• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقره -آيه - ٢٢٠(ج)
یتیموں کے بارے میں احکام


وَإِن ۔۔ تُخَالِطُوهُمْ ۔۔ فَإِخْوَانُكُمْ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔ يَعْلَمُ ۔۔۔ الْمُفْسِدَ ۔۔ مِنَ ۔۔الْمُصْلِحِ
اور اگر ۔۔۔ ان کا خرچ ملا لو ۔۔۔ پس وہ بھائی ہیں تمہارے ۔۔ اور الله ۔۔ جانتا ہے ۔۔ خرابی کرنے والے ۔۔ سے ۔۔۔ اصلاح کرنے والا
وَلَوْ ۔۔۔ شَاءَ ۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ لَأَعْنَتَكُمْ ۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عَزِيزٌ ۔۔۔ حَكِيمٌ

اور اگر ۔۔۔ چاہتا ۔۔ الله ۔۔۔ تو تم پر مشقت ڈالتا ۔۔ بے شک ۔۔ الله ۔۔ زبردست ۔۔ تدبیر والا

وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

اور اگر ان کا خرچ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور الله تعالی خرابی کرنے والے اور سنوارنے والے ( کے فرق ) کو جانتا ہے اور اگر الله تعالی چاہتا تو تم پر مشقت ڈالتا بے شک الله تعالی زبردست تدبیر والا ہے ۔

صحابہ کرام رضوان الله علیھم اجمعین کا سوال یتیموں کے بارے میں آپ پڑھ چکے ہیں ۔ اس کے جواب میں الله تعالی نے نہایت جامع حکم ارشاد فرمایا ۔ کہ یتیموں کی اصلاح بہت بڑا ثواب کا کام ہے ۔ ان کی حیثیت تمہارے بھائیوں کی سی ہے ۔ ان کے ساتھ تکلف کیسا ؟ مقصود تو یہ ہے کہ یتیم کے مال کی اصلاح اور درستی ہو ۔ سو جس طرح بھی ہو اسی طرح کر لینا چاہئیے ۔ اگر یتیم کا فائدہ اس میں ہو کہ اس کا حساب علیحدہ رکھا جائے ۔ تو یوں کر لینا چاہئیے ۔ اور اگر بہتری اس میں نظر آئے کہ اس کا مال اپنے مال سے ملا لیا جائے تو اس میں بھی کچھ مضائقہ نہیں ۔ آخر وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ۔
پرانی تہذیبوں میں اور ان کے علاوہ موجودہ کئی قوموں میں یتیموں کو نہایت حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام نے فاِخوانكم کہہ کر بتا دیا کہ انسان ہونے کے لحاظ سے ان میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ۔ وہ تمہیں ایسے ہی عزیز ہونے چاہئیں جیسے تمہارے بھائی تمہیں عزیز ہیں ۔ انہیں ترقی کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے ۔ ان کی راہ میں کسی طرح بھی روڑے نہیں اٹکانے چاہئیے ۔ بلکہ ان کے مقصد کو حاصل کرنے میں ان کی مدد کرنی چاہئیے جس طرح بھائی اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے ۔ اس لئے ہر حال میں ان کی اصلاح اور درستی پیشِ نظر رکھنی چاہئیے اور اس کے لئے کوئی سا بھی طریقہ جو تم پسند کرو اسے اختیار کرو ۔ الله تعالی سب کی نیتیں جانتا ہے ۔ اور خوب سمجھتا ہے کہ کون فسادی ہے اور کون مصلح ہے ۔
اس کے بعد الله تعالی نے یہ بھی بتایا کہ اگر وہ چاہتا تو یتیموں کے بارے میں وہ تمہیں سخت حکم بھی دے سکتا تھا ۔ جو تمہیں پورے کرنے پڑتے ۔ اس لئے کہ وہ زبردست اور غالب ہے ۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ۔ کیونکہ وہ ہر حکم کی مصلحت سمجھتا ہے ۔ وہ ایسے حکم نہیں دیتا جو تم پر گراں اور مشکل ہوں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ ۔ آیہ نمبر ۔ 221 (الف)

مشرکہ سے نکاح

وَلَا تَنكِحُوا ۔۔۔۔ الْمُشْرِكَاتِ ۔۔۔۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُؤْمِنَّ

اور نہ تم نکاح کرو ۔۔۔ مشرک عورتیں ۔۔۔ یہانتک ۔۔۔ وہ ایمان لائیں

وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ

اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔

اَلْمُشرِكَات ۔ (مشرک عورتیں ) ۔ مشرکہ کی جمع ہے ۔ یہ لفظ شرک سے بنا ہے ۔ یعنی وہ عورت جو الله تعالی کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹہراتی ہو ۔ یہ لفظ اپنے وسیع اور عام معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اس حکم میں ہر کافر عورت داخل ہے ۔ محض بت پرست ہونا لازمی نہیں ۔

امام مالک اور امام شافعی کی فقہ میں ہر غیر مسلم عورت سے نکاح ناجائز ہے ۔
لیکن حنفی علماء کے نزدیک عام قاعدے کے لحاظ سے تو ہر غیر مسلمہ سے نکاح ناجائز ہے ۔ لیکن اہلِ کتاب یعنی یہودی یا نصرانی عورتوں سے نکاح جائز ہے ۔ جس کی اجازت شریعت میں باقاعدہ موجود ہے ۔
اس آیت میں الله تعالی نے مسلمانوں کو مشرک عورتوں سے نکاح کرنے کی ممانعت فرمائی ہے ۔ اس حکم کی مزید تشریح یہ ہے کہ

1.ہندو ، سکھ یا آتش پرست عورت سے نکاح درست نہیں ۔

2.اہل کتاب عورتوں سے نکاح جائز ہے ۔ لیکن بہتر نہیں ہے ۔ حضرت عمر نے اسے ناپسند فرمایا ۔ احادیث میں بھی دیندار عورت سے ہی نکاح کرنے کی ترغیب اور تاکید موجود ہے ۔

3.ایسی عورت جو اپنی وضع قطع سے اہل کتاب معلوم ہوتی ہو ۔ لیکن بعد میں تحقیق کرنے سے پتہ چل جائے کہ اس کا عقیدہ اہل کتاب والا نہیں ہے ۔ تو اس سے بھی نکاح درست نہیں ہے ۔
غرض ہر اس عورت سے نکاح ناجائز ہے جو مؤمن نہ ہو ۔ اسلام نے نکاح کے سلسلے میں ذات ، نسل ، رنگت وغیرہ قید نہیں لگائی ۔ بلکہ صرف ایمان دار اور درست عقیدہ ہونے کی شرط لگائی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ انتہائی الفت اور رفاقت کا ہوتا ہے ۔ دونوں میں گہری مناسبت کا ہونا لازم ہے ۔ میاں بیوی کا تمام عمر کامیابی کے ساتھ نباہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ بیوی شوہر کی زندگی کے اصل اُصول یعنی توحید و رسالت کی منکر نہ ہو ۔ اگر یہ مناسبت نہیں ہے تو اُن کی زندگی کے ہر پہلو میں کامیابی کے ساتھ چلتے جانا بالکل ناممکن ہے ۔ اور اس سے بھی بڑی خرابی اولاد کی تربیت ، مذہب اور مستقبل پر پڑتی ہی ۔ باپ اپنی طرف کھینچتا ہو اور ماں اپنی طرف ۔ نتیجہ ظاہر ہے ۔
خاوند اپنی گھریلو زندگی کے تمام معاملات کا فیصلی اسی عقیدے کی روشنی میں کرے گا ۔ بیوی اپنے عقیدے کے مطابق سوچے گی ۔ اور دونوں میں زبردست اختلاف اور جھگڑا ہوتا رہے گا ۔ اس کا بُرا اثر ان کےبچوں پر پڑے گا اور اولاد کا مستقبل خراب ہوجائے گا ۔ اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر تباہ کرنے والے نتائج سے بچنے کے لئے مشرکہ سے نکاح نہ کیا جائے ۔ یہود اور مسیحوں کے ہاں بھی مذہبی طور پر یہ پابندی موجود ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ آج وہ اس پر عمل نہ کریں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ ۔ آیة ۔121(ب)

مسلمان لونڈی کا درجه

وَلَأَمَةٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ مُّؤْمِنَةٌ ۔۔۔۔۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔۔ مِّن

اور البتہ لونڈی ۔۔۔ ایمان والی ۔۔۔ بہتر ۔۔۔ سے

مُّشْرِكَةٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَوْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَعْجَبَتْكُمْ

شرک کرنے والی ۔۔۔ اور اگرچہ ۔۔۔ وہ پسند آئے تم کو


وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ

اور البتہ مسلمان لونڈی مشرک بی بی سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بھلی لگے ۔


آیت کے پہلے حصے میں ایک مشرک عورت کا مسلم سے ناقابلِ نکاح ہونا بیان کیا گیا ہے ۔ اب الله تعالی فرماتا ہے کہ مشرک عورت میں خواہ تمام خوبیاں موجود ہوں ۔ اس میں ظاہری طور پر کشش موجود ہو ۔ لیکن جب اس میں ایمان کی روشنی نہیں تو مسلمان کے لئے کوئی کشش نہیں ہونی چاہئیے ۔ اس کے مقابلے میں اگر ایک مسلمان عورت جسے خواہ آزادی جیسی نعمت میسر نہ ہو ۔ اسے نکاح میں لانا زیادہ بہتر ہے ۔
ایک مشرک یا غیر مسلم عورت کی پسندیدگی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ مثلا یہ کہ وہ مالدار ہو ۔ بہت زمین جائیداد کی مالکہ ہو ، حسین و جمیل ہو ۔ تعلیم یافتہ ہو ، اعلٰی خاندان سے ہو ، بہت سلجھی ہوئی ہو ، لائق و فائق ہو ، نسوانیت کا ہر تقاضا پورا کرتی ہو لیکن ایک ایمان والی عورت کے سامنے اس کی سب خوبیاں ہیچ ہیں ۔ جب کہ اس مشرکہ کا عقیدہ اور بنیاد ہی غلط ہے ۔
اس کے مقابلہ میں ایک مؤمنہ لونڈی کو پسند نہ کرنے کی کئی وجوھات ہو سکتی ہیں ۔ مثلا بدصورتی ، غُربت یا ان پڑھ اور باندی ہونا ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود الله تعالی کے نزدیک ایسی لونڈی اپنے ایمان کی بدولت مشرکہ عورت سے برتر ہے ۔ اس لئے نکاح کے لئے ایسی عورت کو ترجیح دینے کا حکم دیا گیا ۔
مشرکہ عورت سے نکاح کرنے سے خود شوہر کی اپنی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ بات بات پر اختلافِ رائے ، بات بات پر جھگڑا ، گھریلو معاملات میں تنازعہ ، بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں اختلافِ رائے ۔ اس قسم کی چپقلش کا بُرا اثر نہ صرف شوہر پر بلکہ بچوں پر پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ بچے اپنے سامنے سیدھی راہ نہیں پاتے ۔ باپ کی تعلیم اور ہوتی ہے اور ماں کی کچھ اور ۔
البتہ اگر نکاح کسی مسلمان باندی سے کر لیا جائے تو اسمیں ایسی دشواریاں اور اُلجھنیں نہ پیدا ہوں گی ۔ کیونکہ اولاد بہرحال مسلمان رہے گی ۔ اور مسلمان ہونا خواہ غلامی کے طوق کے ساتھ ہو شرک اور کفر سے بہتر ہے ۔
اس زمانہ میں جبکہ غلامی کی لعنت دنیا میں اسلام کی تدابیر کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے ۔ لونڈی اور غلام کوئی ہے ہی نہیں ۔ اس لئے یہ آیت فقط اس ممانعت کو تقویت دیتی ہے جو مشرک اور کافر عورتوں سے نکاح کی بابت آیت کے پہلے حصہ میں بیان ہوئی ۔
جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت لونڈی اور غلام موجود تھے ۔ اس وقت یہ سمجھایا گیا کہ مسلم لونڈی سے شادی کرنے میں بھی کچھ معاشری نقصانات ہیں ۔ لیکن وہ ان خرابیوں اور الجھنوں سے کم ہیں جو ایک غیر مسلم عورت کو رفیقہ حیات بنانے سے پیدا ہوتی ہیں ۔ آج بھی ہم اس سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ازدواجی رشتے اور تعلقات پیدا کرنے کے لئے اسلام کا خیال سب پر مقدم ہے ۔ لونڈیوں کی بابت یہ مسئلہ یاد رکھنا چاہئیے کہ ان کی اولاد غلام ہو گی ۔جب تک کہ وہ لونڈی کے مالک سے نہ ہو ۔ آزاد عورت کی اولاد آزاد ہی ہو گی خواہ باپ کیسا ہی ہو ۔ نیز یہ کہ آج کل لونڈی اور غلام قطعا نہیں ہیں ۔ اس کا بیان سورہ نساء میں بھی آئے گا
ان شاء الله تعالی
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ ۔ آیة 212(ج)

مشرک مرد سے نکاح

وَلَا تُنكِحُوا ۔۔۔ الْمُشْرِكِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُؤْمِنُوا

اور نہ تم نکاح کرو ۔۔۔ مشرکوں ۔۔۔ یہاں تک ۔۔۔ وہ ایمان لے آئیں

وَلَعَبْدٌ ۔۔۔۔۔۔۔ مُّؤْمِنٌ ۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔ مِّن ۔۔۔ مُّشْرِكٍ

اور البتہ غلام ۔۔۔ مؤمن ۔۔۔ بہتر ۔۔۔ سے ۔۔۔ مشرک

وَلَوْ ۔۔۔۔۔۔۔ أَعْجَبَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ أُولَئِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ يَدْعُونَ ۔۔۔۔۔۔ إِلَى

اور اگرچہ ۔۔۔ تمہیں بھلا لگے ۔۔۔ یہی لوگ ۔۔۔ وہ بلاتے ہیں ۔۔۔ طرف

النَّارِ ۔۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ يَدْعُو ۔۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ الْجَنَّةِ

آگ ۔۔۔ اور الله ۔۔۔ وہ بلاتا ہے ۔۔۔ طرف ۔۔۔ جنت

وَالْمَغْفِرَةِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِإِذْنِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَيُبَيِّنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آيَاتِهِ

اور مغفرت ۔۔۔ اپنے حکم سے ۔۔۔ اور وہ بیان کرتا ہے ۔۔۔ اپنے حکم

لِلنَّاسِ ۔۔۔۔ لَعَلَّهُمْ ۔۔۔۔ يَتَذَكَّرُونَ

لوگوں کے لئے ۔۔۔ تاکہ وہ ۔۔۔ نصیحت قبول کریں ۔



وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ۔

اور مشرک مردوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ البتہ غلام مسلمان مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بھلا لگے ۔ وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور الله تعالی اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے ۔ اور لوگوں کو اپنے حکم بتاتا ہے تاکہ وہ نصیحت قبول کریں ۔


لا تُنكِحُوا (نہ نکاح کرو ) ۔ یہاں خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی لڑکیوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو ۔یہ حکم خود عورتوں کو براہ راست نہیں مل رہا کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جاؤ ۔ وجہ ظاہر ہے کہ لڑکی کا نکاح ہمیشہ باپ یا کسی مرد سرپرست کے ذریعے ہی ہوتا ہے ۔

اِلَى النّار(دوزخ کی طرف ) ۔ یعنی ان عقائد اور اعمال کی طرف بلاتے ہیں جن کا انجام دوزخ ہے

اِلى الْجنّةِ والمَغفِرةِ (جنت اور بخشش کی طرف ) ۔ یعنی الله سبحانہ تعالی ایمان و اسلام کی طرف ترغیب دیتا ہے ۔ اور ایسا طریقۂ زندگی اختیار کرنے کی ھدایت کرتا ہے جس کا انجام جنت و مغفرت ہے ۔

بِاِذنهِ (اپنے حکم سے ) ۔ اذن کے معنی توفیق ، ارادہ اور حکم کے ہیں ۔

آیت کے پہلے حصے میں مسلمانوں کو حکم تھا کہ وہ کسی کافر یا مشرک عورت سے نکاح نہ کریں ۔ خواہ وہ انہیں کتنی ہی زیادہ پسند ہو ۔ اس حصہ میں فرمایا کہ اپنی عورتوں کو بھی کافر مردوں کے نکاح میں ہرگز نہ دو ۔ جب تک کہ کافر لوگ ایمان نہ لائیں ۔

یہاں پھر یہ واضح کر دیا گیا کہ مشرک مرد خواہ تمہیں کتنا ہی پیارا لگے ۔ کتنا ہی پسند آئے ہر حالت میں اس غیر مسلم سے مسلمان غلام بہتر ہے ۔کیونکہ مشرک سے شادی کے جو نتائج نکلتے ہیں وہ بہت بھیانک ہوتے ہیں ۔ مشرک مرد عقائد و اعمال کی نہایت بُری تعلیم دیں گے اور تمہیں دوزخ کی آگ میں جھونکنے کا سبب بنیں گے ۔



مشرک سے نکاح کا حکم ۔۔

پہلے مسلمان مرد اور کافر عورت یا کافر مرد اور مسلمان عورت دونوں صورتوں میں نکاح کی اجازت تھی ۔ اس آیت سے اس کو منسوخ کردیا گیا ۔ اگر مرد یا عورت مشرک ہو تو اس کا نکاح مسلمان سے درست نہیں یا نکاح کے بعد ایک مشرک ہو گیا تو نکاح ٹوٹ جائے گا ۔ اور شرک یہ ہے کہ الله تعالی کی صفات علم ، قدرت یا کسی اور میں کسی کو الله کے برابر سمجھے ۔ یا الله تعالی کی مانند کسی کی تعظیم کرنے لگے ۔ مثلا کسی کو سجدہ کرے یا کسی کو مختار سمجھ کر اُس سے اپنی حاجت مانگے ۔
باقی اتنی بات دیگر آیات سے معلوم ہوئی کہ یہود و نصارٰی کی عورتوں سے مسلمان مرد کا نکاح درست ہے وہ ان مشرکین میں داخل نہیں ۔ بشرطیکہ وہ اپنے دین پر قائم ہوں دہریہ اور ملحد نہ ہوں ۔ جیسے کہ آجکل کے نصارٰی اکثر نظر آتے ہیں ۔ ایک الله کو ماننے والے ہوں ۔
خلاصہ تمام آیت کا یہ ہے کہ مسلمان مرد کو مشرک عورت سے نکاح کرنا درست نہیں ۔ جبتک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائے ۔ اور مسلمان لونڈی کافر آزاد عورت سے بہتر ہے ۔ اگرچہ مال ، جمال یا شرافت کی وجہ سے وہ تمہیں پسند آئے ۔ اور اسی طرح مسلمان عورت کا نکاح مشرک مرد سے نہ کرو ۔ مسلمان غلام بھی مشرک سے بہت بہتر ہے اگرچہ وہ مشرک آزاد ہی کیوں نہ ہو اور اپنے مال و دولت شکل و صورت اور مرتبے کی بدولت تمہیں پسند ہو ۔
یعنی مسلمان ادنٰی سے ادنٰی بھی مشرک سے بہت افضل ہے اگرچہ وہ اعلی سے اعلی ہی کیوں نہ ہو ۔
کیونکہ مشرکین اور مشرکات جن کا ذکر ہوا ہے اُن کے اقوال ، اُن کے افعال ، اُن کی محبت ، اُن کے ساتھ اختلاط کرنا ، ملنا جلنا شرک کی نفرت اور اس کی برائی کو دل سے کم کرتا ہے اور شرک کی طرف رغبت اور محبت کا باعث ہوتا ہے ۔ جس کا انجام دوزخ ہے ۔ اس لئے ایسوں سے نکاح کرنے سے مکمل اجتناب ضروری ہے ۔
( تفسیر عثمانی )

علماء نے لکھا ہے کہ شوہر اگر پہلے سے مسلمان ہے اور الله نہ کرے بعد میں مرتد ہو گیا تو مسلمان عورت اسی وقت اس کے نکاح سے باہر ہو جائے گی ۔ جو نکاح ابھی تک صحیح اور قائم تھا فورا ٹوٹ جائے گا ۔ یہ عورت عدّت پوری کرکے کسی مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے ۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ اگر میاں بیوی پہلے سے کافر ہیں اور عورت مسلمان ہو گئی تو اب نکاح کے باقی رہنے کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ شوہر بھی اسلام قبول کرلے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورہ البقرہ۔آیہ ۔ ۲۲۲ (الف)

حیض کی حقیقت

وَيَسْأَلُونَكَ ۔۔۔۔ عَنِ ۔۔۔ الْمَحِيضِ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ قُلْ ۔۔۔۔۔۔ هُوَ

اور وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ سے ۔۔۔ حیض ۔۔۔ فرما دیجئے ۔۔۔ وہ

أَذًى ۔۔۔ فَاعْتَزِلُوا ۔۔۔۔ النِّسَاءَ ۔۔۔۔ فِي ۔۔ الْمَحِيضِ

گندگی ۔۔۔ پس تم الگ رہو ۔۔۔ عورتیں ۔۔۔ میں ۔۔ حیض


وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ

اور وہ آپ سے حیض کا حکم پوچھتے ہیں فرما دیجئے وہ گندگی ہے سو تم عورتوں سے حیض کے وقت الگ رہو

مَحِيض ۔ (حیض ) ۔ حیض اس خون کو کہتے ہیں جو عورتوں کو ہر ماہ آتا ہے ۔ جسے اذیً (گندگی ) ماہواری بھی کہتے ہیں ۔ دنیا کی دوسری قوموں نے بھی حیض کو گندہ خون قرار دیا ہے ۔ اور طب کے ماہروں کا بھی دعوٰی ہے کہ یہ ناقص خون ہے ۔ یہ خون رنگ ، بو اور اجزاء کے اعتبار سے بھی عام خون سے مختلف ہے ۔ اس میں حد درجہ گرمی ہوتی ہے ۔

فَاعْتزِلوا ( پس تم الگ رہو ) ۔ یہ لفظ اعتزال سے نکلا ہے ۔ جس کے یہاں معنٰی یہ ہیں کہ عورت سے ہم بستری کے عمل سے الگ رہو ۔

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں ایک طرف تو مجوسی اور یہودی حیض کے زمانے میں عورت کے ہاتھ کا کھانا پینا بھی ناپاک سمجھتے تھے ۔ بعض لوگ اس دوران عورت کو گھر میں رکھنا بھی جائز نہ سمجھتے تھے ۔ ہندو آج بھی ایامِ حیض میں عورت کے ہاتھ کا پکا کھانا جائز نہیں سمجھتے ۔
دوسری طرف عیسائی عین حیض کے ایّام میں ہم بستر ہونے سے بھی پرھیز نہ کرتے تھے ۔
صحابہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا ۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے افراط و تفریط کو بُرا بتایا ۔ اور فرمایا کہ نہ تو اس قدر نفرت ضروری ہے کہ عورت کو گھر میں ہی نہ رہنے دیا جائے اور اس کے ہاتھ کا کھانا ناپاک سمجھ لیا جائے ۔ اور نہ اس قدر لاپرواہی کرنی چاہئیے کہ مجامعت سے بھی پرھیز نہ کیا جائے ۔ بلکہ سیدھی راہ یہ ہے کہ اس سے مجامعت نہ کی جائے ۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ کھانا پینا رہنا سہنا سب درست ہے ۔
قرآن مجید زندگی کا مکمل دستورِ عمل ہے ۔ یہ زندگی کے ہراس شعبہ کے بارے میں احکام و ھدایات دیتا ہے ۔ جس کا تعلق انسان کی زندگی سے ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ اس میں انسان صرف کھاتا پیتا ، سوتا ہی ہے بلکہ اس کے اندر جنسی بھوک بھی پیدا ہوتی ہے ۔ بچے پیدا کرنے کی خواہش بھی ہوتی ہے ۔ خاص تعلقات قائم کرنے کی آرزو بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے ان تمام باتوں کے متعلق قرآن مجید مناسب حکم دیتا ہے ۔
دوسری قوموں نے عام طور پر اس طبعی ناپاکی کے متعلق بہت مبالغہ آمیز طریقہ اختیار کر لیا ہے ۔ قرآن مجید نے بتایا کہ اس زمانہ میں صرف جنسی اختلاط منع ہے ۔ باقی اس کا عام طور پر اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ سب جائز ہے ۔

اذًی ( گندگی ) ۔ قرآن مجید نے حیض کو گندگی بتایا ہے ۔ اس کے دوسرے معنی تکلیف اور آزار بھی ہیں ۔ ہوسکتا ہے اسی تکلیف اور آزار کے سبب ان ایّام میں ہم صحبت ہونے کو منع کیا گیا ہو ۔ آج طبی طور پار بھی یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ گئی ہے کہ ان ایّام میں اختلاط بہت سی بیماریوں کا سبب ہو سکتا ہے ۔ ڈاکٹر حضرات خود بھی اس سے شدید طور پر روکتے ہیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة البقرہ ۔ آیہ ۔ ۲۲۲ (ب)

حیض کے بعد

وَلَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تَقْرَبُوهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَطْهُرْنَ ۔۔۔۔۔۔۔ فَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تَطَهَّرْنَ

اور نہ ۔۔ تم قریب جاؤ ان کے ۔۔۔ یہاں تک ۔۔ وہ پاک ہو جائیں ۔۔ پس جب ۔۔۔ وہ پاک ہو جائیں

فَأْتُوهُنَّ ۔۔۔۔ مِنْ ۔۔۔ حَيْثُ ۔۔۔۔۔۔۔ أَمَرَكُمُ ۔۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ

پس تم ان کے پاس آؤ ۔۔۔ سے ۔۔ جہاں ۔۔ حکم دیا تم کو ۔۔ الله ۔۔۔ بے شک ۔۔ الله

يُحِبُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ التَّوَّابِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَيُحِبُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْمُتَطَهِّرِينَ

وہ دوست رکھتا ہے ۔۔۔ توبہ کرنے والے ۔۔۔ اور وہ دوست رکھتا ہے ۔۔۔ پاک رہنے والے



وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ.

اور جب تک وہ پاک نہ ہوں ان کے قریب نہ جاؤ پھر جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس جاؤ جیسے الله نے تمہیں حکم دیا ہے بے شک الله تعالی توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور وہ پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔


اَلتّوّابينَ ۔(توبہ کرنے والے ) ۔اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن سے شرعی احکام میں کبھی اتفاقیہ طور پر کوئی غلطی ہو جائے ۔ اور وہ بعد میں توبہ کرلیں اور اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں

اَلْمُتَطهرِين (گندگی سے بچنے والے ) ۔ خاص طور پر اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو عورت کی ناپاکی اور گندگی کے زمانے میں جنسی اختلاط سے بچتے رہیں ۔

پچھلے سبق میں قرآن مجید نے حیض کو گندگی اور نجاست قرار دیا تھا ۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب گندہ خون آنا بند ہوجائے اور عورت غسل کر لے تو پھر اس سے جنسی اختلاط کی اجازت ہے ۔ یہ جائز فعل فطری اور جائز طریق سے ہونا چاہئیے ۔ غیر فطری طریقے سے نہیں ۔
الله تعالی نے مرد و عورت میں جنسی کشش رکھی ہے اور جنسی عمل سے اگرچہ طبعی لذت بھی حاصل ہوتی ہے لیکن یہ لذت ہی آخری مقصد نہیں ہے ۔ میاں بیوی کے تعلق کا اصل مقصد اور نتیجہ حصولِ اولاد ہے ۔ اسے فراموش کرکے اگر کوئی شخص کسی اور طریقے سے لذت حاصل کرنا چاہے تو وہ بالکل ناجائز ہے ۔
پاک ہونے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر حیض اپنی پوری مدت یعنی دس دن میں مکمل ہوا تو اُسی وقت سے مجامعت درست ہے ۔ اور اگر دس دن سے پہلے ختم ہو گیا مثلا چھ روز کے بعد اور عورت کی عادت بھی چھ روز کی تھی تو مجامعت خون کے موقوف ہوتے ہی درست نہیں ۔ بلکہ جب عورت غسل کرلے یا ایک نماز کا وقت گزر جائے تو اس کے بعد مجامعت درست ہو گی ۔ اور اگر عورت کی عادت سات یا آٹھ دن کی تھی تو ان دنوں کے پورا کرنے کے بعد مجامعت درست ہو گی ۔
جس موقع سے مجامعت کی اجازت دی ہے یعنی آگے کی راہ جہاں سے بچہ پیدا ہوتا ہے ۔ دوسرا موقع یعنی لواطت حرام ہے ۔
آخر میں بتایا کہ الله تعالی ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اپنی پچھلی غلطیوں پر توبہ کرتے ہیں ان پر نادم ہوتے ہیں اس گناہ سے جو ان سے اتفاقیہ صادر ہوا مثلاً حالتِ حیض میں وطی کا مرتکب ہوا اور ناپاکی یعنی گناہوں اور وطی حالتِ حیض اور وطی موقع نجس سے احتراز کرتے ہیں ۔ اور آئندہ غلطی کے مرتکب ہونے سے پرھیز کرتے ہیں ۔ اس لئے اگر کوئی شخص ماضی میں اس گناہ کا مرتکب رہا ہو تو اسے فورا توبہ کرنی چاہئیے۔
کیونکہ الله تعالی پاکی اور طہارت رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة البقرہ ۔ آیہ ۔ ( ۲۲۳)

بیوی کا درجہ

نِسَاؤُكُمْ ۔۔۔ حَرْثٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ فَأْتُوا ۔۔۔۔۔۔ حَرْثَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ أَنَّى ۔۔۔۔۔۔۔ شِئْتُمْ

تمہاری عورتیں ۔۔۔ کھیتی ۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ پس تم آؤ ۔۔ اپنی کھیتی ۔۔ جس طرح ۔۔ تم چاہو


نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ

تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں سو جسطرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ ۔

حرث ۔ ( کھیتی ) ۔ کھیت زمین کے اس ٹکڑے کو کہا جاتا ہے جس میں بیج بویا جاتا ہے ۔ اور اس میں سبزی ، غلہ اور نباتات پیدا ہوتے ہیں ۔ گویا بیوی تمہاری نسل بڑھانے اور اولاد پیدا کرنے کا ذریعہ ہے ۔

یہود عورت کی پشت کی طرف سے ہو کر وطی کرنے کو ممنوع کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس سے بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو اس پر یہ آیت اتری ۔ یعنی تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتی کی مانند ہیں ۔ جس میں نطفہ بیج کی مانند ہے اور اولاد پیداوار کی طرح ہے ۔ اصل مقصد نسل کا باقی رہنا اور اولاد کا پیدا ہونا ہے ۔ سو تم کو اختیار ہے آگے سے یا کروٹ سے یا پس ِپشت یا بیٹھ کر جس طرح چاہو مجامعت کرو مگر یہ ضرور ہے کہ تخم ریزی خاص اسی موقع میں ہو جہاں پیداواری کی اُمید ہو ۔ لواطت ہرگز ہرگز نہ ہو ۔ یہود کا خیال غلط ہے کہ اس سے بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے ۔
اس آیت میں الله تعالی نے رشتۂ ازدواج کے سلسلے میں بیوی کی صحیح حیثیت واضح کر دی ہے ۔ یعنی یہ کہ بیوی مرد کی کھیتی ہے ۔ اور جس طرح کسان اپنی کھیتی کو اپنی بہت بڑی دولت سمجھ کر عزیز رکھتا ہے ۔ اس کی نگرانی کرتا ہے ۔ اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس سے پیداوار حاصل کرتا ہے ۔ اسی طرح شوہر کو چاہئیے کہ اپنی بیوی کو بھی اپنی عزیز ترین دولت سمجھے ۔ اس کی مناسب نگرانی اور دیکھ بھال کرے اور اس سے اولاد حاصل کرے ۔
گویا ثابت ہوا کہ اسلام کے نزدیک ہم بستری کا اصل مقصد حصولِ اولاد ہی ہے ۔ اگرچہ اس کے دوسرے پہلو یعنی طلبِ تسکین کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ ضبط تولید طبعی امر نہیں ۔ کیونکہ کون ایسا احمق کسان ہوگا جو بیج تو بوئے لیکن فصل نہ چاہے ۔ پودا اُگنے سے پہلے ہی اسے اکھاڑ پھینکے ۔ پھر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح کسان الله تعالی سے بارانِ رحمت کی دُعا کرتا ہے ۔ فصل کے پھلنے پھولنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے ۔ اسی طرح شوہر کو بھی الله تعالی سے صالح اولاد لینے کے لئے دعا کرنی چاہئیے ۔
الله تعالی نے کھیتی کی مثال دے کر بہت کچھ سمجھا دیا ہے ۔ کاش انسان اس مثال پر غور کرے اور ان تعلقات کو اپنی زندگی اور انجام کار کے اعتبار سے مبارک بنائے ۔

اَنّٰی شِئْتُمْ ( جہاں سے تم چاہو ) ۔ لفظ انّی کے معنی جہاں" کے ہیں ۔ اس کے علاوہ جب" اور جس طرح" کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن مجید نے اس مسئلہ کو کیسے پُر حکمت طور پر اشاروں اشاروں میں سمجھایا ہے کہ طریق کار اور وقت پر پابندی نہیں ۔ ہاں اس بات پر پابندی ہے کہ غیر فطری طریق اختیار کرکے اپنی قوت اور نسل ضائع کرو ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة البقرہ ۔ آیة۔( ۲۲۳) ب

آئندہ کی فکر

وَقَدِّمُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لِأَنفُسِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔وَاعْلَمُوا

اور آگے بھیجو ۔۔ اپنی جانوں کے لئے ۔۔۔ اور ڈرتے رہو ۔۔ الله ۔۔۔ اور جان لو

أَنَّكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُّلَاقُوهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَبَشِّرِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْمُؤْمِنِينَ

بے شک تم ۔۔۔ ملنے والے ہو اس سے ۔۔۔ اور خوشخبری دیجئے ۔۔۔ مؤمنین



وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُم مُّلَاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

اور اپنے واسطے آگے کی تدبیر کرو اور الله سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تمہیں اس سے ملنا ہے اور ایمان والوں کو خوشخبری سنا دو ۔


یہ بات اس سے پہلے واضح کی جا چکی ہے کہ موت کے بعد ہماری زندگی ختم نہیں ہو جاتی ۔ بلکہ نئے دور میں داخل ہو جاتی ہے ۔ اور وہاں اس کا آرام یا تکلیف ان اعمال پر منحصر ہے جو ہم اس دنیا میں کرتے ہیں ۔ اس زندگی کے اعمال و افعال کا بُرا یا بھلا عکس اُس زندگی کی ناکامی یا کامیابی کی شکل میں پڑتا ہے ۔ یہ دنیا امتحان اور آزمائش کی جگہ ہے ۔ یہاں ہمیں سختی اور صعوبتیں جھیل کر مستقبل کے لئے توشہ بنانا ہے ۔ اور آخرت جزا و سزاپانے کی جگہ ہے ۔
آیه کے پہلے حصے میں مرد وعورت کے تعلقات بیان کئے گئے تھے اور بتایا گیا تھا کہ ان کے جنسی ملاپ کا اصل مقصد اولاد اور نسل ہے ۔ اب آیت کے اس حصہ میں تاکید کے طور پر یہ یاد دہانی کرا دی گئی ہے کہ آئندہ کے لئے اپنے حق میں کچھ کرتے رہو ۔ اور اس عین تسکین کے مشغلوں کے وقت بھی لذت پرستی میں غرق نہ ہو جاؤ ۔ بلکہ اپنی لذتوں کو بھی اطاعت و عبادت بنا لو۔ اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ تم ہر کام کرتے وقت اس کا انجام بہتر بنانے کی فکر کرو ۔
تقوٰی کی تاکید قرآن مجید نے بار بار کی ہے ۔ کہ انسان ہر حال میں ، زندگی کی ہر حالت میں اٹھتا بیٹھتا ، سوتا جاگتا ۔ کھاتا پیتا الله تعالی کو یاد رکھے ۔ افراط و تفریط سے بچ کر سیدھی راہ پر چلتا رہے ۔ آخر میں الله تعالی پیغمبر علیہ السلام کو حکم دیتا ہے کہ وہ اہل ایمان کو نیک جزا کی خوشخبری سنا دیں ۔ جن کے اوصاف یہ ہیں ۔

1.قَدّمُوا لِاَنْفُسِکُم ۔ کو سامنے رکھتے ہوئے مؤمن کو آئندہ کی فکر ہوتی ہے ۔ وہ لذت اور شہوت کو مطلوب نہیں بناتا بلکہ انجام اور بہتر نتائج کو مدّنظر رکھتا ہے ۔

2.اِتّقُوا الله کا حکم بار بار سنانے کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان خدا خوفی اور پرھیزگاری اختیار کرکے مثالی انسان بن جائے ۔ دنیا اسے دیکھ کر رشک کرے ۔

3.مُلٰقُوا ( تم اس سے ملنے والے ہو ) ۔ عین جنسی مسائل کے ذکر میں یاد دلایا جا رہا ہے کہ آخر تمہیں الله تعالی کے حضور پیش ہونا ہے ۔ خبردار کوئی ایسا عمل نہ سرزد ہو جائے جس سے اس دن شرمساری ہو ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة البقرہ ۔ آیہ ۲۲۴

قسموں کا غلط استعمال

وَلَا تَجْعَلُوا ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عُرْضَةً ۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّأَيْمَانِكُمْ

اور نہ تم بناؤ ۔۔۔ الله ۔۔۔ نشانہ ۔۔ اپنی قسموں کا

أَن تَبَرُّوا ۔۔۔۔۔۔۔ وَتَتَّقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَتُصْلِحُوا۔ ۔۔۔۔ بَيْنَ

یہ کہ تم نیک بنو ۔۔ اور ڈرو ۔۔۔ اور تم اصلاح کرو ۔۔۔ درمیان

النَّاسِ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔۔عَلِيمٌ

لوگ ۔۔ اور الله ۔۔۔ سننے والا ۔۔ جاننے والا

وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.

اور الله تعالی کے نام کو اپنی قسموں کے لئے نشانہ مت بناؤ کہ نیک سلوک کرنے اور پرہیزگاری کرنے اور لوگوں میں صلح کرانے سے ( بچ جاؤ ) اور الله تعالی سب کچھ سنتا جانتا ہے


عُرضةً ( نشانہ) ۔ یہ لفظ نشانے اور ڈھال کے علاوہ رکاوٹ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہاں اس کے یہی معنی مراد ہیں

سمیعٌ ( سنتا ہے ) ۔ الله تعالی انسان کی باتوں کو سننے والا ہے ۔ اس لئے انسان کو ہر بات سوچ سمجھ کر منہ سے نکالنی چاہئیے ۔

عَلِیمٌ ( جانتا ہے ) ۔ الله تعالی انسان کے حالات جاننے والا ہے ۔ اس لئے اسے اپنی نیت میں ہر وقت اخلاص رکھنا چاہئیے ۔

تَبَرُّوا ۔ ( تم نیک سلوک کرو ) ۔ یہ لفظ بر " سے ہے جس کے معنی نیکی کے ہیں ۔

یعنی کسی اچھے کام کے نہ کرنے پر قسم کھالے مثلا ماں باپ سے نہ بولوں گا یا فقیر کو کچھ نہ دوں گا جیساکہ بعض لوگ کسی سے ناراض ہو جائیں تو الله کی قسم کھا کر کہہ بیٹھتے ہیں ۔ کہ نہ اس کے پاس جائیں گے اور نہ اس سے بولیں گے نہ اس کے اور اس کے لڑنے والوں کے درمیان صلح کروائیں گے ۔ یہاں تک کہ قریبی رشتہ داروں میں بھی اس قسم کی ناچاقیاں ہو جاتیں ۔ جب کوئی کہتا کہ ان کاموں کو کرنا چھوڑ کیوں نہیں دیتے تو یہی بہانہ پیش کردیتے کہ ہم تو اس کام کی قسم کھا چکے ہیں ۔
نیک کاموں کو چھوڑ دینا ویسے ہی برا تھا چہ جائیکہ الله تعالی کا بزرگ اور محترم نام لے کر نیک کاموں سے بچنے کی صورت پیدا کی جائے ۔ آیت اسی بات کی طرف توجہ دلا رہی ہے ۔ اور حکم ہو رہا ہے آئندہ ایسا نہ کرنا اور اگر کسی نے قسم کھا بھی لی ہو تو اس کا توڑنا اور کفارہ ادا کرنا واجب ہے ۔
علماء نے بے ضرورت اور کثرت سے قسمیں کھاتے رہنے کو یوں بھی ناپسند کیا ہے ۔ کیونکہ اس میں الله تعالی کے نام کی بے توقیری ہوتی ہے ۔ اور بُرے کام کے لئے بھی الله تعالی کا نام لینا تو اور بھی بُرا ہے ۔
الله سبحانہ وتعالی تمام کائنات کا مالک اور عظمت وجلال والا ہے ۔ اس کا نام بھی بڑی شان اور بزرگی والا ہے ۔ اس قدر اونچے اور عالی نام کو بُرے کاموں پر گواہ بنانا نہایت بُرا ہے ۔ پھر اس کے نام کو نیک کام کے نہ کرنے کے لئے عذر بنائے رکھنا اور بھی بُرا ہے ۔ الله تعالی نیک کام سے نہیں روکتا ۔ اس لئے یہ عذر بالکل بے معنی ہے ۔ الله تعالی کی قسم ایسے کاموں کے لئے ہرگز نہیں کھانی چاہئیے ۔ اور اگر غلطی سے کوئی قسم کھا رکھی ہو تو اسے توڑ کر کفارہ دینا چاہئیے ۔
اگر کوئی قسم کھاتا ہے تو الله سبحانہ و تعالی اسے سنتا ہے اور اگر کوئی الله کی عظمت اور جلال کی وجہ سے قسم کھانے سے رُکتا ہے تو الله تعالی اس کی نیت کو خوب جانتا ہے ۔ تمہاری کوئی بات ظاہری اور مخفی اس سے چُھپی ہوئی نہیں اس لئے قلب کی نیت اور زبان کے قول دونوں میں احتیاط لازم ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة البقرہ ۔ آیة ۔ ۲۲۵

لغو قسمیں

لَّا ۔۔۔۔ يُؤَاخِذُكُمُ ۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ بِاللَّغْوِ ۔۔۔ فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَيْمَانِكُمْ

نہیں ۔۔ وہ پکڑتا تمہیں ۔۔۔ الله ۔۔ بے ہودہ ۔۔۔ میں ۔۔۔ تمہاری قسمیں

وَلَكِن ۔۔۔۔۔۔۔۔ يُؤَاخِذُكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِمَا ۔۔۔۔۔۔ كَسَبَتْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ قُلُوبُكُمْ

اور لیکن ۔۔ وہ پکڑتا ہے تمہیں ۔۔۔ ان کی وجہ سے ۔۔۔ ارادہ کیا ۔۔ دل تمہارے

وَاللَّهُ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔۔ حَلِيمٌ

اور الله ۔۔۔ بخشنے والا ۔۔۔ تحمل کرنے والا ہے ۔

لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ.

اور الله تعالی تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری بے ہودہ قسموں میں لیکن تمہیں پکڑتا ہے جن کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا اور الله بخشنے والا تحمل کرنے والا ہے ۔

بِالّغْوِ فِى اَيمَانٍكم (تمہاری بیہودہ قسموں پر ) ۔ لغو ( بے ہودہ ) قسموں سے مراد وہ قسمیں ہیں جو ناواقفیت کی بنا پر یا بے خیالی میں یا محض عادت کے طور پر بے ساختہ زبان سے نکل جاتی ہیں ۔ اور ان میں ارادے کے بغیر بھی جھوٹ کی ملاوٹ ہو جاتی ہے ۔
علماء نے بتایا ہے کہ لغو کی کئی قسمیں ہیں ۔ ان کا تعلق گزرے ہوئے واقعات سے بھی ہو سکتا ہے اور عادت سے بھی کہ آدمی یونہی بلاوجہ قسمیں کھاتا رہے ۔ بات بات پر قسم کھائے ۔ اور مقصد کچھ بھی نہ ہو ۔ اس بات کو سخت ناپسندیدہ کہا گیا ہے ۔
غفُورٌ (بخشنے والا) ۔ الله تعالی بڑا بخشنے والا ہے ۔ اپنی اسی شان سے کام لیتے ہوئے اس نے ایسی قسموں پر پکڑ نہیں رکھی ۔ معاف کر دیا ۔
حَلِيمٌ ( تحمل کرنے والا) ۔ الله تعالی بڑا بردباد ہے ۔ اپنی اسی شان سے کام لیتے ہوئے وہ لغو قسموں پر بھی سزا نہیں دیتا ۔ بلکہ سزا کو ملتوی کر دیتا ہے ۔ تاکہ انسان کو توبہ کا موقع مل سکے ۔
پہلی آیت میں ذکر ہو رہا تھا کہ نیک سلوک ، نیکو کاری ، پرھیزگاری اور صلح صفائی کے کام محض الله کے نام کی غلط قسموں کا بہانہ بنا کر ترک نہ کرو ۔ ایسی قسمیں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔
مثلا کوئی کہے ۔ الله کی قسم میں آئندہ مسجد میں نماز نہ پڑھوں گا ۔ یہ غلط قسم ہے کیونکہ الله جل شانہ تو مسجد میں نماز ادا کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ اور یہ شخص خود الله تعالی کا نام اس کام سے باز رکھنے کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔
اب اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ قسم وہ معتبر ہے جو دل سے اور پورے ارادے کے ساتھ کھائی جائے ۔ یہ نہیں کہ عادت کے طور پر یا جھوٹ موٹ غلط سلط قسم کھا لی اور اس پر ڈٹ گئے ۔
بیہودہ قسمیں قابلِ مواخذہ نہیں ، مقصد یہ ہے کہ انہیں توڑ کر کفارہ ادا کر دینا چاہئیے ۔ اور ایسی لغویات سے پرہیز کرنا چاہئیے ۔
اسلام ایسے ہلکے اور چھچھورے پن کو پسند نہیں کرتا ہے
 
Top