• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
آیہ۔ ۱۸۹
چاند کا حساب

يَسْئَلُونَکَ ۔۔۔ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۔۔۔قُلْ هِيَ ۔۔۔مَواقيتُ ۔۔۔لِلنَّاسِ ۔۔۔وَ الْحَجِّ
وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ نئے چاند کے بارے میں ۔۔ آپ فرما دیجئے یہ ۔۔ اوقات ۔۔۔ لوگوں کے لئے اور حج
يَسْئَلُونَکَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَواقيتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ
وہ آپ سے نئے چاند کا حال پوچھتے ہیں ۔ آپ فرما دیجئے کہ یہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے مقرر اوقات ہیں ۔
اَھِلّہ
نیا چاند ۔ ھلال کی جمع ھے ۔
چاند کے متعلق لوگوں کے سوال کچھ اس قسم کے تھے ۔ پہلے چاند کا طلوع ہونا ۔ پھر تاریخ وار اس کا بڑھنا ۔ یہاں تک کہ اس کا غائب ہو جانا کیوں ھے ؟ اور ان تبدیلیوں کی وجہ کیا ھے ؟
مَواقِیْتُ

اوقات ۔۔۔ میقات کی جمع ھے۔
جس کا مطلب ھے مقررہ وقت ۔ یا وقت معلوم کرنے کا پیمانہ اور آلہ
چاند میں جو تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ عام دیکھنے اور محسوس کرنے کی بات ھے ۔

انسان کا ایسے امور کے بارے میں سوال کرنا ایک فطری بات ھے ۔ کیونکہ وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے بے قرار رہتا ھے ۔
کچھ لوگوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا ۔۔۔
چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کی وجوھات کیا ہیں ؟ اس کے طلوع ہونے اور غائب ہونے کے اسباب کیا ہیں ؟
آپ صلی الله علیہ وسلم نے اللّٰه تعالی کی وحی سے ان سوالوں کےجواب میں فرمایا ۔۔۔
کہ چاند کے گھٹتے بڑھتے رہنے میں یہ فائدہ ھے کہ اس سے لوگوں کے دنیاوی معاملات اور شرعی حسابات میں دنوں ، تاریخوں مہینوں اور سالوں کا تعین آسانی سے ہو جاتا ھے۔
قرآن مجید کے اس صاف بیان سے اوہام پرستی اور شرک کی جڑکٹ جاتی ھے ۔ دنیا کی بہت سی قومیں چاند کی پوجا کرتی تھیں ۔ ایسی قوموں نے نئے چاند کو دیوتا مان کر اس کی پرستش کی ۔ اور بڑھتے ہوئے چاند کو مبارک اور گھٹتے ہوئے کو منحوس سمجھا ۔ چنانچہ یہ لوگ چاند کی آخری تاریخوں میں بیاہ شادی تک نہیں کرتے تھے ۔

قرآن مجید نے چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کا مقصد واضح کر دیا ۔ کہ اس سے انسان کے کام کے اوقات بہ سہولت مقرر کئے جاسکتے ہیں ۔ دوسرے دنیوی معاملات کے علاوہ عبادات اور شرعی حسابات میں بھی بڑی مدد ملتی ھے ۔ یہاں حج کا دکر خاص طور ہر اس لئے کیاگیا ۔ کہ یہ عرب لوگوں کی زندگے کا بہت اہم شعبہ تھا ۔
قرآن مجید نےشمسی حساب پر قمری حساب کو اس لئے ترجیح دی ھے کہ اس میں چند فوائد ہیں ۔
پہلا یہ کہ شمسی حساب میں بڑی دقتیں پیش آتی ہیں ۔ چونکہ وہ ایک ہی حالت میں رہتا ھے ۔ طلوع وغروب کے لحاظ سے اس میں جو معمولی سا تغیر ہوتا ھے عوام اس کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔
دوسرے یہ کہ پسماندہ علاقوں میں ٹھیک ٹھیک حساب رکھنے والا ماہر ملنا بہت مشکل ھے ۔
تیسرے یہ کہ چاند کی حالتوں میں باقاعدہ تغیر واقع ہونے کی وجہ سے ہر تعلیم یافتہ اور جاھل وقت اور تاریخ کا اندازہ کر سکتا ھے ۔
چوتھے یہ کہ چاند کے طلوع وغروب کا موسم پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اس لئے تمام روئے زمین پر مختلف مہینے تمام موسموں میں آتے رہتے ہیں ۔ اور ہر علاقے کے مسلمان اپنی عبادات باری باری مختلف موسموں میں ادا کر سکتے ہیں ۔


 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
آیۃ۔ ۱۸۹
جاہلیت کی ایک رسم

وَ لَيْسَ ۔۔ الْبِرُّ ۔۔بِأَنْ ۔۔تَأْتُوا ۔۔۔الْبُيُوتَ مِنْ ۔۔ظُهُورِها
وَ لکِنَّ ۔۔الْبِرَّ ۔۔۔مَنِ اتَّقي‏۔۔۔ وَ أْتُوا ۔۔الْبُيُوتَ ۔۔۔مِنْ أَبْوابِها ۔۔۔وَ اتَّقُوا ۔۔اللَّهَ ۔۔۔لَعَلَّکُمْ ۔۔۔تُفْلِحُونَ

اور نہیں ۔۔ نیکی ۔۔ یہ کہ ۔۔ تم آؤ ۔۔ گھر ۔۔ سے ۔۔ پشت اس کی ۔۔ اور لیکن ۔۔ نیکی
جو شخص ۔۔ ڈرا ۔۔ اور تم آؤ ۔۔ گھر ۔۔ اس کے دروازے سے ۔۔ اور تم ڈرو ۔۔ الله تعالی ۔۔ تاکہ تم ۔۔ فلاح پاؤ

وَ لَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِها وَ لکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقي‏ وَ أْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوابِها وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ

اور نیکی یہ نہیں کہ گھروں میں آؤ ان کے بچھواڑے (پچھلی طرف ) سے لیکن نیک وہ ھے جو الله تعالی سے ڈرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور الله تعالی سے ڈرتے رہو تاکہ تم اپنی مراد کو پہنچو ۔

اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانہ میں یہ رواج تھا کہ حج کے دنوں میں جب عرب کے لوگ احرام باندھ لیتے تو گھر میں جانے کے لئے دروازے سے داخل ہونے کو نحوست اور بد شگونی سمجھتے تھے ۔ بلکہ مکان کی پچھلی دیوار میں راستہ بنا کر اس سے داخل ہوتے یا پچھواڑے سے چھت پر چڑھ جاتے اور اندر کودتے ۔ وہ اسے اپنے نزدیک بڑی عبادت اور تعظیم سمجھتے تھے ۔ ان کی دیکھا دیکھی بعض صحابی بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے اور احرام کی حالت میں دروازوں سے داخل ہونا احرام کے آداب کے خلاف سمجھنے لگے ۔
اس آیت میں اس غلط فہمی کو دور کیا گیا ھے ۔ اور بتایا گیا ھے کہ نیکی یہ نہیں کہ مکان میں پچھواڑے سے داخل ہو اور نیکی یہ بھی نہیں کہ کوئی بات اپنے پاس سے گھڑ کر اسے عبادت سمجھنے لگ جاؤ ۔ بلکہ نیکی یہ ھے کہ الله سبحانہ وتعالی کے احکام کی تعمیل کرو ۔ اس کے ارشادات کی نافرمانی سے ڈرو ۔ بُرے کاموں سے پرھیز کرو ۔ اور جب بھی مکان میں آنا چاہو اس کے دروازے سے داخل ہو ۔ قدیم رسموں اور گھڑی ہوئی بدعتوں کو چھوڑ دو ۔ تمام اعمال الله تعالی کے حکموں کی روشنی میں بجا لاؤ ۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ھے کہ ہر ایسا عمل جس کی تصدیق یا تائید قرآن مجید اور سنت مطہرہ میں نہ پائی جائے اسے اپنے دل سے عبادت سمجھ لینا اور شریعت میں داخل کر دینا یا اپنے اوپر لازم کر لینا گناہ ھے ۔ اور اسی کا نام بدعت ھے ۔
پھر یہ بات بھی صاف ھو گئی کہ اصل نیکی تقوٰی الٰہی ھے ۔ یعنی حق تعالی جل شانہ کے فرمان کو پوری طرح ماننا ۔ اور ان پر عمل کرنا ۔ الله تعالی کی نافرمانی سے خوف کھانا ۔ اسکی منع کی ہوئی باتوں سے بچتے رہنا ۔ یہی نیکی الله سبحانہ و تعالی کو مطلوب ھے ۔ یہی انسان کے عمل اور زندگی کے اچھے یا بُرے ھونے کی کسوٹی ھے ۔
آخر میں یہ بتایا گیا ھے کہ ایسی نیکی کا انجام دنیا وآخرت دونوں میں انتہائی کامیابی اور بامرادی ھے ۔ یہ آیت ہمیں پھر یاد دلاتی ھے کہ تقوٰی ( خوفِ خدا ) فلاح ( کامیابی ) کا آپس میں کس قدر گہرا تعلق ھے ۔ دونوں جہانوں میں سُرخروئی اور ابدی آرام کا اصل اُصول تقوٰی ھے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
آیۃ۔۱۹۰ سورۃ بقرہ
اللّٰه کی راہ میں جنگ

ARB]9وَ قاتِلُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ الَّذينَ يُقاتِلُونَکُمْ وَ لا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدينَ[/ARB]
اور لڑو ۔۔۔ الله کی راہ میں ۔۔ وہ لوگ ۔۔ وہ لڑتے ہیں تم سے ۔۔ اور نہ تم زیادتی کرو ۔۔بے شک الله تعالی ۔۔ نہیں وہ پسند کرتا ۔۔ زیادتی کرنے والے

9وَ قاتِلُوا في‏ سَبيلِ اللَّهِ الَّذينَ يُقاتِلُونَکُمْ وَ لا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدينَ

اور الله کی راہ میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں ۔ اور زیادتی نہ کرو بے شک الله تعالی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔
وَقَاتِلُوا
لڑو

لفظ قتال سے ھے ۔ جس کےمعنی ہیں جنگ کرنا ۔ یہ حکم مسلمانوں کو اس حالت میں مل رہا ھے جب کہ ان پر ان کے دشمن اور مخالفین اسلام ظلم ڈھا چکے ہیں۔ یہ ظلم چند دن کے لئے نہیں بلکہ تیرہ برس تک مکہ میں قیام کے دوران ہوتا رہا ۔ کافروں کی زیادتی اور بے رحمی کے جواب میں صبر کرتے ہوئے مسلمان جب وطن اور گھر بار چھوڑ کر کر بے وطن ہوئے ۔ مدینہ میں جا بسے ۔ تو اسقدر لمبے اور سخت امتحان کے بعد دشمنوں سے مدافعت کے لئے جنگ کی اجازت ہوئی ۔ وہ بھی ظالموں کے بار بار چھیڑ چھاڑ اور حملے کرنے کے بعد ۔
فِیْ سَبِیْلِ اللهِ

الله کی راہ میں
یعنی ذاتی غرض کے لئے نہیں ۔ بلکہ صرف الله جل شانہ کا بول بالا کرنے کے ، شرک مٹانے اور دین حق کی حمایت اور الله تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے ۔
اَلَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ

جو لوگ تم سے لڑتے ہیں
یعنی وہ جنہوں نے تم پر ہتھیار اٹھائے ۔ ان الفاظ سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔
۱۔ یہ کہ جنگ میں پہل کرنے والے مسلمان نہ تھے ۔ اور نہ انہیں ہونا چاہئیے تھا ۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تمام جنگیں حفاظت اور مدافعت کے لئے تھیں ۔
۲۔ یہ کہ جنگ صرف ان لوگوں کے خلاف کی جائے جو عملی طور پر لڑائی میں حصہ لے رہے ہوں ۔ اس حکم کی رو سے تمام بوڑھے ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ بیمار اور غیر جانبدار لوگ مستثنی ہو جاتے ہیں ۔ اسلام میں ان سے جنگ کرنا جائز نہیں ھے ۔ البتہ اَلّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ
میں وہ تمام دشمن شامل ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوں ۔ اور کسی صورت میں لڑنے والوں کی مدد کر رہے ہوں ۔
لَا تَعْتَدُوْا

زیادتی نہ کرو
یہ لفظ اعتداء سے نکلا ھے ۔ جس کے معنی ہیں حق سے بڑھنا اور حد سے آگے نکل جانا ۔
اسکی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔
۱۔ حد سے مراد شریعت کی حد بھی ہو سکتی ھے ۔ مثلا یہ کہ انتقام اور غصہ کے جوش میں دشمن قوم کے ایسے لوگوں کو بھی قتل کر دینا جو لڑائی میں شامل نہ ہوں ۔ ان کے کھیتوں ۔ باغوں اور پھلدار درختوں کو آگ لگا دینا ۔ان کے بے زبان جانوروں کو مار دینا ۔
۲۔ حد سے مراد معاھدہ کی حد بھی ہو سکتی ھے ۔ مثلا یہ کہ دوسری قوموں کی تقلید کرکے خود بھی معاھدوں کی پرواہ نہ کرنا اور حد شکنی کی ابتداء کرکے ہلّہ بول دینا ۔
۳۔ زیادتی کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ھے کہ فی سبیل الله کے علاوہ کسی اور مقصد اور غرض کے لئے جنگ کی جائے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ آیۃ ۔ ۱۹۱
جنگ اور جلا وطنی

وَاقْتُلُوهُمْ ۔۔۔ حَيْثُ ۔۔ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۔۔۔وَأَخْرِجُوهُم ۔۔۔ مِّنْ حَيْثُ ۔۔۔أَخْرَجُوكُمْ
اور تم مار ڈالو ان کو ۔۔جہاں ۔۔ تم پاؤ ان کو ۔۔ اور تم نکال دو ان کو ۔۔ جہاں سے ۔۔ نکالا انہوں نے تم کو

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ

اور انہیں جس جگہ پاؤ مار ڈالو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تم انہیں نکال دو۔
اُقْتُلُوْھُمْ

انہیں مار ڈالو
سے مراد وہی لوگ ہیں جو لڑائی کے لئے نکلے ہوں ۔ ۔ یہ حکم حالتِ جنگ کا ھے ہر وقت کا نہیں ۔
حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ
جس جگہ انہیں پاؤ ۔
یعنی ان جنگ کرنے والوں اور قتل کرنے والوں کو جہاں کہیں پاؤ قتل کر دو۔ جب جنگ ہو رہی ہو تو ہاتھ نہ روکو ۔
مِنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ
جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ۔
یعنی مکہ سے کفار و مشرکین نے تمہیں نکالا تھا
اس آیت میں قتال اور جہاد کا حکم دیا گیا ھے ۔ اسلام کے دشمن ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ھیں کہ مسلمان ابھرنے نہ پائیں ۔ انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔ اس لئے ایسے مخالفوں کا وجود اسلام کے لئے ہر وقت خطرے کا باعث ھے ۔ لہذا جہاں کہیں مسلمان ان پر غلبہ حاصل کریں ۔ وہ پُر امن شہری بن کر رہنا پسند نہ کریں اور شرارتوں سے باز نہ آئیں تو انہیں قتل کر دیں ۔
بیت الله کو حضرت ابراھیم علیہ السلام نے الله تعالی کے حکم سے اس لئے تعمیر کیا تھا کہ تمام روئے زمین کے لوگ وہاں آکر خالص طور پر الله تعالی کی عبادت کریں ۔ اس کے اصل وارث مسلمان تھے ۔ اس لئے کہ مسلمان ہی اقوامِ عالم میں دینِ ابراھیمی کے نام لیوا تھے ۔ اور الله تعالی کی شریعت اور دین حق کے پابند تھے ۔ ۔ مسلمانوں نے اسے نئے سرے سے دین اسلام کا مرکز بنانا چاہا لیکن کافروں اور مشرکوں نے اس کی مخالفت کی ۔ ۔ ان کے راستے میں روڑے اٹکائے ۔ انہیں کلمۂ حق کہنے سے روکا ۔ اور ان پر ظلم اور سختیاں کیں ۔ حتی کہ مسلمانوں کو مکہ ہی سے نکال دیا ۔
مظلوم مسلمان اپنے آبائی وطن اور مرکز کو چھوڑ کر مدینہ چلے آئے ۔ وہاں بھی کافروں نے انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیا ۔ ۔ مختلف قسم کی سازشیں کیں ۔ برابر چھیڑ چھاڑ اور مخالفت جاری رکھی ۔ مسلمانوں کو حج کرنے سے روکا ۔ دعوت اسلامی میں ایک بڑی رکاوٹ بن گئے ۔ ۔ مدینہ پر حملے شروع کر دئیے ۔
ان حالات میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ایسے کافر دشمنوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو ۔ اور اپنا آبائی وطن اور روحانی مرکز واپس لینے کے لئے انہیں وہاں سے نکال دو ۔ کیونکہ ان کی ایذا رسانیاں حد سے گزر چکی ہیں ۔
ایک مسلمان کی ہستی انسانیت کا صحیح نمونہ ھے ۔ وہ دین فطرت اسلام پر عمل پیرا ھے ۔ وہ اپنے قول و فعل سے اخلاقِ حسنہ کا علمبردار ھے ۔ ۔ کامل انسانیت کا نمونہ ہونے کی حیثیت میں اسے پوری آزادی سے زندہ رھنے کا حق ملنا چاہئیے ۔ اسلام نہ کسی کی آزادی چھینتا ھے نہ اپنی آزادی قربان کر سکتا ھے ۔ نہ کسی ایسے دستور ، طریق کار اور نظام کو برداشت کر سکتا ھے جو امن سوز ۔۔ باطل پرست ۔۔ خدا دشمن اور شرافت و انسانیت کے لئے باعثِ ننگ ھو ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ ۔ آیۃ۔ ۱۹۱
فتنہ قتل سے بدتر ھے

وَالْفِتْنَۃُ ۔۔۔ اَشَدُّ ۔۔ مِنَ ۔۔الْقَتْلِ
اور فتنہ ۔۔ زیادہ سخت ۔۔ سے ۔۔ قتل
وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ
اور فتنہ مار ڈالنے سے بھی زیادہ سخت ھے ۔
اَلْفِتْنَۃُ
فتنہ
فتن سے بنا ھے ۔ کھوٹ نکالنے کے لئے سونے کو آگ میں ڈالنا اس کے لفظی معنی ہیں ۔ محض آگ میں ڈالنا بھی اس کے معنی ہیں ۔ اس اعتبار سے اصطلاحی طور پر دکھ اور تکلیف ، آزمائش اور امتحان کے معنی میں بھی بولا جاتا ھے ۔ اس کے علاوہ الله تعالی کی راہ میں ایذا پہنچانے اور بدامنی ، قتل و غارت گری اور زبردستی دین سے ہٹانے کے معنوں میں بھی آتا ھے ۔ یہاں انہی آخری معنوں میں استعمال ھوا ھے ۔
انسان کو قتل کرنا بالاتفاق بہت بڑی برائی ھے ۔ لیکن اس سے بھی بڑی برائی یہ ھے کہ لوگ دوسروں کی آزادی گویا حقِ زندگی چھیننے کی کوشش کریں ۔ ان کے حقوق کو پامال کریں ۔ ایک قوم کو صرف اس لئے کہ وہ توحید کی قائل اور شرک سے بے زار ھے مٹانا چاہیں ۔
توحید کی جگہ کفر و شرک پھیلانا چاہیں ۔ اگر اس فتنہ اور شرارت کو دور نہ کیا جائے تو پھر یہ پھیلتا پھیلتا اس قدر عام ہو جائے گا کہ کوئی قوم زندہ نہ رہ سکے گی ۔ بلکہ سبھی جنگ و جدال اور آگ کی لپیٹ میں آجائیں گے ۔ اس لئے اگر فتنہ کو دبانے کے لئے کچھ لوگ قتل کرنے پڑیں تو کوئی حرج نہیں ۔ کیونکہ بڑی برائی کو روکنے کے لئے تھوڑی بہت قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔
اسلام ایک دین ھے جو انسان کو انسانیت ، اخلاق ، سچائی و انصاف ، نیکی اور پرہیزگاری کی راہ دکھاتا ھے ۔ اس لئے اس دین سے دشمنی کرنا گویا انسانیت سے دشمنی کرنا ھے ۔ اور اس کا منکر ہونا زندگی کا منکر ہونا ھے ۔ اسلام سے ہٹنے والا اپنی تباہی و بربادی کو دعوت دیتا ھے ۔ اس لئے الگ ہونے والا گویا موت کے منہ میں آجاتا ھے ۔
ہر وہ آدمی جو اسلام جیسے فطری دین سے لوگوں کو روکتا ھے وہ فتنہ پرداز ھے ۔ اور اگر وہ زندہ رہے گا تو دوسرے لوگوں کے اعمال اور اخلاق کو خراب کرے گا ۔ اس لئے ایسے انسانیت دشمن طبقے کا کا وجود ہر حالت میں ناقابل برداشت ھے ۔ بہتر ھے کہ اسے ختم کر دیا جائے ۔ تاکہ ایک بھیڑ سب کو گندہ نہ کرے ۔ اس کی یہ فتنہ پردازی پرامن تبلیغ کی معاندانہ مخالفت ۔ انسان کی فطری آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ھے ۔ ۔ اور یہ آخر کار دنیا کو فتنہ و فساد ، کشت وخون اور غدر و بدامنی کی طرف لے جا کر رہے گی ۔ اس لئے پیشتر اس کے کہ وسیع پیمانے پر قتل و خون ہو بہتر یہ ھے کہ ابھی اس کی جڑ اکھاڑ دی جائے ۔
یہ بات بھی قابل غور ھے کہ گھروں سے نکال دینا ۔ جلا وطن کر دینا یا قتل کر دینا تو بعد کی بات ھے اصل چیز تو یہ ھے کہ جس کے نتیجہ میں یہ چیزیں ظاہر ہوتی ہیں
اس لئے اخراج ، جلا وطنی اور قتل و خون کو روکنے کے لئے اس جڑ کو کاٹنے کی ضرورت ھے ۔ اور وہ جڑ ھے فتنہ ۔۔۔ فتنے کی تمام شکلوں کو سرے سے مٹا دینا چاہئیے ۔ خواہ ان کے لئے قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ کیونکہ یہی وسیع قتل کو جنم دیتا ھے ۔ قتل سے بھی اشدتر اور بُری چیز ناحق فتنہ و فساد پھیلانا ھے ۔ اس لئے فتنہ پردازو مفسدوں کو ختم کرنا انسانیت پر بہت بڑا احسان ھے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ ۔ آیۃ ۔ ۱۹۱۔ ۱۹۲
خانہ کعبہ کا احترام

وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ ۔۔۔عِندَ ۔۔الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔۔۔ حَتَّى ۔۔يُقَاتِلُوكُمْ ۔۔۔فِيهِ ۔۔فَإِن ۔۔۔قَاتَلُوكُمْ ۔۔فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ۔۔ جَزَاءُ ۔۔الْكَافِرِينَ
اور نہ ان سے لڑو ۔۔۔ پاس ۔۔ مسجد حرام ۔۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔وہ لڑیں تم سے۔۔ اس جگہ ۔۔۔ پس اگر ۔۔۔ وہ لڑیں تم سے ۔۔ پس تم ان سے لڑو ۔۔ یہی ۔۔۔ بدلہ ھے ۔۔ کافر
فَإِنِ۔۔۔ انتَهَوْا ۔۔۔ فَإِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔غَفُورٌ ۔۔۔رَّحِيمٌ
پس اگر ۔۔۔۔ وہ باز آ جائیں ۔۔ پس بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ بخشنے والا ۔۔ مہربان ھے

وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ
اور ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے اس جگہ نہ لڑیں ۔ پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انہیں مارو۔ کافروں کی سزا یہی ھے ۔

فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر اگر وہ باز نہ آجائیں تو بے شک الله تعالی بخشنے والا نہایت مہربان ھے ۔

عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام ۔ ( مسجد حرام کے پاس ) ۔ خانہ کعبہ کے چاروں طرف کئی میل کا علاقہ اصطلاح میں حرم کہلاتا ہے ۔ اس کے احترام میں یہ بھی شامل ہے کہ یہاں جنگ نہ لڑی جائے ۔ اور کشت و خون نہ کیا جائے ۔ حتی کہ جانور کا شکار بھی نہ کیا جائے گا ۔
آیت کے ابتدائی حصہ میں بیان ہوچکا ہے کہ دین سے روکنا ۔ فساد پھیلانا ۔ ایذا پہنچانا ۔ بد امنی ۔ غارت گری اور زبردستی دین سے ہٹانا فتنہ میں شامل ہیں ۔ اور فتنہ ہر حال میں دبانا چاہئیے ۔ خواہ قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ فتنہ کو دبانے کے لئے اگر ابتدا میں جنگ نہ کی جائے تو یہ پھیلتا پھیلتا پوری قوم اور ملک کو لپیٹ میں لے لے گا ۔ پھر وسیع پیمانے پر جھگڑے ، کشمکش اور لُوٹ مار بدامنی اور قتل و غارت گری شروع ہو جائے گی ۔
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر دشمنان اسلام اپنی شرارتوں سے باز نہ آئیں اور حرم شریف میں ہی جنگ شروع کر دیں گے ۔ تو پھر تم بھی ان سے اس جگہ جنگ کرسکتے ہو ۔ عام حالات میں یہ حکم ہے کہ خانہ کعبہ کے نزدیک جنگ اور خونریزی نہ ہو ۔ کیونکہ یہ گھر احترام اور امن کی جگہ ہے لیکن فتنہ کو فرو کرنا اس قدر ضروری ہوا ۔ کہ وہ لڑائی کی لپیٹ میں آسکتی ہے ۔
امن کے دشمنوں کی سزا یہی ہے کہ انہیں ان کے وطنوں سے جلاوطن کیا جائے یا قتل کیا جائے ۔ ہاں البتہ اگر وہ فتنہ اور فساد سے باز آجائیں ۔ بدکاری اور بدعملی سے توبہ کر لیں اور اسلام کی پناہ میں آجائیں تو پھر تم ان پر تلوار نہ اٹھاؤ ۔ بلکہ انہیں اپنا بھائی سمجھو ۔ کیونکہ الله تعالی توبہ کرنے والوں کے پچھلے گناہ بخش دیتا ھے ۔
اس آیت سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔
مسجد حرام ایک امن کی جگہ ھے یہاں قتل و خونریزی اور جنگ نہیں کرنا چاہئیے ۔
اگر یہاں حملہ ہو تو جوابی جنگ لڑی جا سکتی ھے
قتال اور جہاد اجتماعی فریضہ ہے ۔ چنانچہ بار بار اور ہر جگہ جمع کے صیغہ میں ہی حکم دیا گیا ھے
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ۔ آیۃ ۔۱۹۳
قتال کی حدِ آخر

وَقَاتِلُوهُمْ ۔۔ حَتَّى ۔۔ لَا تَكُونَ ۔۔ فِتْنَةٌ ۔۔ وَيَكُونَ ۔۔الدِّينُ ۔۔لِلَّهِ ۔۔فَإِنِ ۔۔انتَهَوْا ۔۔فَلَا ۔۔عُدْوَانَ ۔۔إِلَّا عَلَى ۔۔الظَّالِمِينَ
اور ان سے لڑو ۔۔ یہاں تک ۔۔ نہ رہے ۔۔ فتنہ ۔۔ اور ہو ۔۔ دین ۔۔ الله کے لئے ۔۔ پس اگر ۔۔ وہ باز آجائیں ۔۔پس نہیں ۔۔ زیادتی ۔۔ مگر ۔۔ پر ۔۔ ظالم
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ
اور ان سے یہاں تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔ اور الله تعالی ہی کا دین ہو جائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں ۔
قٰتِلُوْھُمْ
ان سے لڑو
اس سے تمام کافر مراد ہو سکتے ہیں ۔ لیکن علماء نے صرف مکہ کے مشرکین ہی مراد لئے ہیں ۔ چونکہ یہاں روئے سخن انہی کی طرف معلوم ہوتا ھے ۔
الدّین

دین
یہ لفظ عربی میں جزا و سزا یعنی بدلے کے معنوں میں استعمال ہوتا ھے ۔ قرآن مجید میں یہ متعدد معنوں میں آیا ھے ۔ مثلا بدلہ ۔ طریق ۔ فکر وعمل ۔ مذہب ۔ الله تعالی کی عبادت اور فرمانبرداری وغیرہ ۔
اس آیت میں یہ حکم عام کر دیا گیا کہ تم فتنہ پرداز کافروں اور اسلام کے دشمنوں سے مسلسل جنگ کرتے رہو ۔ حتی کہ فتنہ و فساد ختم ہو جائے اور الله کا قانون غالب ہو جائے ۔ کسی شخص میں الله جل جلالہ کے قانون کی مخالفت ، دشمنی اور خلاف ورزی کی طاقت نہ رھے اور اگر کوئی شخص اس کی توہین کرے تو اسے فورا سزا مل جائے ۔
اسلام اس چیز کا خواہشمند ھے کہ الله سبحانہ تعالی کا قانون عام ہو ۔ تمام دوسرے مذاہب کے ماننے والے اطمینان سے اپنی اپنی جگہ زندگی بسر کر سکیں ۔ عبادت گاہیں اور مذہبی مقامات بدکار لوگوں کی دست برداری سے محفوظ رہیں ۔ اور اسلام کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو ۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس سے دنیا میں امن قائم رہ سکتا ھے ۔ ورنہ فتنہ ہمیشہ سر اٹھاتا رھے گا ۔ اور لوگ کبھی چین کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے ۔
اس کے لئے اسلام کے پاس تین راہیں کُھلی ہیں ۔
۱۔ لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دے ۔ اگر وہ مان لیں ۔۔۔ اور الله جل شانہ ، اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور یومِ آخر پر ایمان لے آئیں ۔ تو الله تعالی ان کے گناہ بخش دے گا ۔ اور وہ اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کے برابر حقوق پا لیں گے ۔
۲۔ اگر لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں ۔ البتہ اس کی مخالفت سے باز آنے کا اقرار کر لیں ۔ تو وہ شوق سے اسلامی سلطنت میں رہیں ۔ اس صورت میں ان کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہو گی ۔
۳۔ اگر ان دونوں باتوں پر راضی نہ ہوں اور وہ الله جل جلالہ کے قانون کی خلاف ورزی کرتے رہیں ۔ یعنی خود غرضی میں دیوانے ہو جائیں ۔ تو پھر ان کا فیصلہ تلوار سے کر دینا چاہئیے ۔ ان کی سزا قتل کے سوا کوئی اور نہیں ۔ فتنہ پرداز اور امن دشمن انسانوں کو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ ۔ آیہ ۔۱۹۴
حرمت والے مہینے

الشَّهْرُ ۔۔ الْحَرَامُ ۔۔ بِالشَّهْرِ ۔۔ الْحَرَامِ ۔۔ وَالْحُرُمَاتُ ۔۔۔قِصَاصٌ ۔۔ فَمَنِ ۔۔ اعْتَدَى۔۔ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا ۔۔عَلَيْهِ ۔۔بِمِثْلِ ۔۔مَا اعْتَدَى ۔۔عَلَيْكُمْ
مہینہ ۔۔ حرمت والا ۔۔ بدلہ مہینے کا ۔۔ حرمت والا ۔۔ اور حرمات ۔۔ بدلہ ۔۔ پس جو شخص ۔۔ زیادتی کی اس نے ۔۔ تم پر ۔۔ پس تم زیادتی کرو ۔۔ اس پر ۔۔ اس جیسی ۔۔ جو اس نے زیادتی کی ۔۔ تم پر
الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ
حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کا بدلہ ھے اور ادب رکھنے میں بدلہ ھے پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ۔
اَلشَّھْرُ الْحَرَام
حرمت والا مہینہ
جاہلیت کے زمانے میں عرب کے مختلف قبیلے آپس میں ہمیشہ جنگ کرتے رہا کرتے تھے ۔ لیکن یہ بات انہوں نے ٹہرا لی تھی کہ سال میں چار مہینے جنگ بند رہا کرے گی ۔ اور یہ زمانہ امن اور صلح کے ساتھ گزارا جائے گا ۔ ان کے نزدیک ان چار مہینوں کی پاکی اور بزرگی بہت مانی ہوئی تھی ۔ وہ چار مہینے یہ تھے ۔
محرم ۔۔۔ قمری سال کا پہلا مہینہ
رجب ۔۔۔ قمری سال کا ساتواں مہینہ
ذی قعدہ ۔۔۔ قمری سال کا گیارہواں مہینہ
ذالحجہ ۔۔۔ قمری سال کا بارھواں مہینہ
اس آیۃ کا شانِ نزول اور تاریخی پس منظر یوں بیان کیا جاتا ھے ۔ کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم چند صحابیوں کو ساتھ لے کر عمرہ کی غرض سے ذیقعدہ سن۷ھجری میں مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے ۔ لیکن وہاں کے مشرک آپ سے اور آپ کے ساتھیوں سے جنگ پر آمادہ ہو گئے ۔ بلکہ تیر اندازی اور سنگ باری شروع کر دی ۔ انہوں نے اس حرمت والے اور مقدس مہینے کی بھی پرواہ نہ کی ۔ یہ آیت اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ھے ۔ الله تعالی فرماتا ھے کہ کسی مہینے کی حرمت اور عزت اسی وقت تک برقرار رہ سکتی ھے جبکہ دوسرا فریق بھی اس کا عزت اور احترام کرے ۔ اور اگر یہ نہیں تو پھر کسی حرمت والے مہینے کی بنیاد ہی نہیں ۔ اگر دوسرا فریق احترام والے مہینے میں بھی جنگ سے بازنہیں آتا تو تم بھی ان کے مقابلے میں جنگ شروع کر دو ۔ اگر انہوں نے اس بات کا لحاظ نہیں کیا کہ یہ مہینہ حرمت والا ھے یا یہ جگہ حرمت والی ھے یا تم مسلمانوں نے احرام باندھ رکھا ھے تو پھر تم بھی تیار ھو جاؤ اور ہتھیار اٹھا لو ۔
اس کے بعد یہ بتایا کہ اگر انہوں نے تمہاری حرمتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تم پر زیادتی کی ھے تو تم بھی ان کو جواب دو ۔ یہاں لفظ اعتداء ( ان پر زیادتی کرو ) اس لئے آیا ھے کہ عربی زبان میں یہ محاورہ ھے کہ جس فعل کی سزا دینی ھے اس کی سزا کے لئے بھی وہی لفظ بولا جاتا ھے ۔ مطلب یہ کہ انہیں جواب میں سزا دو اور قتل کرو ۔ یہ مراد ہرگز نہیں کہ تم بھی زیادتی کرو ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
آيه-١٩٤(ب)
الله متقیوں کے ساتھ ہے

وَاتَّقُوا ۔۔۔اللَّهَ ۔۔۔وَاعْلَمُوا ۔۔۔أَنَّ ۔۔۔اللَّهَ ۔۔۔مَعَ ۔۔۔الْمُتَّقِينَ
اور ڈرتے رہو ۔۔۔ الله تعالی سے ۔۔ اور جان لو ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔ ساتھ ہے ۔۔ متقین
وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
اور الله سے ڈرتے رہو اور جان لو بے شک الله پرہیزگاروں کے ساتھ ھے

وَاتقوا الله
( الله سے ڈرتے رہو ) ۔ پرھیزگاری (تقوٰی) اختیار کرنے کا یہ حکم قرآن مجید میں بار بار آیا ھے ۔ کہ ہر کام کرتے وقت اس سے خوف کھاؤ ۔ پرھیزگاری اختیار کرو ۔ تقوٰی کی زندگی بسر کرو ۔ بری باتوں سے پرھیز کرو ۔ بدی اور شطینیت سے نفرت کرو ۔ یہ تمام احکام صرف ایک جملے کے ماتحت آتے ہیں ۔ اور وہ ھے اِتِّقُواالله ۔ مسلمان کی زندگی کے ہر شعبے میں تقوٰی کا عنصر بہت اہم ھے ۔ جب تک مسلمان کے قول وفعل اور عمل میں یہ چیز نمایاں نہ ہو ۔ اس کا اسلام مکمل نہیں ہو سکتا ۔ تقوٰی اسے اعتدال سکھاتا ھے ۔ نیکو کاری کی طرف رغبت دلاتا ھے ۔ اور بدکاری سے دُور کرتا ھے ۔
اس وقت تک سورۃ بقرہ کی صرف (۱۹۴) آیات گذری ہیں ۔ اور یہاں تک تقوٰی کا ذکر مختلف شکلوں میں (۱۴) بار آچکا ھے ۔ خصوصاً ۔۔۔۔ حُکم عبادت کے بعد ۔۔۔ بنی اسرائیل کے تذکرہ کے بعد ۔۔۔۔ اخلاقی اصولوں کے ذکر کے بعد ۔۔۔ حکم قصاص کے بعد ۔۔۔ وصیت کے حکم کے بعد ۔۔۔ روزے کے حکم کے بعد ہر جگہ تقوٰی ہی کو مقصود ومطلوب بیان کیا گیا ھے ۔ قرآن مجید خواہ حلال و حرام کا ذکر کر رہا ہو ۔ نکاح و طلاق کے مسائل پر بحث کر رہا ہو ۔ یتیم و مسکین کے مال و دولت کے قوانین بتا رہا ہو ۔ وصیت اور ورثہ کی تقسیم پر گفتگو کر رہا ہو ۔ باہمی معاشرت اور میل جول کے اصول واضح کر رہا ہو یا جہاد وقتال کے امور پر روشنی ڈال رہا ہو ۔ ہر جگہ تقوٰی کا سبق اس کے ساتھ ضرور دے گا ۔ اور اس کی اہمیت ضرور جتائے گا ۔ آخر کیوں؟
انسان خواہشات کا پُتلا ، جذبات کا غلام اور احساسات کا خادم ہوتا ھے ۔ وہ ہر کام کرتے وقت اس کے زیر اثر ہوتا ھے ۔ وہ اعتدال اور انصاف پر قائم رہنے کی بجائے بے انصافی پر اُتر آتا ھے ۔ اعتدال کو چھوڑنا اسے ظلم ، حق تلفی ، بے انصافی اور زیادتی کی طرف لے جاتا ھے ۔ یہ تمام چیزیں ایک مسلمان کی شان سے بہت نیچی ہیں ۔ لہذا ضروری ھے کہ وہ خواہ زندگی کے کسی میدان میں سرگرمِ عمل ہو ۔ اعتدال کو ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔ اعتدال پر قائم رھنے کے لئے اسے یہ سبق سکھایا جاتا ھے کہ وہ ہر لمحہ الله تعالی کی ہستی ، اس کے احکام اور اس کے حضور حاضری کو پیشِ نظر رکھے ۔ وہ سمجھے کہ دنیاوی مال ومتاع اور عزت وشہرت سب عارضی ھے ۔ اصل چیز الله سبحانہ و تعالی کے ہاں کامیابی ھے ۔ اس لئے انصاف پسندی سے اگر عارضی نقصان ہوتا بھی ہو تو اسے برداشت کر لینا چاہئیے ۔ کیونکہ الله تعالی کی مدد صرف متقیوں کو ہی ملتی ھے اور ظاہر ھے جسے الله جل شانہ کی حمایت نصیب ہو جائے اس سے زیادہ سعادت مند اور خوش قسمت اور کامیاب انسان اور کون ہو سکتا ھے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه-١٩٥
انفاق فى سبيل الله

وَأَنفِقُوا ۔۔ فِي ۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔ وَلَا تُلْقُوا ۔۔ بِأَيْدِيكُمْ ۔۔
اور خرچ کرو ۔۔ میں ۔۔ راہ ۔۔ الله تعالی ۔۔ اور نہ تم ملاؤ ۔۔۔ اپنے ہاتھوں کو
إِلَى ۔۔ التَّهْلُكَةِ ۔۔۔ وَأَحْسِنُوا ۔۔ إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔ يُحِبُّ ۔۔ الْمُحْسِنِينَ

میں ۔۔ ھلاکت ۔۔ اور نیکی کرو ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔ وہ محبت کرتا ہے ۔۔۔ احسان کرنے والے

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
اور الله کی راہ میں خرچ کرو اور (اپنی جان ) اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بے شک الله نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
ولا تُلقوا بايديكم الى التّهلكة
( اپنے ہاتھوں سے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ) پہلی آیات میں قتال و جہاد کا حکم تھا اور اس جملے سے پہلے الله تعالی کی راہ میں مال و دولت خرچ کرنے کا حکم موجود ہے ۔ گویا ارشاد ربّانی یہ ھے کہ جب ملک و ملت اور دین و اسلام کے لئے جہاد کی ضرورت ہو اور مالی قربانی مطلوب ہو ۔ اس وقت بخل سے کام نہ لو ۔ الله جل شانہ کی راہ میں دولت صرف کرنے سے ہاتھ نہ روکو ۔ اگر ایسا کرو گے تو گویا خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارو گے ۔ اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گے ۔ اس طرح صرف ملک و ملت کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ قوم کی شکست تمہاری شکست ہوگی ۔ اور دین کا نقصان تمہارا زوال ہوگا ۔
بعض لوگ اس جملہ کا بالکل غلط مطلب نکالتے ہیں ۔ کہ جان بوجھ کر خطرہ میں نہ کودو اور جان جوکھوں میں نہ ڈالو ۔ یہاں اس جملہ سے ہرگز ہرگز یہ منشاء نہیں ہے ۔ بات صحیح ہے لیکن یہاں اس کا نہ ذکر ہے نہ موقع ہے ۔ پہلی آیات میں جہاد اور قتال کا حکم دے کر مسلمانوں پر یہ فرض کیا گیا کہ الله جل جلالہ کی راہ میں جانیں قربان کر دیں ۔ اسکے دین کو بلند کرنے کے لئے دین کے دشمنوں سے لڑیں اور اگر مشرک و کافر ان کے کام میں مزاحم ہوں تو ان سے جنگ کریں ۔ اور ظلم کو روکنے کے لئے تلوار اٹھائیں ۔ اس آیت میں الله تعالی کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرنے کا حکم ہے ۔ دشمنوں کو کچلنے اور فتنہ و فساد کو دبانے کے لئے اول جانوں کی ضرورت ہوتی ھے ۔ تاکہ الله کے سپاہی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر جوشِ اسلام سے معمور ، موت و ہلاکت سے بے پرواہ ہو کر میدانِ جنگ میں کود پڑیں ۔ اور الله کا نام بلند کرنے کے واحد مقصد کے لئے جان لڑا دیں ۔ اس مقصد کے لئے دوسرے درجہ پر مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ ہتھیار اور جنگ کے آلات خریدے جاسکیں ۔ سپاہیوں کے پسماندگان کی کفالت کی جا سکے ۔ شہید ہونے والوں کے یتیم بچوں اور بیواؤں کی ضروریات زندگی پوری کی جا سکیں ۔ فوج کے لئے خورد و نوش کی اشیاء فراہم کی جاسکیں ۔ اور محصور ہو جانے کی صورت میں سامان خوراک وغیرہ کا ذخیرہ کیا جاسکے ۔ اَحْسَنُوا ۔( نیکی کرو ) احسان کے معنی حسن سلوک اور نیکی کرنے کے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تم جو کچھ بھی کرو وہ حسنِ نیت اور اخلاص سے کرو ۔ کوئی کام محض بیگار اتارنے اور قرض چکانے کے طور پر نہ کرو ۔ نیز یہ کہ قتال و جہاد کے اندر بھی حسن سلوک میں کوئی چیز مانع نہیں ہو سکتی ۔ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم نے حسنِ سلوک کی یہاں تک تلقین فرمائی کہ جانور ذبح کرنے لگو تو ایسے کرو کہ اس کو کم سے کم تکلیف ہو ۔
 
Top