• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دفاعِ قراء ات…خلاصۂ کتاب

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دفاعِ قراء ات…خلاصۂ کتاب

ابو عبد القادر قاری محمد طاہر رحیمی​
ماہنامہ رُشد قراء ات نمبر (حصہ اوّل) میں ہم نے پانی پتی سلسلہ قراء ات کے بانی اُستاد، محقق عالم دین مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ کامعروف منکر حدیث تمنا عمادی کے اختلاف قراء ات سے متعلقہ نظریات کے ردّ پر مشتمل مضمون شائع کیا تھا۔ موصوف کا شمار چونکہ برصغیر میں انکار قراء ات کی نمائندہ ہستیوں میں ہوتا ہے اور جن کے افکار ہی کو بنیاد بناکر عام منکرین قراء ات اس کارِغلط میں شریک ہیں، چنانچہ اس سلسلہ میں اُن کے افکار کا تفصیلی ردّ انتہائی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ شیخ القراء قاری طاہررحیمی رحمہ اللہ نے اس قرض کو یوں چکایا ہے کہ علامہ تمنا عمادی کے قراء ات کے حوالے سے نظریات کو ہی موضوع ِبحث بنا کر تقریباً ہزار صفحات پر مشتمل مفصل کتاب ’دفاع قراء ات‘ کے نام سے ترتیب دی ہے، جو کہ الحمدﷲ مطبوع حالت میں موجود ہے۔ اس کتاب کی تلخیص بھی مصنف نے تمہیداً خود پیش کردی ہے۔ قارئین رشدکے اِفادے کے لیے کتاب کے پیش لفظ اور خلاصہ کو ہم ماہنامہ رُشد کی اس اشاعت خاص میں خصوصی طور پر شائع کررہے ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَعداء اسلام دائما متعدد وسائل و ذرائع سے اسلامی تشریع کے اوّلین سرچشمہ قرآن کریم کے متعلق مسلمانوں میں جدال وخلاف اور شکوک و شبہات پیداکرنے کے درپے رہتے ہیں تاکہ ضعیف الایمان مسلمانوں کو اسلام سے مرتد و برگشتہ کردیں۔ افسوس صد افسوس! بعض مسلمان اہل علم بھی بالخصوص استشراق المانی و اُوربی کی نشأت کے بعد ان اعداء اسلام کی ملمع کاریوں سے متاثر ہوکر ان کے دام فریب و تزویر میں پھنس جاتے ہیں اوربجائے اس کے کہ اسلام کا دفاع کریں اُلٹا اُنہیں کے ہم نوا ہوکرقرآن کریم پرشبہات عائد کرنے کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ اُن کے اس طریقہ کار سے اسلام اور اہل اسلام کو اعداء اسلام سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ کما قال القائل:
لا یبلُغُ إلا عداء من جاھل
ما یبلغ الجاھل من نفسہٖ​
’’جاہل کے دشمن اس کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا خود وہ جاہل اپنی ذات کو نقصان پہنچا لیتاہے۔‘‘
ایسے لوگوں کا مقصد دانستہ یا نادانستہ اسلامی بنیادوں کو منہدم اورکھوکھلا کردینا ہوتاہے۔مگر ارشاد ِ حق ہے: ’’یُرِیْدُوْنَ أنْ یُّطْفِؤُا نُوْرَ اﷲِ بِاَفْوَاھِھِمْ وَیَابَی اﷲُ إلاَّ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ‘‘
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا​
ہم نے کتاب ہذا میں ’اختلاف قراء ات‘ اور ’سبعہ احرف‘ کے متعلق چند جدید شبہات کے بفضلہٖ تعالیٰ تشفی بخش اور دندان شکن جوابات دیئے ہیں۔ جس ناقد نے یہ شبہات عائد کیے ہیں اُس نے سبعہ احرف جیسی عظیم حدیث متواتر تک کو موضوع کہہ دیا ہے گویا اُس نے اس حرکت عظیمہ سے پورے اسلاف اُمت پر سے اعتماد اٹھا دیا۔ کوئی ’صحیح العقیدہ سنی مسلمان‘ جو ایک شمہ بھر بھی علم و شعور رکھتاہوتا ایسا قول کرنے کی قطعاً جرأت و بیباکی نہیں کرسکتا۔ یہ قول صرف اُسی جاہل مطلق سے سرزد ہوسکتاہے جس کو ایک شمہ بھی علم حاصل نہ ہو مگر ناقد تو علامۃ الزمان اور ثانی مجدد الف ثانی کے خواب دیکھ رہے ہیں پھرنہ معلوم! اُن سے ایسا جاہلانہ قول کیونکر صادر ہوگیا؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جناب ناقد!سب سے پہلے تو آپ سے یہ لغزش ہوئی کہ فن قراء ت کے رجال کو آپ نے حدیث کے رجال پر قیاس کیا ہے باوجودیکہ دونوں میں بون بعید ہے کسی متواتر چیزکے رجال سند سے بحث مقصود بالذات نہیں ہوتی بلکہ وہ محض ثانوی و تائیدی درجہ میں ہوتی ہے۔ دراصل وہ متواتر چیز قطعی الثبوت ہی رہے گی اگر کسی جگہ سند میں کوئی سقم ہوگاتو وہ قطعی مضر و قادح نہ ہوگا بشرطیکہ واقعتاًسقم ہو۔ایسا نہ ہو احمد بن یزید الحلوانی المقری رحمہ اللہ قالون رحمہ اللہ (لسان المیزان: ۱؍۴۹۳)کی عبارت کے باوجود حلوانی کو قالون کاشاگرد ماننے سے انکار ہو یا اصبھانی ابوبکررحمہ اللہ راوئ ورش رحمہ اللہ کو قتیبہ بن مہران اصبھانی رحمہ اللہ شاگرد کسائی رحمہ اللہ سمجھ کر یہ دعویٰ کردیاجائے کہ اصبہانی رحمہ اللہ اوّل تو کہیں بھی ورش رحمہ اللہ کے شاگردوں میں نہیں بلکہ اصبہانی رحمہ اللہ کے استاد تو کسائی رحمہ اللہ ہیں۔ یا یہ کہہ دیا جائے کہ ابن کثیر مکی رحمہ اللہ المولود ۴۵ھ بوقت وفات عبداللہ بن السائب رحمہ اللہ المتوفی ۶۵ھ کمسن تھے باوجودیکہ حساب سے اُس وقت ابن کثیررحمہ اللہ کی عمر ۲۰ سال کی بنتی ہے۔بیس سالہ نوجوان کو کمسن کہنا ناقد ہی کی قلم کاکرشمہ ہے۔
جو شخص ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی عربی عبارت کے ترجمہ اورمطلب میں نحوی ولغوی و سیاقی اغلاط کا مرتکب ہو کر اصل مقصد ہی نہ سمجھ سکے اور اناپ شناپ باتیں ہانکتا رہے اور الداری کا ترجمہ ’’رے کا رہنے والا‘‘ کرے اس کی علمی قابلیت عقل سے وراء اور غالبا ً علم لدُنی و وہبی ہی کی کوئی خاص قسم ہے۔ حضرت علامہ ناقد کا ایک عجیب لطیفہ یہ ہے کہ حضرت کو یہی علم نہیں کہ بسا اوقات مصنفین اپنی کتب کے انتساب کی مزید صحت ووثاقت کے لیے اپنے آپ کو غائب کے صیغہ سے جابجا ذکر کرتے ہیں ابن جریر طبری رحمہ اللہ تفسیر طبری میں متعدد مقامات پر قال ابوجعفررحمہ اللہ کہتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سنن ابی داؤد کا قال أبوداؤد تو خوب ہی معروف ہے، طیبۃ النشرکے شروع میں محقق ابن الجزری رحمہ اللہ قال محمد ھو ابن الجزری فرما رہے ہیں۔ خود قرآن کریم میں ’’وَقاَلَ اﷲُلاَتَتَّخِذُوْا اِلٰھَیْنِ اثْنَیْنِ‘‘ جیسے مواقع میں ذات الٰہی بصیغۂ غائب مذکور ہے۔ ایسی صور ت حال میں جناب ناقد، تیسیر میں جابجا قال ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ کے تذکرہ سے یہ نتیجہ کس بنیاد پرنکال رہے ہیں کہ یہ دانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے ہی نہیں۔ ناقد نے ترجمہ عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج رحمہ اللہ کے تحت وقال الدانی راوی عنہ القراء ۃ عرضاً نافع بن أبی نعیم (تہذیب التہذیب :۲؍۵۶۲) کی عبارت میں عرضاً کا ترجمہ زبانی سن کر حاصل کرنے کا کیا ہے جبکہ اس کا صحیح ترجمہ زبانی پڑھ کر حاصل کرنے کا ہے، واقعی ایسی قابلیت قابل صد آفریں ہے۔
علاوہ ازیں فن قراء ات کے رجال پر تبصرہ کرتے وقت رجال قراء ت کی کتب زیر مطالعہ رکھنا ضروری تھا۔ تہذیب التہذیب، لسان المیزانوغیرہما درحقیقت رجال حدیث کی کتب ہیں۔ بعض قراء محدثین کا تذکرہ ضمناً و تبعاً آگیاہے اور وہ بھی صرف اُن کی شان تحدیث کی حیثیت سے، فن رجال قراء ت کی اصل کتب معرفۃ القراء الکبار للذہبی اور طبقات القراء لابن الجزری وغیرہما ہیں۔ہم یہ بدگمانی تو نہیں کرتے کہ ناقد کے پاس اصل کتب طبقات القراء موجود تھیں اور اُن کے مندرجات سے وہ بخوبی باخبر وواقف تھے مگر دیدہ دانستہ اُن کے حوالہ جات سے گریز کیاہے بلکہ حسن ظن کی بنا پر یہی سمجھتے ہیں کہ ناقد کو طبقات القراء کی کتب دستیاب نہ ہوئی ہوں گی اس لیے رجال قراء ت کی بابت اُن کی معلومات اُدھوری رہ گئیں۔ مگر ایسی صورت حال میں کسی مضمون کو تحقیق کا اور دیانتدارانہ تنقید کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔کیونکہ کسی موضوع پر تحقیقی کام کرنے والے پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اولاً وہ زیر بحث موضوع کی جملہ کتب متعلقہ فراہم کرے اوراس کے بعد ہی ریسرچ و تحقیق کا کام شروع کرے مگر یہاں صورتِ حال کچھ یوں محسوس ہورہی ہے کہ ناقد نے اولاً اپنے ذہن میں قراء ات کے متعلق ایک غلط مفروضہ و نظریہ قائم کرلیا ہے اور پھر اس کے برخلاف جہاں جہاں بھی کوئی چیز نظر آئی اس کونظر انداز کرتے گئے اور جہاں کہیں کوئی معمولی سی تائید بھی اپنے زعم کے مطابق نظر آئی بس اس کو فوراً اور بے چوں و چرا بلا تحقیق درج کردیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرے نمبرپر آپ سے یہ غلطی اور چوک ہوگئی کہ رجال قراء ات میں سے کسی قاری یا راوی کو جب کسی محدث نے ’ضعیف فی الحدیث‘ کہہ دیا تو آپ نے اس کو قراء ت میں بھی ضعیف قرار دے دیاجو سراسر نادانی و کم عقلی و بے انصافی ہے۔ کسی ایک فن میں کمال حاصل نہ ہونے سے دوسرے فن کا عدم کمال قطعاً لازم نہیں آتا جیسا کہ کوئی مقری صاحب فن کسی محدث کو ’ضعیف فی القراء ۃ‘ کہہ دے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ محدث،حدیث میں بھی ناقص وغیر ماہر ہے۔ تفصیلات اپنے مواقع میں آرہی ہیں۔
تیسرے نمبر پر آپ سے بنیادی تسامح یہ ہوا ہے کہ اقوال شاذہ یااقوال روافض کی بنیاد پر کئی رجال قراء ت کو آپ نے رافضی قرار دے دیا باوجودیکہ روافض تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کو نہیں بخشتے ہیں اَئمہ کو تو کیا چھوڑیں گے، فی الواقع روافض، قراء ات مختلفہ کو تحریفات قرار دیتے ہیں جس سے وہ تحریف قرآن پراستدلال کرتے ہیں آنجناب نے بھی قراء ات کو تحریفات قرار دیا ہے توپھر روافض کا یہ دعویٰ بھی ’کہ قرآن محرف ہے‘ معاذ اﷲ صحیح تسلیم کرنا ہوگا۔اگر دعویٰ غلط ہے تو دلیل بھی غلط ہے۔ دلیل صحیح ہے تو دعویٰ بھی صحیح ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
روافض نے یہ خیال کیا کہ ہم سنی رجال قراء ت کو ہی رافضی ثابت کردیتے ہیں تاکہ وہ سنیوں میں مطعون و بدنام ہوجائیں اور اُن سے سنیوں کا اعتماد اُٹھ جائے جس سے وہ از خود ہی یہ نتیجہ نکال لیں گے کہ یہ قراء ات۔ معاذاللہ غلط ہیں۔ روافض کی یہ چال آپ نہیں سمجھ پائے ہیں یاپھر آپ ان کے ہمنوا بن گئے ہیں۔
چوتھے نمبر پر آپ سے یہ سنگین غلطی ہوئی کہ آنجناب نے تحریک قراء ت کو اہل کوفہ کے ملاحدہ اور اُن کے موالی اعجام کی سازش قرار دیا ہے۔مولیٰ ہوناتو قابل فخر چیز ہے خود جناب رسول اللہﷺنے اپنے متبنیٰ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے صاحبزادے حضرت اُسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ کو مولیٰ بنایا۔یہ تو قرآن کا کمال ہے کہ اس نے مولیٰ اعجام جیسے لوگوں کو رفعت بخش دی۔ پھر قراء ات سب کی سب معجزہ ہیں موالی تو کجا بڑے بڑے احرار خالص فصحا عرب بھی قرآن کا مثل بنا کرنہیں لاسکے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ موالی اعجام نے اپنے پاس سے معجزہ نماقراء ات گھڑ لی ہیں۔والعیاذ باللہ۔ کیااس طرح قرآنی اعجاز بحال رہ جائے گا؟ یاکیاایسی صورت حال میں اہل اسلام یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آج تک کوئی بھی قرآن کامثل بناکر پیش نہیں کرسکا ہے؟
الغرض شرف قرآن شرف نسب سے فائق ہے اسی لیے عجمی عالم باعمل، نکاح میں سیدزادی کا کفو شمار ہوتاہے۔(کما فی الشامیۃ :۲؍۳۲۳) ’’فالعالم العجمی یکون کفوًا للجاھل العربی والعلویۃ لأن شرف العلم فوق شرف النسب‘‘باقی ملاحدہ و روافض کوفہ نے اصل منزل اختلاف قراء ت کے مٹانے کی سرتوڑکوشش کی اور اس سلسلہ میں انہوں نے کئی من گھڑت جعلی الفاظ بھی شامل قرآن کرناچاہے، مثلا بولایۃ علی وغیرہ مگر وہ نہ چل سکے۔اُن کی تحریک، مخالفت قراء ات و سعی تحریف قرآن اور الحاق الفاظ موضوعہ مخترعہ کی تھی۔اختلاف قراء ات جومدینہ منورہ میں منزل من اﷲہوا ہے۔روافض اس کو کیوں کر پھیلانے لگے تھے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پانچویں نمبر پر آپ سے یہ بھول ہوگئی کہ قراء ات متواترہ کو آنجناب نے غیر محفوظ قرار دیاہے۔ قراء ات میں حرکات وسکنات، حروف و کلمات کی تبدیلی تو بعد کی بات ہے آج تک اختلاف قراء ت سے متعلق ادائی چیزوں کی منقولہ آوازیں بھی محفوظ ہیں۔ اِمالہ کس طرح ہوتاہے؟اس کی کیاآواز ہے؟ باریک حرف کی باریکی کی آواز کیسی ہوتی ہے؟ اظہار کی آواز کیاہے؟ غُنّہ کی صوت منقول کیاہے؟ تسہیل کی آواز کس طرح ہوتی ہے؟ آج کوئی ان آوازوں میں ہی کسی قسم کی تبدیلی و غلطی و تحریف کرکے نہیں دکھاسکتا ہے تو کیا ازمنۂ متقدمہ سالفہ اس پُرفتن دور سے بھی گئے گزرے ہوگئے تھے کہ اُن ادوار مبارکہ میں آوازیں تو کجا حرکات و سکنات حروف و کلمات تک میں بھی تبدیلی ہوگئی اور تمام علماء، قراء، افاضل اور اکابر ائمہ مجتہدین حضرات مجددین تماشا دیکھتے رہ گئے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چھٹے نمبر پر آپ سے یہ انتہائی سنگین غلطی سرزد ہوئی کہ سبعہ احرف والی متواتر و قطعی الثبوت حدیث کو معاذ اللہ موضوع بتایا ہے؟معلوم نہیں آپ نے موضوعات کی کون سی کتاب میں یہ بات ملاحظہ کی ہے۔ واقعی چیز کو غیر واقعی بنا دینا دن کو رات کہنے کے مترادف ہے۔کسی حوالہ سے تو اس حدیث کی موضوعیت یا کم از کم اس کا ضعف ہی آپ نے ثابت کرنا تھا تاکہ آپ کے مطالعہ کی وسعت کی داد دی جاتی،مگر یہ تاقیام قیامت ناممکن ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یوں کہے کہ میرے پاس اس بات کے دلائل قطعیہ موجود ہیں کہ دنیا میں مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ نام کا کوئی شہر ہی موجود نہیں ہے۔ ایسا شخص یقیناً دیوانہ اور مؤوف الدماغ ہی کہلائے گا۔
ناقد کے تمام شبہات کا عمومی اور کلُی جواب یہ ہے کہ اختلافِ قراء ت قطعی الثبوت متواتر روایات و نقول اور اجماع و تعامل اُمت سے ثابت ہے اور یہ تمام شبہات محض ظنیات و قیاسات اور عقلیات کے باب سے ہیں اور قطعی الثبوت کے مقابلہ میں ظنی معقول، لاشئ محض کے درجہ میں ہے۔ ان تمام شبہات کی بنیادبلکہ ناقد کی پوری تنقیدی ذہنیت کی بنیاد حسب ذیل بارہ اصول پرقائم ہے
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) شذوذ و تفرد
(٢) حدوث و ابتداع
(٣) تغلیط کل اُمت وتفریق جمیع ملت
(٤) تجریح وطعن جمیع سلف بمصداق حدیث یطعن آخر ھذہ الامۃ أولھا
(٥) فتنہ پردازی بقرب یوم القیامۃ بمصداق خالف تعرف (مخالفت کرو۔پہچانے جاؤ گے)
(٦) تخریب وہدم اَحادیث صحیحہ بمجرد الرأی والقیاس
(٧) تخریب و ہدم اختلافات قرآنیہ منزلہ من اﷲ بمجرد الہوی النفسانی
(٨) محض عقلی و قیاسی اٹکل پچو باتوں کی بنیاد پر حقائق واقعیہ کو مسخ کرکے غیر واقعی امور کو واقعی اور واقعی کو غیر واقعی بنادینا
(٩) علماء اسلام کی بجائے اعداء اسلام اور روافض و مستشرقین کی ڈگر پر چلنا
(١٠) اعجاب و خودرائی، کبر و تعلی، کثرت جہل
(١١) منکرین حدیث کو تقویت پہنچانا
(١٢) قلت معرفت و ناواقفیت علوم نحو و عربیت
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الغرض اس طریق پر چلتے ہوئے ناقد نے ’غرض صلیبی استعماری خبیث‘ کو خوب ہی خوب تقویت پہنچائی ہے۔زمانہ حاضرہ میں قرب قیامت کی اکثر نشانیاں واقع و ظہور پذیر ہوچکی ہیں اُنہی میں سے ایک نشانی قلت علم اور کثرت جہل و اعجاب کل ذی رأی برأیہٖ بھی ہے۔ کثرت جہل کے ساتھ جب سلف پر طعن و نقد بھی شامل ہوجائے تو عقل مسخ ہوجاتی ہے اور مسخ عقل کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص حقائق قرآنیہ حدیثیہ تاریخیہ کو یکسر مسخ کرکے رکھ دیتا ہے، ناقد موصوف نے ہرہر جگہ اولاً اپنی عقل کل سے جدت کا شاہکار ایک مردہ مفروضہ قائم کرلیا ہے جو قطعی لا رُوح فیہ کامصداق ہے اور پھر اُس مفروضہ کے خلاف جو کچھ بھی سامنے آیا خواہ وہ قرآن کے اختلاف قراء ت سے متعلق تھا،خواہ حدیث کی روایات سے، خواہ تاریخی حقائق و وقائع سے سب کوبے دریغ رد کردیا ہے۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ تیرہ صدیوں کے جملہ اکابر اہل السنۃ والجماعۃ، ثقات مؤرخین، ائمۂ مجتہدین، محدثین، مفسرین، مجددین اور طائفات منصورہ حقہ سے جو چیز بتواتر و تعامل سلف ثابت چلی آرہی تھی اُس کے متعلق ان سب کو بیک جنبش قلم غیر ثقہ اور غیر معتمد علیہ قرار دے دیا۔ بس جہاں اپنے مفروضہ کے موافق ان حضرات کی کوئی بات نظر آگئی اُسے جھٹ پکڑ لیا اور باقی کو خیر باد کہ دیا پھراسی پر بس نہیں بلکہ اس مفروضہ کو اپنے گمان میں موصوف اصل حقیقت حال وغیرہ کانام بھی دے لیتے ہیں۔ فإلی اﷲ المشتکی
 
Top