• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دراصل اسلام نے کسی بھی نظام کو شرعی حیثیت نہیں دی ؟؟؟؟کیا واقعی؟؟؟؟

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
میرےخیال میں یہ بات درست ہےکہ اسلام نےاپنا کوئی باقاعدہ نظام نہیں دیا۔البتہ اس نےایک فلسفہءحیات ضرور دیاہے۔ اور نظام کےحوالے سے آزاد چھوڑدیاہے۔ہر دور کےتقاضوں کےمطابق جیسےمناسب ہوویسےہی نظام وضع کرلیاجائے ۔لیکن اس میں یہ خیال رکھاجائے کہ نظام کا کوئی پہلواسلامی تعلیمات کےمنافی نہ ہو۔
میرےخیال میں یہ بات درست ہےکہ اسلام نےاپنا کوئی باقاعدہ نظام نہیں دیا
میرے یقین کے ساتھ یہ بات درست ہے کہ کہ اسلام نے اپنا ایک باقاعدہ ایک نظام دیا ہے جو اس آیت سے عیاں ہے ذرا تدبر فرمائیں:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا
اسلام تو خود ایک باقاعدہ نظام کا نام ہے جو زندگی کے ہر گوشوں کو شامل ہے اور تمام باطل نظاموں کو چیلنج کرتا ہے
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
سوال یہ ہے کہ نظام سے کیا مراد ہے؟؟اگر تو کسی بھی شعبے کی تمام تر جزئیات اور تفصیلات کا نام ہی نظام ہے تو بے شبہ اسلام میں تمام جزئیات الفاظ کی صورت میں موجود نہیں البتہ بالقوہ وہ بھی موجود ہیں لیکن انھیں اجتہاد و استنباط سے معلوم کیا جاتا ہے اسی لیے ان میں ارباب علم و فقہ کا اختلاف بھی ہو جاتا ہے۔لیکن اساسی و اصولی تعلیمات اسلام نے بہ صراحت دی ہیں جن سے پورا نظام تشکیل پاتا ہے؛بنا بریں یہ قول علی الاطلاق درست نہیں کہ اسلام نے نظام نہیں دیا بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام نے نظام کی بعض تفصیلات اجتہاد و تفقہ اور حکمت و مصلحت پر چھوڑ دی ہیں۔عصر حاضر کے ارباب علم و فکر کے عرف میں بھی اسی کی جھلک ملتی ہے مثلا اسلام کا سیاسی نظام؛اسلام کا اقتصادی نظام؛اسلام کا اخلاقی نظام؛اسلام کا نظام عفت و عصمت وغیرہ عناوین سے علماے اسلام کی کتابیں موجود ہیں؛کیا انھیں یہ نکتہ معلوم نہ تھا کہ اسلام نے تو کوئی (اجتماعی)نظام دیا ہی نہیں؟؟پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اجتماعی مسائل سے متعلق اسلام کے نظاموں کی نفی کا اسلوب سیکولر طبقوں کا شعار ہے فلہذا تعبیر میں محتاط رہنا چاہیے کہ اہل بدعت کی مشابہت سے گریز ہی بہتر ہے مبادا باطل پسندوں کو اپنے غلظ نظریات کی ترویج کا موقع مل جائے۔واللہ اعلم
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
سوال یہ ہے کہ نظام سے کیا مراد ہے؟؟اگر تو کسی بھی شعبے کی تمام تر جزئیات اور تفصیلات کا نام ہی نظام ہے تو بے شبہ اسلام میں تمام جزئیات الفاظ کی صورت میں موجود نہیں البتہ بالقوہ وہ بھی موجود ہیں لیکن انھیں اجتہاد و استنباط سے معلوم کیا جاتا ہے اسی لیے ان میں ارباب علم و فقہ کا اختلاف بھی ہو جاتا ہے۔لیکن اساسی و اصولی تعلیمات اسلام نے بہ صراحت دی ہیں جن سے پورا نظام تشکیل پاتا ہے؛بنا بریں یہ قول علی الاطلاق درست نہیں کہ اسلام نے نظام نہیں دیا بل کہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام نے نظام کی بعض تفصیلات اجتہاد و تفقہ اور حکمت و مصلحت پر چھوڑ دی ہیں۔عصر حاضر کے ارباب علم و فکر کے عرف میں بھی اسی کی جھلک ملتی ہے مثلا اسلام کا سیاسی نظام؛اسلام کا اقتصادی نظام؛اسلام کا اخلاقی نظام؛اسلام کا نظام عفت و عصمت وغیرہ عناوین سے علماے اسلام کی کتابیں موجود ہیں؛کیا انھیں یہ نکتہ معلوم نہ تھا کہ اسلام نے تو کوئی (اجتماعی)نظام دیا ہی نہیں؟؟پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اجتماعی مسائل سے متعلق اسلام کے نظاموں کی نفی کا اسلوب سیکولر طبقوں کا شعار ہے فلہذا تعبیر میں محتاط رہنا چاہیے کہ اہل بدعت کی مشابہت سے گریز ہی بہتر ہے مبادا باطل پسندوں کو اپنے غلظ نظریات کی ترویج کا موقع مل جائے۔واللہ اعلم
میں آپ کی اس بات سے صد فی صد متفق ہوں اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آپ نے میرے دل کی بات کہہ دی
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بارک اللہ لکم فی الدنیا و الآخرۃ
ذاتی طور پر شکریہ ان بھائیوں کا جنہوں نے اس میں حصہ لیا اور مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر اپنی اپنی آراء سے نوازا۔
اور ان بھائیوں کا بہت بہت ممنون ہوں جنہوں نے مسئلے کو سمجھا اور سمجھ کر انتہائی معقول انداز میں اپنا جواب لکھا۔ اور مجھے اتنی فرصت ملی کہ میں تفسیر قرآن والے تھریڈز لگاتا رہا۔ اور میرے بعد میرے بھائی میرے موقف کا دفاع کرتے رہے
بڑی ناسپاسی ہو گی اگر میں نام لے کر اس رُکن کا شکریہ ادا نہ کروں جنہوں نے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کے بعد ان الفاظ کا چناؤ کیا جن سے تمام بھائی متفق نظر آتے ہیں اور وہ ہیں جناب حافظ طاہر اسلام عسکری صاحب۔
ممدوح کی تحریر میں بہت صداقت اور گہرائی نظر آتی ہے اور اسلوب بیان کے کیا کہنے۔ اللھم زد فزد۔ آمین
بھائی عابد الرحمن کا بھی تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے بھی میرا پورا پورا ساتھ دیا۔
اور ان سب ساتھیوں کا انتہائی ممنون ہوں جو میرے موقف سے متفق نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنی ذمہ داری کو خوب اور احسن طریقہ سے ادا فرمایا۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق بات کا فہم عطا فرمائے اور اس پر استقامت بھی عطا فرمائے آمین یارب العالمین
کسی دوست کی دل آزاری مقصود نہیں۔ اور نہ کسی کو چڑھانا گرانا مقصود ہے یہ صرف اور صرف اللہ کے دین کے ایسے گوشے سے اپنے آپ کو اور دوسرے دوستوں کو روشناس کرانا تھا جسے عام طور پر آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جاتا۔
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے، اسلام کو دین کہا گیا ہے مذہب نہیں کہا گیا، مذہب میں صرف عبادات و رسومات ہوتی ہیں مگر دین وہ ہوتا ہے جس میں زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائی ملے، اس لیئے یہ کہنا کہ اسلام نے ہمیں کوئی نظام حیات ہی نہیں دیا جیسا چاہو نظام زندگی اپنایا جاسکتا ہے یعنی کیمونیزم، سوشلازم، کیپٹل ازم، ایسا ہرگز ہرگز جائز نہیں ہے بلکہ اللہ نے ہم مسلمانوں کو ایک نظامِ زندگی دیا ہے جس کو خلافت کہا گیا ہے اب سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ صرف اور صرف اسی نظامِ زندگی کو اپنائیں جو اللہ کا نازل کردہ نظام ہے لوگوں کے بنائے نظام اپنانے سے ہم اللہ کی رضا کبھی بھی حاصل نہ کرسکیں گے سوائے اللہ کی ناراضگی کے، کیونکہ دین صرف نماز، روزہ کا نام نہیں ہے بلکہ دینِ اسلام کامل اور اکمل تب ہی اپنایا جاسکتا ہے جب اس کا نظام زندگی بھی اپنایا جائے یعنی اللہ کا نازل کردہ قانون و حدود قائم کرکے۔
اب میں وہ آیات اور حدیث پیش کرتا ہوں جن سے نظام خلافت کی دلیل ملتی ہے۔
اللہ کا ارشاد ہے کہ
قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ١٢٨؁
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو ، زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے ، اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں۔‘‘الاعراف (12
قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ١٢٩؀ۧ
اس کی قوم کے لوگوں نے کہا تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے ، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘ الاعراف (129)
یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی، اس وقت مسلمین سخت آزمائش میں تھے مکہ میں مسلمانوں پر کتنے مظالم کے پہاڑ ڈھائے گے وہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں ان آیات میں بشارت ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل آزمائے گے سختیوں اور مصبتوں میں ہلا مارے گے تو اللہ نے اس کے بعد انہی مظلوموں کو اپنے وعدے کے مطابق خلافت عطا فرمائی، تو بالکل اسی طرح مکہ کے مظلوم مسلمان صبر سے کام لیں آخر اللہ ان سے یہ سب سختی کے دن دور کرئے گا اور انہی مظلوموں کو اقتدار دے گا تو جس طرح اللہ نے بنی اسرائیل کو آزمائش کے بعد خلافت دی تھی بالکل اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بھی خلافت عطاء فرمائی، اور آج بھی اگر ہم صبر کریں اور حق پر قائم رہ کر دعوتِ دین کا کام کریں تو اللہ ہمیں بھی خلافت عطاء فرمائیں گے بشرطیہء کہ اس کے تقاضے پورے کیئے جائیں۔
سورہ نور میں اللہ کا ارشاد ہے کہ
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 55؀
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لیے ان کے دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا ، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔ (55)
اب ہم اس آیت کے مندرجات کو علیحدہ علیحدہ کرکے پڑھتے ہیں۔
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں
اللہ نے وعدہ کیا ہے سب مسلمین کے ساتھ جو اللہ پر ایمان لائیں اور عمل صالح کریں، ایمان ایسا کہ جو زرہ سے بھی کفر و شرک سے پاک ہو اور عمل بھی صرف صالح کریں یعنی سنتِ رسولﷺ کے مطابق، بدعات و حرافات سے بچ کر۔
ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے
یعنی جیسا کہ اوپر الاعراف کی آیات میں موسیٰ علیہ السلام کا ذکر موجود ہے، کہ جس طرح ان کو اقتدار دیا گیا تھا اسی طرح ان شرائط پر عمل کرنے والوں کو بھی اقتدار دے گا۔
ان کے لیے ان کے دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور ان کی (موجودہ) حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا ،
دین کی بنیاد اللہ اور نبیﷺ کی بات ہے جو مضبوط ترین بنیاد ہے یعنی خلافت قائم ہوجانے کے بعد اس میں دین اپنی اصل بنیاد قرآن و حدیث قائم ہوگا پھر مغلوبیت والا خوف بھی جاتا رہے گا جیسا کہ مغلوبیت میں ہوتا ہے کہ ظالم بادشاہ کے فوجی جب چاہیں جیسا چاہیں ظلم کریں ان کو اجازت ہوتی ہے مسلمانوں پر ظلم کرنے کی، تو جب اقتدار ہی مسلمانوں کے پاس آ جائے گا اور خلافت قائم ہو چکی ہوگی تو پھر خوف جاتا رہے گا اور ہر طرف مسلمین کے لیئے امن ہی امن ہوگا۔
بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔
جب یہ نعمت یعنی خلافت اللہ عطاء فرمادے گا تو اللہ نے مزید کچھ شرائط رکھیں کہ
بس میری ہی بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کریں، یعنی نعمت مل جانے کے بعد اپنے ایمان کو شرک سے پاک رکھنا جیسا پہلے رکھا تھا اقتدار کے نشے میں آ کر متکبر نہ بننا بلکہ عابد بن کر رہنا اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرنا اور اگر لوگ ایسا کریں گے تو یہ کفرانہ نعمت ہوگا اور یہ فاسق لوگوں کا کام ہے۔
وقت کی کمی کی وجہ سے یہ تین آیات ہی کافی ہیں مزید ضرورت محسوس کی تو مزید پیش کرونگا ان شاءاللہ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ کَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَائُ کُلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَکُونُ خُلَفَائُ تَکْثُرُ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ
حضرت ابوحازم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا تو میں نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء(علیہم السلام) کرتے تھے جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو اس کا خلیفہ ونائب نبی ہوتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے صحابہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں:::یعنی اگر ایک وقت میں زیادہ خلفاء ہوں تو::: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے ہاتھ پر پہلے بیعت ہو اسے پورا کرو اور احکام کا حق انکو ادا کرو بے شک اللہ ان سے انکی رعایا کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:پہلے خلیفہ کی بیعت کو پورا کرنے کے وجوب کے بیان میں
فی الحال ایک ہی حدیث اس میں خلافت کا ثبوت ہے یعنی نبی ﷺ کےبعد نہ بادشاہت شرعی ہوگی اور نہ ہی کوئی اور طرزِ حکومت شرعی ہوگا بلکہ مسلمانوں کا طرزِ حکومت خلافت ہوگی جس کو اللہ کے ہاں شرف قبولیت ہوگی۔
 
شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
فرض کریں آپ سیاست کو ہی لےلیں اس میں آپ دیکھیں قرآن و حدیث کےمطالعہ سے اس کےچندایک بنیادی اصول ملتے ہیں ۔مثلایہ کہ حاکمیت صرف خداکی ہو۔سیاسی نظام کی روح شورائی ہو۔عہدےامانت دار اور اہلیت والوں کودیےجائیں۔ان میں سے ہر ایک کےبارےمیں قرآنی آیات اور احادیث مشہور ہیں۔لیکن آپ دیکھیں اس میں اسلام نے چنداصولی ہدایات دینےپرہی اکتفاکیاہے۔تفصیل کےساتھ اس کا باقاعدہ ڈھانچہ نہیں کھڑاکیا وہ ہر علاقےاور وقت کےمناسب چھوڑدیاہے۔کہ حالات کےمطابق اسےتیارکرلیاجائے۔اسی طرح تاریخ میں اولیات عمر ﷜جوملتی ہیں وہ بھی اسی قبیل سےہیں۔الغرض ایسے ہی اسلام کی معاشی یادیگر تعلیمات کےبارےمیں بھی ہمیں چنداصولی ہدایات ملتی ہیں۔آگےان کےاطلاق کیلے حالات کےمطابق نظام وضع کیا جائےگا۔
ان اصولوں کی تطبیق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللہ عنھم نے کے جس کا بیان احادیث میں ہے-
جس طرح قرآن میں ہے کہ نماز پڑھو، اب آپ کہیں کہ جی نماز کا اصول بیان کر دیا گیا ہے طریقہ نہیں تو یہ بات غلط ہے اسی کو سیاسی نظام پر قیاس کر لیں
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
بارک اللہ لکم فی الدنیا و الآخرۃ
ذاتی طور پر شکریہ ان بھائیوں کا جنہوں نے اس میں حصہ لیا اور مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر اپنی اپنی آراء سے نوازا۔
اور ان بھائیوں کا بہت بہت ممنون ہوں جنہوں نے مسئلے کو سمجھا اور سمجھ کر انتہائی معقول انداز میں اپنا جواب لکھا۔ اور مجھے اتنی فرصت ملی کہ میں تفسیر قرآن والے تھریڈز لگاتا رہا۔ اور میرے بعد میرے بھائی میرے موقف کا دفاع کرتے رہے
بڑی ناسپاسی ہو گی اگر میں نام لے کر اس رُکن کا شکریہ ادا نہ کروں جنہوں نے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کے بعد ان الفاظ کا چناؤ کیا جن سے تمام بھائی متفق نظر آتے ہیں اور وہ ہیں جناب حافظ طاہر اسلام عسکری صاحب۔
ممدوح کی تحریر میں بہت صداقت اور گہرائی نظر آتی ہے اور اسلوب بیان کے کیا کہنے۔ اللھم زد فزد۔ آمین
بھائی عابد الرحمن کا بھی تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انہوں نے بھی میرا پورا پورا ساتھ دیا۔
اور ان سب ساتھیوں کا انتہائی ممنون ہوں جو میرے موقف سے متفق نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنی ذمہ داری کو خوب اور احسن طریقہ سے ادا فرمایا۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق بات کا فہم عطا فرمائے اور اس پر استقامت بھی عطا فرمائے آمین یارب العالمین
کسی دوست کی دل آزاری مقصود نہیں۔ اور نہ کسی کو چڑھانا گرانا مقصود ہے یہ صرف اور صرف اللہ کے دین کے ایسے گوشے سے اپنے آپ کو اور دوسرے دوستوں کو روشناس کرانا تھا جسے عام طور پر آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جاتا۔
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بہترفرمایاآپ نےتعبیرکی وجہ سے مسلہ پیداہوگیاتھانہی تو مرادمیری بھی یہی تھی۔البتہ ایک معمولی سے پہلو کی طرف توجہ مبذول کرواناچاہوں گا۔وہ یہ کہ طاہر صاحب کا یہ فرماناکہ

اسلام نے نظام کی بعض تفصیلات اجتہاد و تفقہ اور حکمت و مصلحت پر چھوڑ دی ہیں۔
اس میں میراخیال ہےکہ اگر بعض کی جگہ اکثرلگادیاجائےتو تعبیرمزیدجامع ہوجائےگی۔
 
Top