• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره -آيه-٢١٥
کہاں خرچ کریں

يَسْأَلُونَكَ ۔۔۔ مَاذَا ۔۔۔يُنفِقُونَ ۔۔۔ قُلْ ۔۔۔ مَا ۔۔ أَنفَقْتُم ۔۔۔مِّنْ ۔۔۔خَيْرٍ
وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ کیا ۔۔ وہ خرچ کریں ۔۔ کہہ دیجئے ۔۔ جو ۔۔ تم خرچ کرو ۔۔ سے ۔۔ مال
فَلِلْوَالِدَيْنِ ۔۔۔ وَالْأَقْرَبِينَ ۔۔۔وَالْيَتَامَى۔۔۔ وَالْمَسَاكِينِ۔۔۔۔ وَابْنِ السَّبِيلِ
پس والدین کے لئے ۔۔۔ اور قرابت والے ۔۔۔ اور یتیم ۔۔۔ اور مساکین ۔۔۔ اور مسافر
وَمَا ۔۔۔تَفْعَلُوا ۔۔۔مِنْ ۔۔۔خَيْرٍ ۔۔۔فَإِنَّ ۔۔۔اللَّهَ۔۔۔ بِهِ ۔۔۔عَلِيمٌ

اور جو ۔۔۔ تم کروگے ۔۔۔ سے ۔۔۔ نیکی ۔۔۔ پس بےشک ۔۔۔ الله ۔۔ اس کو ۔۔۔ جانتا ہے

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کریں کہہ دو جو مال تم خرچ کرو سو ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں کے لئے اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے اور جو کچھ تم بھلائی کرو گے وہ بے شک الله کو خوب معلوم ہے ۔
خِير ) مال ) یوں تو لفظ خیر میں ہر قسم کی نیکی خواہ بدنی ہو یا مالی ۔ چھوٹی ہو یا بڑی شامل ہے ۔ لیکن اس کے معنٰی نیک کمائی اور مال کے بھی ہیں ۔ اور یہاں خیر سے مراد مال ہی ہے ۔
اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں ۔ الله تعالی نے فرمایا کہ تم اپنی نیک کمائی اور پاکیزہ دولت میں سے جتنا ہوسکے خرچ کرو ۔ الله تعالی نے ساتھ ہی وہ مستحق بتا دئیے جن پر دولت خرچ کرنی چاہئیے ۔
1. والدین ۔ ہماری دولت میں سب سے پہلا حق والدین کا ہے ۔ افسوس آجکل کھاتے پیتے ، شادی شدہ اور کماؤ نوجوان والدین کا حق نہیں پہچانتے ہیں ۔
2. قرابت دار ۔ والدین کے بعد قرابت دار (رشتہ دار ) آتے ہیں ۔ اسلام نے کسقدر زریں اصول دیا ۔ کہ خیرات و نیکی اپنے قریب سے شروع کرو اور دور تک پہنچاؤ ۔
3. یتیم ۔ وہ جو ماں باپ کے سائے سے محروم ہیں ۔ تم ان کے سر کا سایہ بن کر نگہبانی اور تربیت کرو ۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے یتیموں کے بہت سے حقوق بیان فرمائے ہیں ۔ اور ان کی خدمت کو بہت اُونچی نیکی قرار دیا ہے ۔
4. مسکین ۔ وہ کمزور اور ناکارہ انسان جو کمانے سے معذور ہوں ۔
5. مسافر ۔ پانچواں درجہ ضرورت مند مسافر کا ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه- ٢١٦ - (ا)
جنگ کا حکم


كُتِبَ ۔۔۔ عَلَيْكُمُ ۔۔۔ الْقِتَالُ ۔۔۔ وَهُوَ ۔۔۔ كُرْهٌ ۔۔۔لَّكُمْ
فرض کی گئی ۔۔۔ تم پر ۔۔۔ لڑائی ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ ناپسند ہے ۔۔۔ تمہیں
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ

تم پر لڑائی فرض کی گئی اور وہ تمہیں بری لگتی ہے ۔
ہماری ھدایت کا سرچشمہ صرف اسلام ہے ۔ اسلام ہماری زندگی کے لئے مکمل دستورِعمل ہے ۔ اگر کوئی شخص اس سے منہ موڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرلے تو اصل منزل سے دور ہوجائے گا ۔ راہ سے بھٹک کر اپنے آپ کو ہلاکت کے حوالے کر دے گا ۔ کیونکہ اسلام سے منہ موڑنے کا مطلب یہی ہوتا ہے ۔ کہ وہ شخص امن وامان برباد کردے گا ۔ فتنہ و فساد پھیلائے گا ۔ دوسروں پر ظلم کرے گا ان کی حق تلفی کرے گا ۔
ان تمام لوگوں کی جو اسلام سے روگردانی کرتے ہیں شرو فساد میں سرگرم ہوتے ہیں سازشوں اور تباہیوں سے دنیا کے امن کو بچانے کے لئے الله تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں اور امن برباد کرنے والوں سے جنگ کریں ۔ انہیں قتل کریں ۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا خاتمہ ہی اسلام کی ترقی اور عالمِ کائنات کی خوشحالی کا سبب بن سکتا ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو قتال (یعنی لڑنے) کا حکم مکہ سے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد ملا ۔ جبکہ انہیں نئی ریاست کی بنیاد قائم کرنا تھی ۔ کُھلے بندوں اسلام کی دعوت دینا تھی ۔ الله تعالی کی ھدایات کے مطابق ایک نئی سوسائٹی کو وجود میں لانا تھا ۔ لیکن اس وقت مسلمان کمزور و بے بس تھے ۔ تعداد میں تھوڑے تھے ۔ جنگ کا سامان پاس نہیں تھا ۔ زبوں حالی اور پریشانی میں گرفتار تھے ۔ اس لئے جنگ کا حکم طبعی طور پر ناگوار گزرنا لازمی تھا ۔ لہٰذا انہیں بتا دیا گیا کہ تمہیں خواہ جنگ کتنی ہی بُری لگے لیکن تمہیں اپنے فرض کو ضرور ادا کرنا ہے ۔
انسان کو سب سے پیاری شئے اپنی زندگی ہوتی ہے ۔ اس کا خاتمہ اسے ناگوار اور ناپسند معلوم ہوتا ہے ۔ جنگ میں جان کا جانا ، زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنا عام ہوتا ہے ۔ لیکن الله تعالی نے آگاہ کر دیا کہ اس جنگ کے دور رس نتائج اور بعد میں ملنے والے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے اگر عارضی طور پر ناگواری کو برداشت کر لیا جائے اور گذر جانے والے نقصان کو سہہ لیا جائے تو اس کا ثمرہ بہت میٹھا اور اعلٰی ملے گا ۔ ہمیں چاہئیے کہ دنیا کی پسندیدہ چیزوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے الله سبحانہ و تعالٰی کے حکم کی تعمیل بے چون و چرا کریں۔ ہمیں اپنی جان و اولاد اور مال قربان کرکے الله تعالی کی رضامندی حاصل کرنی چاہئیے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره آيه - ٢١٦(ب)
انسان کی پسند و ناپسند


وَعَسَى ۔۔۔ أَن تَكْرَهُوا ۔۔۔شَيْئًا ۔۔۔ وَهُوَ ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔ لَّكُمْ
اور شاید ۔۔۔ کہ بری لگے تم کو ۔۔۔ کوئی چیز ۔۔۔ اور وہ ۔۔ بہتر ہو ۔۔ تمہارے لئے
وَعَسَى ۔۔۔ أَن تُحِبُّوا ۔۔۔ شَيْئًا ۔۔۔ وَهُوَ ۔۔۔ شَرٌّ ۔۔۔ لَّكُمْ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ يَعْلَمُ ۔۔۔ وَأَنتُمْ ۔۔۔ لَا تَعْلَمُونَ

اور شاید ۔۔۔ تم پسند کرو ۔۔۔ کچھ ۔۔ اور وہ ۔۔۔ بری ہو ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ اور الله ۔۔۔ جانتا ہے ۔۔۔ اور تم ۔۔۔ نہیں جانتے

وَعَسَى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

اور شاید تمہیں ایک چیز بُری لگے اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور شاید کوئی چیز بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے بُری ہو اور الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔
عسٰى (شاید) ۔ ممکن ہے ۔ ہوسکتا ہے ۔
آیت کے پہلے حصے میں الله تعالی نے جہاد کا حکم دیا ۔ اور فرمایا کہ قتال تمہیں بظاہر بُرا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن قومی زندگی اور ملّی سر بلندی کے لئے اس کے بغیر چارہ نہیں ۔ اب اسی مضمون کو واضح کرنے کے لئے کتنے اچھوتے اور پیارے انداز میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ممکن ہے تم کسی چیز کو پسند نہ کرو حالانکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہو ۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو ۔ حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ تم اپنے بُرے بھلے کو نہیں جانتے ۔ تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے حق میں بہتر کیا ہے ۔ اور بُرا کیا ہے ۔ البتہ تمہارا خالق و مالک خوب جانتا ہے ۔ کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ہے ۔ جب حقیقت یہ ہے تو جیسے جیسے کہتا ہے اور جو جو وہ حکم دیتا ہے ۔ اس میں تمہارا بھلا ہی بھلا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں سب سے مشکل کام جان و مال کو خطرے میں ڈالنا ہے اور جنگ میں یہ دونوں خطرے درپیش ہوتے ہیں ۔ انسان جان و مال جیسی عزیز شے کو آسانی سے قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا ۔ ہاں اسے اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ زندگی اور اس زندگی کا سارا سازوسامان عارضی ہے ۔ ہمیشہ کی زندگی اور مستقل آرام اس کے بعد نصیب ہوگا ۔ تو انسان کی نگاہ میں ان چیزوں کی کوئی وقعت نہیں رہتی ۔ دوسرے اگر انسان کو یقین ہو جائے کہ میرا نفع و نقصان ، میرا خالق ومالک مجھ سے بہتر سمجھتا ہے ۔ بلکہ میں کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتا ۔ تمام حکمتیں اور بھلائیاں اسی کے اختیار میں ہیں ۔ اور وہ جو کچھ کہتا ہے میرے بھلے کے لئے ہی کہتا ہے ۔ اس صورت میں انسان جان و مال کیا ہر عزیز سے عزیز شے قربان کرنے کو تیار ہو جائے گا ۔ اور اس وقت اس کی نگاہوں میں کوئی چیز نہ جچے گی ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
(سورة بقره - آيه ٢١٧)
يَسْأَلُونَكَ ۔۔۔عَنِ ۔۔۔ الشَّهْرِ ۔۔۔ الْحَرَامِ ۔۔۔ قِتَالٍ ۔۔۔ فِيهِ ۔۔۔ قُلْ ۔۔۔ قِتَالٌ
اور وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ سے ۔۔ مہینہ ۔۔ حرام ۔۔۔ لڑنا ۔۔ اس میں ۔۔ کہہ دیجئے ۔۔۔ لڑنا
فِيهِ ۔۔۔ كَبِيرٌ ۔۔۔ وَصَدٌّ ۔۔۔ عَن ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ وَكُفْرٌ ۔۔۔ بِهِ ۔۔ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
اس میں ۔۔ بڑا گناہ ۔۔۔ اور روکنا ۔۔ سے ۔۔ راستہ ۔۔الله ۔۔اور کفر ۔۔اس کا ۔۔ اور مسجد حرام
وَإِخْرَاجُ ۔۔۔ أَهْلِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْهُ ۔۔۔ أَكْبَرُ ۔۔۔ عِندَ اللَّهِ ۔۔۔ وَالْفِتْنَةُ ۔۔۔ أَكْبَرُ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْقَتْلِ
اور نکالنا ۔۔ اس کے رہنے والوں کو ۔۔اس سے ۔۔ زیادہ بڑا ۔۔ الله کے نزدیک ۔۔ اور فتنہ ۔۔ زیادہ بڑا ۔۔ سے ۔۔ قتل
وَلَا يَزَالُونَ ۔۔۔ يُقَاتِلُونَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَرُدُّوكُمْ ۔۔۔ عَن ۔۔۔ دِينِكُمْ ۔۔۔ إِنِ اسْتَطَاعُوا
اور رہیں گے وہ ۔۔ قتال کرتے تم سے ۔۔ یہانتک ۔۔وہ لوٹا دیں تم کو ۔۔ سے ۔۔ تمہارا دین ۔۔ اگر وہ طاقت رکھیں
وَمَن ۔۔ يَرْتَدِدْ ۔۔۔ مِنكُمْ ۔۔۔ عَن ۔۔۔ دِينِهِ ۔۔۔ فَيَمُتْ ۔۔۔ وَهُوَ ۔۔۔ كَافِرٌ
اور جو ۔۔ پھر گیا ۔۔ تم میں سے ۔۔ سے ۔۔ دین اسکا ۔۔ پھر مر گیا ۔۔ اور وہ ۔۔ کافر
فَأُولَئِكَ ۔۔۔ حَبِطَتْ ۔۔۔ أَعْمَالُهُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ الدُّنْيَا ۔۔۔ وَالْآخِرَةِ
پس یہ لوگ ۔۔ ضائع ہو گئے ۔۔۔ ان کے اعمال ۔۔ میں ۔۔ دنیا ۔۔ اور آخرت
وَأُولَئِكَ ۔۔۔ أَصْحَابُ ۔۔۔ النَّارِ ۔۔۔ هُمْ ۔۔۔ فِيهَا ۔۔۔ خَالِدُونَ

اور یہی لوگ ۔۔ صاحب ۔۔ آگ ۔۔ وہ ۔۔ اس میں ۔۔ ہمیشہ رہیں گے

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

وہ تجھ سے حرمت کے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ کہہ دیجئے اس میں لڑائی بڑا گناہ ہے ۔ اور الله کی راہ سے روکنا اور اسے نہ ماننا اور مسجدِ حرام سے روکنا اور اس کے لوگوں کو وہاں سے نکالنا الله کے نزدیک اس سے بھی زیادہ گناہ ہے اور کفار تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر قابو پائیں تو تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اور تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کفر کی حالت ہی میں مر جائے تو ایسے لوگوں کے عمل دنیا اور آخرت میں ضائع ہوئے اور وہ لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔

اَلشّهرُ الحَرام ( حرمت کا مہینہ ) ۔ قمری سال کے چار مہینے محرم ۔ رجب ۔ ذی قعدہ اور ذی الحجہ ۔ عربوں کے نزدیک بڑے برکت والے اور پاک مہینے سمجھے جاتے تھے ۔ اگرچہ قتل و جنگجوئی ان کا پیشہ تھا ۔ لیکن ان چار مہینوں میں وہ ہر قسم کی جنگ بند رکھتے تھے ۔ یہاں خاص طور پر اشھر الحرام سے مراد رجب کا مہینہ ہے ۔
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ سنہ ۲ھ ھجری میں ایک مرتبہ سفر کے دوران بعض صحابیوں کی مشرکین سے مڈھ بھیڑ ہو گئی اور جنگ میں ایک مشرک مارا گیا ۔ ان اصحاب کے نزدیک یہ جنگ جمادی الثانیہ کی تیس تاریخ کو ہوئی جو کہ حرمت کا مہینہ نہیں تھا ۔ لیکن بعد میں علم ہوا کہ جمادی الثانیہ کا چاند انتیس کا ہوگیا تھا ۔ اور جس روز جنگ لڑی گئی وہ رجب کی پہلی تاریخ تھی ۔ جو کہ حرمت والا مہینہ تھا ۔ اس غلطی کو جو نادانستہ طور پر ہو گئی تھی کافروں اور مشرکوں نے خوب اچھالا اور طعنہ دینے لگے کہ دیکھو مسلمان اب ان مہینوں کا بھی احترام نہیں کرتے ۔ رجب کے مہینے میں بھی جنگ شروع کر دی ۔ اس پر وہ صحابی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ یہ غلطی بے خبری میں ہوگئی ہے ۔ اب کیا حکم ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو بتایا گیا کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ بُری بات ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب یہ گناہ جان بوجھ کر کیا جائے ۔ اور ماہِ حرام کا علم رکھنے کے باوجود جنگ لڑی جائے ۔ اور جنگ جو مسلمانوں نے لڑی ہے جان بوجھ کر نہیں لڑی بلکہ اس میں ان سے بھول ہوگئی تھی ۔
علماء کرام اس بات ہر متفق ہیں کہ اب بھی جب کبھی کافر حرمت والے مہینوں میں جنگ شروع کریں تو مسلمان اپنی حفاظت کے لئے دفاعی اور جوابی جنگ لڑ سکتے ہیں ۔ ان کے حملے کا جواب دے سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان مہینوں کے تقدس کے مقابلے میں جانیں زیادہ مقدس ہیں ۔ ان کا بچانا زیادہ ضروری ہے ۔ ان برکت والے مہینوں میں جنگ کرنا اگرچہ بُرا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ بُری وہ باتیں ہیں جو کفّار کرتے ہیں ۔ مثلا الله پر ایمان نہ لانا ۔۔۔ ایک سے زیادہ معبودوں کی پرورش کرنا ۔۔۔ روزِ آخرت کو نہ ماننا ۔۔۔ فتنہ و فساد پھیلانا ۔۔۔ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال دینا ۔۔۔ کیونکہ یہ جنگ سے کم گھناؤنی حرکتیں نہیں ہیں ۔ خود کفار اپنی روش پر غور نہیں کرتے ۔ انہوں نے مسلمانوں کی چھوٹی سی غلطی پر جو ان سے نادانستہ عمل میں آئی طعنے دینے شروع کر دئیے ۔
کافر و مشرک اپنی روش پر تو غور نہیں کرتے اور مسلمانوں سے الجھتے ہیں ۔ایک نادانستہ لغزش پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ کر رہے ہیں ۔
کافروں کی روش


سبيل الله (الله کی راہ ) ۔ یہاں مراد اسلام ہے ۔ یہی الله تعالی کا پسندیدہ طریقہ ہے جس پر چل کر انسان اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکتا ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے پڑھا کہ ایک مرتبہ چند مسلمانوں نے کافروں سے مقابلے کے وقت ایک کافر کو مار دیا ۔ یہ واقعہ نادانستہ طور پر ان سے حرمت والے مہینے میں ہو گیا ۔ کافروں نے اس پر طعن و تشنیع کی ۔ الله تعالی نے اس آیۃ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ ماہ حرام میں جنگ کرنا گناہ ہے ۔ لیکن اس کے مقابلے میں وہ گناہ بڑے ہیں جو خود کافر کرتے ہیں ۔ ان گناہوں میں سے کچھ آج کے سبق میں پیش کئے جارہے ہیں ۔
1. صَدٌّ عَن سبيل اللهِ ۔ ( الله کی راہ سے روکنا) ۔ یعنی لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکنا ۔ اور جو اسلام قبول کر لیں انہیں سخت اذیتیں پہنچانا ۔ جو ارادہ کر رہے ہوں انہیں دھمکیاں دینا ۔ مکہ کے کافر یہ تمام گناہ کرتے تھے ۔ وہ لوگوں کو پیغمبرِ اسلام پر ایمان لانے سے منع کرتے تھے ۔ جو لوگ مسلمان ہو جاتے انہیں بہت مارتے پیٹتے ، گرم پتھروں پر لٹاتے ۔ جب وہ مکہ معظمہ سے نکل جانے کا ارادہ کرتے تو ان الله کے بندوں کو جانے سے بھی روکتے ۔
2. كُفرٌ بِه ( الله سے کفر کرنا ) ۔ دوسرا گناہ جو کافر کرتے تھے وہ تھا الله تعالی سے کفر کرنا ۔ اس کی ہستی اور صفات کا انکار
3. والمسجد الحرام ( خانہ کعبہ ) ۔ الله کا یہ گھر عبادت کے لئے تھا ۔ مگر اس جگہ کافروں نے بے شمار بت رکھ چھوڑے تھے ۔ مسلمان بیت الله کو توحید کا گھر بنانا چاہتے تھے ۔ لیکن کافر مسلمانوں کو بیت الله میں داخل ہونے سے روکتے تھے ۔ اور الله تعالی کی عبادت میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔
4. اِخراجُ اهله ( مکہ والوں کو وہاں سے نکال دینا ) ۔ مکہ کے کافروں نے مسلمانوں پر اس قدر سختیاں کیں اور اتنے ظلم ڈھائے کہ ان بے چاروں کو آخر مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ غریب بے کس مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ میں پناہ لی ۔ اور سب کچھ چھوڑ کر صرف جانیں لے کر بھاگے ۔ یہ کس قدر بڑا گناہ ہے جس کے مرتکب اہل ِ مکہ ہوئے ۔
5. اَلفتنه ( فساد ، غارت گری ، دین سے ہٹانا ) ۔ کفارِ مکہ یہ سب خرابیاں کر رہے تھے مگر اپنے جرائم پر ان کی نظر نہ تھی ۔ الله تعالی فرماتا ہے ۔ جب یہ حالات ہوں ۔ تو قتال ہر حال میں واجب ہے ۔
کافروں کی کوششیں


اس آیت میں یہ بات کھول کر واضح کر دی گئی ہے کہ مسلمان جب تک الله تعالی کے دین پر قائم رہیں گے مشرک اور کافر ہر طرح سے ان کی مخالفت کرتے ہی رہیں گے ۔ وہ ہر حالت میں اور ہر موقع پر زک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں گے ۔ خواہ یہ موقع انہیں حرم کی حدوں کے اندر پیش آئے خواہ پاک اور حُرمت والے مہینے میں ۔ جیسا کہ حدیبیہ کے موقع پر انہوں نے کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے کسی احترام اور برکت کی پرواہ نہ کی ۔ صرف مسلمانوں سے دشمنی اور حسد کی وجہ سے مرنے مارنے پر تیار ہوگئے ۔ اور مسلمانوں کو مکہ جانے اور عمرہ کرنے سے روکا ۔ اس لئے اس قسم کے اسلام دشمن اگر مسلمانوں پر طعن و تشنیع کریں بھی تو اس کی کوئی پرواہ نہ کرنی چاہئیے ۔ اور صرف مہینے کی حرمت کی وجہ سے ان سے جنگ کرنے سے نہ رکنا چاہئیے ۔
اس آیت سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مکہ کے مشرک اسلام سے کس قدر بیزار اور حق کے کس قدر دشمن تھے ۔ وہ اس بات پر مصر تھے کہ جہاں تک ان کا بس چلے ہر ممکن طاقت اور ہر تدبیر استعمال کر کے مسلمانوں کو ان کے دین ہی سے پھیر دیں ۔ انہیں اسلام کے قبول کرنے سے روکیں ۔ انہیں پرانے اور باطل عقیدوں کے ماننے پر مجبور کریں ۔بت پرستی پر قائم رکھیں ۔ اور ہوسکے تو اسلام کا نام و نشان ہی مٹا دیں ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کافر اور مشرک اسلام کے اس قدر مخالف کیوں تھے ؟ اس کو ختم کرنے کے کیوں درپے تھے ؟ مسلمانوں کے عقیدوں کوبُری نگاہ سے کیوں دیکھتے تھے ؟ اسلام کی تعلیم سے نفرت کیوں کرتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت ان لوگوں نے اپنے مذہب ، اپنی سیاست اور اپنی معاشرت اپنے ڈھب پر بنا رکھی تھی ۔ ان کے اغراض و مقاصد اپنی ہی فلاح و بہبود تک محدود تھے ۔ وہ اپنی سوسائٹی کی روایات کو ہی برقرار رکھنا چاہتے تھے ۔ اس کے خلاف اسلام ایک کامل مساوات اور عالمگیر ترقی کا پیغام دیتا تھا ۔ انسان ہونے کے لحاظ سے ہر شخص کو برابر کا حق دیتا ہے ۔ کسی خاص مفاد پرست سوسائٹی کا وجود ماننے سے انکاری تھا ۔ اس لئے کہ وہ تمام لوگ جو محدود پیمانے پر سوچتے تھے اور جو تنگ نظر اور خود غرض تھے انہوں نے اس کی مخالفت اور عداوت پرکمر باندھی ۔
حق کے سامنے باطل کس طرح ٹہر سکتا تھا ۔ روشنی کے آنے کے بعد اندھیرا کیسے باقی رہ سکتا تھا ؟ وہ لوگ خود ہی اپنی جہالت اور عداوت میں غرق ہو گئے ۔ اور ہمیشہ کی سزا کے مستحق ٹہرے ۔ دنیا میں بھی نامراد ہوئے آخرت میں بھی جہنم کے مستحق ٹہرے ۔
مرتد کی سزا


اس سے واضح ہوگیا کہ کافر اور مشرک ہر طریقے سے مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔ ڈرائیں دھمکائیں گے ۔ طرح طرح کی امیدیں دلائیں گے انہیں لالچ دیں گے ۔ ان کی ساری کوششیں اسی لئے ہوں گی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کو بڑھنے نہ دیں ۔ انہیں لَوٹا کر دوبارہ جہالت اور تاریکی میں لے آئیں ۔
اس آیت میں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کافروں کے زیرِ اثر خواہ ڈر کر خواہ کسی لالچ میں آکر اسلام چھوڑ کر کفر کی طرف لَوٹ جائے ۔ اور مرتے دم تک کفر پر ہی اڑا رہے تو اس کے تمام عمل ضائع ہو جائیں گے ۔ اسے دنیا میں بھی اس کی سزا بھگتنی پڑے گی اور آخرت میں بھی ۔
اسلام سے پھر کر کفر کی طرف لَوٹ جانے والے کی سزا دنیا میں یہ ہو گی کہ اس کا جان و مال محفوظ نہ رہے گا ۔ مسلمان بیوی سے اس کا نکاح قائم نہ رہے گا ۔ مسلمان کی میراث سے اسے حصہ نہ ملے گا ۔ بلکہ یہاں تک کہ اگر حکومت اسلامی ہو تو ایسے بدعہد ، باغی اور مرتد کو زندہ رہنے کا بھی حق باقی نہیں رہتا ۔
آخرت میں اسے یہ سزا ملے گی کہ وہ اپنے اجر و ثواب سے محروم رہے گا ۔ جس قدر نیکیاں اور عبادتیں دنیا میں کی ہوں گی ان کا بدلہ نہیں ملے گا ۔ دوزخ میں ڈالا جائے گا ۔ اسی میں ہمیشہ جلتا رہے گا ۔ اور ہر طرح سے نقصان اٹھائے گا ۔ فَيمُت وهو كافر ( اسی حالتِ کفر میں اسے موت آ جائے ) ۔ اس فقرے سے الله تعالی نے یہ بھی سمجھا دیا کہ اگر خدانخواستہ کوئی مسلمان۔ مرتد ہو جائے تو دین کی طرف واپس آجانے کا موقع پھر بھی رہتا ہے ۔آخرت کی سزا اسی صورت میں ہے جب کفر کی حالت ہی میں مر جائے ۔
مرتد کی سزا اس قدر سخت اس لئے ہے کہ ایک بار اسلام کو سمجھ لینے کے بعد اس نے بغاوت کی ۔ پھر اسے دیکھ کر دوسروں کے دل میں بھی شک پیدا ہونے کا امکان ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ آیہ۔ ۲۱۸
ایمان ، ہجرت اور جہاد


إِنَّ ۔۔ الَّذِينَ ۔۔ آمَنُوا ۔۔۔ وَالَّذِينَ ۔۔ هَاجَرُوا ۔۔ وَجَاهَدُوا ۔۔۔ فِي
بےشک ۔۔ جو ۔۔ ایمان لائے ۔۔ اور جو ۔۔ ہجرت کی انہوں نے ۔۔ اور جہاد کیا ۔۔ میں
سَبِيلِ ۔۔ اللَّهِ ۔۔ أُولَئِكَ ۔۔ يَرْجُونَ ۔۔ رَحْمَتَ ۔۔ اللَّهِ ۔۔ وَاللَّهُ ۔۔ غَفُورٌ ۔۔رَّحِيمٌ

راستہ ۔۔ الله ۔۔ یہ ۔۔ امید رکھتے ہیں ۔۔ رحمت ۔۔ الله ۔۔ اور الله ۔۔ معاف فرمانے والا ۔۔ رحیم کرنے والا

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور الله کی راہ میں لڑے وہ الله کی رحمت کے امیدوار ہیں اور الله تعالی بخشنے والا مہربان ہے ۔
الّذين هاجروا ۔ (جنہوں نے ہجرت کی ) ۔ مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنے وطن جیسی عزیز اور محبوب شئے کو چھوڑا ۔ اور کفر کی بستی کو ترک کرکے ایمان کی بستی کی طرف چلے گئے ۔ حضرت رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی ۔
جاهدُوا ۔ ( لڑے ) ۔ یہ لفظ جہاد سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں شدید کوشش اور جد وجہد ۔ اس میں ہر طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں شامل ہیں اور سب سے بڑی مشکل جنگ و قتال کی ہے ۔ فِى سبيل الله ۔ ( الله کی راہ میں ) ۔ ہجرت اور جہاد کے ساتھ یہ قید لگا کر ثابت کر دیا کہ مسلمان اپنی کسی ذاتی غرض یا مفاد کے لئے ہجرت یا جہاد نہیں کرتے ۔ وہ صرف الله تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی تکلیفیں اور مصیبتیں جھیلتے ہیں ۔
يَرجُون ( امیدوار ہیں ) ۔ اس لفظ سے مقصود ان مؤمنوں کو خوشخبری دینا ہے جو نادانستہ ماہ حرام میں ایک کافر کو قتل کر دیتے ہیں ۔ ان صحابہ کو جنہوں نے بھول کر اس پاک مہینے میں ایک کافر کو قتل کردیا یہ تو معلوم ہو گیا تھا کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن انہیں اس بارے میں کچھ فکر تھی کہ معلوم نہیں اس جہاد کا ثواب بھی ملتا ہے یا نہیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو لوگ ایمان لائے ، جنہوں نے ہجرت کی اور الله تعالی کی خوشنودی کے لئے دشمنوں سے لڑے وہ بے شک الله تعالی کی رحمت کے امیدوار ہیں ۔ اور اجر وثواب کے حق دار ہیں ۔ الله تعالی اپنے بندوں کی خطائیں بخشنے والا اور ان پر رحمت کرنے والا ہے ۔ وہ اپنے اس قسم کے عبادت گذار بندوں کو ان کے حق سے محروم نہ کرے گا ۔ اس آیت سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کافر اور مشرک مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ انہیں اذیتیں پہنچائیں گے ۔ انہیں وطن سےنکال دیں گے ۔ان سے جنگ کریں گے ۔ لیکن مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ ہمت نہ ہاریں ۔ وہ اپنے ایمان پر ڈٹے رہیں ۔ اگر کافر مسلمانوں کو جلاوطن کر دیں ۔ ان سے جنگ کریں تو مسلمانوں کو ان کا مقابلہ ڈٹ کر کرنا چاہئیے ۔ مختصر یہ کہ الله تعالی کی رحمت و بخشش اور کرم کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے ۔ اگر اس راہ میں مشکلات پیش آئیں تو وطن کو بھی چھوڑ دیا ۔ اگر پھر بھی دشمنان دین نے چین نہ لینے دیا تو جہاد کے لئے آمادہ ہو گئے ۔ لیکن دین سے غافل نہ ہوئے ۔
 
Last edited by a moderator:

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ ۔ آیہ ۔ ۲۱۹
شراب اور جوا


يَسْأَلُونَكَ ۔۔ عَنِ ۔۔الْخَمْرِ ۔۔وَالْمَيْسِرِ
وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔ سے ۔۔ سے ۔۔ شراب ۔۔ اور جوا

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ

وہ آپ سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں ۔
عَنْ (سے) ۔ یعنی شرعی حکم کے بارے میں اور حلال و حرام کی بابت
اَلْخَمْرِ (شراب ) ۔ خمر کے لفظی معنٰی کسی چیز کو ڈھانپ لینا ہیں ۔ اوڑھنی کو خمار اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ سر کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ شراب کو بھی خمر اسی لئے کہا گیا ہے کہ اس سے انسانی عقل پر پردہ پڑتا ہے ۔ اور انسان کے حواس درست طور پر باقی نہیں رہتے ۔ انگور اور کھجور کی شراب کے علاوہ خمر ہر اس چیز کو کہا گیا ہے جو نشہ آور ہو ۔
اَلْمَيسر ( جوا) ۔ یہ لفظ بھی اپنے وسیع معنی میں آیا ہے ۔ اور جوئے کی تمام قسمیں اس میں شامل ہیں ۔ خواہ وہ کسی بھی صورت اور نام میں ہوں ۔ اسلام سے پہلے شراب اور جوئے کا عرب میں عام رواج تھا ۔ ہر چھوٹا بڑا اس قدر شراب پیتا تھا کہ گویا ان کی گُھٹی میں پڑی ہوئی ہو ۔ اور جوئے کی قِسموں کا کوئی شمار نہ تھا ۔ ان دونوں کے نتیجے میں جنسی تعلقات کی ابتری ، مالی مشکلات اور ظلم و تعدی کی وبا عام طور پر پھیلی ہوئی تھی ۔ لیکن اس حالت پر غور کرنے والا کوئی نہ تھا ۔ یہ لوگ اپنی عقل ان چیزوں کے عوض بیچ چکے تھے ۔ بعض صحابہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شراب اور جوئے کے بارے میں خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایسی چیز جو عقل اور مال ودولت کو برباد کرنے والی ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت اور تعلیم و تربیت سے آپ کے صحابیوں میں ایسی ناپاک اور گندی چیزوں کے بارے میں نفرت کا پیدا ہونا ضروری تھا ۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ جن نیکیوں اور خوبیوں کا حکم اسلام دیتا ہے ان کے حاصل کرنے میں شراب اور جوئے جیسی چیزیں رکاوٹ ہیں ۔ کیونکہ اسلام کے احکام سے یہ مقصود ہے کہ ہمارے اندر پاکیزگی ، نیکی اور عاقبت اندیشی پیدا ہو ۔ اس کے برعکس شراب اور جوئے سے عقل جاتی رہتی ہے ۔ گالیاں بکنے کی عادت پڑتی ہے ۔ گندگی کی طرف رجحان پیدا ہوتا ہے ۔ طبیعت حرامکاری کی طرف مائل ہوتی ہے ۔
اسرائیلی پیغمبروں نے بھی شراب اور جوئے کے حرام ہونے کے بارےمیں اپنی اپنی امتوں کو حکم دئیے ۔ لیکن ان کے پیروکار ممانعت کے باوجود باز نہ رہ سکے ۔ آخرکار اسلام نے ان چیزوں کی برائی کو اس قدر کھول کر بیان کیا ۔ کہ آج امّت مسلمہ میں جس قدر حقارت کی نظروں سے شرابی اور جواری کو دیکھا جاتا ہے شاید ہی کسی اور غلط کار اور بدکار کو دیکھا جاتا ہو ۔
شراب کی حرمت کے سلسلے میں یہ پہلی آیت ہے ۔ یہیں سے شراب اور جوئے کے حرام ہونے کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ ۔ آیہ ۔ ۲۱۹(ب)
شراب اور جوئے کے بارہ میں حکم


قُلْ ۔۔ فِيهِمَا ۔۔ إِثْمٌ ۔۔ كَبِيرٌ ۔۔ وَمَنَافِعُ ۔۔لِلنَّاسِ
فرما دیجیے ۔۔ ان دونوں میں ۔۔ گناہ ۔۔ بڑا ۔۔ اور فائدے ۔۔ لوگوں کے لیے
وَإِثْمُهُمَا ۔۔ أَكْبَرُ ۔۔ مِن ۔۔ نَّفْعِهِمَا

اور گناہ ان دونوں کا ۔۔ زیادہ بڑا ۔۔ سے ۔۔ ان دونوں کا فائدہ

قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا

فرما دیجئے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور فائدے لوگوں کے لئے اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے
اس سوال کے جواب میں کہ شراب اور جوئے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
الله تعالی نے صاف حکم بتایا کہ دونوں گناہ ہیں ۔ ساتھ ہی فرمایا ان دونوں چیزوں میں لوگوں کے فائدے بھی ہیں ۔ اور نقصانات بھی ۔ لیکن ان کے نقصانات ان کے فائدوں سے زیادہ ہیں ۔ اس لئے عقلِ سلیم کا تقاضہ یہی ہے کہ یہ دونوں چیزیں چھوڑ دینے کے قابل ہیں ۔
اِثْمٌ ( گناہ ) ۔ سے مراد ہر وہ فعل ہے ۔ جو نیکی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والا ہو ۔ اس لفظ کے استعمال نے بتا دیا کہ شراب اور جوا انسان کو نیکی سے روکتے ہیں ۔ جس قوم اور سوسائٹی میں شراب عام ہو وہاں فساد ، بے حیائی اور گناہ بہت بڑھ جاتے ہیں ۔ جب کوئی شخص شراب پیتا ہے تو اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے ۔ بدکاری اور حرام کاری میں الجھ جاتا ہے ۔ اپنے فرائض سے غافل ہوجاتا ہے ۔ نشہ کی حالت کو پورا کرنے کے لئے اگر استطاعت باقی نہ رہے تو ناجائز اور حرام طریقے سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ چوری ، ٹھگی ، غبن ، قتل اور غارت گری سے بھی نہیں چوکتا ۔
جوا انسان کی مالی حالت کو تباہ کردیتا ہے ۔ لُوٹ مار ، چوری ، غبن اور لابالی پن کی طرف مائل کرتا ہے ۔ عیاشی اور فضول خرچی تو اس کے اولین اثرات ہیں ۔ جو ایک جواری کو آن گھیرتے ہیں ۔ جوئے کی مختلف شکلیں ہیں ۔ مثلا گھڑ دوڑ کی شرطیں ، لاٹریاں اور سٹے وغیرہ شراب پینے سے عقل جاتی رہتی ہے جو تمام امور صحیحہ سے بچاتی ہے ۔ اور لڑائی اور قتل وغیرہ طرح طرح کی خرابیوں کی نوبت آجاتی ہے ۔ اور مختلف قسم کی روحانی اور جسمانی بیماریاں لگ جاتی ہیں جو بعض اوقات ہلاکت کا سبب بنتی ہیں ۔ وقتی طور پر غم بھلانے یا سرور حاصل کرنے کی نسبت نقصان کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔
یہی حال جوئے کا ہے عارضی جیت ہوسکتی ہے مگر ہار نہ ہونے کی کیا ضمانت ہے ؟ اور مفت کا جیتا ہوا روپیہ کس کے پاس رہا ہے ۔ ہم نے آج تک کسی جواری کو دولت مند بنتے نہیں دیکھا ۔ اگر مفت میں کماتے ہیں تو حرام میں لُٹاتے ہیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ ۔ آیہ۔۲۱۹(د)

مالی قربانیوں کا معیار

وَيَسْأَلُونَكَ ۔۔۔ مَاذَا ۔۔ يُنفِقُونَ ۔۔ قُلِ ۔۔۔الْعَفْوَ
اور وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔ کہ کیا ۔۔ وہ خرچ کریں ۔۔ فرما دیجیے ۔۔ جو اپنے خرچ سے بچے
وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ

اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہہ دیجئے کہ جو اپنے خرچ سے بچے ۔
اَلْعٍفو( جو اپنے خرچ سے بچے ) ۔ انگریزی زبان میں اس لفظ کے مفہوم سے قریب تر لفظ سرپلس (surplus) ۔ ہے جسے فارسی میں زائد از ضرورت بھی کہتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جائز اور ضروری اخراجات نکال کر جو بچا سکتے ہو ۔ وہ خرچ کرو ۔
اس آیت میں الله تعالی نے انسانی معاشرے کی مالی حالت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کا بہترین قاعدہ بیان فرمایا ہے ۔ اس قاعدے پر عمل کرنے سے وہ مقصد پورا ہو سکتا ہے جسے حاصل کرنے کے لئے بہت سی قومیں کوشش کرتی رہی ہیں ۔ لیکن پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکیں ۔ یعنی ایسا نظام جس میں ہر شخص کی روزی کا سامان کر دیا جائے ۔ قوم بے کاری اور غربت کی لعنت سے نجات حاصل کرلے ۔ فاقہ کشی سے بچ سکے ۔ افلاس کی بنا پر کوئی خودکشی ، عصمت فروشی ، اخلاق سوزی اور انسانیت کشی پر مجبور نہ ہو ۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے الله تعالی نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ ہر شخص حلال اورجائز طریقے سے روپیہ کمائے اس میں سے اپنی ضرورتیں پوری کرے ۔ جائز ضروریات کے بعد جو بچا سکے وہ ضرورت مندوں میں تقسیم کردے ۔ اس حکم میں ان سب خرابیوں کا علاج ہے جو انسانی معاشرے میں اس وقت موجود ہیں ۔ مثلا۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل "انسانی محنت "کی قدر وقیمت بہت کم ہو گئی ہے ۔ جسمانی اور ذہنی کوششوں کا پورا معاوضہ نہیں ملتا ۔ انسانی محنت کی جگہ اب "سرمائے" نے لے لی ہے ۔ چنانچہ معاشرہ دو گروہوں میں بٹ گیا ہے ۔ ایک نہایت امیر طبقہ جو تعداد میں بہت قلیل ہے ۔ اور دوسرا نہایت غریب طبقہ جو تعداد میں بہت زیادہ ہے ۔ ایک طرف عیاشی ، آرام پرستی اور اقتدار ہے ۔ دوسری طرف غربت ، مشقت اور بے بسی ہے ۔ امراء غریبوں کے خون سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں ۔ اور غریب ان کے پاؤں تلے روندے جا رہے ہیں ۔ اس سے عوام میں مایوسی اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔
مغربی اقوام نے اس کے کئی حل سوچے لیکن سب ناکام ہو گئے ۔ اس کا بہترین اور واحد حل وہی ہے جو قرآن مجید نے تجویز کیا ہے ۔ یعنی یہ کہ ہر دولت مند شخص اپنے پاس صرف اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہی روپیہ رکھے ۔ اور باقی مستحق لوگوں پر تقسیم کر دے ۔ ظاہر ہے کہ اس حکم پر عمل کرنے سے نہ تو مال چند ہاتھوں میں اکٹھا ہو گا ۔ نہ افلاس بڑھے گا بلکہ محنت سے کام کرنے والا شخص کبھی بھوکا نہیں مرے گا ۔ یہ ہے موجودہ مالی خرابیوں اور غربت کی اصلاح کا طریقہ جو کسی اور کے پاس نہیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
آيه- -٢١٩- -٢٢٠(ا)

غور و فکر کی دعوت


كَذَلِكَ ۔۔۔ يُبَيِّنُ ۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ لَكُمُ ۔۔۔ الْآيَاتِ ۔۔ لَعَلَّكُمْ ۔۔۔تَتَفَكَّرُونَ
اسی طرح ۔۔ وہ بیان کرتا ہے ۔۔۔ الله ۔۔ تمہارے لیے ۔۔۔ احکام ۔۔ تاکہ تم فکر کرو
فِي ۔۔ الدُّنْيَا ۔۔وَالْآخِرَةِ
میں ۔۔ دنیا ۔۔ اور آخرت

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ

اسی طرح الله تعالی تمہارے لیے احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم فکر کرو
دنیا اور آخرت کی باتوں میں

پچھلے سبق میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ الله تعالی نے ہمیں ایسے سیدھے اور صاف راستے بتائے جنہیں اختیار کرلینے کے بعد ہم دنیا کی حالت کو مضبوط اور بہتر بنا سکتے ہیں ۔ غربت ۔ افلاس ۔ بے بسی ۔ فاقہ کشی ۔ بے چینی اور مایوسی جیسی انسان کش چیزیں نیست و نابود کر سکتے ہیں ۔ غریبوں کی تنگدستی اور افلاس ختم کر سکتے ہیں ۔ ایسا ہوجائے تو پھر ہڑتالوں دنگا فساد اور لڑائی جھگڑے کی نوبت ہی نہیں آسکتی ۔ ہر شخص محنت کرکے اپنی ہمت اور قابلیت کے مطابق روزگار حاصل کر سکے گا ۔ تجارت اور صنعت بڑی خوش اسلوبی سے ترقی کرتی چلی جائے گی ۔
الله سبحانہ تعالی کے احکام ہمارے سامنے ہیں ۔ دیر فقط اس بات کی ہے کہ ہم سوچ سمجھ سے پورے طور پر کام لینا شروع کر دیں۔ ان میں دنیاوی فوائد کے علاوہ اور فوائد بھی ہیں ۔ جن کو آخرت کے فائدے کہا گیا ہے ۔ ان کا سمجھنا غور و فکر پر موقوف ہے ۔ بہرحال ان احکام کا انسان کے اندر ایک صاف شکل میں ہونا ضرور اس بات کو چاہتا ہے کہ آدمی ان پر غور کرے ۔ اور فکر سے ان کا مفید ہونا معلوم کرے ۔ اس وقت تک ان احکام کے فوائد تجربے سے بھی ظاہر ہوچکے ہیں ۔ اور یہ بات یقینا فکر کی معاون ہے ۔ الله تعالی نے ہماری بہتری اور راہنمائی کے لئے جو مختلف احکام نازل فرمائے ہیں ۔ کیا یہ اس لئے ہیں کہ ان کی طرف توجہ نہ دی جائے ؟ ان سے غفلت اور لاپرواہی برتی جائے ۔ ان کی ہنسی اڑائی جائے ؟ ہرگز نہیں ۔ احکامِ الٰہی انسانی فلاح و بہبود کے ضامن ہیں ۔ دنیا میں خوشحالی اور سکون لاتے ہیں ۔ آخرت میں سرخروئی اور انعام کا سبب بنتے ہیں ۔ ان سے ناواقف رہنے سے انسان اندھیروں میں جاپڑے گا ۔ اور ان کو اختیار کرنے سے چاروں طرف روشنی پائے گا ۔
دنیا میں کیونکر زندگی گزارنی ہے ؟ آخرت کے لئے کیونکر توشہ بنایا جائے ؟ یہ سب کچھ ان احکام میں مذکور ہے ۔ ان کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے سے ہی انسان زندگی کا حقیقی لطف اٹھا سکیں گے ۔ الله تعالی اپنے کلام میں ہمیں بار بار غور وفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ اور دعوٰی کرتا ہے کہ کلامِ الٰہی سے تمہاری عقبٰی بھی درست ہو گی اور خود یہ دنیا بھی سنور جائے گی ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره -آيه - ٢٢٠ (ب)
یتیموں کی اصلاح


وَيَسْأَلُونَكَ ۔۔ عَنِ ۔۔۔ الْيَتَامَى۔۔۔ قُلْ ۔۔۔ إِصْلَاحٌ ۔۔۔ لَّهُمْ ۔۔۔خَيْرٌ
اور وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ سے ۔۔ یتیم ۔۔ فرما دیجیے ۔۔۔ اصلاح کرنا ۔۔ ان کے لیے ۔۔۔ بہتر
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ

اور وہ آپ سے یتیموں کے بارے میں حکم پوچھتے ہیں فرما دیجئے ان کے کام کو سنوارنا بہتر ہے ۔
اَليتامٰى ( یتیم ) ۔ یہ لفظ یتیم کی جمع ہے ۔ اور یتیم سے مراد وہ لڑکا یا لڑکی ہے جس کے سر سے باپ یا ماں یا دونوں کا سایہ اٹھ چکا ہو ۔ باپ کے مرنے سے اگر بچہ یتیم ہوا ہو تو اس کی یتیمی اور بھی زیادہ قابل رحم ہو جاتی ہے ۔
اِصلاحٌ ۔ (سنوارنا ) ۔ اس میں ہر طرح کی جسمانی ، مالی اور اخلاقی سنوار آجاتی ہے ۔ یہاں اس کا تعلق خاص طور پر مالی اصلاح سے ہے ۔
یہ آیت ان صحابہ کے سوال کے جواب میں نازل ہوئی ۔ جن کی سرپرستی میں یتیم بچے پرورش کے لئے دئیے گئے تھے ۔ بعض لوگ یتیموں کے مال میں احتیاط نہ کرتے تھے ۔ اس پر الله تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ ولا تَقْرَبًوا مالَ اليتيم الّا بِالّتى هيَ اَحسن ۔ ( یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ سوائے اچھے طریقے کے ) اس پر جو لوگ یتیموں کے سرپرست تھے وہ ڈر گئے ۔ اور ان کے خرچ کو بالکل جدا کردیا ۔ خرچ الگ کرنے میں یہ دقت پیش آئی کہ جو چیز یتیموں کے لئے تیار کی جاتی اس میں سے اگر کچھ بچ جاتی تو وہ خراب ہو جاتی ۔ اس احتیاط میں یتیموں کا نقصان ہونے لگا ۔ اس لئے انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا ۔ کہ یتیموں کے خرچ کا کیا نظام رکھا جائے ۔ اپنے حساب میں شامل رکھا جائے یا ان کا حساب بالکل الگ رہنے دیا جائے ۔
اس آیت میں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اصل مقصد تو یتیموں کی اصلاح ہے ۔ جس طرح بھی ممکن ہو ۔ کوئی تدبیر اختیار کرو ۔ نیت اور ارادہ صرف اصلاح اور یتیم کی بہتری ہو ۔خواہ خرچہ اکٹھا ہو یا الگ الگ ۔ معاشرے میں ایسے بچوں کی تعداد اچھی خاصی ہے جو اپنے والدین کی شفقت سے بچپن ہی میں محروم ہو گئے ۔ ایسے بچوں کی تعداد جنگ کے زمانے میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ وہ اپنی جائیداد اور مال واسباب کا صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کے اہل نہیں ہوتے ۔ ان بچوں کی نگہداشت بہت ضروری ہے ۔ ورنہ ان کے لئے بے راہ رو ہوجانے اور بگڑنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔ جو لوگ ان کی سرپرستی و تربیت اپنے ذمہ لیں انہیں ان کے مال و جائیدا کو نہایت دیانتداری کے ساتھ استعمال کرنا چاہئیے ۔
آج کل یتیموں کی پرورش اور یتیم خانوں کا اجراء ایک باقاعدہ تجارتی مشغلہ بن کر رہ گیا ہے ۔ بعض اداروں کے کرتا دھرتا اپنی ناجائز اغراض کے لئے یتیم بچوں کو اپنا آلہ کار بناتے ہیں ۔ معاشی ، سماجی اور اخلاقی لحاظ سے ذلیل و رسوا کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے ۔ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم نے یتیموں کی تربیت اور نگہداشت پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔ اور اس کا اجر وثواب بھی بہت زیادہ ہونا فرمایا ہے ۔
 
Top