بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہے،اور وہ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور توسیع دینے کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کر رہی ہے۔تکفیر وقتال اس کے خصوصی عنوانا ت ہیں،داعش کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان ان کا ساتھ نہیں دے رہا یا ان کے خیالات میں ان کے مخالف حکمرانوں کی تائید کا سبب بن رہے ہیں ،وہ نہ صر ف کافر ہیں بلکہ واجب القتال ہیں، چنانچہ مبینہ طور پر بے شمار مسلمان اس تکفیر و قتال کی بھینٹ چڑ چکے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اگر وہ تکفیر اور قتال کے فتنہ میں مبتلا نہ ہوتے تو اپنے بنیادی اہداف یعنی خلافت اسلامیہ کے قیام اور مشرق وسطیٰ میں اہلسنت کے حقوق و مفادات کے تحفظ کی مہم میں انہیں عالم اسلام میں معقول حمایت حاصل ہوسکتی تھی مگر دہشت گردی اور تکفیر وقتال کا راستہ اختیار کرنے پر وہ امت مسلمہ کے کسی بھی سنجیدہ طبقہ کی حمایت سے محروم ہوگئے ہیں،چنانچہ ان کی ،مذمت اور انکے خلاف کاروائیوں میں امت مسلمہ بھی باقی دنیا کے ساتھ برابر کی شریک دیکھائی سے رہی ہے۔
تکفیر اور اس پر مبنی قتال کا یہ فتنہ نیا نہیں ہے،بلکہ قرن اول سے چلا آ رہا ہے،جنگ صفین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ کے خلاف بغاوت کرنے والے "خوارج"نے بھی تکفیر و قتال کے عنوان پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا ،اور دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کے بیشتر حصوں میں اس کا شر اور فساد کا دائرہ پھیلا دیا تھا،وہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کو تو کافرکہتے ہی تھے مگر جنگ صفین میں حضرت علی و حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان ہونے والی تحکیم (صلح کے مذاکرات)سے برأت نہ کرنے والوں کو بھی کافر کہتے تھے ، حتیٰ کہ ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کاارتکاب کرنے والے عام مسلمان مسلمان بھی دائرہ اسلام سے خارج تھے اور وہ صرف تکفیر تک محدود نہ تھے بلکہ واجب القتل بھی سمجھتے تھے،بصرہ شہر پر قبضہ کے بعد انہوں نے ہزاروں مسلمانوں کو اسی وجہ سے شہید کردیا تھا اور جب ان کا قبضہ کوفہ پر ہوا تو انہوں نے کوفہ کی آبادی کو قتل کا اعلان کردیا تھا اور امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کو گرفتار کرکے خارجیوں کے کمانڈر کے سامنے پیش کیا گیا تھا،یہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا حوصلہ و تدبر اور حکمت عملی تھی کہ نہ صرف خود کو بلکہ کوفہ کے عام مسلمانوں کو بھی ضحاک خارجی کی طرف سے قتل عام کے اعلان پر عملدرآمد سے بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
تکفیر و قتال کے اس فتنے نے اب سے دو عشرے قبل الجزائر میں اس طرح کا حشر بپا کیا تھاملک کو اسلامی ریاست بنانے کے دعوے کے ساتھ ہتھیاراٹھانے والے گروہوں نے دس سال کے اندرایک لاکھ کے لگ بھگ الجزائری مسلمانوں کوباہمی قتل وقتال کی بھینٹ چڑھا دیا تھا اوراب یہ فتنہ پورے مشرق وسطٰی کواپنی لپیٹ میں لینے کیلئے آگے بڑھ رہا ہے لیکن اس سب کچھ کے بعدبھی اکابر اہلسنت نے تکفیر وقتال کی اس روش براٗت اور اس کی شدید مذ مت کے باوجود ان خوارج کوکافر قرار دینے سے گریز کیا ہے امام اعظم امام ابو حنیفہ خود اس دہشت گردی کا نشانہ بنتے بنتے بچے تھے مگرجب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ لوگ کافر ہیں؟تو انہوں نے کفر کا حکم لگانے سے انکار کیااور فرمایا کہ یہ ظالم اور باغی ہیں علامہ ابن عابدین شامی ؒ نے لکھا ہے کہ جمہور فقہاء و محدثین نے ان خوارج کو کافر کے بجائے فاسق و فاجر اور باغی قراردیا ہے البتہ بعض محدثین نے ان کی تکفیر بھی کی ہے۔(از اقتباس کالم روزنامہ اسلام 12 دسمبر2015)
معروف مذہبی سکالر اور کالم نگار مولانا محمد ازہر صاحب اپنی تحریر "داعش کی حقیقت "میں لکھتے ہیں کہ اسلامی ریاست کے قیام کا دعویٰ کرنے والی یہ تنظیم اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے آے دن کوئی نہ کوئی نئی صورت ایجاد کرتی ہے ،جانوروں کی طرح انسانوں کو ذبح کرنا ،ذبح شدہ انسانوں کے سروں کی نمائش کرنا، زندہ انسانوں کوبلند عمارت سے سر کے بل نیچے پھینکنا ،پنجرے میں بند کر کے پانی میں ڈبو دینا، گردن کے ساتھ با رودی مواد باندھ کر اُڑا دینا غرض یہ کہ ایک سے بڑھ کے ایک سفاکانہ طریقے سے لوگوں کی جانیں لینا داعش کا معمول اور تعارف بن چکا ہے ۔داعش نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں بڑے بڑے ابلاغی مراکز قائم کر رکھے ہیں جہاں ان مظالم کی انتہائی مہارت سے فلم بنائی جاتی ہے اور پھردنیا کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے ۔مسلمانوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کے مرتد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے ارتداد کی وجہ ان کا بیعت سے انکار یا باطل نظام کا حصے داریادشمن کا ایجنٹ ہونا بتلایا جاتا ہے ۔
داعش کے عزائم اور مقاصد کیا ہیں؟اس کے متعلق کویت کے مشہور عربی رسالہ المجتمع میں ایک رپوٹ شائع ہوئی جس کا حاصل یہ ہے کہ امریکہ اور اسلام دشمن طاقتوں کو نائن الیون واقعہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے تو انہوں نے کلی طور پر دنیا کے نقشے سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے داعش کو تیار کیا ہے ،جو عالم عرب میں بسنے والے مسلمانوں کومسلکی بنیاد پر کافر و مرتد قرار دیکراس وقت تک قتل کرنا بند نہ کرے جب تک مشرق وسطیٰ کا لفظ نقشہ سے ختم نہ ہو جائے، دوسری طرف داعش کو اتنا طاقتوربنا دیاجائے کہ وہ ان ممالک کو بھی نشانہ بنائے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں، فرانس میں داعش کے ذریعے جوحملہ کرایا گیااس میں پُرامن شہریوں کو نشانہ بنایا گیاامریکہ واسرائیل کو اس سے حملہ سے ذرا برابر نقصان نہیں پہنچالیکن پوری دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حملہ آور مسلمان تھے لہذادنیا کے سارے مسلمان قاتل اور مجرم ہیں۔
داعش نے اپنے قیام(2013)کے بعدابتدائی طور پر عرب حکومتوں کے ساتھ امریکااور مغربی طاقتوں کے ظلم وسفاکی کی بھرپور مذمت کی اورعراق وشام میں اہل سنت کے خلاف حکمرانوں کے ظلم اور نسل کشی کو ہدف بنا کر نوجوانوں میں جذبہ انتقام پیدا کیا،یہ پروپیگنڈا صرف عرب ممالک میں ہی نہیں بلکہ یورپی اور دوسرے ممالک میں بھی کیاگیا جہاں مسلمان خاصی تعداد میں ہیں چنانچہ چیچنیا ،داغستان، آزربائیجان اور ترکمانستان سے بھی بڑی تعدادمیں داعش میں شامل ہونے کے لئے شام چلے
گئے مگر یہ ہوا کہ اہلسنت کو حکمرانوں کے ظلم وستم سے بچانے کا نعرہ لگانے والی داعش نے عملاً اہلسنت کے خلاف اقدامات شروع کر دئیے ،چنانچہ اس نے آتے ہی عراقی وشامی حکومتوں( دونوں میں امریکہ اور روس کے حمایت یافتہ اور سو فیصد اہل تشیع لوگ ہیں) میں فوری طور پر ایسے تمام افراد کو ختم کردیا جو مستقبل میں ان حکومتوں کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتیں تھے۔
داعش نے جن لوگو ں کو میدان عمل سے غائب کیا ان میں(الف)شام میں بشار الاسد کے خلاف جتنی جماعتیں مسلح ہو کر مقابلہ کررہی تھیں،انہیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا۔(ب)مساجد کے ائمہ ،خطباء اور علمائے دین کو قتل کیا جو داعش کی فکر کے خلاف تھے۔(د)دولت مند ،شرفاء،معززین شہر،یونیورسٹیز اور کالجز کے پروفیسر، مفسرین و محدثین کرام ،دینی علوم کی تدریس کرنے اولے اساتذہ اور سماجی شخصیات،سائنس دانوں اور انجینئروں اور ایٹمی توانائی کے ماہرین کو نشانہ بنا کر ختم کیا، یہ سب کے سب اہل سنت تھے۔
شام میں چار سال سے اسدی فوج کے خلاف جو لوگ جنگ کر رہے ہیں، داعش نے اپنے اقدامات سے ان کو فوجی ، سیاسی اور مالی لحاظ سے کمزور کرنے کی بھر پور کوشش کی ، داعش نے غیر معمولی تشدد ، انتہاپسندی اور تکفیری طرز عمل کی وجہ سے پوری دنیا کے جذباتی مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے،انتہائی اشتعال انگیز انداز میں تقریریں سنا کر نوجوانوں کے جذبات کو گرم اور ان کے دل ودماغ پر قبضہ کرلیا جاتا ہے،اسلامی خلافت کے قیام کے سہانے خواب دکھا کر انہیں ایسا نشہ پلا یا جاتا ہے کہ وہ شیطان سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
داعش کی ان سرگرمیوں نے بہت سے سوال پیدا کر دیئے ہیں ،مثلاتنظیم نے آج تک بشار الاسد کے خلاف کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا ؟ جب کہ شام کے عوام چار سال سے اس کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔شام اور عراق میں اہل سنت کے اکثریتی علاقوں کو تنظیم نے قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا ، ان علاقوں کے قائدین ،زعماء،علماء و مشائخ کو ہدف بنا کر کیوں قتل کیا گیا؟
ان معروضات کے پیش نظر مہ داعش کو ایک انتہا پسند ،متشدد اور مسلم دشمن طاقتوں کی آلہ کار تنظیم سمجھتے ہیں،اس کے اب تک کیے گے اقدامات قرآن و سنت کی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہیں۔(روزنامہ اسلام۔24جنوری2016)
داعش کی متنازعہ حیثیت کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں اخوان کے بزرگ راہنماعلامہ یوسف قرضاوی،اخوان المسلمین اور اس حامی جماعتیں ،عراق،اردن،مراکش،پاکستان ،ہندوستان اور پورپین ممالک کی علماء کونسلیں شامل ہیں۔ سعودی مفتی اعظم فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ داعش اسرائیلی فوج کا حصہ ہے اور ان خوارج ہی کی ایک شکل ہے جنہوں نے قرن اوّل میں اسلامی خلافت کے خلاف بغاوت کرکے ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا تھا۔
موجودہ حالات میں جہاں مسلم نوجوان داعش اور اس جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے شدت پسندانہ کردار سے نفرت و برأت کا اظہار کرتے ہیں وہیں اس عزم وعہد کی بھی تجدید ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات اور معاشرت کو اپنائے بغیر ہم اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکیں گے۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
داعش کے عزائم اور مقاصد کیا ہیں؟اس کے متعلق کویت کے مشہور عربی رسالہ المجتمع میں ایک رپوٹ شائع ہوئی جس کا حاصل یہ ہے کہ امریکہ اور اسلام دشمن طاقتوں کو نائن الیون واقعہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے تو انہوں نے کلی طور پر دنیا کے نقشے سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے داعش کو تیار کیا ہے ۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​


اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے کہ داعش جيسی دہشت گرد تنظيم کے خلاف جاری عالمی کاوشوں کا دنيا ميں مسلمانوں اور غير مسلموں کے مابين موجود تفريق سے کوئ تعلق نہيں ہے۔ بلکہ حقيقت تو يہ ہے کہ داعش اور اس سے منسلک گروہوں نے تو بارہا يہ کہا ہے کہ ان کی لڑائ ہر اس فريق کے خلاف ہے جو ان کی جانب سے کی جانے والی مذہبی تشريح سے انحراف کرے اور اس ضمن ميں وہ مستند اسلامی اسکالرز، غير مسلموں اور يہاں تک کہ عام مسلمان شہريوں کو بھی خاطر ميں لانے کو تيار نہيں ہيں۔

دہشت گردی کے عالمی مسلۓ کو مسلمانوں اور غير مسلموں کے درميان جاری کسی مذہبی جنگ کا رنگ دے کر اسے غلط پيراۓ ميں بيان کرنا حقائق کے منافی ہے۔ اگر يہ منطق درست ہوتی تو سعودی عرب اور پاکستان کی حکومتوں سميت اسلامی دنيا کے بيشتر ممالک ہمارے ساتھ نہ کھڑے ہوتے اور تشدد اور عدم برداشت کی اس لہر کو روکنے کے ليے ہمارا ساتھ نہ دے رہے ہوتے جس نے نہ صرف يہ کہ اس خطے کو بلکہ دنيا بھر ميں انسانی جانوں کو خطرے ميں ڈالا ہوا ہے۔ يہ دليل اس ليے بھی قابل قبول نہيں ہے کيونکہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے افراد ميں کوئ قدر مشترک نہيں ہے۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ ان درندوں کے جرائم کے سبب مسلمانوں اور غير مسملوں سميت تمام دنيا کے عام شہريوں کو يکساں خطرات لاحق ہيں، باوجود اس کے کہ يہ مجرم اپنے جرائم کو مذہب کے لبادے سے ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

tanveer ahmad awan

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2016
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
7
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسلا م میں استاد کا مقام و مرتبہ
مولاناتنویر احمد اعوان
اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کو احسن تقویم ارشادفرمایاہے ،مصوری کا یہ عظیم شاہکار دنیائے رنگ وبو میں خالق کائنات کی نیابت کا حقدار بھی ٹھہرا۔اشرف المخلوقات، مسجود ملائکہ اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے متصف حضرت انسان نے یہ ساری عظمتیں اور رفعتیں صرف اور صرف علم کی وجہ سے حاصل کی ہیں ورنہ عبادت و ریاضت ،اطاعت و فرمانبرداری میں فرشتے کمال رکھتے تھے،ان کی شان امتثال کو اللہ کریم نے قرآن پاک میں بیان فرمایاہے کہ وہ اللہ کی کسی بات میں نافرمانی نہیں کرتے اور ان کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ (التحریم ۔6) ۔علم ،عقل و شعور، فہم وادراک ،تمیز ، معرفت اور جستجو وہ بنیادی اوصاف تھے جن کی وجہ انسان باقی مخلوقات سے اشرف واعلیٰ اور ممتازقرار دیا گیا۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ حصول علم درس و مشاہدہ سمیت کئی خارجی ذرائع سے ہی ممکن ہوتا ہے،ان میں مرکزی حیثیت استاد اور معلّم ہی کی ہے،جس کے بغیر صحت مند معاشرہ کی تشکیل ناممکن ہے ،معلّم ہی وہ اہم شخصیت ہے جو تعلیم وتربیت کا محور ،منبہ ومرکز ہوتا ہے ،ترقی یافتہ قوموں اور مہذب معاشروں میں استاد کوایک خاص مقام و مرتبہ اور نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ مہذب ،توانا،پرامن اور باشعور معاشرے کا قیام استاد ہی مرہون منت ہے ۔
اسلام نے دنیا کوعلم کی روشنی عطا کی ،استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے ،بنی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا " مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے "(ابن ماجہ۔229)۔ اسلام نے استادکو روحانی والدقرار دے کر ایک قابل قدرہستی ،محترم ومعظم شخصیت ، مربی و مزکّی کی حیثیت عطا کی۔معلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالم رنگ و بو میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہیں ،چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے ،اور اٰدم ؑ کو اللہ کریم نے سب چیزوں کے اسماء کا علم عطاء کیا۔(البقرہ۔31) ۔انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ تعلیم کا بھی انتظام فرمایا" رحمٰن ہی نے قراٰن کی تعلیم دی،اس نے انسان کو پیدا کیااس کو گویائی سکھائی"۔(الرحمٰن)ذریعہ تعلیم قلم کو بنایا "پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم سے سکھایااور آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتاتھا"۔(العلق ۔6)
معلّم کائنات نے انسانیت کی راہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ء کرام کو معلّم و مربّی بنا کر بھیجا ،ہر نبی شریعت کامعلّم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر اور معلّم بھی ہوتا تھاجسے حضرت اٰدم ؑ دنیا میں ذراعت، صنعت وحرفت کے معلّم اوّل تھے ،کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریس ؑ نے ایجاد کیا،حضرت نوح ؑ نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا،حضرت ابراہیم ؑ نے علم مناظرہ اور حضرت یوسف ؑ نے علم تعبیر الرؤیا کی بنیاد ڈالی۔خاتم الانبیاء ﷺنے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایاتم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سیکھائے۔(بخاری ۔5027)معلّم کے لیے نبی کریم ﷺکی بشارت حضرت ابو ہریرہؓ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ؛غور سے سنو،دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور ہے البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالی سے قریب کریں یعنی نیک اعمال،عالم اور طا لب علم ( یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت سے دورنہیں ہیں)۔(ترمذی۔2322)استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے ۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے ،مخبر صادقﷺنے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ ،ان کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی ۔2675)اساتذہ کے لیے نبی کریم ﷺ نے دعافرمائی کہ اللہ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھااور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا یا۔(ابو داؤد۔366)
خیر القرون میں معلّمین کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ معلّمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ
انتظامی امور اور عہدوں پر فائز کرتے تھے۔حضرت علی المرتضیؓ کا قول ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔(تعلیم المتعلم ۔21)حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ہم استاد سے اتناڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں ۔حضرت یحییٰ بن معین ؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ابو یوسف ؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا۔(تعلیم المتعلم 22)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ اساتذہ کے سامنے تواضع اور انکساری کا اظہار کرتے تھے، علم حدیث کے لیے ان کے گھروں کی دہلیز پر بیٹھ جاتے اور استاد کے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے ،ہوا سے چہرے پر گرد اور مٹی پڑتی رہتی تھی ،جب وہ حضرات اپنے کا م سے باہر نکلتے تو آپ کو منتظر اور طالب علم پاتے اورآپ استاذ کے سامنے یوں گویا ہوتے کہ میں علم کا طالب ہوں، میرادل نہ چاہا کہ آپ میری وجہ سے اپنی ضروریات سے فارغ ہونے سے پہلے آئیں(دارمی)۔یہی ادب تھا جس کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کوامام المفسرین ، حبر الامت اور بحر العلم کا لقب عطا ہوا۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ،حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت ابوہریرہؓ،حضرت ابی بن کعبؓ اورحضرت مصعب بن عمیرؓ جیسے سینکڑوں صحابہ کرام نے معلّم کائنات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ،تربیت اور تزکیہ کی چکی میں پسے آپ ﷺ کی مجلس میں ادب کا یہ عالم ہوتا تھا کہ صحابہ کرامؓ چہرہ انورﷺ کی طرف سیدھا نہیں دیکھتے تھے،بیٹھنے کا اندازایسا مؤدبانہ ہوتا تھا کہ پرندے آ کرصحابہ کے سروں پر بیٹھ جاتے تھے۔
امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استادکے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب ھدایہ کے مصنف، شیخ الاسلام برہان الدینؒ بیان فرماتے ہیں کہ ائمہ بخارا میں سے ایک امام دوران درس بار بار کھڑے ہو جاتے،شاگردوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب مسجد کے دروازے کے سامنے آتا ہے میں اپنے استاد کی وجہ سے ادب میں کھڑا ہو جاتا ہوں ۔
قاضی امام فخر الدین ارسابندی ،اللہ نے ان کو علماء میں بڑا مقام عطا فر مایا تھا،بادشاہ ان کی بہت عزت کرتا تھا،بادشاہ ان سے کہا کرتا تھا کہ میں نے یہ عزت و مرتبہ اپنے استاد کی دعا اور خدمت سے حاصل کیا ہے ، میں نے تیس سال قاضی امام ابو یزید دبوسی ؒ کی خدمت اور ان کے لیے کھانا پکایا ہے اور اس کھانے میں سے کبھی نہیں کھایاتھا۔
علماء ہند میں حضرت شیخ الہند محمود حسن ؒ علم و فضل ،تقوٰی و طہارت ،جہد و عمل ،تواضع و انکساری میں منفرد مقام کے حامل تھے، شیخ العرب و العجم حضرت حسین احمد مدنی ؒ کو دیکھا گیا کہ باوجود اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے اپنے استاد شیخ الھند ؒ کے گھر کا پانی اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتے تھے۔
شمس الائمہ علامہ حلوانی ؒ نے بخارا کو خیر آباد کہا اور کسی دوسری جگہ تشریف لے گئے تو آپ کے تمام تلامذہ آپ کی زیارت کے لیے آئے سوائے قاضی شمس الائمہ الزرنوجی ؒ کے،جب استاد کی شاگرد سے ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ آپ میری ملاقات کوکیوں نہیں آئے تھے؟ عرض کیا کہ والدہ کی خدمت میں مشغولیت مانع تھی۔ امام نے کہا کہ آپ عمر لمبی پائیں گے مگر درس نصیب نہیں ہو گا،استاد کے منہ سے نکلی ہوئی اس بات کو وقت نے سچ ثابت کیا کہ علامہ زرنوجی ؒ زندگی کا اکثر حصہ دیہاتوں میں رہے آپ کو تدریس کا موقع نہ میسر آسکا۔ خلیفہ ہارون رشید نے امام اصمعی ؒ کے پاس اپنا بیٹا تحصیل علم و ادب کے لیے بھیجا ،ایک دن خلیفہ نے دیکھا کہ امام اصمعی وضو کر رہے ہیں اور اس کا بیٹااستاد کے پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔خلیفہ نے امام صاحب کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا بیٹا اس لیے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اس کو علم و ادب سکھائیں ،آپ اسے یوں کیوں نہیں کہتے کہ یہ ایک ہاتھ سے آپ کے پاؤں پرپانی ڈالے اوردوسرے ہاتھ سے اس پاؤں کودھوئے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معلّم کو سب سے بہترین انسان قرار دیا گیا ہے،استاد کے ادب کو تحصیل علم کے لیے بنیاداور اساس کہا گیا ہے ۔عربی مقولہ ہے الادب شجر والعلم ثمر ثم فکیف یجدون الثمر بدون الشجر۔ادب درخت ہے اور علم پھل ہے پھر بغیر درخت کے کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔
اگر تدریس کو بحثیت مشغلہ دیکھا جائے تو یہ مشغلہ تمام پیشوں سے اعلی ،اشرف و افضل ہے،دنیا میں لوگ جتنی بھی محنتیں کر رہے ہیں ان میں معلّم کی فضیلت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتاہے۔عربی ضرب المثل ہے کہ خیر الاشغال تھذیب الاطفال۔بہترین مصروفیت و مشغلہ بچوں کی تربیت کرنا ہے۔معلّم انسانیت پر محنت کرکے کار نبوت سرانجام دے رہا ہوتا ہے۔امام الانبیاءﷺکی حدیث شریف اس پر شاھد ہے کہ علم والے نبیوں کے وارث ہیں۔(ابوداؤد۔3641)
استادافراد کی تربیت کرکے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے گویا بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب کہ بادشاہوں پر معلّمین کی حکومت ہوتی ہے۔پیغمبر اسلام ﷺکا ارشاد مبارک منصب تدریس کی اہمیت کو مزید واضح کردیتا ہے کہ جس شخص نے لوگوں کو خیر کی طرف بلایا ،لوگوں کے اجر کے برابر اس کو بھی اجر ملے گااور لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔(مسلم۔1893) معلّم کا فرض سب سے اہم اور اس کی ذمہ داری سب سے مشکل ہے۔ مصور پاکستان،شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے معلّم کی حیثیت ،عظمت اور اہمیت کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے کہ استاددراصل قوم کا محافظ ہوتاہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوار نا اور ان کو ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے،سب محنتوں میں اعلٰی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کارگزاری معلّموں کی ہے،معلّم کا فرض سب سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی ،تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔
معلّم کی یہ عظمت،مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفات حسنہ اور اخلاق حمیدہ کا جامع ،صبر واخلاص کا پیکر،علم و تحقیق کے خمیر میں گوندا ہواہو۔استاد کا مطمع نظر رضا خداوندی، انسانیت کی تربیت اور نونہالان قوم کو علم ومعرفت سے روشناس کرانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ معلّم کے قول و عمل میں یکسانیت،صداقت،شجاعت،قوت برداشت،معاملہ فہمی،تحمل مزاجی اور استقامت جیسے اوصاف نمایاں ہونے چاہیے کیونکہ شاگرد استاد کا عکس ہوا کرتے ہیں ۔بزرگوں کا قول ہے کہ اساتذہ نیک تو طلبہ بھی نیک،اساتذہ خود اپنے بڑوں کے قدردان تو طلبہ خود ان اساتذہ کے قدر دان ہوں گے العرض اساتذہ کرام شریعت اور سنت کے پابند ،اپنے منصب کے قدر دان ،طلبہ پر مشفق اورجذبہ خیر سگالی سے سرشارہوں تو ان کے ہاتھوں تربیت پانے والی نسلیں بھی ان ہی صفات حمیدہ کی حامل ہوں گی۔ گلشن محمدی ﷺجس کی آبیاری کے لیے پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرامؓ نے اپنی ساری توانائیاں و صلاحیتیں خرچ کر ڈالیں تھیں ،وہ ملت جس کی شان و شوکت اور عروج اپنوں کی غفلت اورغیر وں کی عیاری کی وجہ سے ماندہ پڑا ہو ا ہے ۔معلّم کا جذبہ یہ ہونا چاہیے کہ میرے ذریعے امت کے ایسے نونہال تیار ہو جائیں جو امت محمدیہ ﷺکی نشاۃ ثانیہ کا فریضہ سرانجام دے سکیں ،وہ ایسے تناور درخت کی مانند ہوں جو سب کو چھاؤں اور پھل دیں ،جوتحقیق و جستجو کے میدانوں کے شاہسوار اور علم کے شناور ہوں،جو دنیا کو امن و سلامتی کادرس اور محبت کا پیغام دینے والے ہوں۔ایک معلّم کی یہ آرزو ہونی چاہیے کہ میری ساری زندگی کی محنت اور جگر سوزی اس لیے ہے کہ قیامت کے دن میرا حشر معلّمین، امت کے معماروں ،نگرانوں،قائدین اور رہبروں کے ساتھ ہو۔
 
Top