• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس ترمذی از تقی عثمانی صاحب میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
درس ترمذی از تقی عثمانی صاحب میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات

تقی عثمانی صاحب آل دیوبند کے معروف عالم دین ہیں بلکہ ان کے شیح الاسلام ہیں ان کی معروف کتاب درس ترمذی میں بے شمار احادیث اور اہل حدیث پر اشکالات وارد کیے گئے ہیں ہم اپنی ان بحوث میں ان اشکالات کے جوابات دیں گے ان شاء اللہ۔ قارئین سے خصوصی دعا کی اپیل ہے

اشکال نمبر 1:
تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں :’’جبکہ اس کے برخلاف کسی بھی صحابی سے جہر تامین پر عمل کرنا منقول نہیں ۔‘‘(درس ترمذی:ج1ص525)
جواب :''شیخ الاسلام ''کا دعوی بلا دلیل ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے ۔ہم ثابت کریں گے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے آمین بلند آواز سے کہنا ثابت ہے ۔
١:سیدنا عبداللہ بن زبیر اور ان کے مقتدی نماز میں آمین بلند آواز سے کہتے تھے ۔(صحیح البخاری :قبل ح ٧٨٠یہ موصولا مصنف عبدالرزاق :٥٧٢،حسن فی اصول المحدثین )
٫:سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب امام کے ساتھ نماز پڑھتے ،سورہ فاتحہ پڑھتے پھر لوگ آمین کہتے تو اسے سنت قرار دیتے ۔(صحیح ابن خزیم٧٢ہ حسن فی اصول المحدثین انظر تخریجہ مفصلا فی فتاوی علمیہ للشیخ زبیر علی زی حفظہ اللہ :ج١ص٣٣٩۔٣٤٣)
دیکھئے (ما صح من اثار الصحابہ فی الفقہ للشیخ غلام قادر الباکستانی :ج1ص132)
ہم یہ کہنے کی جسارت کرنا چاہتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے امین کو اہستہ کہنا ثابت نہیں ۔
دوسرا اشکال :
قال تقی عثمانی:
’’اس پر اتفاق ہے کہ امین جہرا اور سرا دونوں طریقہ سے جائز ہے لیکن افضلیت میں اختلاف ہے۔‘‘ ... درس ترمذی:ج١ص٥١٤
جواب:
اس اتفاق کی دلیل کیا ہے ؟یہ اتفاق بس الفاظی ہے حقیقت نہیں ہمیں اس قسم کا کوئی اتفاق نہیں ملتا ۔بلکہ امین اونچی کہنا ہی مسنون ہے اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہے بلکہ امام مسلم بن حجاج القشیری﷫ فرماتے ہیں: ''قد تواترت الروایات کلہا أن النبيﷺ جہر بآمین.'' تمام احادیث تواتر کی حد تک ثابت ہیں کہ نبی کریمﷺ نے آمین بالجہر کہی ہے ۔(الاول من کتاب التمییز ص٤٠) ہم یہاں اس کی ایک دلیل بھی ذکر کئے دیتے ہیں:
ابوہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ سورہ فاتحہ کی قرات سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے اور فرماتے:آمین (صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣)
اسے درج ذیل محدثین نے صحیح کہا ہے ۔

ابن حبان (صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣)
ابن خزیمہ (صحیح ابن خزیمہ :١/٢٨٧)
حاکم (مستدرک حاکم :١/٢٢٣،معرفۃ السنن والآثار :١/٥٣٢)
ذھبی (تلخیص المستدرک :١/٢٢٣)
دارقطنی (سنن الدارقطنی :١/٣٣٥،وقال:ہذا اسناد حسن )
بیہقی (التلخیص الحبیر :١/٢٣٦بلفظ :حسن صحیح )
ابن قیم (اعلام المؤقعین :٢/٣٩٧)

قارئیں کرام :''شیخ الاسلام ''تقی عثمانی صاحب کا یہ دعویٰ کہاں تک ٹھیک ہے کہ :'' اس پر اتفاق ہے کہ آمین جہرا اور سرا دونوں طریقہ سے جائز ہے لیکن افضلیت میں اختلاف ہے۔'' مزید تفصیل کے لئے فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی﷾ کی کتاب القول المتین فی الجہر بالتامین کا مطالعہ انتہائی مفید رہے گا۔
اللہ تعالی قران و حدیث کا تمام امتِ مسلمہ کو پابند بنائے۔ آمین ۔
تیسرا اشکال :

قال تقی عثمانی :اور یہی قول مفتی بہ ہے کہ اقتصار علی الجبہہ سے تو نماز ہو جائے گی لیکن اقتصار علی الانف سے نہیں ہو گی ۔(درس ترمزی:ج2ص 52)

جواب:
درست بات یہ ہے کہ سجدہ میں جس پیشانی اور ناک دونوں کا لگانا ضروری ہے مشہور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے سات اعضآ پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ان میں پیشانی اور ناک بھی ہیں اس لئے تقی عثمانی صاحب کی یہ تقسیم کہ قتصار علی الجبہہ سے تو نماز ہو جائے گی لیکن اقتصار علی الانف سے نہیں ہو گی درست نہیں ہے بلکہ سنن دارقطنی میں حسن درجے کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے سجدہ میں ناک نہ لگایا اس کی نماز نہیں ۔
ہرہر مسئلے میں قران و حدیث کو تسلیم کرنے میں سلامتی ہے
چوتھا اشکال
تحیۃ المسجد کا قائم مقام


قال تقی عثمانی :پھر اگر تحیۃ المسجد کا موقع نہ ملے تو اسے چاہئے کہ ایک مرتبہ ’’سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الا اللہ واللہ اکبر‘‘ پڑھ لے واللہ اعلم(درس ترمذی :ج٢ص١٠٥)
قول :یہ بات درست نہیں ہے ۔
١:کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تحیۃ المسجد کا نائب یہ زکر مقرر کیا ہے ،اگر جواب ہاں میں ہے تو دلیل دکھائی جائے ؟!
٢:کیا ضرورت پڑی اس خؤد ساختہ عمل کی کیا اس پر عمل کرنے سے تحیۃ المسجد کی احادیث کہاں جائیں گی ؟!
٣:کیا یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کیونکہ احناف تو ان کے مقلد ہیں اگر جواب ہاں میں ہے تو کس جگہ فرمایا ہے باسند صحیح ہماری رہنمائی کی جائے ؟!
بہر حال ایسی بات نامعلوم کیوں کہہ دی جاتی ہے اور کہنے والے بھی کوئی معلولی شخص نہیں بلکہ وہ بھی انتہائی محترم شخصیت اہل دیوبند کے ہاں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچواں اشکال

امام ابوحنیفہ کی تضّیف خود جارح کو مجروح کرتا ہے؟
قال تقی عثمانی :امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر طعن در حقیقت خؤد جارح کو مجروح کرتا ہے ۔‘‘(درس ترمذی ج٢ص ٩٨)
اقول: یہ بات درست نہیں اللہ تعالی اہل علم حضرات کو سمجھ عطا فرمائے اس جملے کی ضد کہاں کہاں جاتی ہے ؟!
کیا کوئی اہل علم تقی عثمانی صاحب کی اس بات سے متفق ہے ؟!
تقی عثمانی صاحب کے بقول
امام سفیان ثوری
امام احمد بن حبنل
امام بخآری
اما م مسلم
امام علی بن مدینی
امام نساu
امام ابن مبارک
امام ابن حبان
امام ابواحمد الحاکم الکبیر
امام ابن عدی
امام ابو نعیم اصفہانی
امام ذہبی
ابن عبدالبر
ابن معین
وخلق کثیر
تقی عثمانی صاحب کے نزدیک یہ تمام ائمہ محدثین امام ابوحنیفہ پر جرح کی وجہ سے خؤد مجروح ہو گئے ؟!انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
یہ سب کرشمے اندھی تقلید کے ہیں ورنہ اس طرح کی بات معرض وجود میں نہ آتی جو تقی عثمانی صاحب نے کی ہے[/QUOTE]
فاتحہ خلف الامام کے متعلق مسلک احناف اور آثار صحابہ کرام
قال تقی عثمانی :''مختلف فیہ مسائل میں فیصلہ اس بنیاد پر بھی ہوتا ہے کہ اس بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا مسلک اور معمول کیا تھا ،اس رخ سے اگر دیکھا جائے تو بھی حنفیہ کا پلہ بھاری نظر آتا ہے ،اور بہت سے آثار صحابہ ان کی تائید میں ملتے ہیں
علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ ترک القراۃ خلف الامام کا مسلک اسی (٨٠)صحابہ کرام سے ثابت ہے جن میں متعدد صحابہ کرام اس سلسلہ میں بہت متشدد تھے ،یعنی خلفاء اربعہ ،حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت سعد بن ابی وقاص ،حضرت زید بن ثابت ،حضرت جابر ،حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس وغیرھم رضوان اللہ علیھم اجمعین ۔(درس ترمزی :ج١ص١٠٢۔١٠٤)
اقول:

کیا اسی(٨٠) صحابہ کرام سے ترک رفع الیدین ثابت ہے ؟


یہ بس دعوی ہی ہے اس کا ثبوت باسند صحیح قیامت تک احناف پیش نہیں کر سکتے ؟!!ہم کہتے ہیں کہ جمھور صحابہ کرام سے قولا وعملا فاتحہ خلف الامام ثابت ہے اس کی شہادت امام ترمذی دیتے ہیں کہ :''والعمل علی ھذا الحدیث فی القراۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی ؐ والتابعین '' (فاتحہ خلف الامام کی )اس حدیث پر اما م کے پیچھے قرائت کرنے میں اکثر صحابہ اور تابعین کا عمل ہے (سنن الترمذی :تحت ح ٣١١)
فضیلۃ الشیخ استاد محترم ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :''امام بخاری فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ،حضرت عائشہ ،حضرت عمر بن خطاب ،حضرت ابی بن کعب ،حضرت حذیفہ ،حضرت عبادہ بن ثابت ،حضرت علی ،حضرت عبد اللہ بن عمر ،اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنھم وغیرہ قرائت خلف الامام کے قائل تھے ۔(جزء القراء ت ص:٥)ان کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس ،حضرت انس ،حضرت عبداللہ بن مسعود ،حضرت جابر ،حضرت ابوالدرداء ،حضرت عبداللہ بن زبیر ،حضرت ہشام بن عامر ،حضرت عبداللہ بن مغفل فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے ۔تفصیل کے لئے دیکھیں توضیح الکلام لشیخنا اسد السنۃ الاثری حفظہ اللہ ۔
فضیلۃ الشیخ استاد محترم محقق زماں حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :''اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ فاتحہ خلف الامام پر جمھور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عمل تھا بلکہ کسی صحابی نے بھی فاتحہ خلف الامام سے منع نہیں کیا اور نہ کسی مجوز فاتحہ کی نماز کو باطل کہا ہے ،لہذا تقلید پرستوں کی وہ پارٹی جو ہر وقت سیاہ کو سفید اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے میں مصروف ہے ،اپنے اس دعوے میں ،کہ یہ مسئلہ آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے خلاف ہے ،قطعا جھوٹ ہے لہذا عامۃ المسلمین کو اس پارٹی کی کذب بیانیوں اور مغالطہ دہیوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے ۔''(الکواکب الدریۃ ص:٨٣۔٨٤)
کیاخلفائ اربعہ سے بھی فاتحہ خلف الامام ثابت نہیں؟


اور فاتحہ خلف الامام ان صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے
١:سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (جزء القرائۃ :٥١وہو صحیح)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ (سنن الدارقطنی ١٢١٩،سندہ صحیح )
فائدہ
محدثین کی صراحتیں ملاحظہ فرمائیں ۔
(١)امام بخاری فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ ،حضرت عائشہ ،حضرت عمر بن خطاب ،حضرت ابی بن کعب ،حضرت حذیفہ ،حضرت عبادہ بن ثابت ،حضرت علی ،حضرت عبد اللہ بن عمر ،اور حضرت ابوسعیند خدری رضی اللہ عنھم وغیرہ قرائت خلف الامام کے قائل تھے ۔(جزء القراء ت ص:٥)
(٢)امام دار قطنی نے کہا :ھذا اسناد صحیح عن شعبۃ ''(سنن الدار قطنی :١٢١٩)
(٣)امام ابن حبان لکھتے ہیں :لان المشھور عن علی ما روی عن عبیداللہ بن ابی رافع انہ کان یری القراء ۃ خلف الامام ۔کیوں کہ حضرت علی سے مشہور ہے جیسا کہ ان سے بواسطہ عبیداللہ بن ابی رافع مروی ہے کہ وہ قراء ت خلف الامام کے قائل تھے۔(المجروحین :ج٢ص٥،توضیح الکلام ص:٤٢٧)
(٤)امام حاکم فرماتے ہیں :قد صحت الروایۃ عن عمر و علی انھما کانا یامران بالقراء ۃ خلف الامام کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنھما سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ دونوں امام کے پیچھے قرا ئت کا فتوی دیتے تھے ۔(المستدرک:ج١ص٢٣٩)اسی طرح اس اثرکو
(٥) امام بیہقی(کتاب القراء ۃ :ص٦١)
(٦)ذھبی اور۔
(٧)ابن عبدالبر(التمھید :ج١١ص٣٦) نے بھی صحیح کہا ہے ۔
استاد محترم شیخ اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :امام بیہقی حضرت علی کے اسی اثر کے متعلق امام ابن خزیمہ سے نقل کرتے ہیں :ھذا اسناد متصل اور اسناد صحیح متصل (کتاب القرائۃص:١٣٤)امام حاکم اور دارقطنی نے بھی اس کو صحیح کہا ہے اور خود مولانا صفدر صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں :''حدیث کے صحیح ہونے کے لئے اس کا اتصال بھی ضروری ہے ۔اس لحاظ سے جن حضرات نے اس کو جید کہا ہے گویا ان کے نزدیک اس کا اتصال بھی ثابت ہے ۔اصول حدیث کی رو سے صحیح اور جید کا ایک ہی درجہ ہے ۔''(تسکین الصدور ص:١٨٧)بتلائیے اس سے بڑھ کر ہم اپنے مہر بان کی اور کیا تسلی کر سکتے ہیں ۔یہاں تو محدثین اسے صحیح ہی نہیں بلکہ ابن خزیمہ اور بیہقی متصل بھی فرماتے ہیں ۔لیکن وائے نادانی کہ زہری کی تدلیس کا شبہ پھر بھی مرتفع نہیں ہوتا ع
جو بات کی خدا کی قسم لا جواب کی ۔(توضیح الکلا م ص:٤٣٢)
ثابت ہوا کہ تقی عثمانی صاحب کا کہنا کہ خلفائ اربعہ سے بھی فاتحہ خلف الامام ثابت نہیں درست نہیں ہے ۔
اسی طرح
سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم :٣٥٩)
سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ ()جزء القرائۃ :١١،١٠٥،وسندہ حسن )
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ (مصنف ابن شیبہ :ج١ص٣٧٥،وھو صحیح )
سیدنا انس رضی اللہ عنی (کتاب القراۃ للبیہقی :٢٣١،وسندہ حسن )
خلفائ اربعہ کے منع کرنے والی روایت عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ۔حافظ زیلعی حنفی نے بھی اس کو ضعیف کہا ہے (نصب الرایۃ :ج٤ص١٣٠)
عبدالحیء حنفی رحمہ اللہ نے ابن ماجہ کی روایت اس کی دلیل دی ہے کہ جابر بن عبداللہ بھی سری نمازوں میں امام کے پیچھے پڑھتے تھے ۔(امام الکلام ص:٣٢)
سعد بن وقاص کی عمل کی سند میں ایک کذاب راوی ہے ۔
بس اللہ تعالی سمجھ عطا فرمائے اور قرآن و حدیث کو تسلیم کرنے والا بنائے ۔آمین
اس سے تقی عثمانی صاحب کی درس ترمذی کی حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے
جاری ہے ۔۔۔
آل دیو بند کی خلفائ اربعہ کی بات مانتے ہیں ؟
تقی عثمانی صاحب نے مسئلہ فاتحہ خلف الامام میں یہ باور کرایا کہ فاتحہ خلف الامام کے قائل خلفائ اربعہ بھی ہیں ۔!!
اس کی حقیقت قسط نمبر ٤ میں واضح کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ یہ بات غلط ہے بلکہ سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنھما سے فاتحہ خلف الام ثابت ہے ۔والحمد للہ
اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ احناف ایک کمزور دلائل کا حامل فرقہ ہے ،جب بھی کسی غلط موقف کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے تو طرح طرح کے حیلوں سے کام لینا پڑتا ہے حالانکہ خود اسی حیلے یا دوسری جگہوں پر نہیں مانتے ہوتے اس کی مثال یہ ہے کہ فاتحہ خلف الامام کے مسئلے میں یہ کہا گیا کہ ہمارے موقف کی تائید میں خلفائ اربعہ بھی ہیں ۔!
حالانکہ یہی احناف کئی ایک مقامات پر خلفائ اربعہ مخالفت کرتے ذرا نہیں شرماتے مثلا۔
خلیفہ اول اور تقلید پرست حضرات

١:سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے ۔(السنن الکبری للبیھقی :ج٢ص٣٧،وقال رواتہ ثقات و اقرہ الژہبی وابن حجر )
٢:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر کے قائل تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج١ص٩٨)
٣:سیدنا ابوبکر عمامہ پر مسح کے قائل تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج١ص٣٠٥)
٤:سیدنا ابکر کے نزدیک غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مار کر ایک سال جلاوطن کیا جائے گا ۔(سنن الترمذی )
احناف سیدنا ابو بکر کے ان تمام فتوی جات کو نہیں مانتے آخر کیوں ؟!کیا یہی دین و ایمان ہے ؟کیا یہ فتاوی قرآن و حدیث کے خلاف ہیں یا فقہ حنفی کے خلاف ہیں ؟!
جاری ہے ۔۔۔۔
نوٹ ہماری ویب سائیٹ مین اس کتاب کا مفصل رد دیکھیں
[LINK=http://albisharah.com/index.php]http://albisharah.com/index.php[/LINK]
 
Top