• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ ۔آیةنمبر 263


خیرات ضائع نہ کرو

قَوْلٌ ۔۔ مَّعْرُوفٌ ۔۔ وَمَغْفِرَةٌ ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔ مِّن ۔۔ صَدَقَةٍ
بات ۔۔۔ نرم ۔۔ اور درگزر ۔۔ بہتر ۔۔ سے ۔۔ صدقہ
يَتْبَعُهَا ۔۔۔ أَذًى ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ غَنِيٌّ ۔۔۔ حَلِيمٌ 2️⃣6️⃣3️⃣
جس کے پیچھے ۔۔ تکلیف ۔۔ اور الله ۔۔ بے نیاز ۔۔ بردباد
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَا تُبْطِلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ صَدَقَاتِكُم
اے لوگو ۔۔ جو ایمان لائے ۔۔ نہ ضائع کرو ۔۔ اپنے صدقات کو
بِالْمَنِّ ۔۔۔۔۔۔۔ وَالْأَذَى
احسان جتا کر ۔۔ اور تکلیف
قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ. 2️⃣6️⃣3️⃣
نرم جواب دینا اور درگزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا ہو اور الله تعالی بے نیاز برد باد ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَى
اے ایمان والو! اپنی خیرات ضائع نہ کرو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر
قَوْلٌ مّعْرُوْفٌ ( نرم بات ) ۔ قول کے معنی ہیں ۔ گفتگو اور جواب ۔۔ اور " معروف " کے معنی ہیں دستور کے موافق ۔ مراد ہے نرم اور شیریں کلام
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو خیرات ، صدقات سے کچھ نہ دیا جا سکتا ہو تو اسے نرمی اور خوش کلامی سے جواب دے دینا بہتر ہے اس سے کہ اسے تکلیف پہنچائی جائے ۔
مَغْفِرَۃٌ ( درگزر کرنا ) ۔ مقصد یہ ہے کہ اگر ضرورت مند سوالی بار بار سوال کرے ۔ سختی یا بدتہذیبی سے مانگے اور اس کا سوال کرنا طبیعت پر گراں گزرے تو تکلیف پہنچانے سے بہتر ہے اس سے درکزر کیا جائے ۔
اَذٰی ( آزار) اس لفظ کے معنی میں ہر قسم کی ایذا رسانی اور تکلیف پہنچانا شامل ہے ۔
مَنَّ ( احسان ) ۔ نیکی کرکے اسے جتلانا اور احسان دھرنا مَنّ کہلاتا ہے
اسلام نے حسنِ سلوک اور صدقہ و خیرات کو بڑی نیکی قرار دیا ہے اور اس طرح ضرورتمندوں پر دولت خرچ کرنے کو " الله کی راہ " میں خرچ کرنا شمار کیا ہے ۔
اس سے پہلی آیت میں بیان ہوچکا ہے کہ الله کی راہ میں ایک پیسہ خرچ کرنے کا اجر و ثواب سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ یہاں اس مسئلہ کے ایک دوسرے پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے کہ اگر کسی ضرورتمند سوالی کو تم کچھ نہ دے سکو تو کم ازکم اس سے نرم گفتاری اور درگزر سے پیش آؤ ۔ جھڑکنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا ہرگز جائز نہیں ۔
دوسرے یہ کہ اگر الله کی راہ میں کچھ دے کر ضرورتمند پر احسان دھرتے ہو یا اسے تکلیف پہنچاتے ہو تو تمہارا دیا ہوا سب بے کار ہے ۔ اس کا تمہیں کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ
آیة ۔ 264

خیرات ضائع کرنے کی مثال

كَالَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔ يُنفِقُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مَالَهُ ۔۔۔ رِئَاءَ ۔۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔۔ وَلَا يُؤْمِنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِاللَّهِ
اس کی طرح ۔۔۔ وہ خرچ کرتا ہے ۔۔ اپنا مال ۔۔ دکھاوا ۔۔ لوگ ۔۔ اور نہیں ایمان لاتا ۔۔ الله پر
وَالْيَوْمِ۔۔۔ الْآخِرِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَمَثَلُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كَمَثَلِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صَفْوَانٍ ۔۔۔ عَلَيْهِ ۔۔۔ تُرَابٌ
اور دن ۔۔ آخرت ۔۔ پس اس کی مثال ۔۔ جیسی مثال ۔۔۔ صاف پتھر ۔۔ اس پر ۔۔ مٹی
فَأَصَابَهُ۔ ۔۔۔۔ وَابِلٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَتَرَكَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صَلْدًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَّا يَقْدِرُونَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔ شَيْءٍ
پس پہنچا اس کو ۔۔ زور دار بارش ۔۔ پس چھوڑ دیا اس نے اس کو ۔۔ صاف ۔۔ نہیں وہ قدرت رکھتے ۔۔ پر ۔۔ چیز
مِّمَّا ۔۔۔ كَسَبُوا۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ لَا يَهْدِي ۔۔۔ الْقَوْمَ ۔۔۔۔ الْكَافِرِينَ۔ 2️⃣6️⃣4️⃣
اس سے جو ۔۔ کمایا انہوں نے ۔۔ ۔ اور الله ۔۔۔ نہیں ھدایت دیتا ۔۔ قوم ۔۔ کافر
كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَّا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ. 2️⃣6️⃣4️⃣
اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور الله اور آخرت کے دن پر یقین نہیں رکھتا اس کی مثال ایسے ہے جیسے صاف پتھر اس پر کچھ مٹی پڑی ہے پھر اس پر زور کا مینہ برسا کہ اسے بالکل صاف کر چھوڑا ایسے لوگوں کو اس کا ( اجر ) جو انہوں نے کمایا کچھ ہاتھ نہیں لگتا اور الله کافروں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا ۔
اس آیت میں الله تعالی نے فرمایا کہ جو شخص ریا کاری کرتا ہے وہ الله تعالی اور قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا ۔
صدقہ صرف ریا سے باطل ہو جاتا ہے خواہ وہ مؤمن ہی کیوں نہ ہو ۔ ایمان کی قید کو اس لیے بڑھایا گیا کہ معلوم ہو جائے کہ ریاکاری مؤمن کی شان سے بعید ہے ۔ دکھاوا صرف منافقوں اور کافروں کے مناسبِ حال ہے ۔
گزشتہ آیات میں خیرات کی مثال ایسی بتائی گئی تھی جیسے ایک دانہ بویا اور اس سے سات سو دانے پیدا ہو گئے ۔ اب یہ فرمایا کہ کئی گنا اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے نیت کا نیک ہونا شرط ہے ۔ اگر کسی نے ریا اور دکھاوے کی نیت سے صدقہ کیا تو اس کی مثال اس دانے کی ہے جو ایک ایسے پتھر پر بویا گیا جس پر تھوڑی سی مٹی نظر آتی تھی لیکن جب بارش ہوئی تو پتھر بالکل صاف رہ گیا اور سات سو دانے پیدا ہونے کی بجائے وہاں سے کچھ بھی پیدا نہ ہوا بلکہ اصل بیج بھی بہہ گیا ۔
پتھر پر بیج بونے کی یہ مثال ریاکاروں کے حال کے بالکل مطابق ہے ۔ کیونکہ جس طرح ظاہری طور پر پتھر دھوکا دیتا ہے کہ شاید اس پر دانہ اُگ سکے ۔ اسی طرح ایک ریا کار بھی ظاہری طور پر دیکھنے والوں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ الله کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے لیکن اندرونی طور پر جس طرح پتھر سے دانہ نہیں اُگ سکتا ۔ اس طرح اس شخص کا دل ظاہری حالت سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ اور اس کے ہاتھوں کبھی کوئی نیک عمل نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ اس کا دل ایک چٹان کی طرح سخت اور بے رحم ہے ۔
ایسے گمراہ لوگوں کو جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ۔ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ الله تعالی سیدھی راہ نہیں دکھائے گا ۔ کیونکہ وہ اپنے برے ارادوں میں اس قدر پکے ہو چکے ہیں کہ نیک بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ
آیة ۔ 265


الله کی راہ میں خرچ کرنے کی ایک اور مثال
وَمَثَلُ ۔۔۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ يُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔۔ أَمْوَالَهُمُ ۔۔۔۔۔۔۔ ابْتِغَاءَ ۔۔۔۔۔۔ مَرْضَاتِ ۔۔۔ اللَّهِ
اور مثال ۔۔ وہ لوگ ۔۔ وہ خرچ کرتے ہیں ۔۔ اپنے مال ۔۔ تلاش کرنے کے لیے ۔۔ خوشی ۔۔ الله
وَتَثْبِيتًا ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔۔۔۔۔ أَنفُسِهِمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كَمَثَلِ ۔۔۔ جَنَّةٍ ۔۔۔ بِرَبْوَةٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَصَابَهَا
اور ثابت رکھنے کے لیے ۔۔۔ سے ۔۔ اپنی جانیں ۔۔ جیسی مثال ۔۔ باغ ۔۔ بلند زمین پر ۔۔ پہنچا اس کو
وَابِلٌ ۔۔ فَآتَتْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ أُكُلَهَا ۔۔۔ ضِعْفَيْنِ ۔۔۔ فَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَّمْ يُصِبْهَا
زور کی بارش ۔۔ وہ لائی ۔۔ پھل اپنا ۔۔ دوگنا ۔۔ پس اگر ۔۔ نہ پہنچا اس تک
وَابِلٌ ۔۔۔ فَطَلٌّ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔ تَعْمَلُونَ ۔۔۔۔ بَصِيرٌ 2️⃣6️⃣5️⃣
زور کی بارش ۔۔ تو پھوار ۔۔ اور الله ۔۔ اس کو جو ۔۔ تم کرتے ہو ۔۔ دیکھتا ہے
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ. 2️⃣6️⃣5️⃣
اور ان کی مثال جو اپنے مال خرچ کرتے ہیں الله تعالی کی خوشی حاصل کرنے کو اور اپنے دلوں کو ثابت کرکے ایسی ہے جیسے بلند زمین پر ایک باغ ہے ۔ اس پر زوردار بارش ہوئی تو وہ باغ اپنا پھل دوگنا لایا اور اگر اس پر مینہ نہ پڑتا تو پھوار ہی کافی ہے اور الله تعالی تمہارے کاموں کو خوب دیکھتا ہے ۔
اس آیت میں الله تعالی نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو الله تعالی کی راہ میں صرف اس لیے مال خرچ کرتے ہیں کہ الله تعالی ان سے خوش ہوجائے وہ اس کی رضامندی حاصل کرلیں اور اپنی اطاعت کا ثبوت دیں ۔
ان لوگوں کی مثال الله تعالی نے ایسے باغ سے دی ہے جو کسی اونچی جگہ پر واقع ہو ۔ جہاں کی ہوا قدرتی طور پر لطیف اور بارآور ہو ۔ اس باغ پر اگر زور کا مینہ برسے تو یہ باغ دگنا پھل لائے اور اگر زور کا مینہ نہ برسے اور تھوڑی سی پھوار پڑ جائے تو پھر بھی کچھ نہ کچھ پھل لائے ۔
یہاں بارش کی مثال مال خرچ کرنے سے دی گئی ہے اور باغ کے اونچی جگہ ہونے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اسکی نیت بالکل درست ہے ۔ وہ محض الله تعالی کی رضا کے لیے مال خرچ کرتا ہے اس لیے اگر وہ بہت زیادہ مال خرچ کرے تو اس کا نتیجہ ایسا ہی اچھا ہوگا جیسے باغ پر زور دار بارش برسے اور اچھا پھل لائے ۔ نیت کے صاف ہونے کی صورت میں اگر وہ تھوڑا ہی مال خرچ کرے تو بھی اسے اسکے برابر اجر ملے گا جیسا کہ پھوار پڑنے سے بھی باغ کچھ نہ کچھ پھل ضرور لاتا ہے ۔
یہاں ایک اور حقیقت بھی بیان کر دی گئی ہے کہ جس طرح انسان بدی سے برائی کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ اسی طرح نیکی سے اس کا رجحان نیکی کی طرف ہوجاتا ہے ۔ اور فطری طور پر وہ نیکی پر ثابت قدم ہوجاتا ہے ۔
مبارک ہیں وہ انسان جو نیکیوں کی طرف سبقت کریں اور برائیوں سے پرھیز کریں ۔
ہمیں یہ بات بھی ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بڑی سے بڑی مالی قربانی ریاکاری کے تصور سے ، احسان دھرنے اور تکلیف پہنچانے سے ضائع ہوجاتی ہے ۔
دوسری طرف چھوٹی سے چھوٹی خیرات بڑا پھل لاتی ہے ۔ بشرطیکہ اس سے مقصد محض فرض کی ادائیگی اور الله تبارک وتعالی کی خوشنودی مطلوب ہو ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ
آیة۔ 266

ریا کاری سے خرچ کرنے کی مثال

أَيَوَدُّ ۔۔۔ أَحَدُكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن تَكُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَهُ ۔۔۔ جَنَّةٌ ۔۔۔۔۔۔۔ مِّن ۔۔۔ نَّخِيلٍ
کیا چاہتا ہے ۔۔ تم میں سے کوئی ۔۔ یہ کہ ہو ۔۔ اس کے لیے ۔۔ ایک باغ ۔۔ سے ۔۔ کھجور
وَأَعْنَابٍ ۔۔۔ تَجْرِي ۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تَحْتِهَا ۔۔۔ الْأَنْهَارُ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فِيهَا
اور انگور ۔۔ جاری ہو ۔۔ سے ۔۔ اس کے نیچے ۔۔ نہریں ۔۔ اس کے لیے ۔۔ اس میں
مِن ۔۔۔ كُلِّ ۔۔۔ الثَّمَرَاتِ۔۔۔۔ وَأَصَابَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْكِبَرُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَهُ ۔۔۔ ذُرِّيَّةٌ
سے ۔۔ تمام ۔۔ پھل ۔۔ اور پہنچے اس کو ۔۔ بڑھاپا ۔۔ اور اس کے لیے ۔۔ أولاد
ضُعَفَاءُ ۔۔۔ فَأَصَابَهَا ۔۔۔ إِعْصَارٌ ۔۔۔۔۔۔۔ فِيهِ ۔۔۔ نَارٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَاحْتَرَقَتْ
کمزور ۔۔ پس پہنچے اس کو ۔۔ بگولا ۔۔ اس میں ۔۔ آگ ۔۔ پس وہ جل جائے
كَذَلِكَ ۔۔۔ يُبَيِّنُ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ لَكُمُ ۔۔۔ الْآيَاتِ ۔۔۔ لَعَلَّكُمْ ۔۔۔ تَتَفَكَّرُونَ۔ 2️⃣6️⃣6️⃣
اسی طرح ۔۔ بیان کرتا ہے ۔۔ الله ۔۔ تمہارے لیے ۔۔ آیات ۔۔ تاکہ تم ۔۔ غور کرو
أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ. 2️⃣6️⃣6️⃣
کیا تم میں سے کسی کو یہ پسند آتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجور اور انگور کا اس کے نیچے نہریں بہتی ہوںاسے اس باغ میں ہر طرح کے میوے حاصل ہوںاور اس پر بڑھاپا آگیا ہو اور اس کی اولاد کمزور ہو تب اس باغ پر ایک بگولا آپڑے جس میں آگ ہو جو باغ کو جلا ڈالے الله تعالی تم کو اسی طرح اپنی آیات سمجھاتا ہے تاکہ تم غور کرو ۔
اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہے جو محض لوگوں کو دکھانے کے لیے صدقہ اور خیرات دیتے ہیں یا خیرات کرکے لوگوں پر احسان جتاتے اور انہیں روحانی یا جسمانی تکلیف پہنچاتے ہیں ۔
اس طرح مال خرچ کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے اس کی عمر بھر کی کمائی ایک باغ ہے ۔ جو سرسبز اور خوب پھلا پھولا ہوا ہے ۔ ہر طرح کے میووں اور پھلوں سےلدا ہوا ہے ۔ باغ کا مالک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتا ہے ۔ خود کام نہیں کرسکتا اور اس کے بچے بھی ابھی چھوٹے چھوٹے ہیں ۔ جو اپنے باپ کا دکھ درد بانٹنے کی بجائے خود اس پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ عین اس شدید بڑھاپے اور بچوں کی حاجتمندی کے وقت یک بیک معلوم ہوتا ہے کہ باغ میں آگ لگی اور سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا ۔ اس وقت باغ کےمالک کے غم اور حسرت کا اندازہ کیا ہوگا ۔
اس سے کہیں بڑھ کر بُری حالت اس بدنصیب کی ہو گی جس کی آنکھیں زندگی بھر غفلت سے بند رہیںاور پہلی بار اس وقت کھلیں جب عمل کی مہلت بالکل ختم ہوگئی ۔ گویا ریاکاری سے نیکیوں کو ایسے ہی آگ لگتی ہے اور ان کا اجر یونہی برباد ہوجاتا ہے جیسے اس باغ کو آگ لگ گئی اور اس کا مالک تباہ ہو گیا ۔
الله تعالی یہ تمام مثالیں اس لیے بیان فرماتا ہے کہ ہم ان پر غور کریں۔ اور عبرت پکڑ کراپنا سارا کیا دھرا آخر میں ضائع نہ کر دیں ۔
درس قرآن مرتبہ ۔۔۔ درس قرآن بورڈ

الله کریم ہمیں خلوص نیت عطا فرمائے اور ہر قسم کی ریا کاری سے محفوظ رکھے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ
آیة۔ 267

الله کی راہ میں اچھی چیز دو

يَا أَيُّهَا ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ أَنفِقُوا ۔۔۔ مِن ۔۔ طَيِّبَاتِ
اے ۔۔ وہ لوگ ۔۔ جو ایمان لائے ۔۔ خرچ کرو ۔۔۔ سے ۔۔ پاکیزہ
مَا كَسَبْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمِمَّا ۔۔۔ أَخْرَجْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَكُم ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ الْأَرْضِ
جو تم کماؤ ۔۔ اور اس سے جو ۔۔ ہم نے نکالا ۔۔ تمہارے لیے ۔۔ سے ۔۔ زمین
وَلَا تَيَمَّمُوا ۔۔۔ الْخَبِيثَ ۔۔۔۔۔۔ مِنْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَسْتُم
اور نہ ارادہ کرو ۔۔ گندی چیز ۔۔ اس سے ۔۔ تم خرچ کرتے ہو ۔۔ اور نہیں تم
بِآخِذِيهِ ۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔ أَن تُغْمِضُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فِيهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا
لینے والے اس کو ۔۔۔ مگر ۔۔ یہ کہ تم اعراض کرو ۔۔ اس میں ۔۔ اور جان رکھو
أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ غَنِيٌّ ۔۔۔ حَمِيدٌ۔ 2️⃣6️⃣7️⃣
بے شک ۔۔ الله ۔۔۔ بے نیاز ۔۔ خوبیوں والا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ. 2️⃣6️⃣7️⃣
اے ایمان والو خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا اور اس میں سے گندی چیز کا قصد نہ کرو کہ اسے خرچ کرو حالانکہ تم اسے کبھی نہ لو گے مگر یہ کہ تم چشم پوشی کر جاؤ اور جان رکھو کہ الله بے پرواہ خوبیوں والا ہے ۔
اَلْخَبِیْثُ ( گندی چیز ) ۔ مراد ہے ردی اور ناکارہ چیز
الله کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں مختلف احکام دئیے جا چکے ہیں ۔ گذشتہ آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ الله کی راہ میں مال خرچ کرتے وقت ریا کاری اور نمائش سے ہرگز کام نہ لیا جائے ۔ نیز لوگوں کو ستانا اور بڑائی جتانا بھی مقصود نہ ہونا چاہیے ۔ جن کو مال دیا جائے ان پر احسان نہ رکھا جائے انہیں ایذا نہ پہنچائی جائے ۔ اور انہیں حقیر نہ سمجھا جائے بلکہ نیک ارادے اور خلوصِ دل سے صرف الله تعالی کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کیا جائے ۔ الله تعالی کی رضا کے سوا کوئی اور مقصد نہ ہو ۔
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ الله تعالی کی راہ میں اپنی جائز اور پاک کمائی میں سے اچھی اور اعلی چیزیں دی جائیں ۔ یعنی یہ نہ ہو کہ بچا کھچا ، باسی ، بدبودار اور گلا سڑا مال غریبوں مسکینوں اور محتاجوں کو دے دیا جائے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کبھی ایسا ہی گندہ مال تمہیں دیا جائے تو کبھی نہ لو ۔ ناک منہ چڑھانے لگو ۔ نفرت کا اظہار کرو ۔ سوائے اس کے کہ تم کسی خاص وجہ سے خاموش رہو اور چشم پوشی کر جاؤ تو دوسری بات ہے ۔ لہذا الله تعالی کے نام پر خراب مال ہرگز نہ دینا چاہیے ۔
لازم ہے کہ اچھے سے اچھا مال اور اچھی سے اچھی شے جو سب سے زیادہ محبوب ہو وہ شوق سے الله تعالی کی راہ میں خرچ کرو ۔ زیادہ ثواب ملے گا ۔ الله سبحانہ وتعالی تو ہمارے صدقہ و خیرات سے کلی طور پر بے نیاز ہے ۔ اسے قطعی طور پر ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں بلکہ جتنی خوشی کے ساتھ ہم اس کی راہ میں خرچ کریں ۔ اتنا زیادہ وہ اور دے گا ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ
آیة۔ 268-269

الله کے وعدے اور انعام

الشَّيْطَانُ ۔۔۔ يَعِدُكُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْفَقْرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَيَأْمُرُكُم ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ بِالْفَحْشَاءِ
شیطان ۔۔۔ وعدہ کرتا ہے تم سے ۔۔۔ تنگدستی ۔۔۔ اور وہ حکم دیتا ہے تم کو ۔۔۔ بے حیائی کا
وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَعِدُكُم ۔۔۔۔ مَّغْفِرَةً ۔۔۔۔ مِّنْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَفَضْلًا
اور الله ۔۔۔ وعدہ کرتا ہے تم سے ۔۔۔ بخشش ۔۔۔ اس سے ۔۔۔ اور فضل
وَاللَّهُ ۔۔۔ وَاسِعٌ ۔۔۔۔ عَلِيمٌ .2️⃣6️⃣8️⃣
اور الله ۔۔۔ وسعت والا ۔۔۔ جاننے والا
يُؤْتِي ۔۔۔ الْحِكْمَةَ ۔۔۔ مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَشَاءُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَن ۔۔۔ يُؤْتَ ۔۔۔ الْحِكْمَةَ
وہ دیتا ہے ۔۔۔ سمجھ ۔۔ جس کو ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔۔ اور جو ۔۔ دیا گیا ۔۔ سمجھ
فَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔ أُوتِيَ ۔۔۔ خَيْرًا ۔۔۔ كَثِيرًا
پس تحقیق ۔۔ وہ دیا گیا ۔۔۔ خیر ۔۔۔ زیادہ
وَمَا ۔۔۔ يَذَّكَّرُ ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔۔ أُولُو الْأَلْبَابِ 2️⃣6️⃣9️⃣
اور نہیں ۔۔۔ نصیحت لیتے ۔۔۔ مگر ۔۔۔ عقل والے
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ 2️⃣6️⃣8️⃣
شیطان تمہیں تنگدستی کا وعدہ دیتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم کرتا ہے اور الله تعالی تمہیں اپنی طرف سے بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے اور الله تعالی بہت کشائش والا سب کچھ جانتا ہے ۔
يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ 2️⃣6️⃣9️⃣
جسے چاہے سمجھ عطا کرتا ہے اور جسے سمجھ ملی اسے بڑی خوبی ملی اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔
اَلْحِکْمَه ( سمجھ ) ۔ دانائی اور سمجھ بوجھ کو حکمت کہتے ہیں ۔ انہیں معنٰی کی مناسبت سے فلسفہ کو حکمت اور فلسفی کو حکیم کہا جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی جگہ آیا ہے ۔
خَیْرٌ کَثِیْرٌ ( بہت بھلائی ) ۔ اس آیت میں دولت کے کمانے اور خرچ کرنے کی صحیح تدبیر اور اس سلسلہ میں دانشمندی پانے کو بہت بڑی بھلائی کہا گیا ہے ۔
اس آیت میں ایک شیطانی وسوسے سے آگاہ کیا گیا ہے جو انسان کو انفاق فی سبیل الله سے روکنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ ساتھ ہی اس کا توڑ اور علاج بتایا گیا ہے ۔
مال و دولت سے محبت ، اس کے جمع کرنے کی طرف رغبت ، اسے بچا بچا کر رکھنے کی طرف رجحان انسان کی کمزوری ہے ۔ اس لیے انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ الله تعالی کی راہ میں مال خرچ کرنے سے سارے کا سارا ختم ہوجائے گا ۔ میرے پاس کچھ نہ بچے گا ۔ اورمیں نادار اور مفلس بن کر رہ جاؤں گا ۔ الله تعالی نے ان خیالات اور وسوسوں کو ختم کرنے کے لیے بتایا کہ یہ تعلیم شیطان کی ہے ۔ اسے دل میں جگہ نہ دو ۔
الله تعالی بے نیاز ہے اور رحمت و فضل والا ہے ۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ بھی اسی نے دے رکھا ہے اور آئندہ بھی وہی دے گا ۔ اس لیے اس کی راہ میں خرچ کرنے سے مفلسی کا خوف ہرگز نہیں ہونا چاہیے ۔ وہ خوش ہو کر اور زیادہ دے گا ۔
ایسی باتوں کی سمجھ اور باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی قوت الله تعالی جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جسے سمجھ عطا ہو وہ بڑا خوش نصیب ہے ۔ کیونکہ یہ بڑی نعمت اور بہت بڑی دولت ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ
آیة۔ 270-271

خیرات کیسے کی جائے:

وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَنفَقْتُم ۔۔۔ مِّن ۔۔۔ نَّفَقَةٍ ۔۔۔ أَوْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نَذَرْتُم
اور جو ۔۔۔ تم خرچ کرو گے ۔۔۔ سے ۔۔ خرچ ۔۔ یا ۔۔ منت دو تم
مِّن ۔۔۔۔۔۔ نَّذْرٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَإِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَعْلَمُهُ
سے ۔۔ کوئی منت ۔۔۔ پس بے شک ۔۔ اللہ تعالی ۔۔۔ جانتا ہے اس کو
وَمَا ۔۔۔ لِلظَّالِمِينَ ۔۔۔ مِنْ ۔۔۔ أَنصَارٍ 2️⃣7️⃣0️⃣
اور نہیں ۔۔ ظالموں کے لیے ۔۔۔ سے ۔۔۔ مددگار
إِن ۔۔۔ تُبْدُوا ۔۔۔ الصَّدَقَاتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَنِعِمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔ هِيَ
اگر ۔۔۔ تم ظاہر کرو ۔۔۔ صدقات ۔۔۔ پس اچھی بات ہے ۔۔۔ یہ
وَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔ تُخْفُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَتُؤْتُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْفُقَرَاءَ
اور اگر ۔۔۔ تم چھپاؤ ان کو ۔۔۔ اور تم دے دو ان کو ۔۔۔ فقراء
فَهُوَ ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَيُكَفِّرُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَنكُم ۔۔۔ مِّن
پس وہ ۔۔۔ بہتر ۔۔۔ تمہارے لیے ۔۔۔ اور وہ دور کردے گا ۔۔۔ تم سے ۔۔۔ سے
سَيِّئَاتِكُمْ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔ تَعْمَلُونَ ۔۔۔۔ خَبِيرٌ 2️⃣7️⃣1️⃣
برائیاں تمہاری ۔۔۔ اور الله ۔۔۔ اس سے جو ۔۔ تم کرتے ہو ۔۔۔ خبردار ہے
وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ 2️⃣7️⃣0️⃣
اور تم جو خیرات تقسیم کرو گے یا کوئی منت قبول کرو گے تو بے شک الله تعالی کو سب معلوم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔
إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ 2️⃣7️⃣1️⃣
اگر خیرات ظاہر کرکے دو تو کیا ہی اچھی بات ہے اور اگر اسے چھپاؤ اور دو فقیروں کو تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور وہ تمہارے گناہ دور کردے گا اور الله تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے ۔
نَذْرٍ ( منت ) ۔ فقہ میں اس کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ کسی مراد کے پورے ہونے پر اپنے اوپر کوئی چیز لازم کر لینا جو واجب نہ ہو ۔ ایک مرتبہ نذر مان لینے کے بعد اس کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہوجاتا ہے ۔
اَلْفُقَرَآءُ ( فقیروں ، حاجتمندوں ) ۔ اس کی واحد فقیر ہے ۔ جس کے معنی ضرورتمند اور حاجتمند ہوتے ہیں ۔ اردو میں عام طور پر الله والے درویش کو اور گداگر ( مانگنے والے ) دونوں کو فقیر کہا جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایسے محتاج کو لفظ فقیر سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے اسباب معیشت بند ہو گئے ہوں ۔ یعنی اس پر غربت چھا گئی ہو ۔
اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم جو کچھ بھی الله سبحانہ وتعالی کی راہ میں خرچ کریں ۔ یا نذر مانیں وہ سب کچھ الله تعالی کی نگاہ میں ہے ۔ ناجائز کام کی نیت رکھنا ، ناجائز جگہ نذر ماننا یا ناجائز موقع پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھنا اپنے اوپر ظلم کرنا ہے ۔ اور ایسے شخص کا کوئی حامی اور مددگار نہ ہوگا ۔ اور نہ اس کا کام الله تعالی کے ہاں مقبول ہوگا ۔
اس سبق کی دوسری آیت میں الله تعالی نے فرمایا ہے کہ تم صدقات و خیرات خواہ چھپا کر دو یا ظاہر کرو ۔ الله تعالی پوری طرح سے اس سے آگاہ ہے ۔ اگر یہ خوف ہوکہ لوگ ریاکاری اور دکھلاوا سمجھیں گے تو نیکی چھپا کر کیا کرو ۔ اور اگر یہ خیال ہو کہ لوگوں کو بھی ترغیب دی جائے تو سب کے سامنے دو ۔ بہر حال نیکی کا قبول ہونا نیت پر موقوف ہے ۔ چھپا کر اس لیے خرچ کرنا کہ لینے والے کو شرم محسوس نہ ہو ۔ یا ظاہر طور پر اس لیے خرچ کرنا کہ اوروں کو بھی شوق ہو ۔ دونوں بہتر ہیں ۔ لیکن ہر لحاظ سے موقع اور
مصلحت کا لحاظ اور نیت کی درستی ضروری ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ
آیة -272

خیرات کا پورا پورا اجر

لَّيْسَ ۔۔۔ عَلَيْكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ هُدَاهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ وَلَكِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهَ
نہیں ۔۔۔ آپ ﷺ پر ۔۔ ان کی ھدایت ۔۔۔ اور لیکن ۔۔۔ الله تعالی
يَهْدِي ۔۔۔۔۔۔۔ مَن ۔۔۔۔۔۔۔ يَشَاءُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا تُنفِقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْ ۔۔۔ خَيْرٍ
وہ ھدایت دیتا ہے ۔۔۔ جس کو ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔ اور جو کچھ تم خرچ کرو گے ۔۔۔ سے ۔۔ مال
فَلِأَنفُسِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا تُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔ ابْتِغَاءَ ۔۔۔ وَجْهِ
پس تمہاری جانوں کے لیے ۔۔۔ اور جو خرچ کرتے ہو ۔۔۔ مگر ۔۔ تلاش ۔۔ رضا
اللَّهِ ۔۔۔ وَمَا تُنفِقُوا ۔۔۔ مِنْ ۔۔۔ خَيْرٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُوَفَّ
الله ۔۔ اور جوکچھ تم خرچ کرتے ہو ۔۔ سے ۔ مال ۔۔ پورا لوٹایا جائے گا
إِلَيْكُمْ ۔۔۔ وَأَنتُمْ ۔۔۔ لَا تُظْلَمُونَ 2️⃣7️⃣2️⃣
تمہاری طرف ۔۔ اور تم ۔۔۔ نہیں ظلم کیے جاؤ گے
لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنفُسِكُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ. 2️⃣7️⃣2️⃣
اے نبی ﷺ انہیں راہ پر لانا آپ کے ذمہ نہیں لیکن الله جسے چاہے راہ پر لے آئے اور تم جو کچھ مال خرچ کرو گے سو اپنے ہی لیے ہے جب تک کہ خرچ کرو گے صرف الله کی رضاجوئی کے لیے اور جوکچھ مال خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا ملے گا اور تمہارا حق نہ رہے گا ۔
خَیْرٌ ( مال) یہ لفظ شر کے مقابل ہے اور اس کے مفہوم میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کو انسان اچھا سمجھتا ہے ۔ مثلا عقل ، اخلاق ، تعلیم ، مال وغیرہ ۔
قرآن مجید میں مال کا لفظ کئی مقامات پر آیا ہے ۔ گویا اسلام مال و دولت کو بری چیز نہیں سمجھتا بلکہ اچھی اور خوب چیز بتاتا ہے ۔ اس لیے اسےلفظ خیر کے نام سے یاد کیا ہے ۔ برائی دولت میں نہیںبلکہ ناجائز طریق پر جمع کرنے ، جمع رکھنے اور ناجائز کاموں میں خرچ کرنے میں ہے ۔
ھُداھُم ( انہیں راہ پر لانا ) ۔ ھدایت ، ھادی ، مھتدی ایک ہی مادہ سے ہیں ۔ قرآن مجید کا یہ لفظ ایک جامع لفظ ہے ۔ جس کے معنی ہیں صحیح راہ پا لینا ، اس پر چلنا اور قائم رہنا ۔ تینوں أمور اس میں شامل ہیں ۔
یُوَفَّ ( پورا پورا دیا جائے گا ) لفظ وفا اس کا مادہ ہے ۔ جس کے معنی پورا کرنا ہیں ۔
ان آیات میں الله تعالی نے پھر اس بات کا اعلان فرمایا ہے کہ نبی اور نبی کے ماننے والوں کا فرض تبلیغ کرنا ہے ۔ ھدایت دینا اور مسلمان بنانا ان کا ذمہ نہیں۔ لہٰذا تبلیغ کا نتیجہ نکلے یا نہ نکلے اس کا خیال کیے بغیر اپنا کام جاری رکھنا چاہیے ۔
اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ ضروری نہیں ہم دولت صرف ایسے لوگوں پر خرچ کریں جو ہمارے پیسے کی وجہ سے دین قبول کرلیں بلکہ صدقہ و خیرات سے ہمارا مقصد صرف الله تعالی کی رضا اور خوشی ہونی چاہیے ۔ اور جوبھی ضرورتمند ہو اس کی ضرورت پوری کرنی چاہیے مشرک و کافر ، مؤمن و منافق میں تمیز نہ کی جائے ۔ ثواب اس لیے مل کر ہی رہے گا کہ تم محض الله تعالی کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے مال خرچ کرتے ہو ۔ الله تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ اجر پورا پورا ملے گا ۔
ہمیں اس چیز کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے کہ جو مال بھی خرچ کریں اور کسی کو دیں اس سے مقصود الله کی خوشنودی ہو۔ اس سے ہٹ کر کسی اور کے نام سے منسوب کرنا
بالکل ناجائز ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ
آیة ۔ 273

خیرات کے مستحق

لِلْفُقَرَاءِ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ أُحْصِرُوا ۔۔۔۔۔۔ فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ
فقیروں کے لیے ۔۔۔ وہ ۔۔ گھیر لیے جائیں ۔۔ میں ۔۔ راستہ ۔۔ اللہ
لَا يَسْتَطِيعُونَ ۔۔۔۔۔۔۔ ضَرْبًا ۔۔۔ فِي ۔۔۔ الْأَرْضِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَحْسَبُهُمُ
نہیں وہ طاقت رکھتے ۔۔۔ چلنا پھرنا ۔۔ میں ۔۔ زمین ۔۔ خیال کرتے ہیں ان کو
الْجَاهِلُ ۔۔۔ أَغْنِيَاءَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ التَّعَفُّفِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تَعْرِفُهُم
جاہل ۔۔۔ دولتمند ۔۔ سے ۔۔۔ سوال نہ کرنا ۔۔ تو انہیں پہچانتا ہے
بِسِيمَاهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَا يَسْأَلُونَ ۔۔۔ النَّاسَ ۔۔۔ إِلْحَافًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا تُنفِقُوا
ان کے چہروں سے ۔۔ نہیں وہ سوال کرتے ۔۔۔ لوگ ۔۔ لپٹ کر ۔۔ اور جو تم خرچ کرو گے
مِنْ ۔۔۔ خَيْرٍ ۔۔۔ فَإِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ بِهِ ۔۔۔ عَلِيمٌ 2️⃣7️⃣3️⃣
سے ۔۔ خیر ۔۔ پس بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ اس کو ۔۔ جانتا ہے
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ
فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ 2️⃣7️⃣3️⃣
(خیرات ) ان فقیروں کے لیے ہے جو الله کی راہ میں رُکے ہوئے ہیں جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے ناواقف ان کے سوال نہ کرنے سے مالدار سمجھتا ہے تو انہیں ان کے چہروں سے پہچانتا ہے وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو کام کی چیز الله کی راہ میں خرچ کرو گے بے شک الله اسے جانتا ہے ۔
اُحْصِرُوا ( رُکے ہوئے ) ۔ اس لفظ میں بہت گنجائش ہے یعنی گِھر جانا ، خواہ وقت کے لحاظ سےہو یا جسم کے لحاظ سے ۔
مراد وہ لوگ جو دین کے کسی کام میں گِھر گئے ہیں اور اب آزادی سے روزی نہیں کما سکتے مثلا الله کی راہ میں جہاد کرنے والے ۔
بعض مفسرین نے وہ لوگ بھی مراد لیے ہیں جو علومِ دین میں مشغول ہیں ۔ اور علم حاصل کرنے میں اس طرح لگے ہوتے ہیں کہ روزی کا سامان نہیں کرسکتے ۔
اَغْنِیَآء ( مالدار ) ۔ یہ لفظ غنٰی سے بنا ہے ۔ اور اس کا واحد غنی ہے ۔ یعنی وہ جس کے پاس حاجت سے زیادہ مال موجود ہو ۔
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ صدقہ و خیرات کے اصل مستحق وہ لوگ ہیں جو الله کی راہ میں بند ہو کر چلنے پھرنے کھانے کمانے سے رُکے ہوئے ہیں اور کسی پر اپنی حاجت ظاہر نہیں کرتے ۔ جیسے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے دوست مثلا اصحابِ صفّہ نے گھر بار چھوڑ کر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صحبت اختیار کر لی تھی ۔ وہ علمِ دین سیکھنے لگ گئے ۔ اس طرح کچھ اصحاب مفسدوں اور فتنہ پردازوں کے خلاف جہاد کرنے میں مشغول تھے ۔ یہ نیک بندے کسی سے سوال نہ کرتے تھے البتہ ان کی ضرورتمندی ان کے چہرے مہرے اور رنگ و روپ سےمعلوم کی جا سکتی تھی ۔
ہمیں چاہیے کہ آج بھی جو الله کی راہ میں جہاد کرنے اورعلمِ دین سیکھنے میں مشغول ہوں ان کی مدد کریں ان کی حاجتیں پوری کریں۔
الله تعالی کا وعدہ ہے کہ تم جو مال و دولت میری راہ میں خرچ کرو گے اس کا اجر تمہیں پورا پورا مل جائے گا ۔ تمہاری کوئی قربانی میری نظروں سے پوشیدہ نہیں۔
یہاں بھی الله تعالی نےدولت کو لفظ " خیر " سے تعبیر کیا ہے ۔ اوران لوگوں کو نظرِ کرم کا خاص طور پر مستحق قرار دیا ہے جو لپٹ لپٹ کر پیچھے نہیں پڑتے ۔ بلکہ خود داری سے کام لیتے ہیں ۔ اور اپنی غُربت ظاہر نہیں ہونے دیتے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ
آیة۔274

خیرات کا اجر

الَّذِينَ ۔۔۔ يُنفِقُونَ ۔۔۔۔۔۔ أَمْوَالَهُم ۔۔۔ بِاللَّيْلِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَالنَّهَارِ
جو لوگ ۔۔ وہ خرچ کرتے ہیں ۔۔ اپنے مال ۔۔ رات کو ۔۔ اور دن کو
سِرًّا ۔۔۔ وَعَلَانِيَةً ۔۔۔۔۔۔۔ فَلَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ أَجْرُهُمْ ۔۔۔ عِندَ ۔۔۔۔۔۔۔ رَبِّهِمْ
پوشیدہ ۔۔۔ اور ظاہر ۔۔ پس ان کے لیے ۔۔۔ ان کا اجر ۔۔ پاس ۔۔ ان کا رب
وَلَا خَوْفٌ ۔۔۔ عَلَيْهِمْ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔ هُمْ ۔۔۔۔ يَحْزَنُونَ 2️⃣7️⃣4️⃣
اور نہیں خوف ۔۔۔ ان پر ۔۔ اور نہیں ۔۔ وہ ۔۔ غمگین ہوں گے ۔
الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ 2️⃣7️⃣4️⃣
جو لوگ اپنے مال دن رات خرچ کرتے ہیں ظاہر اور پوشیدہ تو ان کے لیے ثواب ہے ان کے رب کے ہاں اور نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے
خَوْفٌ ( ڈر) ۔ یہ لفظ عام طور پر انہیں عربی معنٰی میں اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خوف مستقبل کے سلسلہ میں ہوتا ہے ۔
یَحْزَنُوْنَ ( وہ غمگین ہوں گے ) ۔ حزن اس کا مادہ ہے ۔ جس کے معنی غم اور الم ہیں ۔ حُزن ہمیشہ ماضی کے سلسلے میں ہوتا ہے ۔ مثلا انسان پر کوئی تکلیف دہ حادثہ ہو گزرا ہے ۔ وہ ماضی میں کسی غلطی اور خطا کا مرتکب ہوا ہے ۔ تو اسے ایک قسم کا رنج و ملال ہوگا ۔
اس آیت میں الله تعالی نے فرمایا ہے کہ جو لوگ الله کی راہ میں مال و دولت خرچ کرتے ہیں ۔ دن رات ضرورتمندوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔ صبح و شام صدقات و خیرات سے غربا پروری کرتے ہیں اور ظاہر اور پوشیدہ اس نیکی میں لگے رہتے ہیں ۔ انہیں الله تعالی اجر وثواب سےمالامال فرمائے گا ۔ اور اپنے انعام و اکرام سے خوش کر دے گا ۔
یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ نیکی کا بدلہ اس دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی ۔ بزرگوں نے غالبا اس مفہوم کو ظاہر کرنے کے لیے " دہ در دنیا ستّر در آخرت " کا ملا جلا اردو فارسی محاورہ بنایا ۔ الله تعالی نے اپنے کلامِ پاک میں وعدہ فرمایا ہے کہ تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے گا اور تم پر ہرگز کم نہ کیا جائے گا ۔
الله تعالی نے اس انعام کے علاوہ دو باتیں اور بھی فرمائی ہیں ۔ کہ ایسی نیکی رساں بندوں کو نہ ماضی کا غم ہوگا ۔ اور نہ مستقبل کا خوف ۔ یعنی انہیں اپنے ماضی کے اعمال و افعال پر کوئی افسوس نہ ہوگا ۔ اور اسی طرح وہ مستقبل کے بارے میں قطعی طور پر مایوس اور نا امید نہ ہوں گے ۔
 
Top