• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دل کے امتحان کا معنی؟

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
امتحانِ قلوب کا معنی؟

ہمارے دل صبح و شام امتحانات کا سامنا کر رہے ہیں زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے دلوں کو آزما رہا ہے ٹٹول رہا ہے کیا ہم اس سے باخبر ہیں ؟ہماری غفلت یا ہماری ایک غلطی اس دل کی زندگی کا خاتمہ کرسکتی ہے ۔
وَلِیَبْتَلِیَ اﷲُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاﷲُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (آل عمران:154)
تاکہ اللہ تمہارے سینوں میں چھپے راز آزمالے اور تمہارے دلوں کاامتحان لے لے ۔اللہ سینے میں چھپی باتوں سے خوب واقف ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحْنَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔(الحجرات:3)

یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے تقوٰی کے لئے ان کے دلوں کا امتحان لیا ہے انہی کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے ۔
یہ کون لوگ ہیں جن کے دلوں کا اللہ نے تقویٰ کے لئے امتحان لیا ہے؟یہ آیت دو جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ۔ بخاری میں اس کاتذکرہ اس طرح ہے کہ عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تمیم قبیلے کا ایک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم )قعقاع بن معبد ابن زرارہ کو انکا امیر بنادیں ۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اقرع بن حابس کو بنادیں ۔ابو بکر نے کہا(عمر)تم ہمیشہ میری مخالفت کرتے ہو ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے تمہاری مخالفت نہیں چاہی ۔یہ دونوں آپس میں بحث کرنے لگے یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہوئیں تو یہ آیت نازل ہوئی
یٰٓااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ۔(الحجرات:1)

اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے آگے مت بڑھو۔
اس دین میں کوئی بات مجمل و مبہم نہیں چھوڑی گئی نہ ہی کسی کا لحاظ رکھاگیا ہے فرمایا :
یٰٓااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرٍ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ (الحجرات )۔

اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آواز سے اونچی نہ کرو او رنہ ہی اس طرح اونچی آواز میں ان سے بات کرو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز میں بات کرتے ہو۔
ورنہ کیاہوگا؟فرمایا :
اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ ۔(الحجرات:2)

تمہارے اعمال برباد ہوجائیں گے اور تمہیں معلوم بھی نہ ہوگا۔
سوچنے کا مقام ہے کہ آیت میں کس کو تنبیہ کی جارہی ہے ؟ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ۔وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ۔
لو کنت متخذا خلیلا من امتی لا تخذت ابابکر۔(بخاری و مسلم )

اگر میں نے امت میں سے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا ۔
اور عمر رضی اللہ عنہ کو بھی تنبیہ ہے ۔ وہ عمر رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
والذی نفسی بیدہ ما لقیک الشیطان قط سالکا فجا الا سلک فجا غیر فجک ۔(بخاری و مسلم )

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے شیطان تمہارے راستے میں اگر آجاتا ہے تو وہ راستہ بدل کر دوسری راہ چل دیتا ہے (مگر تمہارا سامنا نہیں کرسکتا)۔
لیکن آیت کے نزول کے بعد دونوں نے توبہ کی ۔ اللہ کی طرف رجوع ہوئے ۔ استغفار کیا۔ اور ان میں سے ایک نے قسم کھالی کہ آئندہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی آہستہ آواز میں بات کروں گا جس طرح دو افراد راز و نیاز کی باتیں کرتے ہیں ۔
یہاں نتیجہ پھر یہ نکلا کہ :
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحْنَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (الحجرات:3)

یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں کا تقویٰ کے لئے امتحان لے لیا ہے ان کے لئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے ۔
یعنی ان کے دل تقویٰ کے لئے خاص و خالص کر دیئے یہاں تک کہ اب وہ صرف تقویٰ کے لئے ہی ہیں (امام آلوسی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے دلوں میں صرف تقویٰ ہی ہے اور کسی چیز کی ان میں گنجائش ہی نہیں ہے )
ہمیں اس بات پر غور کر نا چاہیئے کہ وہ دو افراد(ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ) جو امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے بہترین افراد تھے ایک معمولی سی کوتاہی پر انہیں اللہ کی طرف سے تنبیہ کی گئی تو ہم اپنا محاسبہ کرکے دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ہماری حیثیت کیا ہے اور ہم ایسے کتنے کام کررہے ہیں جو قابل سرزنش و تنبیہ ہیں ؟ایسے کتنے امتحان ہیں جن میں ہم ناکام ہوئے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں ؟اس آیت میں ایک اہم نکتہ یہ جملہ بھی ہے ۔

وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
(اور تمہیں احساس بھی نہ ہوگا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس لئے کہ انسان کے کتنے ہی اعمال برباد ہوجاتے ہیں اور اسے پتہ بھی نہیں ہوتا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ میرے اس کام کی وجہ سے میرے اعمال برباد ہوگئے ہیں کتنے عمل اور کتنے ایسے جملے ہوتے ہیں جو ہماری زبان سے ادا ہوتے ہیں مگر ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ اس سے کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے اعمال برباد ہونے کا اندیشہ تھاتوہم میں سے جو شخص حق کی آواز پر اپنی آواز اونچی کرتا ہے اس کے اعمال کا کیاحال ہوگا؟جو لوگ طاغوت کے قوانین کو اللہ کی شریعت پر مقدم کرتے ہیں اور شیطان کی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھ دوستی و تعاون کرتے ہیں ان کے اعمال کی بربادی کس سے پوشیدہ ہے؟
دلوں کے امتحان کے ضمن میں ہمیں یہ حدیث بھی مدنظر رکھنی چاہیئے جو حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
دلوں پر فتنے ایسے آتے ہیں جس طرح چھٹائی بکھر کر تنکاتنکا گرتی ہے جس دل میں فتنہ داخل ہوجاتا ہے اس پر سیاہ نکتہ بنادیتا ہے اور جو دل فتنہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے اس پر سفید نکتہ لگ جاتا ہے اور وہ دل صاف و سفید ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اس پر کوئی فتنہ اثر انداز نہیں ہوگا جب تک زمین آسمان باقی ہیں ۔ دوسرا دل (قبول کرنے والا)کالا سیاہ ہوجاتا ہے اور الٹے پیالے کی طرح ہوتا ہے کہ جس پر کوئی بھلائی کی بات پھراثر نہیں کرتی ۔ وہ معروف و منکر کی پہچان بھول جاتا ہے ۔ صرف خواہشات کا پیرو بن جاتا ہے (اللہ ہمارے دلوں کو سیاہی سے بچائے اور اسے ہمیشہ صاف رکھے)۔
حدیث میں پے در پے فتنے آنے کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں پر آزمائشیں مسلسل آتی رہتی ہیں ۔ رفتہ رفتہ دلوں کو سیاہ کرتی ہیں ۔ سوائے ان دلوں کے جن کو اللہ فتنوں سے بچائے تو وہ قیامت تک محفوظ رہتے ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
انسان کا نفس اسے سرکشی کی طرف دعوت دیتا ہے اور اللہ عزوجل اسے اپنی عبادت، خوف، اور خواہشات سے اجتناب کی دعوت دیتا ہے اس طرح دل دو بلانے والوں کے درمیان ہے اور یہی اسکی آزمائش ہے کہ وہ نفس کی بات مان کر آزمائش میں ناکام ہوتا ہے یا اللہ کی دعوت قبول کرکے کامیاب و کامران اور سرخرو ہوتا ہے؟

تنبیہ
یہاں ایک اہم نکتہ قابل توجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بعض مبلغین اور طالب علم یہ سمجھتے ہیں کہ امتحان و آزمائش کی انتہا یہ ہے کہ جسم کو تکلیف میں مبتلا کر دیا جائے جیسے کسی کو قید میں ڈال دیا جائے ، سزا دی جائے قتل کر دیاجائے یا دوسری قسم کی سزا دی جائے جیسے سوشل بائیکاٹ ، بات چیت بندکر دینا، مذاق اڑانا وغیرہ اس خیال کی رو سے تو آزمائش کا مفہوم بہت ہی محدود ہوجائے گا اسلئے کہ سب سے سخت اور تکلیف دہ آزمائش تو دلوں کی ہے ۔ بہت سے لوگ جو جسمانی سزاؤں کا کامیابی سے مقابلہ کر لیتے ہیں مگر دلوں کے امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں اسی لئے راسخین علم یہ دعاکرتے ہیں ۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّاب۔(آل عمران:8)
ہمارے پروردگار ہمارے دلوں کو مت بھٹکانا جبکہ تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا فرما بیشک تو بن مانگے دینے والا ہے ۔


امتحان القلوب
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالی آپ کو اس خدمت پر اجر عظیم عطا فرمائے۔ آپ کی جملہ پریشانیاں دور فرمائےآمین یارب العالمین
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
بھائی یونس ہماری بھی دعا اللہ آپ کو اس دین کی خدمت کی وجہ پریشانیوں سےمحفوظ فرمائے آمین
 
Top