• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیا والوں کا معیار اور میرے رب کا معیار

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
دنیا والوں کا معیار اور میرے رب کا معیار



زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ خیال اور نظریہ تھا کہ جو اِس دنیا میں مالدار دولتمند

اور صاحب جاہ و منصب ہے آخرت میں بھی اُسے مال و دولت اور قدر و منزلت

حاصل ہو گی


اور اُن لوگوں کا نظریہ تھا کہ جو اِس دنیا میں غریب اور مفلس اور پریشان حال ہے


آخرت میں بھی اُس کا یہی حال ہو گا


اللہ مالک الملک کا فرمان ہے

فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ ﴿١٥﴾


مگر انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا رب جب اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنا دیا (15)

وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ ﴿١٦﴾

اور جب وہ اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا (16)
آگے اللہ کا فرمان ہے
كَلَّا ۖ


ہرگز نہیں
علامہ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تفسیر تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان
میں لکھتے ہیں

{كَلاَّ} أي: ليسَ كلُّ منْ نعَّمْتُهُ في الدنيا فهوَ كريمٌ عليَّ، ولا كلُّ مَنْ قدَرتُ عليهِ رزقهُ فهوَ مهانٌ لديَّ

یعنی ہروہ آدمی جس کو دنیا میں مال و دولت کی نعمتیں ملیں ضروری نہیں کہ اللہ کے ہاں بھی وہ عزت والا ہو ۔ اور اسی طرح ہر تنگ دست آدمی اللہ کے ہاں
ذلیل اور گھٹیا نہیں ہے ۔سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی تفسیر منقول ہے ''


مال و دولت اللہ کے ہاں معیار اور کسوٹی نہیں ۔ اور اللہ کے قریب ہونے کی دلیل اور علامت نہیں۔ اللہ کا فرمان ہے


وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ﴿٣٥

" انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ ہم تم سے زیادہ مال اولاد رکھتے ہیں اور ہم ہرگز سزا پانے والے نہیں ہیں (35)

اللہ مالک الملک کا جواب

وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ﴿٣٧﴾ سبا


یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جن کے لیے اُن کے عمل کی دہری جزا ہے، اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے (37)


اسی طرح اگر ہم قرآن میں غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ امیر اور

صاحب حیثیت لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی


سید نا نوح علیہ السلام کی قوم کے وڈیروں نے کہا :

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ ﴿٢٧﴾ ہود

اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں)، ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں (27)


سید نا صالح علیہ السلام کی قوم کاحال بھی کچھ اس طرح تھا
فرمان ربانی ہے

قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُّرْسَلٌ مِّن رَّبِّهِ ۚ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ ﴿٧٥﴾الاعراف
ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے پوچھا، کیا تم کواس بات کا یقین ہے کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بےشک ہم تو اس پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا گیا ہے (75)
قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِي آمَنتُم بِهِ كَافِرُونَ ﴿٧٦﴾

وه متکبر لوگ کہنے لگے کہ تم جس بات پر یقین ﻻئے ہوئے ہو، ہم تو اس کے منکر ہیں (76)
یعنی کمزور اور نادار لوگوں نے انبیاء کی تصدیق کی اور

امیر اور متکبر لوگون نے انبیاء کو جھٹلایا اور مذاق اڑایا

قریش نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ

آپ چھوٹے لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھا کریں جیسے بلال عمار صہیب خباب ابن مسعود رضوان اللہ علیہھم اجمعین اور ہماری مجلسوں میں بیٹھا کریں
اللہ مالک نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کواُن کی درخواست رد کرنے کا حکم دیا اور فرمایا :
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٥٢﴾الانعام

اور جو لوگ اپنے رب کو رات دن پکارتے رہتے ہیں او ر اس کی خوشنودی کی طلب میں لگے ہوئے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ پھینکو اُن کے حساب میں سے کسی چیز کا بار تم پر نہیں ہے اور تمہارے حساب میں سے کسی چیز کا بار اُن پر نہیں اس پر بھی اگر تم انہیں دور پھینکو گے تو ظالموں میں شمار ہو گے (52)

صحیح مسلم میں ہے سیدنا سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ ہم چھ شخص غریب غربا ء رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے
(سعد بن ابی وقاص ، ابن مسعود ۔ بلال اور تیں اور آدمی رضوان اللہ علیہم اجمعین) اتنے میں معزز مشرکیں آئے اور کہا انہیں اپنی مجلس میں اس جرات کے ساتھ مت بیٹھنے دو اللہ بہتر جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جی میں کیا آیا جو یہ آیت وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ اُتری

ایک جگہ اللہ مالک کا فرمان ہے

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا ﴿٢٨﴾الکہف
اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضامندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے (28)

صحیح مسلم میں سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

(( إن الله لا ينظر إلى أجسادكم , ولا إلى صوركم , ولكن ينظر إلى قلوبكم ))

اللہ تمہارے جسموں اور صورتوں کو نہیں دیکھتا ، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے

اور اگر ہم قرآن میں تدبر اور غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ جہنم میں جانے والے اور اللہ کے عذاب کے مستحق مال دار دولت مند اور امیر لوگ تھے ،اور اللہ کے قریب اور محبوب اور جنت میں جانے والے غریب اور نادار اور مسکین لوگ ہیں

ایک جگہ اللہ مالک الملک فرماتے ہیں

وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿١٦﴾الاسراء
اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا اراده کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وه اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ﺛابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے تباه وبرباد کردیتے ہیں (16)
اور دوسری طرف جنتی لوگوں کا تذکرہ ہے

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّـهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّـهِ قَرِيبٌ﴿٢١٤﴾ البقرہ

کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حاﻻنکہ اب تک تم پر وه حاﻻت نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے۔ انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے (214)

خلا صہ کلام

اگر کسی کو مال و دولت ملے تو یہ اللہ مالک کی رضا مندی کی دلیل نہیں

بلکہ مال و دولت کو امتحان سمجھنا چاہیے

اور کسی سے محبت اور دوستی اس کے مال و دولت اور منصب اور عہدے کی وجہ سے نہیں بلکہ تقوےٰ اور پرہیز گاری کی وجہ سے کرنی چاہیے

مال اور دولت اللہ مانگے اور بنا مانگے بھی عطا کرتے ہیں
لیکن سیدھی صراط مستقیم بنا چاہے نہیں ملتی

اللہ کے ہاں مال ودولت معیار نہیں بلکہ تقوی اور خلوص معیار ہے

اللہ اگر کسی کو مال و دولت دے تو اُسے اپنی اوقات میں رہنا چاہیے اور

اپنے آخری گھر کو نہیں بھولنا چاہیے
جنت کا راستہ ابتلاؤں اور تکلیفوں کا راستہ ہے اور جہنم کا راستہ شہوات اور شبہات کا راستہ ہے

نوٹ : اگر اللہ بندے پر اپنا فضل کریں اور مال و دولت دیں اور وہ اللہ کو نہ بھولے اور اپنے مال میں اللہ اور فقراء کا حق ادا کرتا رہے تو کوئی حرج نہیں واللہ تعالٰی اعلم

و صلی اللہ علی خیر خلقہ محمد و علی آلہ وصحبہ وسلم
۔۔۔
 
Top