• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
قتال و جہاد کے احکام

آیۃ( ۱۹۵) پر جہاد کے احکام ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بعد حج کا بیان شروع ہو گا ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خلاصہ کے طور پر قتال و جہاد کی فرضیت ۔ شرائط و حدود اور احکام بیان کر دئے جائیں ۔ چونکہ ایک طرف تو گمراہ لوگ سرے سے قتال کے ہی منکر معلوم ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف ہمارے دشمن مؤرخین خصوصاً مغربی مصنف جہاد کو محض مار دھاڑ ، قتل و غارت گری اور مزہبی خونی جنگ بیان کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں ۔ ہم سورۃ بقرہ کی آیات کے حوالے سے نمبر وار مسائل بیان کرتے ہیں ۔ جہاد سے متعلق جو احکام قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر آتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ بیان ہوں گے ۔
۱۔ الله کی راہ میں جنگ کرو ۔۔۔ (۱۹۰)
۲۔ جنگ صرف ان لوگوں سے کرو جو تم سے لڑیں (۱۹۰) بالفاظ دیگر امن پسندوں یعنی بچوں ، عورتوں ، بیماروں ، معذوروں اور نہتے لوگوں سے نہیں ۔
۳۔ زیادتی نہ کرو ۔ الله تعالی زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے ۔ (۱۹۰)
۴۔ جنگ کے اندر دشمن کو جہاں پاؤ قتل کرو ۔ (۱۹۱) یاد رہے ۔ کہ یہ حکم حالت جنگ کا ہے زمانہ امن کا نہیں ۔
۵۔ جن جن علاقوں سے دشمنوں نے تمہیں ملک بدر کیا تھا ۔ وہاں سے تم انہیں نکال دو ۔ (۱۹۱)
۶۔ فتنہ و فساد نہ خود کرو ۔ نہ کسی کو کرنے دو ۔ یہ قتل سے بھی بدتر کام ہے ۔ (۱۹۱)
۷۔ مسجدِ حرام (خانہ کعبہ )۔ میں صرف انہی کو مار سکتے ہو جو وہاں لڑیں ورنہ نہیں ۔ (۱۹۱)
۸۔ اگر دشمن جنگ سے رُک جائے ۔ تو جنگ بند کر دو ۔ (۱۹۲)
۹۔ فتنہ دب جانے اور الله کا دین غالب ہونے تک جنگ کرو ۔ (۱۹۳) ۱۰۔ ظالموں کے سوا کسی پر تشدد نہ کرو ۔ (۱۹۳)
۱۱۔ حُرمت والے مہینوں کا احترام کرو ۔ ان میں جنگ بند کر دو ۔( ۱۹۴)
۱۲۔ تقوٰی اختیار کرو ۔ یعنی الله تعالی سے ڈرو ۔ الله متقیوں کا ساتھ دیتا ہے ۔ (۱۹۴)
١٣۔ الله تعالی کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں ڈال لو گے ۔ (۱۹۵)
۱۴۔ نیکی اور حسنِ سلوک کرو ۔ الله تعالی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ (۱۹۵)
غور کیجئے ان میں سے کون سی بات ہے جو عقل ۔ انصاف اور شرافت کے منافی ہے ۔ درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آية-١٩٦(ا)

حج

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ
اور پورا كرو حج كو
الحج

الحج ۔ اسلام کا پانچواں رکن ہے ۔ ہر شخص جو استطاعت رکھتا ہو اس پر حج زندگی میں ایک بار اداکرنا فرض ہے ۔ ورنہ وہ گنہگار ہو گا ۔ حج اسلامی سال کے آخری مہینے ذوالحج کی نو تاریخ کو ادا ہوتا ہے ۔ پہلے سارے مسلمان شہر مکہ میں خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔ پھر میدانِ عرفات میں اکٹھے ہوتے ہیں ۔
اس سورۃ میں حج کے احکام سے قبل اورحج ولی آیات کے بعد قتال وجہاد کے مسائل بیان ہوئے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کا آپس میں کس قدر گہرا تعلق ہے ۔ اسلام کا کوئی رکن ایسا نہیں جس میں ذاتی نیکی اور پاکیزگی کے علاوہ قوم کی اجتماعی بہبودی ، ترقی و خوشحالی اور سر بلندی کا مقصود نہ ہو ۔
حج میں خاص بات یہ ہے کہ روئے زمین کے تمام مسلمان ہر سال ایک مرتبہ مرکز اسلام میں جمع ہوتے ہیں ۔ وہاں کوئی اونچ نیچ نہیں ہوتی ۔ کالے ، گورے ، امیر ، غریب ، بادشاہ ، فقیر ، عالم ، جاہل ، اور چھوٹے بڑے کاندھے سے کاندھا ملا کر یک جا کھڑے ہوتے ہیں ، سب کا ایک ہی لباس ہوتا ہے ۔ ہر ایک کے لبوں پر ایک ہی صدا ہوتی ہے ۔
لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ
میں حاضر ہوں ۔ اے الله میں حاضر ہوں ۔ میں تیرے لئے حاضر ہوں ۔ تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں تیری ہیں اور شکر تیرا ہے ۔
ہر حاجی احرام باندھتا ہے ۔ یہ بغیر سلا ہوا ہر ایک کا ایک جیسا لباس ۔ مساوات ۔ سادگی ۔ یک جہتی اور عشقِ الٰہی کا اظہار کرتا ہے ۔ حج کے دوران سر منڈانا ، ناخن تراشنا ، شکار کرنا ، بیوی سے مباشرت کرنا منع ہے ۔ گویا خواہشات اور طبعی زیبائش و آرائش سے باز رہ کر ایک مستقل تربیت حاصل کرنی مقصود ہے ۔ تمام حاجی ایک وقت مقررہ میں میدانِ عرفات میں حج کے روز جمع ہوتے ہیں ۔ خطبہ سنتے ہیں ۔ الله کے حضور دعائیں کرتے ہیں ۔ گناہ بخشواتے ہیں ۔ اور رحمت الٰہی کے خزانے جمع کرتے ہیں ۔ منٰی کے اندر قربانیاں دیتے ہیں ۔ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں ۔ بیت الله کے گرد طواف کرتے ہیں ۔ جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں ۔ حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں ۔ آبِ زم زم سے عشق کی پیاس بجھاتے ہیں ۔ ہر قسم کی معصیت ۔ گناہ اور بد خلقی سے رُکے رہتے ہیں ۔ گویا گناہ بخشوا کر آج ازسرِ نو زندگی کا حساب شروع کر رہے ہیں ۔ مبارک ہیں وہ جنہیں حج کی توفیق ملی اور انہوں نے حج ادا کیا ۔ حج کے مقاصد کو سمجھا ۔ اور آئندہ اپنی زندگی نیکی اور پاکیزگی سے بسر کی ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
حج و عمرہ کے چند احکام
وَالْعُمْرَةَ ۔۔۔۔۔۔۔ لِلَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَإِنْ ۔۔۔۔۔ أُحْصِرْتُمْ
اور عمرہ ۔۔ الله تعالی کے لئے ۔۔ پس اگر ۔۔۔ تم روک دئے جاؤ
فَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسْتَيْسَرَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔الْهَدْيِ ۔۔
پس جو ۔۔ میسر ہو ۔۔ سے ۔۔۔ قربانی
وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ

اور عمرہ الله تعالی کے لئے پورا کرو پھر اگر روک دئیے جاؤ تو جو میسر آئے قربانی کرنی چاہئیے ۔
اَلْعُمْرَة ۔ عمرہ ۔۔۔ اسے چھوٹا حج بھی کہتے ہیں ۔ عمرہ ادا کرنے کے آداب حج جیسے ہی ہیں ۔ البتہ عمرہ کرنے کے لئے ایّامِ حج کی قید نہیں ۔ ہر وقت ادا ہو سکتا ہے ۔ دوسرے اس کے مناسک و مراسم بھی حج سے کم ہیں ۔
لِلّٰه ( الله کے لئے ۔ حج و عمرہ محض الله سبحانہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لاؤ ۔ نیت خالص رکھو ۔ اور ان قاعدوں اور حکموں کا دیانتداری کے ساتھ خیال رکھو ۔ جو الله تعالی نے مقرر فرمائے ہیں ۔ ان باتوں سے بچو جن سے منع کیا گیا ہے ۔ یوں تو سارے کام اور ارادے الله تعالی کی خوشنودی کے لئے ہی ہونے چاہئیے ۔ لیکن یہاں حج اور عمرہ کے ساتھ اس پرخاص زور اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ اس میں سفر در پیش آتا ہے ۔ جس میں سیر و تفریح اور اچھی بُری بہت سی اغراض بآسانی شامل ہو سکتی ہیں ۔ اس لئے لازم ہے کہ تمہاری اوّلین غرض الله جل شانہ کی رضا کے سوا کچھ نہ ہو ۔ سیروسیاحت ازخود ہو جائے گی ۔ تجارت کی اجازت ہے ۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھا سکتے ہو ۔ لیکن تجارت کو سفرِ حج کا مقصد نہیں بنا سکتے ۔ نہ بے ایمانی اور چوری کی تجارت کر سکتے ہو ۔ ان باتوں کی اجازت نہیں ۔ اُحْصِرْتُمْ ۔ (تم روک دئیے جاؤ ) یہ لفظ حصار سے بنا ہے ۔ جس کے معنی گِھر جانے اور بند ہوجانے کے ہیں ۔ خواہ یہ گِھر جانا کسی سبب سے ہو ۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ حج کا ارادہ رکھنے والا کسی بیماری کی وجہ سے منزل پر نہ پہنچ سکے یا کسی دشمن نے اس کا راستہ روک رکھا ہو ۔ یا کوئی موسمی اور دوسری رکاوٹ حائل ہو گئی ہو ۔
ھَدی ۔ ( قربانی) ۔ لفظی معنی اس پیشکش کے ہیں ۔ جو خانہ کعبہ کے لئے بھیجی جائے ۔ یہاں اس سے مراد قربانی کے جانور ہیں ۔
اس آیت میں الله تعالی نے مسلمانوں کو حج اور عمرہ کے حکم کے ساتھ یہ فرمایا ہے ۔ کہ اس عبادت کو بجا لانے میں صرف ایک مقصود پیشِ نظر ہونا چاہئیے ۔ یعنی الله جل جلالہ کی رضامندی اور خوشنودی ۔ نہ تو اس سفر سے کھیل تماشہ مطلوب ہو اور نہ سیر و تفریح ۔ بلکہ جس قدر قواعد الله تعالی نے بیان فرمائے ہیں ان کے مطابق عمل ہونا چاہئیے ۔ اس حکم میں الله تعالی نے معذور لوگوں کے لئے رعائت بھی رکھی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص حج یا عمرہ کرنے کے لئے احرام باندھ لے لیکن بدقسمتی سے راستے میں وہ بیمار پڑ جائے ۔ یا کوئی اور دشواری یا مجبوری پیش آجائے ۔مثلا راستہ نہ ملے ۔ زادِ راہ نہ رہے وغیرہ ان تمام صورتوں میں اس کے لئے حکم ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کا جانور کسی دوسرے کے ہاتھ بیت الله بھیج دے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سر منڈانا

وَلَا تَحْلِقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رُءُوسَكُمْ ۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔ يَبْلُغَ ۔۔۔ الْهَدْيُ
اور نہ تم منڈاؤ ۔۔۔ اپنے سر ۔۔ یہاں تک ۔۔۔ پہنچ جائے ۔۔۔ قربانی
مَحِلَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كَانَ ۔۔۔ مِنكُم ۔۔۔ مَّرِيضًا ۔۔۔ أَوْ بِهِ
اپنی جگی ۔۔۔ پھر جو کوئی ۔۔۔ ہو ۔۔ تم میں سے ۔۔۔ مریض ۔۔ یا اس کو
أَذًى ۔۔۔ مِّن ۔۔۔۔۔۔۔ رَّأْسِهِ ۔۔۔۔۔۔۔ فَفِدْيَةٌ ۔۔۔ مِّن ۔۔۔ صِيَامٍ ۔۔۔ أَوْ ۔۔۔ صَدَقَةٍ ۔۔۔ أَوْ نُسُكٍ
تکلیف ۔۔۔ سے ۔۔ سر اس کا ۔۔۔ پس بدلہ ۔۔ سے ۔۔۔ روزے ۔۔۔ یا ۔۔۔ صدقہ ۔۔۔ یا قربانی

وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ
اور اپنے سر کی حجامت نہ کرواؤ۔ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے پھر تم میں سےجو کوئی بیمار ہو یا اسے سر کی تکلیف ہو تو وہ بدلہ دے روزے یا خیرات یا قربانی سے ۔
نُسُكٍ ۔( قربانی ) ۔ لفظی معنی ذبح کے ہیں ۔ یہاں مراد الله تعالی کی راہ میں قربانی ہے ۔ جو کم از کم ایک بکری ہونی چاہئیے ۔ اور اس سے بہتر یہ کہ ایک گائے یا اونٹ کی ہو ۔
مَحِلَّة ۔( اپنی جگہ) ۔ یعنی قربانی کی جگہ ۔ اس سے مراد حرم شریف ہے ۔
اسلام ایک فطری مذہب ہے ۔ اس کے احکام انسان کی فطرت کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ اسلام میں ہر انسان کی خوبیوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ ایسے کام جو انسان کی تربیت ، ترقی اور کامیابی کے لئے ضروری تھے انہیں ضروری اور لازم قرار دیا گیا ہے ۔ جو باتیں انسان کی زندگی اور نصب العین کے لئے مفید نہ تھیں ۔ انہیں ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے ۔ آیت کا ابتدائی حصہ محصر کے احکام کا تتمہ ہے ۔ جس کا ذکر پچھلی آیت میں شروع ہوا تھا ۔ یہاں تک بیان کر دیا گیا تھا کہ جو شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھ لے اور راستے میں کوئی ایسا عذر پیش آجائے کہ حج یا عمرہ پورا نہیں کر سکتا ۔ تو وہ کسی کے ہاتھ قربانی کا جانور بیت الله بھیج دے ۔ اس آیت میں اس حکم کو یہ کہہ کر پورا کیا گیا ہے کہ جب تک جانور حرم تک نہ پہنچے اور وہاں اس کی قربانی نہ کر دی جائے اس وقت تک یہ روکا ہوا شخص سر نہیں منڈوا سکتا ۔ یعنی احرام نہیں کھول سکتا ۔
اس کے بعد حج کے عام احکام کا بیان ہے ۔ الله جل شانہ نے حج کے حکم میں معذور لوگوں کے لئے ایک اور رعایت مقرر فرمائی ہے ۔ یعنی جو شخص حج کے زمانہ میں سر نہ منڈانے کا حکم پورا نہ کر سکتا ہو ۔ یعنی کسی بیماری یا کسی اور سبب سے سر نہ منڈانے پر مجبور ہو تو اسے چاہئیے ۔ کہ اس کے بدلے یا تو تین روزے رکھے ۔ تاکہ اس کا نفس سرکشی سے پاک رہے ۔ یا چھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار کے مطابق پونے دو سیر کے حساب سے گیہوں دے تاکہ پہلا حکم بجا نہ لانے کی صورت میں وہ الله تعالی کی راہ سے ہٹ نہ جائے ۔ یا جانور کی قربانی دے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
حج اور عمرہ کی قربانی

آیہ ۔۱۹۶(د)
فَإِذَا ۔۔۔ أَمِنتُمْ ۔۔۔ فَمَن ۔۔۔ تَمَتَّعَ ۔۔۔ بِالْعُمْرَةِ ۔۔۔ إِلَى الْحَجِّ
پس جب ۔۔۔ تم امن میں ہو ۔۔ پس جو ۔۔ فائدہ اٹھائے ۔۔۔ عمرے کا ۔۔۔ حج تک

فَمَا ۔۔۔ اسْتَيْسَرَ ۔۔۔مِنَ الْهَدْيِ۔۔۔ فَمَن ۔۔۔لَّمْ يَجِدْ ۔۔۔فَصِيَامُ ۔۔۔ ثَلَاثَةِ ۔۔۔أَيَّامٍ ۔۔۔ فِي الْحَجِّ ۔۔۔وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۔۔۔ تِلْكَ ۔۔۔۔ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ

پس جو ۔۔ میسر ہو ۔۔ قربانی سے ۔۔۔ پس جو ۔۔۔نہ پائے ۔۔ پس روزے ۔۔ تین ۔۔ دن ۔۔ حج میں ۔۔ اور سات ۔۔ جب تم لوٹو ۔۔۔ یہ ۔۔۔ دس پورے

فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ
پس جب تمہاری خاطر جمع ہو تو جو کوئی فائدہ اٹھائے عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تو جو کچھ قربانی میسر ہو ۔ پھر جسے قربانی نہ ملے وہ روزے رکھے تین دن حج کے دنوں میں اور سات روزے جب تم لوٹو ۔ یہ دس پورے ہوئے ۔
أَمِنْتُمْ ۔ تم امن میں ہو ۔ یعنی خطرے اور مرض کی حالت سے نکل کر تم امن امان میں آجاؤ ۔
تَمَتّعَ ۔ ( فائدہ اٹھائے ) لفظی معنی فائدہ اٹھانے کے ہیں ۔ فقہ کی اصطلاح میں اس سے مراد حج اور عمرہ کو ملا کر ادا کرنا ہے ۔ یعنی حج کے زمانہ میں ایک احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا جائے ۔ پھر دوسرے احرام سے حج ادا کیا جائے ۔ جاہلیت کے زمانے میں عربوں نے یہ غلط عقیدہ گھڑ لیا تھا کہ حج کے موسم میں عمرہ کرنا گناہ ہے ۔۔۔۔
اَذِا رَجِعْتُم ۔ ( جب تم لوٹو) اس سے مراد یہ ہے کہ حج کے اعمال سے فارغ ہو کر واپس آؤ ۔ خواہ حج کرنے والا ابھی مکہ میں ہی ہو ۔ اور اپنے وطن واپس نہ گیا ہو ۔ البتہ بعض علماء نے اس سے صرف یہ مراد لیا ہے کہ جب مکہ سے گھر واپس پہنچ جاؤ ۔ اس آیت میں اس حاجی کا حکم بیان کیا گیا ہے ۔ جو موسمِ حج میں عمرہ اور حج دونوں ادا کرے ۔ اس کو حج قران یا تمتع کہتے ہیں ۔ ایسے حاجی پر قربانی واجب ہے ۔ جو ایک بکرا ہے ۔ یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہے ۔
یہ قربانی اس پر واجب نہیں جو فقط حج ادا کرے اور اس کے ساتھ عمرہ نہ کرے ۔ جو حج قران یا تمتع کریں لیکن انہیں قربانی میسر نہ ہو افلاس کی وجہ سے یا کسی اور قوی عذر کی وجہ سے قربانی نہ دے سکیں ۔ تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دس روزے رکھیں ۔ تین حج کے دنوں میں ۔۔ جو یوم عرفہ یعنی نویں ذالحج پر ختم ہوتے ہیں ۔ اور سات واپس وطن پہنچ کر روزوں کی شکل میں یہ کفارہ دینا اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ آدمی جب الله تعالی کا حکم پورا نہ کرسکے تو کہیں اس کا نفس اسے بغاوت یا نافرمانی کی طرف نہ لے جائے ۔ اس لئے اس کے بدلے روزے رکھے تاکہ اس کا نفس پاکیزہ اور اس کی نیت نیک رہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ ۔ آیہ ۔۱۹۶
حکم قربانی کی وضاحت

ذَلِكَ ۔۔۔ لِمَن ۔۔۔ لَّمْ يَكُنْ ۔۔۔أَهْلُهُ ۔۔۔حَاضِرِي ۔۔۔الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔۔۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ وَاعْلَمُوا ۔۔۔أَنَّ اللَّهَ ۔۔۔شَدِيدُ ۔۔۔الْعِقَابِ
یہ ۔۔۔ اس شخص کے لئے ۔۔ نہیں ہے ۔۔۔ اہل اس کا ۔۔۔ حاضر ۔۔۔ مسجد حرام ۔۔۔ اور تم ڈرو ۔۔ الله ۔۔۔ اور جان لو ۔۔ بے شک الله ۔۔ سخت ۔۔۔ عذاب دینے والا

ذَلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں ۔ اور الله جل شانہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ بے شک الله تعالی کا عذاب سخت ہے ۔
ذالك۔ ( یہ) ۔ اسم اشارہ ہے ۔ اور یہ اشارہ پہلی آیت کے مسئلہ کی طرف ہے ۔ یعنی تمتع ( حج اور عمرہ ملا کر ادا کرنا ) آیت کامقصد یہ ہے کہ حج اور عمرہ کو ملا کر ادا کر لینے کا فائدہ اٹھانے کی اجازت صرف باہر والوں کو ہے ۔ مکہ میں رہنے والوں کو نہیں ۔
حاضرى المسجد الحرام (مسجد حرام کے پاس ) ۔ مراد ہے کہ مکہ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے تمام باشندے یعنی میقات کی حد کے اندر رہنے والے سب اس میں شامل ہیں ۔ میقات ۔۔۔ اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حرم کی حدود شروع ہو جاتی ہے ۔ اور جہاں پہنچ کر حج اور عمرہ کی نیت کر لینا اور احرام باندھ لینا واجب ہو جاتا ہے ۔ مختلف اطراف سے خانہ کعبہ میں حج کے لئے آنے والوں کے لئے میقات الگ الگ ہے ۔
واتقوا الله ( الله سے ڈرتے رہو) ۔ یعنی ان تمام احکام کی بجا آوری اور تعمیل میں الله سبحانہ وتعالی کا خوف اور الله کی موجودگی کا تصور سامنے رکھو ۔ کہ تمام نیکیوں کی بنیاد تقوٰی ہے ۔
ایک بار پھر غور کیجئے کہ ہر حکم کے بعد تقوٰی کا ہی مطالبہ ہو رہا ہے ۔
شديد العقاب (سخت عذاب دینے والا ) ۔ علماء کا قول ہے کہ یہاں عذاب کے ساتھ شدید کا لفظ خاص طور پر اس لئے لایا گیا ہے کہ جس طرح بیت الله جیسے مقدس مقام میں انسان نیکی کرے ۔ تو اس کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ اسی طرح اگر یہاں پہنچ کر کسی گناہ کا مرتکب ہو تو اسے اس قدرمقدس مقام کے لحاظ سے سخت سزا بھی ملے گی ۔ پچھلے سبق میں جو رعایت بیان کی گئی تھی ۔ یہ اس کی شرط بیان کی گئی ہے ۔ رعایت یہ تھی کہ اگر لوگ حج اور عمرہ ملا کر کرنا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں ۔ البتہ انہیں اپنی استطاعت کے مطابق قربانی دینی ہو گی ۔ حج اور عمرہ ملا کر کرنے کی اجازت ان کے لئے ہے جو مکہ معظمہ اور اور اس کے آس پاس کی بستیوں کے رہنے والے نہ ہوں ۔
اس حکم کے ساتھ ایک مرتبہ پھر واضح کر دیا گیا ۔ کہ اصل چیز تو تقوٰی ہے ۔ہر حکم اور عبادت کو پورا کرتے وقت الله جل جلالہ کا خوف اور اس کی خوشنودی پیشِ نظر رہنی چاہئیے ۔ کیونکہ تمام احکام کا مقصود نفس کی پاکیزگی اور اخلاق کی تکمیل ہے ۔ الله تعالی کے یہ اعلٰی ترین احکامات ہیں ۔ جن پر اسلامی زندگی کی بنیاد کھڑی ہے ۔ اگر کسی نے انہیں بدلنے کی کوشش کی یا ان کا انکار کیا ۔ تو الله جل جلالہ اسے سخت سزا دے گا ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ آیۃ ۔ ۱۹۷(ا)
زمانہ حج اور اخلاقی حدود


الْحَجُّ ۔۔۔ أَشْهُرٌ ۔۔ مَّعْلُومَاتٌ ۔۔ فَمَن ۔۔۔ فَرَضَ ۔۔۔ فِيهِنَّ ۔۔۔ الْحَجَّ ۔۔۔ فَلَا رَفَثَ ۔۔۔ وَلَا فُسُوقَ ۔۔ وَلَا جِدَالَ ۔۔۔ فِي الْحَجِّ

حج ۔۔۔ مہینے ۔۔۔معلوم ۔۔ پس جو شخص ۔۔ لازم ۔۔۔ ان میں ۔۔ حج ۔۔ پس نہیں بے حجاب ہونا عورت سے ۔۔۔ اور نہ گناہ کرنا اور نہ جھگڑا کرنا ۔۔ حج میں

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ

حج کے چند مہینے معلوم ہیں ۔ پس جس نے ان میں حج لازم کر لیا تو عورت سے بے حجاب نہ ہو اور نہ حج کے زمانہ میں گناہ اور جھگڑا کرے ۔
اَشْهُرُ ۔( مہینے) ۔ حج کے لئے شوال ۔ ذی قعدہ اور ماہ ذالحج کے دس دن مقرر ہیں ۔ حج کے اصل ارکان ذی الحجہ کے دوسرے ہفتہ میں ادا ہوتے ہیں ۔
لیکن احرام دو ماہ پہلے شوال ہی کے مہینے سے باندھنا شروع ہو جاتا ہے ۔ احرام اس پوشاک کا نام ہے ۔ جو حرم ( میقات ) کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہر حاجی پر واجب ہو جاتی ہے ۔ یہ پوشاک کیا ہے ؟ بغیر سلی دو چادریں ۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله کا قول ہے حاجی جب چاہے احرام باندہ سکتا ہے ۔ لیکن ماہِ شوال سے پہلے اس کا احرام باندھنا ناپسندیدہ ہے ۔ ان کے نزدیک شوال سے پہلے بھی احرام باندھ لینا اس لئے جائز ہے کہ احرام حج کا رُکن نہیں ۔ بلکہ صرف حج کے لئے شرط ہے ۔
فَرَضَ فيهنّ الْحج ( ان میں حج لازم کر لیا ) ۔ یعنی حج کے موسم میں حج کرنے کی نیت کرلی اور حج اپنے اوپر واجب کر لیا ۔ اس کے لئے لازم کرنے کی عملی نشانی احرام باندھ لینا رَفَث ۔( عورت سے بے حجاب ہونا ) ۔ یہاں مراد ہے بیوی سے خلوت کے ساتھ مضصوص باتوں کا کرنا ۔
فُسُوق ۔( گناہ) ۔ اس سے مراد ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہ ہیں ۔
جِدَال (جھگڑا کرنا ) ۔ مار پیٹ ، ہاتھا پائی ، حجت ، تکرار ، گالی گلوچ اور نا شائستہ الفاظ سے خطاب کرنا ۔
اس آیت میں حج کے چند ضروری احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ حج کے مہینے مقرر کر دئیے گئے ہیں ۔ اور اس کے دوران خاص طور پر تین باتوں سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔
1- بیوی کے ساتھ اختلاط اور بے حجابی بالکل ممنوع ہے ۔ حتٰی کہ شہوانی خیالات زبان پر لانے کی بھی اجازت نہیں ۔ جس طرح روزہ میں کئی جائز امور سے پرھیز کا حکم ہے ۔ اسی طرح حج کے زمانہ میں بھی پوری طہارت اور پاکیزگی برقرار رکھنے کا حکم ہے ۔
2- تمام قسم کے چھوٹے اور بڑے گناہوں سے بچا جائے ۔ ظاہر ہے کہ احرام کی حالت میں جب کئی جائز کام بھی ناجائز ہو جاتے ہیں تو دوسرے گناہوں سے تو بچنے کی سختی سے تلقین لازمی تھی ۔
3- ہر قسم کے جھگڑے سے پرھیز کرنا چاہئیے ۔ حج کے موقع پر دنیا کے تمام حصوں سے لوگ آتے ہیں ۔ ہر عمر ، ہر قماش اور ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر کسی قسم کی بدکاری اور جھگڑوں کی طرف رغبت ہو سکتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے ان تمام باتوں سے پہلے ہی منع کر دیا ۔ تاکہ مسلمانوں میں پاکدامنی اور قوت برداشت پیدا ہو ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃبقرہ (آیہ۔۱۹۷-ب)
حج کا زاد راہ

وَمَا ۔۔ تَفْعَلُوا ۔۔۔ مِنْ ۔۔۔خَيْرٍ ۔۔۔يَعْلَمْهُ ۔۔۔اللَّهُ ۔۔۔وَتَزَوَّدُوا
اور جو ۔۔ تم کرتے ہو ۔۔۔ سے ۔۔۔ نیکی ۔۔ وہ جانتا ہے اس کو ۔۔۔ الله ۔۔۔ اور زاد راہ لے لیا کرو
فَإِنَّ ۔۔۔خَيْرَ ۔۔۔الزَّادِ ۔۔۔التَّقْوَى ۔۔۔وَاتَّقُونِ ۔۔۔يَا أُولِي الْأَلْبَابِ

پس بے شک ۔۔۔ بہتر ۔۔۔ زاد راہ ۔۔۔ تقوی ۔۔ اور مجھ سے ڈرتے رہو۔۔ اے عقلمندو

وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ

اور جو کچھ تم نیکی کرتے ہو الله تعالی اسے جانتا ہے اور زاد راہ لے لیا کرو بے شک بہتر زاد راہ تقوٰی ہے اور اے عقلمندو مجھ سے ڈرتے رہو

اور جو کچھ تم نیکی کرتے ہو الله تعالی اسے جانتا ہے۔ اور زاد راہ لے لیا کرو کہ بے شک بہتر زاد راہ تقوی ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہو جاہلیت کے زمانہ میں عربوں کے ہاں یہ رواج تھا کہ حج کو جاتے وقت سفر کی ضروریات ساتھ نہ لیتے تھے ۔ بالکل خالی ہاتھ چل پڑتے اور راستے میں لوگوں سے بھیک مانگتے ۔ ان کے نزدیک یہ بات بزرگی کی نشانی تھی ۔ بعض لوگ تو یہاں تک کرتے کہ حج کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنا تمام سرمایہ بالکل لُٹا جاتے ۔ یہ معمول ان لوگوں نے خوامخواہ اپنے دل سے گھڑ رکھا رھا ۔ حالانکہ یہ کسی طرح عبادت کا حصہ نہ تھا ۔ یہ چیز الله تعالی کے نزدیک ہرگز مقبول نہیں ہے ۔ کیونکہ اس طرح دوسروں پر بوجھ پڑتا ہے ۔ الله سبحانہ و تعالی نے فرمایا کہ روانہ ہوتے وقت ضرورت کے مطابق روپیہ پیسہ ساتھ لے لیا کرو ۔ اور اپنا بوجھ کسی دوسرے پر نہ ڈالا کرو ۔ الله تعالی نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے ۔ ظاہری نمائش اور بناوٹی پاکیزگی کو بالکل پسند نہیں فرماتا ۔ اس لئے اگرتم راستے کے لئے خرچ لے لو تو اس میں گناہ کی کوئی بات نہیں ۔ اور نیکی کے منافی نہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل چیز تقوٰی ہے ۔ یعنی برائی سے فطری طور پر پرھیز کرنا اور نیکی کی طرف فطری طور پر رغبت کرنا ۔ اس لئے الله جل شانہ سے ہی ڈرتے رہنا چاہئیے ۔ تقوٰی سے مراد یہ ہے کہ الله تعالی کا ہر حکم پورے خلوص ، دیانتداری اور اطاعت سے بجا لانا چاہئیے ۔ ہر کام صرف اسی کی خوشنودی کے لئے کرنا چاہئیے ۔ دکھ ، تکلیف ، پریشانی ، مصیبت اور آفت میں صرف اسی کو اپنا سہارا سمجھنا چاہئیے ۔ نجات کے لئے صرف اسی کو پکارنا چاہئیے ۔ سُکھ ، آرام اور چین میں صرف اسی کا شکر ادا کرنا چاہئیے ۔ ہر کام کا آغاز اسی کا نام لے کر اور ہر کام کا انجام اسی کے نام سے کرنا چاہئیے ۔ زندگی کے ہر میدان میں اسی کی مدد تلاش کرنی چاہئیے ۔ سارے معاملات طے کرنے میں صرف جائز طریقے اختیار کرنے چاہئیے ۔ اور منع کی ہوئی باتوں سے بچنا چاہئیے ۔ خوفِ خدا ہر وقت پیشِ نظر رکھناچاہئیے ۔ یہی تقوٰی ہے ۔ جس کے متعلق قرآن مجید میں بار بار حکم آتا ہے ۔ کہ اس کی اہمیت انسان کی زندگی میں بہت زیادہ ہے ۔ اسے بھول جانے سے انسان کی زندگی میں نا اُمیدی ، پریشانی اور ناکامی بھر جاتی ہے ۔ لہٰذا تقوٰی میں کمال حاصل کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشش کرنی چاہئیے ۔ حج تقوٰی پیدا کرنے کا اعلٰی ذریعہ ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه ١٩٨(ا)
دنیاوی فائدے


لَيْسَ ۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔جُنَاحٌ ۔۔۔أَن ۔۔۔ تَبْتَغُوا ۔۔۔فَضْلًا ۔۔۔مِّن ۔۔۔رَّبِّكُمْ
نہیں ۔۔تم پر ۔۔۔ گناہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔۔ تم تلاش کرو ۔۔ فضل ۔۔ سے ۔۔ تمہارا رب

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ

تم پر کچھ گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو

فَضْلاً (فضل ) فضل کے لفظی معنی زیادہ کے ہیں ۔ یہاں فضل سے مراد مال و دولت اور تجارت کے منافع ہیں۔ ان معنوں میں یہ لفظ متعدد جگہ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ۔ ایک صحابی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ زمانۂ جہالت میں عکاظ ، مجنہ اور ذو المجاز بڑی بھاری منڈیاں تھیں ۔ حج کے دنوں میں یہاں خوب تجارت ہوا کرتی تھی ۔اسلام قبول کر لینے کے بعد لوگوں نے اسے مناسب خیال نہ کیا ۔ کہ حج کے دنوں میں تجارت کی جائے ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ جو تاجر مالِ تجارت لے کر منٰی اور مکہ کے بازاروں کے لئے جاتے ہیں۔ یا جو اونٹ والے اپنے اونٹ بیچنے کے لئے مزدلفہ ، عرفات و منٰی لے جاتے ہیں ۔ ان کا حج نہیں ہوتا ۔ کیونکہ جہاں تجارت آگئی وہاں عبادت کہاں باقی رہی ۔
الله تعالی نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی ۔ اور قیامت تک کے لئے یہ بات واضح کردی کہ اسلام مال و زر اور دنیا کے خلاف نہیں ۔ بلکہ ان کاموں کے خلاف ہے جو انسان کو دنیا و عقبٰی کے خیال سے غافل کر دیں ۔ اسلام جس طرح آخرت کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے ۔ اسی طرح لوگوں کی دنیاوی فلاح و بہبود کا بھی خواہش مند ہے ۔ اور یہ خصوصیت اس کی ہر عبادت میں موجود ہے ۔ حتی کہ وضو ، نماز ، نماز باجماعت ، روزہ ، زکوة اور حج وغیرہ کے ارکان انسان کی روحانی قوت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کے دنیاوی ، مادی ، جسمانی ، معاشی اور سیاسی فہم و بہبود کو بڑھاتے ہیں ۔
حج کے سلسلہ میں دور دراز سےآنے والے مسلمان خشکی اور بحری سفر اختیار کرتے ہیں ۔ دنیا کے مختلف حصوں سے ملّتِ اسلامیہ کے لوگ جمع ہوتے ہیں ۔ اس موقع پر بے شمار تجارتی اور معاشی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں ۔ان باتوں کے پیش نظر قرآن مجید نے یہ اجازت دے دی کہ حج کرنے والے اصلی مقصد حج کو قرار دیں ۔ اور اس کے ساتھ اگر تجارت بھی کرلیں تو کوئی گناہ کی بات نہیں ، البتہ یہ ضروری ہے کہ تجارت غرض ہی نہ بن جائے ، اصل مقصد حج ہی رہے ۔
مِنْ رّبّكُمْ کا جملہ فرما کر یہ بھی بتا دیا کہ جو رزق یا فائدے تمہیں حاصل ہوتے ہیں ۔ یہ تمہاری اپنی ذاتی کوشش یا محنت کا نتیجہ نہیں ۔ یہ صرف الله تعالی کا فضل ہے ۔ وہ اپنی رحمت سے تمہیں دیتا ہے ۔ اس لئے تجارت اور کاروبار کرتے وقت بھی اس بات کی طرف نظر رکھو کہ جو منافع تمہیں ملے گا وہ الله تعالی کی طرف سے ہے ۔
ہر وہ کام جو انسان الله تعالی کے احکام کے مطابق انجام دیتا ہے اور اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتا اسلام ایسے کام کو داخل عبادت قرار دیتا ہے اور دین کے منافی نہیں کہتا ۔ اسلام جس چیز سے روکتا ہے وہ ذخیرہ اندوزی ، قیمتیں بڑھانا ، حرام کی تجارت کرنا اور ناجائز کاروبار ہیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه-١٩٨(ب)
عرفات اور مشعر حرام


فَإِذَا ۔۔۔ أَفَضْتُم ۔۔ مِّنْ ۔۔ عَرَفَاتٍ ۔۔فَاذْكُرُوا ۔۔ اللَّهَ ۔۔عِندَ ۔۔ الْمَشْعَرِ ۔۔الْحَرَامِ
پھر جب ۔۔ تم لوٹو ۔۔ سے ۔۔ عرفات ۔۔ پس یاد کرو ۔۔ الله ۔۔ پاس ۔۔ مشعر ۔۔ حرام

فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ

پھر جب تم (طواف کے لئے )عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے نزدیک الله تعالی کو یاد کرو ۔

اَفَضْتُم ( تم لوٹو) ۔ یہ لفظ افاضہ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں انبوہ در انبوہ چلنا یا واپس ہونا ۔ اصطلاح میں اس سے مراد عرفات سے مزدلفہ کو واپسی ہے ۔
عَرَفَاتٍ ( عرفات ) ۔ مکہ معظمہ سے جو سڑک مشرق کی طرف طائف کو جاتی ہے اس پر مکہ سے بارہ میل کے فاصلے پر کئی میل کے رقبے کا لمبا چوڑا میدان ہے ۔ اس کا نام عرفات ہے ۔ اس میدان میں ایک پہاڑی بھی واقع ہے اس کا نام بھی عرفات ہے ۔ جس کی بلندی سطح زمین سے ۲۰۰ گز ہے ۔ پورا سال یہ میدان بالکل سنسان پڑا رہتا ہے ۔ ۹ ذی الحجہ کو حاجیوں کی آمد سے اس میں بہت رونق ہوتی ہے ۔
حاجی ۸ ذالحجہ کی دوپہر تک منٰی میں آجاتے ہیں ۔ اور اگلے روز ۹ ذالحجہ کو سورج نکلتے ساتھ ہی عرفات کو روانہ ہو جاتے ہیں ۔ اور دوپہر کو عرفات کے میدان میں پہنچ جاتے ہیں ۔ دوپہر سے عصر کے وقت تک حاجیوں کو وہیں رہنا پڑتا ہے ۔ اس قیام کو اصطلاح میں "وقوف "کہا جاتا ہے ۔اس میدان میں حاضری حج کا سب سے اہم کام ہے ۔ عرفات کے میدان میں قیام کا یہ سارا وقت توبہ و استغفار اور الله تعالی کی یاد میں گزارنا چاہئیے ۔ ۔ جب سورج غروب ہونے کے قریب ہو مزدلفہ ( مشعر حرام ) کے لئے کوچ ہونا چاہئیے ۔ عرفات کے دن ظہر اور عصر کی نماز ملا کر عرفات کی مسجد نمرہ میں ادا کی جاتی ہے ۔ اور مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ واپس پہنچ کر عشاء کے وقت ادا کی جاتی ہیں ۔
اَلْمَشعَرِ الْحرام ( مشعر حرام ) ۔ مشعر کے لفظی معنی نشانی یا علامت کے ہیں ۔ اور احرام کا لفظ اس کی بزرگی کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ اس خاص مقام کا نام ہے جو مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے ۔ ویسے سارے مزدلفہ کو بھی مشعر الحرام ہی کہتے ہیں ۔ مزدلفہ مکہ سے تقریبا چھ میل کے فاصلہ پر ہے ۔ منٰی سے عرفات جانے کا ایک تو سیدھا راستہ ہے اور حاجی ۹ /کو عرفات اسی راستے سے جاتے ہیں ۔ لیکن عرفات سے واپسی کے لئے دوسرے راستے سے آنے کا حکم ہے ۔ اسی راستے میں مزدلفہ پڑتا ہے ۔ حاجیوں کے قافلے یہیں رات گزارتے ہیں ۔اور پہاڑی کے اوپر مسجد میں سارا وقت نماز ، عبادت اور توبہ استغفار میں بسر کرتے ہیں ۔ حج کے تمام اعمال میں سے فرض تین ہیں ۔
1) احرام باندھنا 2) ذوالحج کی ۹ تاریخ کو عرفات میں حاضر ہونا ۔ جسے وقوف عرفات کہتے ہیں ۔ 3) طواف
ان تینوں میں اہم ترین وقوف عرفات ہے ۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو مزدلفہ میں قیام کر کے الله تعالی کو یاد کرو ۔ توبہ و استغفار کرو ۔ اور الله تعالی کی عبادت میں مصروف رہو ۔
 
Top