• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دلیل ڈاٹ پی کے: ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کی زبانی کیا خوب بیان کی ہے کہ ع
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و سنت پر من حیث القوم عمل پیرا رہے، وہ نہ صرف سیاسی طور پر دنیا میں عروج پر رہے بلکہ عصری علوم و فنون میں بھی دنیا کے امام بنے رہے۔ دنیا کی دیگر اقوام سائنس و ٹیکنالوجی سمیت جملہ علوم و فنون سیکھنے کے لیے مسلم ممالک کی درسگاہوں کا اسی طرح رُخ کیا کرتی تھیں جیسے آج کے مسلمان عصری علوم و فنون سیکھنے کے لیے مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس عروج کے زمانے میں آج کا ترقی یافتہ مغرب اور یورپ تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، جسے وہ خود بھی ’تاریک دور‘ سے یاد کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہواجب وہ قرآن و سنت سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس کے برعکس تاریخ ہمیں یہ دلچسپ صور تحال بھی بتلاتی ہے کہ مغربی اقوام اُس وقت تک تاریکی میں ڈوبی رہیں جب تک ان کا اپنے مذہب سے تعلق استوار رہا۔ بعد ازاں مغرب نے اسٹیٹ کے معاملات کوچرچ سے علیحدہ کیا اور اپنے مذہبی معاملات کو چرچ تک محدود کیا تو اُن پر دُنیوی ترقی کے دروازے کھلتے چلے گئے۔
ماہرینِ دینیات اس بات کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل اور ترقی یافتہ دین ہے جو دنیا کے تمام معاملات میں درست سمت میں رہنمائی فراہم کر نے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا مسلمان جب تک اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے رہے، دنیا میں کامیاب و کامران رہے۔ اس کے برعکس عیسائیت سمیت دیگر تمام مذاہب نامکمل اور ناقص ہونے کے سبب بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصرہیں۔ لہٰذا مغرب جب تک اپنے فرسودہ مذہبی روایات سے جڑا رہا، ترقی سے دور رہا۔ لیکن جب انہوں نے اپنے اس ناقص مذہب سے چھٹکارا حاصل کر لیا تو وہ ترقی کرتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے بعض نادان دوست، مسلمانوں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دُنیوی معاملات کو اپنے دین سے جدا کرنے کے اسی راستے پر چلانا چاہتے ہیں، جس پر چل کر مغرب نے ترقی کی ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، ہم جوں جوں اپنے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تنزلی کے گڑھے میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے جملہ معاملات کو اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و حدیث سے جوڑنے کی کوشش کریں۔​
 
Top