- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,552
- پوائنٹ
- 641
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
کسی بھی ملک یا حکومت کے لیے اساسی قانون یا دوسرے الفاظ میں دستوربہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن ایک حقیقی اسلامی ریاست یا حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے دستور اوردوسرے قوانین و قراردادوں شریعت اسلامیہ کے مکمل مطابق کرے۔
اسی بنیاد پر جناب امیر المؤمنین نے ٢٥ صفر ١٤١٩ھ کو ملک میں شرعی نظام کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے ہونے والی اٹھارویں قرارداد میں یہ فرمایا کہ عدالت عالیہ یعنی سپریم کورٹ کی نگرانی میں علماء کی ایک جماعت علاقے کے تمام قوانین اور قراردادوں کا ایک جائزہ لے گی اور اس میں سے غیر شرعی و غیر مذہبی مواد حذف کر دے گی۔
اسی مقصد کے حصول کی خاطر افغانستان کے جمیع علاقوں سے جید علمائے دین کابل شہر میں حاضر ہوئے' جن کے نام اور اور دستخط اس دستور کے آخر میں موجود ہیں' اور قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس اورسپریم کورٹ کے صدر جناب حاجی مولوی نور محمد ثاقب کی سربراہی میں جید علماء کی ایک مجلس شوری تشکیل دی گئی تا کہ اس کام کو مکمل کیا جائے۔
اس مجلس شوری نے ٨ ربیع الأول ١٤١٩ہجری قمری' ١١اپریل ١٣٧٧ہجری شمسی اور ٢ جولائی ١٩٩٨ عیسوی کو اپنا کام شروع کیا۔شروع میں اساسی قانون یعنی دستور کی تکمیل ہوئی اور اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ افغانستان کے مختلف ادوار ومتعدد حکومتوں کا دستور (بنیادی قوانین) علمائے کرام کے سامنے پیش کیاگیا اور ایک ایک شق پر شرعی احکام کی روشنی میں جامع و دقیق بحث کی گئی۔ پھر جو شقیں شریعت اسلامیہ کے مطابق تھیں ان کو پاس کیا گیا اور جو شریعت اسلامیہ یا مذہب حنفی سے کچھ مغایرت رکھتی تھیں' ان میں ترمیم کی گئی ہے یا ان کو کلی طور پر حذف کر دیا گیا ہے۔ بعض جگہوں پر ضرورت کے مطابق کچھ اضافے بھی کیے گئے ہیں۔
کئی روز جاری رہنے والی مسلسل نشستوں کے بعد یہ کام اس عمدہ شکل اور کامیابی کی صورت میں ہمیں میسر ہوا۔ اور امارت اسلامیہ افغانستان کے بنیادی قوانین کی ترتیب وتوثیق کی تکمیل ''دستور امارت اسلامیہ افغانستان'' کے نام سے ہوئی ہے جو کہ شریعت اسلامیہ اور حنفی مذہب کے مطابق و موافق ہے۔
١٧ جمادی الأولی ١٤٢٦ہجری قمری' ٢ اپریل ١٣٨٤ ہجری شمسی اور ٢٣ جون ٢٠٠٥ عیسوی کو دوسری مرتبہ امارت اسلامیہ افغانستان کے مجلس عاملہ یعنی ایوان بالا (سینیٹ) نے اس دستور کی تائید و توثیق کی ہے۔