• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
درس قرآن

تَعُوّذْ
اَعُوْذُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِاللّٰهِ ۔۔۔۔۔۔۔ مِنَ ۔۔ الشَّیْطٰنِ ۔۔ الَّرَّجِیْمِ
میں پناہ مانگتاـ مانگتی ہوں ۔۔ اللّٰه کی ۔۔ سے۔۔۔ شیطان ۔۔ مردود
اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرّجِیْمِ
میں اللّٰه تعالی کی پناہ مانگتا۔ مانگتی ہوں شیطان مردود سے ۔
اللّٰه تعالی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسے شیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور حضرت آدم علیہ السلام میں مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہوگئے ۔ تو الله تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے سامنے جھک جائیں ۔ چنانچہ ان سب نے انہیں سجدہ کیا ۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اس کے اندر تکبر کی بیماری تھی ۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی ۔ تو اس نے کہا ۔ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ اور آدم کو مٹی سے ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟
شیطان کو اسی تکبر کی وجہ سے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت تک کے لئے اس پر لعنت کی گئی ۔
اب شیطان نے اپنی اپنی اس ذلت کا بدلہ لینے کی ٹھان لی ۔ کسی نہ کسی طریقے سے حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی بیوی حوّا کو جنّت سے نکلوا دیا ۔ اور اس نے اس بات کا اعلان کر دیا ۔ کہ میں قیامت تک آدم کی اولاد کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا رہوں گا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ شیطان ہمارا مستقل دشمن ہے ۔
اس لئے الله تعالی نے حکم دیا کہ اس طرح اللّٰه تعالی کے حضور دعا کریں ۔
"اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان کے وسوسوں سے ۔ اور اے میرے ربمیں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ شیطان میرے پاس آئے "
رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ شیطان تمہارے رگ و ریشہ میں اس طرح اثر کرتا ہے ۔ جس طرح کہ خون تمام جسم میں دوڑتا ہے ۔ شیطان آدمی کو دیکھتا ہے مگر آدمی شیطان کو نہیں دیکھ سکتا ۔ نہ اس کے حملے سے آسانی سے بچاؤ کر سکتا ہے ۔ اس لئے ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیطان کے اثر سے پناہ مانگے ۔
IMG_1603.JPG
اَعُوْذُ بِاللّٰه مِنَ الشَّیْطٰنِ الرّجِیْمِ
پڑھا جائے ۔ تاکہ الله سبحانہ وتعالٰی ہمیں اپنی پناہ میں لے لے ۔ اور اس نیک کام میں شیطان کو بہکانے اور پھسلانے کا موقع نہ ملے ۔
آیات کی غلط تاویل سے معنوں کی حقیقت بدل جاتی ہے ۔ اللّٰه تعالی ہمیں ہر قسم کی گمراہیوں سے محفوظ رکھے ۔ ( آمین )
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ آیہ ۱۸۶
دعا

وَ۔۔ اِذَا ۔۔۔ سَاَلَکَ ۔۔۔ عِبَادِیْ۔۔ عَنِّیْ۔۔۔ فَاِنِّیْ ۔۔۔ قَرِیْبٌ۔۔ اُجِیْبُ ۔۔۔ دَعْوَۃَ ۔۔۔ الدّاعِ ۔۔۔ اِذا۔۔ دَعَانِ
اور ۔۔ جب ۔۔۔ وہ پوچھتے ہیں آپ سے ۔۔۔ میرے بندے ۔۔ میرے متعلق۔۔ پس بے شک میں ۔۔۔ قریب ۔۔۔ میں جواب دیتا ہوں ۔۔پکار ۔۔ پکارنے والا۔۔جب ۔۔ مجھے پکارتا ہے

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَأِنّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدّاعِ اِذَا دَعَانِ لا
اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں سو میں تو قریب ہوں ۔ مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے مانگے ۔
عَنِّیْ
میری بابت ۔ یعنی میری قریبی اور دوری کے متعلق پوچھیں ۔ بعض مذاہب نے الله تعالی کی ذات کو انسان کی رسائی سے اس قدر دور اور بلند خیال کیا ہے کہ گویا وہاں تک پہنچنا بالکل نا ممکن ہے ۔ اسلام نے اس غلط عقیدے کا رد کیا ہے ۔ اور بتایا کہ الله تعالی انسان کے بہت قریب ہے ۔
اِنِّیْ قَرِیْبٌ
میں قریب ہوں ۔ مراد یہ ہے کہ الله تعالی علم اور واقفیت کے لحاظ سے بھی انسان کے قریب ہے ۔ اور اس کی دعا سننے اور قبول کرنے کے لحاظ سے بھی اسکے قریب ہے ۔
قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے ۔
میں انسان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں
دین کی روح یہ ہے کہ انسان سب سے کٹ کر صرف ایک الله کا ہو کر رہے ۔ اسی سے اپنی ہر مراد مانگے اسے کے سامنے سوال کے لئے ہاتھ اٹھائے ۔ انسان کی زندگی اور موت اس کی عبادت اور قربانی الله کے لئے ہو ۔ اس روح کو پیدا کرنے کے لئے الله سبحانہ تعالی نے دُعا کی تعلیم دی ہے ۔ اور فرمایا کہ میں انسانوں سے دور نہیں ہوں ۔
بلکہ جب کبھی کوئی شخص تمام جانب سے ہٹ کر پورے اخلاص کے ساتھ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کو سنتا ہوں ۔ اسے جواب دیتا ہوں ۔ اس کی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اسکی تمنّا پوری کرتا ہوں ۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔

رات کے آخری تیسرے حصے میں الله جل شانہ قریب ترین آسمان پر آ کر یہ اعلان کرتا ہے ۔ ہے کوئی مانگنے والا جس کی دعا قبول کروں ۔ کوئی سوال کرنے والا جس پر نوازش کروں ۔ ہے کوئی بخشش مانگنے والا جسے معاف کروں ؟
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ۔
دعا عبادت ہے ۔
ایک اور جگہ فرمان ہے ۔
الله تعالی اس قدر باحیا اور کریم ہے کہ وہ کسی دعا کرنے والے کو خالی ہاتھ واپس کرنا نہیں چاہتا ۔
لیکن دعا کے قبول ہونے کی ایک شرط ہے ۔ کہ دل غافل اور بے پرواہ نہ ہو
رات کے اس آخری پہر پر ہی کیا موقوف ہے ۔ الله سبحانہ تعالی ہر وقت اور ہر جگہ ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ خلوص اور ایمانداری سے پکارے ۔
اس آیت مبارکہ میں الله تعالی نے انسانوں کے لئے کتنا بھروسہ ۔۔۔ ٹوٹے دلوں کے لئے کیسی اُمید ۔۔۔ گنہگار روحوں کے لئے کیسی توقع ۔۔۔ تھکے ماندوں کے لئے کیسا سہارا ۔۔۔ بے بسوں کے لئے کیسا آسرا اور کیسی قوت بھر دی ہے ۔
انسان اس سے نہ مانگے تو اور کس سے مانگے ؟
مگر کس قدر غافل اور ظالم ہے یہ انسان کہ مانگتے وقت شرماتا ہے ۔ اور اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے ججھکتا ہے ۔۔۔
 
Last edited by a moderator:

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
دُعا کی دو شرطیں


فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ﴿١٨٦﴾ سوره بقره
تو چاہئیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ نیک راہ پر آئیں ۔

اس سے پہلے بیان کیا گیا تھا کہ الله سبحانہ تعالی انسانوں سے بہت قریب ہے ۔ وہ ان کے حالات سے سب سے زیادہ واقف ھے ۔ ان کی حاجات سے آگاہ ھے ۔ ان کی مصلحتوں کو جانتا ھے ۔ ان کی فلاح و بہبود چاہتا ہے ان کی پکار کو سنتا ھے ۔ ان کی دعا قبول کرتا ھے ۔ اور ان کے ساتھ نہایت شفقت اور مہربانی سے پیش آتا ھے ۔
آیت کے اس حصے میں الله جل شانہ نے دُعا کی قبولیت کی دو بنیادی شرائط بیان فرمائی ہیں ۔
۱- فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ
وہ میرا حکم مانیں ۔۔۔ جواب ، مستجاب ، اجابت وغیرہ لفظ اسی مادہ سے ہیں ۔ قبول کرنا اور مان لینا اس کے معنٰی میں شامل ھے ۔ دعا کی شرط اوّل یہ ہے کہ دعا کرنے والا الله تعالی کے بتلائے ہوئے طریقوں اس کی ہدایتوں اور حکموں کو مانتا ہے ۔

۲- وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ
اور وہ مجھ پر ایمان لائیں ۔ ایمان ۔ مؤمن وغیرہ اسی لفظ سے نکلے ہیں ۔ ایمان یعنی زبان سے ماننا ۔ دل سے یقین رکھنا ۔ اور اس کے مطابق عمل کا ارادہ رکھنا ۔ قبولیّت دعا کی دوسری شرط ھے ۔ ۔۔۔۔ ان بنیادی شرائط کے علاوہ قرآن مجید میں اور بھی کئی شرائط بیان ہوئی ہیں ۔ مثلا
صحیح اور درست چیز کے لئے دُعا کرنا
اخلاص اور یقین کے ساتھ مانگنا ۔
حلال روزی ، پاک غذا کھانا ۔
اور نیکو کار ، فرمانبردار ہونا وغیرہ
بعض اوقات ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی ۔ ہمیں مایوس یا دل برداشتہ ہونے کے بجائے سوچنا چاہئیے کہ الله تعالی کا کوئی حکم اور فیصلہ حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہوتا ۔ البتہ ہماری دُعا میں نقائص اور کمزوریوں کا اندیشہ ہو سکتا ھے ۔ ممکن ہے دعا کی قبولیت ہمارے حق میں مضر ہو ۔ اس لئے ہمیں الله تعالی کے فیصلے اور اس کی حکمت پر بہتری کا یقین رکھنا چاہئیے ۔
دوسری بات جو ہمیں پیش نظر رکھنی چاہئیے کہ بعض دعاؤں کے قبول نہ ہونے کی وجہ سے یہ کہنا مناسب نہیں کہ دُعا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ کیونکہ بعض اوقات کسی بیماری میں کوئی دوا مفید نہیں ہوتی ۔ لیکن علاج ترک نہیں کیا جاتا ۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ دُعا قبول نہ ہونے پر اسے ترک کر دیا جائے ۔ قبول نہ ہونے میں ضرور کوئی مصلحت ہو گی ۔
اور الله تعالی ہماری مصلحت سے واقف ھے ۔ ہماری فلاح چاہتا ھے ۔ لہذا ہمیں بھی چاہئیے کہ رہ رہ کر صرف اسی کے آگے دُعا کریں ۔ اسکے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کریں ۔ کیونکہ یہی کامیابی کی راہ ھے۔
 
Last edited by a moderator:

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورہ بقرہ ، آیۃ ۱۸۷

اُحِلَّ لَکُمْ ۔۔ لَیْلَةَ ۔۔ الصّیَامِ ۔۔ الرَّفَثُ ۔۔ اِلٰی ۔۔ نِسَآئِکُمْ ۔۔ ھُنَّ ۔۔ لِبَاسٌ ۔۔۔ لَّکُمْ ۔۔وَ اَنْتُمْ ۔۔ لِبَاسٌ ۔۔۔ لّھُنَّ ط
حلال کیا گیا ۔۔ تمہارے لئے ۔۔ رات ۔۔ روزہ ۔۔ بے حجاب ہونا۔۔ تمہاری بیویاں ۔۔ وہ ۔۔ لباس ۔۔ تمہارے لئے ۔۔ اور تم ۔۔ لباس ۔۔ ان کے لئے
اُحِلَّ لَکُمّ لَیْلَةَ الصّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسائِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّ کُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ط
تمہارے لئے جائز ہوا روزے کی رات میں بے حجاب ہونا اپنی بیویوں سے وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو ۔
اَلرَّفَثُ
بے حجاب ہونا
رفث کے لفظی معنٰی ہیں ایسا کلام جو جنسی جذبے اور نفسانی خواہشات کو اُکسائے ۔ یہاں مراد خود خواہشات کو پورا کرنا ھے ۔
شریعت اسلامی کے احکام آہستہ آہستہ نازل ہوئے ۔ اہل کتاب ( یہود )کی طرح مسلمان بھی روزوں کے ایّام میں رات کے وقت سونے کے بعد بیویوں سے صحبت سے باز رہتے تھے ۔ اس آیت کے ذریعے اس میں نرمی کی گئی ۔ اور رات کے وقت مباشرت کی اجازت دے دی گئی
اس سے ظاہر ہے کہ اسلام جذبات و خواہشات کو سرے سے مٹانا نہیں چاہتا ۔ بلکہ تمام کام الله جل جلالہ کے حکم اور اس کی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتا ھے ۔ جب الله تعالی چاہے تو کوئی کام کرو اور جب وہ منع فرمائے تو اس سے رُک جاؤ ۔ چونکہ ہمار مصلحت اور بہتری وہی سمجھتا ھے ۔ ہمیں اپنے نفع و نقصان کا کچھ پتا نہیں ۔
روزوں کے علاوہ میاں بیوی پر دن رات کوئی پابندی نہیں ۔ لیکن روزے کے دوران دن کے وقتمنع کر دیا گیا ۔ اگر کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرے تو اس کی سزا یہ ھے کہ مسلسل ساٹھ روزے رکھے ۔ یا ایک غلام آزاد کرے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔
لِبَاسٌ ۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس فرما کر اس قریبی رشتہ کو ظاہر کیا ھے جو انہیں الله جل جلالہ کی اجازت سے ایک دوسرے سے حاصل ھے ۔ یہ لباس کی تشبیه کئی صورتوں میں موجود ھے ۔
مثلا ان کے آپس کے قریبی تعلقات ، ایک دوسرے کی محتاجی ، جسمانی اعتبار سے انتہائی قُرب ، ایک دوسرے کے لئے زیب و زینت اور اطمینان و آسائش کا موجب ہونا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کے انتہائی رازدار ہونے کے باوجود پردہ پوشی کرنا
غور کیجئے کہ لفظ لباس سے کتنی باتیں سمجھا دی ہیں ۔ میاں بیوی دونوں پر لازم ہے کہ وہ واقعی ایک دوسرے کا لباس یعنی رازدار ۔ امین ۔ پردہ پوش ۔ سکون قلب کا سامان اور رحمت کا موجب ثابت ہوں ۔
 
Last edited by a moderator:

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
مباشرت کا مقصود

عَلِمَ ۔۔ اللهُ ۔۔اَنَّکُمْ ۔۔۔ کُنْتُمْ ۔۔ تَخْتَانُوْنَ ۔۔۔ اَنْفُسَکُمْ ۔۔۔ فَتَابَ ۔۔۔ عَلَیْکُمْ ۔۔۔ وَعَفَا ۔۔۔ عَنْکُمْ ۔۔۔
فَلْئٰنَ ۔۔۔ بَاشِرُوْھُنَّ ۔۔۔ وَابْتَغُوْا ۔۔۔ مَا کَتَبَ اللهُ لَکُمْ ۔۔۔

معلوم ہے ۔۔ الله کو ۔۔ بے شک تم ۔۔ تھے ۔۔ تم خیانت کرتے ۔۔ اپنی جانوں میں ۔۔ سو معاف کیا ۔۔ تم کو ۔۔ اور درگزر کیا ۔۔ تم سے ۔۔ پس اب ۔۔ تم ملو اپنی عورتوں سے ۔۔اور طلب کرو ۔۔ جو لکھ دیا الله تعالی نے تمہارے لئے ۔

عَلِمَ اللهُ اَنّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُونَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ ج فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَ ابتَغُوا ما کَتَبَ اللهُ لَکُمْ
الله تعالی کو معلوم ہے کہ تم خیانت کرتے تھے اپنی جانوں سے سو تمہیں معاف کیا اور تم سے درگزر کیا پھر اب اپنی عورتوں سے ملو اور جو الله تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے وہ طلب کرو ۔

تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ
تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے تھے
بعض کمزور مسلمان اپنے ساتھ خود خیانت کے مجرم ہوتے تھے ۔ علامہ راغب اصفہانی نے اختیان کے معنٰی کئے ہیں ۔ خیانت کا ارادہ کرنا " اس رو سے معنی یہ ہوں گے کہ تم دل میں خیانت کا ارادہ کرتے تھے ۔
بَاشِرُوْھُنَّ ۔

اپنی عورتوں سے ملو
لفظ مباشرت اسی مادہ سے ھے ۔ جس کے معنٰی ہیں عورت سے صحبت کرنا ۔
ابتدائے اسلام میں اہل کتاب کی طرح مسلمان بھی روزوں کے ایّام میں سونے کے بعد بیوی سے صحبت نہ کرتے تھے ۔ مگر بعض لوگ جذبات سے مغلوب ہو کر اس پابندی کو توڑ بیٹھتے ۔ یا کسی کے دل میں خیانت کا ارادہ اور جذبہ پیدا ہوتا ۔ الله تعالی نے بات صاف کر دی ۔ اور رات کے وقت کھانے پینے کی طرح مباشرت کی بھی صاف اجازت فرما دی ۔
ابْتَغُوا مَا کَتَبَ اللهُ لَکُمْ

جو الله تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے وہ طلب کرو ۔
ابْتِغاء کے معنی کسی چیز کے طلب کرنے اور حاصل کرنے کی کوشش کرنا ۔
مَا کَبَ اللهُ لَکُمْ ۔ جو الله تعالی نے لکھ دیا ہے ۔ اس سے مراد اولاد اور نسل ھے ۔ جو مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ھے ۔
اجازت دینے کے ساتھ گویا ایک تنبیہ بھی کر دی ۔ یعنی عورتوں کے پاس اولاد پیدا کرنے کی غرض سے جانا چاہئیے ۔ مباشرت کے عمل سے اگرچہ طبعی لذت بھی حاصل ہوتی ھے ۔ لیکن اسلام نے اس عمل سے اصلی اور بڑا مقصد حصول اولاد اور افزائش نسل رکھا ھے ۔ تاکہ انفرادی لذت مجموعی مفاد کا سبب بنتی رھے ۔

 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
روزہ کے اوقات

کُلُوْا ۔۔۔ وَاْشْرَبُوْا ۔۔ حَتّٰی ۔۔۔ یَتَبَیَّنَ ۔۔۔ لَکُمَ ۔۔ الْخَیْطُ ۔۔ الْاَبْیَضُ ۔۔ مِنَ الْخَیْطِ ۔۔۔ الْاَسْوَدِ
مِنَ الْفَجَرِ ص ثُمَّ اَتِمُّوا ۔۔ الصّیَامَ ۔۔۔ اِلَی ۔۔۔ الَّیْلِ ج

اور کھاؤ ۔۔۔ اور پیو ۔۔ یہاں تک ۔۔۔ واضح ہو جائے ۔۔ تمہارے لئے ۔۔ دھاری ۔۔ سفید ۔۔ سیاہ سے
صبح سے ۔۔۔ پھر پورا کرو ۔۔۔ روزہ ۔۔ تک ۔۔ رات
وَکُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ص۔ ثُمَّ اَتِمُّوا لاصّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج
اور کھاؤ اور پیو جب تک تمہیں صاف نظر آئے صبح کی دھاری سیاہ دھاری سے جُدا پھر رات تک روزہ پورا کرو ۔
اَلْفَجْر
فجر ۔ مراد صبح کاذب نہیں
بلکہ وہ نور کا تڑکا ھے ۔ جو صبح کاذب کے کچھ دیر بعد ہوتا ھے ۔ جب روشنی مشرق اور مغرب کی جانب پھیلنے لگتی ھے ۔اور اس کو صبح صادق کہتے ہیں ۔ سحری کا وقت صبح صادق تک رہتا ھے ۔ حدیث مبارکہ میں سحری آخری وقت کھانے کی بڑی فضیلت آئی ھے ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ کہ بلال رضی الله عنہ جو لوگوں کی نماز کی تیاری کے لئے بہت سویرے آذان دے دیتے ہیں ۔ انکی آذان سے یا محض شمال جنوب میں روشنی دیکھ کر سحری ختم نہ کرو ۔ بلکہ روشنی کے پھیل جانے کو معتبر سمجھو ۔
حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا ۔ کہ سحری کے وقت کھانے پینے سے احتیاط اس وقت ضروری ھے ۔ جب صبح کی روشنی راستوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ظاہر ہو جائے ۔
اَلَّلیْل ۔

رات ۔
عربی میں رات کا آغاز دن کے خاتمہ اور سورج غروب ہوجانے کے فوراً بعد شروع ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اسلامی کیلنڈر یعنی قمری سن کی تاریخ غروبِ آفتاب کے فورا بعد شروع ہو جاتی ہے ۔ اس کے برعکس شمسی سال میں تاریخ نصف رات گزرنے پر بدلتی ہے ۔
اِلَی اللَّیْل

رات تک ۔
مطلب یہ ہوا کہ جونہی رات داخل ہونے لگے ۔ روزہ افطار کر دو ۔ یہ مطلب نہیں کہ رات کی تاریکی چھا جانے تک روزہ رکھے ۔
اس حکم سے پہلے مسلمان روزہ افطار کرنے کے بعد اگر سو جاتے تو پھر اگلی شام تک کچھ نہ کھاتے ۔ اس آیت میں یہ اجازت دے دی کہ روزہ افطار کرنے کے بعد سے لیکر فجر تک کھاؤ پیو ۔ اور عورتوں سے صحبت بھی کر سکتے ہو ۔
یہ ایک اور رعایت اور سہولت ھے ۔ جو بعد میں دی گئی ۔ کہ جب تک رات کی دھاری صبح کی دھاری سے جدا ہو جائے ۔ کھانے پینے کی عام اجازت ھے ۔ اور پھر سحری ختم ہونے کے بعد سارا دن روزہ رکھنا ہو گا ۔ حتی کہ سورج غروب ہو جائے اور تاریکی پھیلنی شروع ہو جائے ۔
اس حکم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بغیر سحری کھائے ہوئے اور بغیر روزہ افطار کئیے مسلسل روزے رکھنا مکروہ ھے ۔
اسلام اعتدال کی راہ سکھاتا ہے ۔ شدت اور سختی پسند نہیں کرتا ۔ لہذا شریعت نے جو طریقہ مقرر کیا ہے ہمیں اس کی پابندی کرنی چاہئیے اور جو رعایات دی ہیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہئیے ۔۔۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
اعتکاف کے احکام

وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ ۔۔۔ وَاَنْتُمْ ۔۔۔ عَاکِفُوْنَ ۔۔۔ فِی الْمَسَاجِدِ۔ ط
اور نہ تم عورتوں سے مباشرت کرو ۔۔۔ اور ہو تم ۔۔۔ اعتکاف کرنے والے ۔۔۔ مسجدوں میں
وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمسَاجِدِ
تُبَاشِرُوْھُنّ
عورتوں سے نہ ملو
یہاں لفظ مباشرت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ھے ۔ یعنی صحبت کے علاوہ بوس و کنار بھی نہ کرو ۔
عَاکِفُوْنَ

اعتکاف کرنا
لفظ اعتکاف سے ھے ۔ جس کے لغوی معنی ہیں خود کو کسی شئے سے روک کر رکھنا ۔ یا اسے اپنے آپ پر لازم کر لینا ۔ اصطلاح میں اس سے مراد ھے ۔ مسجد میں بیٹھ کر اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر لینا ۔
روزوں کے سلسلے میں ایک اور حکم یہ دیا کہ جب تم مسجد میں اعتکاف کر رہے ہو تو عورتوں کے پاس مت جاؤ ۔
اعتکاف کے بارے میں چند ضروری احکام درج ذیل ہیں ۔
۱۔ اعتکاف کرنے والے پر لازم ھے کہ وہ دوران اعتکاف ہر وقت مسجد میں رھے ۔ وہیں کھائے پیئے اور سوئے جاگے ۔ صرف بدنی اور شرعی ضرورتوں کے لئے ہی مسجد سے باہر نکل سکتا ھے ۔
۲۔۔ اعتکاف کے لئے مدت کم از کم ایک دن ھے ۔ اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔
۳۔۔ فی المساجد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعتکاف ہمیشہ مسجد ہی میں ہونا چاہئیے ۔
البتہ عورتوں کا اعتکاف مسجد کی بجائے گھر کے کسی گوشہ میں ہو سکتا ھے ۔
۴۔ اعتکاف کے دوران گفتگو جائز ھے ۔ بشرطیکہ مسجد کے احترام اور اعتکاف کے آداب کے خلاف نہ ہو ۔
نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی عادتمبارک تھی آپ ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں پورے دس دن کے لئے مسجد میں اعتکاف فرماتے ۔اور دنیاوی معاملات سے اپنا تعلق بالکل توڑ لیتے ۔
اسی لئے اعتکاف سنت کفایہ ھے ۔ یعنی ایسی سنت کہ محلّہ کا ایک آدمی کرلے ۔ تو دوسروں کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ھے ۔ لیکن اگر ایک بھی نہ کرے تو تمام لوگ گنہگار ہوں گے ۔
اعتکاف کے بہت سے فوائد ہیں ۔ روحانی قوت حاصل کرنےاور ایمانی اعتبار سے تازہ دم ہونے کے لئے اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ۔ کیونکہ اعتکاف کے دوران انسان اپنا وقت مسلسل اطاعت اور عبادت میں گزارتا ھے ۔ اسے تنہائی اور یکسوئی میسر آتی ھے ۔
ہمیں چاہئیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس سنت پر پورا پورا عمل کریں ۔ ایمان کی روشنی حاصل کریں ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خوشنودی کے مستحق ہوں ۔ اور کم از کم چند دن کے لئے کامل طور پر پاکیزگی حاصل کریں ۔ دنیاوی تعلقات اور معاملات سے کچھ مدت کے لئے رشتہ توڑ لیں ۔ اور معبودِ حقیقی کی طرف متوجہ ہو جائیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
حدود الله

تِلكَ ۔۔ حُدُودُ ۔۔ اللهِ ۔۔۔ فلا ۔۔۔ تَقرَبُوهَا ۔۔۔
كَذٰلِكَ ۔۔۔يُبيِّنُ ۔۔اللهُ۔۔۔ آيَاتهِ ۔۔ للِنَّاسِ ۔۔۔ لَعلَّهُمْ ۔۔ يَتَّقُون

یہ ۔۔ حدیں ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ پس نہ ۔۔ تم قریب جاؤ ان کے ۔
اس طرح ۔۔ وہ بیان کرتا ہے ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ اپنی آیات ۔۔ لوگوں کے لئے ۔۔ تاکہ وہ ۔۔ بچتے رہیں

تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله آياته للناس لعلهم يتقون
یہ الله تعالی کی باندھی ہوئی حدیں ہیں سو ان کے نزدیک نہ جاؤ اسی طرح الله تعالی اپنی آیات لوگوں کے لئے بیان فرماتا ھے ۔ تاکہ وہ بچتے رہیں ۔
تِلْکَ
یہ ۔۔۔۔ اس سے ان چھ سات احکام کی طرف اشارہ ہے جو پچھلے اسباق میں بیان ہو چکے ہیں
حُدُودٌ
حد کی جمع
اس سے مراد الله تعالی کے مقرر کئے ہوئے ضابطے اور قاعدے ہیں ۔ جن کی پابندی پر بار بار قرآن مجید میں زور دیا گیا ہے ۔
روزے کی برکات اور اس کی فرضیت بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اس سے متعلق ضمنی قوانین بتا دئیے ہیں ۔ اعتکاف کے لوازمات اور دوسرے ضابطے بھی واضح کر دئیے ۔ اب آیت کے اس آخری حصے میں یہ تنبیہ کی گئی ھے کہ
تمام قوانین ، اصول ، حدیں اور بندشیں الله جل جلالہ نے وضع کی ہیں ۔ ان سے منہ موڑنا اور ان کی خلاف ورزی کرنا معمولی بات نہ ہو گی ۔ انہیں مقرر کرنے والا الله تعالی ھے ۔ جو حکمت اور علم والا ھے ۔ اس کی ھدایات اور احکام برحق ہیں ۔ مصلحت پر مبنی ہیں ۔ انسانوں کی فلاح اور کامیابی کے ضامن ہیں ۔ ان کی پیروی اور تعمیل سے دنیا و آخرت سنورے گی ۔
ان کی روگردانی اور سرتابی تباھی اور بربادی کا پیش خیمہ ہو گی ۔ اس لئے کسی انسان کو ان حدود سے باہر نہیں جانا چاہئیے ۔الله سبحانہ تعالی کی باندھی ہوئی حدوں کے اندر رہنا چاہئیے ۔
جس طرح الله تعالی نے روزے کے احکام ، اس کی حدیں ، اوقات ، اعتکاف اور اس سےمتعلق دوسرے اُمور تفصیل سے بیان کر دئیے ۔ اسی طرح وہ باقی احکام انسان کی فلاح اور بہتری کے لئے تفصیل سے بیان فرماتا ھے ۔ ان احکام پر مضبوطی سے کاربند ہونے سے انسان میں تقوٰی ، پرھیزگاری ، جذبہ اطاعت و فرمانبرداری ، اخلاص و ایثار ، پاکدامنی اور پاکبازی ، نیک عملی و نیکو کاری پیدا ہوگی ۔
انسان اپنی کم فہمی کی بنا پر اپنی مصلحت اور بہبود کے لئے خود کوئی راہ قائم نہیں کر سکتا ۔ اسے ایک بزرگ و برتر ہستی ۔ عالم کُل اور حاکم مطلق کی ھدایات کی ضرورت ہوتی ھے ۔ وہ الله جل جلالہ ھے ۔ اس نے نہایت شفقت سے کام لے کر ہمیں کامیابی و کامرانی کی راہ بتا دی ۔ ہمیں چاہئیے کہ بلا تامّل اس صراطِ مستقیم پر چل پڑیں ۔ اور مقصودِ اصلی پا لیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
[/H2]ناحق مال
آیہ ۱۸۸

وَلَا ۔۔۔ تَاْکُلُوآ ۔۔۔ اَمْوَالَکُمْ۔۔۔ بَیْنَکُمْ ۔۔۔ بِالْبَاطِلِ
اور نہ ۔۔ تم کھاؤ ۔۔ ایک دوسرے کا مال ۔۔۔ آپس میں ۔۔۔ ناحق
وَلَا تَاْکُلُوْا ٓاَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْبِالْبَاطِلِ
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ۔

لا تَاْکُلوا
نہ کھاؤ
یہ لفظ اکل" سے نکلا ھے ۔ جس کے معنی کھانا ھے ۔ محاورہ کے اعتبار سے صرف کھانا ہی مراد نہیں ۔ بلکہ کسی طرح بھی ناجائز طور پر مال حاصل کر کے استعمال کرنا مراد ھے ۔
اَمْوالَکُمْ

ایک دوسرے کا مال
تمام مسلمانوں کو خطاب کیا گیا ھے ۔ اور یہاں اس کے معنی اپنا مال نہیں بلکہ ایک دوسرے کا مال ہوں گے ۔
بَیْنَکُمْ

آپس میں
عُلماء نے اس لفظ کا دائرہ بہت وسیع بیان کیا ہے ۔ صرف مسلمانوں کے مال تک ہی یہ حکم محدود نہیں بلکہ مراد تمام انسانوں کا مال ھے ۔ خواہ مسلم ہو یا کافر ۔ کسی کا مال بھی دغا ۔ فریب ۔ظلم اور ناحق لینا جائز نہیں ۔
بِالْبَاطِلِ

ناحق
مراد ہر ناجائز طریقہ ھے ۔ اس کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ جائز طریقہ ایک ہی ہوتا ھے ۔ اس کے سوا جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ ناجائز اور باطل تصوّر ہو گی ۔
روزوں کی فرضیّت سے یہ مقصود تھا کہ اُمّت کے افراد کے نفس پاکیزہ ہوں ۔ الله سبحانہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے پہلے وہ اپنے اندر حلال چیزوں کو چھوڑنے کی عادت پیدا کریں ۔ تاکہ آئندہ ناجائز طریق سے حاصل کیا ہوا مال ان کے لئے چھوڑنا آسان ہو جائے ۔ اور اس سے مکمل پرھیز کر سکیں ۔
مل جل کر رہنے سے تبادلہ اشیاء کی ضرورت کی پڑتی ھے ۔ اس لئے فرمادیا کہ باہمی لین دین میں کسی کا مال ظلم کرکے کھانے کی کوشش ہرگز نہ ہونی چاہئیے ۔ لوٹ مارکرنا ۔قمار بازی میں الجھنا ، دھوکے فریب چالبازی اور دیگر باطل طریق سے مال حاصل کرنا ایک دم ترک کر دینا چاہئیے
اسی طرح گانے بجانے کی اجرت ۔ شراب کا کاروبار مثلا بنانا ، خرید و فروخت وغیرہ رشوت لینا ، جھوٹی گواہی دینا ، امانت میں خیانت کرنا ، کمزور و بے بس کا ناحق مال کھانا باطل طریقے ہیں جو چھوڑنے چاہئیے ۔
قرآن مجید نے اس کا فیصلہ زیادہ تر لوگوں کے ضمیر پر چھوڑ دیا ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری خود محسوس کرے ۔ اپنا چال چلن اور برتاؤ درست کرے۔ اعمال کے حساب کا ڈر اپنے اندر رکھے ۔ ہر معاملہ دیانت اور امانت کے ساتھ کرے۔ تاکہ حکومت کو صرف خاص خاص حالتوں میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہو ۔
اس آیت کا نچوڑ یہ ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ تم رمضان کے دنوں میں پاک اور جائز چیزوں کو ترک کر دو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ھے کہ تم ہمیشہ کے لئے ناجائز مال حاصل کرنا اور کھانا چھوڑ دو ۔ کبھی دھوکے ، فریب ، خیانت ، ظلم ، زیادتی ، بے انصافی سے کسی کا مال حاصل نہ کرو ۔
رشوت اور ناجائز تحفے وصول کرنا حرام ھے ۔ جس طرح روزوں سے مسلمانوں کے نفس پاکیزہ ہوں گے ۔ اس طرح اس حکم کی پیروی سے انکے عمل پاک ہو جائیں گے ۔
اس کا مبارک اثر اخلاق ، معاشرت، سیاست ، عدالت غرض زندگی کے ہر شعبے پر پڑے گا ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
رشوت

وَ تُدْلُوا ۔۔۔بِها ۔۔۔إِلَي ۔۔۔الْحُکَّامِ ۔۔ لِتَأْکُلُوا ۔۔فَريقاً ۔۔مِنْ۔۔۔ أَمْوالِ ۔۔النَّاسِ ۔۔۔بِالْإِثْمِ۔۔۔ وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
اور (نہ) پہنچاؤ۔۔اس کو ۔۔ تک ۔۔حاکم۔۔ تاکہ تم کھاؤ۔۔کوئی حصہ ۔۔ سے ۔۔ مال ۔۔ لوگ ۔۔ گناہ کے ساتھ ۔۔ اور تم جانتے ہو
تُدْلُوا بِها إِلَي الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُوا فَريقاً مِنْ أَمْوالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
اور انہیں حاکموں تک نہ پہنچاؤ کہ لوگوں کے مال میں سے کوئی حصہ کھا جاؤ ناحق اور تم جانتے ہو ۔
تُدْلُوْا
تم پہنچاؤ
لفظ۔ اولاء۔ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں کنویں میں ڈول ڈالنا ۔ کسی چیز کو کہیں پہنچانا ۔ یا اسے وسیلہ بنانا بھی معنی مراد لئے جاتے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ حاکموں کو اپنا طرفدار بنانے یا ان تک رسائی حاصل کرنے کے کا مال کو فدیہ نہ بناؤ ۔ اور رشوت یا مالی تحائف دے کر حاکموں پر اثر نہ ڈالو ۔
فَرِیْقاً

کوئی حصہ ۔
اس لفظ کے معنی کسی گروہ یا فریق بھی ہوتے ہیں ۔لیکن یہاں یہ حصہ یا جزو کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
بِالاِثْمِ

ناحق ۔
ہر قسم کی برائیاں اثم کے مفہوم میں شامل ہیں ۔
معاشرے میں عدل و انصاف اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر قرآن مجید نے یہاں دو باتوں پر زور دیا ھے ۔
ایک یہ کہ نذرانے ، ڈالیاں ، دعوتیں اور رشوت کے دوسرے تمام ایسے ذرائع جن سے حاکموں پر اثر ڈالنا اور ان سے رسوخ پیدا کرنا مقصود ہو ناجائز ہیں ۔ کیونکہ اس طرح حاکم جانب دار ہو سکتے ہیں ۔ انصاف کی ترازو ٹیڑھی ہو جاتی ھے۔ عدل اور حق پرستی کا وجود ختم ہو جاتا ھے ۔ ظلم اور حق تلفی عام ہو جاتی ھے ۔
جھوٹے دعوے ، جعلی کاغذات ، جھوٹی گواہیاں ، جھوٹے حلف نامے اور حق بات سے کترانا عام ہو جاتا ھے ۔ اس طرح بد عنوانیاں پھیلتی ہیں اور قتل و خون زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ ان سب سے بچنے کے لئے یہ قانون بنا دیا گیا ۔ کہ حاکموں کو غیر جانبدار ، عدل پرست اور حق کا طرفدار رکھنے کے لئے ضروری ھے کہ کوئی فرد اپنے مال سے حاکم کو ورغلانے کی کوشش نہ کرے۔
دوسری اہم بات جو اس سلسلے میں قرآن مجید نے بتائی ۔ وہ یہ کہ ہر معاملہ اور لین دین میں خود انسان کا ضمیر اسے نیکی کی طرف متوجہ کرتا ھے ۔ اور برائی پر ملامت کرتا ھے ۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر عدالت اور عادل سے عادل حاکم کے فیصلے بہرحال مقدمہ کی صورتحال اور گواہوں کی شھادت کے مطابق ہی ہوں گے ۔ اور ان میں غلطی اور لغزش ممکن ھے ۔
لہٰذا کسی حاکم اور قاضی کے فیصلے کے باوجود اصل مجرم ان کی نگاہ میں جرم سے اور گنہگار اپنے گناہ کی سزا سے بچ سکتا ھے ۔ لیکن انسان کا ضمیر اسے دھوکا نہیں دے سکتا ۔ بشرطیکہ اس نے ضمیر کی آواز کو دبا دبا کر مار ہی نہ دیا ہو ۔
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ھے کہ
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ۔ میرے پاس مقدمہ آتا ھے مدعی ثابت کر دیتا ھے حالانکہ حق دوسری جانب ھوتا ھے ۔ میں اس بیان کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہوں ۔ لیکن وہ سمجھ لے کہ ایک مسلمان کا مال ناجائز طریق سے لینا آگ کو لینا ھے ۔

ک
 
Top