ام اویس
رکن
- شمولیت
- جون 29، 2016
- پیغامات
- 171
- ری ایکشن اسکور
- 8
- پوائنٹ
- 64
آیہ۔ ۱۸۹
يَسْئَلُونَکَ ۔۔۔ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۔۔۔قُلْ هِيَ ۔۔۔مَواقيتُ ۔۔۔لِلنَّاسِ ۔۔۔وَ الْحَجِّ
وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ نئے چاند کے بارے میں ۔۔ آپ فرما دیجئے یہ ۔۔ اوقات ۔۔۔ لوگوں کے لئے اور حج
يَسْئَلُونَکَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَواقيتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ
وہ آپ سے نئے چاند کا حال پوچھتے ہیں ۔ آپ فرما دیجئے کہ یہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے مقرر اوقات ہیں ۔
اَھِلّہ
نیا چاند ۔ ھلال کی جمع ھے ۔
چاند کے متعلق لوگوں کے سوال کچھ اس قسم کے تھے ۔ پہلے چاند کا طلوع ہونا ۔ پھر تاریخ وار اس کا بڑھنا ۔ یہاں تک کہ اس کا غائب ہو جانا کیوں ھے ؟ اور ان تبدیلیوں کی وجہ کیا ھے ؟
مَواقِیْتُ
اوقات ۔۔۔ میقات کی جمع ھے۔
جس کا مطلب ھے مقررہ وقت ۔ یا وقت معلوم کرنے کا پیمانہ اور آلہ
چاند میں جو تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ عام دیکھنے اور محسوس کرنے کی بات ھے ۔
انسان کا ایسے امور کے بارے میں سوال کرنا ایک فطری بات ھے ۔ کیونکہ وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے بے قرار رہتا ھے ۔
کچھ لوگوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا ۔۔۔
چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کی وجوھات کیا ہیں ؟ اس کے طلوع ہونے اور غائب ہونے کے اسباب کیا ہیں ؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے اللّٰه تعالی کی وحی سے ان سوالوں کےجواب میں فرمایا ۔۔۔
کہ چاند کے گھٹتے بڑھتے رہنے میں یہ فائدہ ھے کہ اس سے لوگوں کے دنیاوی معاملات اور شرعی حسابات میں دنوں ، تاریخوں مہینوں اور سالوں کا تعین آسانی سے ہو جاتا ھے۔
قرآن مجید کے اس صاف بیان سے اوہام پرستی اور شرک کی جڑکٹ جاتی ھے ۔ دنیا کی بہت سی قومیں چاند کی پوجا کرتی تھیں ۔ ایسی قوموں نے نئے چاند کو دیوتا مان کر اس کی پرستش کی ۔ اور بڑھتے ہوئے چاند کو مبارک اور گھٹتے ہوئے کو منحوس سمجھا ۔ چنانچہ یہ لوگ چاند کی آخری تاریخوں میں بیاہ شادی تک نہیں کرتے تھے ۔
قرآن مجید نے چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کا مقصد واضح کر دیا ۔ کہ اس سے انسان کے کام کے اوقات بہ سہولت مقرر کئے جاسکتے ہیں ۔ دوسرے دنیوی معاملات کے علاوہ عبادات اور شرعی حسابات میں بھی بڑی مدد ملتی ھے ۔ یہاں حج کا دکر خاص طور ہر اس لئے کیاگیا ۔ کہ یہ عرب لوگوں کی زندگے کا بہت اہم شعبہ تھا ۔
قرآن مجید نےشمسی حساب پر قمری حساب کو اس لئے ترجیح دی ھے کہ اس میں چند فوائد ہیں ۔
پہلا یہ کہ شمسی حساب میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں ۔ چونکہ وہ ایک ہی حالت میں رہتا ھے ۔ طلوع وغروب کے لحاظ سے اس میں جو معمولی سا تغیر ہوتا ھے عوام اس کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔
دوسرے یہ کہ پسماندہ علاقوں میں ٹھیک ٹھیک حساب رکھنے والا ماہر ملنا بہت مشکل ھے ۔
تیسرے یہ کہ چاند کی حالتوں میں باقاعدہ تغیر واقع ہونے کی وجہ سے ہر تعلیم یافتہ اور جاھل وقت اور تاریخ کا اندازہ کر سکتا ھے ۔
چوتھے یہ کہ چاند کے طلوع وغروب کا موسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اس لئے تمام روئے زمین پر مختلف مہینے تمام موسموں میں آتے رہتے ہیں ۔ اور ہر علاقے کے مسلمان اپنی عبادات باری باری مختلف موسموں میں ادا کر سکتے ہیں ۔
چاند کا حساب
يَسْئَلُونَکَ ۔۔۔ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۔۔۔قُلْ هِيَ ۔۔۔مَواقيتُ ۔۔۔لِلنَّاسِ ۔۔۔وَ الْحَجِّ
وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ نئے چاند کے بارے میں ۔۔ آپ فرما دیجئے یہ ۔۔ اوقات ۔۔۔ لوگوں کے لئے اور حج
يَسْئَلُونَکَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَواقيتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ
وہ آپ سے نئے چاند کا حال پوچھتے ہیں ۔ آپ فرما دیجئے کہ یہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے مقرر اوقات ہیں ۔
اَھِلّہ
نیا چاند ۔ ھلال کی جمع ھے ۔
چاند کے متعلق لوگوں کے سوال کچھ اس قسم کے تھے ۔ پہلے چاند کا طلوع ہونا ۔ پھر تاریخ وار اس کا بڑھنا ۔ یہاں تک کہ اس کا غائب ہو جانا کیوں ھے ؟ اور ان تبدیلیوں کی وجہ کیا ھے ؟
مَواقِیْتُ
اوقات ۔۔۔ میقات کی جمع ھے۔
جس کا مطلب ھے مقررہ وقت ۔ یا وقت معلوم کرنے کا پیمانہ اور آلہ
چاند میں جو تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ عام دیکھنے اور محسوس کرنے کی بات ھے ۔
انسان کا ایسے امور کے بارے میں سوال کرنا ایک فطری بات ھے ۔ کیونکہ وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے بے قرار رہتا ھے ۔
کچھ لوگوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا ۔۔۔
چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کی وجوھات کیا ہیں ؟ اس کے طلوع ہونے اور غائب ہونے کے اسباب کیا ہیں ؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے اللّٰه تعالی کی وحی سے ان سوالوں کےجواب میں فرمایا ۔۔۔
کہ چاند کے گھٹتے بڑھتے رہنے میں یہ فائدہ ھے کہ اس سے لوگوں کے دنیاوی معاملات اور شرعی حسابات میں دنوں ، تاریخوں مہینوں اور سالوں کا تعین آسانی سے ہو جاتا ھے۔
قرآن مجید کے اس صاف بیان سے اوہام پرستی اور شرک کی جڑکٹ جاتی ھے ۔ دنیا کی بہت سی قومیں چاند کی پوجا کرتی تھیں ۔ ایسی قوموں نے نئے چاند کو دیوتا مان کر اس کی پرستش کی ۔ اور بڑھتے ہوئے چاند کو مبارک اور گھٹتے ہوئے کو منحوس سمجھا ۔ چنانچہ یہ لوگ چاند کی آخری تاریخوں میں بیاہ شادی تک نہیں کرتے تھے ۔
قرآن مجید نے چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کا مقصد واضح کر دیا ۔ کہ اس سے انسان کے کام کے اوقات بہ سہولت مقرر کئے جاسکتے ہیں ۔ دوسرے دنیوی معاملات کے علاوہ عبادات اور شرعی حسابات میں بھی بڑی مدد ملتی ھے ۔ یہاں حج کا دکر خاص طور ہر اس لئے کیاگیا ۔ کہ یہ عرب لوگوں کی زندگے کا بہت اہم شعبہ تھا ۔
قرآن مجید نےشمسی حساب پر قمری حساب کو اس لئے ترجیح دی ھے کہ اس میں چند فوائد ہیں ۔
پہلا یہ کہ شمسی حساب میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں ۔ چونکہ وہ ایک ہی حالت میں رہتا ھے ۔ طلوع وغروب کے لحاظ سے اس میں جو معمولی سا تغیر ہوتا ھے عوام اس کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔
دوسرے یہ کہ پسماندہ علاقوں میں ٹھیک ٹھیک حساب رکھنے والا ماہر ملنا بہت مشکل ھے ۔
تیسرے یہ کہ چاند کی حالتوں میں باقاعدہ تغیر واقع ہونے کی وجہ سے ہر تعلیم یافتہ اور جاھل وقت اور تاریخ کا اندازہ کر سکتا ھے ۔
چوتھے یہ کہ چاند کے طلوع وغروب کا موسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اس لئے تمام روئے زمین پر مختلف مہینے تمام موسموں میں آتے رہتے ہیں ۔ اور ہر علاقے کے مسلمان اپنی عبادات باری باری مختلف موسموں میں ادا کر سکتے ہیں ۔