• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

درس قرآن

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ آیة ۔226-227

طلاق کی ابتداء

لِّلَّذِينَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُؤْلُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِن ۔۔۔ نِّسَائِهِمْ ۔۔۔۔۔۔ تَرَبُّصُ

ان لوگوں کے لئے ۔۔ وہ قسم کھا لیتے ہیں ۔۔۔ سے ۔۔ اپنی عورتیں ۔۔ مہلت

أَرْبَعَةِ ۔۔۔۔أَشْهُرٍ ۔۔۔۔۔۔ فَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَاءُوا

چار ۔۔۔ ماہ ۔۔۔ پس اگر ۔۔۔ لوٹ آئیں

فَإِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔۔۔ رَّحِيمٌ۔ 2️⃣2️⃣6️⃣

پس بے شک ۔۔۔ الله ۔۔۔ بخشنے والا ۔۔۔ مہربان

وَإِنْ ۔۔۔ عَزَمُوا ۔۔۔۔۔۔ الطَّلَاقَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَإِنَّ

اور اگر ۔۔۔ عزم کر لیا ۔۔۔ طلاق ۔۔۔ پس بے شک

اللَّهَ ۔۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔ عَلِيمٌ. 2️⃣2️⃣7️⃣

الله ۔۔۔ سننے والا ۔۔ جاننے والا ہے

لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ. 2️⃣2️⃣6️⃣

اور جو لوگ اپنی عورتوں کے پاس جانے کی قسم کھالیتے ہیں ان کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے پھر اگر باہم مل جائیں تو الله تعالی بخشنے والا مہربان ہے

وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ. 2️⃣2️⃣7️⃣

اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیا تو بے شک الله تعالی سننے والا جاننے والا ہے ۔

يُؤْلُونَ ( قسم کھا لیتے ہیں ) ۔ ایلاء سے بنا ہے اس کا معنی قسم کھانا ہیں ۔ اور اصطلاح میں بیوی سے جُدا رہنے کی قسم کھانا مراد ہے ۔ عربوں میں اس کا عام رواج تھا کہ ذرا غصہ آیا اور بیوی سے جدا رہنے کی قسم کھا بیٹھے ۔
طلاق ( چھوڑ دینا ) ۔ قانونی طور پر خاوند اور بیوی کے باہمی تعلقات بالکل ختم ہوجانے کا نام طلاق ہے ۔
اسلام سے پہلے دنیا میں طلاق کے مختلف طریقے رائج تھے ۔ یہودیوں کے ہاں طلاق کے سلسلے میں کوئی قید یا ذمہ داری نہ تھی ۔ جس کا جب جی چاہتا بس ایک طلاق نامہ لکھ کر بیوی سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ۔ بیوی اسی وقت دوسرا خاوند کر سکتی تھی ۔
اس آزادی کے مقابلے میں عیسائیوں نے بہت زیادہ سختی اختیار کی ۔ خاوند و بیوی کے الگ ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہ رکھی ۔ سوائے اس کے کہ بیوی کسی سے زنا کرے ۔ یہی حال ہندو مذہب کا ہے ۔ ان کے ہاں طلاق آج تک ناجائز چلی آرہی ہے ۔ اس کے برعکس اسلام نے اعتدال کی راہ اختیار کی ۔
عربوں کا دستور تھا کہ شوہر ایلاء ( قسم کھانے ) کے بعد جو ان کے نزدیک ایک طرح کی طلاق تھی بیوی کے خرچ ، دوسری ذمہ داریوں اور فرائض کی ذمہ داری سے علیحدہ ہو جاتا تھا ۔ اسلام نے اس رواج کی اصلاح کی اور بتایا کہ ایلاء نکاح کے فسخ ہونے کے برابر نہیں بلکہ صرف آغاز ہے ۔ اسلام نے غور وفکر کے لئے ایک مدت مقرر کر دی ۔ اور اس مدت کی معیاد چارمہینے رکھی جو اس مقصد کے لئے بالکل کافی ہے کہ خاوند بیوی کی جدائی کے اہم معاملہ کے سارے پہلوؤں پر ٹھنڈے دل سے غور کرے ۔
اسلام نے اس کی اجازت روا رکھی ہے کہ اگر شوہر ایمان داری کے ساتھ محسوس کرے کہ اس کی شریکِ زندگی اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتی یا جائز تقاضوں کو پورا نہیں کرتی تو وہ اسے طلاق دے دے ۔ بجائے اس کے کہ دونوں تمام عمر کڑھتے رہیں اور ایک دوسرے سے بےزار رہیں ۔ بہتر ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ ہی ہو جائیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ ۔ آیة 228(ا)
عدت

وَالْمُطَلَّقَاتُ ۔۔۔۔۔۔۔ يَتَرَبَّصْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِأَنفُسِهِنَّ ۔۔۔ ثَلَاثَةَ ۔۔۔ قُرُوءٍ

اور طلاق والی عورتیں ۔۔ انتظار میں رکھیں ۔۔۔ اپنی جانوں کو ۔۔ تین ۔۔ حیض

وَلَا يَحِلُّ ۔۔۔۔۔۔ لَهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن يَكْتُمْنَ ۔۔۔ مَا ۔۔۔ خَلَقَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهُ

اور نہیں حلال ۔۔ ان کے لئے ۔۔۔ یہ کہ وہ چھپائیں ۔۔۔ جو ۔۔ پیدا کیا ۔۔ الله تعالی

فِي ۔۔۔ أَرْحَامِهِنَّ ۔۔۔ إِن ۔۔۔۔۔۔ كُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُؤْمِنَّ ۔۔۔ بِاللَّهِ

میں ۔۔ ان کے پیٹ ۔۔ اگر ۔۔ ہیں وہ ۔۔ ایمان رکھتی ۔۔ الله پر

وَالْيَوْمِ ۔۔۔۔ الْآخِرِ

اور دن ۔۔ آخرت

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ

اور طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں تین حیض تک اور انہیں حلال نہیں کہ الله تعالی نے ان کے پیٹ میں جو پیدا کیا ہے وہ چھپا کر رکھیں اگر وہ الله تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں ۔

اَلْمُطَلّقٰتُ ( طلاق والی عورتیں ) ۔ ہر طلاق یافتہ عورت کو مطلقہ کہا جاتا ہے ۔ فقہ کی رو سے صرف وہ بیویاں مراد ہیں جو آزاد ہوں ، بالغ ہوں اور ان سے خلوت صحیحہ ہو چکی ہو ۔ وہ عورتیں نہیں جو شرعی لونڈیاں ہوں ۔ نابالغ ہوں اور جنہیں مرد نے چھوا نہ ہو ۔
يَتَرَبّصنَ بِاَنفُسهنّ ( اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ) ۔ یعنی یہ نہ ہو کہ ادھر شوہر نے طلاق دی اُدھر دوسرا شوہر کر لیا ۔ اس طرح یہ تعلق ایک کھیل بن کر رہ جائے گا ۔
ثلاثَةَ قُرُوءٍ ( تین حیض ) ۔ ویسے قرء کے لفظی معنی محض ایک مقررہ مدت کے ہیں ۔ لیکن یہاں اس کے معنی حیض کے ہیں ۔
مَا خَلَق اللهُ ( جو الله نے پیدا کیا ) ۔ رحم کے اندر جو چیز ہو یعنی اگر حمل سے ہوں تو اپنا حمل چھپائے نہیں ۔
اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر شوہر عورت کو طلاق دے دے تو اس عورت کو فورا دوسرا شوہر نہیں کر لینا چاہئیے ۔ بلکہ تین حیض تک انتظار کرنا چاہئیے ۔ اس انتظار کی مدّت میں بہت سی مصلحتیں ہیں ۔
مثلا ایک تو شوہر کو ٹھنڈے دل سے غوروفکر کرنے کا پورا موقع مل جاتا ہے ۔ دوسری طرف حمل کی بابت پورا یقین ہو جاتا ہے ۔ اس طرح کسی شخص کی اولاد کسی دوسرے کو نہیں ملتی ۔ اس لئے عورت کا فرض ہے کہ اس کے پیٹ میں جو ہو اسے ظاہر کر دے ۔
اس مدت کو شریعت کی اصطلاح میں عدت کہتے ہیں ۔ گویا اس سبق میں دو حکم دئیے گئے ہیں

1. طلاق کے بعد ایک مقررہ مدت تک انتظار کرنا واجب ہے ۔
2. اگر وہ پیٹ سے ہوں تو حمل کو چھپائیں نہیں بلکہ ظاہر کر دیں ۔
ان دونوں حکموں میں بے شمار اخلاقی اور سماجی فائدے ہیں ۔
طلاق کے جو مسائل قرآن مجید کے اس حصے میں مسلسل بیان ہو رہے ہیں وہ ہماری خاص توجہ چاہتے ہیں ۔ چونکہ موجودہ زمانے میں دنیا میں طلاق ایک دل لگی بن چکی ہے ۔ مغرب میں شاید چند فیصد عورتیں ہی طلاق حاصل نہیں کرتی ہوں گی اور مشرق میں عورتوں پر مظالم ہوتے ہیں مگر طلاق نہیں ملتی ۔ آج اسلام کی یہ اعتدال پرور تعلیم عام ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة البقرہ آیة 228(ب)
رجعت اور میاں بیوی کی حیثیت

وَبُعُولَتُهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔ أَحَقُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِرَدِّهِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فِي ۔۔۔ ذَلِكَ

اور ان کے شوہر ۔۔ زیادہ حق رکھتے ہیں ۔۔ انہیں لَوٹا لینے کا ۔۔۔ میں ۔۔۔ اس

إِنْ ۔۔۔ أَرَادُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ إِصْلَاحًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مِثْلُ ۔۔۔۔ الَّذِي

اگر ۔۔ وہ چاہیں ۔۔ سلوک سے رہنا ۔۔ اور ان عورتوں کے لئے ۔۔۔ مانند ۔۔ وہ

عَلَيْهِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَلِلرِّجَالِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْهِنَّ ۔۔۔۔۔۔ دَرَجَةٌ

اُن پر ۔۔ دستور کے موافق ۔۔۔ اور مردوں کو ۔۔۔ ان عورتوں پر ۔۔۔ فضیلت

وَاللَّهُ ۔۔۔ عَزِيزٌ ۔۔۔ حَكِيمٌ 2️⃣2️⃣8️⃣

اور الله ۔۔۔ زبردست ۔۔۔ تدبیر والا

وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ. 2️⃣2️⃣8️⃣

اور ان کے خاوند اس مدت میں ان کے لوٹا لینے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر وہ دونوں سلوک سے رہنا چاہیں اور عورتوں کا بھی دستور کے مطابق مردوں پر حق ہے جیسے مردوں کا اُن پر ہے اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ اور الله تعالی زبردست تدبیر والا ہے ۔

ذالک (اس میں ) ۔ یعنی تین مہینے کی میعاد میں ۔
اَحَقُّ بِرَدّھِنَّ ( انہیں لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں ) ۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ خاوند کو چاہئیے کہ جہاں تک ہو سکے بالکل آخری فیصلہ نہ کرے اور بہتر ہے کہ میاں بیوی پھر نئے سرے سے آباد ہوجائیں اور مستقل جدائی کی نوبت نہ پیدا ہو ۔
اسلامی شریعت نے طلاق کو صرف ضرورت کے موقع پر علاج اور آخری تدبیر کے طور پر جائز رکھا ہے ۔ خوامخواہ اس کی ترغیب نہیں دی اور نہ بلا ضرورت اسے پسند کیا ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی اسے ابغض المباحات کہا گیا ہے ۔ ( یعنی الله تعالی کی طرف سے جائز ٹہرائی گئی چیزوں میں سے الله کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ ) ۔ اس لئے اگر سوچ وبچار کے بعد شوہر بیوی کو واپس لینا چاہے ۔ تو طلاق کو منسوخ کر سکتا ہے ۔ اصطلاح میں اسے رجعت کہتے ہیں ۔
رجعت کی اجازت دینے کے بعد الله تعالی نے یہ تنبیہ بھی کر دی ہے کہ طلاق کو محض اس لئے منسوخ کرنا چاہئیے کہ آئندہ زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ صلاح و صفائی کے ساتھ رہیں ۔ اور اس سے عورت کو تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو ۔ شوہر اگرچہ قانونی طور پر طلاق منسوخ کر سکتا ہے ۔ لیکن جہاں تک اس کے نیک سلوک کا تعلق ہے ۔ یہ بات قانون سے نہیں بلکہ محض اخلاق اور نیک نیت پر منحصر ہے ۔ اس لئے ظاہری اور باطنی دونوں طور پر انسان کو نیک روش اختیار کرنی چاہئیے ۔
اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں ۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق بھی مردوں پر ہیں ۔ دنیا کو اس چیز کی اطلاع دی گئی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ بس شوہروں کے حقوق ہی بیویوں پر ہوتے ہیں ۔ بلکہ بیویوں کے حقوق بھی شوہروں کے ذمہ عائد ہوتے ہیں ۔ البتہ مرد کو عورت پر ایک طرح کی فضیلت اور برتری حاصل ہے ۔ یہ فضیلت مرد کو عقل اور قوت کے لحاظ سے حاصل ہے ۔
یہ تمام احکام الله سبحانہ و تعالی کی طرف سے ہیں جو نہایت قوت اور حکمت والا ہے ۔ ہمیں یہ احکام بلا چون و چرا مان لینے چاہئیں ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ آیة ۔229(ا)
رجعی طلاق

الطَّلَاقُ ۔۔۔ مَرَّتَانِ ۔۔۔ فَإِمْسَاكٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِمَعْرُوفٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَوْ تَسْرِيحٌ

طلاق ۔۔۔ دوبار ۔۔۔ پھر روک لینا ۔۔۔ دستور کے موافق ۔۔۔ یا چھوڑ دینا

بِإِحْسَانٍ ۔۔۔۔۔۔۔ وَلَا يَحِلُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ أَن تَأْخُذُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِمَّا

اچھے طریقے سے ۔۔۔ اور نہیں حلال ۔۔۔تمہارے لئے ۔۔۔ یہ کہ تم لو ۔۔۔ اس سےجو

آتَيْتُمُوهُنَّ ۔۔۔۔۔َ شيْئًا ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن يَخَافَا

دے دیا تم نے ان عورتوں کو ۔۔۔ کچھ ۔۔۔ مگر ۔۔۔ یہ کہ وہ دونوں ڈریں

أَلَّا ۔۔۔۔۔۔۔ يُقِيمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ حُدُودَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهِ

کہ نہیں ۔۔۔ وہ قائم کر سکیں گے ۔۔۔ حدیں ۔۔۔ الله تعالی کی

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَن يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ

طلاق (رجعی) دوبار تک ہے ۔ اس کے بعد دستور کے موافق رکھ لینا یا بھلی طرح سے چھوڑ دینا اور تمہیں روا نہیں کہ عورتوں سے اپنا دیا ہوا کچھ لو سوائے اس کے کہ دونوں اس بات سے ڈریں کہ الله کا حکم قائم نہ رکھ سکیں گے ۔
فَاِمْسَاکٌ ( پھر رکھ لینا ) ۔ یعنی پہلی ابتدائی طلاق پائی ہوئی بیوی کو رجوع کرکے پھر اپنے پاس رکھ لینا ۔
بِمَعْرُوفٍ ( دستور کے موافق ) ۔ یعنی شرعی قاعدوں کے مطابق ۔ جن کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ملے گی ۔
بِاِحْسَانٍ ( اچھی طرح سے ) ۔ یعنی طلاق سے مقصود جھگڑے کو دور کرنا اور ناخوشگوار صورتحال کو ختم کرنا ہے عورت کی دل شکنی ، تحقیر یا تذلیل مقصود نہیں
مَا اٰتَیْتُمُوْھُنّ ( جو کچھ عورتوں کو دیا ہو ) ۔ عام مفسروں نے اس سے مراد مہر کی رقم لی ہے ۔ لیکن بعض علماء نے اس میں ہر وہ مال شمار کیا ہے جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہو ۔ مثلا کپڑے ، زیور وغیرہ
اسلام سے پہلے دستور تھا کہ شوہر دس بیس یا جتنی بار چاہتا اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ۔ لیکن اس کے بعد رجعت کر لیتا ۔ اس برائی کو دور کرنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی ۔ اور بتایا کہ رجعت صرف دوبار طلاق دینے کے بعد ہو سکتی ہے ۔ دو طلاق تک تو اختیار دیا گیا کہ عدت کے اندر اندر مرد چاہے تو عورت کو دستور کے موافق رکھ لے یا بھلی طرح سے چھوڑ دے ۔ لیکن پھر عدت ختم ہونے کے بعد رجعت باقی نہیں رہتی ۔ ہاں اگر دونوں راضی ہو تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں ۔ اور اگر تیسری بار طلاق دے دی جائے تو پھر ان میں نکاح بھی درست نہیں ہوگا ۔ جب تک وہ عورت کسی دوسرے مرد کے گھر میں نہ بسے ۔ اور وہ دوسرا مرد مرجائے یا طلاق دے دے ۔
کبھی مرد غصے میں آکر طلاق دے دیتا ہے تو یہ بھی کر گزرتا ہے کہ اب تک بیوی کو جو کچھ دیا لیا ہے وہ سب اس سے چھین لیتا ہے ۔ جاہلیت کے زمانے میں عربوں کے ہاں یہ برا دستور اور زیادہ پھیلا ہوا تھا ۔ یہاں اس ظالمانہ اصول کی ممانعت کر دی گئی ۔ اور بتایا گیا کہ مہر وغیرہ جو کچھ انہیں پہلے دے چکے ہو ۔ اب واپس نہیں لے سکتے ہو ۔
امساکٌ بِمعروفٍ اور تسریحٌ باحسان سے غرض یہ ہے کہ شوہر اگر رجعت کرے تو دستور کے موافق اور حسنِ مباشرت کے ساتھ رہے ۔ اور اگر رخصت کرنا چاہے تو بھی سہولت اور عمدگی کے ساتھ اسے رخصت کرے ۔ غرض حسنِ معاشرت اور حسنِ سلوک کی تاکید ہر صورت میں ہے
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ ۔ آیة 229 (ب)
خلع


فَإِنْ ۔۔۔ خِفْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَلَّا يُقِيمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حُدُودَ ۔۔ اللَّهِ

پس اگر ۔۔۔ تم ڈرو ۔۔ یہ کہ نہ وہ قائم رکھ سکیں گے ۔۔ حدیں ۔۔ الله

فَلَا جُنَاحَ ۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْهِمَا ۔۔۔۔۔۔۔ فِيمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ افْتَدَتْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِهِ

پس نہیں گناہ ۔۔۔ ان دونوں پر ۔۔ اس میں جو ۔۔ عورت بدلے میں دے ۔۔ اس کے

تِلْكَ ۔۔۔حُدُودُ ۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَن

یہ ۔۔۔ حدیں ۔۔ الله ۔۔ سو نہ تم آگے بڑھو ان سے ۔۔ اور جو شخص

يَتَعَدَّ ۔۔۔ حُدُودَ۔۔۔ اللَّهِ

زیادتی کرے ۔۔ حدیں ۔۔ الله

فَأُولَئِكَ ۔۔۔ هُمُ ۔۔۔ الظَّالِمُونَ 2️⃣2️⃣9️⃣

پس یہ لوگ ۔۔ وہ ۔۔ ظالم

فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ. 2️⃣2️⃣9️⃣

پھر اگر تم لوگ اس بات سے ڈرو کہ دونوں الله تعالی کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اس میں کہ عورت بدلہ دے کر (چھوٹ جائے ) یہ الله تعالی کی باندھی ہوئی حدیں ہیں سو ان سے آگے مت بڑھو اور جو کوئی الله تعالی کی باندھی ہوئی حدوں سے آگے بڑھے سو وہی لوگ ظالم ہیں
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک عورت حضرت رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں اپنے خاوند سے ناخوش ہوں ۔ اس کے یہاں رہنا نہیں چاہتی ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے وجہ دریافت فرمائی تو عورت نے کہا ۔
میرا شوہر میرے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کرتا ۔ اور نہ ہی اس کے اخلاق و اطوار پر مجھے کوئی اعتراض ہے لیکن مجھے اس سے طبعی نفرت ہے ۔ میں اس کی صورت دیکھنا نہیں چاہتی ۔ اگر مجھے اسلام کا ڈر نہ ہوتو میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس کے منہ پر تھوک دوں ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے عورت سے مہر واپس دلوا دیا اور اسے طلاق دلوا دی ۔
اس آیت میں الله تعالی نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اگر تمہیں ڈر ہو کہ شوہر اور بیوی میں ایسی بے زاری ہے کہ ان کی گزران نہ ہو سکے گی ۔ تو پھر ان دونوں کے علیحدہ ہوجانے میں ان پر کوئی گناہ نہیں ۔ عورت مال دے کر اپنے آپ کو نکاح سے چھڑا سکتی ہے ۔ اور مرد وہ مال واپس لے سکتا ہے ۔
طلاق کی اس خاص صورت کا نام جس میں طلاق کی خواہشمند عورت ہو ۔ شریعت کی اصطلاح میں خلع ہے ۔ خلع کے احکام کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے ۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام ہمارے خاندان ، گھریلو معاملات اور معاشرت کی اصلاح اور درستی کے لئے ہر معاملہ میں احکام دیتا ہے ۔ اگر مرد اپنی بیوی سے ناخوش ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ چلنا دشوار ہے تو اس سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے ۔ اسی طرح اگر بیوی اگر یہ دیکھے کہ اس کا گزارہ اپنے خاوند سے دشوار ہے تو وہ بھی اس سے علیحدہ ہو سکتی ہے ۔ مقصد ہر حال میں اصلاحِ احوال ہے ۔ ازدواجی تعلقات کو بہتر بنانا ہے ۔ جس صورت میں بھی ممکن ہو ۔
آخر میں یہ تنبیہ کر دی گئی ہے کہ یہ شرائط اور حدیں الله تعالی نے قائم کر دی ہیں ۔ لہذا ان کو توڑ کر آگے نکل جانا بہت بڑا گناہ ہے ۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ دنیا کا معاشرہ نیکی اور تقوٰی پر قائم ہو ۔ کوئی کسی کے ساتھ ظلم اور زیادتی نہ کرے ۔ ان پابندیوں کو حدود الله کہا جاتا ہے
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ آیة 230

رجوع کی صورت

فَإِن ۔۔۔۔۔۔۔ طَلَّقَهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَلَا تَحِلُّ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔۔۔ مِن ۔۔۔ بَعْدُ

پس اگر ۔۔۔ اسے طلاق دی ۔۔۔ پس نہیں حلال ۔۔ اس کے لئے ۔۔ سے ۔۔ بعد

حَتَّى ۔۔۔ تَنكِحَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ زَوْجًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غَيْرَهُ

یہاں تک ۔۔ وہ نکاح کرے ۔۔۔ خاوند ۔۔ اس کے علاوہ

فَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طَلَّقَهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَلَا جُنَاحَ ۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْهِمَا

پس اگر ۔۔ وہ طلاق دے اس کو ۔۔ پس نہیں گناہ ۔۔ ان دونوں پر

أَن يَتَرَاجَعَا ۔۔۔۔۔۔۔ إِن ۔۔۔۔۔۔۔ ظَنَّا ۔۔۔۔۔۔۔ أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُقِيمَا

یہ کہ وہ باہم مل بیٹھیں ۔۔۔ اگر ۔۔ وہ خیال کریں ۔۔ یہ ۔۔ وہ قائم کریں گے

حُدُودَ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ وَتِلْكَ ۔۔۔ حُدُودُ ۔۔۔ اللَّهِ

حدیں ۔۔ الله ۔۔ اور یہ ۔۔ حدیں ۔۔ الله

يُبَيِّنُهَا ۔۔۔ لِقَوْمٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَعْلَمُونَ. 2️⃣3️⃣0️⃣

وہ کھول کر بیان کرتا ہے ۔ قوم کے لئے ۔۔۔ جاننے والے

فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ. 2️⃣3️⃣0️⃣

پھر اگر اس عورت کو طلاق دی تو اس کے بعد اسے وہ عورت حلال نہیں جب تک کہ وہ اس کے سوا کسی خاوند سے نکاح نہ کرے ۔ پھر اگر دوسرا خاوند طلاق دے دے تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ پھر باہم مل جائیں اگر خیال کریں کہ الله کا حکم قائم رکھیں گے ۔ اور یہ حدیں الله کی باندھی ہوئی ہیں ۔ انہیں جاننے والوں کے لئے بیان فرماتا ہے ۔

مِن بَعْدِ ( اس کے بعد ) یعنی تیسری طلاق کے بعد ۔
تَنْکِحَ ( نکاح کرے ) ۔ یہ لفظ نکاح سے بنا ہے ۔ اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تین بار طلاق دینے کے بعد متعلقہ عورت اس وقت تک پہلے شوہر کو جائز نہیں ہو گی جب تک کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرکے طلاق نہ لے لے ۔ یہاں نکاح اپنے اصطلاحی معنی عقدِنکاح کے لئے استعمال نہیں ہوا ۔ بلکہ یہاں یہ لفظ اپنے اصلی اور لغوی معنی " ہمبستری " کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ کیونکہ صرف عقد کا مفہوم تو خود لفظ " زوجاً" سے نکل آتا ہے ۔ اس لئے تنکح سے مقصود ہمبستری کو ظاہر کرنا تھا جو اس کے لفظی معنی ہیں ۔
اِنْ ظَنَّا ( اگر خیال کریں ) ۔ یعنی اگر امید اور ارادہ رکھتے ہوں کہ اس کے بعد درستی اور خوبی کے ساتھ باہم رہ سکیں گے ۔
اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر خاوند پہلی دونوں طلاقوں کے بعد رجعت نہ کرے تو اب تیسری بار یعنی دوسری طلاق کے بعد تین مہینے غوروفکر اور صلح صفائی کرانے کے لئے کافی ہے ۔ اس تیسری طلاق کے بعد شوہر عورت سے رجعت نہیں کر سکتا ۔ بلکہ اس کا اب اس سے دوبارہ نکاح بھی کبھی نہیں ہو سکتا ۔ سوائے اس صورت کے کہ وہ عورت تین ماہ بعد یعنی عدت کے دن گزارنے کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے ۔ اور وہ اس سے صحبت کرکے اپنی خوشی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے اور تین ماہ کی مدت یعنی عدت گذر جائے ۔
یہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اسلامی شریعت طلاق کو یقیناً پسند نہیں کرتی ۔ اس لئے اس بارے میں طرح طرح کی قیدیں لگا دی ہیں ۔ اور اس چیز کی ھدایت کی ہے کہ طلاق خوب سوچ سمجھ کر دی جائے ۔ دو موقعے بھی دئیے کہ دوبارہ اتحاد کر لیں ۔ لیکن ان سب مرحلوں سے گذر جانے کے بعد جب طلاق نافذ ہو ہی جائے تو پھر اب رعایت کا کوئی موقع نہیں ۔ شوہر کو اب دوبارہ آسانی سے بیوی واپس نہیں مل سکتی ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
حلالہ


متعلق آیت ۲۳۰


اسلام ایک فطری مذہب ہے ۔ انسان کی پوری زندگی کا ایک مکمل دستور العمل ہے ۔ دنیاوی اور اخروی زندگی کی فلاح وبہبود حاصل کرنے کا راستہ دکھاتا ہے ۔ اسلام حیاتِ زندگی کے ہر شعبے پر پوری طرح حاوی ہے ۔ زندگی کا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل نہ بتاتا ہو ۔ اور کوئی پہلوایسا نہیں جس کے بارے میں احکام نافذ نہ کرتا ہو ۔
انسان کی اجتماعی زندگی گھرانے سے شروع ہوتی ہے ۔ اگر گھریلو زندگی کامیاب ہو اور میاں بیوی کے تعلقات بہتر حالت میں ہوں تو ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنے آپ کو بڑی اچھی فضا میں پائے گا ۔ اپنا کام اچھے طریقے سے کر سکے گا ۔ بچوں کو اعلٰی نمونے ملیں گے ۔ اور وہ بھی بڑے ہوکر نیک راہ پر چلیں گے ۔ اس لئے اسلام مسلمان کی گھریلو زندگی کو بہتر بناتا ہے ۔ خاندان میں شوہر اور بیوی کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ اگر ان میں باہمی تعاون ہو تو اس گھرانے کا ہر بچہ بڑی سہولت سے ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا جائے گا ۔ لیکن اگر مرد و عورت میں ناچاقی ہو اور فکر وعمل میں اختلاف ہو تو ان کا خود بھی اکٹھے چلنا نہایت دشوار ہے ۔ اور ان کا یہ اختلاف اولاد کے لئے بھی مہلک ثابت ہوگا ۔
اسلام انسانی فطرت کے اس پہلو سے بھی آگاہ ہے ۔ اور مجبوری کی حالت میں طلاق کو جائز قرار دیتا ہے ۔ اگر مرد طلاق دینا چاہتا ہے تو خوب سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے ۔ اگر عورت شوہر کے ہاتھوں نالاں ہے تو وہ بھی علیحدگی اختیار کر سکتی ہے ۔ لیکن مرد و عورت کے ازدواجی تعلقات کی اہمیت جتانے کے لئے شریعت نے بعض احکام اور پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں ۔
مثلا شوہر اگر طلاق کا پکا ارادہ رکھتا ہے اور دوسری طلاق کے بعد عدّت کے اندر رجعت نہیں کرتا ۔ بلکہ تیسری طلاق دے دیتا ہے ۔ تو اس کے بعد وہ اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا ۔ اگر کرنا چاہے تو اس کی شرط بہت کڑی ہے ۔ یعنی یہ کہ مطلقہ سے کوئی اور شخص شادی کرے ۔ اس سے صحبت کرے اور اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے ۔ اور پھر اس کے بعد پوری عدّت گزر جائے ۔ اور پھر پہلا شوہر اس سے دوبارہ نکاح کرے ۔ اس نکاحِ جدید کو اصطلاح شریعت میں " حلالہ" کہتے ہیں ۔ لیکن اس حلالہ کے بعد نکاح اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ان دونوں کو الله تعالی کے احکام قائم رکھنے یعنی ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا خیال ہو ۔ اور اس پر اعتماد ہو ۔ ورنہ باہمی جھگڑے اور حقوق کو تلف کرنے کی نوبت آجائے گی ۔ اور وہ دونوں گناہ میں مبتلا ہوں گے ۔
رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اُن مردوں پر لعنت بھیجی ہے جو اس کو ایک پیشہ بنا لیتے ہیں ۔ یعنی ایک مرد اس لئے اس مطلقہ سے شادی کرتا ہے ۔ کہ وہ اسے طلاق دے دے ۔ تاکہ پہلا مرد عورت مذکورہ سے پھر نکاح کر سکے ۔
افسوس کہ ہم مسلمانوں نے ان مسائل کا حق نہ پہچانا ۔ اور دین کو مذاق بنا لیا ۔ شریعت نے طلاق پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کی پرواہ نہ کی ۔ جب چاہا بے سوچے سمجھے طلاق دے دی ۔ جب غصہ دُور ہوا اور عقل ٹھکانے آئی اور پچھتانے لگے اور حلالے کی ناجائز صورتیں اختیار کرنے لگے ۔ یہ سب خرابی دین سے غفلت ، جہالت اور مسائل کا احترام نہ کرنے سے پیدا ہوئی ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ ۔ آیت 231 (ا)
بیویوں کے ساتھ برتاؤ

وَإِذَا ۔۔۔ طَلَّقْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ النِّسَاءَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَبَلَغْنَ ۔۔۔۔۔۔۔ أَجَلَهُنَّ

اور جب ۔۔ تم طلاق دے دو ۔۔ عورتیں ۔۔۔ پھر وہ پہنچیں ۔۔۔ ان کی عدّت

فَأَمْسِكُوهُنَّ ۔۔۔ بِمَعْرُوفٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِمَعْرُوفٍ

تو روک لو ان کو ۔۔۔ دستور کے موافق ۔۔۔ یا چھوڑ دو ان کو ۔۔۔ دستور کے موافق

وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ۔۔۔ ضِرَارًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّتَعْتَدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَن

اور نہ تم روکو ان کو ۔۔ ستانا ۔۔ تاکہ تم زیادتی کرو ۔۔ اور جو شخص

يَفْعَلْ ۔۔۔ ذَلِكَ ۔۔۔۔۔۔ فَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظَلَمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نَفْسَهُ

کرے ۔۔۔ یہ ۔۔ پس تحقیق ۔۔ ظلم کیا اس نے ۔۔۔ جان اُس کی

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ

اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی پھر وہ اپنی عدت کو پہنچیں تو انہیں دستور کے موافق رکھ لو یا انہیں چھوڑ دو دستور کے موافق اور ان کو نہ روکو ستانے کے لئے تاکہ تم ان پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے گا وہ بے شک اپنا ہی نقصان کرے گا ۔
اِذَا طَلَقْتُمْ ( جب تم نے طلاق دی) ۔ یہاں مراد وہی ایک یا دوبار دی ہوئی طلاق رجعی ہے ۔ جس کے بعد ابھی رجوع کر لینے کی گنجائش ہے ۔
اَجَلَھُنَّ ( ان کی عدّت ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ عدت کا زمانہ اب ختم ہونے پر ہو ۔ لیکن پوری طرح ختم نہ ہو چکا ہو
ورنہ بالکل ختم ہو جانے کے معنی یہ ہوں گے کہ اب رجعت کی گنجائش باقی نہ رہی ۔
اس آیت میں یہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ جب خاوند ایک یا دومرتبہ بیوی کو طلاق دے دے اور آخری تیسری بار طلاق نہ دی ہو تو اس طلاق سے پہلے اگر وہ رجوع کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔ اور اگر رجوع نہ کرنا چاہے تو تیسری مرتبہ طلاق دے دے ۔ یا پھر اگر وہ خاموش رہے گا تو عدّت پوری ہونے کے بعد خود بخود سمجھ لیا جائے گا کہ وہ رجوع نہیں کرنا چاہتا اور اس نے ارادتاً بیوی سے تعلق توڑ لیا ہے ۔
لیکن ضروری چیز یہ ہے کہ شوہر ان دونوں راستوں میں سے جو راستہ بھی اختیار کرے وہ دستور کے مطابق اور شریعت کے موافق ہو ۔ یعنی اگر وہ اسے اپنی زوجیت میں لینا چاہے تو بڑی شرافت اور عزت سے دوبارہ لوٹائے ۔ اور اگر اس سے تعلق توڑ لینا چاہے تو بڑی شرافت اور عزت کے ساتھ اسے گھر سے رخصت کردے ۔
غرض دونوں صورتیں قانون اور آداب کے موافق ہوں ۔ ایسا نہ ہو کہ بیوی کو تنگ کرنے اور ستانے کے لئے رجعت کر لے اور یوں اسے خوامخواہ قید میں ڈالے ۔
جو لوگ عورتوں کی حق تلفی کرتے ہیں اور محض ستانے کے لئے دوبارہ زوجیت میں لے لیتے ہیں ۔ ان کے بارے میں الله تعالی نے بیان فرمایا کہ اس طرح وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ۔ وہ اپنا نقصان آپ کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے ایسا کرنے سے ان کا اپنا گھر آباد نہیں ہو سکے گا ۔ بلکہ برباد ہو جائے گا ۔ خود انہیں بھی چین اور سکون نصیب نہ ہوگا ۔ ان کی گھریلو زندگی پریشانیوں اور دکھوں کا مجموعہ بن جائے گی ۔ دونوں اپنی اولاد کی ذمہ داریوں سے کوتاہی برتیں گے ۔ اسی طرح تباہی اور بربادی ڈیرہ جما لے گی ۔ اگر کچھ عرصے بعد یہ شخص اپنی بیوی کو طلاق دے بھی دے تو پھر کوئی شریف عورت اس کی نئی بیوی بننے کے لئے تیار نہ ہو گی ۔ خاوند کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرے تاکہ خود بھی خوش رہ سکے اور وہ بھی ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورة بقرہ آیت ۔ 231 (ب)

احکامِ الہی کا مذاق

وَلَا تَتَّخِذُوا ۔۔۔ آيَاتِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ هُزُوًا

اور نہ تم بناؤ ۔۔۔ احکام ۔۔ الله ۔۔ مذاق

وَاذْكُرُوا ۔۔۔ نِعْمَتَ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ وَمَا

اور یاد کرو ۔۔۔ نعمت ۔۔۔ الله ۔۔۔ تم پر ۔۔۔ اور جو

أَنزَلَ ۔۔۔ عَلَيْكُم ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔۔ الْكِتَابِ ۔۔۔ وَالْحِكْمَةِ

اتاری ۔۔ تم پر ۔۔ سے ۔۔ کتاب ۔۔۔ اور علم کی باتیں

يَعِظُكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِهِ ۔۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔ وَاعْلَمُوا

وہ نصیحت کرتا ہے تم کو ۔۔ اس سے ۔۔۔ اور ڈرو ۔۔ الله ۔۔ اور جان لو

أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ بِكُلِّ ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔ عَلِيمٌ 2️⃣3️⃣1️⃣

بے شک ۔۔ الله ۔۔۔ ہر ۔۔۔ چیز ۔۔۔ جانتا ہے

وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ. 2️⃣3️⃣1️⃣

اور الله تعالی کے احکام کو ہنسی نہ ٹہراؤ اور تم پر الله تعالی کا جو احسان ہے یاد کرو اور جو کتاب اور علم کی باتیں تم پر اتاریں تمہیں اس کے ذریعے نصیحت کرتا ہے اور الله سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ الله تعالی سب کچھ جانتا ہے ۔

اس آیت میں الله تعالی نے یہ تنبیہ کر دی ہے کہ ہمارے حکموں کو ہنسی اور مذاق نہ بناؤ کہ جس حکم پر چاہا عمل کرلیا اور جسے چاہا چھوڑ دیا ۔ بلکہ سارے احکام پر پوری طرح کاربند ہو جاؤ ۔ کیونکہ اسی میں تمہاری بھلائی ہے ۔
معاشرتی زندگی کا بنیادی پتھر خاندان اور خاندانی زندگی ہے ۔ اور خاندان کا بنیادی نقطہ میاں بیوی کے صحیح تعلقات ہیں ۔ اس لئے یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہوگا کہ ساری قوم کے معاشرتی نظام کی بنیاد میاں بیوی کے حقوق اور فرائض کی درستی اور بجا آوری ہے ۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے اور بیوی اپنے شوہر کے تمام حقوق نہایت خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہوں تو سارے معاشرے کی زندگی نہایت پختہ بنیادوں پر قائم ہوگی ۔
لیکن اگر میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوگئے آپس میں کسی قسم کی ناچاقی پیدا ہوگئی تو سمجھ لینا چاہئیے کہ ساری سوسائٹی خطرے میں ہے ۔ اس لئے تمام اصلاح پسند لوگوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئیے ۔ کہ وہ کسی طرح بھی میاں بیوی کے تعلقات خراب نہ ہونے دیں ۔ اسلام نے اس طرف خصوصیت سے زور دیا ہے ۔
اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ الله تعالی کے احکام میں ہنسی مذاق کو دخل نہ دو ۔ مثلا پہلے طلاق دے دی اور بعد میں رجعت کرلی ۔ اور کہہ دیا کہ طلاق تو محض ہنسی مذاق میں کہی تھی ۔ یا یونہی جوش میں کہہ دیا تھا ۔
شریعت کی ان تمام باتوں میں بڑی حکمت اور مصلحت بھری ہوئی ہے ۔ انسان کا کام ہے کہ وہ ان باتوں پر غور کرے اور ان کی تہہ تک پہنچے ۔ الله تعالی نے یہ احکام ہماری ھدایت اور راہنمائی کے لئے بھیجے ہیں ۔ ان سے فائدہ اٹھانا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے ۔ الله تعالی ہماری نیتیں جانتا ہے ۔ ہمارے حالات سے واقف ہے ۔ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ۔ نیت صاف رکھنا اور معاملات کو سدھارنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔
 

ام اویس

رکن
شمولیت
جون 29، 2016
پیغامات
171
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
64
سورۃ بقرہ ۔ آیة 232

عورت کی رضا

وَإِذَا ۔۔۔ طَلَّقْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ النِّسَاءَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَبَلَغْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَجَلَهُنَّ

اور جب ۔۔۔ تم نے طلاق دی ۔۔۔ عورتیں ۔۔۔ پھر وہ پہنچ جائیں ۔۔۔ اپنی مدّت کو

فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن يَنكِحْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَزْوَاجَهُنَّ ۔۔۔ إِذَا

پس تم نہ روکو انہیں ۔۔۔ یہ کہ وہ نکاح کرلیں ۔۔ اپنے شوہروں سے ۔۔۔ جب

تَرَاضَوْا ۔۔۔ بَيْنَهُم ۔۔۔۔۔۔۔ بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذَلِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُوعَظُ

راضی ہو جائیں ۔۔۔ آپس میں ۔۔۔ دستور کے مطابق ۔۔۔ یہ ۔۔ نصیحت کی جاتی ہے

بِهِ ۔۔۔ مَن ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔ مِنكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ يُؤْمِنُ ۔۔۔۔۔۔۔ بِاللَّهِ ۔۔۔ وَالْيَوْمِ ۔۔۔ الْآخِرِ

جوکہ ۔۔۔ جو ۔۔۔ ہو ۔۔۔ تم میں سے ۔۔۔ ایمان لاتا ہے ۔۔۔ الله پر ۔۔ اور دن ۔۔ آخرت

ذَلِكُمْ ۔۔۔۔ أَزْكَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَأَطْهَرُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاللَّهُ

یہ ۔۔ زیادہ پاکیزہ ہے ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ اور زیادہ پاکیزہ ۔۔۔ اور الله

يَعْلَمُ ۔۔۔ وَأَنتُمْ ۔۔۔ لَا تَعْلَمُونَ 2️⃣3️⃣2️⃣

وہ جانتا ہے ۔۔۔ اور تم ۔۔۔ نہیں جانتے

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ مِنكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ 2️⃣3️⃣2️⃣

اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دی پھر وہ اپنی عدّت پوری کر چکیں تو اب انہیں اس سے نہ روکو کہ نکاح کرلیں اپنے انہیں خاوندوں سے جبکہ آپس میں دستور کے موافق راضی ہو جائیں ۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں سے الله اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اس میں تمہارے لئے ستھرائی اور پاکیزگی ہے اور الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔
فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ ( پھر اپنی عدّت پوری کر چکیں ) ۔ فَبَلَغْنَ کا ترجمہ ہے پھر وہ پہنچ جائیں ۔ یعنی پوری کر لیں اَجَلَھُنَّ کا ترجمہ ہے ان کی اپنی مدّت ۔ یعنی مقررہ میعاد ۔ جسے شریعت کی اصطلاح میں عدّت کہتے ہیں ۔
اِذَا طَلَقْتُمْ ( جب تم نے طلاق دی ) ۔ یہاں یہ خطاب براہ راست تو شوہروں سے ہے ۔ لیکن مخاطب پوری ملت ہے ۔
اَزْوَاجَھُنَّ ( اپنے انہی خاوندوں سے ) ۔ یعنی وہ شوہر جنہیں عورتیں پسند کریں ۔ خواہ وہ نئے ہوں یا وہی پرانے ۔ جو ایک بار انہیں چھوڑ چکے ہیں ۔
تَرَاضُوا ( راضی ہوجائیں ) ۔ اس لفظ سے یہ بات ظاہر ہے کہ ایجاب اور قبول نکاح کے رُکن ہیں ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ شوہر اور بیوی کی بجائے بعض اوقات ان کے ولی یا وکیل ایجاب و قبول کرلیں اور اسے وہ دونوں تسلیم کر لیں ۔ بصورت دیگر اگر دونوں راضی نہ ہوں تو نکاح نہیں ہوتا ۔
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک عورت کو اس کے خاوند نے ایک یا دوطلاق دے دی اور عدّت میں رجعت بھی نہ کی ۔ جب مدّت ختم ہوگئی تو دوسرے لوگوں کے ساتھ پہلے خاوند نے بھی نکاح کا پیغام دیا ۔ عورت اس بات پر راضی تھی لیکن عورت کے بھائی کو غصہ آیا اور نکاح کو روک دیا ۔ اس پر یہ حکم اترا کہ عورت کی خوشنودی اور بہبودی کو سامنے رکھنا چاہئیے ۔ اس کے موافق نکاح ہونا چاہئیے ۔ اپنے کسی خیال اور ناخوشی کو دخل نہیں دینا چاہئیے ۔ البتہ اگرخلاف قاعدہ کوئی بات ہو مثلا پہلے خاوند کی عدّت کے اندر کسی دوسرے سے نکاح کرنا چاہئیے ۔ تو بے شک ایسے نکاح سے روکنے کا حق ہے ۔
 
Top