محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
مَآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ۰ۡوَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ۰ۭ وَاَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۷۹ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۰ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۸۰ۭ
جوبھلائی تجھے ملتی ہے سوخدا سے ہے اورجو برائی تجھے پہنچتی ہے سو وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے اورہم نے تجھے آدمیوں کے لیے رسول بناکر بھیجا ہے اوراللہ گواہ کافی ہے۔۱؎(۷۹)جس نے رسول کا حکم مانا اس نے خدا کا حکم مانا اورجو الٹا پھراتو ہم نے تجھے ان پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا۔ ۲؎(۸۰)
۱؎ان دوآیتوں میں بظاہر تناقض معلوم ہوتا ہے کہ مصائب کو من عند اللہ بھی کہا ہے اور من نفسک بھی مگرخدا کا کلام ہرتناقض وتعارض سے پاک ہے ۔ پہلی آیت سے تشاوم کی تردید مقصود ہے ۔دوسری سے منشایہ ہے کہ مصائب کے ذمہ دار خود انسان ہیں۔ جہاں تک کسی واقعہ کے سبب اول کا تعلق ہے ، وہ ظاہر ہے خدا کے سوا اور کوئی نہیں اور جہاں اسباب قریبہ کا بیان ہے ،واضح ہوکہ وہ انسان خود پیدا کرتا ہے ۔ یعنی گوہر مصیبت خدا کی طرف سے ہے مگرہم حاصل اسے خود اپنے عمل سے کرتے ہیں۔اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے سے تم مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے ہوتو اس کی وجہ آپ ﷺ کی تشریف آوری نہیں ، تمہاری بدبختی اورانکار ہے ۔
۲؎ منصب نبوت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو تمامی اقتدار کے لیے چن لیتا ہے ۔ اس کی ہربات منشائے الٰہی میں ڈھل کے نکلتی ہے ۔ اس کا دل ودماغ انوار وتجلیات سے معمور ہوتا ہے ۔ اس کی ہرحرکت ترجمان ہوتی ہے رضائے حق کی، اس لیے کسی شخص کو رسول یا نبی کہہ دینا بجائے خود اسے صحت مند قرار دینا ہے مگر بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ذوق عربیت سے محروم ہیں اور قرآن کے اسلوب بدیع سے محض ناآشنا۔ وہ حضورﷺ کی اطاعت کو ضروری نہیں جانتے۔ ان کے خیال میں قرآن حکیم اپنے موجودہ الفاظ کے ساتھ بالکل کافی ہے اورجو وسائل وذرائع قرآن فہمی کے لیے ضروری ہیں وہ چند لغت وادب کی کتابیں ہیں اور بس۔ یہ نادان اتنی سی سمجھ بھی نہیں رکھتے کہ اگرکسی کتاب کو بلاکسی زبردست عمل کے سمجھا جاسکتا ہے توپھر ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں کود پڑنے کی تکلیف کیوں دی؟ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے لڑنے کا کیوں حکم ہوا اورمحمدﷺ کو بدروحنین کے معرکے کیوں برروئے کار لانا پڑے؟ بات یہ ہے کہ دنیا میں کبھی باتوں اور نظروں سے انقلاب پیدا نہیں ہوا۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے زبردست عملی قوت کی۔اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جو شخص آپ کے نقش قدم پر چلے گا، صراط مستقیم پرگامزن رہے گا اور جو انکار کرتا ہے وہ جان لے کہ اس کی اپنی بدبختی ہے ۔ آپ ﷺ مجبور نہیں کہ اس کو راہِ راست پر لے آئیں اور یہ کہ آپ کی اطاعت براہ راست خدا کی اطاعت ہے۔
{حَسَنَۃٍ}{سَیِّئَۃٍ} نیکی اور برائی۔ انعام اور مصیبت۔
جوبھلائی تجھے ملتی ہے سوخدا سے ہے اورجو برائی تجھے پہنچتی ہے سو وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے اورہم نے تجھے آدمیوں کے لیے رسول بناکر بھیجا ہے اوراللہ گواہ کافی ہے۔۱؎(۷۹)جس نے رسول کا حکم مانا اس نے خدا کا حکم مانا اورجو الٹا پھراتو ہم نے تجھے ان پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا۔ ۲؎(۸۰)
رفع تناقض
۱؎ان دوآیتوں میں بظاہر تناقض معلوم ہوتا ہے کہ مصائب کو من عند اللہ بھی کہا ہے اور من نفسک بھی مگرخدا کا کلام ہرتناقض وتعارض سے پاک ہے ۔ پہلی آیت سے تشاوم کی تردید مقصود ہے ۔دوسری سے منشایہ ہے کہ مصائب کے ذمہ دار خود انسان ہیں۔ جہاں تک کسی واقعہ کے سبب اول کا تعلق ہے ، وہ ظاہر ہے خدا کے سوا اور کوئی نہیں اور جہاں اسباب قریبہ کا بیان ہے ،واضح ہوکہ وہ انسان خود پیدا کرتا ہے ۔ یعنی گوہر مصیبت خدا کی طرف سے ہے مگرہم حاصل اسے خود اپنے عمل سے کرتے ہیں۔اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے سے تم مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے ہوتو اس کی وجہ آپ ﷺ کی تشریف آوری نہیں ، تمہاری بدبختی اورانکار ہے ۔
رسولﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے
۲؎ منصب نبوت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو تمامی اقتدار کے لیے چن لیتا ہے ۔ اس کی ہربات منشائے الٰہی میں ڈھل کے نکلتی ہے ۔ اس کا دل ودماغ انوار وتجلیات سے معمور ہوتا ہے ۔ اس کی ہرحرکت ترجمان ہوتی ہے رضائے حق کی، اس لیے کسی شخص کو رسول یا نبی کہہ دینا بجائے خود اسے صحت مند قرار دینا ہے مگر بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ذوق عربیت سے محروم ہیں اور قرآن کے اسلوب بدیع سے محض ناآشنا۔ وہ حضورﷺ کی اطاعت کو ضروری نہیں جانتے۔ ان کے خیال میں قرآن حکیم اپنے موجودہ الفاظ کے ساتھ بالکل کافی ہے اورجو وسائل وذرائع قرآن فہمی کے لیے ضروری ہیں وہ چند لغت وادب کی کتابیں ہیں اور بس۔ یہ نادان اتنی سی سمجھ بھی نہیں رکھتے کہ اگرکسی کتاب کو بلاکسی زبردست عمل کے سمجھا جاسکتا ہے توپھر ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں کود پڑنے کی تکلیف کیوں دی؟ موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے لڑنے کا کیوں حکم ہوا اورمحمدﷺ کو بدروحنین کے معرکے کیوں برروئے کار لانا پڑے؟ بات یہ ہے کہ دنیا میں کبھی باتوں اور نظروں سے انقلاب پیدا نہیں ہوا۔ اس کے لیے ضرورت ہوتی ہے زبردست عملی قوت کی۔اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جو شخص آپ کے نقش قدم پر چلے گا، صراط مستقیم پرگامزن رہے گا اور جو انکار کرتا ہے وہ جان لے کہ اس کی اپنی بدبختی ہے ۔ آپ ﷺ مجبور نہیں کہ اس کو راہِ راست پر لے آئیں اور یہ کہ آپ کی اطاعت براہ راست خدا کی اطاعت ہے۔
حل لغات
{حَسَنَۃٍ}{سَیِّئَۃٍ} نیکی اور برائی۔ انعام اور مصیبت۔