• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دم ،تعويذاور ستاروں كے اثرات كي شرعي حيثيت

ناظم شهزاد٢٠١٢

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 07، 2012
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
1,533
پوائنٹ
120
تعويذ كي شرعي حيثيت

تعويذ عربي زبان كالفظ هے ۔جس كا لفظي مطلب ’’پناه طلب كرنا‘‘هے۔همارے معاشرے ميں اس سے مراد كاغذپر چند اعداديا اسماء وغيره كو لكھ كر گلے ميں لٹكانا هے۔جس سے يه تاثر ليا جاتا هے كه يه كاغذكا ٹكرا انسان كو مصائب اور تكاليف سے نجات ديتا هے۔اسے غموں سے نجات دلانے اور كاروبار ميں وسعت كے ليے يه كارآمد نسخه سمجھا جاتاهے۔ذيل ميں قرآن اور صحيح آحاديث كي روشني ميں اس بات كي وضاحت پيش كرنا چاهتے هيں تاكه اس مسئلے كے بارے لوگوں ميں شكوك وشبهات كو تاريخي اور اسلامي تناظر ميں پيش كر كے اس كا حل تلاش كيا جائے۔
دم اور تعويذ ميں فرق:
تعويذ سے مراد هر وه چيز هے جس كے ذريعے پناه طلب كي جاتي هے ۔جيسا كه اس كے معني سے عياں هے۔تعويذ لكھ كر بھي هوسكتا هے،بول اور پڑھ كر بھي۔جو تعويذ بول كركيا جائےاسے دم،جھاڑ پھونك،رقيه يا منتر كها جاتاهے۔ليكن عموماً تعويذ سے مراد كوئي مادي (لٹكانے ،پينے يا باندھنے والي )چيز هي لي جاتي هے۔اكثر احاديث ميں چونكه دم اور تعويذ كا اكٹھے ذكر آيا هے اس ليے ان كے فرق كو سمجھنا ضروري هے۔دوسرے لفظوں ميں آپ يوں سمجھ سكتے هيں كه دم كي مثال دعا كي سي هے۔(جيسا كه آگے مذكور هے۔)جبكه تعويذ ايك مادي عمل هے۔
همارے معاشرے چند ايسے كام جن كے ليے تعويذ كيے جاتے هيں۔
• بيماري سے نجات كے ليے(جس ميں سردرد سے لے كر كينسر كي بيماري تك شامل هے)
• نافرمان اولاد كے ليے
• كاروبار كي بندش ختم كرنے كے ليے
• پڑھائي ميں كاميابي كے ليے
• اس كے علاوه هر مشكل ،تكليف،پريشاني اور مصيبت سے نجات كے ليے۔
آئيے اس مسئلے كي شرعي حيثيت كا تعين كرتے هيں۔
كسي بھي مسئلے كي تحقيق كے ليے هم اس پر هر دو طرح سے سوچ كر اس كي حقيقت تك پررسائي حاصل كر سكتے هيں۔
1. نقلي طريقه(قرآن وحديث سے دلائل اكٹھے كرنا)
2. عقلي طريقه (مسئلے كو عقلي وسائنسي معيار پر پركھنا)
اگر كسي موضوع كے بارے قرآن وسنت سے واضح اور واشگاف دلائل ميسر آجائيں تو اس بارے بلا ترددوحيل وحجت اس كے مستحسن اور مسنون هونے كے بارے ميں گواهي دي جاسكتي هے۔ اور اس كو بلا چوں چراں تسليم كرلينا ايك كامل مسلم كا طريقه اور فرضِ عين هے وه اس كے سامنے نه اپني مرضي اور خواهش كو پيش كر سكتا هے اور نه هي عقل كو(بلكه قرآن وسنت كا كوئي مسئله عقل كے خلاف هے هي نهيں يه الگ بات هے كه وه مسئله هماري عقل ميں نه آتا هو ،عقل كے خلاف نهيں هو سكتا كيونكه اسلام دينِ فطرت اور عقل سليم سے مطابقت ركھتاهے۔)
ابتدائے آفرينش:

انسانيت كا جوسلسله حضرت آدم عليه السلام سے شروع هوا تو اس كے ساتھ هي الله رب العزت نے انسان كي هدايت كے ليے ازخود انبياء ورسل اور كتب وصحائف كا نزول فرما كر انسان كو گمراه هونے سے بچانے كا پورا پورا بندوبست فرمايا۔مگر چونكه مرورِ ايام سے هر چيز تغير وتبدل كا شكار هو جاتي هے اسي طرح هر قوم كے امراء وروساء اور مذهبي پيشواوں نے ذاتي مفاد اور حرص وحوس كي خاطر وحي الٰهي ميں تبدل تحرف كر كے دين كو مذهب ميں بدل كراس كو جامد وساكن بنا ديا ۔اسي كي تجديد وتنظيف كے خاطر ايك نبي كے بعد دوسرا نبي آتا اور بعض اوقات اپنے ساتھ كتاب يا صحف بھي لےكر آتا ،تاآنكه پيارے پيغمبر حضرت محمد رسول الله صلي الله عليه وسلم كي بعثت مبارك هوئي۔
انسان گمراه كيسے هوا:
دنيا كے پهلے انسان حضرت آدم عليه السلام كے بعد جب انسان شيطان كے بهكاوے ميں آكر آهسته آهسته توحيد كا درس بھولنے لگا تو ايك خدا سے ڈرنے كي بجائے اس نے هر اس چيز سے ڈرنا شروع كر دياجس كے مقابلے ميں وه بے بس،كمزور،ناتواں اور نهتا هوتا۔هر طرف فلك بوس پهاڑ،بھيانك چٹانيں،آتشيں زلزلے،لرزه خيز گرج وچمك،عظيم الجثه حيوانات، خونخوار درندے، دهشت انگيز تلاطم ،بحرِ بے كراں،مهيب جنگلات ،دهكتا هوا سورج،رات كو روشن چاند، ستاروں كي چمك، هاتھي كا چنگاڑنا، شير كا دھاڑنا، يه تمام قوئے فطرت گزرتے وقت كے ساتھ نه صرف انسان كي مرعوبيت كا ممبه ثابت هوئے بلكه انسان كي عبادت كے مراكزبھي بن گے۔ اور انسان كي كيفيت يه هوگي كه علي الصبح جب مشرق سے سورج طلوع هوا تو اس كے سامنے سجده ريز هوگيا، بجلي كي چمك اور رعد كي كڑك روح فرسا هوئي تو اس كے سامنے سر نگوں هوا، شير كي دل دوذ آواز سني تو اسے ديوتا بنا ليا، آگ كو جلتے ديكھاتو اسے ’’اگني ديوي‘‘ كا نام دے كرپوجنا شروع كر ديا،حتيٰ كه اسے اپنے جيسے هي ظالم وجابر انسان(بادشاه)سے سامنے بھي سجده ريز هونے ميں بھي عار محسوس نه هوئي۔جس كي واضح مثال فرعون اور نمرود هيں ۔
اس كے علاوه وه بزرگ بھي اس كے معبودو مسجود كهلائے جن كو يه اپنے سے زياده نيك پرهيز گار اور متقي سمجھتا تھا ۔پهلے پهل انسان نے ان بزرگوں كے وسيلے سے اور بعد ميں ان هي سے سب كچھ مانگنا شروع كر ديا اور ان كي عبادت ورياضيت ميں اتنا متشدد هوگيا كه پيغمبر وقت كے سامنے كھلے لفظوں اپنے ان معبودوں كو نه چھوڑنے كا عزم ظاهر كيا۔ تكليف ،پريشاني اورمصيبت ميں انسان اپنے خالقِ حقيقي كو بھول كر انهي معبودانِ باطل كي طرف رجوع كرنے لگا اور ان سے پناه اور امان كا متمني بنا۔
انسان پناه كيوں طلب كرتا هے؟
جب انسان زندگي كے كسي موڑ پر اپنے آپ كو كمزور سمجھتا هے تو وه اپنے سے بڑي طاقت كي طرف رجوع كرتا هے ، جس كي پناه ميں آكر وه خود كو محفوظ مامون خيال تصور كرتا هے۔خدا كا تصور تو اس ميں موجود تھا ليكن اپنے عهدِ طفوليت كي وجه سے اپنے آپ كو اتنا كمزور سمجھتا تھا كه خدا تك پهنچنے كے ليے واسطے،وسيلے اور ذريعے ڈھونڈنے لگا اور بعد ميں يه واسطے هي اس كے معبود بن كر ره گئے ۔هر لمحه اس كي زبان پر انهي كا نام اور ترانه هوتا۔تكليف اورمشكل وقت ميں انسان انهي كو پكارتا اور پناه طلب كرتا۔ يهي پناه جب وه زبان سے طلب كرتا هے تو اسے زمانه جاهليت ميں منتر كها جاتا تھا اور جب لكھ كر كسي ذات سے پناه طلب كرتا تو تعويذ كهلاتا۔اسلام ميں زبان سے پناه طلب كرنا دم كهلاتا هے جبكه لكھ كر پناه طلب كرنے(يعني تعويذ لكھنے،لٹكانےاور باندھنے) كا ثبوت قرآن وسنت سے نهيں ملتا۔
توهم پرستي اور تعويذ كا تعلق:

تعويذ كي شرعي حيثيت سمجھنے سے پهلے توهم پرستي(ضعيف الاعتقادي) كے بارے ميں علم ضروري هے۔
بجز معجزے كے علت ومعلول كے درميان جب كوئي مادي واسطه نه هو تو ايسي صورت توهم پرستي كهلاتي هے۔
مثلاًكسي عدد كو اپنے ليے منحوس سمجھنا (جبكه عدد اور نحوست كا آپس ميں كوئي واسطه نهيں)،منگل كے دن سفر كا آغاز نه كرنا(جبكه سفر اور منگل كے دن كا آپ ميں كوئي تعلق نهيں)، مختلف موتيوں اور نگينوں كو انساني معاملات ميں موثر سمجھناوغيره۔ان مثالوں ميں عدد كا نحوست كے ساتھ،منگل كا سفر كے ساتھ،موتيوں اور نگينوں كا انسان زندگي كے ساتھ كوئي تعلق،واسطه اور رشته نهيں لهذا ان كے خواص واثرات كو ماننا توهم پرستي كهلائےگا۔اسلام ميں توهم پرستي حرام،ناجائز اور شرك هے۔بطورِ دليل صحيح مسلم شريف كي ايك حديث كا مفهوم ملاخطه فرمائيں۔
ستارے كيا كهتے هيں؟
حضرت زيد بن خالد جهني رضي الله عنه بيان فرماتے هيں كه رسول الله ﷺ نے حديبيه ميں صبح كي نماز ادا كي اس رات بارش هوئي تھي آپﷺ نے پوچھا كيا تم جانتے هو تمهارا رب كيا كهتا هے؟صحابه نے عرض كي اے الله كے رسولﷺ ! الله اور اس كا رسول هي بهتر جانتے هيں۔آپ نے فرمايا تمهارا رب كهتا هے ۔آج صبح كئي بندے مومن اور كئي كافر هوگے۔صحابه نے حيراني سے اس كا مفهوم دريافت فرماياتو آپ ﷺنے فرمايا جس شخص نے يه كها كه يه بارش فلاں ستارےكے اثرات كي وجه سے هوئي وه كافرهوا اور جس نے يه كها كه بارش الله كے فضل ،كرم اور اذن سے هوئي وه مومن هو گيا۔
كيا ستاروں كا انساني زندگي پر كوئي اثر هوتا هے؟
چونكه ستاروں كے اثرات كو انساني زندگي اور نظام فطرت ميں مدخل سمجھنا توهم پرستي هے لهذا آپ ﷺ نے اس كو كفر قرار ديا۔كيونكه ستارے كا بارش كے ساتھ كوئي تعلق نهيں هے۔(بارش كيسے هوتي هے اس بارے سائنس كي كوئي بنيادي كتاب يا قرآن مجيد كے درج ذيل مقامات كو ديكھ ليا جائے۔)
شريعت نے جو ستاروں كو انساني زندگي پر موثر ماننےكي ممانعت كي هےاس كا يه مطلب نهيں كه ستارے انساني زندگي كومتاثرتو كرتے هيں ليكن اس چيز پر يقين نهيں ركھنا چاهيے۔بلكه اسلام نے اس عقيده كي نفي فرمائي هي اس ليے كه ان كا اثر سرے سے هوتا هي نهيں هے۔يه جهالت(سابقه اقوام يونانيوں اور نمرديوں)سے چلتي هوئي عرب اور مختلف ممالك ميں پھيلتي گئي۔اور Chanceنے اس عقيدے كو اور مضبوط كر ديا ۔يعني جب كبھي اتفاق سے ايسا هوجاتا تو ستاره پرستي كا يه عقيده اپني جڑ مضبوط كر ليتا اور جب ايسا نه هوتا تو اپنے كسي عمل كو اس راه ميں ركاوٹ خيال كر ليا جاتا۔اقبال نے اسي ليے كها تھا۔
ستاره ميري تقدي كي كيا خبر دے گا
وه خود فراخي افلاك ميں هے خوار زبوں

بالكل جيسے ستارے نظامِ كائنات ميں كسي چيز پر اثرات مسلط نهيں كر سكتے اسي طرح كوئي بھي ايسي چيز انساني زندگي پر موثر نهيں هو سكتي جب تك شريعت اس بارے رهنمائي فراهم نه كردے يا پھر عقل ودانش اس كي تصديق نه كردے۔
یورپ اور ایشیا میں یہ خیال رائج تھا کہ ہفتے کے ہر دن پر ایک ستارے کی حکمرانی ہوتی ہے اور اسی مناسبت سے بعض ایام کو منحوس اور بعض کو متبرک سمجھا جاتا تھا۔اور دنوں كے ناموں كو بھي ستاروں كے ناموں سے منسلك كيا جاتا۔توجه فرمائيے:
SUNDAY (سورج کادن)
MONDAY چاند کا دن(MOONکا مخفف)
TUESDAY (مریخ کا دن)(TUESفرانسیسی زبان میں مریخ کو کہتے ہیں۔)
WEDNESDAY (عطارد کا دن)(فرانسیسی میں بدھ وار کوMERCURAYDAYکہا جاتاہے)
THERSDAY (مشتری کا دن)
FRIDAY (زہرہ کا دن)
(قدیم لغت میں THURSمشتری کواور FRIزہرہ کو کہا جاتاہے)
SATURDAY (زحل کا دن)(SATURNانگریزی میں زحل کو کہتے ہیں۔)
جبکہ اسلام نے مسلمانوں کو توہمات سے آزاد کرنے اور غلط فہمیوں سے بچانے کے لیے انہیں قمری سال دیا جس میں تاریخیں، دن اورموسم بدل بدل کر آتے ہیں اور ہفتے کے سات دنوں کو مخصوص غیر اسلامی ناموں سے آزاد کیاتاکہ مسلمان ستاروں سے ڈرتا نہ رہے۔ہفتے کے دنوں کے اسلامی نام یہ ہیں۔
عربی ترجمہ
یوم الاحد پہلا دن
یوم الاثنین دوسرا دن
یوم الثلاثاء تیسرا دن
یوم الاربعاء چوتھا دن
یوم الخمیس پانچواں دن
یوم الجمعہ جمعہ کا دن
لیکن اس کے باوجوداکثر مسلمان اس توہم پرستی کا شکار نظر آتے ہیں جبکہ یہ بات عقلی ونقلی ہر دو اعتبار سے غلط ،بے بنیاد اور لا یعنی ہے۔ہر روز اخبارات میں ''آپ کا دن کیسا رہے گا؟''کے نام سے اس فعل کا اعادہ کر کے مسلمان جاہلیت کا ثبوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جبکہ مستقبل میں کیا ہونا ہے ،کسی کی تقدیر میں کیا لکھا ہے یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
مندرجه بالا تمهيد كے بعد هم يه بات كه سكتے هيں كه تعويذ توهم پرستي كا ردِ عمل اور بت پرستي كا شاخسانه هے۔
عرب اور تعويذ :
آپﷺ كي بعثت كے وقت بھي عرب كے لوگ نظر بد سے بچنے،بيماريوں سے محفوظ رهنے،سحر آسيب سے حفاظت، حاسدوں كے حسد سے بچنے اور جان و مال كي حفاظت وبركت كے ليےمختلف قسم كے تعويذ (مثلاً هڈياں،مختلف قسم كي معدنيات،جانوروں كے كھُر اور كاغذ وغيره پر لكھ كر يا منتر پڑھ كر) اپنے گھروں كے دروازوںكي پيشانيوں ،ديواروں اورجسم كے مختلف حصوں پر لٹكاتے اور باندھتے تھے۔اور ان كا يه عقيده بھي تھا كه مختلف ارواح(جن چڑيل وغيره)انسان ميں سرايت كر جاتي هيں جن كو نكالنے كے ليے وه جادوگروں اوركاهنوں كے پاس جاتے۔
يهاں يه بات بھي نوٹ كر ليني چاهيے سابقه اقوام اور عرب كے لوگوں ميں جو رسمِ تعويذ پائي جاتي تھي اس كے ساتھ ساتھ وه زبان كے ساتھ بھي تعويذ كرتے تھے جس كو منتر ،رقيه ،جھاڑ پھونك يا دم كها جاتا هے۔ليكن عموماًتعويذ سے مراد كوئي مادي چيز هي لي جاتي هے۔جيسا كه شروع ميں مذكور هے۔
تعويذلٹكانا ،باندھنا هر حال ميں حرام هے!
ذيل ميں پيغمبر دوعالم ﷺ اور صحابه كرام رضوان الله عليه اجمعين كي چند احاديث وآثار اور واقعات رقم كيے جاتے هيں جن سے تعويذ كي شرعي حيثيت از خود عياں هو جائے گي۔
آپﷺكا تعويذ سے نفرت:
١۔حضرت عقبه بن عامر جهنيؓ بيان فرماتے هيں كه رسول اللهﷺ كي خدمت ميں ايك دس آدميوں كا ايك وفد بيعت كرنے آيا آپ نے ان دس ميں سے نو آدميوں سے بيعت لے لي اور ايك آدمي سے هاتھ كھينچ ليا يعني بيعت نه لي ۔صحابه ؓ نے استفسار فرمايا تو آپ گويا هوئے اس نےتعويذ باندھا هوا هے ۔ آپﷺ نے يا اس آدمي نے هاتھ ڈال كر وه تعويذ كاٹ ڈالا تو آپﷺ نے اس كي بيعت لے لي اور فرمايا:
جس نے تعويذ لٹكايا اس نے شرك كيا۔
محبت كے تعويذ:
٢۔دم تعويذ اور محبت كے ٹوٹكے شرك هيں۔
معوَّذ بے مراد:
٣۔جس نے تعويذ لٹكايا الله اس مراد پوري نه كرے۔اور جس نے گھونگا لٹكايا الله اسے نه چھوڑے يعني تباه كردے۔
بازو پر دھاگه وغيره باندھناكيساهے؟:
٤۔حضرت حذيفهؓ ايك بيمار كي عيادت كے ليے تشريف لے گئے تو كيا ديكھا كه اس نے بازو ميں ايك پٹا سا باندھا هوا هے حضرت حذيفه نے اسے كاٹ كر اتار پھينكا اور قرآن مجيد كي يه آيت تلاوت فرمائي:اوران ميں سے بهت سے لوگ الله پر ايمان تو ركھتے هيں مگر اس كے ساتھ ساتھ شرك بھي كرتے هيں۔
جانوروں كے تعويذ:
انسان تو انسان رسالتِ مآب ﷺ نے جانوروں تك كے گلے ميں تعويذ طرز كي كوئي چيز لٹكانے سے منع فرما ديا۔
٥۔حضرت عباد بن تميم ؓ سے روايت هے كه ابوبشير انصاريؓ نے انهيں بتايا كه وه رسول اللهﷺ كے ساتھ كسي سفر ميں تھے ۔تو آپﷺ نے قاصد كو بھيج كر لوگوں كو حكم فرمايا كه كسي اونٹ كي گردن ميں تانت كي مالا يا كسي قسم كي كوئي مالا باقي نه رهے بلكه كاٹ دي جائے۔
دم كيا هوا دھاگه گلے ميں باندھنا:
٦۔حضرت عبد الله بن مسعود ؓ كي بيوي حضرت زينبؓ فرماتي هيں جب ميرے شوهر گھر آتے تو دروازے پر پهنچ كر كھنكھارتے اور تھوكتے تاكه اچانك هم محتاط هو جائيں۔(گھر ميں داخل هونے اور مطلع كرنے كا ايك انداز هے )فرماتي هيں ايك دن وه آْئے اور حسبِ سابق كھنكھارا ،اس وقت ميرے پاس ايك بوڑھي عورت تھي جو مجھے حمره(ايك وبائي بيماري كا نام هے)كي وجه سے دم كر رهي تھي ،ميں نے عورت كو چار پائي كے نيچے چھپا ديا ،عبد الله ميرے پاس آئے اور ميرے بغل ميں بيٹھ گئے ،انهوں نے ميرے گلے ميں ايك دھاگا ديكھا ،پوچھا يه كيسا دھاگا هے؟ ميں نے كها يه دھاگا هے جس ميں ميرے ليے دم كيا گيا هے ،وه كهتي هيں كه يه سن كر عبدالله نے اسے پكڑ كر كاٹ ديا اور كها بے شك عبد الله كا خاندان شرك سے بے نياز هے، ميں نے رسول اللهﷺ كو سنا آپ فرما رهے تھے۔‘‘دم،تعويذ اور محبت كا منتر سب شرك هيں۔’’

تعويذپر بھروسا هو جاتاهے:
٧۔عيسيٰ بن عبدالرحمن سے بيان فرماتے هيں كه هم عبد الله بن عكيم كے پاس عيادت كے ليے گئے ۔حالتِ علالت ميں جب ان سے كها گيا كه آپ صحت يابي كے ليے كوئي چيز(تعويذ وغيره)پهن ليں۔تو انهوں نے كها ۔ميں كوئي چيز پهن لوں ؟ حالانكه رسول اللهﷺ نے فرمايا:‘‘جس نے كوئي چيز لٹكائي وه اسي كے سپرد كر ديا گيا۔’’
قرآني اور غير قرآني تعويذ:
٨۔ابراهيم نخعي رحمه الله فرماتے هيں:صحابه كرام اور تابعين عظام هرطرح كے تعويذ مكرو جانتے تھے،خواه قرآن سے هوں يا غير قرآن سے۔
ابراهيم نخعي رحمه الله كي مراد عبدالله بن مسعود كے شاگرد هيں۔مثلاً
١۔علقمه ٢۔اسود ٣۔ابووائل ٤۔حارث بن سويد
٥۔عبيده سلماني ٦۔مسروق ٧۔ربيع بن خثيم
٨۔ سويد بن غفله وغيرھم
٩۔عامر اور سعيد بن جبير اور ان كے علاوه سے قرآني اور غير قرآني تعويذوں كي ممانعت منقول هے۔
حرمتِ تعويذ ميں چند مزيد باتيں:
دم كي رخصت:

١۔تعويذ كي حرمت كا حكم عام هے۔جس ميں هر قسم كے تعويذ آجاتے هيں۔ورنه جس طرح دم كي اجازت آپﷺسے منقول هے اسي طرح قرآن تعويذ كي اجازت بھي آپﷺسے ثابت هوني چاهيے تھي مگر ايسا نهيں هے۔
اسوء حسنه:
٢۔آپﷺنے اپني 63ساله زندگي ميں ايك تعويذ بھي نهيں لكھا،نه لكھوايا ،نه پيا، نه پلوايا،اور نه هي ايسا كرنے كا حكم ديااور نه اجازت بلكه اس كے برعكس اسے شرك قرار ديا۔
صحابه اور تعويذ:
٣۔صحابه كرامؓ ميں سے كسي ايك صحابي سے بسندِ صحيح نه تعويذ لكھنا منقول هے اور نه هي پينا ،پلانااور لٹكانا۔
تعويذ اور دورِ حاضر:
٣۔دورِ حاضر ميں تعويذ كے نام پر عورتوں كا گھروں سے نكلنا،جھوٹے عاملوں،پيروں كا لوگوں كو لوٹنا اسي بات كا متقاضي هے كه تعويذكي حرمت كو ذاتي مفاد اور حرص ولالچ ميں حلت ميں نه بدلا جائے۔
تعويذ اور توكل:
٤۔تعويذ سے انسان كا توكل خراب هونے كا خدشه هے۔ وه الله كي ذات كي بجائے كاغذ وغيره كے ٹكرے پر بھروسا كرنے لگتاهے۔
قرآني تعويذ اور عامل:
٥۔قرآني تعويذوں كي اجازت جعلي عاملوں اور پيروں كے ليے راه هموار كرنے كے مترادف هے۔
تعويذ اورعلم الاعداد:
٦۔تعويذ كو اكثر هندسوں اور غير معروف لكھائي ميں لكھا جاتا هےاورهمارے عوام ميں چونكه اكثر لوگ اس علم سے ناواقف هيں لهذا ممكن هے كه وه اپني طرف سے كسي قرآن تعويذ كرنے والے پاس جائيں جبكه عامل انهيں شيطاني تعويذ بنا كر دے دے۔
تعويذ اور قرآن كي بے حرمتي:
٧۔تعويذ پر قرآني آيات لكھنے كے بعداكثر اوقات اس كي بے حرمتي كي جاتي هے۔كبھي بچے كے گلے ميں جس كو پاكي ناپاكي كا كوئي علم نهيں،اور كبھي انسان اسے پهنے هوئے هي بيت الخلاء چلا جاتاهے اور اسي طرح اسے بعض اوقات حالتِ جنابت ميں بھي قبل از وقت اتارنا ممكن نهيں۔مثلاًرات كوحالتِ نيند ميں اگر انسان جنبي هوجائے۔
لهذا تعويذ باندھنا ،لٹكانا،پينا هر حال ميں حرام اور ناجائز هے۔
زمانه جاهليت ميں عرب تعويذ كے ساتھ ساتھ دم بھي كيا كرتے تھے ۔جس كو هم اپني زبان ميں تعويذ پڑھنا كه سكتے هيں ۔ان كے تعويذوں اور دموں ميں بعض ايسے بھي تھے جن ميں شرك كي آميزش تھي۔چند نامعلوم ناموں كے لكھنے اور پڑھنے سے وه لوگ تعويذ كيا كرتے تھے لهذا آپﷺ نے تعويذ كے ساتھ ساتھ دم كو بھي حرام قرار دے ديا۔ليكن اس موضوع كے بارے جب تمام احاديث كو اكٹھا كيا جاتا هے تو هميں معلوم هوتا هے كه آپ نے بعض معاملات ميں دم كرنے كي اجازت دے دي مگر دم لكھنے(يعني تعويذ بنانے) كي اجازت مرحمت نهيں فرمائي۔

دم كرنا جائز هے بشرطيكه اس ميں شرك نه هو
دم ايك طرح كي دعا هے۔جيسے دعا كرنے كے بعد هاتھ پر هاتھ دھرے بيٹھ جانا لغو حركت هے۔بلكه دعا كے ساتھ ساتھ دوا بھي ضرور هےاسي طرح دم كے ساتھ ساتھ مادي اشياء (مثلاً ادويات ،جڑي بوٹياں اور ديگر طريقه علاج)سے بھي اپنا علاج كرانابھي ضروري هے۔مگر تعويذ اس كے برعكس ايك ايسي مادي چيز هے جس پر لامحاله انسان كا ذهن ٹھهر جاتا هے اور وه اسي ميں اپنے مسئلے كا حل سمجھنے لگتا هے۔شريعت نے اسي ليے تعويذ كو حرام اور دم كو جائز قرار ديا۔
غير شركيه دم:
١۔عوف بن مالك اشجعيؓ كهتے هيں كه هم جاهليت كے زمانه ميں كچھ دم كيا كرتے تھے هم نے حضورﷺ سے عرض كيا كه آپ كا ان كے بارے كيا خيال هے توآپ ﷺنے فرمايا:‘‘اپنے دم ميرے سامنے پيش كرو ۔غير شركيه دم ميں كوئي حرج نهيں۔
نظر بد كا دم:
٢۔رسول اللهﷺ نے دم كرنے كي رخصت عنايت فرمائي۔نظر بدلگ جانے ميں،ڈنگ ميں اور نمله يعني پسلي ميں دانے اور پھنسياں نكلنے كي صورت ميں۔
آپﷺكا دم:
٣۔حضرت عائشهؓ بيان فرماتي هيں كه رسول الله ﷺ يوں دم فرمايا كرتے تھے۔
بِسْمِ اللَّهِ، تُرْبَةُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا، يُشْفَى سَقِيمُنَا، بِإِذْنِ رَبِّنَا
بچھو كے كاٹنے كا دم:
٤۔حضرت جابر ؓ بيان فرماتے هيں كه رسول اللهﷺنے دم كرنے سے منع فرما دياتو عمرو بن حزم كے خاندان والے آپﷺ كے پاس آئے تو انهوں نے كها اے الله كے رسول همارے پاس ايك (منتر)دم هے جس كے ذريعے هم بچھو كے ڈسنے كا علاج كرتے هيں ليكن اب آپﷺ نے دم ناجائز قرار دے ديا هے(اس كے بعد)انهوں نے اپنا دم آپﷺ كو پڑھ كر سناياتو آپ نے فرمايا ميں اس دم ميں كوئي برائي(شرك)نهيں ديكھتا پس تم ميں سے جو اپنے بھائي كو نفع پهنچانا چاهے تو اسے چاهيے كه ضرور نفع پهنچائے۔
معوذتين سے دم:
٥۔حضرت عليؓ بيان فرماتے هيں كه ايك رات دورانِ نماز حضور ﷺ كي انگلي پر بچھو نے كاٹ ليا تو آپﷺنے اسے بحالتِ نماز اسے اپنے جوتے سے مارڈالا اور سلام پھيرنے كے بعد فرمايا بچھو پر خدا كي مار يه نمازي كا لحاظ بھي نهيں كرتا۔(يا آپﷺ نے فرمايا يه نبي اور غير نبي كا لحاظ بھي نهيں كرتا۔)پھر آپﷺنے برتن ميں نمكين پاني منگواكر كاٹنے كي جگه پر ڈالا(يعني ٹكوركي)اور اس پر معوذات(قل اعوذ برب الفلق،قل اعوذ برب الناس)پڑھيں۔
سوتے وقت كا دم:
٦۔حضرت عائشهؓ بيان فرماتي هيں كه نبيﷺهررات جب اپنے بستر تشريف لے جاتے تو معوذاتين اور قل هو ا لله احد پڑھ كر اپنے دونوں هاتھوں كي هتھيليوں كو جمع كر ان ميں پھونك مارتےاور سارے بد ن پر جهاں تك هاتھ پهنچتا پھيرتے۔اس عمل كو بالترتيب سر چهرے اور بدن كے اگلے حصے سے شروع كرتے ۔ يه عمل تين دفعه دهراتے۔
سورت فاتحه سے دم:
٧۔حضرت ابو سعيد خدريؓ فرماتے هيں هم لوگ ايك سفر كے دوران ايك عرب قبيلے كے پاس سے گزرےاور انهوں نے همارے كهنے كے باوجود هماري مهماني نه كي (يعني هم سے اچھا سلوك نه كيا) اتفاق سے ان كے سردار كو بچھو نے كاٹ ليا جب كوئي افاقه نه هوا تو وه همارے پاس آئے اور كوئي علاج دريافت كيا۔ميں نےكهاں هاں ميرے پاس اس كا علاج هے ميں دم كروں گا ليكن چونكه آپ نے همارے ساتھ اچھا سلوك نهيں كيا اس ليے ميں يه كام بلا معاوضه نهيں كروں گا۔چنانچه تيس بكريوں ميں معامله طے پايا۔ميں نےجاكر سورت فاتحه پڑھ كر اسے دم كيا جس كي بركت سے ان كا سردار صحت ياب هوگيا ۔ بكرياں لينے كے بعد هم ميں سے بعض نے كها كه آو معاوضه تقسيم كرليں ميں نے كها كه حضور سے پوچھ كر كريں گے آپﷺ نے پورا واقعه سن كر فرمايا كه تجھے كيسے معلوم كه سورت فاتحه ميں يه بركت هے؟بهر حال تم نے ٹھيك كيا انهيں آپس ميں بانٹ لو اور ميرا حصه بھي نكالو اور ساتھ هي آپﷺنے تبسم فرمايا۔
كيا دم كرنے كا معاوضه ليا جاسكتا هے؟
بعض لوگ اس حديث سے دم كے معاوضے كا استدلال كرتے هيں جبكه حديث كا متن اور عرب كے حالات و واقعات اور تهذيب وتمدن اس كي نفي كرتے هيں۔اس ميں چند امور غور طلب هيں۔
صحابي رسول نے كن حالات ميں معاوضه كا مطالبه كيا؟جب كه وه مجبور تھے اور حالتِ سفر ميں تھے اور سفر بھي عرب كا جهاں دور دور تك پاني كا نام ونشان نه هوتا اور صحرا كي تپتي ريت اور آگ برساتا هوا سورج اوپر سے مسافت كا بوجھ ۔ايسي صورت ميں مهمان نوازي نه كرنے كا مطلب مسافر سے ظلم كي انتها تھي اور بعض اوقات اس ظلم سے مسافر موت كے منه بھي جاسكتا تھا۔يهي وجه هے كه شريعت نےمسافر كا بهر صورت خيال ركھا هے۔اگر ميزبان اس كي مهماني نه كرے تو بامر مجبوري وه ميزبان سے اپنا حق چھين بھي سكتا هے۔ لهذا صحابي نے مجبوراً ان كے ساتھ يه معامله طے كيا ۔ورنه اگر بات يهي هوتي جو آج يهاں همارے تعويذاور دم فروش باور كرواتے هيں تو صحابي نے تو اس مال كو پورے قافلے والوں ميں تقسيم كيا تھا ۔كيا كوئي دم كا معاوضه لينے والا ايسا كرے گا؟دوسري بات يه هے كه ايك لاكھ سے زائد صحابه ميں سے ايك صحابي بھي ايسے نهيں جو لوگوں سے دم وغيره كا معاوضه وصول كركے اپنا پيٹ پالتے تھے ۔
دم كرنے كي تين شرطيں
كيونكه تعويذ بالواسطه انسان كے عقيدے پر اثرڈالتا هے اور توكل علي الله ميں خلل پيدا كرتاهے اس ليے اسے قطعي حرام قرار ديا اور اس كے ساتھ ساتھ دم كرنے كي رخصت دي گئي ليكن دم ميں بھي اهل علم نے قرآن وسنت كي روشني ميں چند شرائط عائد كي هيں تاكه دم كرنے او ر كروانے والے كا عقيده خراب نه هو۔
١۔دم صرف كلامِ الٰهي يا صفاتِ الٰهي سے كيا جائے ۔
٢۔دم عربي زبان ميں هو۔
٣۔يه عقيده هو كه دم بذاتِ خود كوئي فائده نهيں دے سكتا۔بلكه جو كچھ بھي هوگا باذن الله هوگا۔
بلا شبه دم جائز،مباح اور حلال هے ۔آپ ﷺنے خود دم فرمايا۔صحابه كرام رضوان الله عليه اجمعين كو اس كي اجازت دي اور امتِ مسلمه اس كے مسلّمه هونے پر متفق هے ۔باوجودان تمام باتوں كے پھر بھي آپﷺنے ان لوگوں كو بے حساب جنت كي بشارت دي جو دم كرنے اور شگون لينےسے اجتناب كرتے هوں گے۔
پس ثابت هوا كه تعويذ كي اسلام ميں كوئي گنجائش نهيں نه قرآني اور نه هي غير قرآني تعويذ كي۔اس سے بچنا چاهيے ۔الله پر بھروسا ، توكل اور يقين ركھنا چاهيے۔
خلاصه كلام
تعويذ كي ابتداء شرك سے هوئي۔
تعويذ اور دم زمانه جاهليت كي رسوم هيں۔
قرآني وغير قرآني هر قسم كے تعويذ حرام هيں۔
دم كي رخصت صرف غير شركيه دم كي صورت ميں هے۔
تعويذ اور دم كا كاروبار غير شرعي هے۔
چا ند ستاروں كو انساني زندگي پر موثر سمجھنا كفر هے۔
هر حال ميں الله سے پناه مانگني چاهيے۔
كسي قسم كي بيماري ميں دھاگه ،چھلا ،منكا،گھونگا،نگينه ،پٹا وغيره باندھنا،لٹكانا حرام هے۔يه سب تعويذ كي هي مختلف شكليں هيں۔
تعويذ توكل كے منافي هے۔
الله سے دعا هے كه هميں عقيده توحيد پر استقامت نصيب فرمائے اور اس كي راه ميں آنے والي ركاوٹوں سے اجتناب كرنے كي قوت عطافرمائے۔آمين۔
 
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
آپ کی بہت سی باتیں محل نظر ہیں۔ جیسا کہ آپ کا فرمانا کہ ہر طرح کا تعویز حرام ہے۔
 
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
آپﷺكا تعويذ سے نفرت:
١۔حضرت عقبه بن عامر جهنيؓ بيان فرماتے هيں كه رسول اللهﷺ كي خدمت ميں ايك دس آدميوں كا ايك وفد بيعت كرنے آيا آپ نے ان دس ميں سے نو آدميوں سے بيعت لے لي اور ايك آدمي سے هاتھ كھينچ ليا يعني بيعت نه لي ۔صحابه ؓ نے استفسار فرمايا تو آپ گويا هوئے اس نےتعويذ باندھا هوا هے ۔ آپﷺ نے يا اس آدمي نے هاتھ ڈال كر وه تعويذ كاٹ ڈالا تو آپﷺ نے اس كي بيعت لے لي اور فرمايا:
جس نے تعويذ لٹكايا اس نے شرك كيا۔
محبت كے تعويذ:
٢۔دم تعويذ اور محبت كے ٹوٹكے شرك هيں۔
معوَّذ بے مراد:
٣۔جس نے تعويذ لٹكايا الله اس مراد پوري نه كرے۔اور جس نے گھونگا لٹكايا الله اسے نه چھوڑے يعني تباه كردے۔
بازو پر دھاگه وغيره باندھناكيساهے؟:
٤۔حضرت حذيفهؓ ايك بيمار كي عيادت كے ليے تشريف لے گئے تو كيا ديكھا كه اس نے بازو ميں ايك پٹا سا باندھا هوا هے حضرت حذيفه نے اسے كاٹ كر اتار پھينكا اور قرآن مجيد كي يه آيت تلاوت فرمائي:اوران ميں سے بهت سے لوگ الله پر ايمان تو ركھتے هيں مگر اس كے ساتھ ساتھ شرك بھي كرتے هيں۔
جانوروں كے تعويذ:
انسان تو انسان رسالتِ مآب ﷺ نے جانوروں تك كے گلے ميں تعويذ طرز كي كوئي چيز لٹكانے سے منع فرما ديا۔
٥۔حضرت عباد بن تميم ؓ سے روايت هے كه ابوبشير انصاريؓ نے انهيں بتايا كه وه رسول اللهﷺ كے ساتھ كسي سفر ميں تھے ۔تو آپﷺ نے قاصد كو بھيج كر لوگوں كو حكم فرمايا كه كسي اونٹ كي گردن ميں تانت كي مالا يا كسي قسم كي كوئي مالا باقي نه رهے بلكه كاٹ دي جائے۔
دم كيا هوا دھاگه گلے ميں باندھنا:
٦۔حضرت عبد الله بن مسعود ؓ كي بيوي حضرت زينبؓ فرماتي هيں جب ميرے شوهر گھر آتے تو دروازے پر پهنچ كر كھنكھارتے اور تھوكتے تاكه اچانك هم محتاط هو جائيں۔(گھر ميں داخل هونے اور مطلع كرنے كا ايك انداز هے )فرماتي هيں ايك دن وه آْئے اور حسبِ سابق كھنكھارا ،اس وقت ميرے پاس ايك بوڑھي عورت تھي جو مجھے حمره(ايك وبائي بيماري كا نام هے)كي وجه سے دم كر رهي تھي ،ميں نے عورت كو چار پائي كے نيچے چھپا ديا ،عبد الله ميرے پاس آئے اور ميرے بغل ميں بيٹھ گئے ،انهوں نے ميرے گلے ميں ايك دھاگا ديكھا ،پوچھا يه كيسا دھاگا هے؟ ميں نے كها يه دھاگا هے جس ميں ميرے ليے دم كيا گيا هے ،وه كهتي هيں كه يه سن كر عبدالله نے اسے پكڑ كر كاٹ ديا اور كها بے شك عبد الله كا خاندان شرك سے بے نياز هے، ميں نے رسول اللهﷺ كو سنا آپ فرما رهے تھے۔''دم،تعويذ اور محبت كا منتر سب شرك هيں۔''
تعويذپر بھروسا هو جاتاهے:
٧۔عيسيٰ بن عبدالرحمن سے بيان فرماتے هيں كه هم عبد الله بن عكيم كے پاس عيادت كے ليے گئے ۔حالتِ علالت ميں جب ان سے كها گيا كه آپ صحت يابي كے ليے كوئي چيز(تعويذ وغيره)پهن ليں۔تو انهوں نے كها ۔ميں كوئي چيز پهن لوں ؟ حالانكه رسول اللهﷺ نے فرمايا:''جس نے كوئي چيز لٹكائي وه اسي كے سپرد كر ديا گيا۔''
QUOTE]

محترم آپ نے یہ جتنی روایات بیان کی ہیں ان میں سے کسی کا حوالہ درج نہیں کیا شاید آپ نے ایسا جان بوجھ کہ کیا کیونکہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ان میں کوئی حدیث صحیح کے درجے کو نہیں پہنچتی ۔ اگر پہنچ بھی جائے تو ترجمہ وہ نہیں بنتا جو آپ نے لکھا ہے یا مراد لیا ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم آپ نے یہ جتنی روایات بیان کی ہیں ان میں سے کسی کا حوالہ درج نہیں کیا شاید آپ نے ایسا جان بوجھ کہ کیا کیونکہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ان میں کوئی حدیث صحیح کے درجے کو نہیں پہنچتی ۔ اگر پہنچ بھی جائے تو ترجمہ وہ نہیں بنتا جو آپ نے لکھا ہے یا مراد لیا ہے۔
تھریڈ اسٹارٹ کرنے والے صاحب شاید جلدی میں غلطی سے حوالے درج نہیں کر سکے - الله ان کی غلطی کو معاف فرماے (آ مین )-

لیکن اگرآپ اس سے یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ تعویذ لٹکانا اور دھاگہ وغیرہ باندھنا گناہ و شرک نہیں بلکہ جائز ہے تو یہ کام تو ہندو اور غیر مسلم بھی کرتے ہیں- وہ بھی پتھروں اور تعویزوں اور اس طرح کی اور بہت سے چیزوں سے مدد حاصل کرتے ہیں- اور ان کی مرادیں بھی پوری ہوتی ہیں - پھر آپ کیسے ثابت کریں گے کہ وہ کافر ہیں اور ہم مسلمان - ؟؟ ہے کوئی پیمانہ آپ کے پاس ؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ناظم شہزاد صاحب سوچ کر اچھی طرح سے جواب دینا کہ تعوییز لکھ کر پینا،یا گلے میں ڈالنا شرک ہے۔؟
میری ناقص علم کے مطابق تعویذ چاہے قرانی ہو یا یا غیر قرانی اس کو لکھ کر پینا،یا گلے میں ڈالنا شرک ہے۔؟ متعدد صحیح احادیث اس پر شاہد ہیں- اگر یہ جائز ہوتا تو نبی کریم صل الله علیہ وسلم سب سے پہلے اپنی امّت کو اس کی دعوت دیتے لیکن آپ نے اس سے سختی سے منع فرمایا -

ویسے بھی قرآن اس لئے نازل نہیں ہوا تھا کہ اس کو پانی میں گھول کر پیا جائے یا بازو یا گلے میں لٹکایا جائے- یہ قرآن کی توہین ہے - اور یہ چیز انسان کو کفر تک پہچانے والی ہے - (واللہ عالم )
 
Top