• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دل کے امراض

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دل کے امراض


[1]۔نفاق:
دل کے امراض میں سب سے زیادہ خطرناک مرض نفاق ہے یہ انسان کی انسانیت کو ختم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔آخرت میں بھی بہت برے انجام کا سبب بنے گا۔شاید کچھ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نفاق اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اس کے سرکردہ افراد میں سے بلکہ سرغنہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا ۔ اگرچہ آج بھی نفاق اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ ماضی میں تھا۔سلف صالحین نفاق سے بہت زیادہ ڈرتے تھے اور اس سے محفوظ رہنے کی کوششیں کرتے تھے ۔ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی خدمات صحابہ میں انکا مقام و مرتبہ عمل میں اخلاص کون نہیں جانتا؟وہ بھی حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے ہیں کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منافقین میں شمار کیاتھا ؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ نہیں۔ اور کہاکہ آپ کے بعد تو کوئی زکی النفس شخص ہے ہی نہیں۔ (کنز العمال)۔
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ بہت بڑے تابعی ہیں کہتے ہیں میں نے تیس صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ملاقات کی ہے ان میں سے ہر ایک نفاق سے ڈرتا تھا ۔(بخاری)۔
کیا ہمارے دور میں ایسے تیس افراد ہمیں مل سکتے ہیں جو نفاق سے ڈرتے ہوں اللہ نے اپنی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں نفاق کی جو علامات ذکر کی ہیں اگر کوئی شخص ان پر غور کر لے تو وہ سمجھ جائے گا کہ یہ معاملہ بڑا ہی خطرناک ہے بہت مشکل ہے نفاق سے محفوظ رہنا خاص کر جبکہ لوگ نفاق کی صفات سے بچنے میں انتہائی سستی سے کام لیتے ہیں حالانکہ اکثر افراد میں کوئی نہ کوئی علامت نفاق کی پائی جاتی ہے مثلاً بہت سے لوگ مسلم ملک کی عدالتوں کے بارے میں جب بحث کرتے ہیں تو ججوں کے فیصلوں کی غلطیاں گنواتے ہیں اور پھر انہیں صحیح حق پر مبنی اور یا غلط خلافِ حق قرار دیتے ہیں پھر لوگوں کے سامنے مغربی ممالک کی عدالتوں کی تعریفیں کرتے ہیں ان کے ججوں کی قابلیت اور حق گوئی اور انصاف کے قصیدے پڑھتے ہیں ان کے نظام انصاف ، مساوات وغیرہ کی توصیف و تحسین کرتے ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ اہل مغرب کی بدبختی ، بدخلقی اور اللہ کی شریعت سے روگردانی اور کفر جیسی برائیوں سے ناواقف ہیں یا جان بوجھ کر لاعلم رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِی اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔(النساء:65)
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں اور پھر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے کئے ہوئے فیصلے سے اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں اسے مکمل طور پر تسلیم کر لیں ۔
آج کل تو یہ بات بہت عام ہے کہ غیر مسلموں کی تعریفیں اور مسلمانوں کے ہر کام میں خامیاں نکالنا حالانکہ غیر مسلموں کی یہی خامی سب سے بڑی اور انہیں دنیا کی تمام مخلوق سے کمتر ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو نہیں مانتے انکی تعریف کرنا اور مسلمانوں کی برائیاں بیان کرنا بھی منافقوں کی نشانیاں ہیں اور ہر مسلمان کو منافقین کی مشابہت سے بچنا چاہیئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
[2]۔ریاء:
یہ بھی ایک بہت بڑانقصان زدہ مرض ہے چونکہ یہ خفیہ عمل ہے اور تمام اعمال کو برباد کردینے والا ہے اس لئے سب سے زیادہ خطرناک مرض ہے ۔ حدیث پاک میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
من عمل عملا اشرک فیہ معی غیری ترکتہ و شرکہ (مسلم )

جس نے کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی کو شریک کر لیا تو میں اسکو اور اس کے شرک(شرکیہ عمل)کو چھوڑ دیتا ہوں(قبول نہیں کرتا)۔
دوسری حدیث میں آتا ہے :
من سمع سمع اللہ بہ و من یرائی یرائی اللہ بہ (مسلم )

جس نے شہرت کے لئے عمل کیا اللہ اسے شہرت دیدے گا جس نے دکھلاوے کے لئے کیا اللہ اس کا عمل لوگوں کو دکھلا دے گا۔
اللہ نے منافقین کی علامات میں ذکر کیا ہے :
یُرَاؤُنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اﷲَ اِلَّا قَلِیْلًا (النساء:142)

لوگوں کو دکھلانے کے لئے (عمل)کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر کم ہی کرتے ہیں ۔
ان کے اعمال کا جو حشر ہوگا اس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اس طرح دی ہے :
وَ قَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَآئً مَّنْثُوْرًا۔(الفرقان:23)

ہم ان کے اعمال کی طرف متوجہ ہو کرانہیں اڑتی ہوئی دھول بنالیں گے (بے حیثیت و بے وقعت بنادیں گے )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
[3]۔ شبہ ، شک ، اندازے، تخمینے:
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلَہٖ (آل عمران:7)

جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کی پیروی کرتے ہیں جو متشابہ ہے اس میں سے فتنہ اور اس کی تاویل و انجام تلاش کرنے کی غرض سے ۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے :
وَ ارْتَابَتْ قُلُوْبُہُمْ فَہُمْ فِیْ رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُوْنَ ۔(توبہ:45)

ان کے دلوں نے شک کیا تو وہ اپنے اندازوں اور تخمینوں میں بھٹکتے پھررہے ہیں ۔
نیز ارشاد ربانی ہے :
لَا یَزَالُ بُنْیَانُہُمُ الَّذِیْ بَنَوْا رِیْبَۃً فِیْ قُلُوْبِہِمْ اِلَّا اَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُہُمْ (التوبہ:110)

جو عمارت انہوں نے بنائی اس میں ہمیشہ شک ان کے دلوں میں رہے گا مگر یہ کہ ان کے دل کے ٹکڑے ہوجائیں ۔
اَمْ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْا۔(النور:50)
یا ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک کر رہے ہیں ۔
وَ ِاذْ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ مَا وَعَدْنَا اﷲَ وَرَسُوْلُہٗ اِلَّا غُرُوْرًا۔(احزاب:12)
جب منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے صرف دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔
وَلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَلِیَقُوْلَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ وَالْکَافِرُوْنَ مَاذَا اَرَادَ اﷲُ بِہٰذَا مَثَلًا ۔(مدثر:31)
اور دھوکہ نہ کھائیں جن کو کتاب ملی ہے اور مسلمان۔اور تاکہ کہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور منکر کیا غرض تھی اللہ کو اس مثال سے ۔
یہ شک یعنی اندازے لگانا خطرناک ترین امراض میں سے ہے جس کے دل میں گھر کر جائے تو اسے شرک اور کفر میں مبتلا کرکے ہی چھوڑتا ہے ۔ اس مرض کا علاج یہ ہے کہ کثرت سے شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کی جائے ۔ اس مرض کو دل سے نکالنے کے لئے اللہ کی مدد طلب کی جاتی رہے ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کی طرف رجوع کیاجائے۔ اللہ کی وحدانیت اور صفات پر یقین رکھا جائے حدیث شریف میں آتا ہے لوگ مسلسل آپس میں سوال کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ ہر چیز اللہ نے پیدا کی ہے تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے ؟جب کسی کے دل میں ایسا خیال آئے تو وہ فوراً کہدے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتاہوں دوسری روایت میں ہے کہ وہ شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور ایسے خیالات سے رک جائے۔ (مسلم)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

[4]۔بدگمانی:
یہاں بدگمانی سے مراد ہے اللہ کے بارے میں بدگمانی۔یہ بھی دل کے بڑے امراض میں سے ہے ہم اس کی وضاحت کرنا اور اس کے خطرے سے باخبر کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ اللہ کے بارے میں بدگمانی یہ ہے کہ انسان اللہ کے وعدے ، مؤمنین ، مجاہدین ، مصلحین کے لئے مدد کے بارے میں بدگمانی کرے ۔ بعض لوگ اللہ کے بارے میں اس بدگمانی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اسے رزق نہیں دے رہا بلکہ اس کو پورا یقین ہوتا ہے کہ میرا رزق لوگوں کے ہاتھ میں ہے اللہ کے بجائے لوگوں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس کارزق حکومت، کمپنی ، یا کسی او رکے ہاتھ میں ہے اس کے لئے وہ منصوبے بناتا ہے بجٹ بناتا ہے مگر اس اللہ پر یقین نہیں رکھتا جس نے فرمایا ہے کہ :
وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُہَا۔(ھود:6)
زمین میں جو بھی چلنے پھرنے والی (مخلوق)ہے اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔
جو لوگ اللہ کے بارے میں بدگمانیاں رکھتے ہیں اللہ نے ان کی مذمت کی ہے اور ان کے اس طرز عمل کو جاہلیت قرار دیا ہے ۔
یَظُنُّوْنَ بِاﷲِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاھِلِیّۃِ۔(آل عمران:154)
اللہ کے بارے میں ناحق گمان کرتے ہیں جاہلیت جیسا گمان۔
فرماتا ہے :
وَ زُیِّنَ ذٰلِکَ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْئِ وَکُنْتُمْ قَوْمًا بُوْرًا۔(الفتح:12)۔
یہ تمہارے دلوں میں مزین کیاگیا اور تم نے برا گمان کیا اور تم تباہ ہونے والے تھے۔
وَ ذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَرْدَاکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ۔(حم سجدۃ:23)
یہ تمہارا گمان تھا جو تم نے اپنے رب کے بارے میں کیااس نے تم کو غارت کیا آج تم نامراد اور خسارے میں رہ گئے ۔
وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاﷲِ الظُّنُوْنَا۔(احزاب:10)
اور جب پھر گئیں آنکھیں اور پہنچ گئے دل حلق تک اور تم اللہ کے بارے میں بدگمانیاں کرنے لگے۔
وَمَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا ۔(یونس:36)
ان میں سے اکثر صرف خیالات کی پیروی کرتے ہیں اور خیالات حق کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
الظَآنِّیْنَ بِاﷲِ ظَنَّ السَّوْئِ عَلَیْہِمْ دَائِرَۃُ السَّوْئِ (الفتح:6)
اللہ کے بارے میں بدگمانیاں کرنے والے ان پر مصیبت کا پھیر ہے۔
یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ(الحجرات:12)
اے ایمان والو اکثر بدگمانیوں سے اجتناب کیاکرو کہ بعض بدگمانیاں گناہ میں شمار ہوتی ہیں ۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
بد گمانی سے خود کو بچاؤ۔ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹ ہے۔ (متفق علیہ)۔
لہٰذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھیں کہ اللہ اپنے بندوں کے گمان کے ساتھ ہے اسی طرح کا برتاؤ کرتا ہے بندے سے جیسا بندہ اللہ کے بارے میں خیالات رکھتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کا قول نقل کرتے ہیں ۔
أنا عند ظن عبدی بی فلیظن بی ماشاء (ابو داؤد)
میں بندے کے اس گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے۔اب اس کی مرضی کہ میرے بارے میں کیسے خیالات رکھتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

[5]۔حسد:
ہم میں سے کون ایسا ہے جو اس مرض سے محفوظ ہے ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں حسد نفسانی امراض میں سے ہے او ر یہ مرض اکثر لوگوں میں پایا جاتا ہے بہت کم لوگ اس سے محفوظ ہوں گے ۔ اس لئے کہاجاتا ہے کہ کوئی جسم حسد سے خالی نہیں ہے مگر کمینہ آدمی اس کو ظاہر کرتا ہے اور شریف آدمی اسے چھپائے رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
اَمْ یَحْسِدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَا اٰتَاھُمُ اﷲُ مِنْ فَضْلِہٖ (النساء:54)
کیایہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر کہ اللہ نے انکو اپنے فضل میں سے دیا ہے ۔
ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم صبح و شام ان الفاظ میں اللہ کی پناہ طلب کریں ۔
وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَد ۔(الفلق:5)
حسد کرنے والے کے شر سے (پناہ مانگتا ہوں)جب وہ حسد کرے ۔
حدیث شریف میں ہے :
ولا تباغضوا ولا تحاسدوا
آپس میں ایک دوسرے سے نفرت مت کرواور ایک دوسرے سے حسد مت کرو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ترجمہ: حسد سے اجتناب کرو حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جسطرح آگ ایندھن کو۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں (جو بھی خیال ہو)اسے اپنے دل میں ہی رکھو وہ اس وقت تک تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا جب تک ہاتھ یا زبان اس پر عمل نہ کرے ۔

حسد ، بغض کا علاج:
شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس کا عمدہ علاج تجویز کیا ہے فرماتے ہیں جو شخص اپنے دل میں کسی کے لئے حسد محسوس کرے تو اسے چاہیئے کہ اپنے دل میں فوراً اللہ کا خوف اور صبر پیدا کرے اس طرح دل سے حسد و بغض نکل جائیں گے ۔
چونکہ حسد ایک عام بیماری ہے تقریباً ہر شخص خصوصاً خواتین اس میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ حسد اور رشک میں فرق واضح کروں۔اس لئے کہ حسد لائق مذمت جبکہ رشک مذموم نہیں ہے۔
حسد یہ ہے کہ کوئی انسان کسی کے پا س اللہ کی نعمت دیکھے تو یہ تمنا کرے کہ یہ نعمت اس شخص سے چھن جائے اور مجھے مل جائے؟
رشک یہ ہے کہ جس طرح یہ نعمت اس کو ملی ہے اسی طرح مجھے بھی مل جائے یعنی کسی سے چھن جانے کی تمنا اس میں شامل نہ ہو ۔ حدیث میں اس کو حسد کہاگیا ہے جسے رشک کہاجاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
لا حسد الا فی اثنین رجل آتاہ اﷲ مالا فسلطہ علی ھلکتہ فی الحق ورجل آتاہ اللہ الحکمۃ فھو یقضی بہا و یعلمہا (بخاری)
رشک صرف د وباتوں میں کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کو اللہ نے مال دیا ہے اور پھر اسے حوصلہ دیا ہے کہ وہ اس مال کو حق کی راہ میں خرچ کرتا ہے دوسرا وہ شخص قابل رشک ہے کہ اسے اللہ نے حکمۃ و دانائی دی ہے وہ اس کے ذریعے لوگوں کے فیصلے نمٹاتا ہے ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ وہ شخص قابل رشک ہے جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا ہے وہ اسے دن اور رات پڑھتا ہے دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا ہے وہ اس میں سے دن رات صدقہ کرتا رہتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

6۔تکبر ، خود پسندی، دوسروں کو حقیر سمجھنا کسی کا مذاق اڑانا :
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
اِنْ فِیْ صُدُوْرِھِمْ اِلاَّ کِبْرٌ مَّاھُمْ بِبَالِغِہِ (مؤمن:56)
ان کے دلوں میں اور کوئی بات نہیں صرف غرور ہے کہ کبھی نہ پہنچیں گے اس تک ۔
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰاتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ۔(اعراف:146)
میں پھیر دوں گا اپنی آیتوں سے ان کو جو تکبر کرتے ہیں زمین میں ناحق۔
تِلْکَ الدَّارُالْاٰخِرَۃُ نَجَعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (القصص:83)
وہ آخرت کاگھر ہم دیں گے ان لوگوں کو جو ملک میں نہ اپنی بڑائی چاہتے ہیں نہ فساد اچھا انجام متقین کا ہے۔
کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اﷲُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ (مؤمن:35)
اس طرح اللہ مہر لگاتا ہے ہر تکبر کرنے والے سرکش کے دل پر۔
اَنَّہٗ لَا یُحِبُ الْمُتَکَبِّرِیْنَ (النحل:23)
اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا (التوبہ:25)
اور حنین کے دن جب تمہیں تمہاری کثرت پسند آئی مگر اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں دیا۔
لقمان کی وصیتوں میں سے یہ بھی ہے کہ :
وَلَاتَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرْحًا (لقمان:18)
زمین پر اکڑ کر مت چلو۔
خود کو پاکیزہ سمجھنا بھی ایک بیماری ہے (دل کی روحانی بیماری)
فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (النجم:32)
خود کو پاک مت قرار دو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ بَلِ اﷲِ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ (النساء:32)
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو خود کو پاکیزہ قرار دیتے ہیں حالانکہ اللہ جسے چاہے پاک کرتاہے۔
اللہ نے مذاق اڑانے سے منع کیاہے ۔
یٰٓا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِنْ نِسَآئٍ عَسٰی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِنْہُنَّ (الحجرات:11)
اے ایمان والو کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے شاید کہ وہ ان سے بہتر ہو اور عورتیں عورتوں کامذاق نہ اڑائیں شاید کہ وہ ان (مذاق اڑانے والوں سے)بہتر ہوں۔
مذاق اڑانا بھی ایک مہلک مرض ہے ۔
قُلْ اَبِاﷲِ وَ اٰیٰاتِہِ وَرَسُوْلِہِ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِئُ وْنَ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ (التوبہ:65-66)
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے کیا اللہ ، اس کی آیات اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مذاق کرتے ہو بہانے مت بناؤ تم ایمان کے بعد کفر کر چکے ہو۔
اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَ وَ اِذَا مَرُّوْا بِہِمْ یَتَغَآمَزُوْنَ (المطففین :29-30)
جو لوگ مجرم ہیں یہ ایمان والوں پر ہنستے تھے اور جب ان کے پاس سے گذرتے تھے تو آپس میں اشارے کرتے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر (مسلم )
جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔
دوسر ے مقام پر فرمایا ہے :
بحسب امری من الشر ان یحقر اخاہ المسلم (مسلم )
کسی بھی شخص کے برے ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ وہ مسلمان کو حقیر جانے۔
آج کل تکبر غرور اور دوسروں کو حقیر جاننا جیسی بیماریاں بہت عام ہیں بعض لوگ اپنے سے کم علم والوں کو خود سے کمتر سمجھتے ہیں کچھ لوگ عہدے کی بناپر کچھ مال و دولت کی وجہ سے کچھ قوم ، قبیلہ و خاندان کی وجہ سے دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں اسی طرح اور بھی کئی اسباب ہیں جن کی بنا پر ایک شخص خود کو دوسرے سے برتر خیال کرتا ہے اور دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے حالانکہ اس بیماری یاخیال کے بارے میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کافرمان تنبیہہ کے لئے کافی ہے ۔
لایزال الرجل یذھب بنفسہ حتی یکتب فی الجبارین فیصیبہ ما اصابہم (ترمذی:حسن)
آدمی خود کو ہی بہتر سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سرکشوں میں لکھ دیاجاتا ہے اور پھر اسے بھی وہی (عذاب)پہنچتا ہے جو ان کو پہنچتا ہے ۔
کچھ لوگ تو ایسے ہیں اگر ان سے عہدے یا مرتبے کے لحاظ سے کم درجہ شخص انہیں بھائی کہہ کر بات کرے تو یہ لوگ بے چین و بے قرار بلکہ ناراض ہونے لگتے ہیں برا مناتے ہیں اپنی توہین سمجھتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو اس بیچارے کو جھڑک دیتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ ہمارے مرتبے اور عہدے کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے سے کمتر لوگوں سے فاصلہ رکھیں انہیں منہ نہ لگائیں ورنہ اس عہدے کی بے توقیری ہوجاتی ہے ۔ حالانکہ اس متکبر شخص کو کیا پتہ کہ جس کو یہ حقیر سمجھ رہا ہے وہ خاک نشین اللہ کے ہاں اس سے ہزار گنا زیادہ افضل و پسندیدہ ہو۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
رب اشعث اغبر مدفوع بالابواب لو اقسم علی اللہ لابرہ (مسلم)
بظاہر پراگندہ بال ، غبار آلود دروازوں سے واپس کیاجانے والا (اللہ کے ہاں اتنا پسندیدہ ہوتا ہے) اگر وہ اللہ کی قسم کھالیتا ہے تو اللہ اس کو بری کرتا ہے (یعنی وہ بات پوری کر دیتا ہے جس پراس نے قسم کھائی ہے)
اسی طرح ایک قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ نیک اور صالح لوگوں کا مذاق نہ اڑایا جائے یہ بھی بہت بری حرکت ہے اسی طرح اسلام کے شعائر کا مذاق اڑانا جیسے داڑھی ، پردہ ، نقاب، برقعہ، یاکسی کے کپڑے غربت کی وجہ سے معمولی یا پھٹے ہوئے یا چھوٹے اور تنگ ہیں تو ان کا مذاق خود بھی نہیں اڑا نا چاہیئے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے منع کرنا چاہیئے ۔ یہ بظاہر معمولی باتیں ہیں مگر حقیقت میں بہت اہمیت کی حامل ہیں ہر مسلمان کو ان کا ہر وقت خیال رکھنا چاہیئے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

[7]۔ کینہ اور کھوٹ:
مومنین اور ان کے متبعین کی دعا قرآن مجید میں اس طرح مذکور ہے ۔
وَالَّذِیْنَ جَآئُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَاتَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا۔(الحشر:10)
اور جو لوگ ان کے بعد آئے یہ کہتے ہوئے کہ اے رب بخش دے ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان میں داخل ہوئے اور نہ رکھ ہمارے دلوں میں کینہ ایمان والوں کے لئے ۔
اہل جنت کی عزت و شرافت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُتَقَابِلِیْنَ۔(الحجر:47)
ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے بھائی بن کر تخت پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے ۔
وَ نَزَعْنَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہَارُ۔(اعراف:43)
اور ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔
اس بیماری سے متعلق ہم ایک سبق آموز واقعہ ذکر کرتے ہیں یہ ایک ایسے نوجوان کا حال ہے جس کی تربیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ۔اس لئے اس کا ہر عمل ہر حرکت اخروی فائدے کے لئے تھا ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس گھاٹی میں سے ایک جنتی آدمی نمودار ہوگا۔انس کہتے ہیں ایک انصاری آدمی نمودار ہوا اس کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا اس نے اپنی چپل بائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اگلے دن پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا اور پھر وہی شخص کل والی حالت میں نظر آیا تیسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات کی اور پھروہی شخص اسی حالت میں نظر آیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نشست برخاست کرکے تشریف لے جاچکے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ یہ کہہ کر اس آدمی کے پیچھے چل پڑے کہ میں نے اپنے باپ سے اس بات پر جھگڑا کیااور قسم کھائی کہ تین دن تک ان کے پاس(گھر)نہ آؤں گا (اور پھر)اس آدمی سے کہا کہ اگر تم مجھے اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دو تو رہ لوں؟اس آدمی نے اجازت دے دی۔ عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے اس آدمی کے ہاں تین راتیں گذاریں مگر صرف یہی دیکھا کہ جب بھی جاگتا ہے یا کروٹ بدلتا ہے تو اللہ کا ذکر کرتا ہے یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے اور وہ فجر کی نماز کے لئے کھڑا ہوجاتا۔عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی زبان سے جب بھی کچھ سنا خیر ہی سنا ۔جب تین راتیں گذر گئیں اور میرے دل میں یہ خیال آیا ہی چاہتا تھاکہ اس کا عمل تو انتہائی معمولی ہے کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ میں تو اپنے باپ کو اس بات پر لڑ جھگڑ کر آمادہ کیاتھا کہ میں ایک شخص کے ہاں جارہا ہوں تاکہ یہ دیکھ سکوں کہ اسکا وہ کون سا عمل ہے جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جنتی قرار دیا ہے ۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اس آدمی کے سامنے اس کا ذکر کر دیا کہ میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کی بات سن کر آیا تھا کہ وہ عمل میں بھی اختیار کروں جو آپ کرتے ہیں مگر میں نے تو کوئی ایسا اہم عمل نہیں دیکھا جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لئے اتنی بڑی بات کہہ دی ہے؟اس آدمی نے کہا کہ عمل تو یہی ہے جو تم نے دیکھا جب میں وہاں سے روانہ ہواتو اس نے مجھے آواز دی اور کہا کہ عمل تو یہی ہے جو تم نے دیکھا البتہ یہ بات ہے کہ میں کسی مسلمان کے لئے اپنے دل میں کینہ یا حسد نہیں رکھتا کہ اس کو اللہ نے اتنا کیوں دیا ہے عبداللہ نے کہا یہی وہ خوبی ہے جس نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا ہے اور یہ ایسی خوبی ہے کہ ہر شخص اسکی استطاعت نہیں ر کھتا۔(احمد، نسائی ، مسند احمد، ابن کثیر نے اس کی سند کو صحیح کہاہے1)
اس طرح دل میں مسلمانوں کی محبت درگذر کا جذبہ اور صبر کا مادہ ہونا چاہیئے ہمیں صحیح مسلم کی روایت کردہ اس حدیث پر بھی غور کرنا چاہیئے جس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں ۔

تفتح ابواب الجنۃ یوم الاثنین و یوم الخمیس فیغفر لکل عبد لا
1۔ مصنف نے اس واقع کو نسائی اور مسند احمد کے حوالے سے بیان کرکے ابن کثیر کی رائے اس کی صحت پر نقل کی ہے مگر یہ روایت صحیح نہیں ہے مسند احمد کی روایت میں ابن لھیعہ ہے جوکہ ضعیف راوی ہے اور نسائی کے حوالے سے اسکی سند بظاہر صحیح لگتی ہے مگر زہری نے انس سے نہیں سنا بلکہ درمیان میں واسطہ تھا جو کہ حذف ہے اسلئے منقطع روایت ہے مزید تفصیل کے لئے تبصرۃ اولی الاحلام جزء ثالث ملاحظہ فرمائیں ۔مترجم)
یشرک باللہ شیئاً الا رجل کان بینہ و بین اخیہ شحناء فیقال انظروا ھذین حتی یصطلحا انظروا ھذین حتی یصطلحا
جنت کے دروازے ہر پیر اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں اور ہر شخص کو بخش دیاجاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی قسم کا شریک نہیں ٹھہراتا سوائے ان دو افراد کے جن کے درمیان بغض و کینہ و عداوت ہو ان کے بارے میں اللہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ان کا معاملہ مؤخر کرو جب تک کہ یہ آپس میں صلح نہ کرلیں ۔
اطباء کہتے ہیں کہ کینہ انسان کی دنیا بھی خراب کر دیتا ہے اس لئے کہ انسانی صحت پر کینہ و بغض کا بہت برا اثر پڑتا ہے یہ اس عمل کی دنیاوی سزا ہے جبکہ اخروی عذاب اس سے کہیں سخت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

[8]۔مایوسی:
یہ اس وقت پیداہوتی ہے جب مصیبتیں مسلسل آتی رہیں اور اللہ کی مدد آنے میں تاخیر ہوجائے ایسے میں انسان اللہ کے وعدے کا انتظار کرتے کرتے مایوسی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور پھر بعض انسان عمل او ردعوت دونوں کو چھوڑ دیتے ہیں مایوسی کی بناپر اس طرح کرنا اگرچہ قابل مذمت عمل ہے مگر اس سے بھی زیادہ قبیح یہ خیال اورعقیدہ ہے کہ انسان کا اللہ کے وعدے اور دنیا و آخرت کے عذاب پر سے ہی یقین اٹھ جائے۔ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ کچھ لوگ راہِ راست سے بھٹک گئے ہیں اس وجہ سے کہ ان کی مصیبتیں بڑھ گئیں تھیں دوسری طرف وہ دیکھتے ہیں کہ اللہ کے دشمن کفار دن بدن مستحکم و مضبوط اور طاقت ور ہوتے جارہے ہیں سیاسی واقتصادی، اختیارات سب ان کے پاس ہیں اور اب اسلام کے استحکام کی کوئی امید نہیں ہے یہ مایوسی انہیں راہِ حق سے بھٹکا دیتی ہے ۔ اس طرح کے ایک شخص کے بارے میں میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ بہت ہی نیک آدمی تھا اللہ کے دین کی خدمت کرنے والا دین کی طرف دعوت دینے والا مگر اچانک اس نے یہ سب کچھ چھوڑ دیا اس کے دوستوں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کیافائدہ ؟ساری طاقت تو امریکہ کے پاس ہے ہم جو کچھ کر رہے ہیں ہر کام کی خبر امریکہ کو ہورہی ہے اس کے علم میں لائے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے اس کے ذرائع مواصلات اسکی طاقت پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے چکی ہے لہذا ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا لہٰذا بے فائدہ کام کیوں کئے جائیں ؟یہ ہے مایوسی مگر اس بے چارے کو شاید اللہ کایہ فرمان یاد نہیں رہا کہ
اِنَّ اﷲَ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (یوسف:21)۔

اللہ اپنے معاملات پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
مایوس ہونے کے بجائے ہمیں جناب موسیٰ علیہ السلام کا قصہ زندگی کے ہر مرحلے پر یاد رکھنا چاہیئے ان کی دعوت ان کی زندگی کی مشکلات و آزمائشیں ظالم دشمنوں کی کثرت اور قوت اور ان سب کے باوجود ان کا مسلسل دعوت کا کام کرتے جانا اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تفصیل مختلف آیات اور سورتوں میں بیان کی ہے ۔
فَالْتَقَطَہٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّ حُزْنَا اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ ھَامَانَ وَ جُنُوْدَھُمَا کَانُوْا خَاطِئِیْنَ (القصص:8)

پھر اٹھا لیا اس کو فرعون کے گھر والوں نے کہ ہو ان کا دشمن اور ان کو غم میں ڈالنے والا ۔فرعون ، ھامان اور اس کا لشکر سب غلطی پر تھے۔
فَرَدَدْنَاہُ اِلٰٓی اُمِّہٰ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُہَا وَلَا تَحْزَنْ وَلِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اﷲِ حَقٌّ وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (القصص:13)
پھر ہم نے پہنچا دیا اسے اس کی ماں کے پاس تاکہ ٹھنڈی رہے اسکی آنکھ اور وہ غمگین نہ ہواور جان لے کہ اللہ کا وعدہ ٹھیک ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
وَ جَآئَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ یَسْعٰی قَالَ یَا مُوْسٰی اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِکَ لِیَقْتُلُوْکَ فَاخْرُجْ اِنِّیْ لَکَ مِنَ النَّاصِحِیْنَ ۔(القصص:20)
اور شہر کے پرلے سرے سے ایک آدمی دوڑتاہوا آیا اور کہا اے موسیٰ دربار والے تیرے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ تجھے قتل کر دیں نکل جاؤ میں تیرا بھلا چاہنے والا ہوں۔
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کے کچھ ساتھیوں نے کہا کہ :
اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ ۔(الشعراء:61)

ہم تو پکڑے گئے۔
تو موسیٰ علیہ السلام نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔
کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ (الشعراء:62)

ہر گز نہیں ،میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھ کو راہ دکھائے گا۔
اس طرح انبیاء کرام کے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے اور ظالموں اور سرکشوں کو ان کے انجام تک پہنچاتا ہے تاکہ اللہ کے دین کی دعوت جاری رہے اور اسے استحکام حاصل ہو۔
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَہُمْ اَئِمَۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِیْنَ (القصص:5)

اور ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان پر جو کمزور ہوئے پڑے تھے ملک میں اور ان کو سردار بنادیں اور کر دیں انکو قائم مقام۔
یہاں میں ایک ایسے آدمی کا واقعہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس کی سوچ اعلی اور خیالات بہت پاکیزہ تھے اس کے بارے میں ہمارے بزرگوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک شہر کا دشمنوں نے محاصرہ کر لیا اور شہر کے لوگ دشمنوں کے خطرناک جہازوں کی باتیں کر رہے تھے ان سے خوفزدہ تھے حالانکہ ابھی انہوں نے جہاز دیکھے نہ تھے صرف ان کے بارے میں سنا تھا ۔یہ شخص دیہات سے آیا تھا اس نے لوگوں سے جہازوں کے بارے میں پوچھا کہ جہاز کیا ہوتا ہے؟لوگوں نے بتایا کہ وہ اوپر سے آتے ہیں بم اور گولیاں برساتے ہیں اس آدمی نے پوچھا کہ یہ جہاز اوپر ہیں یا اللہ ان سے اوپر ہے لوگوں نے کہا اللہ اوپر ہے اس نے کہا تو پھر فکر کی کیا بات ہے ؟یہ تھا ، سادہ طبیعت مگر پختہ عقیدے کا مالک۔
ہمیں چاہیئے کہ اس مرض(مایوسی) کی طرف توجہ دیں اسے دور کرنے کی کوشش کریں اللہ کا یہ فرمان سمجھیں:
اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیٗ وَرِضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(المائدہ:3)

آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں تم ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈر جاؤ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین چن لیا ہے۔
اسی طرح ہمیں اللہ کے اس قول پر بھی غور کرنا چاہیئے :
وَلَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَوْحِ اﷲِ اِنَّہٗ لَایَایْئَسُ مِنْ رَوْحِ اﷲِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ (یوسف:87)
اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔ اللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

9۔خواہشات اور غیر اللہ کی محبت:
یہ بھی بہت بڑی مصیبتوں اور دل کی خطرناک بیماریوں میں سے ایک مہلک بیماری ہے ۔ دل کے لئے یہ زہر کاکام کرتی ہے دل کے لئے سب سے زیادہ مہلک زہر یہ ہے کہ جب اس میں غیر اللہ کی محبت سماجائے اور غیر اللہ سے دوستی و محبت دنیاوی فائدے کے لئے ہو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہو تو یہ ایسی بیماری ہے جو انسان کو ہلاکت و بربادی کی طرف لے جاتی ہے ہماری اس بات کی صداقت مندرجہ ذیل آیات سے ثابت ہوجائے گی ۔
اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَھْوَی الْاَنْفُسُ وَلَقَدْ جَآئَ ھُمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ الْھُدٰی (النجم:23)۔
یہ صرف خیالات کے پیچھے چلتے ہیں اور جو ان کے دلوں کی خواہش ہے حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔
کَالَّذِی اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ (انعام:71)
اس شخص کی طرح کہ اس کا راستہ بھلا دیا ہو جنوں نے جنگل میں وہ حیران ہے ۔
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اﷲِ ۔(القصص:50)
اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اپنی خواہش پر بغیر اللہ کی ہدایت کے چلے۔
اَفَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ھَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اﷲُ عَلٰی عِلْمٍ۔(الجاثیہ:23)
بھلا دیکھ اس کو جس نے اپنی خواہش کو حاکم بنالیا ہے جانتا بوجھتا اللہ نے اسے راہ سے بھٹکا دیا ہے۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَاتَّبَعُوْا اَھْوَائَہُمْ (محمد:16)
یہ وہ لوگ ہیں جنکے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور انہوں نے خواہشات کی پیروی کی ہے
وَ اِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِہِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ (انعام:119)
اور بہت لوگ اپنی خواہشات و خیالات کی بناپر بھٹکاتے ہیں بغیر تحقیق کے ۔
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اسکی محبت ، نفرت، دینا اور روکنا ، کرنا، رک جانا سب اللہ کی خاطر ہو ان اعمال میں کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کرے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل پیرا رہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
من احب ﷲ وابغض ﷲ و اعطی ﷲ و منع ﷲ فقد استکمل الایمان (مسند احمد)
جو اللہ کے خاطر محبت کرے اللہ ہی کی خاطر نفرت اللہ ہی کے لئے دیتا ہے اس کی خاطر دینے سے رک جاتا ہے تو ایسے آدمی کا ایمان مکمل ہے ۔
سب سے بدترین محبت وہ ہے جو اللہ کے دشمنوں سے کی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
[10]۔غیر اللہ سے ڈرنا:
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ ۔(المائدہ:44)
لوگوں سے مت ڈرو مجھ (اللہ )سے ڈرو۔
دوسری جگہ فرمان ہے :
فَاﷲُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ ۔(التوبہ:13)
اللہ زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو۔
جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ کہتے ہیں :
یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ (المائدۃ:52)
ہم ڈرتے ہیں کہ ہم پر گردشِ زمانہ نہ آجائے۔
جن لوگوں کے دلوں میں ایمان ہے ان کی صفت اللہ نے اس طرح بیان کی ہے :
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ۔(آل عمران:173)
وہ لوگ جب انہیں لوگوں نے کہا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہوچکے ہیں ان سے ڈر جاؤ تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور کہتے ہیں ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے وہ بہترین کارساز ہے۔
خوف سے مراد اعتقادی خوف ہے فطری نہیں جیسا کہ انسان اپنے دشمن سے ڈرتا ہے یا کسی جانور سے اس کو فطری خوف کہتے ہیں یہ قابل مذمت یا گناہ میں شمار نہیں ہوتا ۔البتہ خوف اعتقادی صرف اللہ سے ہونا چاہیئے اعتقادی خوف کا نہ ہونا دل کی قوت اور ہمت اور ایمان کی دلیل ہے ۔جیسا کہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ صحیح القلب شخص اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا ہے ۔
 
Top