• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

داعش عالمی اور علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پیداوار ہے : امام و خطیب مسجد الحرام شیخ صالح آل طیب

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
شرع میں ہم ظاہر پر مکلف ہیں ۔
الحمدلِلہ۔ دولۃ الاسلامیہ قرآن وسنت کے دعویٰ دار ہیں اور اس پر سختی سے کاربند ہیں ۔ دعوت امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور جہاد جاری کیے ہوئے ہیں ۔ اسلامی نظام کا نافذ کرنا ، حدوداللہ کا اجراء ، روافض مشرکین کو ذبح کرنا، یہ اسلام نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟
کیا یہ اسلام ہے کہ حربی کفار کی ڈر سے ان کے شانے بشانے مل کر مسلمان ملک پر حملہ کرے ؟
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
خودہی تصاویر ایڈٹ کرتے ہیں اور خود ہی پوسٹ مارٹم بھی کرتے ہیں ۔
شاباش ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا کسی عورت کو سپر پاور کے حوالے کرنا بڑاجرم ہے یا امہات المومنین پر تہمت لگانا بڑا جرم ہے ؟لیکن تہمت لگانے والوں کو پھر بھی نبی ﷺ نے قتل نہیں کیا ۔

کسی ایک صحابی کو قتل کرنا بڑا جرم ہے یا 700صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ مجمعین کو احد کی جنگ میں دھوکہ دیکر واپس پلٹ کر پروپیگنڈہ کرنا بڑا جرم ہے ؟لیکن ان منافقوں کو پھر بھی نبی اکرم ؐ نے قتل نہیں کیا ۔

نبی اکرم ﷺ کی گستاخی کرنا ، کفار سے دوستی لگانا ، مسلمانوں کے راز کافروں کو بتا دینا ،جنگ میں مسلمانوں کو دھوکہ دینا ، امہات المومنین پر بہتان لگانا ۔۔کیا یہ سب قرآن کے فیصلے تھے جو ابن سلول نے لاگو کیے ہوئے تھے ؟لیکن پھر بھی نبی اکرم ؐ نے اس کو قتل نہیں کیا ۔

اپنے علاقے کفار کو دینا بڑا جرم ہے یا مسلمانوں نے علاقوں میں رہ کر کفار کے لیے کام کرنا بڑا جرم ہے ؟میدان جنگ میں اکیلا چھوڑنا ، مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنا ، رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کرنا ۔۔۔لیکن پھر بھی نبی ؐ کا ان کو قتل نہ کرنا ۔۔۔ آخر وجہ کیا ہے ؟؟؟؟

جس کے کفر کی تصدیق اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ میں 9مرتبہ کر دے کیا ابھی بھی اس کے شرکیہ نعروں کا انتظار کیا جائیگا ؟

جو نبی ﷺ کو معاذ اللہ ذلیل کہے ، نبی ﷺ کے گدھے سے کہے کہ بدبو آرہی ہے اس کو باہر نکالو ،کیا یہ صحابہ کو گالی دینے سے چھوٹے جرائم ہیں ؟

لوگو! یہ اہل تکفیر و خوارج ہیں جو حرج یعنی قتل عام کرتے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں کوئی منہج نہیں ۔
 

kh.is

مبتدی
شمولیت
جون 09، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
داعش عالمی اور علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پیداوار ہے : امام و خطیب مسجد الحرام شیخ صالح آل طیب حفظہ اللہ

http://dailypakistan.com.pk/international/06-Jun-2015/232481
بسم اللہ الرحمن الرحیم انصاراللہ اردو پیش کررہا ہے دورہ پاکستان پرآنےوالےامام کعبہ نےخانہ کعبہ میں مسلمانوں کی امامت وخطابت کرنےوالےصلیبی امام کعبہ کی یاد تازہ کردی ازقلم : دولت اسلامیہ کے انصار عالم دین شیخ ابومقاتل المہاجر حفظہ اللہ حصّہ اوّل اس مادیت پرستی کے دور میں قرآن کریم اور احادیث کی کتب تسعہ (صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد، سنن ابی داود ، سنن ابن ماجۃ ، مؤطا مالک ، سنن النسائی، سنن الدارمی، سنن الترمذی) کو ترجمے کے ساتھ زندگی میں ایک بار بھی نہ پڑھنے کی وجہ سے کئی مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے احکام ومعاملات بھی دیگر باطل ادیان کے احکام ومعاملات کی طرح ہیں۔ چنانچہ وہ امام کعبہ ودیگر اسلامی عہدوں پر فائز شخصیات کو عیسائیوں کے پوپ بابائے روم اور ہندوؤں کے پنڈت اعلی کا درجہ دیتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غلطیوں سے مبرا برگزیدہ آئیڈیل شخصیات ہیں۔ وہ بھی اس وقت تک جب تک وہ امام کعبہ کے عہدے یا کسی دیگر عہدے پر فائز ہے۔ حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ اسلام میں رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام میں امام کعبہ ، شیخ الحدیث وامیر المجاہدین سمیت کوئی ایسا عہدہ نہیں ہے جس پر فائز ہونے والا رسول اللہﷺ کی ذات کی طرح برگزیدہ شخصیت ہو اور اس کی بات کو اسلام کی طرف رہنمائی کرنے میں آئیڈیل نمونہ سمجھا جائے۔ روز قیامت جہنم کی آگ کو سب سے پہلےجن لوگوں سے بھڑکایا جائے گا ، وہ کوئی عام لوگ نہیں ہونگے بلکہ خوبصورت آواز میں تلاوت اور دلوں کو گرمادینے والی تقریریں کرنے والے امام کعبہ، مفتی اعظم، علماء ، خطباء، قاری حضرات، امرائے جہاد، جہادی کمانڈر اور بہادر مجاہدین ہونگے۔ ان کا جرم یہ ہوگا کہ انہوں نے اسلام کے یہ اعلی ترین اعمال کو اخلاص کے ساتھ صرف اللہ تعالی کے لیے انجام نہیں دیا ہوگا اور ریاکاری وشہرت اور دنیوی مفادات کو کماتے ہوئے اس فانی دنیا سے گئے ہونگے اور انہوں نے توبہ نہیں کی ہوگی۔ پس خانہ کعبہ کے امام اور کسی بھی عام مسجد کے امام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور ان کا مقام ومرتبہ اسلام میں ایک ہی ہے۔ ان میں فرق اللہ تعالی جس چیز کے ساتھ کرتے ہوئے ان میں سے کسی کو کسی پربرتری دیتا ہے ،تو وہ چیز ہے تقوی ۔ جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا : ’’إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ’’ ’’بلاشبہ تم میں زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘)الحجرات49 : 13( اگر امام کعبہ کے پاس وہ تقوی نہیں ہے جو کسی عام مسجد کے امام کے پاس ہے تو پھر اس ادنی مسجد کے امام کو اس امام کعبہ پر برتری اور فوقیت حاصل ہے اور وہ اللہ کا زیادہ مقرب بندہ ہے۔ باقی خانہ کعبہ میں جو نماز پڑھنے کی فضیلت ہے وہ صرف امام کعبہ کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ وہ وہاں تمام نماز پڑھنے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے اس فضیلت کی بناپر امام کعبہ کو اسلام کوئی ایسا مقام ومرتبہ نہیں دیتا ہے، جس سے اس کی بات کو اسلام کی ترجمانی کرنے اور حرف آخر سمجھا جائے۔ امام کعبہ، شیخ الحدیث اور مفتی اعظم سمیت کسی بھی عہدے پر فائز ہونے والے کو ہدایت یافتہ ہونے کا سرٹیفکیٹ اسلام نہیں دیتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالی نے کوئی ایسا عمل بتایا ہے جس کو کرنے سے یہ خوبی حاصل ہوجاتی ہو کہ وہ ہمیشہ کے لیے حق پر ہے اور حق کی طرف راہنمائی و نشاندہی کرنے والا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اسلام میں شخصیت پرستی کا تصور نہیں ہے اور مسلمانوں کو اللہ تعالی نے کتاب وسنت کے دلائل کی اتباع کرنا کا حکم دیا ہے جبکہ ان کے لیے آئیڈیل اور نمونہ صرف رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو قرار دیا گیا ہے جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا ‘‘ ’’پس اگر وہ بھی اسی طرح کاا یمان لے آئیں جیسے تم (صحابہ کرامؓ) ایمان لائے ہو تو یقینا وہ ہدایت پاگئے ہیں۔‘‘ اب جو صحابہ کرامؓ کی طرح کا ایمان نہیں لیکر آتا اور کتاب وسنت کے فرامین کے پیچھے چلنے کی بجائے آنکھیں بند کرکے اپنے علماء اور امراء کے پیچھے چلے گا اور وہ جس کو حلال وحرام کہیں گے، اسے حلال وحرام سمجھے گا تو اسلام اسے ان کی عبادت کرنے والا قرار دیتا ہے اور شرک اطاعت کرنے کی وجہ سے اسےمشرک کہتا ہے، حالانکہ اس نے ان کو رکوع وسجدہ نہیں کیا ہوتا ہے۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ایسی اندھی اطاعت کو عبادت کہا ہے اور یہود ونصاری کو بھی اسی وجہ سے کافر ومشرک قرار دیا کیونکہ یہ شرک اکبر کی تیسری قسم ہے کہ اطاعت میں اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺکو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا: ’’اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ‘‘ ’’انہوں نے اپنے علماء، بزرگوں اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنالیا، جالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ ایک اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان شریکوں سے پاک ہے جن کو وہ اس کے شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘ (سورۃ التوبۃ: 31) (سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ، جو کہ پہلے عیسائی تھے ، کہتے ہیں) میں نے نبی کریم ﷺسے کہا: ہم ان علماء اور بزرگوں کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔’’ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’أَلَيْسَ يُحَرِّمُونَ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فَيُحَرِّمُونَهُ , وُيُحِلُّونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيَسْتَعْمِلُونَهُ؟‘‘ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى , قَالَ: ’’فَذَلِكَ عِبَادَتُهُمْ‘‘ ’’ کیا ایسا نہیں تھا کہ تم اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو ان کے کہنے پر حرام اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو ان کے کہنے پر حلال سمجھتے ہوئے استعمال کرتے تھے؟ میں نے کہا: ’’واقعی ایسا ہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:’’یہی ان کی عبادت ہے۔‘‘ (سنن الکبری، ترمذی،المعجم الکبیر) اسی طرح شرک اطاعت سے متعلق اللہ تعالی کے یہ فرامین ہیں : ’’أَمْ لَهُمْ شُرَكَاء شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ‘‘ ''کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر) رکھے ہیں جنہوں نے ایسے احکام اور ضابطے مقرر کردیے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں؟''۔(الشوری: ٢١) ’’أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلاَلاً بَعِيدًا‘‘ ''کیاآپ نے (اے نبی!) دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھی، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے''۔(النساء: ۶۰) وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ''اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو یقیناً تم مشرک ہو''۔(الانعام: ١٢١) پس کتاب وسنت کو چھوڑ کر اپنے امراء اور علماء کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلتے ہوئے شرک اطاعت کرنے اور ان کی عبادت کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالی روز قیامت فرمائے گا ’’احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَاهْدُوهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِ‘‘ ’’گھیر لاؤ سب ظالموں اور ان کے ہمراہیوں اور ان معبودوں کو جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر بندگی کیا کرتے تھے۔ ان سب کو (جمع کرکے) پھر انہیں دوزخ کی راہ دکھاؤ’’۔(الصافات: ٢٢، ٢٣) اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے ہونے والے 73 فرقوں میں سے 72 جہنم میں اور صرف ایک گروہ کے جنت میں جانے کے بارے میں بتانے کے بعد فرمایا کہ جنت میں جانے والا گروہ وہ ہوگا ’’مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِيْ‘‘ ’’جس پر آج میں اور میرے صحابہ کرام چلتے ہیں۔’’ (ترمذی و ابوداؤد) الغرض لوگوں کے ذہنوں میں امام کعبہ ، مفتی اعظم یا کوئی اور اسلامی شخصیات کے بارے جو تصور موجود ہے ، اس کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے کیونکہ اسلام میں معیار اور حق کی کسوٹی صرف اور صرف کتاب وسنت کی اتباع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’أَلَا إِنَّ رَحَى الْإِسْلَامِ دَائِرَةٌ , فَدُورُوا مَعَ الْكِتَابِ حَيْثُ دَارَ , أَلَا إِنَّ الْكِتَابَ وَالسُّلْطَانَ سَيَفْتَرِقَانِ فَلَا تُفَارِقُوا الْكِتَابَ , أَلَا إِنَّهُ سَيَكُونُ أُمَرَاءُ يَقْضُونَ لَكُمْ، فَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ أَضَلُّوكُمْ وَإِنْ عَصَيْتُمُوهُمْ قَتَلُوكُمْ» قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَكَيْفَ نَصْنَعُ؟ قَالَ: ’’كَمَا صَنَعَ أَصْحَابُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ , نُشِرُوا بِالْمَنَاشِيرِ وَحُمِلُوا عَلَى الْخَشَبِ مَوْتٌ فِي طَاعَةٍ خَيْرٌ مِنْ حَيَاةٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَ ‘‘ ’’خبردار! اسلام کی چرخی گھومتی رہے گی ؛ پس تم کتاب (قرآن) کے ساتھ ساتھ اسی طرف کو گھومتے چلے جانا جس طرف وہ گھومتی چلی جائے گی۔ آگاہ رہو ! عنقریب تم پر فیصلے کرنے والے امراء آئینگے ۔ اگر تم ان کی اطاعت کروگے تو وہ تم کو گمراہ کردینگے اور اگر تم ان کی نافرمانی کروگے تو وہ تم کو قتل کردینگے۔ ’’ اے اللہ کے رسولﷺ!ہم پھر کیا کریں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہی کرنا جو عیسی ابن مریم علیہ السلام کے ساتھیوں نے کیا کہ (ثابت قدمی اختیار کرنے اور امراء کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے) ان کو آریوں سے کاٹ ڈالا گیا اور سولیوں پر لٹکایا گیا۔ اللہ کی اطاعت میں موت کا آنا اللہ کی نافرمانی میں زندگی گزارنے سے بہتر ہے۔’’(معجم الکبیر، معجم الصغیر) اس طرح کی اور بہت سی احادیث معاذ بن جبل، اور حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنھما سے مروی ہیں، جو ایک دوسرے کو سند میں پائے جانے والے ضعف کو ختم کرکے تقویت پہنچاتی ہیں اور جن میں اسلام ، ایمان اور قرآن کو چرخی کی طرح ہر وقت گھومتے رہنے کے بارے میں رسول اللہﷺ نے بتایا ہے۔ سو اسلام میں شخصیات کا جو معاملہ ہے، وہ تو واضح ہوگیا ہے ، لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے مسلمانوں میں سے کس طبقے کو سب سے زیادہ ہدایت ہدافتہ ، حق پر ہونے اور اسلام کی نمائندگی کرنے والا گروہ قرار دیا ہے ؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ وہ گروہ نہ علماء ومفتیان کا ہے، نہ ہی حرم مکی ومدنی کے امام وخطباء کا ہے بلکہ وہ گروہ صرف اور صرف ’’ اللہ کی راہ میں قتال کرنے میں مصروف مہاجر وانصار پر مشتمل مجاہدین’’ کا ہے ۔ ایک تو اس وجہ سے کہ یہ شخصیات پرستی، فرقہ ومسلک پرستی اور تنظیم پرستی کی بجائے صرف کتاب وسنت کی اتباع کرنے والا اہل سنت والجماعت کا وہ گروہ ہے، جسے رسول اللہ ﷺ نے طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ قرار دیا اور ان کی نشانیاں وصفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، قَالَ: فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ بِنَا، فَيَقُولُ: لَا إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ.‘‘ ’’میری امت کا ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا اور وہ روز قیامت تک غالب رہے گا۔ سو عیسی بن مریم ﷺ آئینگے تو ان کا امیر ان سے کہے گا کہ آئیے ہمیں نماز پڑھائیے۔ تو وہ جواب دینگے : نہیں ! اللہ تعالی نے اس امت پر کرم کرتے ہوئے تم کو ایک دوسرے پر امیر بنایا ہے۔’’(مسند احمد) ’’لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الدَّجَّالَ ۔‘‘ ’’میری امت میں کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قتال کرتا رہے گا اور وہ اپنے مخالفین پر غالب رہے گا یہاں تک کہ ان کا آخری فرد دجال سے قتال کرے گا۔’’(سنن ابی داؤد) ’’لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى أَمْرِ اللهِ، قَاهِرِينَ لِعَدُوِّهِمْ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ ‘‘ ’’میری امت کا ایک گروہ اللہ کے حکم پر قتال کرتا رہے گا ، اپنے دشمنوں پر کاری ضربیں لگاتا رہے گا، ان کو ان کی مخالفت کرنے والے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر رہینگے۔’’ (صحیح مسلم) ’’ لَنْ يَبْرَحَ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ‘‘ ’’ہمیشہ یہ دین (اسلام) باقی رہے گا ، مسلمانوں کی ایک جماعت اس (دین) کی خاطر تا قیامت تک قتال کرتی رہے گی۔‘‘(صحیح مسلم ، مسند احمد ) اس کے علاوہ کئی اور احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے طائفہ المنصورۃ صرف اللہ کی راہ میں قتال کرنے والے مہاجرین ومجاہدین کو قرار دیا اور ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ’’يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ‘‘ ’’وہ حق پر قتال کرتے ہوئے غالب رہینگے۔‘‘(مسند احمد ، سنن ابی داؤد) ‘‘ظَاهِرينَ عَلَى الحَقِّ ‘‘ ’’وہ حق پر غالب ہونگے۔‘‘ ( صحیح بخاری) ‘‘ عَلَى الدِّينِ ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ ‘‘ ’’ وہ دین پر غالب ہونگے اور اپنے دشمنوں کو زیر کرکے ان پر قابوپانے والے ہونگے ‘‘ (مسند احمد) ‘‘ يُقَاتِلُونَ عَلَى الْإِسْلَامِ ظَاهِرِينَ ‘‘ ’’وہ اسلام کی خاطر قتال کرکے غالب رہنے والے ہونگے۔‘‘ (المعجم الکبیر) ’’عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ يُقَاتِلُونَ مِنْ نَاوَاهُمْ‘‘ ‘‘وہ حق پر غالب ہونگے اور جو کوئی بھی ان سے دشمنی کرے گا، وہ اس کیخلاف قتال کرینگے‘‘۔(مسند البزار) ‘‘ يُقَاتِلُونَ مَنْ نَاوَأَهُمْ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ‘‘ ’’وہ اہل شرک میں سے اپنی مخالفت کرنے والوں سے قتال کرینگے۔‘‘(المعجم الکبیر) ’’قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ‘‘ ’’وہ اللہ کے حکم پر قائم رہنے والی ہوگی۔(یعنی طائفہ منصورہ اسلام کو نافذ العمل بناکر اس کی حفاظت کرنے والی ہوگی)۔‘‘(مسند احمد، المعجم الکبیر) ’’قَوَّامَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ ‘‘ ’’وہ اللہ کے حکم کو نافذ کرکے اس کی پابندی کرنے والی ہونگی۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ) ’’لَا يَضُرُّهُمْ خِلافُ مَنْ خَالَفَهُمْ‘‘ ’’ان کو ان کے مخالفین کی مخالفت کچھ نقصان نہیں پہنچاسکے گی۔‘‘ (مسند احمد، مسند اسحاق بن راہویہ) ’’ قَائِمَةً بِالْحَقِّ يُقَاتِلُونَ مَنْ قَاتَلَهُمْ وَحَارَبَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‘‘ ’’وہ حق پر قائم ہونگی اور وہ تاقیامت ان سب سے قتال کرتے رہینگے جو ان سے قتال کرے گا اور ان سے جنگ کرے گا۔‘‘ (المعجم الکبیر) ’’يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ‘‘ ’’وہ حق پر قتال کرینگے اور جو کوئی بھی ان سے دشمنی کرے گا ، اس پر یہ غالب رہینگے‘‘ (مسند احمد) ’’مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ‘‘ ’’وہ مدد کیے جائینگے اور ان کو بے یارومددگار چھوڑنے والے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ) ’’يقذف الله بهم كل مقذف، يقاتلون فضول الضلالة ‘‘ ‘‘اللہ تعالی ان کے ساتھ چوٹ لگاتا رہتاہے ہر چوٹ لگانے والی جگہ (جہادوقتال کے میدانوں وغیرہ)میں اور وہ گمراہی کی جڑوں سے قتال کرینگے۔‘‘ (کنز العمال ، جامع الاحادیث) ’’عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورَةٌ‘‘ ‘‘وہ حق پر مدد کیے جانے والے ہونگے۔‘‘(صحیح ابن حبان) احادیث میں اس کے علاوہ اور بھی ایسے الفاظ ہیں، جو واضح کرتے ہیں کہ طائفہ منصورہ کی بنیادی شرط اور صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں قتال وجہاد کرنے والے اور حقوق العباد وحقوق اللہ کو پورا کرتے ہوئے مکمل اسلام کے اوپر عمل کرنے والے ہونگے۔ یہ تمام اوصاف وشرائط جہاد وہجرت سے پیچھے بیٹھے رہنے والے گدی نشین علماء ومفتیان کرام ، حرم مکی ومدنی کے اماموں وخطیبوں کی بجائے صرف اور صرف راہ الہی میں اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے والی خلافت اسلامیہ کے قیام کے لیے تمام دشمنان اسلام سے بغیر کسی تفریق وتقسیم کے جہاد کرنے میں مصروف مہاجر وانصار مجاہدین پر پوری اترتی ہیں اور اسی وجہ سے یہ طائفہ منصورہ ہونے کے ناطے مسلمانوں کا وہ گروہ ہے ، جو سب سے زیادہ ہدایت ہدافتہ ، حق پر ہونے اور اسلام کی نمائندگی کرنے والا ہے ۔ اس کی ایک اور دوسری بنیادی وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے صرف اور صرف راہ الہی میں قتال کرنے والے مہاجرین ومجاہدین سے وعدہ فرمایا کہ وہ ان کو اپنی سیدھی راہوں کی طرف ہدایت وراہنمائی عطا کرے گا، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : ’’وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ‘‘ ’’ اور جو لوگ ہماری خاطر(ہجرت و) جہاد کرتے ہیں تو ہم یقیناً انہیں اپنے راستے (دکھاتے ہوئے اس) کی طرف ہدایت دیتے ہیں، اور بیشک اﷲ ( اپنی معیّت کے ہمراہ) احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔‘‘(العنكبوت : 69) شیخ مفسر الجنید رحمہ اللہ اس آیت کی شرح میں کہتے ہیں: ’’ والذين جاهدوا أهواءهم فينا بالتوبة لنهدينهم سبل الإخلاص ولا يتمكن من جهاد عدوه في الظاهر إلا من جاهد هذه الأعداء باطنا ً فمن نصر عليها نصر على عدوه ، ومن نصرت عليه نصر عليه عدوه .. إلى أن قال: ولأهل الجهاد في هذا من الهداية والكشف ما ليس لأهل المجاهده ‘‘ ’’اور جنہوں نے ہماری (راہ) میں اپنی خواہشات کیخلاف توبہ کرکے جہاد کیا تو ہم ان کو نجات کے راستوں کی طرف ہدایت دینگے۔ اپنے دشمن کیخلاف جہاد ظاہری طور پر وہی کرسکتا ہے جس نے اپنے ان دشمنوں کیخلاف باطنی طور پر جہاد کیا ہو اور جس نے ان (باطنی دشمنوں)پر کامیابی حاصل کرلی تو وہ اپنے (ظاہری ) دشمن پر بھی کامیابی حاصل کرلے گا۔ مگر جس پر یہ ( باطنی دشمنوں اورخواہشات) غالب آگئی تو اس پر اس کا دشمن بھی غالب آجائے گا۔ ...پھر فرمایا : ‘‘اس (آیت ) میں اہل جہاد کے لیے وہ ہدایت اور کشف سے نوازنا ہے جو اہل مجاہدہ ((نفس کیخلاف جدوجہد کرنے والوں) کے لیے نہیں ہے۔ ‘‘ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ زاد المسیر میں اس آیت کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’(والذين جاهدوا فينا) أي قاتلوا أعداءنا لأجلنا (لنهدينهم سبلنا) أي لنوفقنهم لإصابة الطريق المستقيمة، وقيل لنزيدنهم هداية َ . وإن الله لمع المحسنين بالنصرة والعون، قال ابن عباس: يريد بالمحسنين الموحدين، وقال غيره: يريد المجاهدين وقال ابن المبارك: من اعتاصت عليه مسألة فليسأل أهل الثغور عنها لقوله (لنهدينهم سبلنا) ‘‘ ’’(اور جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا۔) یعنی ہمارے دشمنوں سے ہماری خاطر قتال کیا(تو ہم ان کو اپنے راستوں کی طرف ہدایت دینگے۔)یعنی ہم ان کو سیدھی راہ کو پانے کی توفیق دینگے۔اور کہا گیا کہ ہم ان کو مزید ہدایت یافتہ کردینگے۔ (اور بیشک اللہ تعالی احسان کرنے والوں کے ہمراہ ) اپنی مدد ونصرت کے ساتھ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ :احسان کرنے والوں سے مراد توحید پرست ہیں۔ان کے علاوہ دوسرے مفسرین نے کہا کہ اس سے مراد مجاہدین ہیں۔امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے کہا کہ :’’جس کسی پر کوئی مسئلہ سمجھنا دشوار ہوجائے تو وہ اس بارے میں (جہاد میں مصروف) محاذ والوں سے پوچھ لیں کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ (ہم ضرور ان (مجاہدین)کی اپنے راستوں کی طرف راہنمائی کرینگے)۔ (زاد المسير ج6 ص285) امام ابن جریر رحمہ اللہ اس آیت کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’وإنّ الله لمع من أحسَن من خلقه، فجاهدَ فيه أهلَ الشرك، مصدّقاً رسوله صلى الله عليه وسلم فيما جاء به من عند الله بالعون له والنصرة على من جاهد من أعدائه، وهذه المعيّة الربّانية لا شكّ أنّها سببٌ عظيمٌ في فتح كنوز الفهم والفقه في دين الله تعالى. ‘‘ ’’اور بلاشبہ اللہ تعالی اپنے دشمنوں کیخلاف جہاد کرنے والے کو کامیابی دینے اور اس کی مدد کرنے کے لحاظ سے اس کے ساتھ ہے جس نے اپنے اخلاق کو بہتر بنا کر راہ الہی میں اہل شرک سے جہاد کیا اور اللہ کے پاس سے رسول اللہ ﷺ جو کچھ لیکر آئے اس کی تصدیق کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ربانی معیت ہی اللہ تعالی کے دین کو سمجھنے اور اس کی فہم وفراست حاصل کرنے کے خزانوں کو کھولنے میں ایک بہت بڑا بنیادی سبب ہے۔ ‘‘ امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : قال سفيان بن عيينة لابن المبارك: إذا رأيت الناس قد اختلفوا فعليك بالمجاهدين وأهل الثغور فإن الله تعالى يقول: (( لنهدينهم سبلنا )) وقال الضحاك: معنى الآية، والذين جاهدوا في الهجرة لنهدينهم سبل الثبات على الإيمان. ’’امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا : ‘‘جب تم دیکھو کہ لوگوں کے درمیان اختلاف ہوا ہے تو تم مجاہدین اور محاذوں والوں کو لازم پکڑو۔ کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے : ((ضرور ہم ان (مجاہدین ) کی اپنے راستوں کی طرف راہنمائی کرینگے ۔) ) مفسر امام الضحاک رحمہ اللہ نے کہا کہ اس آیت کا مطلب ہے کہ ‘‘ جنہوں نے ہجرت میں جہاد کیا توہم ضرور ان کو ایمان پر ثابت قدمی کے راستوں کی طرف ہدایت دینگے۔‘‘ )تفسیر القرطبی، جلد 13 صفحہ 365( امام طبری رحمہ اللہ اس آیت کی شرح کرتے ہوئے اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: وإن الله لمع من أحسن من خلقه، فجاهد فيه أهل الشرك، مصدقا رسوله فيما جاء به من عند الله بالعون له، والنصرة على من جاهد من أعدائه. ’’بلاشبہ اللہ تعالی اس کے ساتھ ہے، جس نے اپنے اخلاق کو بہتر بنا کر اللہ کی (راہ) میں اہل شرک سے جہاد کیا،اور تصدیق کرتا ہوں اس کی جو رسول اللہ ﷺ اللہ کے پاس سے ہر اس کے لیے مدد ونصرت لیکر آئے ہیں جو اس کے دشمنوں سے جہاد کرتا ہے۔ ‘‘ (تفسیر الطبری ، جلد 21 صفحہ 15) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولهذا كان الجهاد موجبا للهداية التى هى محيطة بأبواب العلم كما دل عليه قوله تعالى (( والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا )) فجعل لمن جاهد فيه هداية جميع سبله تعالى ولهذا قال الإمامان عبد الله بن المبارك وأحمد بن حنبل وغيرهما إذا إختلف الناس فى شىء فانظروا ماذا عليه أهل الثغر فإن الحق معهم لأن الله يقول ((والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا )) وفى الجهاد أيضا حقيقة الزهد فى الحياة الدنيا وفى الدار الدنيا وفيه أيضا حقيقة الإخلاص فإن الكلام فيمن جاهد فى سبيل الله لا فى سبيل الرياسة ولا فى سبيل المال ولا فى سبيل الحمية وهذا لا يكون إلا لمن قاتل ليكون الدين كله لله ولتكون كلمة الله هى العليا. ‘‘اسی لیے جہاد سے علم کے تمام ابواب کا احاطہ کرنے والی ہدایت لازمی ملتی ہے جیساکہ اس پر اللہ تعالی کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے : ((اور جو ہماری (راہ ) میں جہاد کرینگے ہم ضرور ان کو اپنے راستوں کی طرف ہدایت دینگے) )۔ سو اللہ تعالی نے اپنے تمام راستوں کی طرف ہدایت دینے کو اس کے لئے خاص کردیا ہے جو اس کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ اسی وجہ سے امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دیگر نے فرمایا: ‘‘اگر لوگوں میں کسی چیز کی بابت اختلاف ہوجائے تو تم دیکھو کہ اس کے بارے میں محاذوں والے (مجاہدین) کا کیا موقف ہے۔ کیونکہ حق ان کے ساتھ ہیں ، اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے فرمایا : ((اور جو لوگ ہماری (راہ ) میں جہاد کرتے ہیں توہم ضرور ان کو اپنے راستوں کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔ )) جہاد میں دنیوی زندگی اور دار الدنیا سے حقیقی زہد وبے رغبتی ہے اور اس میں حقیقی اخلاص بھی ہے۔ سو یہ فرمان صرف اس کے لیے خاص ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور اس کے لیے نہیں ہے جو ریاست کی راہ میں یا مال کی راہ میں یا حمیت کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ اور یہ تب ہی ہوگا جب کوئی صرف اس لیے قتال وجنگ کرے تاکہ سارے کا سارا دین اللہ کے لیے ہوجائے اور تاکہ صرف اللہ کا کلمہ (توحید) ہی بلند ہو۔ ‘‘(فتاوی ابن تیمیہ) علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’فالمجاهدون وأهل الثغور هم المهديون ، فإذا ما اختلفت الآراء وافترقت السبل، فالهداية في ترسم خطاهم ، واقتفاء آثارهم ، والنزول عند رأيهم ، ذلك أن لأهل الجهاد من الهداية والكشف ما ليس لأهل المجاهدة ، ممن هم في جهاد الهوى والشيطان ، لأنه لا يوفق في جهاد العدو الظاهر إلا من هو لعدوه الباطن قاهر ، من هنا يكون المولى عز وجل : قد علق الهداية بالجهاد ، فأكمل الناس هداية أعظمهم جهادا ، ومن ترك الجهاد فاته من الهدى بحسب ما عطل منه ‘‘ ’’پس مجاہدین اوراہل محاذ ہی ہدایت کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں۔ پس جب کبھی موقف (وآراء) مختلف ہوجائے اور راستے جدا جدا ہوجائے تو اس وقت ہدایت ان (مجاہدین) کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات ونشانات کی پیروی کرنے ، ان کے نقش قدموں پر چلنے اور ان کی رائے وموقف کو اختیار کرنے میں ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ اہل جہاد کے لیے ہدایت اور کشف میں سے وہ کچھ ہے جو اہل مجاہدہ کے لیے نہیں ہیں جو خواہشات اور شیطان کیخلاف جہاد کرنے میں مصروف ہوتے ہیں ۔ اس وجہ سے کہ ظاہری دشمن کیخلاف جہاد کرنے کی توفیق اسی کو ملتی ہے جو اپنے باطنی (خفیہ) دشمن کو مغلوب کرکے زیر کرنے والا ہو۔ یہاں سے (اللہ) مولی عزوجل نے ہدایت کو جہاد کے ساتھ (لٹکاتے ہوئے) معلق کردیا ہے۔ پس لوگوں میں سب سے زیادہ ہدایت یافتہ وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ جہاد کرنے والا ہو، اور جو جہاد کو چھوڑ دے تو وہ ہدایت سے اسی قدر محروم ہوجاتا ہے جس قدر اس نے جہاد کو ترک کیا ہوتا ہے۔ (الفوائد – ابن القیم ، صفحہ 59 ) استاذ سید قطب رحمہ اللہ اپنی عمدہ تفسیر ظلال میں اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’إن هذا الدين منهج حركي، لا يفقهه إلا من يتحرك به، فالذين يخرجون للجهاد به هم أولى الناس بفقهه، بما يتكشف لهم من أسراره ومعانيه، وبما يتجلى لهم من آياته وتطبيقاته العملية في أثناء الحركة به. أما الذين يقعدون فهم الذين يحتاجون أن يتلقوا ممن تحركوا، لأنهم لم يشاهدوا ما شاهد الذين خرجوا، ولا فقهوا فقههم، ولا وصلوا من أسرار هذا الدين إلى ما وصل إليه المتحركون وبخاصة إذا كان الخروج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم والخروج بصفة عامة أدنى إلى الفهم والتفقه.‘‘ ترجمہ :‘‘بلاشبہ یہ دین (اسلام) ایک متحرک منہج ہے، اسے وہی سمجھ سکتا ہے جو اس کے ساتھ متحرک ہوتا ہے۔ پس جو لوگ اس کے ساتھ جہاد کے لیے نکلتے ہیں وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اس کو سمجھنے والے ہیں۔اس وجہ سے کہ ان کے لیے اس دین کے راز ومعانی کھل کر سامنے آتے ہیں۔ اور اس وجہ سے بھی کہ اس (دین) کے ساتھ حرکت کرنے کے دوران ان کے لیے اس (دین اسلام) کی آیات (ونشانیاں) اور اس کی پریکٹیکل عملی شکلیں اچھی طرح نمایاں ہوجاتی ہیں۔ اس کے برعکس جولوگ (جہاد سے) بیٹھے رہتے ہیں تو ان کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ان سے حاصل کریں جو(جہادکے ساتھ) متحرک ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے کہ انہوں نے وہ کچھ نہیں دیکھا ہوتا ہے جو (جہاد کے لیے) نکلنے والوں نے دیکھا ہوتا ہے اورنہ ہی وہ ان کے فہم وادراک کی طرح کا فہم وادراک رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اس دین کے ان رازوں تک پہنچ پاتے ہیں جن تک یہ حرکت کرنے والے (مجاہدین)پہنچے ہوتے ہیں۔ بالخصوص اس وقت جب نکلنا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو ۔پس (جہاد کے لیے ) نکلنا عام طور پر (اسلام کی ) فہم وادراک اور فراست کو پانے کے سب سے قریب ہے۔ ‘‘ ) تفسير الظلال ج3 ص1735) اس طرح یہ مکمل طور پر واضح ہوگیا ہے کہ گدی نشین شیوخ الحدیث ومفتیان کرام ، حرم مکی ومدنی کے اماموں وخطیبوں کی بجائے صرف اور صرف راہ الہی میں جہاد کرنے میں مصروف مہاجر وانصار مجاہدین طائفہ منصورہ اور اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی ہدایت ملنے کی وجہ سے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ہدایت ہدافتہ ، حق پر ہونے اور اسلام کی نمائندگی کرنے والے ہیں۔ اب جو مجاہدین کے علماء ہیں ؛ وہ علماء نہیں جو اپنے آپ کو جہاد کے علمبردار اور مجاہدین کے حامی عالم دین قرار دیتے ہیں اور ہجرت وجہاد کرنے کی بجائے اپنے گھروں میں بیٹھ کر فتاوی دیتے ہیں ، بلکہ وہ علماء جو جہادی مورچوں پر پہلی فرنٹ لائن صف میں کھڑے ہوکرخود عملی طور پر قتال کرنے میں مصروف ہوتے ہیں؛ یہ وہ علمائے کرام ہیں، جنہوں نے اپنے قول کو اپنے عمل سے سچ کردکھایا ہے۔ اس لیے اب لوگوں کے درمیان کسی بھی مسئلے پر اختلاف ہو تو ان کی بات وفتوی کو سب پر مقدم رکھا جائے گا کیونکہ اللہ تعالی نے صرف ان کو اپنے راستوں کی طرف ہدایت دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس جو امام کعبہ پاکستان آئے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے طائفہ منصورہ میں سے نہ تھے اور نہ ہی وہ خوف خدا رکھنے اور کلمہ حق کہنے والے تھے۔ بلکہ وہ تو ایک درباری سرکاری عالم دین وقاری امام تھے ، جو امام کعبہ ہی آل سعود طواغیت حکمران کی خوشنودی پاتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی وجہ سے بنے تھے۔ پس امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی نے دورہ پاکستان کے دوران اسلام کی نہیں بلکہ سعودی حکمرانی کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کی ہی زبان کو بولا تھا۔ پھر وہ پاکستان کے دورے پر پاکستانی جمہوری نظام میں شامل مرتد حکمران وآل سعود کے ایجنٹ مشرک درباری علماء کے کہنے پر پاکستان آئے تاکہ وہ آل سعود کی موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو یمن میں شیعی حوثیوں کیخلاف جاری جنگ میں اپنے اعتماد میں لیکر اپنا حامی بنائے تاکہ ایران کی طرف سے پاکستان میں شیعی انصار اللہ حوثیوں کا امیج بہتر بنانے کے لیے ہونے والی سرگرمیوں کو محدود کیا جاسکے۔ دوسری طرف پاکستان نے ان کو اس لیے بلایا تاکہ پاکستان کی شرکیہ پارلیمنٹ نے سعودیہ وشیعی حوثیوں کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی جو قرار داد پاس کی ہے ، اس کی اثرات کو کم کیا جائے اور مرتد آل سعود سے تعلقات کو ازسر نو مضبوط کیا جاسکے۔ نیز ن لیگ کی مرتدکٹھ پتلی جمہوری حکومت اور اس کے اداروں کا پاکستانی عوام کے سامنے امیج بہتر بنایا جائے اور اس حقیقت کو چھپایا جاسکے کہ وہ اسلام کیخلاف امریکہ وبرطانیہ کے فرنٹ لائن اتحادی بن کر عالمی صلیبی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح ان سے اپنے پکے مسلمان ہونے اور اسلام کے علمبردار ہونے کا فتوی لیا جائے جبکہ ان کی مخالفت کرنے والے مجاہدین کو خوارج اورغیر مسلم قرار دیتے ہوئے ان کیخلاف رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکے۔ پاکستانی مرتد جمہوری حکومت تو اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ آل سعود اور ان کے امام کعبہ صاحب اپنے اہداف پانے میں بری طرح ناکام ہوگئے کیونکہ ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جس طرح وہ پاکستان میں اسلام اور خانہ کعبہ کا نام لیکر اپنے ذاتی مقاصد وسیاسی اہداف کو پورا کرنے میں لگے ہوئے تھے؛ اسی طرح پاکستانی جمہوری نظام بھی صرف امام کعبہ کی شخصیت کو روبوٹ ڈمی کی طرح استعمال کرتے ہوئے اپنے ذاتی مقاصد وسیاسی اہداف کو پورا کرنے میں لگا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیعی حوثیوں سمیت کئی معاملات پر انہوں نے جو تقاریر وانٹرویوز میں گفتگو کیں، اسے اسی طرح توڑ مڑور کر پیش کیا گیا جس طرح وہ مرتد سعودی حکمرانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اسلام کو توڑ مروڑ کر گفتگو کررہے تھے ۔ ایسا کرتے ہوئے سعودی امام کعبہ اور ان کے میزبان دونوں کو تھوڑی سی بھی شرم نہیں آئی کہ وہ کھلم کھلا اسلام کا مذاق اڑانے اور اس کی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اپنی دوکانوں کو چمکانے میں مصروف ہیں۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ پاکستانی ٹی وی چینلز نے بھی ان جرائم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جس طرح انہوں نے امام کعبہ کا انٹرویوز کا اردو ترجمہ پیش کیا، اگر امام کعبہ کو اردو آتی ہوتی تو شاید وہ ان کے منہ پر ہی تھوک کر چلے جاتے ۔ لیکن امام کعبہ صاحب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان سے محبت کا ڈھونگ رچانے والے مخلص نہیں تھے اور وہ ان کو ایک کٹھ پتلی کی طرح صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے تھے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی کو پاکستان کے دورہ کے دوران اتنی شرم بھی نہیں آئی کہ اسلام کی خاطر بلکہ رسول اللہ ﷺ کی عزت وناموس کی خاطر کسی قسم کی اسلامی غیرت وحمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلمہ حق کہتے۔ کم ازکم اپنے اہل بیت میں سے ہونے کی ہی کچھ لاج رکھ لیتے۔ پاکستان کے دورے کے دوران انہوں نے جو تقاریر اور انٹرویوز دیئے، وہ اس قدر شرمناک ہے کہ ان پر کسی قسم کی تبصرے کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن سادہ لوح عوام الناس کے سامنے ان کا اصلی چہرہ دکھانے کے لیے ہم ان کی تفصیلات کو یہاں بیان کریں گے۔ ایکسپریس نیوز ٹی وی چینل کے کٹر متعصب سیکولر احمد قریشی کو جو انٹرویو انہوں نے دیا، اسے دیکھ کر ان سے ایسی کراہت ہوئی کہ جو ہر مسلمان کو ان سے ہونی چاہیے کیونکہ یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ اسلام دشمن متعصب سیکولر لبرل صحافی احمد قریشی نے ان سے سوال کیا کہ مغرب میں رسول اللہ ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع ہوئے اور ان کو جواب دینے کے لیے کچھ مسلمانوں نے شدت پسندی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ آپ ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟ امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’مغرب میں جن شدت پسندوں نے ہمارے نبی ﷺ کے توہین آمیز خاکے شائع کیے، ہم ان کی مذمت کرتے ہیں، لیکن ہم ان کو جواب دینے کے لیے شدت پسندی اور پرتشدد (جہاد وقتال) کی راہ اپنانے کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان خاکوں سے مغرب کے عقلمند بھی راضی نہیں ہیں۔ ہم ان توہین آمیز خاکوں کے رد عمل میں شدت پسندی (جہاد) کو اختیارکرنے کی مخالفت کرتے ہیں اور (کفار کے بتائے ہوئے پرامن جمہوری ) جائز وقانونی طریقے سے جواب دینے پر زور دیتے ہیں۔ ‘‘ اس سرکاری امام کعبہ کو اتنی شرم بھی نہیں آئی کہ کم ازکم وہ رسول اللہ ﷺ کی حرمت کے لیے گستاخانہ خاکوں کو بنانے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہونے والے جہاد کی حمایت کرتا اور اس پر فخر کرتا۔ لیکن اس سرکاری امام کعبہ نے توہین رسالت کے گستاخ صلیبیوں کیخلاف جہاد کی مذمت کرتے ہوئےاسے ناجائز شدت پسندی قرار دیا اور مسلمانوں کو توہین رسالت دیکھ کر صرف دعوتی کام کرنے اور کھوکھلے احتجاج کے راستے کو اختیار کرنے کی طرف بلایا۔ احمد قریشی نے ایک سوال اور کیا کہ کچھ مسلمانوں نے اپنے حقوق پانے کے لیے تشدد، دہشت گردی اور انتہاپسندی کو اختیار کیا۔آپ ان سے کیا کہیں گے۔ امام کعبہ خالد الغامدی نے جواب میں کہا کہ ایسا کرنے والے مسلمان غلط راستے پر ہیں اور وہ اسلام کو بدنام کررہے ہیں۔ کوئی بھی (مظلوم) مسلمان اپنے مطالبات منوانے کے لیے تشدد، شدت پسندی اور خون بہانے کی راہ نہ اختیار کریں کیونکہ یہ (بقول ان کے)رسول اللہ ﷺ کا نہ طریقہ ہے اور نہ ہی ان کی سنت ہے۔‘‘ جہاد کے منکر امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی کو کیا پتہ کہ اللہ تعالی سورۃ الانبیاء میں مظلوموں کو ظالم کافروں اور طواغیت بدمعاشوں اور ان کی مرتد افواج سے اپنا بدلہ لینے کے لیے جہاد کرنے کی اجازت دیتے ہوئے فرمارہا ہے : ‘‘أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ‘‘ ’’اجازت دی گئی ہے (جنگ کی) ان لوگوں کو جن سے جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔اور بے شک اللہ ان کی مدد پر ہر طرح قادر ہے۔‘‘(الحج 22 : 39) اس سرکاری امام کعبہ کو کیا پتہ کہ اسلام دین ِسلامتی نہیں بلکہ دین جنگ وقتال ہے اور رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے ہر وقت تمام لوگوں سے ان کیخلاف اس وقت تک جنگ کرتے رہنے کا حکم دیا ہے جب تک وہ اسلام کی زیر حکمرانی نہیں آجاتے اور مسلمان نہیں ہوجاتے یا پھر جزیہ دینے نہیں لگ جاتے ۔ چنانچہ بہت سے احادیث ہیں، جن میں رسول اللہﷺ نے دین اسلام کو دین قتال قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ‘‘أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاَةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ ‘‘ ‘‘ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت جنگ لڑوں جب تک وہ یہ گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور جب تک وہ نماز کو قائم کرنے اور زکوۃ کو دینے نہ لگ جائے۔ پس جب وہ یہ سب کچھ کرنے لگ جائے تو پھر انہوں نے اپنے خون اور اپنے مال کو مجھ سے محفوظ بنالیا ہے سوائے اسلام کے حق کے ۔ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ ‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم ، ترمذی) اس منکر جہاد امام کعبہ نے احمد قریشی کو جو انٹرویو دیا، اگر اس کا لفظ بہ لفظ صحیح اردو ترجمہ ہوتا تو مسلمانوں کو اس درباری امام کعبہ کی حقیقت کا علم ہوجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ احمد قریشی کے ساتھ ہونے والے انٹرویو کا اردو ترجمہ انتہائی غلط اور من پسند تشریح کرکے ٹی وی چینل پر نشر کیا گیا۔ ایکسپریس چینل کے احمد قریشی کی طرح جیو نیوز ٹی وی چینل کے سلیم صافی کے ساتھ انٹرویو کا جو اردو ترجمہ کیا گیا وہ امام کعبہ کی گفتگو کی 30 فیصد بھی ترجمانی نہیں کرتا ہے اور اردو ترجمہ جان بوجھ کر ان کی گفتگو کی روح کو مارتے ہوئے اپنی من پسند باتوں کو لیکر کیا گیا اور دیگر ناپسند باتوں کا ترجمہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کو امام کعبہ کی آواز میں ہی عربی میں نشر ہونے دیا گیا۔ جیو نیوز نے تو سلیم صافی کے ساتھ ہونے انٹرویو کی اوریجنل عربی ویڈیوجاری نہیں کی اور امام کعبہ کی گفتگو کو عربی میں صرف چند جملے سنانے کے بعد اردو ہی ترجمہ کی ڈبنگ آواز کو نشر کیا۔ لیکن سلیم صافی کے ساتھ انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ کو جب میں نے دیکھا اور انٹرویو کے دوران امام کعبہ کی آواز میں جو عربی کے چند جملے سننے کو ملے تو اس سے واضح ہوا کہ انٹرویو کا اردو ترجمہ انتہائی غلط اور خیانت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سعودی سرکاری امام کعبہ کے منہ سے ایسے جملے کہلوادیئے جس سے پاکستانی حکومت اور اس کی پارلیمنٹ کی تکفیر ہوتی ہے۔ جرگے پروگرام میں سلیم صافی نے جب یہ سوال کیا کہ ‘‘پاکستانی عوام کے ایک بڑے طبقے کو اپنی حکومت سے یہ شکوہ ہے یا وہ اس پر معترض ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں مملکت سعودیہ عرب کی توقعات پر پوری نہیں اتری ؟ آپ کی کیا رائے ہے کہ حکومت پاکستان نے جو رویہ اختیار کیا وہ کیا سعودی عوام کے اور آپ جیسی شخصیات کے توقعات کے یا خواہشات کے مطابق ہے؟ اس سوال کے جواب میں امام کعبہ ڈاکٹر خالد الغامدی نے جو کچھ کہا ، جیو چینل نے اس کا اردو ترجمہ نہیں پیش کیا البتہ امام کعبہ کی عربی گفتگو کے چند جملے انہی کی آواز میں نشر کیے جن کا اردو ترجمہ یہ ہیں: ’’تمام مسلمانوں کو حرمین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور یہ ان کے ایمان، سچائی اور صحیح اسلام کی دلیل ہے۔ ایسا کوئی سچا مسلمان نہیں ہوگا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہو اور وہ حرمین کے ساتھ کھڑا نہ ہوتا ہو۔ ‘‘ اللہ تعالی نے سرکاری امام کعبہ کے منہ سے سچ کو نکال دیا ، لیکن جیو ٹی وی نے امام کعبہ کی اس گفتگو کو عربی میں آواز کے ساتھ تو نشر کیا ، لیکن اس کا اردو ترجمہ نہیں کیا کیونکہ اس سے ان پاکستانی حکمرانوں وسیاستدانوں اور جرنیلوں کے کافر ہونے اور ان لوگوں کی تکفیر کا فتوی سامنے آتا ہے جو پاکستان میں حرمین کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے اور جو ایرانی نواز شیعی حوثیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ (جاری ہے) پی،ڈی،ایف لنک یونی کوڈ لنک آرکائیو لنک

http://dawatehaq.net/?p=5981
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مون لائیٹ آفریدی صاحب فورم قوانین کی مسلسل مخالفت کی وجہ سے ’’ بین ‘‘ کردیے گئے ہیں ، محترم محمد عامر یونس صاحب اور دیگر اراکین سے گزارش ہے کہ وہ بھی خیال رکھیں ۔ اور ان موضوعات کو فورم پر زیر بحث نہ لائیں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top