• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعا عبادت ہی تو ہے

شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
381
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
94
دعا عبادت ہی تو ہے

یہ صحیح حدیث ہے جو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اقسام عبادت میں سے دعا ایک بڑی اہم قسم کی عبادت ہے اور جس طرح نماز کسی رسول یا ولی کے لئے پڑھنی جائز نہیں اسی طرح اللہ کے علاوہ کسی رسول یا ولی سے دعا مانگی جائے تو یہ بھی جائز نہ ہوگی
یاد رکھیں
وہ مسلمان جو یا رسول اللہ یا فلاں مدد کرو کہتے ہیں یہ دعا ہی ہے اور اللہ تعالٰی کے علاوہ دوسروں کی عبادت ہے اگرچہ ان کی دلی نیت یہی ہو کہ اللہ ہی عطا کرنے والا ہے بلکہ اس کی مثال تو ایسے شخص کی ہے جو اللہ عزوجل کو بظاہر برا کہے اور کہے کہ میری نیت میں تو تعریف مقصود تھی،تو اس کی یہ بات ناقابل اعتبار ہو گی، کیونکہ اس کا کلام نیت کے خلاف ہے لہذا قول کا نیت اور عقیدے کے مطا بق ہونا انتہائی ضروری ہے
اگر ایسا نہیں ہے تو پھریہ فعل یعنی اللہ کے علاوہ دوسروں سے مانگنا شرک یا کفر ہے جسے اللہ عزوجل بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں کرے گا
اور اگر کوئی اس قسم کا مسلمان کہے کہ میری نیت رسول اور ولی سے دعا کرنا نہیں بلکہ میرا مقصد اللہ تعالٰی اور اپنے درمیان ایک واسطہ پکڑنا ہے،جس طرح میں کسی بادشاہ کے پاس بغیر واسطہ کے نہیں پہنچ سکتا تو یہ اللہ عزوجل کو ظالم بادشاہ سے تشبیہہ دینا ہے اور یہ تشبیہہ کفر تک پہنچا دینے والی ہے اللہ تعالٰی جو اپنی ذات،صفات اورافعال میں منزہ اور پاکیزہ ہے فرماتا ہے
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ دیکھتا سنتا ہے؛ ﴿سورة الشورى
جب اللہ تعالٰی کی تشبیہہ اس کی عادل مخلوق انسان کے ساتھ بھی شرک و کفر ہے تو اس تشبیہہ کی کیا کیفیت ہو گی جو آپ کسی ظالم انسان کے ساتھ دیں گے ظالم اس قسم کی جو بات کہتے ہیں اللہ عزوجل اس سےبہت بلند و بالا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مشرک یہ اعتقاد تو رکھتے ہی تھے کہ اللہ تعالٰی ہی خالق اور رازق ہے لیکن وہ اولیائے کے بت بنا کر ان سے دعائیں مانگتے اور اللہ تعالٰی کے قرب کے لئے انہیں واسطہ اور وسیلہ ٹھہراتے تھے تواللہ تعالٰی ان کے اس فعل سے راضی نہ ہوا بلکہ ان کے اس واسطے کو کفر قرار دیتے ہوئے فرمایا؛
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں۔ (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لئے پوجتے ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔ تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں اللہ ان میں ان کا فیصلہ کردے گا۔ بےشک اللہ اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا؛ ﴿سورۃ زمر
یہ اس لئے کہ اللہ تعالٰی بہت قریب اور خوب سننے والا ہے جس کو کسی واسطے کی قطعًا کوئی ضرورت نہیں
ارشاد باری تعالٰی ہے
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ
اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) قریب ہی ہوں؛ ﴿سورۃ بقرۃ
اور یاد رہے کہ مشرکین مصائب اور تکالیف کے وقت صرف اللہ تعالٰی ہی کوپکارا کرتے تھے
ارشادِ باری تعالٰی ہے؛
وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
اور لہریں ہر طرف سے ان پر (جوش مارتی ہوئی) آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (اب تو) لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص اللہ ہی کی عبادت کرکے اس سے دعا مانگنے لگتے ہیں کہ (اے اللہ) اگر تو ہم کو اس سے نجات بخشے تو ہم (تیرے) بہت ہی شکر گزار ہوں گے؛ ﴿سورۃ یونس
پھر آسانی اور خوشحالی میں اولیائے کرام کو پکارا کرتے تھے جو مجسموں کی شکل میں ان کے پاس موجود تھے،تو قرآن پاک نے ان کے اس فعل کو بھی کفر قرار دیا
چناچہ بعض ان مسلمانوں کے لئے کیا جواز ہے؟ جو ہر غمی،خوشی،تنگی،تکلیف کے وقت رسولوں،ولیوں اور نیک لوگوں کو پکارتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں؟
کیا یہ لوگ اللہ تعالٰی کا یہ فرمان نہیں پڑھتے؟
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ
اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی پرستش سے انکار کریں گے؛﴿سورۃ الاحقاف
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جن مشرکین کا تذکرہ قرآن کریم میں کیا گیا ہے وہ پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کو پکارا کرتے تھے اور یہ سمجھنا غلط ہے اس لئے کہ جن اصنام کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے وہ نیک آدمی ہی تھے جن کے مجسمے بنا لئے گئے تھے جیسا کہ سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے
اور انہوں نے کہا کہ ہر گز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو ،اور نہ چھوڑو ود اور سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو؛
﴿سور ۃ نوح
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے
یہ قوم نوح علیہ السلام کے نام ہیں جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے قوم کو وسوسہ میں ڈالا کہ جن جگہوں پر وہ مجلس فرمایا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تیا رکر کے نصب کرو!انہوں نے ایسا ہی کر دیا،لیکن ! ان کی عبادت کرنے سے باز رہے اور جب یہ لوگ بھی فوت ہو گئے اور ان مجسموں کی حقیقت کا علم بھی جاتا رہا تو بعد میں آنے والے لوگوں نے ان کی عبادت شروع کر دی۔
اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو پکارنے والے لوگوں کی تردید میں ارشاد فرمایا
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا
یہ لوگ جن کو (اللہ کے سوا) پکارتے ہیں وہ خود اپنے پروردگار کے ہاں ذریعہ (تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (اللہ کا) زیادہ مقرب ہوتا ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بےشک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے؛ ﴿سورۃ اسراء
امام ابن کثیر رحمتہ علیہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو جنوں کی عبادت کیا کرتے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں پکارا کرتے تھے تو بالآ خر جن مسلمان ہو گئے ،اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام اور فرشتوں کو پکارا کرتے تھے ،بہر حال جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی نبی یا ولی کو پکارتے ہیں یہ آیت ان کی تردید کرتی ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے مدد طلب کرنا جائز ہے ان کا کہنا ہے کہ حقیقی مددگار تو اللہ ہی ہے انبیاء اور اولیاء سے مجازی طور پر مدد طلب کی جاتی ہے جس طرح کہا جاتا ہے کہ مجھے اس دوا اور ڈاکٹر سے شفا ہوئی ہے یہ سراسر غلط ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس فرمان سے اس نظریئے کی خوب تردید ہوتی ہے
الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ
جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے رستہ دکھاتا ہے اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے؛ ﴿سورۃ شعرآء

غور فرمائیں ہر آیت میں ضمیر ھُوَ سے تاکید کر دی گئی ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہدایت ،رزق اور شفا دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے دوسرا کوئی نہیں ہے پھر دوا تو سبب ہے ،شفا دینے والی ہر گز نہیں!
یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ایک ہی مرض میں مبتلا دو مریض طبیب کے پاس آتے ہیں ،طبیب دونوں کو ایک ہی دوا دیتا ہے ،ان میں سے ایک مریض شفا یاب ہو جاتا ہے ،دوسرے کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا ،اگر دوا میں ہی شفا ہے تو دوسرے کو کون سی چیز مانع ہے ،صحت یاب کیوں نہ ہوا؟
بہت سے لوگ مردہ اور زندہ شخص سے مدد طلب کرنے میں فرق نہیں کرتے ،
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے؛ زندے اور مردے ہر گز مساوی نہیں ہیں۔ ﴿سورۃ فاطر
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان
فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ
اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اُسے مدد کے لئے پکارا؛﴿القصص
دراصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک شخص نے دشمن سے اپنی جان چھڑانے کے لئے مدد طلب کی ،تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی یوں مدد کی
فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ
موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ایک گھونسا دے مارا اور اس کا کام تمام کر دیا؛﴿القصص
لیکن! مردہ شخص سے تو مدد طلب کرنا بالکل جائز نہیں ہے اس لئے کہ وہ پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہی نہیں ہے اور بالفرض اگر سن بھی لے تو جواب نہیں دے سکتا،کیونکہ اس میں اتنی قدرت ہی نہیں!
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ
اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار نہ سنیں اور اگر سن بھی لیں تو تمہاری بات کو قبول نہ کرسکیں۔ اور قیامت کے دن تمہارے شرک سے انکار کردیں گے۔ اور (خدائے) باخبر کی طرح تم کو کوئی خبر نہیں دے گا ؛ ﴿فاطر
اور قرآن مجید کی یہ آیت واضح طور پر بیان کر رہی ہے کہ مردوں سے مدد مانگنا شرک ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
اور وہ ہستیاں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے بھی خالق نہیں ہیں،مردہ ہیں ناکہ زندہ،اور ان کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا؛﴿النحل
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن لوگ انبیائے کرام علیہم السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے سفارش کی درخواست کریں گے ،یہاں تک کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے ہماری سفارش کریں کہ وہ ہمیں اس تنگی سے نجات دے ،آپ فرمائیں گے بس،میں ہی اس کا اہل تھا پھر عرش الہٰی کے نیچے سجدہ میں پڑ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے آسان اور جلد حساب لینے کی درخواست کریں گے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کا مطالبہ کیا جائے گا تو آپ زندہ ہوں گے ،آپ لوگوں کے ساتھ اور لوگ آپ کے ساتھ باہم گفتگو کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں کہ وہ ہماری مشکلات کو آسان کر دے ،تو آپ یہ سفارش کریں گے ،میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں
مردہ اور زندہ سے دعا کی درخواست کرنے میں سب سے بڑا فرق اور دلیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ہے کہ جب ان کے زمانہ میں قحط پڑ گیا تھا تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے درخواست کی تھی کہ آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگیں، صحیح بخاری لیکن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہو جانے کے بعد ان سے کسی قسم کی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کی درخواست نہیں کی
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ وسیلہ پکڑنا بلکل ایسا ہی ہے جیسے مدد طلب کرنا جب کہ ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، وسیلہ پکڑنا تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بالواسطہ کو ئی چیز طلب کی جائے مثلا آدمی کہے ،اے اللہ ہم تیری اور تیرے رسول کی محبت کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہماری مشکلات دور فرما،تو یہ جائز ہے لیکن اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے مدد طلب کرنا قطعا جائز نہیں ہے جیسے کوئی شخص کہے ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مشکلات دور فرمائیں،تو یہ نا جائز اور بہت بڑا شرک ہے
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق
قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا
کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان اور نفع کا کچھ اختیار نہیں رکھتا (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار ہی کو پکارتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا؛ ﴿سورۃ جن
اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
تجھے جب بھی مانگنا ہو اللہ سے مانگ اور جب مدد طلب کرے تو اللہ ہی سے طلب کر
امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو روایت کر کے حسن صحیح کہا ہے
شاعر کہتا ہے
میں اللہ ہی سے سوال کرتا ہوں کہ وہ ہماری مشکلات دور کرے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں ہے
 
Top