• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دل کے امراض

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

11۔وسوسہ:
یہ عام بیماری ہے اور بہت زیادہ ہے اس بیماری نے اکثر لوگوں کے اعمال کو تماشہ بنارکھا ہے ان کے فرائض و عبادات کو ضائع کر دیتا ہے شیخ سعدی رحمہ اللہ نے اس شخص کو جواب میں کہا تھا جس نے آپ سے وسوسے کا علاج دریافت کیاتھا کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں سوائے اس کے کہ اللہ سے دعا کی جائے اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگی جائے اور وسوسوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کی جاتی رہے، وسوسوں کو اہمیت نہ دی جائے انہیں اپنے ذہن پر سوار نہ کیاجائے جب کسی کے ذہن پر وسوسہ سوار ہوجاتا ہے تو پھر مزید مضبوط و مستحکم ہوتا جاتا ہے اور اگر دل و دماغ کو مضبوط کرکے وسوسوں پر حاوی کر لیا جائے تو پھر یہ رفتہ رفتہ مضمحل و کمزور ہوتے جاتے ہیں ۔اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم وسوسوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے رہیں :
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِکِ النَّاسِ اِلٰہِ النَّاسِ مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ (الناس:1-6)
کہہ دے کہ میں پناہ میں آتا ہوں لوگوں کے رب کی ، مالک کی، معبود کی ، اس کے شر سے جو پھسلائے اور چھپ جائے جو لوگوں کے دل میں وسوسے ڈالے لوگوں اور جنوں میں سے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

[12]۔دل کی سختی:
یہ دل کی ایسی بیماری ہے کہ جس سے مزید بیماریاں جنم لیتی ہیں ان بیماریوں سے صرف وہی شخص محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ محفوظ رکھے۔آیات ذیل سے اس بیماری کی ہولناکی واضح ہے
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃ (البقرہ:74)
پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس کے بعد وہ پتھروں کیطرح ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت ہیں
وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطَانُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (انعام :43)
لیکن ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال خوشنما کرکے انہیں دکھائے ۔
فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِکْرِ اﷲِ (الزمر:22)
ہلاکت ہے ان دلوں کو جو اللہ کے ذکر سے سخت ہیں (یعنی اللہ کے ذکر کے باوجود سخت ہیں)
فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ (الحدید:16)
ان پر مدت لمبی ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے ۔ سخت دل لوگ اللہ سے بہت دور ہوتے ہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

13۔ناحق کا ساتھ دینا:
یہ بھی خطرناک مر ض ہے یہ ایسی مہلک بیماری ہے جو افراد اور اقوام دونوں کو یکساں نقصان پہنچاتی ہے بلکہ تباہ کر دیتی ہے۔ اسکی دو قسمیں ہیں ۔
1۔ملکی اغراض کے لئے پارٹی بنانا۔ جیسے قومیت، وطنیت، علاقائیت جیسے گمراہ کن اغراض یہ چیزیں آج کل بہت عام ہیں ہم اکثر ایک اصطلاح سنتے ہیں ’’ملکی یکجہتی‘‘ اس کا مطلب ہے وطن کی بنیاد پر باہمی محبت و مؤدت اس جذبے کے تحت آپ کو ہر اس شخص سے محبت رکھنی ہوگی جو آپ کے ملک کا باشندہ ہے چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ۔نیک ہو یا بد ۔محبت کی بنیاد صرف یہ ہے کہ وہ آپ کا ملکی باشندہ ہے۔ جبکہ ا س طرح کی محبت اس مسلمان کے ساتھ نہیں ہوگی جو آپ کے ملک کا رہنے والا نہیں ہے اگرچہ وہ بہت ہی نیک اور متقی کیوں نہ ہو۔ اس طرح کی محبت و عداوت صرف ملک کی بنیاد پر ہوتی ہے اس طرح کے خیالات رکھنے والوں میں سے کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ ہر قسم کی محبت جائے تو جائے مگر ملکی محبت نہ جائے یعنی محبت صرف وہ ہے جو وطن کی مٹی کی بنیاد پر ہو ایسے لوگوں پر افسوس ہی کیاجاسکتا ہے اس لئے کہ مسلمان کے خیالات تو یہ ہونے چاہئیں کہ محبت صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ان دونوں کی محبت پر تمام محبتیں قربان ہیں اگر کوئی مسلمان اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کسی اور کی محبت کو شامل کرتا ہے تو یہ نئے قسم کا شرک ہوگا۔ایسے لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ ہم قرآن میں جب
تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّ تَبَّ (لھب:1)
ابو لہب کی طاقت برباد ہوجائے اور وہ خود بھی ہلاک ہو۔
پڑھتے ہیں تو ابو لہب کے بارے میں یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا لگتا تھا مگر ہم اس سے نفرت کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس سے نفرت کی اگرچہ وہ رشتہ دار کے علاوہ ملکی بھی تھا اور بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے ہم بھی محبت کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی محبت کرتے تھے اسی طرح سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ، صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے ہم محبت کرتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ قیامت کے دن ہمارا حشر ان کے ساتھ کر دے ہماری ان باتوں سے یہ نہ سمجھنا چاہئیے کہ ہمیں وطن سے محبت نہیں ہے نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے وطن کی محبت تو ایک فطری جذبہ ہے جو انسان کے دل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہوتا ہے مگر ہونا یہ چاہیئے کہ وطن کی محبت اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ماتحت ہو اس سے کم تر ہو ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت نہ تھی ؟مگر اللہ کی رضا اور اس کے دین کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کرلی اس طرح دیگر مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اپنا محبوب وطن صرف اور صرف اللہ کے دین کی خاطر چھوڑا لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ وطن سے محبت رکھے مگر جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور وطن کی محبت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا مرحلہ آئے تو ایسے میں وطن کی محبت دین کی محبت پر قربان کر دے یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی سیرت ہے۔

2۔مسلمانوں کا ایک دوسرے کے مقابلے پر پارٹیاں بنانا:
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دین کی دعوت و تبلیغ کرکے دعویداروں نے بھی ایک دوسرے کے مقابل تنظیمیں اور پارٹیاں بنارکھی ہیں ان کے دیکھا دیکھی تعلیمی اداروں میں طلبہ نے بھی تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں اور اکثر باہم دست و گریباں رہتی ہیں پارٹی اور تنظیم کے افراد دوسرے لوگوں کی بنسبت آپس میں زیادہ محبت و تعلق رکھتے ہیں اگرچہ دوسرے لوگ ان سے یادہ باکردار ، متقی اور صالح ہوں مگر چونکہ وہ اپنی پارٹی یا تنظیم میں شامل نہیں اس لئے ان سے اتنی محبت نہیںرکھتے یہ بہت بڑی غلطی ہے جس کا ارتکاب مسلمان کر رہے ہیں کہ ایک شخص صرف اس بنیاد پر کسی سے محبت رکھے کہ وہ اس کے لیڈر، امام ، عالم کا متبع ہے اور دوسرے سے اس لئے نفرت کرے کہ وہ کسی اور لیڈر یا امام یا عالم کا متبع ہے ۔ مسلمانوں کی ذمہ داری اور فریضہ یہ ہے کہ وہ آپس کی محبت کا معیار ایمان کو بنائیں اور نفرت کی بنیاد کفر کو قرار دیں ناحق پارٹی بازی اور تنظیم سازی سے اجتناب کریں اس لئے کہ اس سے امت میں تشت و افتراق پیدا ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ :
وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَائَ ھُمُ الْبَیِّنَاتُ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (آل عمران:1-5)
ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جو تفرقہ میں پڑ گئے اور آپس میں اختلاف کیا واضح دلائل آنے کے بعد ان لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے ۔
پارٹیاں بنانے اور بھلائی کے کاموں میں مقابلہ کرنے میں فرق ہے ۔آپس میں مقابلہ اس بات کا ہونا چاہیئے کہ کون زیادہ بہتر کام کرے گا یہ مقابلہ پسندیدہ عمل ہے اس کا حکم تو اللہ نے بھی دیا ہے ۔
وَ سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ (آل عمران:133)
(مقابلہ کرو)دوڑے چلواپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف۔
سَابِقُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ (الحدید:21)
(مقابلہ کرو) دوڑو اپنے رب کی طرف سے معافی اور جنت کی طرف۔
اس طرح کا مقابلہ و مسابقت تو قابل تعریف ہے مگر ایک ہی امت میں پارٹیاں بنا کر امت واحدہ کو انتشار و افتراق کاشکار کرنا قابل مذمت ہے ان پارٹیوں اور تنظیموں سے خود کو محفوظ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خود کو اللہ کے لئے وقف کر دے اس کے ساتھ اپنا تعلق جوڑے محبت کا معیار اللہ کی محبت و اطاعت اور کسی سے نفرت اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے کرے اور اپنی ذاتی خواہشات و گروہی مفادات سے کنارہ کش ہوجائے۔ لوگوں کو پرکھنے کا معیار حق ہو نہ کہ حق کو پہچاننے کامعیار لوگوں کے اقوال ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیئے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان الشیطان قد أیس أن یعبدہ المصلون فی جزیرۃ العرب ولکن فی التحریش بینہم
شیطان جزیرہ عرب میں اپنی عبادت کئے جانے سے مایوس ہوچکا ہے البتہ انکو ایک دوسرے کے خلاف اکساتا رہے گا۔
اگر کوئی سوال کرنے والا سوال کرے کہ آخر اس مرض کا علاج کیاہے؟
آپ نے مرض کی نشاندہی توکردی مگر علاج نہیں بتایا؟ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ان امراض سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے ان سے کس طرح نجات حاصل کی جاسکتی ہے؟
ان سوالوں کے جواب میں اتنا عرض کرتا ہوں کہ میں ان امراض کا مکمل علاج کا دعویٰ تو نہیں کر سکتا البتہ کچھ ذرائع ایسے ضرور بتا سکتا ہوں جو علاج میں ممدو معاون ہوں گے (ان شاء اللہ) مختصراً ذکر کرتا ہوں۔


امتحان القلوب
 
Top