• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه-١٩٨(ج)
ذکر و عبادت


وَاذْكُرُوهُ ۔۔ كَمَا ۔۔هَدَاكُمْ ۔۔ وَإِن ۔۔ كُنتُم ۔۔ مِّن ۔۔ قَبْلِهِ ۔۔ لَمِنَ ۔۔۔الضَّالِّينَ
اور اسے یاد کرو ۔۔ جیسا کہ ۔۔ سکھایا اس نے تم کو ۔۔ اور بے شک ۔۔ تھے تم ۔۔ سے ۔۔ اس سے پہلے ۔۔ سے ۔۔ نا واقف

وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ

اور اسے (اس طرح ) یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا اور بے شک اس سے پہلے تم نا واقف تھے
اَلضّالين (ناواقف) یہ ضال کی جمع ہے ۔ اس کے عام معنی گمراہ کے ہیں ، لیکن یہ لفظ غافل اور نا واقف کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں " ضالّ " سے مراد الله تعالی کے احکام سے نا واقفیت ہے ۔
ذکر کے معنی یاد کرنے کے ہیں ۔ ذاکر یاد کرنے والے کو کہتے ہیں۔ یہاں ذکر سے مراد عبادت الہی ہے ۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ الله تعالی کی عبادت اور یاد ان طریقوں سے کرو جو تمہیں الله تعالی کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بتائے ہیں ۔ ان طریقوں کو چھوڑ کر اپنی طرف سے عبادت کے طریقے گھڑ لینا اور نئی صورتیں قائم کر لینا سخت گناہ ہے ۔ دنیا اور دنیا والوں کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان کا سب سے بڑا حملہ یہی رہا ہے کہ انہیں حقیقی راہ سے ہٹا کر من گھڑت طریقوں میں الجھا دیتا ہے ۔ جاہلیت کے زمانے میں بھی لوگ بے شمار رسموں اور غلط عقیدوں میں مبتلا تھے ۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے اپنے بنائے ہوئے مخصوص طریقے الله تعالی کے قُرب کا باعث ہو سکتے ہیں ۔ لیکن قرآن مجید کی اس آیت نے پوری طرح ان گمراہیوں اور غلط فہمیوں کی تردید کر دی ۔
قرآن مجید میں لفظ " الضالّین استعمال کرکے یہ بھی واضح کردیا ۔ کہ جب تک انسان الله تعالی کی دی ہوئی روشنی سے کام نہ لے ۔ اس کی بھیجی ہوئی وحی کو مشعلِ راہ نہ بنائے ۔ اور اس کی نازل کی ہوئی تعلیم کو بنیادِ عمل نہ ٹھرائے وہ نا واقف اور بھٹکتا ہی رہے گا ۔ وہ اپنی طرف سے کتنا ہی زور لگا کر کوئی راستہ تلاش کرے اور کیسے ہی پرستش کے طور طریقے ایجاد کرلے ، پوجا کی صورتیں سوچ لے لیکن یہ سب باتیں گمراہی کی طرف لے جائیں گی ۔ اصل طریقہ وہی ہے جو الله تعالی بتاتا ہے ۔ اس لئے اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی خود ساختہ ہر تدبیر ناقص ہو گی ۔ اور اس پر چلنا گمراہی کا سبب ہو گا ۔
منزلِ مقصود پر پہنچنے کے لئے صحیح ترین راہنما قرآن مجید ہے ۔ اس میں بیان کی ہوئی باتیں اس ہستی کی بتائی ہوئی ہیں ۔ جو دانا و بینا ، حاضر و ناظر ، حلیم و حکیم اور خالق و مالک ہے ۔ وہ ہماری ضروریات کو اچھی طرح جانتا ہے ۔ اس لئے اپنے وسیع علم سے کام لے کر ایسی راہ بتاتا ہے جو آسان اور سیدھی ہو ۔ ہمیں چاہئیے کہ صرف اسی راہ کو معتبر مانیں ۔ اور انسانوں کے گھڑے ہوئے تمام خود ساختہ طریقوں کو چھوڑ دیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه- ١٩٩
مساوات کا حکم

ثُمَّ ۔۔ أَفِيضُوا ۔۔ مِنْ ۔۔ حَيْثُ ۔۔ أَفَاضَ ۔۔ النَّاسُ
پھر ۔۔ پھرو ۔۔ سے ۔۔ جہاں ۔۔ پھریں ۔۔ لوگ
وَاسْتَغْفِرُوا ۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ إِنَّ ۔۔ اللَّهَ ۔۔ غَفُورٌ ۔۔رَّحِيمٌ

اور مغفرت چاہو ۔۔ الله ۔۔ بے شک ۔۔ اللّٰه ۔۔ بخشنے والا ۔۔ مہربان
ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانہ میں قریش بیت الله کے مجاور تھے ۔ اور اس بنا پر وہ اپنے آپ کو حمس کہتے تھے ۔ حج کے دنوں میں عام لوگ عرفات کے میدان میں جاکر قیام کرتے ۔ لیکن قریش مزدلفہ ہی تک رہتے ۔ کیونکہ مزدلفہ حرم کی حدود میں ہے ۔ اور عرفات اس سے باہر ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ حرم کی حدود سے باہر جانا ان کی بزرگی اور عزت کے خلاف ہے ۔ اور وہاں جا کر ان کا عوام سے ملنا مذہبی فضیلت کے منافی ہے ۔ قرآن مجید نے اس غلط خیال کی تردید کی ۔ یہاں الله تعالی نے ان دو بڑی غلطیوں کو درو کیا جن میں دنیا ہمیشہ سے مبتلا رہی ۔ اور آج بھی بہت سے لوگ اتنی ترقی کے بعد بھی ان میں مبتلا ہیں ۔
اوّل یہ کہ قومی امتیاز اور نسلی برتری کوئی چیز نہیں ۔ الله سبحانہ و تعالی کی نظر میں سب یکساں اور برابر ہیں ۔ اس کے ہاں اگر کسی چیز کی قدر ہے تو وہ تقوٰی اور پرھیزگاری ہے ۔ اس لئے مساوات کا ہونا ضروری ہے ۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام قومی اور نسلی امتیازات مٹا دئیے جائیں ۔ اور ہر رنگ و نسل کے انسانوں کو ایک جیسا سمجھا جائے ۔
دوسرے یہ کہ قوموں کی تباہی اور بربادی اس وقت شروع ہوجاتی ہے ۔ جب تعلیم یافتہ اونچے طبقے کے لوگ اور عوام میں تعلق باقی نہ رہے ۔ وہ ایک دوسرے سے ملنا چھوڑ دیں ۔ حالانکہ پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی امداد کے لئے قوت وتوانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ عام لوگوں سے اپنا تعلق توڑ لیں گے ۔ ان سے میل جول بند کر دیں گے تو رفتہ رفتہ وہ خود تباہ ہو جائیں گے ۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی نہ بھولنی چاہئیے کہ عوام کو ہر وقت راہنمائی اور اصلاح کرنے والوں کی ضرورت رہتی ہے ۔جب انہیں سیدھی راہ بتانے والا کوئی نہ ملے گا تو وہ گمراہی کی طرف بڑھتے جائیں گے ۔ حتی کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہ رہے گا ۔
اس آیت میں الله تعالی نے فرمایا کہ سب ایک ہی جگہ قیام کریں گے ۔ اور ایک ہی جگہ سے ان کی واپسی ہو گی ۔ گویا کسی میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں کیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ ہی الله تعالی نے فرمایا ۔ کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگو ۔ توبہ استغفار کرو الله تعالی سے بخشش چاہو آئندہ غلط حرکات سے باز رہنے کا وعدہ کرو ۔ الله تعالی تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ تمہاری خطائیں معاف فرمائے گا ۔ وہ بہت بخشش والا رحمت والا ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه - ٢٠٠(ا)
مناسک حج کے بعد

فَإِذَا ۔۔ قَضَيْتُم ۔۔ مَّنَاسِكَكُمْ ۔۔ فَاذْكُرُوا ۔۔ اللَّهَ
پس جب ۔۔ پورے کرچکو ۔۔ حج کے کام ۔۔ پس ذکر کرو ۔۔ الله
كَذِكْرِكُمْ ۔۔۔ آبَاءَكُمْ ۔۔۔ أَوْ ۔۔۔ أَشَدَّ ۔۔۔ذِكْرًا

جیسا ذکر کرنا تمہارا ۔۔ اپنے باپ دادا ۔۔ یا ۔۔ اس سے بھی زیادہ ۔۔ ذکر

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا
پھر جب اپنے حج کے کام کو پورا کر چکو تو اللّٰه تعالی کو یاد کرو جیسے تم یاد کرتے تھے اپنے باپ دادا کو بلکہ اس سے بھی زیادہ یاد کرو ۔

قَضَيْتُمْ (پورے کر چکو ) ۔ یہ لفظ قضا سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بجا لانا یا کر چکنا ۔ خصوصاً عبادت ادا کر لینا ۔
مَنَاسِكَنَا (اپنے حج کے کام ) ۔ مناسک سے مراد وہ مراسم اور عبادت ہیں جن کا تعلق حج سے ہے ۔ انہیں مناسک کے علاوہ شعائر بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ اصطلاح حج کی عبادتوں کے لئے مخصوص ہے ۔
جاہلیت کے زمانے میں دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر حاجی منٰی کے میدان میں تین دن تک (١٠/١١/١٢ذوالحجه) جمع رہتے ۔ اور یہاں اپنے قبیلے اور باپ دادا کے کارناموں کا ذکر کرتے ۔ ان کی فضیلتیں اور بڑائیاں بیان کرتے ۔ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر فخریہ انداز میں خاندانی عظمت کا اظہار کرتے ۔ باپ دادا کی بزرگی بیان کرنے سے کیا فائدہ ۔
انسان کو برتری اور بزرگی دینے والا الله تعالی ہی ہے ۔ سب کا پیدا کرنے والا۔ پرورش کرنے والا ۔ عقل ، سمجھ ، دانائی اور حکمت عطا کرنے والا وہی ہے ۔ اس لئے ہر قسم کی تعریف اور ثنا اسی کے لئے مخصوص ہونی چاہئیے ۔ اس کے سوا کسی دوسرے کی بزرگی اور بڑائی کے گیت گانا اور انہیں معبود کا درجہ دینا شرک کے برابر ہے ۔
آپ دیکھتے ہیں کہ جب سے حج کا ذکر شروع ہوا ہے ۔ مساوات ، پرھیزگاری ، عاجزی اور تزکیہ نفس پر برابر زور دیا جا رہا ہے ۔ بار بار الله تعالی کے ذکر ، عبادت اور توبہ و استغفار کی تلقین کی جا رہی ہے ۔ حرم کی حدود میں داخل ہوتے ہی سب کو ایک ہی قسم کا لباس پہننے کا حکم ہے ۔ پھر بعض ان جائز کاموں سے بھی پرھیز کرنے کا حکم ہے جو اس راہ میں حائل ہو سکتے تھے ۔ بہت سی دل پسند اور مرغوب طبع باتوں سے باز رہنے کو کہا گیا ہے ۔ قدم قدم پر لبیک یعنی " اے الله میں حاضر ہوں " کہنے کا حکم ہے ۔ مسلسل ذکرِ الٰہی کی ھدایت کی گئی ہے ۔ عبادت کی یہ خصوصیت صرف اسلام میں ہی پائی جاتی ہے ۔
ہمیں چاہئیے کہ الله تعالی کے ان احکام کو غور سے سنیں ۔ ان پر عمل کریں ۔ زندگی کی اصلاح کریں حرام اور ناجائز چیزوں سے پرہیز کریں ۔ اس کا ذکر بلند کریں ۔ لوگوں کو راہ حق کی دعوت دیں ۔ اپنے اندر تقوٰی پیدا کریں ۔ اور دنیا کی اور دنیا کی قوموں کے لئے اچھے اخلاق اور بہتر اعمال کا زندہ نمونہ بن کر مثال قائم کر دیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه - ٢٠٠(ب)
دنیا کے طلب گار

فَمِنَ ۔۔ النَّاسِ ۔۔ مَن ۔۔ يَقُولُ ۔۔ رَبَّنَا ۔۔ آتِنَا
پھر کوئی ۔۔ لوگوں ۔۔ میں سے ۔۔ وہ کہتا ہے ۔۔ رب ہمارے ۔۔ دے ہمیں
فِي ۔۔ الدُّنْيَا ۔۔ وَمَا ۔۔ لَهُ ۔۔ فِي ۔۔ الْآخِرَةِ ۔۔ مِنْ ۔۔خَلَاقٍ

میں ۔۔ دنیا ۔۔ اور نہیں ۔۔ اس کے لئے ۔۔ میں ۔۔ آخرت ۔۔ سے ۔۔ حصہ

فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ

پھر لوگوں میں سے جو شخص کہتا ہے اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے اور اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ۔

دنیا میں بعض انسان ایسے بھی پائے جاتے ہیں جن پر دنیا کی ہوس اس قدر غالب ہے کہ وہ اسے ہی اپنا انتہائی مقصد سمجھ بیٹھے ہیں ۔ ان کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی اور فتح یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مادی فائدے حاصل کریں ۔ مال و زر کے ڈھیر لگائیں ۔ دولت وثروت اکٹھی کر لیں ۔ اس کی جستجو میں وہ اندھے ہوئے جاتے ہیں ۔ دنیا کہ یہ طلبگار حرص و لالچ کے چکر میں پھنس کر اپنی عاقبت اور حسنِ انجام کو بھی اس دوڑ دھوپ میں قربان کر دیتے ہیں ۔
اس مرض میں وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو اخلاق میں پست ۔ معاملات میں کھوٹے ۔ برتاؤ میں خود غرض ۔ آخرت کے انکاری اور عارضی فائدوں کے دیوانے ہوں ۔ ان کی نگاہ ہمیشہ قریبی نفع پر ہی رہتی ہے ۔ یہ لوگ دیر پا نتائج کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ ہر کام میں وہ اسی چیز کے متمنی رہتے ہیں ۔ جس کا جلدی سے انہیں پھل مل جائے ۔ صبر اور تحمل کی ان میں طاقت نہیں ہوتی غرض اس دوڑ دھوپ اور کوشش میں وہ اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ اگر عبادت کریں اور الله تعالی سے دعا بھی مانگیں یا کوئی نیک کام بھی کریں تو اس میں بھی ان کا مقصد صرف دنیاوی فائدے حاصل کرنا ہوتا ہے ۔
وہ الله تعالی کو محض اس لئے پکارتے ہیں کہ وہ ان کے پاس روپے پیسے کے ڈھیر لگا دے ۔ ان کی مادی ضروریات پوری کر دے ۔ جہاد میں صرف اس لئے حصہ لیتے ہیں کہ مال غنیمت ہاتھ آ جائے ۔ حج صرف اس لئے کرتے ہیں کہ تجارتی فائدے سمیٹ لیں ۔ نماز اور زکوۃ اس لئے ادا کرتے ہیں کہ لوگوں کا اعتماد جیت لیں ۔اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں ۔ ان لوگوں کے نزدیک جنت اور آخرت کی نعمتیں کوئی چیز نہیں ۔ وہ قیامت کو ایک بے کار عقیدہ سمجھتے ہیں۔ مرنے کے بعد کی یقینی زندگی ان کے خیال میں ایک انہونی سی بات ہے ۔ زندگی کے اعمال کا بدلہ وہ نہیں مانتے ۔ ان کے نزدیک زندگی بس دنیا کی ہی ہے اور کامیابی صرف دنیاوی ہی ہے ۔ یہ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ منافقانہ اور کافرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا ہماری مسلسل زندگی کا ایک مختصر سا حصہ ہے ۔ باقی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی ہمیں موت کے بعد ہی نصیب ہو گی ۔ وہ ہمارے ان اعمال کا پھل ہو گی جو ہم اس دنیا میں کریں گے ۔ آخرت کی زندگی ابدی ، قائم و دائم اور ختم نہ ہونے والی زندگی ہے ۔ اس کا آرام اور کامیابی اصل کامیابی ہے ۔ چاہئیے تو یہ کہ اپنی زندگی کو اس طرح استوار کریں کہ یہ ہماری آنے والی زندگی کے لئے کامیابی کا زینہ بنے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه- ٢٠١)
دنیا اور آخرت کے طالب

وَمِنْهُم ۔۔۔ مَّن ۔۔۔ يَقُولُ ۔۔ رَبَّنَا ۔۔ آتِنَا ۔۔فِي ۔۔۔الدُّنْيَا
اور ان میں سے ۔۔۔ جو ۔۔ کہتا ہے ۔۔ ہمارے رب ۔۔ دے ہمیں ۔۔ میں ۔۔ دنیا
حَسَنَةً ۔۔ وَفِي ۔۔ الْآخِرَةِ ۔۔۔ حَسَنَةً ۔۔۔ وَقِنَا ۔۔۔ عَذَابَ ۔۔۔النَّارِ

بھلائی ۔۔ اور میں ۔۔ آخرت ۔۔۔ بھلائی ۔۔ اور بچا ہمیں ۔۔ عذاب ۔۔ آگ

وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

اور کوئی ان میں سے کہتا ہے اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں خوبی دے اور آخرت میں خوبی ( دے ) اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ۔

پچھلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو صرف دنیا کے طلبگار ہیں ۔ وہ اگرچہ الله تعالی کا انکار تو نہیں کرتے لیکن آخرت کو بالکل نہیں مانتے ۔ ان کی دعائیں ۔ التجائیں ۔ تمنائیں اسی مادی دنیا کی ترقیوں تک محدود رہتی ہیں ۔ اور ان کی عبادت کا مقصد بھی صرف دنیا کے فوائد کا حصول ہوتا ہے ۔ الله تعالی نے ان کی سزا یہ بتائی کہ آخرت میں انہیں کسی قسم کا ثواب اور حصہ نہیں ملے گا ۔ کیونکہ وہ جو کچھ چاہتے ہیں اور جس کے لئے کوشش کرتے ہیں وہ انہیں دنیا میں مل جائے گا ۔ اب جبکہ انہوں نے اس دنیا میں اپنا مطلب پا لیا تو آخرت میں ان کے حصے کچھ نہیں آئے گا ۔
موجودہ سبق میں ان صحیح خیال اور درست کردار مؤمنوں کا ذکر ہے جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ جن کے نزدیک قیامت اور مکافات عمل ضرور پیش آئیں گے ۔ اس لئے ان کی نظر محض دنیا پر نہیں بلکہ آخرت پر بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ آخرت سے منہ موڑ کر صرف دنیا نہیں چاہتے ۔ اور ایسے کام نہیں کرتے جن سے انہیں دنیا کا فائدہ تو مل جائے لیکن آخرت کا ثواب جاتا رہے ۔ وہ اپنے معاملات ، برتاؤ اور معاشرت میں حسنِ انجام کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔
حسنۃ ۔ سے یہ ظاہر ہے کہ مؤمن خیر و خوبی کا طالب ہے ۔ دنیا کی بھی اور آخرت کی بھی ۔ دنیا میں وہ نیک عمل کرنے کی توفیق مانگتا ہے ۔ اپنی دعاؤں اور عبادتوں سے وہ نیک عملی اور نیکو کاری کی استعداد اور طاقت طلب کرتا ہے ۔ اور آخرت میں اس نیک عملی اور نیکو کاری کا نیک پھل مانگتا ہے ۔ اور دنیا اور آخرت دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے ۔ دنیا میں اعلٰی اخلاق اور عمدہ معاملات کرتا ہے ۔ اور آخرت کے لئے توشہ بناتا ہے ۔ اور الله تعالی سے دعا مانگتا ہے کہ مجھے دوزخ کی آگ سے بچا ۔ مجھے جنت میں جگہ دے اور کامیابی نصیب کر ۔ بہترین انسان کی زندگی کا معیار یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی اور زندگی کے معاملات میں دنیا اور آخرت دونوں کو پیشِ نظر رکھے اور جہنم کے عذاب سے ڈرتا رہے ۔
یہ بات یاد رہے کہ اسلام نے دنیا اور آخرت کا مقابلہ تو بتلایا ہے ۔ لیکن دین کا دنیا سے مقابلہ نہیں کیا ۔ مبارک ہیں وہ انسان جو دنیا میں ایسی زندگی بسر کریں کہ ساتھ ہی ان کی آخرت بھی سنور جائے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه- ٢٠٢)
محاسبہ اعمال

أُولَئِكَ ۔۔ لَهُمْ ۔۔۔ نَصِيبٌ ۔۔ مِّمَّا ۔۔ كَسَبُوا ۔۔۔وَاللَّهُ ۔۔ سَرِيعُ ۔۔۔ الْحِسَابِ
یہی لوگ ۔۔ ان کے لئے ۔۔ حصہ ۔۔ اس سے جو ۔۔ کمایا انہوں نے ۔۔ اور الله ۔۔ جلد ۔۔ حساب

أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

انہی لوگوں کے لئے ان کی کمائی سے حصہ ہے اور الله تعالی جلد حساب لینے والا ہے ۔

قرآن مجید نے پچھلی دو آیتوں میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ ایک وہ جو صرف دنیا کی زندگی میں ہی ہر قسم کی کامیابی چاہتے ہیں ۔ اپنے ہر عمل اور ہر عبادت سے ان کا مقصود صرف دنیا کمانا ہوتا ہے ۔ وہ نہ قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ دوسری زندگی کے نتائج پر ۔ اس لئے اپنی محنت اور کوشش کا پھل وہ اسی دنیا میں مانگتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں کوئی اجر نہیں ملے گا ۔
دوسرے وہ لوگ جو الله تعالی ، یوم قیامت اور دوسری زندگی سب پر ایمان رکھتے ہیں اپنی نیکیوں کے بدلے صرف دنیاوی جاہ و جلال ہی نہیں مانگتے بلکہ ایسے کام کرتے ہیں کہ ان کی دنیا اور عاقبت دونوں درست ہو جائیں ۔ دنیا کے علاوہ انہیں اُخروی زندگی میں بھی آرام ملے گا ۔ گویا وہ دونوں زندگیوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھتے ہیں ۔ آخرت بیچ کر دنیا نہیں کماتے اور نہ دنیا ترک کرکے آخرت کی تلاش کرتے ہیں ۔ بلکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی چاہتے ہیں ۔ وہ دوزخ کی آگ سے بچنے کے آرزومند ہیں ۔ اور اس سے بچنے کے لئے ایسے کاموں میں نہیں الجھتے جو انہیں دوزخ میں ڈلوا دیں ۔
ان دوسری قسم کے لوگوں کا انجام آج کی آیت میں بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی یہ کہ ان لوگوں کو ان کے نیک اعمال کے عوض آخرت میں نیک اجر ملے گا ۔ ان کی خواہش کے مطابق انہیں دوزخ سے دور رکھا جائے گا ۔ ان کی بھول چوک معاف کر دی جائے گی ۔ جنت میں رہنے کو جگہ دی جائے گی ۔ اور وہ دیکھ لیں گے کہ دنیا کی زندگی کے بعد ایک آخرت کی زندگی بھی ہے ۔ دنیا کا مال و متاع اس زندگی کے لطائف کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ۔ دنیا کی آسائشیں ، عزت اور مرتبے سب عارضی اور ناپائیدار تھے ۔ اس کے مقابلہ میں جنت کی نعمتیں ابدی اور سکون بخش ہیں ۔ یہاں کا آرام اور چین ہمیشہ رہنے والا ہے ۔
سريع الحساب کہہ کر الله تعالی نے ان لوگوں کو تنبیہہ کی ہے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف دنیا مانگتے ہیں ۔ انہیں بتا دیا کہ الله تعالی بہت جلد حساب لینے والا ہے ۔ قیامت کچھ دور نہیں ۔ اس دن یہ لوگ دیکھ لیں گے کہ آخرت کو بھول کر دنیا میں ہی اپنے اعمال کا اجر مانگ کر وہ کتنے خسارے میں رہے ۔ دوسری طرف اس جملے سے الله تعالی نے ان لوگوں کو تسکین دی ہے جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی چاہتے ہیں ۔ انہیں بتا دیا کہ تمہیں بہت جلد تمہارے نیک کاموں کا پورا پورا اجر ملے گا ۔اس لئے تم اپنی اس روش پر مزید پختہ ہو جاؤ ۔ الله سبحانہ و تعالی نے دنیا کو مقدم بیان کیا ہے اور آخرت کی دعا کا ذکر بعد میں کیا ہے ۔ یعنی اسلام دنیا کا مخالف نہیں ۔ بلکہ چاہتا ہے کہ دنیا کے کام آخرت کے تصور سے کئے جائیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه-٢٠٣-(ا)
حج کے ایّام

وَاذْكُرُوا ۔۔ اللَّهَ ۔۔ فِي ۔۔۔ أَيَّامٍ ۔۔۔مَّعْدُودَاتٍ
اور ذکر کرو ۔۔ اللّٰه ۔۔ میں ۔۔ دن ۔۔ گنتی کے چند

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ

اور گنتی کے چند (مقررہ ) دنوں میں الله تعالی کو یاد کرو ۔

ايّاما معدودات (گنتی کے چند دن ) ایام کا واحد یوم ہے ۔ اور معدودات عدد سے ہے ۔ ان دنوں سے مراد ذی الحج کی دسویں ، گیارھویں اور بارھویں تاریخیں ہیں ۔ انہیں اصطلاح میں " ایّام تشریق بھی کہتے ہیں ۔ تشریق کے معنی قربانی سکھانے کے ہیں ۔ ان دنوں میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے ۔
تمام حاجی نو ذوالحجہ کو ظہر سے مغرب کے وقت تک عرفات میں جمع رہتے ہیں ۔ وہاں سے سورج غروب ہونے تک واپسی شروع ہو جاتی ہے ۔ رات مزدلفہ میں قیام کرتے ہیں ۔ اگلے دن یعنی ۱۰ذ والحجہ کو منٰی میں پہنچ جاتے ہیں ۔ منٰی مکہ معظمہ سے شمال مغرب میں چار میل کے فاصلے پر ہے ۔ کسی زمانے میں یہ ایک میدان تھا ۔ اب یہاں پر بہت سی پختہ اور عالیشان عمارتیں بن گئی ہیں ۔ ہر طرف خیمے لگے ہوتے ہیں ۔ اور خوب رونق ہوتی ہے ۔ حاجی ذوالحجہ کی بارھویں تاریخ کی شام تک یہاں رہتے ہیں ۔ اور حج کے سلسلے میں کئی واجبات اور سنتیں یہاں بجا لاتے ہیں ۔ مثلا قربانی کرتے ہیں ۔ شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہیں سر منڈواتے ہیں اور حالت احرام سے باہر آجاتے ہیں اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان دنوں میں یہاں الله کو خوب یاد کیا کرو ۔ اس کی یاد اور عبادت میں مشغول رہو ۔ ان دنوں میں الله کی یاد کی ایک خاص صورت یہ ہے کہ ہر حاجی دسویں تاریخ کو بڑے پتھر ( جمرہ عقبیٰی پر سات کنکریاں مارے ۔ اور ہر کنکری کے ساتھ الله اکبر کہتا جائے ۔ کنکریاں مارنے کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے ۔ اسی طرح گیارہ اور بارہ تاریخ کو یکے بعد دیگرے تینوں پتھروں پر سات سات کنکریاں مارے ۔ لیکن ان پر کنکریاں سورج ڈھلنے کے بعد مارنی ہوں گی ۔ اس کے بعد مکہ جانے کی اجازت ہے ۔
آپ نے دیکھا جب سے حج اور اس کے احکام کا بیان شروع ہوا ہے ذکر الہی کی تاکید قرآن مجید نے بار بار کی ہے ۔ یوں بھی دل کے سکون اور روح کی پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ذکر الٰہی ہے ۔ اور حج کے ساتھ تو اس کی خاص مناسبت ہے ۔ دنیا کے تمام گوشوں سے مختلف نسل اور مختلف مزاجوں کے لوگ یہاں ایک جگہ جمع ہوتے ہیں ۔ سفر کی مشکلیں ، پردیس کی تکلیفیں، وطن کی یاد ، اہل و عیال سے علیحدگی تمام ایسی باتیں ہیں ۔ جن سے ہر انسان کا پریشان ہو جانا لازمی ہے ۔ ایسے اجتماعوں میں ایک دوسرے سے الجھ جانا ، سخت کلامی اور کشمکش کا واقع ہو جانا معمولی بات ہے ۔ لیکن حج میں ایسی باتوں کا امکان نہیں ۔
الله تعالی نے فرمایا کہ حاجی ان مشقتوں کو بھول کر صرف ایک چیز کی طرف دھیان دیں اور وہ ہے ذکر الٰہی ۔ اس کی اطاعت کریں ۔ اسی کے احکام سننے سنانے میں مصروف رہیں ۔ اسی کی حمد و ثنا میں مگن رہیں ۔ کثرتِ تکبیر میں باقی سب کچھ بھول جائیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه-٢٠٣(ب)
نیکی کی اصل تقوٰی ھے


فَمَن ۔۔ تَعَجَّلَ ۔۔ فِي ۔۔ يَوْمَيْنِ ۔۔ فَلَا إِثْمَ ۔۔ عَلَيْهِ ۔۔وَمَن ۔۔تَأَخَّرَ
پھر جو کوئی ۔۔ جلدی کی اس نے ۔۔ میں ۔۔ دو دن ۔۔ پس نہیں گناہ ۔۔ اس پر ۔۔ اور جو ۔۔ دیر کی اس نے
فَلَا إِثْمَ ۔۔ عَلَيْهِ ۔۔ لِمَنِ ۔۔ اتَّقَى ۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔ اللَّهَ ۔۔ وَاعْلَمُوا ۔۔ أَنَّكُمْ ۔۔ إِلَيْهِ ۔۔۔ تُحْشَرُونَ

پس نہیں گناہ ۔۔ اس پر ۔۔ اس کے لئے ۔۔ جو ڈر گیا ۔۔ اور ڈرتے رہو ۔۔ الله ۔۔ بے شک تم ۔۔ اس کی طرف ۔۔ تم سب جمع ہو گے

فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

پھر جو کوئی دو ہی دن میں جلدی چلا گیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو کوئی رہ گیا تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں جو کہ تقوی اختیار کرتا ہے ۔ اور الله سے ڈرتے رہو بے شک تم اسی کے پاس جمع ہو گے ۔

جیسا کہ پچھلے سبق میں بیان کیا گیا ہے عبادت کے خاص تین دن ہیں جنہیں ایام تشریق کہتے ہیں ۔ یعنی ۱۰/۱۱/۱۲ذوالحجہ ۔ لیکن اگر کوئی شخص بارھویں تاریخ کے بعد بھی وہاں ٹہرتا ہے اور ذکرِ الٰہی کرتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ اور اگر کوئی شخص صرف دو ہی دن وہاں ٹہرنے کے بعد مکہ کو روانہ ہو جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔
اس آیت سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اصل چیز تقوٰی ہے (الله کا ڈر اور خوف ) یعنی ان چیزوں سے پرھیز کرنا ۔ جن سے الله تعالی نے منع کیا ہے ۔ اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کے پاس بھی نہ پھٹکنا ۔ اس کی اطاعت میں کوئی عذر اور بہانہ نہ تلاش کرنا ۔ اس کی خوشنودی کو مقصد بنائے رکھنا ۔ اس کے احکام پر عمل کرنا اور دوسروں کو ترغیب دینا ۔ یوم حشر کو سامنے رکھنا ۔ موت کے بعد زندگی پر ایمان رکھنا اور اس کے لئے سامان کرنا ۔
شرعی احکام کی تعمیل میں کچھ بے قاعدگی کچھ مجبوریوں کی بنا پر ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہ مجبوریاں صرف اسی شخص کی مانی جائیں گی ۔ جو نیک نیتی ، پاکدامنی اور پرھیزگاری کا پابند ہے ۔ کسی بغاوت اور سرکشی سے الله کے احکام کے خلاف عمل نہیں کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص الله تعالی کے حکموں کے ماننے میں ہرگز ہرگز بہانہ یا عذر تلاش نہیں کرے گا ۔ اصل چیز جس کا انسان میں پیدا کرنا درکار ہے وہ تقوٰی ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے اگر لاچاری یا مجبوری کی بنا پر کچھ کوتاہی ہو جائے تو معاف کی جاسکتی ہے ۔
قرآن مجید تقریبا ہر حکم کے ساتھ تقوٰی الٰہی کی تلقین کرتا ہے ۔ اس لئے کہ انسانی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے ۔ الله تعالی کے احکام سے مقصود انسانی زندگی میں طہارت ، پاکیزگی اور عمدگی پیدا کرنا ہے ۔ لیکن اگر ان خصوصیتوں کے ہوتے کوئی شخص احکام بجا لانے سے کچھ مجبور ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں
یہاں حج کا بیان ختم ہوتا ہے ۔۔۔۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه - ٢٠٤)
قسمیں کھانے والے جھگڑالو

وَمِنَ ۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔ مَن ۔۔۔ يُعْجِبُكَ ۔۔۔ قَوْلُهُ ۔۔۔ فِي
اور سے ۔۔۔ لوگ ۔۔ جو ۔۔ تجھے پسند آتی ہے ۔۔۔ اس کی بات ۔۔ میں
الْحَيَاةِ ۔۔۔ الدُّنْيَا ۔۔۔ وَيُشْهِدُ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ مَا ۔۔۔ فِي ۔۔۔ قَلْبِهِ۔۔۔ وَهُوَ ۔۔۔ أَلَدُّ ۔۔۔الْخِصَامِ

زندگی ۔۔ دنیا ۔۔ اور وہ گواہ بناتا ہے ۔۔۔ الله ۔۔ پر ۔۔ جو ۔۔ میں ۔۔ اس کے دل ۔۔۔ اور وہ ۔۔ سخت ۔۔ جھگڑالو

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ

اور لوگوں میں سے وہ شخص جس کی بات آپ کو پسند آتی ہے دنیا کی زندگانی کے کاموں میں اور وہ اپنے دل کی بات پر الله کو گواہ کرتا ہے اور وہ سخت جھگڑالو ہے ۔
و من الناس ۔(اور بعض آدمی ) ضروری نہیں کہ " بعض " سے صرف ایک ہی آدمی مراد ہو ۔ ایک بھی ہو سکتا ہے اور اسی فطرت کے بہت سے آدمی بھی مراد ہو سکتے ہیں ۔
قوله ۔ (اس کی بات )۔ یعنی اس کا یہ دعوٰی کہ وہ اسلام پر قربان ہونے کو تیار ہے ۔ اسے اسلام سے بہت محبت ہے ۔
فى الحيٰوة الدنيا ۔ (دنیا کی زندگانی کے کاموں میں )۔ یہاں " فی " سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے ۔ کہ اسے اپنی چرب زبانی دنیا حاصل کرنی ہوتی ہے آخرت نہیں ۔ اور وہ دنیاوی امور کے متعلق ایسی باتیں بناتا ہے گویا اس سے بڑھ کر کوئی عقل مند اور دانا نہیں ۔
يشهد الله (الله کو گواہ کرتا ہی ) یعنی الله کی قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔ قسم کھانے سے مراد یہی ہوتی ہے کہ میں اس کو اپنے اس بیان پر گواہ ٹھراتا ہوں جس کی میں قسم کھا رہا ہوں ۔
اس سے قبل حج کا بیان گزر چکا ہے ۔ اور یہ بھی بتایا گیا کہ کچھ بدبخت انسان صرف دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ وہ آخرت کے اچھے نتائج سے یکسر محروم ہیں ۔ لیکن نیک بندے دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کے طالب رہتے ہیں ۔ اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں ۔
اس آیت سے بدبخت اور منافقین کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ انکی زبان شیریں معلوم ہوتی ہے بظاہر باتیں بڑی عقل کی کرتے ہیں۔ لیکن دل سے سخت جھگڑالو اور فتنہ پرورہوتے ہیں ۔
اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قبیلہ ثقیف کا ایک شخص اخنس بن شریق تھا وہ ظاہری طور پر اسلام کا بڑا ہمدرد اور غمخوار معلوم ہوتا تھا ۔ اپنی زبان سے اسلام سے اپنی محبت کا بہت دعوٰی کیا کرتا تھا ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں آتا تو بڑے لمبے چوڑے دعوے کرتا ۔ بات بات پر قسمیں کھاتا لیکن جب مجلس سے اٹھ کر چلا جاتا تو طرح طرح کی شرارتوں میں لگ جاتا اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی ترکیبیں سوچتا ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اسی شخص کے لئے اتری لیکن یہ ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو اس فطرت کا آدمی ہو ۔ اس قسم کے منافق کی مزید نشانیاں اگلی آیتوں میں بیان کی جائیں گی ۔ یہاں منافق کی یہ خصوصیت بیانکی گئی ہے کہ وہ زبان سے بڑے بڑے دعوے باندھتا ہے لفظی طور پر اپنے مؤمن ہونے کا یقین دلاتا ہے لیکن دراصل وہ بڑا جھگڑالو ہے ۔ اسلام اور اس کے ماننے والوں سے دشمنی رکھتا ہے ۔ اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره آيه - ٢٠٥)
فساد پردازی

وَإِذَا ۔۔ تَوَلَّى ۔۔ سَعَى ۔۔۔ فِي ۔۔ الْأَرْضِ ۔۔ لِيُفْسِدَ ۔۔ فِيهَا
اور جب ۔۔ لوٹے ۔۔ وہ کوشش کرتا ہے ۔۔ میں ۔۔ زمین ۔۔۔ تاکہ فساد کرے ۔۔ اس میں
وَيُهْلِكَ ۔۔ الْحَرْثَ ۔۔۔ وَالنَّسْلَ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔ لَا يُحِبُّ ۔۔ الْفَسَادَ

اور ھلاک کرے ۔۔ کھیتیاں ۔۔ اور نسل ۔۔ اور الله ۔۔ نہیں پسند کرتا ۔۔ فساد
وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ
اور جب تیرے پاس سے لوٹے تو ملک میں دوڑتا پھرے تاکہ اس میں فساد کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کرے اور الله فساد ناپسند کرتا ہے ۔
تولّی (لوٹے ) ۔ اس کے دو معنی ہیں لوٹنا یا حاکم بننا ۔ یعنی جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کر چل دے ۔ اور دوسرے معنوں کی رو سے حاکم بن جائے ۔ بعض مفسروں نے یہاں یہی معنٰی کئے ہیں ۔ یعنی وہ ملک کا حاکم ہو جاتا ہے یا کسی جگہ اسے اقتدار مل جاتا ہے ۔
سعٰی (دوڑتا پھرے ) اس لفظ کے معنی ہیں سرگرم ہوجانا ۔ دوڑ دھوپ کرنا ۔ کوشش میں لگ جانا ۔ یہاں مراد فساد مچانے اور خرابی برپا کرنے میں سرگرم ہوجانے سے ہے ۔
فِی الارضِ ( ملک میں ) ارض (زمین ) کا لفظ لانے سے عام طور پر یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ منافقین بڑے وسیع پیمانے پر اپنی سرگرمیاں کرتے ہیں ۔ وہ دور دور تک خرابیاں برپا کرتے ہیں ۔ البتہ ارض کے الف لام سے کسی خاص جگہ کی طرف اشارہ بھی ہو سکتا ہے ۔ جیسے شہر مدینہ جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں منافقین نے مرکز بنا رکھا تھا ۔
اَلْحَرث ( کھیتیاں ) ۔ یعنی فساد برپا کرنے والوں نے کھیتوں کو برباد کیا اور انہیں آگ لگا دی ۔ اس سے بعض مفسرین نے عورتیں بھی مراد لی ہیں اور بعض لوگوں نے دین کو نقصان پہنچانا بھی اس کے مفہوم میں شامل کیا ہے ۔
اَلنّسل ( جانیں ) ۔ نسل کو تباہ کرنے میں نسل انسانی اور نفس حیوانی دونوں شامل ہیں ۔ بعض مفسرین نے یہاں اس سے مراد نسل انسانی ہی لی ہے مجموعی طور پر قتل و غارت اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہے ۔
پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ وہ ظاہر میں وہ اسلام کی ہمدردی کے دعوے کرتا ہے لیکن اندر سے اسلام کا دشمن ہے ۔ پھر یہ کہ الله کی قسمیں کھا کھا کر اپنے سچا ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ بات بات پر الله کو گواہ ٹہراتا ہے ۔ لیکن دراصل وہ جھگڑالو قسم کا آدمی ہے ۔ ہر حق بات سے الجھتا ہے ۔ سچ کا دشمن ہے ۔ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ اس آیت میں ایسے لوگوں کی مزید نشانیاں بتائی گئی ہیں ۔ یعنی یہ کہ ملک میں فتنہ و فساد کی آگ کو بھڑکاتے ہیں ۔ ہنگامہ آرائی کرتے ہیں ۔ متحد قوم کو گروہوں میں بانٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تاکہ لوگ انکی طرف متوجہ ہوں ۔خلاف فطرت فعل کے مرتکب ہوتے ہیں ۔جس سے نسل انسانی لازمی طور پر تباہ ہو جاتی ہے ۔
 
Top