• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"دودھ اور یورن کا محلول" جان لیوا بیماری کا علاج

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
"دودھ اور یورن کا محلول"

جان لیوا بیماری کا علاج


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

جیسا کہ اس مسئلہ پر یہاں بھی کسی دھاگہ میں گفتگو چل رہی ھے اور ایسا ہی ایک اور جگہ بھی ہوا تھا جس پر میں وہاں کا لنک دینا مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ پھر ممبران ادھر ادھر ہو جاتے ہیں اور نہ ہی وہ مراسلات اٹھا کر یہاں پر لگانا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ ہر جگہ پر ممبران کے ذہن کے مطابق گفگتو کی جاتی ھے ہاں جو دھاگہ میں نے بنایا تھا تاکہ ان کی گفتگو میں‌ خلل نہ پڑے اس پر جو میٹریل ھے وہ میں یہاں پر کچھ تبدیلی کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں آئیندہ اگر یہاں پر کسی مسئلہ پر لنک دینا ضروری سمجھا تو دو فارمز کے لنک میں‌ یہاں پر پیش کر سکتا ہوں جو اسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اردو مجلس اور صراط الہدٰی۔

دنیا میں ایسا کوئی بھی کام جس میں دو الگ الگ موقف ہوں تو دونوں طرف سے کسی مسئلہ پر اپنے اپنے دلائل پیش کئے جاتے ہیں، اگر کسی کو سمجھ آتی ھے تو ویلکم اگر نہیں تو کوئی لڑائی نہیں آپ اپنے گھر اور میں اپنے گھر، ایک دوسرے کی الزام تراشی کرنے سے خود کا ہی نقصان ہوتا ھے اور میں اس کا قائل نہیں۔

اس مراسلہ کو الگ کرنے کی وجہ یہ ھے کہ کچھ لوگ کیمسٹری کو شائد ممنوعہ علم سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ھے۔ اگر اس حدیث مبارکہ کو قرآن و حدیث سے دیکھیں تو یقیناً اس پر دو بھائیوں نے اپنے الگ الگ موقف پیش کئے ہیں جس سے ہر کوئی اپنے اپنے موقف پر ڈٹا رہے گا، ایک کی دلیل یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ہم اس بات کو احتراماً مانتے ہیں اور دوسرے کی دلیل یہ کہ قرآن مجید میں اللہ سبحان تعالی نے پشاب کی پلیدی کا ذکر کیا ھے اس لئے وہ اس حدیث مبارکہ کو صحیح نہیں مانتے، مگر پھر میرے یہی بھائی نے اپنی طرف سے سائنس کے علوم سے علم کیمیاء کے حوالہ سے بھی اپنی دلیل پیش کی مگر وہ بہت کمزور تھی اگر میں اس پر بھی دیکھوں تو انہوں نے اس علم کو پڑھا ضرور ہو گا مگر اتنے سالوں کے بعد وہ اسے شائد وہ بھول گئے ہوں، مجھے بھی پڑھے ایک زمانہ ہو گیا ھے مگر پھر بھی میں اس پر کچھ مفید معلومات پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اللہ سبحان تعالی نے قرآن و حدیث مبارکہ سے دنیا کے بارے میں قیامت تک کے لئے جو پیغامات دنیا انسانی تک پہنچائے تو ان پر تحقیق کرنے کے لئے اللہ سبحان تعالی نے انسان کو عقل بھی عطا کی، اسی عقل سے انسان نے دنیا کے اندر پانے جانے والے ٹیلی سکوپک جراثیم سے کائینات کی ہر چیز کے خواص کا مطالعہ کیا اور کھوج لگائی اور انہیں دنیا کے سامنے رکھا۔

إذا أکل أحدکم فلا یمسح یدہ حتیٰ یَلعقھا أو یُلعقھا۔
(صحیح البخاری، 2:820)
جب تم میں سے کوئی کھانا کھا لے تو اپنے ہاتھوں کو چاٹنے سے قبل نہ پونچھے۔

کان النبی(ص) یأکل بثلاثِ أصابعٍ و لا یمسح یدہ حتٰی یلعقھا۔
(سنن الدارمی، 2:24)
نبی علیہ الصلوۃ والسلام تین اُنگلیوں سے کھاتے تھے اور (کھانے کے بعد) اُنگلیوں کو چاٹے بغیر ہاتھ صاف نہیں فرماتے تھے۔


چند مہینے پہلے اسی پر سائنسی ریسرچ کے حوالہ سے ایک خبر پڑھی تھی کہ کھانے کے وقت انگلیوں کو چاٹنا/چوسنا مفید ھے کیونکہ ان کے اندر سے ایک خاص قسم کا رس نکلتا ھے جو ذائقہ دار بھی ھے اور بہت سے بیماریوں کے لئے شفا بھی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 14 سو سال پہلے بتا دیا۔

زمانہ قدیم میں جب دو پتھروں کو آپس میں چوٹ لگانے سے آگ پیدا ہوئی اور اس وقت آگ شائد اسی طرح حاصل کی جاتی تھی، آج تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ پتھر کے اندر ایسے کیمکل پائے جاتے ہیں جس سے آپ پیدا ہوتی ھے اور ان کیمکلوں کو نام دئے گئے، یہ "علم کیمیا" ھے، پھر یہ دیکھا کہ دونوں پتھروں کو آپس میں مارنے یا رگڑنے کے لئے کسی قوت کی ضرورت ھے تو اس قوت لگانے والے جسم کو "علم حیاتیات" میں شامل کیا اور اس پر اس کے خواص لکھے گئے۔ پھر ان دونوں پتھروں کو رگڑنے کا عمل اور رگڑ کی قوت اور رگڑ سے جو آواز پیدا ہوتی ھے اسے "علم طبعیات" میں اس کے خواص لکھے گئے۔ یہ عقل بھی اللہ سبحان تعالی کی عطا کی ہوئی نعمت ھے۔


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

یہ واقعہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے اور ان سے مختلف تابعین نے روایت کیا ہے ، اور حدیث کی مختلف کتابوں میں موجود ہے ، جن میں سے صحیح البخاری میں چھ مختلف مقامات پر روایات ہے، اورصحیح مُسلم ، صحیح ابن حبان ، سنن النسائی ، سنن ابن ماجہ ، سنن البیھقی ، سنن الترمذی ، مسند احمد ، اور دیگر بہت سی کتابوں میں بھی ہے ، سب سے پہلے میں اس واقعے والی حدیث یہاں نقل کرتا ہوں ، اور ان روایات میں سے صرف اتنا ہی حصہ نقل کروں گا جس کا اس موضوع سے تعلق ہے ، اور صحت کے اعتبار سے سب سے صحیح ترین روایات جو کہ صحیح البخاری کی ہیں ان کو نقل کرتا ہوں ،

اور تمام روایات کا ترجمہ ایک ہی واقعہ کے طور پر کرتا ہوں ، ان شاء اللہ ،

قَدِمَ قَوْمٌ على النبي صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فَكَلَّمُوهُ فَقَالُوا قد اسْتَوْخَمْنَا هذه الْأَرْضَ فقال هذه نَعَمٌ لنا تَخْرُجُ فَاخْرُجُوا فيها فَاشْرَبُوا من أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَخَرَجُوا فيها فَشَرِبُوا من أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا وَاسْتَصَحُّوا أَنَّ نَاسًا أو رِجَالًا من عُكْلٍ وَعُرَيْنَةَ قَدِمُوا على رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم وَتَكَلَّمُوا بِالْإِسْلَامِ وَقَالُوا يا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّا كنا أَهْلَ ضَرْعٍ ولم نَكُنْ أَهْلَ رِيفٍ وَاسْتَوْخَمُوا الْمَدِينَةَفَأَمَرَ لهم رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بِذَوْدٍ وَبِرَاعٍ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فيه فَيَشْرَبُوا من أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا قَدِمَ رَهْطٌ من عُكْلٍ على النبي صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم كَانُوا في الصُّفَّةِ فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ فَقَالُوا يا رَسُولَ اللَّهِ أَبْغِنَا رِسْلًا فقال ما أَجِدُ لَكُمْ إلا أَنْ تَلْحَقُوا بِإِبِلِ رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فَأَتَوْهَا فَشَرِبُوا من أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا حتى صَحُّوا وَسَمِنُوا أَنَّ نَفَرًا مِن عُكْلٍ ثَمَانِيَةً قَدِمُوا على رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فَبَايَعُوهُ على الْإِسْلَامِ فَاسْتَوْخَمُوا الْأَرْضَ فَسَقِمَتْ أَجْسَامُهُمْ فَشَكَوْا ذلك إلى رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم قال أَفَلَا تَخْرُجُونَ مع رَاعِينَا في إِبِلِهِ فَتُصِيبُونَ من أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَاقالوا بَلَى فَخَرَجُوا فَشَرِبُوا من أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَصَحُّوا أَنَّ نَاسًا من عُرَيْنَةَ اجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ فَرَخَّصَ لَهُم رسول اللَّهِ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم أَنْ يَأْتُوا إِبِلَ الصَّدَقَةِ فَيَشْرَبُوا مِن أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا

قبیلہ عکل اور قبیلہ عُرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس مدینہ المنورہ میں آئے ،اور صُفہ میں قیام کیا ، کچھ عرصہ بعد وہ لوگ بیمار ہو گئے کیونکہ انہیں مدینہ المنورہ کی آب و ہوا اور وہاں کی خوراک موافق نہ ہوئی ، اُن لوگوں نے مدینہ المنورہ میں مزید قیام کرنا ناپسند کِیا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہو کہا کہ وہ لوگ تو چلتے پھرتے رہنے والے اور کھلی آب و ہواوالی جگہوں کے رہنے والے اور دُودھ گھی کھانے والے ہیں ، اور مدینہ المنورہ کی مدینہ المنورہ کی آب و ہوا اور خوراک کے بارے میں شکایت کی، اور اسی کو سبب جانتے ہوئے اپنی بیماری کی شکایت کی ، اور بطورء خوراک دُودھ حاصل کرنے کی درخواست کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ان سے اِرشاد فرمایا "میرے پاس وہ کچھ نہیں جو تُم مانگ رہے ہو ، تُم لوگ مدینہ سے باہر چلے جاؤ ،جہاں صدقے کے اُونٹ ہیں ، اور وہاں اُونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پیو " اُن لوگوں نے تعمیل کی ،اور چلے گئے، وہاں وہ لوگ اُونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پیتے رہے یہاں تک شفاء یاب ، صحت مند اور موٹے ہو گئے


السلام علی من یتبع الھدٰی

اونٹنیوں کے دودھ اور پیشاب والی حدیث کو درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے:

۱۔صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب استعمال ابل الصدقہ والبانھا لأبناء السبیل
۲۔ مسند احمد،مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ
۳۔ مسند الطیالسی احادیث النساء، و ما أسند انسبن مالک الأنصاری
۴۔ صحیح مسلم کتاب القسامہ و المحاربین و القصاص و الدیات باب حکم المحاربین و المرتدین
۵۔ سنن ابن ماجہ باب من حارب و سعی فی الأرض فسادا
۶۔ سنن الترمذی کتاب الطھارۃ باب ما جاء فی بول ما یؤکل لحمہ
۷۔ مسند البزار مسند أبی حمزۃ أنس بن مالک رضی اللہ عنہ
۸۔ سنن النسائی الصغری کتاب الطھارۃ باب بول ما یؤکل لحمہ
۹۔ مسند ابی یعلیٰ، قتادہ عن انس
۱۰۔ مستخرج ابی عوانہ کتاب الحدود باب بیان اقامۃ الحدعلی من یرتد
۱۱۔ شرح مشکل الآثار بیان مشکل ما روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فی کیفیات عقوبات اہل اللقاح
۱۲۔ صحیح ابن حبان کتاب الطھارۃ باب النجاسہ و تطھیرھا
۱۳۔ المعجم الاوسط للطبرانی باب الألف من اسمہ احمد
۱۴۔ سنن الدار قطنی کتاب الطھارۃ باب فی طھارۃ الأرض من البول

اللہ تعالی نے طیبات کو حلال اور خبیثات کو حرام قرار دیا۔

کیا اونٹ‌کا پیشاب طیبات میں سے ہے؟

عام طور پر تارک الحدیث، تارک القرآن، مرتد حضرات ۔ سمجھتے ہیں‌کہ ناپاک کو دھو لیا تو پاک ہوگیا۔ اس کی وجہ ان لوگوں‌کی کم علمی ہے۔ خبیثات ، ایسی بھیانک اشیاء ہیں‌جو انتہائی Toxic اور زہریلی ہوتی ہیں۔

اونٹ‌کا پیشاب بھی ایک بھیانک، زہریلا، اور انتہائی Toxic مادہ ہے۔ یہ مادہ جلد پر ملنے سے اپنے زہریلے اثرات تمام جسم پر ، پینے سے تمام جسم پر اور سونگھنے سے تمام جسم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ شمشاد احمد ، اور عادل سہیل اور ان کے ہم نوا اپنی انتہائی کم علمی میں اس کو دھو کر پاک ہو جانے والا چھینٹا سمجھتے ہیں اور اس انتاہئی زہریلے اور Toxic مادے کے استعمال عام کے لئے اپنی سی کوششیں‌ اللہ سے منسوب کررہے ہیں ، جو تمام معلومات سے بھرپور ، ہر علم سے آگاہ اور اس کے نبی سے منسوب کررہے ہیں۔ جو علم کا سرچشمہ ہیں ۔

اونٹ کے پیشاب کی کمپوزیشن:
اونٹ‌کا پیشاب، اس میں یورک ایسڈ۔ بیکٹیریا، وائرس اور ایسے اجزا شامل ہیں ۔ جن کی زیادتی سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ یہ پراڈکٹ‌ زیادہ تر نائتروجن کے پراڈکتس ہوتے ہیں۔ جیسے یوریا، اور یورک ایسڈ۔ کیرئیٹائین فاسفیٹ، جو کہ عضلات کی ٹوٹ پھوٹ سے واقع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فاضل کاربوہائیڈریٹس، چکنائی کے لوازمات۔ گلائی کو سائیلیٹڈ پروٹین۔ البومین وغیرہ۔ ان میں‌سے کوئی بھی شے کسی بھی طور پر اکیلی یا ملا جلا کر انسانی جسم کے لئے اچھی نہیں۔ ایسا ایک گلاس بذات خود خود کشی اور طویل المعیاد بیماری کا شاخسانہ ہے۔

اس کے علاوہ بھک سے اڑ جانے والے مواد، سوڈیم ، پوٹاسیم، کلورائیڈ، میگنیسیم، کیلسیم، امونیم ، سلفیٹس، اور فاسفیٹ بظور عناصر پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی شے انسانی جسم کے لئے غذا کا کام نہیں کرتی۔

اونٹ کا پیشاب اور اس میں‌شامل کیمیکلز اور جراثیم اس قدر بھیانک ہوتے ہیں کہ مردار اونٹ کے سب سے پہلے گلنے اور سڑنے والے حصے اس کا بولی نظام ہوتا ہے۔ چونکہ اونٹ زیاد دن تک پانی کے بغیر رہ سکتا ہے۔ اس لئے اس کے پیشاب میں پانی کی کمی کے باّعث ، ان حرام، خبیث ، بھیانک اور زہریلے مادہ کی مقدار عام پیشاب سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔

جو لوگ یہ جانتے تھے کہ اونٹ‌کا پیشاب کس قدر زہریلا اور بھیانک ہے، ان لوگوں نے یہ روایت، رسول اللہ صلعم سے منسوب کی۔ تاکہ معصوم مسلمان اس کا شکار ہوں اور پھر ان کا مذاق اڑایا جائے۔ مسلمانوں میں وہ کم علم اور کم دماغ افراد ، جن کو فزکس اور کیمسٹری کے نام سے ہی نیند آنے لگتی ہے۔ ان لوگوں نے بجائے یہ جاننے کے اونٹ‌کا پیشاب ایک خبیث شے ہے ۔ اپنے تارک القرآن ہونے کے باعث ۔ اللہ تعالی کے فراہم کردہ بنیادی اصول چھوڑ دئے اور لگ گئے خود اونٹ کا پیشاب پینے میں اور اس کی تلقین کرنے میں۔۔

یہ ہے نمبر دو اسلام ۔ کہ جو کم علموں ، فزکس اور کیمسٹری جیسے اللہ کے فراہم کردہ علوم سے محروم لوگوں کو -- اونٹ‌کا پیشاب -- پینے، استعمال کرنے اور اس سے نہانے تک پر مجبور کردیتا ہے۔ یہ کم علم تارک القران ، مرتد، معصوم مسلمانوں کو ایسی خبیث اشیاء کے استعمال کا مشورہ دیتے رہتے ہیں

براہ مہربانی جب تک میں اپنی بات مکمل نہ کر لوں کوئی بھی بھائی اپنا مراسلہ نہ لگائے، شکریہ


(جاری ھے)
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521

السلام علیکم

جب تک اس اوریجنل دھاگہ میں نارمل گفتگو چل رہی تھی تب تک میں نے اس میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی مگر جب فاروق بھائی صاحب کے طرف سے سائنس کے حوالہ سے ایک چیلنج سامنے آیا تو میں نے اس دھاگہ میں حصہ لیا چیلنج کی نقل اوپر دھاگہ میں اٹیچ ھے، جب فاروق بھائی کو اس پر جواب پیش کیا تو وہ پھر پاکی اور پلیدی کی طرف لوٹ گئے اور اپنے ہی کیئے ہوئے سائنسی چیلنج کو اپنے ہی طریقہ سے سمجھنے سے قاصر ہو گئے۔

پھر اس کے بعد نوشاد احمد صاحب نے یہ ایک الگ دھاگہ تشکیل دیا جس میں حدیث مبارکہ کو اپنی عقلی دلیلوں سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی اور سارا زور پشاب کی پاکی اور پلیدی پر رکھا مگر مجھے اس میں علمی بات کوئی بھی نظر نہیں آئی ماسوائے رد حدیث کے۔ اور جس طرح حدیث مبارکہ پر اعتراض لگائے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ھے کہ حدیث مبارکہ کی پرکھ سے ناواقف ہیں۔

حدیث مبارکہ کی پرکھ سے میں بھی ناواقف ہوں کیونکہ اس کے لئے اس کی تعلیم کا حاصل کرنا بہت ضروری ھے بغیر اس کے کوئی بھی اپنی مرضی کر سکتا ھے مگر عبداللہ حیدر کی پوسٹ کی نقل اوپر درج ھے جس میں اس حدیث کو 13 محدثین سے روایت کیا گیا ھے اور عبداللہ حیدر کا سٹیٹس اس فارم میں کیا ھے اس پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا اس لئے اس حدیث سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور رہی بات نوشاد احمد صاحب کی انویسٹیگیشن کی کہ حدیث مبارکہ میں فلاں نے یہ کہا فلاں نے یہ کہا تو بھائی آپ کے پیش کئے ہوئے حوالوں میں سب نے یہ تو کہا ھے کہ "اونٹ کے دودھ اور پشاب کسی بیماری کے علاج کے لئے پینے کو کہا" یہ مین بات ھے۔ پھر محترم نوشاد نے پشاب کی پاکی پلیدی سے زور رکھا مگر اپنی طرف سے کوئی ٹھوس علمی دلیل نہیں پیش کر سکے تو میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان کے دھاگہ کو ڈسٹرب کروں بہتر ھے کہ میں اپنے اس دھاگہ کو مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔



--------------------------------------------
--------------------------------------------


بات اگر پاکی پلیدی کی ھے تو زمین پر جو اناج اگایا جاتا ھے اس کے لئے کھاد کا انتظام کیا جاتا ھے اور کھاد کیسے حاصل کی جاتی ھے وہ پورے شہر کی گندگی جس میں انسانی فضلات کیڑے مکوڑے وغیرہ وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں ان کو ڈیفرٹیلائز کر کے اس میں ہر قسم کی سبزی کے آرٹیفیشل کیمیکلی بیج سے اسے تیار کیا جاتا ھے اور اس کی بدبو بھی کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔

جب تک یہ گندگی بوریوں میں بند ھے یا اسے کہیں بھی کھلا رکھیں یہ حد درجے کی گندگی ہی رہے گی اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا،

جب اس گندگی نما کھاد کو فصل حاصل کرنے والی زمین میں بویا جاتا ھے جس سے زمین میں قدرتی معدنیات سے اس کی وائبریشن اور سرکولیشن ہوتی ھے جس سے وہ زمین جہاں یہ گندگی نما کھاد ڈالی گئی تھی اس سے مختلف قسم کی بیج کے حساب سے سبزیاں حاصل ہوتی ہیں۔ جس کو پورا شہر غذا کے طور پر استعمال کرتا ھے۔

حاصل نتیجہ یہ کہ جب تک یہ کھاد اکیلی تھی گندگی کا ڈھیر تھی حد درجہ کی پلیدی تھی مگر جب اسے زرعی زمین میں ڈالا گیا تو زمین کے اندر پائی جانے والی قدرتی معدنیات سے مل کر وائبریشن و سرکولیلیشن سے ہمیں سبزیاں حاصل ہوئیں۔ ایسی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں مگر علم والوں کے لئے ایک ہی کافی ھے۔


دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے ملنے سے جو کیمیکل ری ایکشن ہوتا ھے اس کے لئے میں ایک کلپ پیش کروں گا جس میں دودھ ، کچھ فوڈ کلر اور ڈش واشنگ لیکوئیڈ کا استعمال کیا گیا ھے کیمیکل ری ایکشن کیا اور کس طرح ہوتا ھے ایک عام آدمی کو بھی اسے دیکھ کر سمجھنے کے لئے اس سے آسان اور بہتر تجربہ اور کوئی نہیں۔



[video=youtube;pW-bn9zssak]http://www.youtube.com/watch?v=pW-bn9zssak&feature=player_embedded[/video]​



اکثر پاکستان میں لوگ گرمیوں میں دودھ سوڈا بنا کر پیتے ہیں، دودھ سوڈا بنانا بھی ایک فن ھے جو نہیں جانتے ان سے دودھ سوڈا کبھی نہیں بنتا بلکہ دودھ خراب ہو جاتا ھے۔

دودھ سوڈا بنانے کے لئے ہمیشہ دودھ میں سوڈا/سیون اپ یا کولا کی بوتل ڈالی جاتی ھے اس سے دودھ سوڈا بنتا ھے۔ جو نہیں جانتے وہ اس کلپ سے ایکسپیریمنٹ دیکھیں۔



[video=youtube;GgG4Q41QUUw]http://www.youtube.com/watch?v=GgG4Q41QUUw&feature=player_embedded[/video]​



دودھ سوڈا بنانے کے لئے اگر سوڈا/سیون اپ یا کولا میں دودھ ڈالیں گے تو دودھ خراب ہو جائے گا، اس کی وجہ یہ ھے کہ سوڈا و کولا کے اندر دودھ ڈالنے سے کولا کے سٹرونگ کیمیکل دودھ کے اندا پائے جانے والے کیمیکل کو جوں جوں دودھ ڈلتا جائے گا اسے ختم کرتے ہوئے دودھ کو زائل کرتے جائیں گے جس سے دودھ خراب ہوتا جائے گا۔ اس کلپ کی مدد سے اسے دیکھیں اور سمجھیں 1 منٹ 15 سیکنڈ سے لے کر 3 منٹ 10 سیکنڈ تک اس کلپ کو دیکھیں۔ کیمیکل ری ایکشن


[video=youtube;4R7C3Bz5JtA]http://www.youtube.com/watch?v=4R7C3Bz5JtA&feature=player_embedded[/video]​


فاروق بھائی نے اونٹ کے پیشاب پر زبانی کلامی زور آور ریٹنگ کوٹ کی تھی مگر میرے پاس اس کی جو تفصیل آ رہی ھے وہ میں یہاں کوٹ کر رہا ہوں تاکہ فاروق بھائی کے ساتھ دوسرں کو بھی سمجھنے میں آسانی ہو۔






13 محدثین نے اس حدیث مبارکہ کو پیش کیا ھے جس سے انکار کرنا میری نظر میں درست نہیں اگر کسی کی عقل وہاں تک نہ پہنچے تو وہ الگ بات ھے۔ اس سے اب بھی اسی بیماری کا علاج عرب ممالک میں کیا جاتا ھے۔ جیسا کہ عادل بھائی نے بتایا کہ 3 چمچ یورن کے دودھ میں ڈالے جاتے ہیں تو اگر 3 چائے کے چچ ہوں تو 15 ملی لٹر اور اگر ٹیبل سپون ہوں تو 45 ملی لٹر بنتے ہیں اور دودھ کو ایک لٹر رکھیں تو دودھ اور یورن کے کیمکل ری ایکشن سے جو محلول تیار ہوتا ھے اسی سے اس مہلک بیماری کا علاج موثر ھے۔


والسلام
 
Top