• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دعا میں سجع یعنی قافیے لگانا مکروہ ہے

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
ازہری نے کہا کہ کلام مقفیٰ وہ ہے جس میں محض قا فیہ بندی ہو وزن کی رعایت مدنظر نہ ہو۔


حدیث نمبر: 6337
حدثنا يحيى بن محمد بن السكن،‏‏‏‏ حدثنا حبان بن هلال أبو حبيب،‏‏‏‏ حدثنا هارون المقرئ،‏‏‏‏ حدثنا الزبير بن الخريت،‏‏‏‏ عن عكرمة،‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ قال حدث الناس،‏‏‏‏ كل جمعة مرة،‏‏‏‏ فإن أبيت فمرتين،‏‏‏‏ فإن أكثرت فثلاث مرار ولا تمل الناس هذا القرآن،‏‏‏‏ ولا ألفينك تأتي القوم وهم في حديث من حديثهم فتقص عليهم،‏‏‏‏ فتقطع عليهم حديثهم فتملهم،‏‏‏‏ ولكن أنصت،‏‏‏‏ فإذا أمروك فحدثهم وهم يشتهونه،‏‏‏‏ فانظر السجع من الدعاء فاجتنبه،‏‏‏‏ فإني عهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه لا يفعلون إلا ذلك‏.‏ يعني لا يفعلون إلا ذلك الاجتناب‏.‏


ہم سے یحییٰ بن محمد بن سکن نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حبان بن ہلال ابو حبیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہارون مقر ی نے بیان، کہا ہم سے زبیر بن خر یت نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاکہ لوگوں کو وعظ ہفتہ میں صرف ایک دن جمعہ کو کیا کر، اگر تم اس پر تیار نہ ہو تو دو مرتبہ اگر تم زیادہ ہی کرنا چاہتے ہو تو پس تین دن اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتانہ دینا، ایسا نہ ہو کہ تم کچھ لوگوں کے پاس پہنچو، وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں اور تم پہنچتے ہی ان سے اپنی بات (بشکل وعظ) بیان کرنے لگو اور ان کی آپس کی گفتگو کو کاٹ دو کہ اس طرح وہ اکتا جائیں، بلکہ ( ایسے مقام پر) تمہیں خاموش رہنا چاہئے۔ جب وہ تم سے کہیں تو پھر تم انہیں اپنی باتیں سناؤ۔ اس طرح کہ وہ بھی اس تقریر کے خواہشمند ہوں اور دعا میں قافیہ بند ی سے پرہیز کرتے رہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے۔

صحیح بخاری
کتاب الدعوات
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تشریح : یعنی ہمیشہ اس سے پرہیز کرتے تھے۔ صحابہ کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھی سادی دعا کیا کرتے بلاتکلف اور مختصر۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے بعد کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دعا اور طہارت میں مبالغہ کریں گے حدسے بڑھ جائیں گے، مومن کو چاہئے کہ سنت کی پیروی کرے اور مقفی ٰ اور مسجع دعاؤں سے جو پچھلے لوگوں نے نکالی ہیں پرہیز رکھے۔ جو دعا ئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ سندصحیح منقول ہیں وہ دنیا اور آخرت کے تمام مقاصد کے لئے کافی ہیں اب جو بعض دعائیں ماثور مسجع ہیں جیسے اللہم منزل الکتاب مجری السحاب ھازم الاحزاب یاصدق اللہ وعدہ واعز جندہ ونصرعبدہ وھزم الاحزاب وحدہ یا اعوذبک من عین لا تدمع ومن نفسی لا تشبع ومن قلبی کایخشع “وہ مستثنیٰ ہوں گی کیونکہ یہ بلا قصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہیں اگر بلا قصد سجع ہوجائے تو قباحت نہیں ہے۔ عمداً بطور تکلف ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس میں ریا نمود بھی ممکن ہے جو شرک خفی ہے الا ماشاء اللہ۔
 
Top