• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دل کےا مراض کی علامات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

دل کےا مراض کی علامات

اب ہم کچھ علامات ایسی ذکر کرتے ہیں جن سے کسی دل کی سختی بدبختی اور بیماری کاپتہ چلتا ہو۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے حسب ذیل علامات ذکر کی ہیں :
1۔ کسی قسم کے گناہ سے دل کو رنج کا احساس نہ ہو۔ کیا ہم گناہوں کے ارتکاب سے اپنے دل میں کسی قسم کی تکلیف اور رنج محسوس کرتے ہیں ۔ ہم دن رات جن لغزشوں اور غلطیوں میں مبتلا رہتے ہیں کیاہمارے دلوں میں ان سے کوئی تکلیف محسوس ہوتی ہے؟کیاہم اپنی کسی غلطی ، کسی گناہ پر شرمندہ ہوتے ہیں ؟توبہ کی کوشش کرتے ہیں ؟اپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیاں دیکھ کر کبھی ہم نے دل میں دکھ اور رنج محسوس کیا ہے؟کیا ہم نے برائیوں کے خاتمے کی حسب استطاعت کوشش کی ہے؟
ہمارے خیال میں یہ بہت بڑا اہم کام ہے جس کی طرف توجہ دینا ہمارا فریضہ ہے ۔ جو دل معروف و منکر کا احساس نہ کرے چاہے وہ اس دل کے اندر ہو یا معاشرے میں ہو تو ایسے دل والے کو چاہیئے کہ جتنی جلدی ہوسکے اپنے دل کا علاج کرے کہیں دیر نہ ہوجائے۔
2۔ معصیت و گناہوں میں لذت محسوس کرے ۔ گناہ کے بعد آرام و سکون پائے۔جبکہ مومن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ فوراً ندامت و شرمندگی محسوس کرکے اللہ سے استغفار طلب کرے ۔توبہ کرے۔
نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی ہیں جو گناہوں میں ہی خوش رہتے ہیں گناہ سے ہی لذت و آرام حاصل کرتے ہیں جیسا کہ فلموں کے عادی لوگ ہیں جب تک فلم نہ دیکھیں انہیں چین نہیں آتا اور فلم دیکھنے کے بعد شرمندہ ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں اور کئی کئی دن تک اس فلم کا تذکرہ کرتے ہیں اور خوش ہوتے رہتے ہیں بلکہ فخر بھی کرتے ہیں اسی طرح کھیلوں اور میچ کے شوقین لوگوں کو میچ دیکھنے کے بغیر چین نہیں آتا۔کئی کئی گھنٹے بلکہ کئی دن تک میچ دیکھتے رہتے ہیں جب تک میچ کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک دیکھتے رہتے ہیں اکتاتے نہیں ۔
یہ ایسے رجحانات ہیں جو معاشرے کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں خصوصاً نوجوانوں کے لئے کہ ان کا وقت بہت ضائع ہوتا ہے جو کہ بہت قیمتی ہے یہ وقت ملک ، قوم اور دین کے کام آسکتا ہے جسے فضولیات میں ضائع کیاجارہا ہے ۔ اس کے تدارک کی تدابیر کرنی چاہئیں ۔
3۔کم اہمیت والے امور کو اہم امور پر مقدم کرنا۔ یعنی ذاتی فائدے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اجتماعی فائدے کی پرواہ نہیں کرتے مسلمانوں میں کتنے ایسے ہیں جنہیں امت مسلمہ کے پریشان حال لوگوں کی اپنے مسلمان بھائیوں کی تکالیف و پریشانیوں کی کوئی فکر نہیں ہے اپنے مفادات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں مگر دین ، امت ، اور ائمہ اسلام و علمائے اسلام کے بارے میں کسی قسم کی معلومات تک نہیں رکھتے۔ کتنے ہی مسلمان نوجوان ہیں جو پیسے کمانے، ہنر سیکھنے ، سیرو تفریح کرنے کا اہتمام کرتے ہیں اور ان کیلئے بہت زیادہ پریشان رہتے ہیں مگر افغانستان ، فلسطین ، فلپائن، اریٹریا (کشمیر) وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں بچوں ، عورتوں کی پرواہ نہیں کرتے ان کے لئے دل میں کسی قسم کا حزن و ملال محسوس نہیں کرتے کتنے افسوس کی بات ہے؟
ایسے لوگوں سے ہم یہی درخواست کریں گے کہ اپنے دلوں کو بچالیں وہ ہلاکت و تباہی کے کنارے پہنچ چکے ہیں ۔
4۔حق سے نفرت ، اور حق سے اپنے دل میں تنگی و گھٹن محسوس کرے ۔اس طرح کا احساس نفاق کی ابتدائی علامات میں سے ہیں ۔
5۔نیک لوگوں کی صحبت سے کترانا اور برے و نافرمان لوگوں سے محبت و انسیت رکھنا ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کسی نیک اور صالح آدمی کے ساتھ چند گھڑیاں نہیں بیٹھ سکتے ان سے کسی قسم کی محبت و انسیت نہیں رکھتے۔ بلکہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ان کی محافل و مجالس اور ان کے ساتھ بیٹھنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ان کے برعکس برے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے میں بڑا سکون اور راحت محسوس کرتے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں میں بگاڑ پیدا ہوچکا ہے جس کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے ۔
6۔شکو ک و شبہات کو فوراً قبول کرنا۔ ان کو ترجیح دینا۔بحث و مباحثہ ۔لڑائی جھگڑا پسند کرنا۔اور قرآن کی تلاوت سے بے رغبتی و بے اعتنائی کرنا ۔
7۔غیر اللہ کا خوف : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر تمہارا دل صحیح ہے تو تم کسی سے نہ ڈرو گے ۔ عزبن عبدالسلام کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے ایک ظالم بادشاہ کے سامنے جب بہت سخت باتیں کیں اور چلے گئے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ امام صاحب آپ کو ڈر محسوس نہیں ہوا؟تو امام صاحب نے جواب دیا میں نے دل میں اللہ کی عظمت و کبریائی کا تصور کیا تو بادشاہ میری نظر میں بلی سے بھی کمتر لگا۔
جبکہ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم حکومت کے معمولی سے کارندے سے بھی ڈرتے ہیں اور اتنا ڈرتے ہیں کہ جتنا ہم اللہ سے بھی نہیں ڈرتے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے دلوں میں بگاڑ و فساد آگیا ہے لہٰذا عقل و دانش کاتقاضا ہے کہ ہم اپنے دل کے امراض کا خود ہی تجزیہ کریں اور اس کے علاج کی کوشش کریں۔
8۔دل میں عشق کا پیدا ہونا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دل میں کسی کا عشق اس وقت جگہ بناتا ہے جب انسان کی توحید اور ایمان میں نقص آجائے۔ ورنہ مومن موحد کا دل تو ہر وقت اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ کسی اور طرف توجہ ہی نہیں کر سکتا وہ اللہ کی محبت سے معمور ہوتا ہے اس میں کسی اور کے عشق کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ۔ اللہ کا خوف اتنا ہوتا ہے کہ وہ کسی غلط خیال کو اپنے اندر جگہ نہیں دے سکتا۔
9۔کہ دل معروف و منکر میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے اور کسی قسم کی نصیحت سے متاثر نہ ہو۔

 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اختتام

اگرچہ موضوع پر گفتگو بہت طویل ہوگئی ہے مگر مقصد میرا یہ تھا کہ ہم سب اپنے دلوں کی طرف توجہ کریں انہیں اہمیت دیں دل کے امراض ، فساد و بگاڑ کے بارے میں اللہ سے ڈریں ۔دلوں کو برائیوں سے ہٹا کر نیکیوں پر مائل کریں۔جو باتیں دلوں کے لئے نقصان دہ ہیں دلوں کو ان سے بچائیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ جب کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کو دل کی کوئی بیماری ہے ۔ وال خراب ہے ۔ بند ہے ۔ہارٹ اٹیک کا خطرہ ہے وغیرہ وغیرہ تو اسے کتنا صدمہ اور دکھ ہوتا ہے بلکہ لوگ بھی اس سے ہمدردی کرتے ہیں اسے سخت پرہیز و احتیاط کی تاکید کرتے ہیں ۔ کیا اس طرح ہم دل کے روحانی امراض میں بھی دکھ محسوس کرتے ہیں ؟جب ہم معصیات اور گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں جب صبح و شام ہمارے دلوں میں غلط خیالات و تصورات کا گذر ہوتا ہے توہمیں اس پر صدمہ یا شرمندگی کااحساس ہوتا ہے؟اگر نہیں تو ہمیں چاہیئے کہ اپنے دلوں میں اللہ کا خوف پیداکریں؟اپنے دلوں کی اصلاح کریں اسی میں نجات ہے ۔
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اٰتَی اﷲُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (الشعراء:88-89)
جس دن مال اور بیٹے کوئی فائدہ نہ دیں گے سوائے اس کے جو لایا قلب سلیم۔
کیاہم نے کبھی سوچا ہے کہ اللہ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے جبکہ ہم بہت سے گناہوں میں ملوث ہیں۔ سود لینا دینا یا اس پر تعاون کرنا ۔ رشوت کا لین دین۔ غیبت اور چغلیاں کرکے لوگوں کی عزتوں کو اچھالنا اسی طرح کے دیگر بے شمار و بے حساب گناہ ہیں جن کاارتکاب ہم کرتے ہیں ۔ہمیں چاہیئے کہ اپنے دلوں پر ترس کھائیں انہیں ان کاموں پر آمادہ کریں جن سے اللہ راضی ہوتا ہے جیسے قرآن کا پڑھنا پڑھانا۔کثرت سے نوافل و عبادات بجالانا۔صدقات و خیرات کرنا۔ اللہ کا ذکر کرنا۔ تاکہ جب ہم اللہ سے ملاقات کریں تو قلب سلیم یعنی مطیع و فرمانبردار دل کے ساتھ کریں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اچھے اعمال کی توفیق دے اور ان پرثابت قدم رکھے سیدھے راستے پر چلنے کی ہمت دے ۔ نعمتوں کاشکر ادا کرنے اور عبادت صحیح طریقے سے کرنے کی استطاعت دے۔
ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اس شر سے جو اللہ کو معلوم ہے اور اس خیر کے طالب ہیں جو اللہ کے علم میں ہے۔ اور ان غلطیوں اور گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں جو ہم سے لاعلمی میں سرزد ہوچکے ہیں ۔ ہم اللہ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ ہمیں قلب سلیم اور سچ بولنے والی زبان عطافرمائے۔
و صلی اﷲ علی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم و علی صحبہ رضی اللہ عنہم اجمعین اجمعین
عبدالعظیم حسن زئی
7-8-2004


امتحان القلوب
 
Top